برکھا رات آج جم کر برسنے کا تہیہ کیے بیٹھی تھی، روٹھا ساون آج ناراضگی بھلائے مینہ برسانے پر آمادہ تھا۔ کالی گھنگور گھٹائیں نیلے آسمان پر بانہوں میں بانہیں ڈالے محو رقص تھیں اور ان کے مخمور ہو کر جھومنے سے ساون برستا تھا اور کیا خوب جم کر برستا تھا۔
اور یہ برستی ساون رت دل لبھائے دیتی ہے، بے قرار کیے دیتی یوں کہ ایک پُرسرور، پُر کیف سی کیفیت کا ادراک ہوتا جن دلوں میں محبت کے بیج کھل کر لالہ زار ہو چکے تھے، رم جھم برستی بارش ان کے محبت کے گلشن میں آبیاری کیے دے رہی تھی۔ اور کچھ دل ایسے بھی تھے جن کے زخموں کو اس ساون نے ادھیڑ کر رکھ دیا تھا، رم جھم برستی پھوار ان کے زخموں پر شعلوں کے مانند دہک رہی تھی۔ دل اداس بن کر روپ دھارے ہوا تھا جہاں کوکتی کوئل اداسی سے جدائی کے نغمے گا رہی تھی۔
"مجھے یقین نہیں آ رہا کہ وہ واپس آ چکا ہے تمہارے پاس۔" نیلے لباس میں ملبوس لڑکی تربوزی رنگ کی گھیر دار فراک میں ملبوس لڑکی سے بنا دیکھے مخاطب ہوئی۔ اس کے لہجے میں جوش جھلک رہا تھا اور نگاہیں سامنے گلاس وال کے اس پار سے جھانکتے لان پر مرکوز تھیں جہاں برستی بارش کی موٹی موٹی بوندیں بے تابی سے گیلی مٹی سے ملنے کو بے چین تھیں۔ اس کی مخاطب لڑکی جواباً خاموشی اختیار کیے رہی۔ اس کی نگاہیں بھی گلاس وال سے باہر جمی ہوئی تھیں۔
"اس نے تم سے دوری اختیار کرنے کی کیا وجہ بتائی؟" وہ اب گردن موڑ کر رخ اس کی جانب کیے بغیر اسے دیکھتی سوال کر رہی تھی مگر وہ لڑکی پھر بھی خاموش رہی۔ لکڑی کا وہ بے انتہا خوبصورت جھولا جس پر وہ دونوں براجمان تھیں، سوال کرنے والی لڑکی کی ذرا سی جنبش سے ہلکے ہلکے ہلکورے لینے لگا۔
"تمہاری یہ خاموشی مجھے مزید بے چین کر رہی ہے، مجھے بتاؤ حرا عمر فاروق نے تم سے کیا کہا؟" اس کی مسلسل خاموشی سے جھنجلا کر اس نیلے لباس والی لڑکی کی آواز بلند ہوئی تھی۔ اس بار مخاطب کیے جانے والی لڑکی نے ذرا سا رخ پھیر کر اس کی جانب دیکھا، اس کی آنکھوں میں بلا کا اسرار چھپا تھا، ہلکے گلابی ڈورے اس اسرار کی پراسراریت میں مزید اضافہ کر رہے تھے۔
"وہ تمہیں یوں اچانک کیوں چھوڑ کر گیا تھا؟ کیا وجہ تھی اور اب واپس آیا تو اس کے کیا ارادے ہیں؟ تم خاموش کیوں ہو حرا کچھ بتاتی کیوں نہیں۔" گلابی ڈورے اس کے دل کو تڑپا گئے، تبھی اس کے لہجے میں شدت اور سوالوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ عروسہ نے نظریں جھکا لیں اب اس کی نظروں کا مرکز اس کی ہتھیلیاں تھیں، نرم گلابی لکیروں میں الجھی بھیگی بھیگی ہتھیلیاں۔
"تم مجھ سے اپنے دل کی باتیں کیوں چھپا رہی ہو؟ کہہ کیوں نہیں دیتیں سب کچھ، تمہیں اب اپنی سہیلی پر اعتبار نہیں رہا۔" وہ کب سے اس سے سوال کرتی اب نڈھال لہجے میں پوچھ رہی تھی۔
"میرے پاس تمہیں سنانے کے لئے کوئی امیر حمزہ کی داستان نہیں، ثمرہ، بس اتنا جان لو، جانے والے اگر لوٹ بھی آئیں تو لازمی نہیں کہ ان کا لوٹنا خوشیوں کا باعث بھی ہو۔"
چاہتی ہوں حرا کہ شہباز فاروق تم سے ملنے کیوں آیا تھا اس دن آفس؟" سارہ اب جھولے سے اتر کر عین اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی تھی، لان کا بھیگا بھیگا نظارہ اب حرا کی نظروں سے اوجھل ہو چکا تھا۔
"تم جاننا چاہتی ہو تو سنو، وہ شادی کر چکا ہے یہی بتانے آیا تھا اور مجھ سے اپنی بے وفائی کی معافی مانگ رہا تھا۔" بالاخر اس نے تھکن زدہ لہجے میں گہری سانس لیتے ہوئے انکشاف کر ہی ڈالا۔
"کیا۔۔۔ شادی کر چکا ہے؟" سارہ آنکھیں پھاڑے حیرانگی سے اسے دیکھتی رہی۔
"وہ کہتا ہے بہت مجبور ہو کر اس نے یہ قدم اٹھایا، میرے سامنے شرمندہ تھا۔ معافی کا خواستگار تھا شہباز فاروق۔۔۔" وہ ایک بار پھر گویا ہوئی اس بار اس کے لہجے میں نمی جھلک رہی تھی اور اس کے لب استہزائیہ انداز میں پھیلے ہوئے تھے۔ اس کی بات سن کر اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹی سارہ دھیرے سے اٹھ کر واپس اس کے برابر آ بیٹھی، اس کے انداز میں ابھی بھی غیریقینی جھلک رہی تھی۔
"یقین نہیں آتا کہ شہباز فاروق جیسا انسان بھی یوں مجبوری کی چادر اوڑھ کر بے وفائی کر جائے گا۔" سارہ زیر لب بڑبڑائی۔ حرا نے اس کی بڑبڑاہٹ سن کر ایک نظر اسے دیکھا اور پھر ہولے سے مسکرا دی۔ اس کی اس مسکراہٹ میں بھید چھپے تھے، اس پل ان دونوں کی نگاہیں لشکارے مارے لان پر جمی ہوئی تھیں جہاں بارش کا زور اب قدرے کم ہو چکا تھا۔
شہباز فاروق کی وجاہت کو یونانی دیوتاؤں کی وجاہت سے تعبیر کیا جائے تو قطعا مبالغہ نہ ہوگا۔ وہ مضبوط کسرتی جسامت کا دلفریب نقش کا مالک اپنے قول کا پکا بہادر نوجوان تھا، جو بلند ارادے رکھتا تھا اور ان ارادوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے حوصلے بھی بلند رکھتا ہے۔ وہ سیاسی گھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود خوبصورت دل کا مالک بھی تھا مگر اس کے اس خوبصورت دل کی سنگھاسن پر راج کسی اور کا تھا، وہ جس کا نام اس کے بلند ارادوں کی فہرست میں صف اول پر ٹھہرا تھا، جس کی پر کشش شخصیت، خوبصورت لب و لہجہ اور منفرد سوچ کا معترف ایک زمانہ تھا، وہ جو چپکے سے دل چرا لینے کا ہنر جانتی تھی، وہ حرا یاور اس یونانی دیوتا کے دل پر حکومت کرتی تھی۔
وہ (Made for Each Other) تھے، اس بات سے پوری یونیورسٹی واقف تھی۔ وہ آج سے نہیں اسکول کے زمانے سے ایک دوسرے کے ساتھ تھے۔ ان کے درمیان بہترین ذہنی ہم آہنگی تھی۔ وہ مزاج آشنا و ہم خیال اور ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم تھے۔ ان کے ساتھ ان کی محبت کی مثالیں مشہور تھیں۔ یونیورسٹی کے آخری دن الوداعی تقریب میں شہباز نے حرا کو بہت خوبصورت انداز میں پرپوز کیا تھا۔ تقریب میں جب اسے اسٹیج پر بلا کر یونیورسٹی میں گزارے گئے یادگار لمحوں کی یاد تازہ کرنے کی دعوت دی گئی تو شہباز فاروق کی ہر یاد حرا یاور سے شروع ہو کر اسی پر ختم ہو جاتی تھی۔ اس دن اس نے
محفل میں سب کے سامنے حرا سے اپنی محبت کا اعتراف کرتے ہوئے اسے پرپوز کیا تھا۔ شہباز فاروق کے اس خوبصورت اور ببانگ دل اظہار محبت کو دیکھ کر حرا کی سب سے عزیز ترین سہیلی سارہ نے مسکراتے ہوئے اس کے کان میں سرگوشی کی تھی۔
"میں یقین سے کہہ سکتی ہوں یہ شخص تمہارا ساتھ کبھی نہیں چھوڑے گا، اس نے ڈنکے کی چوٹ پر تمہارا ہاتھ تھامنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ مرتے دم تک تمہارا ساتھ نبھائے گا۔" اور تب وہ اس کی بات پر بڑے دلکش انداز میں مسکرائی تھی۔
بارش کا سلسلہ ایک بار پھر تیز ہو چلا تھا۔
"وہ ایسے کیسے کر سکتا ہے؟ اس نے سب کے سامنے تم سے اپنی محبت کا اظہار کیا تھا۔ تم سے شادی کی خواہش ظاہر کی تھی؟" سارہ کی نگاہوں کے سامنے تقریب کا منظر گھوم رہا تھا، وہ اس منظر میں کھوئی خود کلامی کے انداز میں گویا ہوئی۔ حرا اس کی بات سن کر بے ساختہ طنزیہ انداز میں مسکرائی۔
"ارادے کا اظہار کرنا اور اس پر عملدرآمد کرنا دو مختلف باتیں ہیں۔ اظہار انتہائی آسان عمل ہے جبکہ ان ارادوں کو پورا کرنا ہی اصل اور دشوار مرحلہ ہوتا ہے۔" حرا تلخ لہجے میں بولی۔ سارہ خاموش سی ہو گئی۔ حرا نے بالکل درست بات کی تھی، وہ اس سے متفق تھی۔ لاؤنج میں ایک بار پھر خاموشی چھا گئی، یہاں تک کہ صرف گھڑی کی آواز نمایاں تھی۔
یونیورسٹی ختم ہونے کے بعد بھی ان دونوں کے درمیان رابطہ ختم نہ ہوا بلکہ مزید مضبوط ہوتا چلا گیا۔ سیاسی پس منظر سے وابستگی کے باعث شہید کا جھکاؤ سیاست کی جانب بڑھتا چلا گیا۔ وہ خاندانی سوچ سے مختلف خیال کا مالک انسان تھا۔ وہ روایتی سیاسی ڈگر سے ہٹ کر چلنے کا خواہش مند تھا۔ سیاست میں وہ اپنے ذاتی مفادات کے لیے نہیں بلکہ قومی و معاشرتی مفادات کی غرض سے آیا تھا۔ اس یونانی دیوتا کی اس خوبصورت سوچ نے ہی تو اس کی شخصیت کے چارم میں چار چاند لگا دیے تھے، مگر سوچ و خیال زندگی کے کسی موڑ پر بھی بدل سکتے ہیں، وہ فقط فطرت ہوتی ہے جو کبھی نہیں بدلتی۔
شہید نے حرا کے اصرار پر اپنے گھر والوں کو اس رشتے پر آمادہ کرنا شروع کر دیا اور کچھ ہی دنوں کے بعد حرا کو یہ جان فزا مژدہ سنایا کہ اس کی والدہ اگلے ہفتے حرا کے گھر ان دونوں کے رشتے کے سلسلے میں آ رہی ہیں۔ اس خبر کی خوشی حرا کے چہرے پر نور کی مانند دمک رہی تھی۔
مگر آنے والا ہفتہ آ کر بھی گزر گیا، مگر نہ پیغام آیا نہ مہمان۔ حرا نے گھبرا کر ہزاروں میسجز کر ڈالے، کالز کیں، مگر شہید کی جانب سے مستقل خاموشی کی فضا قائم رہی۔ شہید اس دن سے یوں غائب ہوا جیسے روۓ زمین پر وجود ہی نہ رکھتا ہو۔ حرا کو شہید کا یوں لا تعلق ہو جانا انتہائی صدمے سے دوچار کر گیا۔ وہ بلند و بانگ دعوے کرنے والا یونانی دیوتا بے وفا نکلا۔ اس پر یقین کرنا صرف حرا کے لیے ہی نہیں، ان دونوں سے آشنا ہر فرد کے لیے دشوار تھا۔
اس نے ٹوٹ کر محبت کی تھی اور محبت میں ہونے والی بے وفائی نے اسے توڑ کر کرچی کرچی کر دیا تھا۔ اور اس نے خاموشی کا لبادہ اوڑھ لیا۔ وہ اپنی محبت کا رونا نہیں رونا چاہتی تھی مگر اس کی آنکھیں اس کے غم کی داستان سناتی تھیں۔ اس مشکل گھڑی میں سارہ نے حرا کا بے حد خیال رکھا۔ وہ اس کی اذیتوں، تکلیفوں اور دکھوں سے بخوبی واقف تھی۔ کوئی سات آٹھ سال کی پر اسرار خاموشی کے بعد شہید اچانک منظر عام پر آیا تو اپنی شادی کی روح فرساں خبر سنا کر وہ حرا سے معافی کا طلبگار ہوا تھا۔
"کیا مجبوری تھی اس کی؟" سارہ نے ایک بار پھر دھیرے سے لب کشائی کی۔
"مجبوری۔" وہ استہزائیہ انداز میں ہنسی۔ "وہ کہتا ہے کہ وہ خاندان اور رسم و رواج کے آگے مجبور ہو گیا اور میں سوچتی رہ گئی کہ کیا شہید بھی رسم و رواج کے آگے سر جھکا سکتا ہے؟ اور محبت سے بڑھ کر بھی کوئی مجبوری ہوتی ہے؟" وہ دھیمے لہجے میں کہہ رہی تھی۔
"محبت سے بڑھ کر کوئی مجبوری نہیں ہوتی، زینب۔ میں ہماری جانتی ہوں، ہمارے اپنے جہاں زندگی کے بیشتر موڑ پر ہماری طاقت بنتے ہیں۔ اکثر مقامات پر ہمارے لیے امتحان بھی بن جاتے ہیں۔ تب ہمیں ان سے یا تو ہارنا پڑتا ہے یا پھر انہیں ہرانا پڑتا ہے، اور یہ محبت ہی ہوتی ہے جو مشکل گھڑی میں ہم سے فیصلہ کرواتی ہے۔" وہ بولتے بولتے تھکی تھی یا پھر پہلے کی تھکن تھی جو اس کے لہجے میں اب در آئی تھی۔ سارہ اس بات کا فیصلہ نہ کرسکی۔ عائشہ لمحے بھر کو رکی تھی، اس کا لہجہ بھیگا ہوا تھا۔ اس نے آنسوؤں کا گولہ حلق سے اتارا اور سلسلہ کلام وہیں سے جوڑا جہاں سے منقطع کیا تھا۔
"اگر میزان کے ایک پلڑے پر محبوب کی محبت اور دوسری جانب والدین کی محبت رکھ دی جائے تو فیصلہ بے حد دشوار ہوجاتا ہے۔ فیصلہ کچھ بھی ہو، کسی بھی فریق کے حق میں ہو، اس کا انتخاب دوسرے فریق کو دور ہونے پر مجبور کردیتا ہے۔ فیصلہ کرنے والے کو اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ چن لے، فیصلہ کرے تو یہ انتخاب ہوتا ہے۔ سارہ اگر مجبوری نہیں، مجبوری میں راستے کھلے نہیں ہوتے۔ بند ہوتے ہیں ماسوائے ایک کے، تب مجبورا اس اکلوتے رستے پر چلنا پڑتا ہے۔ یہ ہوتی ہے مجبوری کی آڑ میں محبت کو خود قربان کیا اور دمکتے ہوئے سیاسی مستقبل کا انتخاب کیا۔ اس نے محبت کرنے والی، بھروسہ کرنے والی، ساتھ دینے والی ہمسفر پر اس لڑکی کو ترجیح دی جو اس کا سیاسی قد مزید بلند کرنے کا باعث بنتی۔ اگر وہ کم ہمت ہوتا، بزدل ہوتا، میرے لیے جنگیں لڑ سکتا نہ بغاوت کر سکتا، تب بھی میرے دل کو صبر آ جاتا۔ میری محبت کو بھی قرار آ جاتا کہ میرا محبوب میرے عشق میں نڈھال ہو گیا۔ میری محبت خود اسے دعائیں دیتی، اس کی راہ سے ہٹ کر اس کا راستہ آسان کیے دیتی۔ مگر وہ تو اپنی مجبوری بتاتے ہوئے یہ بھول گیا تھا کہ وہ عائشہ یاور کے سامنے بیٹھا ہے۔ وہ عائشہ یاور جو اس کے دل تک رسائی رکھتی تھی، اس کے رگ رگ سے واقف تھی۔ سارہ اس دن میری محبت اس کے جھوٹ، منافقت اور خود غرضی دیکھ کر ہی خاموشی سے دم توڑ گئی۔ وہ مجھ سے معافی مانگ رہا تھا مگر وہ لفظ کھوکھلے تھے، انہیں ادا کرنے والا جھوٹا تھا اور جھوٹے انسان سے کی گئی محبت ہمیشہ بے آبرو اور بے موت مرتی ہے۔" اس کے لفظوں سے خون رستا تھا کیونکہ اس کے حلق میں ٹوٹے دل کی کرچیاں چبھتی تھیں۔
"اور سب کچھ جانتے بوجھتے، سمجھتے ہوئے بھی تم نے اسے معاف کردیا عائشہ؟ تم نے اس کی اصلیت اس کے منہ پر کیوں نہ ماری؟" یہ شاید آخری سوال تھا جو پوچھنے کے لیے رہ گیا تھا سارہ کے پاس، اس سے قبل کہ عائشہ اس کی بات کا جواب دیتی۔ عائشہ کے موبائل پر آنے والی کال نے ان دونوں کو ہی چونکا دیا۔ سارہ کی نگاہیں بے ساختہ موبائل کی اسکرین پر جگمگاتے نام کی جانب اٹھیں۔ وہ بری طرح ٹھٹک کر عائشہ کی جانب سوالیہ نگاہوں سے دیکھنے لگی جو ایک بے نیاز سی نگاه موبائل اسکرین پر جگمگاتے نام ڈال کر نظریں پھیر چکی تھی۔
"شہزاد حسن۔۔۔ یہ اب تمہیں کیوں کال کر رہا ہے؟ جب یہ تمہیں اور تمہاری محبت کو ہار کر اپنا راستہ جدا کرنے کا فیصلہ کر چکا، تو پھر تم سے رابطہ کرنے کا کیا مقصد ہے بھلا؟" سارہ کے لہجے میں غصہ کی جھلک نمایاں تھی۔
"تم جانتی ہو، مرد دریافت کا پرندہ ہے اور دریافت کا سلسلہ کبھی نہیں رکتا۔ وہ جوں جوں دریافت کرتا رہتا ہے، آگے بڑھتا جاتا ہے۔" ابھی وہ اتنا ہی کہہ پائی تھی کہ اس کی بات سن کر سارہ افسردہ لہجے میں بولی۔
"صحیح کہہ رہی ہو تم سارہ۔۔۔۔۔۔ مرد دریافت کا ہی پرندہ ہے اور عورت صرف اور صرف اس کی دریافت، اس کی منزل نہیں، اس کا ٹھکانہ نہیں۔ وہ کچھ عرصہ اسے اپنے حسن، اپنی ذہانت یا اپنی انفرادیت سے متوجہ ضرور کر لیتی ہے مگر ہمیشہ کے لیے اسے اپنا اسیر نہیں بنا سکتی۔" مائرہ کے لہجے سے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے سارہ کے وجود کی تھکن اس کی رگوں میں بھی اترنے لگی ہے۔
"نہیں مائرہ۔۔۔ عورت دریافت نہیں، عورت کے روپ ہزار ہیں۔ آج سے نہیں روز اول سے۔ کیا تم نے لا زوال بی بی حوا کا روپ نہیں دیکھا یا پھر بے مثال حضرت خدیجہ کو یا محبوب بیوی کا روپ دھارے حضرت عائشہ کو نہیں جانا اور حضرت فاطمہ جیسی فرماں بردار بیٹی اور بہادر ماں، عورت کوئی ایک روپ لے کر زمین پر نہیں۔ اس کے ضمیر کے کئی رنگ ہیں۔ تمہیں اس جہاں میں مریم جیسی پاک دامن عورتیں بھی سانس لیتی نظر آئیں گی جو زمانے کی اٹھتی انگلیوں سے اپنی عزت و بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف ہوں گی۔ تمہیں انہی معاشروں میں آسیہ بھی نظر آئیں گی جو ماں کی ممتا سے لبریز اولاد کے لیے معاشرے سے لڑ بھڑیں گی اور کیا کیا روپ بتاوں مائرہ، عورت جاہ و حشمت کا شاہکار ملکہ بلقیس کے مانند بھی ہے اور کہیں نفس کے جال میں پھنستی عزیز مصر، وہ قیدی بھی رہی ہے۔ معاشرے، رسم و رواج، روایات کی قیدی پھر بھلے وہ معاشرہ فرسودہ ہو یا نام نہاد فضاؤں کا علمبردار۔ وہ ڈیانا کی صورت معاشرے میں سانس لیتی پائی جاتی ہے جو محبت کے حصول کی خواہش میں رلتی رسم و رواج کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ وہ کبھی اپنے ہوشربا حسن کو اپنی دنیاوی خواہشات پوری کرنے کے خاطر نیلام کرتی قلوپطرہ کا بھی رنگ چرا لیتی ہے اور کبھی انسانیت کی خدمت میں دنیا تیاگ کرتی مدر ٹریسا، اپنے درد تکلیفوں کو اپنی طاقت بنا کر دوسروں کے درد کی دوا بنتی ہیلن۔ یہ سارے عورت کے ہی روپ ہیں مائرہ اور ہر روپ کے پیچھے ایک داستان رقم ہے اور کتنے ہی ان گنت روپ معاشرے میں سانس لے رہے ہیں مگر ہم سے مخفی ہیں۔۔۔ عورت کوئی دریافت نہیں، کوئی موضوع نہیں جس پر کتابیں لکھ کر بحث کی جائے یا اسے جانچنے پرکھنے کا کلیہ مرتب کیا جائے بلکہ عورت وہ تخلیق ہے جس کے وجود کو سچی محبت اور خلوص سے جیتنے کے لیے بنایا گیا ہے۔" وہ کھوئے کھوئے مگر پراعتماد لہجے میں بول رہی تھی اور مائرہ حیرت زدہ سی اسے آنکھیں پھاڑے دیکھ رہی تھی۔ باہر کن من برستی بارش کا سلسلہ اب تھم چکا تھا۔ صحن سے بارش اور مٹی کے ملن کی سوندھی خوشبو فضا میں گھل کر اپنا فسوں بکھیر رہی تھی۔ سارہ کچھ پل خاموش رہنے کے بعد لان پر جمی نگاہیں پھیر کر مائرہ کی جانب دیکھتے ہوئے مزید گویا ہوئی۔
"عورت عنقاء ہے، ایک ایسا پرندہ جو بے حد بلندی پر پرواز کرتا ہے اور بلندی کی پرواز کبھی بھی سہل ثابت نہیں ہوتی۔ بے شمار کٹھنائیاں ہوتی ہیں، مشکلیں ہوتی ہیں اور تب یہ پرندہ عنقاء ان مشکلوں، کٹھنائیوں اور حالات کے تھپیڑوں سے تھک کر نڈھال ہو کر انتہا کی بلندی سے انتہائی پستی پر چلا جاتا ہے مگر پستی کا انتخاب وقتی ہوتا ہے اور پھر کچھ عرصہ وہ نظروں سے غائب رہنے کے بعد اچانک منظر پر ظاہر ہوتا ہے اور پہلے سے بھی زیادہ اونچائیوں پر پرواز کر جاتا ہے کیونکہ عنقاء علامت ہی بلند پرواز کی ہے اور عورت بھی عنقاء کے مانند ہے۔" مائرہ سحر زدہ سی اس کے لبوں سے پھول کی مانند جھڑتے لفظوں کو سن رہی تھی۔ وہ اسے سمجھانے آئی تھی اور اب خوراکی فرماں بردار شاگرد کے مانند سبق سیکھ رہی تھی۔
موبائل اسکرین پر ایک بار پھر سے فاران ملک کا نمبر جگمگا نے لگا۔ زینب نے ایک نگاہ غلط اسکرین پر ڈالی اور مائرہ کا ہاتھ تھامے گلاس ونڈو سے منسلک دروازے کو باہر کی جانب دھکیلتی لاؤنج سے نکل کر لان میں داخل ہو گئی۔ سبز، نرم بھیگی بھیگی گھاس تازگی کا ایک فرحت بخش احساس اجاگر کر رہی تھی۔ کیاریوں میں لگے گلاب، گیندے، موتیے اور ڈیزی کے پھول برسات میں نہانے کے بعد محو رقص تھے۔ وہ دونوں بھی اس دلکش موسم کی جوبن کو محسوس کرتیں اور گھاس پر چہل قدمی کرنے لگیں۔
"فاران ملک نے میرا جو روپ دیکھا وہ محبت کی دیوی کا روپ تھا۔ اسے دریافت کرنے کے بعد اسے میرا عشق پھیکا لگنے لگا۔ اپنی سمجھ کے مطابق وہ مجھے دریافت کرنے کے بعد اپنے جھوٹ اور بے وفائی سے محبت کی دیوی کا وجود پاش پاش کر گیا۔ مائرہ یہ وہ مقام تھا جب میں ٹوٹ کر چکنا چور ہوئی اور پھر اپنی کرچیوں کو سمیٹ سمیٹ کر یکجا کر کے نیا روپ، نئی دیوی بنائی۔ فاران ملک کو معاف کر کے میں ایک بار پھر بلندی جو عنقاء کی علامت ہے اور پھر یوں ہوا کہ میرے نئے روپ نے ایک بار پھر فاران کو دریافت کے لیے متجسس کر ڈالا۔ وہ دریافت کا پرندہ مجھ تک پہنچنے کے لیے ایک بار پھر پھڑپھڑانے لگا مگر مائرہ میں نے کہا ناں عورت عنقاء ہے۔" اس کے خیالات اور سوچ کو جان کر مائرہ نے اسے رشک آمیز، محبت پاش نگاہوں سے دیکھا۔
اندر لاؤنج میں بڑے سے لکڑی کے بنے دلفریب جھولے میں وقتا فوقتا دریافت کے پرندے عنقاء تک پہنچنے کی کوشش موبائل فون پر جگمگا رہی تھی۔ وہ معافی جو زینب نے فاران کو دی تھی وہ اس کی محبت سے آزادی کا پروانہ ثابت ہوئی مگر یہی آزادی فاران ملک کو ایک نئی دریافت پر آمادہ کرتی عنقاء کے سحر میں مبتلا کر گئی۔
Post a Comment for "پھر سے محبت"