ہمارے گاؤں میں، سیمبل کا درخت صرف ایک درخت نہیں تھا؛ یہ ہمارے وجود کا دل تھا۔ اس کی جڑیں اتنی گہری تھیں جتنی ہماری تاریخ، اور اس کی شاخیں اتنی اونچی تھیں جتنی ہماری امیدیں۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں کہانیاں سنائی جاتی تھیں، وعدے کیے جاتے تھے، اور زندگی کے راز افشا ہوتے تھے۔
عائشہ، جس کی آنکھیں ستاروں کی طرح چمکتی تھیں، اکثر درخت کے نیچے بیٹھی رہتی تھی۔ وہ گاؤں کے بچوں کو کہانیاں سناتی، ان کے چھوٹے چہروں پر حیرت دیکھ کر خوش ہوتی۔ محمود، جو اپنے ہاتھوں سے مٹی کو سونا بنا سکتا تھا، درخت کے نیچے اپنی چوکی لگاتا اور اپنی حکمت سے گاؤں والوں کی رہنمائی کرتا۔ اور میں، جمال، ایک نوجوان جو ہمیشہ اپنے دل کی سنتا تھا، درخت کے سائے میں اپنے خواب بنتا تھا۔
ایک سال، شدید خشک سالی نے ہمارے گاؤں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ دریا سوکھ گئے، کھیت بنجر ہو گئے، اور سیمبل کا درخت، جو ہمیشہ ہرا بھرا رہتا تھا، مرجھانے لگا۔ گاؤں میں مایوسی پھیل گئی، اور لوگ اپنے پیاروں کے لیے پانی کی تلاش میں دور دراز علاقوں کی طرف ہجرت کرنے لگے۔
گاؤں کے بزرگوں نے درخت کے نیچے ایک اجلاس بلایا۔ ان کے چہرے پریشانی سے بھرے ہوئے تھے، اور ان کی آوازیں کمزور تھیں۔ "ہم نے سب کچھ کھو دیا ہے،" ایک بزرگ نے کہا۔ "درخت مر رہا ہے، اور ہمارے ساتھ ہماری امید بھی مر رہی ہے۔"
عائشہ، جو اب ایک نوجوان عورت تھی، آگے بڑھی۔ "ہمیں ہمت نہیں ہارنی چاہیے،" اس نے کہا۔ "سیمبل کا درخت ہمیں ہمیشہ راستہ دکھاتا رہا ہے۔ ہمیں اس کی جڑوں تک پہنچنا ہوگا، اور اسے دوبارہ زندہ کرنا ہوگا۔"
محمود نے سر ہلایا۔ "عائشہ ٹھیک کہتی ہے۔ درخت کی جڑیں گہری ہیں، اور شاید وہاں اب بھی پانی ہو۔ ہمیں اسے کھودنا ہوگا۔"
یہ ایک مشکل کام تھا۔ زمین پتھر جیسی سخت تھی، اور سورج بے رحمی سے چمک رہا تھا۔ لیکن گاؤں والے، عائشہ اور محمود کی قیادت میں، ایک ساتھ مل کر کام کرنے لگے۔ دن رات وہ کھودتے رہے، ان کے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے اور ان کے جسم تھکن سے چور ہو گئے۔ میں، جمال، ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھودتا رہا، یہ جانتے ہوئے کہ یہ صرف درخت کے لیے نہیں بلکہ ہمارے گاؤں کے مستقبل کے لیے بھی تھا۔
آخرکار، ایک ہفتے کی سخت محنت کے بعد، ان کے کدالوں نے نرم، نم مٹی کو چھوا۔ اور پھر، پانی کا ایک چھوٹا سا چشمہ پھوٹ پڑا۔ گاؤں والے خوشی سے چیخ اٹھے، اور انہوں نے پانی کو سیمبل کے درخت کی جڑوں کی طرف موڑ دیا۔
آہستہ آہستہ، درخت میں زندگی واپس آنے لگی۔ اس کی مرجھائی ہوئی شاخوں پر نئی پتیاں پھوٹنے لگیں، اور اس کے تنے میں دوبارہ سبزہ چھا گیا۔ گاؤں میں بھی امید کی کرن جاگ اٹھی۔ جو لوگ ہجرت کر گئے تھے وہ واپس آنے لگے، اور کھیتوں میں دوبارہ فصلیں اگنے لگیں۔
سیمبل کا درخت ایک بار پھر ہمارے گاؤں کے دل میں کھڑا تھا، پہلے سے زیادہ مضبوط اور زیادہ شاندار۔ یہ صرف ایک درخت نہیں تھا؛ یہ ہماری لچک، ہماری امید، اور ہمارے اتحاد کی علامت تھا۔
Post a Comment for " جہاں سیمبل کا درخت اگتا ہے"