Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

نہ ختم ہونے والی امید"


" اماں، حمنہ فیل ہو گئی۔۔۔" چھوٹی بہو نائلہ نے پرجوش ہو کر ساس کے کمرے میں صور اسرافیل پھونک دیا۔ بی بی خورشید چت لیٹی تھیں۔۔۔!

" ہائیں، میں مر گئی۔۔۔" بی بی خورشید یوں اچھلیں گویا فیل نواسی نہیں، وہ خود ہوئی ہوں۔ تیزی سے اٹھنے پر گرتے گرتے بچیں۔۔۔!

" آپ زندہ ہیں جی۔۔۔ مریں آپ کے دشمن۔" نائلہ نے ناگواری سے کہا۔۔۔ بی بی کا ہاتھ سینے پر تھا۔

" حمنہ فیل ہو گئی۔۔۔ دوبارہ ہو گئی۔" کانپتا لرزتا پانی آنکھوں میں اتر آیا۔ نائلہ نے سنا تو جھٹ صاف گوئی سے بولی:

" دوبارہ نہیں۔۔۔ یہ تیسری بار ہے۔" اور بس دیکھتے ہی دیکھتے آنکھوں میں جھڑی لگ گئی!

" میری قسمت ہی پھوٹی ہے نائلہ۔۔۔ جب سے آخری پرچہ دے کر آئی ہے، تب سے میں نے دعائیں مانگنی شروع کر دیں۔۔۔ اللہ تعالیٰ کچھ بھی ہو جائے، حمنہ فیل نہ ہو۔۔۔ مگر ہائے میری قسمت، ڈوبی کی ڈوبی ہی رہی۔" ان کے اونچے بین پر گھر کے باقی افراد جمع ہونا شروع ہو گئے۔ بڑی بہو رضیہ، بڑا بیٹا سلیم، بیٹے کا بیٹا فہد۔۔۔ شوہر یونس میاں اور نائلہ تو تھیں ہی۔۔۔ ایک وہی نہ آئی۔

" یہ حادثہ کیسے ہوا؟" رضیہ نے ہمدردی جتائی۔۔۔ وہ پڑھی لکھی نہیں تھیں، اپنی سمجھ کے مطابق پوچھا۔

" جیسے تیسے ہو گیا۔۔۔ مگر اے بہو، میں پوچھتی ہوں، نتیجہ اپنی حمنہ کا ہی دیکھا نا؟ کہیں کوئی دوسری حمنہ نصیبوں کی ماری کا تو نہ دیکھ لیا ہو؟" امید بھری نگاہیں نائلہ پر گئیں۔۔۔ ہاتھ ہنوز سینے پر۔۔۔ نائلہ نے غور کیا تو شکر کیا۔۔۔ ہاتھ سینے پر ضرور تھا مگر سینہ مسلا نہیں جا رہا تھا!

" ایسا نہیں ہو سکتا اماں، اطمینان رکھیں۔" نائلہ ایم اے پاس تھیں۔۔۔ ساس کا ٹوکنا برداشت نہ کر پائیں۔

" اب کیسا اطمینان؟" رونا پھر شروع ہوا۔ " سال کی محنت گئی، خرچا گیا، اور اب شرمندگی الگ۔ میرا دل پھٹ رہا ہے۔"

" بس کر جنت۔۔۔ میں نے کہا تھا نا کہ پڑھنا اس کے بس میں نہیں۔۔۔ میں آج ہی اسے مشین پر بٹھا آتا ہوں، سلائی کڑھائی تو سیکھ لے گی۔" یونس میاں کا ارادہ۔۔۔!

" میں نے تو کہا تھا آٹھ جماعتیں کافی ہیں، ورنہ سائنس کی جگہ آرٹس پڑھ لے۔ مگر نہیں صاحب، سائنس دانی جو بننا ہے۔۔۔" سلیم کا غم میں لپٹا طنز۔

" مجھے تو کبھی ڈانٹنے نہیں دیا آپ نے، بی بی۔۔۔ دیکھ لیجیے آپ ہی کی شہہ کا نتیجہ ہے۔" نائلہ نے جتلایا۔ ٹیوشن وہی دیتی تھیں، اس لیے حمنہ کی ناکامی پر خود کو بری الذمہ سمجھا۔

بی بی خورشید کسی کی بات خاطر میں نہ لاتے ہوئے بولیں:

" حمنہ کدھر ہے؟ رو رہی ہو گی بیچاری؟"

" ٹی وی دیکھ رہی ہے۔" نائلہ تاؤ کھا کر بولیں۔ اسی وقت دروازے میں سایہ ہوا اور حمنہ آ گئیں۔۔۔ گم صم، سپاٹ، پھیکی پھیکی سی۔۔۔ خالی خالی آنکھوں کے ساتھ۔۔۔ سب کو سانپ سونگھ گیا۔۔۔ بی بی خورشید نے حمنہ کو دیکھا۔۔۔ حمنہ نے بی بی کو۔۔۔ نگاہیں ملیں۔۔۔ اور، اور وہ دونوں اپنی جگہ دھاڑیں مار کر جو رونا شروع ہوئیں، تو حاضرین بوکھلا گئے!

" حمنہ تو فیل ہو گئی؟" بی بی کراہیں۔

" اماں، بے ایمانی ہو گئی!" حمنہ کی دہائی۔

" یہ کیا کر دیا مرجانیے۔۔۔ تجھے میرا منہ بھی نظر نہ آیا؟"

"اماں، حمنہ فیل ہو گئی۔۔۔" نائلہ نے پرجوش ہو کر ساس کے کمرے میں جیسے صور اسرافیل پھونک دیا۔ بی بی خورشید چت لیٹی تھیں۔۔۔!

"ہائیں، میں مر گئی۔۔۔" بی بی خورشید یوں اچھلیں گویا فیل نواسی نہیں، وہ خود ہو گئی ہوں۔ تیزی سے اٹھنے پر گرتے گرتے بچیں۔۔۔!

"آپ زندہ ہیں جی۔۔۔ مریں آپ کے دشمن۔" نائلہ نے ناگواری سے کہا۔ بی بی کا ہاتھ سینے پر تھا۔

"حمنہ فیل ہو گئی۔۔۔ دوبارہ ہو گئی۔" کانپتا لرزتا پانی آنکھوں میں بھر آیا۔ نائلہ نے صاف گوئی سے کہا:

"دوبارہ نہیں۔۔۔ یہ تیسری بار ہے۔" اور بس، دیکھتے ہی دیکھتے آنکھوں میں جھڑی لگ گئی!

"میری قسمت ہی پھوٹی ہے نائلہ۔۔۔ جب سے آخری پرچہ دے کر آئی ہے تب سے میں نے دعائیں مانگنی شروع کر دیں۔۔۔ اللہ کرے کچھ بھی ہو، حمنہ فیل نہ ہو۔۔۔ مگر ہائے ری میری قسمت، ڈوبی کی ڈوبی ہی رہی۔" ان کے اونچے بین پر گھر کے باقی افراد جمع ہونے لگے۔

بڑی بہو رضیہ، بڑا بیٹا سلیم، بیٹے کا بیٹا فہد، اور شوہر یونس میاں پہلے ہی پاس تھے۔۔۔ بس ایک حمنہ ہی نہ آئی۔

"یہ حادثہ کیسے ہوا؟" رضیہ نے ہمدردی جتائی۔

"جیسے تیسے ہو گیا۔۔۔ مگر میں کہتی ہوں، نتیجہ اپنی حمنہ کا ہی دیکھا ہے نا؟ کہیں کوئی اور حمنہ نہ ہو جس کی قسمت میری بچی پہ آن گری ہو۔" انہوں نے امید بھری نظروں سے نائلہ کو دیکھا۔

"ایسا نہیں ہو سکتا اماں، اطمینان رکھیں۔" نائلہ ایم اے پاس تھیں، برداشت نہ کر پائیں۔

"اب کیسا اطمینان! سال کی محنت گئی، خرچہ گیا، اب شرمندگی الگ۔۔۔ میرا دل پھٹ رہا ہے۔"

"بس کر بی بی۔۔۔ میں نے کہا تھا نا، پڑھنا اس کے بس میں نہیں۔۔۔ آج ہی اسے مشین پر بٹھاتا ہوں، سلائی کڑھائی سیکھ لے گی۔" یونس میاں نے ارادہ ظاہر کیا۔

"میں نے کہا تھا، آٹھ جماعتیں کافی ہیں۔۔۔ سائنس کی جگہ آرٹس پڑھ لے۔۔۔ مگر نہیں! سائنس دانی جو بننا ہے۔" سلیم نے طنزیہ لہجے میں کہا۔

"مجھے تو کبھی ڈانٹنے نہیں دیا، بی بی۔۔۔ دیکھیے آپ ہی کی شہہ کا نتیجہ ہے۔" نائلہ نے جتلایا۔

بی بی خورشید بے نیازی سے بولیں، "حمنہ کہاں ہے۔۔۔؟ رو رہی ہو گی بے چاری۔"

"ٹی وی دیکھ رہی ہے۔" نائلہ تاؤ کھا کر بولیں۔

دروازے میں سایہ ہوا، حمنہ آ گئیں۔۔۔ سپاٹ، ساکت، خالی خالی نظروں والی۔ بی بی خورشید نے اسے دیکھا، حمنہ نے بی بی کو دیکھا، نگاہیں ملیں۔۔۔ اور پھر دونوں دھاڑیں مار مار کر رونے لگیں۔

"حمنہ فیل ہو گئی؟" بی بی کراہیں۔

"اماں! بے ایمانی ہوئی ہے۔۔۔ دشمنی نکالی گئی ہے۔۔۔ میرے ساتھ زیادتی ہوئی ہے!"

"ایسا بھی ہوتا ہے کیا؟"

"اماں، بس شرمندگی مٹانے کو کہہ رہی ہے۔" نائلہ نے وضاحت دی۔

"مامی یقین کریں۔۔۔ بائیو میں آٹھ نمبر؟ ریاضی میں چودہ؟ یہ تو پچھلی بار سے بھی کم ہیں، جبکہ اس بار تو میں نے زیادہ محنت کی تھی۔"

"ہاں، اسٹار پلس کے ڈرامے دیکھ کر۔"

فہد نے پوچھا، "چچی، کتنے میں فیل ہوئیں؟"

"چار میں۔"

"سارے؟"

"کیا بہرے ہو گئے ہو؟ چار کہا چار۔"

"فیل چاروں میں ہو یا سب میں، فیل تو ہو گئی نا۔" فہد نے دانت نکوسے۔

"سوچا تھا، یتیم بچی ہے، کچھ بن جائے گی۔۔۔ سارا سال کھٹڑے تڑوائے، کپڑے ہاتھ میں دیے۔۔۔ اب کیا فائدہ۔۔۔ صرف پرچے دے دے کر سر سفید کرے گی۔" بی بی کی مایوسی بے قابو ہو گئی۔

"مر جاؤں گی اماں، اب دوبارہ پرچے نہیں دوں گی۔۔۔ بھوک ہڑتال کر کے ایسی دعائیں مانگوں گی کہ چیکر کہیں کا نہ رہے۔۔۔ مگر ایک بات طے ہے: ایک بار پھر مجھے فیل کرنے کی حسرت لیے مر جائے گا وہ۔"

"یہ چیکر کون انگریز ہے؟ کیسے جانتی ہے اسے؟" بی بی کے بلڈ پریشر نے خطرے کی گھنٹی بجا دی۔

"وہ پیپر چیک کرنے والا ہوتا ہے، اماں۔" نائلہ نے معاملہ سنبھالا۔

"دادی! کیوں نہ ری چیکنگ کروا لیں؟ جھوٹ کا جھوٹ، سچ کا سچ۔" فہد کا مشورہ۔

"نہیں دادی، رہنے دیں۔۔۔ بے ایمانی کی جیت ہی سہی۔۔۔ میں خود کو سنبھال لوں گی۔۔۔" حمنہ کی اداس خود داری!

بی بی خورشید چونکیں، "ری چیکنگ میں پیسے لگتے ہیں؟" نائلہ نے سر ہلایا۔

"چلو، میں نماز پڑھ آؤں۔۔۔ شرمندہ کر کے رکھ دیا۔"

بڑے ماموں نے ارشاد جاری کیا:

"بی بی خورشید، پڑھائی میں دعاؤں کے بجائے رشتوں کے وظیفے شروع کریں۔" رضیہ (بڑی بہو) بھی زخم چھیڑ گئیں۔

نائلہ (چھوٹی بہو) کا فون بجا۔

"السلام علیکم! جی فیضان صاحب۔۔۔!" مہذبانہ انداز اپناتے ہوئے وہ اپنے شوہر کو ہمیشہ ایسے ہی مخاطب کرتی تھیں!

"جی، فیل ہو گئی۔۔۔ لیں اردو، مطالعہ پاکستان، اسلامیات۔۔۔ سب بچوں کے سبجیکٹ ہیں۔۔۔ اوپر لکھا ہوا ہے: ایز اے ہول!" وہ بولتی بولتی دور ہو گئیں۔۔۔ بی بی خورشید اس آخری لفظ پر چونکیں۔۔۔ الجھیں، سلجھیں، پھر گنگ سی رہ گئیں۔

"ہوں۔۔۔ کیا اپنی حمنہ ہول ہو گئی ہے؟" چہرے پر پریشانی، دل پر سکتہ۔

ماحول پر سوگواری چھا گئی۔ سکوت میں وحشت گھل گئی۔ ساڑھے دس کے بعد کا وقت ویسے بھی اس گھر میں کچھ الگ ہی لگتا تھا۔

بی بی خورشید اپنے بڑے بیٹے سلیم اور چھوٹے بیٹے عدنان کے ساتھ رہتی تھیں۔ یہ گھر ان کے شوہر یونس میاں کی ملکیت تھا، اسی لیے دونوں بیٹے یہی رہنا چاہتے تھے۔ درمیانے تین بیٹے شادی کے بعد اسی کالونی میں الگ الگ رہائش پذیر تھے۔ سلیم کی دکان مارکیٹ میں تھی، عدنان بیرون ملک مقیم تھا۔

صبح ناشتہ نمٹانے کے بعد دونوں بہوئیں اپنے اپنے کمروں میں سماتی تھیں، ایسے میں بی بی خورشید تنہائی سے گھبرا کر خود ہی بولتی جاتیں۔

حمنہ کو ٹی وی ڈراموں سے بہت لگاؤ تھا، آج کل وہ قربانی کے بکرے سے دل بہلا رہی تھی۔ ابھی ابھی نائلہ موبائل چھوڑ کر گئی تھیں۔

"کہو رابعہ، کیسی ہو؟" دوسری جانب حمنہ کی والدہ تھیں۔

"جیسی بھی ہوں، بس چل رہی ہوں۔ آپ سنائیں، اماں اور حمنہ کیسی ہیں؟"

"پاس نہیں ہو سکی۔۔۔" بی بی خورشید کہتے ہوئے آبدیدہ ہو گئیں۔

"ہاہ۔۔۔" رابعہ بیگم نے سرد آہ بھر کر ماحول کو ٹھنڈا کرنا چاہا۔ ماحول تو نہ بدلا، بی بی خورشید ضرور ٹھٹھک گئیں۔

"ہماری قسمت ابھی دور کھڑی ہے۔۔۔" وہ کہہ رہی تھیں۔ "سوچا تھا میٹرک کر لے تو اسلام آباد بھیج دوں گی۔۔۔ تعلیم مکمل کرے گی، اچھی جگہ شادی ہو جائے گی۔۔۔ مگر جانے کہاں غلطی رہ گئی۔"

بی بی خورشید نے ناگواری سے ٹوکا:

"خوب! جوان لڑکی کو اسلام آباد بھیجنے کے خواب! میں کہتی ہوں ہوش کے ناخن لو، خاتون۔ یہاں میں ہوں، زمانے کی سختیوں سے بچاتی ہوں، وہاں کون ہو گا؟ خدا کا واسطہ ہے، لڑکی کا دماغ خراب مت کرو۔"

رابعہ بیگم کی آواز بھیگ گئی۔

"چھوٹا ماموں کیا کہتا ہے؟" انہوں نے کامران بھائی کا پوچھا۔ بی بی خورشید آنکھیں رگڑنے لگیں۔

"کچھ کہہ رہا تھا، حمنہ روتی رہی۔۔۔ بے چاری تین دن سے کھانا نہیں کھا رہی۔۔۔ میں نے دل بہلانے کو کہا کہ عید کے کپڑے لے آؤ۔۔۔ بڑی دل گرفتہ ہے۔ رشتے دار الگ مذاق بناتے ہیں۔۔۔ غلطی اس کی ہے، پر اداسی مجھ سے دیکھی نہیں جاتی۔"

حمنہ اس وقت بکرے کے سامنے کھڑی نظر آ رہی تھی۔

"اچھا اماں، خدا خیر کرے گا۔ حمنہ کے مستقبل کا سوچیں۔ میٹرک فیل کو کوئی نہیں بیاہتا۔۔۔ میں بات کرتی ہوں اس سے۔"

"جو کرنا ہے کرو، خاتون۔ میں تو تھک گئی ہوں۔ طبیعت پر ایک بوجھ سا رہتا ہے۔ اے فہد! پتر، چاچی کو فون پکڑا آ۔"

کال بند کر کے انہوں نے دبے قدموں سامنے سے گزرتے فہد کو آواز دی۔ وہ منہ بنا کر اندر آیا۔

"اے رک، ذرا بیٹھ یہاں۔" انہوں نے پاؤں سمیٹ کر جگہ بنائی۔ فہد بے چاری سی شکل بنا کر بیٹھ گیا۔

"وہ آتی ہے کیا۔۔۔ کیا نام ہے موئی کا۔۔۔!"

"نہیں دادی، علیشا تو بالکل نہیں آتی۔" فہد کا خون خشک ہوا۔

بی بی خورشید نے دانت کچکچا کر پشت پر دو زوردار ہتھڑ رسید کیے۔

"کم بخت گرامر کا پوچھ رہی ہوں، گرامر ہوتی ہے نا وہ جو۔۔۔" پُر سوچ انداز میں بی بی خورشید چپ ہو گئیں۔۔۔ فہد پشت پر ہاتھ پھیرتا بلبلا رہا تھا۔

"پتا نہیں کیا پوچھ رہی ہیں۔۔۔ آپ سوال پوچھیں نا؟" وہ حیران نگاہوں سے دیکھنے لگا۔ دادی جی کو گرامر سے کیا کام؟ کیا میٹرک کرنے کا ارادہ ہے؟ اوہ نو! ایکسپائرڈ ایج میں وہ پریشان ہوا۔

"یہ ہول کیوں لکھا ہوتا ہے رزلٹ میں۔۔۔ اردو والا ہول ہے نا؟" فہد پل بھر میں سمجھ گیا۔ اطمینان سے بولا:

"نہیں دادی جی، یہ خالص انگریزی کا لفظ ہے۔۔۔ جس کا مطلب۔۔۔" اگلے پل آنکھیں چمکیں۔۔۔ وہ بہت ذہین تھا۔ "جس کا مطلب سوراخ کے ہیں۔"

اس نے ہول کا مطلب سمجھا کر اُلٹا الجھا دیا!

"اِیں؟ سوراخ۔۔۔ ہائیں سوراخ، وہ دل والا؟" بی بی خورشید پسینہ پسینہ ہو گئیں۔ "یہاں اس کا کیا کام؟ اے فہد، بتا جلدی، پڑھائی کا تعلق دل سے ہے؟" اندیشے ابلنے لگے۔

"نہیں دادی، دماغ سے۔" فہد بور سوالوں سے اکتا کر باہر نکل گیا، بی بی خورشید کو بے حال چھوڑ کر۔

"سوراخ دل سے نہیں۔۔۔ سوراخ۔۔۔ اور مطلب! اپنی حمنہ ہول نہیں گئی۔۔۔ اس کے دماغ میں سوراخ ہو گیا ہے!" انہیں زوردار دھچکا لگا۔ "تب ہی۔۔۔ تب ہی وہ پڑھ پڑھ کر بھی فیل ہو جاتی ہے۔۔۔ کیونکہ سارا پڑھا لکھا دماغ کے سوراخ سے ہوا ہو جاتا ہے؟"

آنکھیں سراسیمگی سے بھریں۔۔۔ وہ جامد ہوئیں۔۔۔ یا شاید تیورائیں۔ چہرے پر ہوائیاں یوں اڑنے لگیں، مانو کسی نے ہیئر ڈرائیر چلا دیا ہو۔۔۔ چہرے کی جلد، ہونٹ، سب کچھ یہاں وہاں لپکنے لگا۔

اور بی بی خورشید بیمار ہو گئیں۔ یہ عید سے کچھ دن پہلے کی بات ہے۔

"دادی جی سلام کہتا ہوں۔" آواز پر انہوں نے آہستگی سے پلکیں کھولیں۔۔۔ ماتھے پر سر درد کے لیے دوپٹے کی پٹی بندھی تھی۔

"ارے خیام۔۔۔ آؤ بیٹا، بڑے دنوں بعد آۓ۔" وہ پذیرائی کے لیے نرم مسکراہٹ اچھال کر اٹھنے لگیں تو وہ خوش اخلاقی سے آگے بڑھا۔۔۔ ماحول پر طائرانہ نظر ڈالی۔۔۔ شام کے سائے میں صحن ہلکی ٹھنڈی چھایا میں ڈوبا ہوا تھا۔۔۔ حمنہ دیوار کے ساتھ باندھے بکرے کے ناز اٹھا رہی تھی۔۔۔ ایک نظر خیام پر ڈالی پھر بکرے سے کھیلنے لگی۔

"جی دادی، کچھ مصروفیت، کچھ وقت کی تنگی۔۔۔ معذرت چاہتا ہوں کہ آ نہ سکا۔ کل آپ کی طبیعت کا سنا اور حمنہ کے بارے میں بھی۔۔۔ تو ملنے چلا آیا۔"

وہ سادگی سے بول کر چپ ہوا تو حمنہ کے کان کھڑے ہو گئے۔ ایک اور خیرخواہ انداز! جیسے میری تعزیت کو آیا ہو۔ میں فیل کیا ہوئی، ساری دنیا ہی افسوس کے لیے ابل پڑی۔۔۔ گویا خود کبھی فیل نہ ہوئے ہوں۔۔۔ اونہہ!

"اچھا کیا بیٹا آ گئے۔۔۔ بس آپ کیا بتاؤں کہ فکریں ہی پیچھا نہیں چھوڑتیں۔۔۔ بھلا بتاؤ، یہ میری پریشانی سہنے کی عمر ہوئی؟ پھر بھی دیکھ لو، دو لمحے سکون کے کہیں نہیں۔" وہ جیسے خود پر افسوس کھا کر بولیں۔۔۔ خیام توجہ سے انہیں سننے لگا۔

"تو پھر کس بات کی ٹینشن لیتی ہیں؟"

"تمہارے سامنے ہی ہے ٹینشن زادی۔۔۔" جس طرف اشارہ کیا گیا۔۔۔ اور جس انداز میں حمنہ نے کبوتر بن کر آنکھیں میچیں۔۔۔ مگر خیام کی کھلکھلاتی آواز نے سماعتوں تک پہنچ کر ہی دم لیا۔

ذلت۔۔۔ ذلت! یہ پڑوسی تو ویسے بھی حمنہ کو پسند نہ تھا۔ نہیں بلکہ اسے کوئی بھی ذہین شخص پسند نہیں تھا۔ ہاں، یہ زیادہ مناسب ہے۔

"ارے کیسی ٹینشن... اٹس اوکے دادی... یہ تو ہوتا ہے، فیل ہونا برا تو نہیں... کوشش نہ کرنا اور ہمت ہار جانا برا ہوتا ہے۔ حمنہ دوبارہ کوشش کر سکتی ہے، یہ کوئی ناممکن بات نہیں۔"

فیضان نے وہی آسان سا مشورہ دیا، مگر حمنہ کو فیل ہونے پر ماننا پڑا... اگلے لمحے وہ سوچنے لگی، فیل ہونا برا نہیں تو... خود کیوں نہیں ہو جاتا؟ دیکھا اس کا مذاق اُڑاتا انداز... سب سے جدا... بھئی ذہین جو ہوا!

"دربار بیگم بھی کیا یقین کے پاس ہی ہوں گی۔ ویسے تمہیں کس جماعت کا وظیفہ ملا؟" اچانک یاد آنے پر اشتیاق سے پوچھا۔

"ایف ایس سی میں، دادی جی۔۔۔" اس نے بے خیالی میں سادگی سے کہا۔ انہوں نے نا سمجھ کر بھی سمجھنے والے انداز میں سر ہلایا تو دونوں—دادی نواسا—کا دل بے ساختہ طور پر سکڑ گیا۔۔۔ کاش حمنہ بھی!

"بات وہ نہیں۔۔۔ اب تو دوسری ہے بیٹا۔۔۔ اب یہ نہیں پڑھ سکتی۔" وہ مایوس سی بولیں تو فیضان کو اچنبھا ہوا۔

"خیریت۔۔۔؟"

"وہی تو نہیں۔۔۔ بورڈ والوں نے کہہ دیا ‘دماغ میں سوراخ ہے’۔۔۔" وہ آنسو ضبط کرنے لگیں تو فیضان ہکا بکا رہ گیا۔

"یہ کس نے کہہ دیا آپ سے؟" اُسے بی بی خورشید کی دماغی حالت پر شبہ ہونے لگا۔

"وہیں لکھا ہے، تم دیکھنا۔۔۔ میں نے عدیل سے پوچھا تو اس نے بتایا ہول کا مطلب دراصل سوراخ ہوتا ہے۔"

"میں سوچ سوچ کر پریشان ہوں، فیضان... میں بہت محبت کرتی ہوں اس سے۔" وہ جذباتی ہو کر اسے دیکھنے لگیں، اور وہ دماغ پر زور ڈال کر جو ہنسنا چاہتا تھا... بی بی خورشید کا خیال کر کے بمشکل ہنسی کے فوارے دبا پایا۔

"یا اللہ... ایسی کوئی بات نہیں، پیاری دادی... کتنی بڑی بڑی فکریں پال رکھی ہیں آپ نے! ایسا یقیناً رزلٹ پر لکھا ہو گا، اور اس کا ہرگز خدانخواستہ کوئی دماغ میں سوراخ والا مطلب نہیں... بلکہ اسے دوبارہ شروع سے پڑھنے کا کہا گیا ہے۔ آپ بھی نا... کیا کیا اخذ کر لیا خود سے ہی!" وہ سنجیدگی سے کہہ کر آخری جملے پر ہنس پڑا اور بی بی خورشید کے چہرے پر زندگی لوٹ آئی۔

"سچ کہہ رہے ہو؟" وہ عقیدت سے دہری ہو گئیں۔۔۔ اس لڑکے کی بات پر انہیں گوڈے گوڈے اعتبار تھا۔

"بالکل! اب ٹینشن فری ہو جائیں، اگلی بار حمنہ ضرور پاس ہو کر دکھائے گی۔ آپ عید کی تیاریاں کریں، دن ہی کتنے بچے ہیں۔"

"اس کی تو ایک ہی رٹ ہے کہ آگے نہیں پڑھے گی... تم سمجھاؤ اسے فیضان، اپنی زندگی خراب کرے گی... تعلیم ادھوری چھوڑ دے گی تو کون کرے گا اس سے شادی۔۔۔؟ اس کی ماں بھی کہہ رہی تھی کہ آج کل تو B.A والوں کی بھی کوئی اہمیت نہیں، کہاں میٹرک فیل۔"

"دادی...!" حمنہ احتجاجاً چلائی، "میں اس شخص سے شادی کروں گی بھی نہیں جو میری تعلیم کو دیکھے گا۔" فیضان نے دیکھا، اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ پہلی بار وہ اس کے جذبات یک لخت سمجھ پایا تھا۔

"دادی جی، ایسا کیوں سوچ رہی ہیں آپ؟ تعلیم ضروری ہے، مگر کس نے کہا کہ اسے بطور خامی لیا جائے؟ رشتے جڑنے اور شادیوں کے فیصلے تو قسمت کی دین ہوتے ہیں، نہ کہ اعلیٰ تعلیم، خوبیوں کے ڈھیر اور اونچی اونچی کامیابیوں کے! ہاں، مجھے افسوس ہے کہ حمنہ میٹرک کلئیر نہیں کر پا رہی، مگر ایسا ہوتا تو وہ لوگ کیوں غیر شادی شدہ ہوں جو بے تحاشا کامیابیوں کے زینے طے کر چکے ہیں؟ پھر تو ان کی شادیاں فوراً ہو جانی چاہئیں تھیں۔۔۔ اور آپ ابھی سے اس نکتے پر سوچ ہی کیوں رہی ہیں؟"

وہ افسوس اور سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔ حمنہ کی آنکھیں پانیوں سے بھر گئیں۔ وہ حیران ہو رہی تھی۔۔۔ اتنا بھی برا نہیں ہے یہ...!

"بیٹا، میری زندگی کا بھروسہ نہیں ہے... میں جلد از جلد اس سے مطمئن ہو جانا چاہتی ہوں۔" بی بی خورشید نے صفائی دی۔

"دیکھیں دادی جی، آپ تو پڑھی لکھی نہیں ہیں ناں، پھر بھی آپ کی شادی اچھی جگہ ہوئی۔ کیوں؟ قسمت سے! آپ ہی بتاتی ہیں کہ نا آپ کے پاس تعلیم تھی، نا ہنر۔" ان کی بات پر وہ جھینپ گئیں۔

"میری بات کا مقصد یہ ہے کہ حمنہ میں تو بہت سی خوبیاں ہیں—نرم دل ہے، حساس ہے... کسی کی دل آزاری نہیں کرتی، کسی کو دکھ میں نہیں دیکھ سکتی۔ کیا آپ نے کبھی غور کیا؟ سوائے ایک بات کے کہ وہ پڑھ نہیں سکتی۔ کچھ بچے ہوتے ہیں ایسے، جو پڑھ نہیں پاتے، مگر آپ اسے اتنا بڑا مسئلہ نہ بنائیں—نا اپنے لیے، نا حمنہ کے لیے۔"

بی بی خورشید لاجواب سی ہو چلی تھیں۔ حمنہ مشکور نگاہوں سے فیضان کو دیکھنے لگی۔ اس نے دوستانہ مسکراہٹ اچھال دی۔ حمنہ نے عجیب سا محسوس کیا۔ اسے دیکھنے والا جو فیضان تھا... اس کی آنکھوں میں پیام تھا، خاموش اور پُراسرار سا۔

"اچھا چلیں، بکرا نہیں دکھائیں گی؟" گفتگو کا اثر زائل کرنے کو فیضان اب کہہ رہا تھا۔

"امی آپ سے جلد ایک بات کرنے آئیں گی۔" پراسرار لہجے پر بی بی خورشید چونکیں۔ کچھ الگ سا تھا اس کے انداز میں۔ اور دبی دبی ہنسی... وہ تو سمجھ نہ سکیں، البتہ بی بی خورشید پر خوشگوار سدمے سے شادی مرگ کی کیفیت طاری ہو چکی تھی۔ حمنہ ہونقوں کی طرح انہیں تکنے لگی!

کہانی کے ہر سین کا اینڈ بی بی خورشید کے ایسے ایکسپریشن پر ہو رہا تھا۔۔۔ حیرت تو بنتی ہے!


نو سال پہلے۔۔۔

ایک تھی حمنہ۔۔۔ تب وہ دس سال کی تھی۔۔۔ اور ایک پری تھی۔ سنجیدہ، کم گو، بڑی حد تک معصوم سی... اور اپنی سلطنت کی شہزادی۔

ایک ماں، ایک باپ، ایک گھر اور خود وہ، اکلوتی!

اس کے ماں باپ میں کبھی بہت زیادہ پیار نہیں رہا۔ اس نے ہمیشہ ان دونوں کو شکایتوں کے انبار تلے دبا پایا۔ آئے روز جھگڑے، کبھی روٹھنا، کبھی منانا۔

اس کا باپ، عبدالرزاق، مذہب سے بہت زیادہ لگاؤ رکھنے والا بندہ تھا۔ اسے کبھی کسی نے نماز چھوڑتے نہیں دیکھا تھا۔ کئی کئی دن تبلیغی جماعت کے ساتھ باہر رہتے دیکھا۔ وہ ایک ماہر الیکٹریشن تھا مگر کمانے میں دلچسپی نہ رکھتا تھا۔ آس پاس کے لوگوں کے پنکھے، موٹریں، تاریں، سب کچھ مفت میں ٹھیک کر دیتا۔ جیسے کمانا فضول کام ہو!

بھوکا پھر بھی اس نے کبھی رافعہ بیگم (بیوی) کو نہیں رکھا۔ ان کے پاس آسائشیں بھی تھیں، پھر بھی رافعہ بیگم کو ایسی زندگی منظور نہ تھی۔ دونوں کی پسند کی شادی تھی، مگر اب ایک دوسرے کو ناپسند کرتے تھے۔

حمنہ کو باپ بہت اچھا لگتا تھا، بے حد... وہ نرم مزاج، دھیما سا انسان تھا، کبھی بیوی کو زور سے کچھ نہ کہا۔ لیکن پھر بھی وہ رافعہ بیگم کی بات ماننے سے انکاری رہا۔ وہ دولت کی دھن میں کھو کر شاید خدا کو بھول جانے سے ڈرتا تھا۔

شادی کے دس سال بعد رافعہ بیگم نے طلاق مانگی... اور باپ نے بہت مجبور ہو کر طلاق دے دی، کیونکہ وہ جان چکا تھا کہ اب رافعہ کسی اور ہواؤں میں ہے۔

حمنہ ماں کو دیکھتی رہ گئی... پھر باپ کو... اور پھر خالی پن کو۔

اس کی نانی اور دادی سگی بہنیں تھیں۔ گھر ٹوٹا، تعلق ٹوٹے، رشتے بکھرے اور جذبات مسمار ہو گئے۔ باپ نے دوسری شادی کر لی، ماں نے بھی۔

اور حمنہ اس تماشے کی دھول میں رُل کر مٹی مٹی ہو گئی۔ اس کی شخصیت ٹوٹ کر بکھر گئی تھی۔

ماں نے اسے باپ کے حوالے نہ کیا، پھر خود بھی رکھنے پر آمادہ نہ ہوئی۔ اور باپ بھی نہیں۔

ماں اب چوٹی بالا کے پہاڑوں پر ایک خشک، تلخ زندگی گزار رہی تھی۔ اور ہاں، باپ ضرور سدھر گیا تھا... مگر دیر سے۔


یہ بچپن کی محرومیاں... ہمیشہ ساتھ چلتی ہیں۔ چاہے جتنی بڑی عمارت کھڑی ہو جائے، یہ بنیاد میں پلتی رہتی ہیں۔

بچپن، یادگار ہوتا ہے۔ لیکن اگر ایسے کرائسس سے گزرے تو دل فگار بھی ہوتا ہے!

رافعہ بیگم اب روتی ہے، بلکتی ہے... اور حمنہ اس ٹوٹی شخصیت والے وقت میں کھڑی ہے۔ وہ بہت دھیرے اور نرمی سے بولتی ہے، اپنی ماں باپ کی طرح۔ وہ اب وہ پری نہیں رہی نو سال پہلے والی۔ وقت ظالم چور نکلا، اس کی رعنائیاں چرا رہا ہے۔ اور حمنہ چپ چاپ، اسے چوری کرنے دے رہی ہے۔

اس کی کوئی سہیلی نہیں تھی، سوائے بی بی خورشید (نانی) کے... اور کوئی عزیز نہیں تھا۔

اس کے پانچوں ماموں ہر ماہ باقاعدگی سے اس کے اخراجات کی مخصوص رقم بھیجتے تھے، لیکن کسی کی محبت اس کے مسمار ذہن کو جوڑ نہ سکی۔ اور محبتیں… ایسی ہوتی ہیں کیا؟

بی بی خورشید اس سے بلاشبہ محبت کرتی تھیں، مگر وہ ہمیشہ کہتی تھیں کہ وہ اسے اپنی حفاظت خود کرنا سکھانا چاہتی ہیں۔
انہیں کسی پر بھروسا نہیں تھا۔ اور یہی بات… حمنہ نے اپنی سلطنت کو اپنے کچے ذہن اور ناسمجھ بینائی سے چھنتا دیکھا۔
وہ دراصل بکھرے ذہن، منتشر خیالات، اور عدم تحفظ کا شکار تھی۔ وہ ایک خوفزدہ لڑکی تھی—وقت سے، حالات سے ڈرتی، جھجکتی۔

اس کی ماں رافعہ بیگم کو اس کے سوتیلے باپ سے مار پڑتی تھی۔ وہ جب ماں کی گود میں سر رکھ کر روتی، تو ماں بھول جاتی تھی کہ حمنہ بھی کسی کونے میں بیٹھی ہے۔
اولاد انیس برس کیا انیس صدیاں بھی جی لے، ماں کے دکھوں پر دل لہولہو کیے بغیر نہیں رہ سکتی۔ یہ ایک تلخ، مگر اٹل حقیقت ہے۔

شاید وہ کند ذہن ہو گئی تھی، مگر جس دماغ میں یکسوئی نہ ہو، اس سے پڑھائی کیسے ہو سکتی ہے؟

گھر میں بات عام تھی کہ حمنہ ٹی وی کی دیوانی ہے۔ بات تو سچ تھی، پر کسی نے غور نہ کیا—وہ "کس چیز" کی دیوانی ہے؟
ایسی موویز، ایسے ڈرامے، جن میں کوئی لڑکی اکیلی ہو، ماں باپ سے بچھڑ جائے، حالات کی مار کھا رہی ہو، ظلم سہ رہی ہو، اور آخرکار… مر جائے۔
کہانیوں میں اسے سنڈریلا نہیں بھاتی تھی… البتہ سنو وائٹ شاندار لگتی تھی۔

جب وہ پہلی بار فیل ہوئی، تو حقیقتاً روئی تھی۔ اور اب… جیسے بے حس ہوتی جا رہی تھی۔
فیل ہونے کا خوف اسے پاس ہونے سے روکتا تھا۔

وہ جو اپنی ذات میں قید تھی، جب فیضان کے خیالات سنتی، حیرت میں ڈوب جاتی… تو وہ قصوروار نہیں تھی۔
درحقیقت، زندگی میں ہمیں کسی بھی ناکامی پر افسوس یا ترس کی نہیں، صرف تھوڑی سی "حوصلہ افزائی" کی ضرورت ہوتی ہے۔
افسوس اور ہمدردی انسان کو کمزور کرتی ہیں—حوصلہ نہیں دیتیں۔

بڑی عید چپکے سے آنگن میں اتر آئی تھی۔
بی بی خورشید کو آج سے پہلے کبھی اتنی خوشگواریت میں گھرا نہیں دیکھا گیا۔ وہ اس عید کی کتنی احسان مند تھیں، یہ کوئی بھی ان کی چمکتی آنکھوں سے اندازہ لگا سکتا تھا۔

نزہت بھابی تذبذب کا شکار ہو کر ساس کے پاس آئیں۔

"اماں بی… یہ جو فیضان کا رشتہ… حمنہ کے لیے آیا ہے؟"

"نہیں، اس کی چچیری بہن کے لیے آیا ہے!"
بی بی خورشید کو مزاح سوجھ رہا تھا۔ نزہت جھینپ گئیں۔ بات ہضم ہی کہاں ہو رہی تھی!

"کیا کہا، فیضان؟ وہ… اپنا پڑوسی؟"
نانا جان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔
اللہ اللہ! ایسی خوش نصیبی! دیکھا بھالا گھرانہ، لائق، فائق، مہذب سا لڑکا۔ یہی تو چاہیے تھا… اگر یہ نہیں، تو پھر کیا چاہیے تھا؟

"دادی جی! وہ کیوں حمنہ کے لیے مان رہا ہے؟"
دانش کو بہت دکھ تھا۔ اب چھیڑے گا کیسے؟

"ذرا عزت سے پکار… بڑا ہے تم سے… اور حمنہ میں کیا کمی ہے؟"
نہایت اطمینان سے جواب دے کر وہ قربانی کے گوشت کے حصے بنانے لگیں۔ دانش کو تعجب ہوا۔

"کمال ہے… اور وہ… وہ تو میٹرک فیل؟"

"فیضان پاس کرا دے گا… کوئی بڑی بات نہیں۔"
کہہ کر وہ ہنسی چھپانے لگیں۔ دانش ہوتا رہے بے ہوش… ان کی بلا سے!

"میں آپ پر ایسا بوجھ ہوں۔" حمنہ کی آنکھوں کے کنارے بھیگے ہوئے تھے۔
بی بی خورشید ذرا مرعوب ہوئیں، نہ سہی متاثر…!

"ڈراموں کے مکالمے مجھ پر مت آزما… اور تُو تو رخصتی ہی سمجھنے لگی۔" انہوں نے تیوری چڑھا کر گھورا۔
وہ بری طرح بوکھلا گئی۔

"نہیں تو…" وہ ابھی ابھی بکرا قربان ہونے کے غم میں رو کر آئی تھی۔

"تو پھر آنسو سنبھال کر رکھ… جا میری دھی، عید مبارک! دیکھ ابھی گوشت کھایا نہیں، اور منہ پہلے ہی سوجھ گیا۔"
انہوں نے اس کے پھولے چہرے کو دیکھ کر مزاحاً کہا تو وہ بس گھور کر رہ گئی۔

شام میں دادا جان کا فون آیا تو اس سے پہلے کہ کوئی کچھ کہتا، وہ بنا لحاظ کیے بول پڑی:

"عید مبارک!"

فیضان نے خوش اخلاقی سے جواب دیا، "عید مبارک!"

"آپ نے شادی کا فیصلہ کیوں کیا؟"

"کیونکہ میں انسان ہوں۔"

"تو مجھ سے کیوں کیا؟"

"کیونکہ آپ بھی انسان ہیں۔"

"مطلب یہ کہ مجھ سے ہی کیوں؟" وہ جھنجھلا گئی۔

"کسی سے تو کرنا ہی تھا… تو تم کیوں نہیں؟" وہ بے فکری سے بولا۔

"میں میٹرک فیل ہوں… یہ ہے آپ کی پسند؟"
اس کا لہجہ دھیما تھا مگر تلخی لیے ہوئے۔ کچن سے گوشت کے پکنے کی خوشبوئیں اٹھ رہی تھیں۔

"یہ تو قسمت کی بات ہے بی بی۔ اور ویسے بھی… تم جلد ہی پاس ہو جاؤ گی۔ اس کے لیے تیار رہو۔"

"پلیز… میرے جذبات سے کھیل کر آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ میں جیسی ہوں ویسی ہی رہنے دیں۔ اگر میں آگے نہ پڑھ سکی تو آپ تو آگے نکل ہی جائیں گے…"

"اور مجھے تم جیسی نرم دل، حساس اور پیاری لڑکی کہیں نہیں ملے گی۔"
فیضان نے بات کاٹ کر کہا تو وہ بے اختیار خاموش ہو گئی۔

"اول بات یہ ہے کہ میں نے رشتے کی بات تم سے نہیں، بی بی خورشید سے کی۔ اور اگر کبھی راستہ بدلا تو تمہارے نہیں، ان کے جذبات سے کھیلوں گا۔"
اب وہ سنجیدگی سے بولنے کے موڈ میں لگ رہا تھا، حمنہ بے بسی سے لب کاٹنے لگی۔

"تم کسی سے کم نہیں ہو حمنہ احسان… نکل آؤ اس کمتری کے احساس سے۔ انسان صرف خود سے ہار سکتا ہے۔
اگر تمہیں کسی سے کم تر ہونے کا احساس ہے تو خود سوچو وہ احساس کن بنیاد پر کھڑا ہے؟ اگر تم فیل ہو جاتی ہو تو کیوں؟ میرے نزدیک یہ بری بات نہیں۔
تم نے نہم جماعت کی اردو کتاب میں ایک سبق تو پڑھا ہوگا، جس میں کہا گیا تھا: 'ناکامی کے بعد حوصلہ نہ ہارنا ہی کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے'… شاید تمہیں یاد نہ ہو!"
وہ بات کو ہلکا پھلکا رکھنے کے لیے ہنسا، اور حمنہ کے آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے۔

"میں فیل ہو جاؤں گی…"

"حالانکہ یہ مشکل کام ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم کوشش ضرور کرو۔
اصل میں تمہیں سکون کی، اعتبار کی ضرورت ہے۔ تم احساسِ کمتری کا شکار ہو اور تم پر اتنا دباؤ آ جاتا ہے کہ تمہاری یکسوئی ختم ہو جاتی ہے۔
تم ضرور پاس ہو گی، حمنہ! تمہیں میٹرک پاس کہلوانا میرا وعدہ رہا!"
وہ پھر ہنسا، اور وہ شرمندہ سی ہو کر ہنسنے لگی۔

"گڈ گرل… دیکھو، تعلیم بہت ضروری ہے کیونکہ یہ شعور دیتی ہے۔
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کم تعلیم کسی انسان کو انسانیت کے درجے سے گرا دے۔
میں نے بہت سے لوگ دیکھے ہیں جو ان پڑھ مگر باشعور ہیں… اور کچھ ایسے بھی جو ڈگریوں کے باوجود بھی جاہل ہوتے ہیں۔"

"آپ بہلا رہے ہیں مجھے…" وہ آنسو صاف کرتے ہوئے بولی۔

"بتا رہا ہوں۔ تم مجھے دل و جان سے منظور ہو اور مجھے یقین ہے کہ آگے جا کر تم زندگی کے امتحان میں کبھی فیل نہیں ہو گی، وہاں کوئی تمہارے ساتھ دشمنی نبھانے والا نہیں ہو گا۔
جو لوگ خود سے پہلے دوسروں کا درد محسوس کریں، وہ تو انمول ہوتے ہیں یار۔"
گلابی شام، عید کے لباس میں سج دھج کر اتر رہی تھی… ایمن کی باتیں دل کو سکون دے رہی تھیں… مایوسی جیسے کھل رہی ہو!

"اور رہی میری بات تو، حمنہ بی بی، بڑی عید پر بڑی باتیں ہو ہی جایا کرتی ہیں۔"
اور مدھم سی مسکرانے والی، معصوم سی لڑکی دھیمے سروں میں کھلکھلاتی چلی گئی… ایمن نے اس کی ہنسی کو سنا… شفاف پانیوں جیسی ہنسی۔

"تھینک یو۔۔۔"
شکریہ بھی ایمن کی طرف سے ادا ہوا۔

اس نے دھیرے سے فون کان سے ہٹا لیا… صحن میں بی بی خورشید چہکتی نظر آ رہی تھیں… حمنہ چوکھٹ میں کھڑی ہو کر انہیں دیکھتی رہی۔
چھوٹی مامی لذیذ ڈشز بنا بنا کر ساس کی خدمت میں پیش کر رہی تھیں… حمنہ کو جانے کیوں ہمیشہ ان کے بچوں جیسے دھیرے دھیرے کھانے والے انداز پر ہنسی آ جاتی تھی۔

لیکن آج کا راز… اس کی نرم سی مسکراہٹ اسے نو سال پیچھے لے جا کر پری سی بنا کر دکھا رہی تھی۔
اس لیے کہ یہ مسکراہٹ ان نو سالوں میں کبھی نہیں دیکھی گئی… اور اس راز سے حمنہ نے بہت آگے جا کر… کچھ عرصے بعد آشنا ہونا ہے۔
ابھی انجان رہنے دیں۔

زندگی میں واقعی ہمیں کسی نہ کسی وجود سے ایک چھوٹی سی حوصلہ افزائی، ذرا سی مسکراہٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔
دوسروں کے لیے نہیں… ہماری اپنی زندگی میں، ایک مثبت کردار… مسمار ہوتی دیوار کے لیے بہت بڑا سہارا بن جاتا ہے۔

"باقی… بڑی عید پر بڑی باتیں… مبارک!"

Post a Comment for "نہ ختم ہونے والی امید""