Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

"روشنی کے پار"


اسٹریٹ لائٹس کی روشنی میں وہ کتاب پر جھکی تھی۔۔۔۔ ہوا میں کچے چکوترے کی خوشبو پوری گلی میں بکھری ہوئی تھی۔۔۔۔ روشنی کی خواہش میں خاکستری پتنگے قریب آتے اور پھر وہیں جل بھن کر رہ جاتے تھے۔

ایک ایسا ہی جلتا بھنتا پتنگا "میری محبت کی کہانی" پر گرا تھا۔۔۔۔ وہ گڑبڑا گئی تھی۔۔۔۔ اف۔۔۔۔اسے بھی ابھی مرنا تھا؟ ایک تو یہ کتاب اتنی خستہ حال ہے اوپر سے پتنگے بھی قتل ہو ہو کر اس میں دفن ہونے کے متمنی نظر آنے لگے۔ وہ کمینہ اذفر تو مجھے کچا سالم نگل جائے گا۔"

اب وہ کھڑی ہو کر اپنا سرمئی رنگ کا فراک جھاڑ رہی تھی۔۔۔۔ وہ خراماں خراماں چلتی اس گیٹ تک آئی اور بیل لگاتار بجائی۔۔۔۔ کھٹاک سے دروازہ کھلا اور ایک چہرہ نمودار ہوا۔۔۔۔

"لڑکی! تمہیں چین کیوں نہیں پڑتا؟ بلاوجہ مجھ سے فری ہونے کی کوشش کرتی رہتی ہو۔۔۔۔۔"

اور مایا صاحبہ کا فشارِ خون تیزی سے بلند ہوا تھا۔

"تم نے ایک بار کافی بنا کر مجھ پر بہت احسان کیا تھا۔۔۔۔ خدا وہ وقت جلد قریب لائے جب میں تمہارا احسان چکا دوں۔"

وہ ہنسا تھا۔۔۔۔ سنہرے جگنوؤں نے رفتار دھیمی کرلی تھی۔۔۔۔ ہنسی میں سات سروں کے سر گم تھے -

"میں تمہارا عشق ہوں
میں تمہارا چاند
میں تمہارا پرندہ
میں تمہارا ساتھی۔۔۔"

وہ اس بے ڈھنگی آواز پر واپس پلٹی تھی۔

"بیانِ حلفی کب لکھ کر دے رہے ہو؟" سرمئی فراک ہوا سے اڑ کر پھولا پھولا سا نظر آنے لگا تھا۔۔۔۔۔ سنہری جگنوؤں سی آنکھوں والا وہ شخص ٹھٹکا پھر چونکا۔

"کیسا بیانِ حلفی؟" وہ اس کے ماتھے پر سیدھی پڑتی روشنی میں نمودار ہوتے بل گن رہی تھی۔

"یہی کہ اگر اذفر ملک کو مایا کے ہاتھوں ہوتا قتل دیکھا بھی گیا تو اس پر کوئی بھی فرد جرم لاگو نہیں ہو گا۔۔۔۔"

اذفر ملک گیٹ کے ساتھ والی دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا تھا۔
"اتنی نفرت کرتی ہو مجھ سے کہ قتل جیسے خوفناک اقدام پر غور و فکر کر رہی ہو؟"

مایا وہیں ساکت ہوئی تھی۔۔۔۔
"لفظ 'نفرت' کہنے میں تم نے ایک لمحہ لگایا۔۔۔۔ اور لفظ 'محبت' کتنے وقت میں دہراؤ گے؟"
اس نے افسوس سے سر جھٹکا تھا۔ سنہری آنکھوں میں سب کچھ تھا، سوائے لفظ محبت کے۔

دیکھو عالیہ! میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ میں ان چکروں میں پڑنے والا نہیں۔۔۔۔ میں وہ پنچھی ہوں جو محبت کا دانہ چگے گا تو اس کے لیے زہر بن جائے گا۔"

وہ کتاب سینے سے لگائے ہوئے اس کے قریب آئی تھی۔۔۔۔ "محبتوں کی صداقت کے قصے تو ضرور سنے ہوں گے۔۔۔۔ نہیں ملو گے تو دعا سے مانگ لوں گی۔ خدا مجھے مایوس نہیں کرے گا۔"

صبح زرد زرد سی طلوع ہوئی تھی۔ وہ گرجا میں بیٹھی مقدس مریم کی تصویر سے راز و نیاز کر رہی تھی۔۔۔۔ دور کہیں فٹ پاتھ کے قریب ایک باغ میں کوئی نوآموز لڑکا گٹار بجانے کی مشق کر رہا تھا۔ مگر سُر تھے کہ مل ہی نہیں رہے تھے۔

اس اندھے لڑکے میں اور عالیہ میں ایک چیز مشترک تھی — دونوں ضدی تھے۔ نہ وہ گٹار بجانے سے دستبردار ہو سکتا تھا، نہ ہی عالیہ دعائیں کرنا چھوڑ سکتی تھی۔

موم بتی کی مہک سارے گرجا میں پھیل کر گنبد میں گم ہو رہی تھی۔۔۔۔

"مقدس مریم! یہ میری آپ کے پاس آخری حاضری ہے۔۔۔۔ آپ کی دعا سے ہزاروں کو 'محبت' مل جاتی ہے۔ ایک سال دو مہینوں سے دعا کر رہی ہوں۔ میرے آنسوؤں سے موم بجھ جاتی ہے مگر وہ فیضان ملک مٹی کا مادھو پگھلتا ہی نہیں ہے۔۔۔ اور وہ کمینہ جواد میری محبت پر آوازیں کستا ہے کہ میری محبت میں 'طاقت' نہیں۔۔۔۔ اور میری محبت میں 'اثر' نہیں۔۔۔۔ سو کمینے مرے ہوں گے تب وہ پیدا ہوا ہو گا۔۔۔ مجھے پتا ہے چرچ میں ایسی باتیں کرنا زیب نہیں دیتا مگر جلے دل کے پھپھولے کہاں پھوڑے جائیں آخر؟"

دو زانو بیٹھی وہ قطرہ قطرہ پگھلتی موم پر نظر جماۓ بیٹھی تھی۔۔۔۔ دور سے گٹار کی آواز مدھم ضرور ہوئی تھی مگر مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی تھی۔

"محبتوں کے سفر ہمیشہ ہی طویل ہوتے ہیں مگر اب میں تھکنے لگی ہوں۔۔۔ وہ سنہری آنکھوں والا مرد میری 'زندگی' بن گیا ہے۔ ساری زندگی دوسروں کی محبتوں پر ببانگ دہل قہقہے لگانے والی آج چپ ہے۔ محبت میں چپ معمولی ہوتی ہے اور دعا 'سانس' ہوتی ہے۔

مجھے محبت محبوب کی چوکھٹ کے سامنے رسوا کراتی ہے۔ محبت میں رسوائی کیوں ہوتی ہے؟"

عالیہ کی آواز میں مرگھٹ کے پار رہنے والی کسی گلوکارہ جیسی اداسی تھی۔۔۔۔ جیسے کوئی خضریٰ جو روز ریت کے ٹیلے پر "محبوب، محبوب" کی صدائیں لگاتی رہی ہو۔ محبوب نہ آیا ہو مگر موت آ گئی ہو۔۔۔ موت سے تو میں نہیں ڈرتی۔۔۔ مگر پھر بھی کبھی تو ایسا ہو کہ فیضان ملک کی آنکھوں میں محبت چھلکتی ہوئی نظر آئے۔۔۔ میں بھی تو دیکھوں، محبت جب آنکھوں میں آن بسے تو آنکھوں کا رنگ کیسا ہوتا ہوگا۔۔۔ ان سنہری آنکھوں میں محبت کیسی ہو گی؟"

مٹیالی ہوا کے زبردست جھونکے سے موم کا شعلہ دم توڑ گیا، مگر اس کا کثیف سا دھواں گرجا کی عمارت میں چکراتا رہا۔۔۔۔ حیرت در حیرت۔۔۔۔ دائرہ در دائرہ۔۔۔۔

زندگی میں کچھ چیزیں "قابلِ برداشت" اور "ناقابلِ برداشت" کے درمیان پنڈولم کی طرح جھولتی رہتی ہیں۔

اور جب بھی عالیہ کا سامنا جواد سے ہوتا تھا، یہی کیفیت پھر لوٹ آتی تھی۔۔۔۔ وہ لمبے سروقد درختوں کے درمیان والے راستے سے گرجا سے ہو کر گھر کی طرف خراماں خراماں چلتی جا رہی تھی۔۔۔۔ جواد بھی دبے پاؤں ساتھ چلنے لگا۔

"ہزار بار کہا ہے کہ اپنا پرفیوم تبدیل کرو، مجھے الجھن ہوتی ہے۔" وہ ہنسنے لگا تھا۔ ننھی چڑیوں کا غول پھر سے ان کے سروں پر سے اڑتا ہوا آسمان کی وسعتوں میں گم ہوتا گیا۔

"کیا تم میرا پیچھا کر رہے تھے؟" تیکھی نظروں سے سالم نگلنے کی سعی کی گئی، مگر جواد اتنے ہلکے وجود کا نہیں تھا۔۔۔ وہ آہستہ آہستہ چلتے جا رہے تھے۔ خشک پتوں کی چرچراہٹ ان کے قدموں تلے آ کر مردہ راگ کی طرح ابھرنے لگی۔۔۔ ہلکا آہستہ سا۔۔۔۔

"شاید تم نے دیکھا نہیں جب تم مقدس مریم سے راز و نیاز میں مصروف تھیں تو میں تمہارے عقب میں ہی بیٹھا تھا۔۔۔ اور رہی بات پرفیوم کی تو جلد ہی تمہیں گولڈن روز کی خوشبو میں بسا نظر آؤں گا۔" وہ چلتے چلتے ٹھٹک گئی تھی۔

"اس کا مطلب مریم کل تمہارے لیے پرفیوم پیک کروا رہی تھی؟"

عالیہ کو لگا تھا وہ بوکھلائے گا، اس کی بات کی تردید کرے گا، مگر وہ اس کے برعکس ڈھٹائی سے ہنسنے لگا تھا۔

"ہاں تو۔۔۔ محبت کرتی ہے وہ مجھ سے۔۔۔" عالیہ حیران ہوئی تھی۔۔۔ سورج کی ترچھی کرنیں چھن چھن کر کول تار پر پڑنے لگی تھیں۔۔۔ سیاہ رنگ میں زرد رنگ جذب ہونے لگا تھا۔

"تم محبت کے نام پر چیٹ کر رہے ہو۔۔۔ وہ دن رات کا آرام بھلائے دو وقت کی نوکری کرتی ہے۔۔۔ اپنی فیملی کی واحد کفیل ہے۔ اس نے ہمیشہ اپنے سے زیادہ دوسروں کا سوچا ہے۔۔۔ کبھی تم نے دیکھا ہے اس کی آنکھوں کے گرد کتنی تھکن اور اداسی ہے؟ اس کی تاریک زندگی کے تاریک راستوں پر تم واحد روشنی ہو۔۔۔ جب کبھی اسے پتا چلا کہ وہ محبت کے نام پر دھوکہ کھا رہی ہے تو وہ مرگھٹ کے پار کی خضریٰ کی طرح مر جائے گی۔"

وہ رک گئے تھے۔۔۔ عالیہ ہاتھ باندھے کھڑی تھی۔۔۔ ہوا سے اس کے بھورے بال مکئی کے سٹے کی چھال کی طرح اڑنے لگے تھے۔۔۔۔

"مگر عالیہ۔۔۔ میں اب اس کے قدموں میں تو بیٹھنے سے رہا۔۔۔ میں نے اس سے نہیں کہا تھا کہ مجھ سے محبت کرے۔۔۔"

عالیہ نے اس کی آواز میں تاسف تلاش کرنے کی کوشش کی تھی۔۔۔ مگر وہاں صرف اور صرف پروائی تھی۔۔۔ عالیہ کو اس گندمی رنگت والی لڑکی پر شاید ترس آیا تھا۔ ہوا میں ابابیلوں کی سی روانی تھی۔۔۔ چھدرے پتے ہل ہل کر جھوم جاتے تھے۔۔۔ جواد بڑے آرام سے اسپورٹس شوز سے زہریلے کیڑے کو کچل رہا تھا۔۔۔ ایک پل کو لگا وہاں "محبت" تھی جو مرتی جا رہی تھی۔۔۔ ختم ہو رہی تھی۔۔۔ خاموشی ہولے سے وہاں آئی اور سرکنڈوں کے جھنڈ میں سر چھپانے لگی تھی۔

عالیہ نے گہری سانس لے کر کہا تھا:

"تمہیں ایک بات بتاؤں؟ مریم اور میری دوستی اس وقت سے ہے جب ہم پہلی بار اسکول گئے تھے۔۔۔ وہ بہت ملنسار اور عاجزی پسند تھی۔۔۔ اسٹار شائن اسکول کے احاطے میں لگے درختوں کو اسی نے پانی دے دے کر بڑا کیا تھا۔۔۔ میں نے اکثر اسے کلاس روم کی ڈسٹ بن میں ریپر ڈالتے دیکھا تھا۔۔۔ تب میں اس پر بہت ہنستی تھی۔۔۔ پھر پتہ ہے جب میں نے اس سے اس موضوع پر بات کی تو اس نے کیا جواب دیا تھا؟"

وہ چپ چاپ اس کی باتیں غور سے سنتا چلا جا رہا تھا۔۔۔ عالیہ نے پلٹ کر دوبارہ تاسف نامی چیز ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی تھی۔

"اس نے کہا تھا وہ پھول، پودوں کی دوست ہے۔۔۔ انسانوں کو دکھ بانٹنے کے لیے انسان مل جاتے ہیں مگر ان کا کوئی دوست نہیں ہوتا۔۔۔ جب انسان چھوڑ جاتے ہیں ناں تو یہ سہارا دیتے ہیں۔۔۔ میں سہارے اکٹھے کر رہی ہوں۔"

عالیہ کی آواز پر خاموشی نے سر اٹھایا تھا مگر دوبارہ چھپ گئی۔

"اس نے ہمیشہ دوسروں کی غلطیوں پر پردہ ڈالا ہے۔۔۔ قربان ہونے کی صلاحیت اس کی گھٹی میں ہے شاید۔۔۔ اس نے ہمیشہ خود کو بہادر کہا ہے، مگر میں جانتی ہوں کہ اس نے رات کے پچھلے پہر مسجد کی سیڑھیوں پر روتے ہوئے گزارے ہیں۔۔۔ انمول لوگ کبھی کبھی ملتے ہیں۔۔۔ آگے تمہاری مرضی، جو چاہے کرو۔۔۔ مگر ہمیشہ یاد رکھنا: محبت میں تجارت نہیں کی جاتی۔"

موروں نے اڑنے کی جسارت کی تھی مگر ان کے پنکھ ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگے تھے۔ فائق کو لگا وہ مرینہ کو کبھی دکھ نہیں دے پائے گا۔۔۔ یہ انصاف نہیں کہ انسانیت پسند لوگوں کی راہوں میں کیل گاڑ دیے جائیں۔

کونجوں کے ٹولے نے محفل خضریٰ کی طرف نگاہ کی تھی۔۔۔ اور کشادہ دلی کے ساتھ پنکھ چوڑے کر دیے۔

آئیے ہم بھی محفلِ خضریٰ میں قدم رکھتے ہیں۔۔۔ محبت کی کہانیوں کی اولین شرط "احترام" ہے۔

مرگھٹ کے پار کی وادی آبِ زُلال کی باسی خضریٰ تھی۔۔۔ جو کہ شکل و صورت میں سیاہی کا نقاب تھی۔۔۔ وہ ہر طاق رات کی شام آب زُلال کے شیریں کنویں کے پاس گیت گاتی تھی۔۔۔ اس کے گیتوں کی مدح سرائی میں کوئلیں اور ابابیل مشغول رہتیں۔۔۔ سات خوشبوؤں کی رات سبت کیل میں آب زُلال کے کنویں پر محبوب نے قدم رکھا۔۔۔ خضریٰ نے محبوب کی طرف نگاہ کی تھی اور اب زدہ کی سی محبت اس کے وجود میں داخل ہوئی تھی۔۔۔ محبوب کی رباعی گاتی خضریٰ پر محبوب نے اچٹتی نظر ڈالی اور گھوڑے کی باگ تھامے، سفرِ زندگی میں قدم رکھتا چل دیا۔

ہر شام، شامِ انتظار کی مانند گزرتی رہی۔۔۔ مگر مسافر راستے بھول جاتے ہیں۔۔۔ کونجوں نے پیغامِ محبت کی اڑان بھری، مگر لاحاصل۔۔۔ خضریٰ مرگھٹ کی پہاڑی چوٹی پر گیت گاتے گاتے مر گئی۔۔۔ امید ہی زندہ نہ بچی۔۔۔ دیکھنے والوں نے کہا تھا کہ اس کی آنکھوں میں سبت لیل کے قصے کی اداسیاں تیر رہی تھیں۔۔۔ لمحہ بھر آنکھیں کھلیں اور پھر گردن سمتِ مشرق ڈھلکتی چلی گئی جہاں کوئی باگ تھامے گیا تھا۔

محبت کے قصے کی داستان پھر کبھی سہی۔۔۔ فی الحال قصۂ حال کی طرف آئیے۔

یہ نومبر کی سرد سرد شام تھی۔۔۔ وہی روز کے معمول کا سا ماحول تھا۔۔۔ آج عالیہ، فائق سے نئی کتاب لے آئی تھی۔۔۔ مگر جانے کیوں آج پتنگوں نے سنہری روشنیوں پر فریفتہ ہونے کی کوشش ترک کر دی تھی۔

شام میں گرمی کا زوال اور خنکی کا عروج صاف نظر آتا تھا۔۔۔ مرزا ملک نے روشنی کا نارنجی حصار توڑا تو کتاب کے اوراق پر ایک سایہ پڑ گیا۔۔۔ سنگی بینچ پر وہ بیٹھ گیا تھا۔۔۔ اپنا کافی کا کپ وہ ہاتھ میں تھامے چسکیاں لے رہا تھا۔۔۔ دوسرا کپ بینچ پر بچی ہوئی جگہ پر رکھ دیا تھا۔۔۔ جو شاید نہیں، یقینا عالیہ کے لیے تھا۔

"کون سی کتاب پڑھ رہی ہو؟" مدھم سا سوال سناٹے کی چادر چاک کر گیا تھا۔
"Moon is Mine" پڑھ رہی ہوں۔۔۔ تم یہاں آج راستہ بھول کر آئے ہو؟"

سوال پر سوال ڈال دیا گیا تھا۔۔۔ اب وہ کتاب بند کر کے کافی کا کپ اٹھا رہی تھی۔

"میں دانستہ طور پر آیا ہوں۔۔۔ اور صاف صاف کہانی واضح کرنے آیا ہوں۔" عالیہ نے گہرا گھونٹ لیا تھا۔

ہلکا دھواں بھاپ کی صورت کپ سے اٹھ کر اطراف میں پھیلنے لگا۔ مطلب آج سارا قصہ تمام ہونے کو تھا۔

"کہانی کہہ کر میرے جذبے کی بے توقیری نہ کرو۔ کہانیاں اکثر جھوٹی ہوتی ہیں۔۔۔ محبت حقیقت ہے۔" فائق پیٹھ موڑے بیٹھا تھا۔۔۔ بنچ کے سامنے فرش کے قطعے پر اس کا سایہ پڑنے لگا تھا۔

"عالیہ۔۔۔ محبت کرنا آسان ہے، مگر اسے نبھانا بہت مشکل ہے۔ کبھی اس طرح نہیں ہوتا کہ محبت کی اور خوشی خوشی رہنے لگے۔۔۔ میں پاکستان کے پسماندہ علاقے کا لڑکا ہوں۔۔۔ جس پر پورے گھر کی ذمہ داریوں کا بوجھ ہو، وہ محبت افورڈ نہیں کر سکتا۔۔۔ سب سے بڑی بات — ہمارے بیچ مذہب کی دیوار ہے۔۔۔ پاکستان میں وقت بدلا ہے، مگر سوچ ابھی تک کائی زدہ پانی کی طرح ٹھہری ہوئی ہے۔ میرا مذہب اجازت دیتا ہے، مگر روایات نہیں دیتیں۔۔۔ کبھی بھی نہیں۔"

وہ وضاحت دے رہا تھا۔۔۔ عالیہ کی کپ پر گرفت سخت ہوئی تھی۔۔۔ اک پل کو لگا کپ ٹوٹ گیا ہے۔۔۔ مگر نہیں۔

"تو کیا میں سمجھ لوں کہ تمہیں روایات نے زنجیر کر لیا ہے۔۔۔؟ رہی بات مذہب کی تو میں بھی رفتہ رفتہ اس حقیقت کو قبول کر لوں گی۔۔۔ انجیلِ مقدس اسلام کی پیش گوئی کرتی ہے۔۔۔ میرے ابو مسلم تھے، پرورش امی نے کی تو عیسائیت کی تعلیم ملی۔۔۔ بہرحال اگر بات سب کچھ کہنے کی ہے تو میں اتنا کہوں گی کہ میں تا عمر تمہارا انتظار کر سکتی ہوں۔"

عالیہ کی بات پر آشیانے کی طرف پلٹتی کوئل ٹھٹکی تھی۔ خضریٰ کا قصہ پھر سے جنم لینے کو تھا۔۔۔ لیکن محبتوں کے انتظار کی روایت تو بہت پرانی ہے۔۔۔ ہر بار موت مقدر میں نہیں ہوتی، بلکہ کبھی کبھی امید، دعا اور سچی آس کی مثلث — موت کو بھی ہرا دیتی ہے۔۔۔ اور عالیہ مثلث کے تینوں کونے تھامے کھڑی تھی۔۔۔ وہ دور چمکتی ست رنگی روشنیوں کو دیکھتا ہو چپ کی چادر اوڑھے بیٹھا تھا۔۔۔ مگر چپ توڑنا ضروری تھا۔

"عالیہ! میرے پاس تمہیں دینے کے لیے پُر آسائش زندگی نہیں ہے۔۔۔ میرے گھر والوں کو فی الحال میری ضرورت ہے۔۔۔ تم بہت اچھی لڑکی ہو، تمہیں ہزار چاہنے والے مل جائیں گے۔"

عالیہ نے بغور ان سنہری آنکھوں میں جھانکا تھا۔۔۔ وہ اسے سمجھا رہا تھا یا خود کو، یہ جاننا مشکل تھا۔ شرمیلی ہوا نے بےباکی کی رِدا اوڑھی اور سارے میں مٹر گشت کرنے لگی۔۔۔ روشنیاں اب بھی جل رہی تھیں۔

"جانتی ہوں کہ زندگی کا سفر گزر جائے گا۔۔۔ ہزاروں ملیں گے، ان میں فائق نہیں ہوگا۔۔۔ سمجھوتا کرنے کی کوشش بھی کرلوں تو شاید وہ یادیں کبھی نہ بھول سکوں گی کہ راتوں کے کئی تاریک پہر کتاب پڑھنے کے بہانے میں نے تمہاری چوکھٹ پر گزارے ہیں۔۔۔ کب سے دعا کر رہی ہوں وقت سب کچھ بھلا دیتا ہے — میں تمہارا 'درد' بھول ہی نہ سکی۔۔۔"

اداس کونج نے جھکا سر اٹھایا تھا۔ کتنے خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جنہیں دعاؤں میں مانگا جاتا ہے۔۔۔ اور بلاشبہ فائق خوش قسمت تھا۔

پربتوں کے پار ایک شہرِ طلسم کے دروازے کھول دیے گئے تھے۔۔۔ ایک قوسِ قزح رنگی جذبہ جو مدتِ طویل سے قید میں تھا، اسے اذنِ آزادی دیا گیا۔۔۔ وہ جذبہ اس ویران گلی کے اوپر ٹھہرے آسمان پر کسی تارے کی مانند ٹوٹا اور افشاں گراتا ہوا فائق کو رنگین کر گیا۔

دور سے سیٹیوں کی آواز گونجی۔۔۔ اور ڈھیروں سنہری پتنگے فائق اور عالیہ کے گرد چکرانے لگے۔

فٹ پاتھ کے پار اس پارک میں اندھے لڑکے نے گٹار بڑی مہارت سے بجایا تھا۔۔۔ اور سحر طاری کر دینے والے میوزک کی آواز سمے کو باندھنے لگی۔۔۔ سنہری آنکھوں والا مرد ہلکے سروں میں ہنسا تھا۔

"عالیہ۔۔۔ اگر ایسا ہونا ہے تو ایسا ہی سہی۔۔۔ زندگی میں خوش قسمتی ایک بار بڑی چاہ اور دل سے دستک دینے آتی ہے۔۔۔ تم میرے لیے ویسی ہی ہو۔۔۔ میرے دل کے دروازے کھل چکے ہیں۔"

عالیہ کی آنکھوں میں ست رنگی نور جگمگایا تھا۔

اِرد گرد کی فضا میں نارنجی انار چھوٹنے کے بعد کا سماں بکھرنے لگا۔

"مگر عالیہ، میری ذمہ داریاں بہت بڑی ہیں۔۔۔ تمہیں کچھ وقت انتظار کرنا ہوگا۔۔۔ کر لو گی ناں؟" فائق نے محجوب ہو کر سوال کیا اور عالیہ نے سر اثبات میں ہلا دیا۔

"اب تک انتظار ہی کرتی آئی ہوں۔۔۔ کسی نئے برس کی پہلی شام یہیں، اس بنچ پر ہم دونوں اکٹھے ہوں گے۔۔۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی کافی تم بنانا۔۔۔" وہ ہنس رہی تھی، اور فائق ہنستے ہنستے آنکھوں میں پانی لے آیا — کتنا دلفریب نظارہ ہوتا ہے۔ اندھا لڑکا ارد گرد سے بے نیاز گنگنا رہا تھا۔۔۔ اور سنہری شام قطرہ قطرہ پگھل رہی تھی۔

نئے سال کی سنہری، سرد سرد شام نے اس لمبی گلی میں قدم رکھا تھا۔ سارا ماحول دودھیا دھند کی لپیٹ میں تھا۔۔۔ دور تک گلی میں پھیلی دھند میں اسٹریٹ لیمپس کی روشنی نے زردی بھر دی تھی۔۔۔ سنہری پتنگے جو پہلے روشنیوں سے چمٹے نظر آتے تھے، اب جانے کہاں، درختوں کی چوٹیوں پر روپوشی اختیار کیے ہوئے تھے۔

سنگی بنچ پر دو وجود — شال اوڑھے، کافی کے فل سائز مگ تھامے بیٹھے تھے۔۔۔ پہلی بار سرد ہوا نے اپنی روش بدلی تھی۔ عالیہ کافی کا ایک گھونٹ بھرتی ہے اور پھر کپ فائق کی طرف بڑھا دیتی ہے۔۔۔ پچھلے آدھے گھنٹے سے یہ عمل جاری ہے۔

"اگر تم یہاں آتے اور مجھے نہ ملتیں، تو تم کیا کرتے؟" عالیہ نے سوال کیا۔

فائق نے دھیرے سے جواب دیا:
"میں نے اپنی زندگی کی ساری ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھایا ہے۔۔۔ میرے دل میں یہ احساس تھا کہ دور سرحد پار، میرا کوئی منتظر ہو گا۔ ہر آنے والے دن میں، میں نے خدا کا شکر ادا کیا ہے کہ اس نے میرے جینے کی ایک وجہ رکھی ہے۔۔۔ میں نے اس خیال کو دل میں جگہ ہی نہیں دی کہ تم مجھے انتظار کرتی ہوئی نہ ملو گی۔۔۔ جب جذبوں میں سچائی ہو تو وہ جذبے رد نہیں کیے جاتے۔"

بنچ کے پاس ایک سفری بیگ پڑا تھا۔۔۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ مسافر سیدھا یہاں آیا تھا۔

لڑکی سنہری آنکھوں والے شخص کی طرف دیکھ کر دھیمے سے مسکراتی ہے اور مگ سے ایک گھونٹ بھرتی ہے۔۔۔۔ آسمان پر تارے موجود تھے۔۔۔۔ لڑکی نے تاروں کی طرف نگاہ کی تھی۔

"ہم ساری زندگی کہتے رہتے ہیں کہ وقت گزر گیا، مگر ہمیں پتا ہی نہیں ہوتا کہ ہم غلط ہوتے ہیں، شاید وقت ٹھہرا رہتا ہے، ہم گزر جاتے ہیں۔۔۔۔ میں نے اس عرصے میں اصل 'خدا' کو بھی تلاش کر لیا ہے۔ شاید کبھی تمہارے دل میں یہ خیال آئے کہ میں نے تمہاری وجہ سے اسلام قبول کیا، تو پہلے بتا دوں تمہیں۔۔۔ میں نے اپنے دل سے راہِ ہدایت پر قدم رکھا ہے۔"

عالیہ کے چہرے پر نورِ ہدایت کا چراغ جھلملا رہا تھا — جو روشنی کے ساتھ ساتھ خوشبو بھی دے رہا تھا۔

اب کافی کا مگ فائق کے ہاتھوں میں تھا۔ وہ ہلکے ہلکے گھونٹ لیتے ہوئے کہہ رہا تھا:

"میں تمہیں ٹھکرا دیتا تو شاید زندگی کی سب سے بڑی غلطی کر بیٹھتا۔۔۔ میں اب خدا کا شکر گزار ہوں۔ کل صبح ہی ہمارا نکاح ہو گا، اور پھر تمہارے ویزا لگنے کی دیر ہے۔۔۔ ہم پاکستان چلے جائیں گے۔۔۔۔ وہاں تمہارا شایانِ شان استقبال ہو گا۔ گھر والوں نے تمہارے لیے بہت کچھ بھیجا ہے۔"

کافی کا مگ ختم ہو گیا تھا — اور ان دونوں کے قریب تیسرے فریق کی حیثیت سے پڑا تھا۔۔۔ وہ دونوں آج رات بس باتیں ہی کرنے والے تھے۔ بھلا محبتوں کے انتظار کی طویل کہانیاں لمحوں میں کہاں سمٹ سکتی ہیں۔۔۔؟

رات کے پردے پر تاروں نے روشنی میں اضافہ کر دیا تھا، اور پربتوں کے پار ٹھہری اداسی نے زقند بھری اور لمحۂ موجود میں محبت کے ملن پر کونجوں کے ساتھ دھمال ڈالنے لگی۔

رات قطرہ قطرہ بھیگ رہی تھی۔ ایک نئی امید کے ساتھ ایک نیا دن طلوع ہونے کو تھا۔

پارک میں ننھی ننھی روشنیاں جگنوؤں کی طرح جل رہی تھیں۔۔۔ گندمی رنگت والی لڑکی نمرہ، جویریہ کے ساتھ واکنگ ٹریک پر خراماں خراماں چل رہی تھی۔ جویریہ ہوا کے سُروں کے ساتھ مدھم آواز میں بولتی چل رہی تھی:

"بہت ساری چیزوں کی طرح محبت بھی کبھی دوسروں کے سمجھانے پر آشکار ہوتی ہے۔۔۔ اگر کچھ عرصہ پہلے عالیہ مجھے احساس نہ دلاتی، تو آج ہم اکٹھے نہ ہوتے۔۔۔ خدا اسے اور فائق کو ہمیشہ خوش رکھے۔"

اس کی دعا کسی ست رنگی گلال کی طرح آسمان کی طرف اڑتی چلی گئی۔

نمرہ نے اس کا ہاتھ تھاما تھا۔ اس کی گندمی رنگت بیک گراؤنڈ روشنیوں میں کسی ہیرے کی طرح دمک رہی تھی۔

"میں نے ہمیشہ اپنے آپ کو پسِ پشت ڈال کر دوسروں کا سوچا ہے۔۔۔ مگر میں غلط تھی۔۔۔ اصل سہارا تو خدا ہوتا ہے، لوگ تو وسیلے بنتے ہیں۔ میں دوسروں کے لیے وسیلہ تھی، اصل ذات تو وہی ہے۔"

وہ دونوں ہنستے ہوئے آئسکریم بار کی طرف جا رہے تھے۔

چاند کی زرد روشنی میں وہ سونے کے پانی سے نہائے مجسموں کی طرح واکنگ ٹریک پر چلتے جا رہے تھے۔

"محبت مل جانے کے بعد پلٹ کر نہیں دیکھا جاتا۔ بس حال میں جیا جاتا ہے۔ محبت نہ ملے تو مصلحت ہوتی ہے۔۔۔ خضریٰ، جو پربتوں کی باسی تھی، محبوب کی چاہ میں حالتِ انتظار میں جاں سے گزر گئی۔۔۔ مگر کچھ خوش قسمت لوگوں کو محبت خود چن لیتی ہے۔۔۔ اس کی وجہ ان محبت زدہ دلوں کی نیکیاں، دعائیں اور عبادتیں ہوتی ہیں۔"

نئے برس کی آہٹ پر بیت جانے والے لمحوں کی چاپ دم توڑتی ہے اور نیا برس روشن دن کی طرح طلوع ہوتا ہے۔

"زندگی کی حقیقت، خوش رکھنے اور خوش رہنے میں ہے۔۔۔"


Post a Comment for ""روشنی کے پار""