میں کلینک سے جلد ہی اٹھ آئی تھی کیونکہ شام میں مجھے ایک سیمینار میں شرکت کرنا تھی۔ یہ سیمینار "بڑھتے ہوئے جرائم کا ذمہ دار کون؟" کے موضوع پر منعقد ہو رہا تھا، جس میں مجھے ایک سائیکاٹرسٹ کے طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ ڈرائیو کرتے ہوئے میری نگاہیں سڑک پر کار کی اسپیڈ سے تیز بھاگ رہی تھیں۔ کلینک سے گھر تک کا آدھ گھنٹے کا سفر میں نے ایک مریض کے بارے میں سوچتے ہوئے گزارا۔
اس قدر ڈیسنٹ اور باوقار شخصیت رکھنے والا یہ شخص کسی طور پر ابنارمل نہیں لگ رہا تھا۔ میں نے اپنی سوالیہ نظریں اس کے چہرے پر گاڑ دیں۔
میری نگاہوں کا مفہوم سمجھتے ہوئے وہ تھوڑا سا مسکرایا اور قریب پڑے صوفے میں دھنستا ہوا بولا، "آج فون پہ آپ سے میں نے ہی ٹائم لیا تھا۔"
"اوہ!" میں نے ہونٹ سکوڑے۔
اس قدر شائستہ شخص میں آخر کہاں کمی رہ گئی؟ میں نے ہمیشہ کی ہمدردی سے سوچا۔
"آپ غالباً علی زوار ہیں۔ مجھے یاد آیا، صبح گھر پہ اسی نام کے شخص نے مجھ سے بات کی تھی۔"
"کہیے، ٹھنڈا کہ گرم؟" اس نے مسکرا کر پوچھا۔ یہ ایک سائیکاٹرسٹ کے اخلاق کا تقاضا تھا۔
"نَو، نو تھینکس۔ بس آپ میرے ذہن کو اس عذاب سے نکال دیں۔" اس کے چہرے پر ابنارملٹی کے رنگ اتر آئے۔
"ایزی۔ ایزی۔ سب ٹھیک ہو جائے گا، بشرطیکہ آپ خود ساتھ دیں۔" میں نے دھیمے لہجے میں کہا۔
"ظاہر ہے، اگر میں یہاں تک آیا ہوں تو جہاں تک ہو سکے گا، تعاون کروں گا۔"
سگار مسلسل منہ میں دبائے اس نے کہا۔ گیٹ پر پہنچ کر میں نے زور سے ہارن بجایا۔ گل خان خلافِ توقع مجھے دیکھ کر بھاگتا ہوا گیٹ کھول کر میری طرف لپکا۔
"سلام صاحب! آج کیا بات ہے صاحب؟ خیریت تو ہے نا؟"
"کوئی بات نہیں گل خان، آج ایک تقریب میں جانا تھا۔" میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
"تم ٹھیک ہونا؟" میں نے حسبِ معمول پوچھا۔
"اللہ کا شکر ہے، شکر ہے۔" وہ کہتا ہوا پیچھے ہٹ گیا۔ میں نے بریک سے پاؤں ہٹاتے ہوئے گاڑی کو گیراج میں لا کھڑا کیا۔
حسبِ معمول ماما اور بابا اپنی اپنی ایکٹیویٹیز میں گم تھے۔ بابا بزنس کے سلسلے میں پیرس اور ماما کسی ادبی محفل میں گئی ہوئی تھیں۔ غسل کے بعد چائے اور کیک لینے کے بعد میں نے گاڑی "النور ہوٹل" کی طرف موڑ لی۔ سیمینار میں پہنچ کر مجھے اندازہ ہوا کہ دیے گئے ٹائم سے میں پورے پانچ منٹ لیٹ ہوں اور مجھ سے زیادہ پنکچوئل لوگ یہاں مقررہ وقت سے پہلے پہنچ چکے ہیں۔
یونیورسٹی کے نفسیات کے پروفیسر جناب یٰسین قریشی گیسٹ کے طور پر بلائے گئے تھے۔ نمرہ ان سے باتیں کر رہی تھی۔ میں اسی طرف چلی آئی۔
"السلام علیکم سر۔" میں نے جھک کر سلام کیا۔
"وعلیکم السلام۔ آؤ بھئی آؤ۔ آج تو کافی دنوں کے بعد یہ نمرہ، یہ حسان اور عائشہ، سارے اپنے بچے ہی ادھر مل گئے۔"
پروفیسر صاحب نے ہنستے ہوئے پیچھے ہو کر صوفے پر میرے لیے جگہ بنائی۔ حسان رضوی سے سلام لیتے ہوئے میری نگاہیں سامنے کھڑے علی زوار پر جا ٹکیں۔ گرے تھری پیس سوٹ میں، سگار ہاتھ میں لیے، ہنستا ہوا وہ مسز صادق سے مخاطب تھا۔ اس کے چہرے پر کسی بھی ابنارملٹی کی کوئی لکیر نہ تھی۔
"ڈپلومیٹ۔" میں مسکرائی۔
"اور بیٹے، 'مشن' کیسا جا رہا ہے؟"
"آپ کی دعاؤں سے بہت اچھا سر۔ آپ کی گائیڈنس اور دعاؤں کی ضرورت ہے۔"
میں نے پُرعزم لہجے میں کہا۔ مجھے پروفیسر یٰسین قریشی کی کلاسز یاد آ گئیں، جب وہ ہمیشہ اس بات پر کلاسز ختم کرتے تھے کہ:
"ہمیں ہر روز خود سے یہ وعدہ لینا ہے کہ ہم نے سائیکالوجی کو بزنس یا شہرت کی کوئی سیڑھی نہیں بنانا۔ اس شعبے کو ایک معزز اور فرسٹ کلاس شعبے کے طور پر سامنے لانا ہے۔ یہ پروفیشن نہیں بلکہ 'مشن' ہے۔ ہمیں قارون نہیں بننا، ہمیں ابراہیم بن ادھم بننا ہے۔"
ان کا میٹھا اور پرشفقت لہجہ آج بھی میری سماعتوں میں روزِ اوّل کی طرح زندہ ہے۔
پروفیسر قریشی اسٹیج پر براجمان تھے۔ حسان رضوی، نمرہ اور میں نے اپنے اپنے انداز میں ان کی تعلیم و تربیت کے زیرِ اثر تقاریر کیں۔ میں نے انفرادی قوت پر زور دیتے ہوئے کہا:
"بڑھتے ہوئے جرائم کی روک تھام میں ہر شخص کا انفرادی طور پر حصہ لینا بہت اہم ہے۔ ماں اگر بچے کو غلط رستے پر دیکھے تو صرف مارنے جھاڑنے سے بات نہیں بنتی بلکہ وہ اس کا نفسیاتی تجزیہ کرے کہ اگر بچے نے کوئی چیز چرائی یا کوئی برا فعل کیا تو آخر کیوں؟ اگر ماں پڑھی لکھی نہیں اور غریب ہے تو اسے چاہیے کہ وہ بچپن سے بچے کو یہ سکھائے کہ ہاتھ پھیلانا بری بات ہے، اسے خودداری کا سبق دے، حلال روزی کی عادت ڈالے، اور حرام کمانے والوں کو بے غیرت کہے، تاکہ بچہ اچھا تاثر لے۔ ہمارا آج ہی ہمارا کل ہے، آج کا بچہ کل کا جوان ہے۔"
آخر میں پروفیسر قریشی کو مائیک دیا گیا۔ ہال میں خاموشی چھا گئی۔ ایک آواز تھی، جو خوشبو کی طرح پھیلتی چلی گئی۔
"محبت... محبت سے ہم وہ کر سکتے ہیں جو نمرود نہ کر سکا، فرعون، ہامان نہ کر سکے۔ محبتیں ہمارے پیغمبروں اور اولیائے کرام کی میراث ہیں اور ہمارے لیے صراطِ مستقیم کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ہمارے سامنے کسی انگریز فلسفی یا لامذہب سائیکالوجسٹ کی ریسرچ نہیں، بلکہ ہمارے سامنے محبتوں کے سب سے بڑے امین اور انسانیت کے سب سے بڑے علمبردار حضور ﷺ کی حیاتِ مبارکہ ہے۔ ہمیں ان کے نقشِ قدم پر چلنا ہے۔"
پروفیسر قریشی بڑی روانی سے بول رہے تھے:
"مجھے امید ہے، آس ہے اس دن کی، جب 'خوف' کی جگہ 'محبت' لے گی۔ جب جینے کا خوف، مرنے کا خوف، رونے ہنسنے کا خوف... یہ اعصابی تھکن، یہ دباؤ ختم ہو گا۔ اسلحے کی جگہ محبتیں لے لیں گی۔"
"ہمیں محبت سے لوگوں کو اچھی راہ دکھانی ہے۔ ہم میں سے کچھ کو اگلی صف میں آنا ہے، قربانیاں دے کر۔ آج کی سب سے بڑی نفسیاتی بیماری 'خوف' ہے۔ آج کا انسان 'خوف' کے زیرِ اثر ہے۔ رو رہا ہے، پریشان ہے، چیخ رہا ہے، مگر اس جال سے نکل نہیں پا رہا۔ پیچھے رہ جانے کا خوف، غربت کا خوف، دولت چھن جانے کا خوف۔ یہ خوف ہی بڑھتے ہوئے جرائم کا اصل ذمہ دار ہے۔ اور اس خوف سے نجات صرف یادِ خدا اور اس کی طرف رجوع سے ممکن ہے۔"
پروفیسر یٰسین قریشی اللہ کے محب اور رسول اللہ ﷺ کے عاشق تھے۔ سفید ریش، سرخ و سفید رنگت، سادہ شلوار قمیص پر سفید واسکٹ پہنے، ایک عام دیکھنے والا بھی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہتا۔ سیمینار سے واپسی پر میں یہی سوچتی رہی کہ شاید ایسے ہی اچھے لوگوں کی وجہ سے دنیا قائم ہے۔
علی زوار پر میں تقریباً ایک ہفتے سے کام کر رہی تھی، مگر وہ بہت مشکل کیس تھا۔ کوئی سبجیکٹ اُس وقت مشکل ہو جاتا ہے جب وہ کھلنا نہ چاہے، اور ساتھ ہی علاج بھی چاہے۔ اس روز بھی اس کے آفس سے، اُس کے بارے میں جاننے آئی ایک عمر رسیدہ کارکن خاتون نے، پوچھنے پر بتایا:
"زوار صاحب ایک نیک سیرت بزنس مین ہیں۔ دولت میں خاص دلچسپی نہیں رکھتے۔ آپ اس بات سے ان کی سادگی کا اندازہ لگا سکتی ہیں کہ انہوں نے پندرہ کے قریب فیکٹریاں قائم کیں، لیکن مکمل حساب نہ رکھنے کی وجہ سے اکثر نقصان اٹھایا۔"
پھر ان کے ایک خاص کارکن نے بتایا:
"اصل میں زوار صاحب کسی ایک بزنس میں رکے نہیں۔ اگر وہ کسی ایک فیکٹری پر مکمل توجہ دیتے، تو وہ بہت کامیاب ہو سکتی تھی۔ لیکن وہ ہر سال نئی فیکٹری کا آئیڈیا لے آتے ہیں، جس سے وہ خود بھی پریشان رہتے ہیں اور ہمیں ورکرز کو بھی مشکلات ہوتی ہیں۔ البتہ رحم دل اتنے ہیں کہ پچھلی فیکٹری کے بند ہو جانے پر وہاں کے ملازمین کو نئی جگہ لے آتے ہیں۔ مگر ایک جگہ نہ ٹھہرنے کی وجہ سے ان کا پیسہ، کاروبار اور سب سے اہم چیز — وقت — برباد ہو جاتا ہے۔"
علی زوار کی سیکریٹری نے ہنستے ہوئے بتایا:
"آپ ان کی تھرلنگ کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اس فیکٹری کو دو سال ہوئے ہیں اور میں ان کی دسویں سیکریٹری ہوں!"
مجھے اس کی اصل بیماری کا اندازہ ہو چلا تھا، اور اس کی اینگزائٹی کی وجہ بھی میری سمجھ میں آ چکی تھی۔ اس لحاظ سے میرا سروے کامیاب رہا۔ میں نے ان کی کرنٹ سیکریٹری سے لیے ہوئے پتے پر گاڑی کا رخ کیا۔
سفید ماربل سے بنی محل نما، عالی شان عمارت کے سامنے میں نے گاڑی روک کر اس کے بڑے گیٹ پر بیل دی۔
باوردی ملازم نے گیٹ کھولا۔ گاڑی گیراج میں چھوڑ کر میں اس کے پیچھے پیچھے چلتی ہوئی ڈرائنگ روم میں آ گئی۔
ہر چیز سے امارت اور نفاست جھلک رہی تھی۔ بہت سلیقے سے سنورا ہوا یہ ہال نما ڈرائنگ روم کسی عورت کے ذوق کی عکاسی کر رہا تھا، جبکہ علی زوار کے بقول وہ غیر شادی شدہ تھے۔ شاید کوئی بہن وغیرہ... میں اب ہر چیز کو گہری نظر سے دیکھنے کی عادی ہو چکی تھی۔
کافی دیر کے بعد بہت نفاست سے سجی سنوری، ایک بھاری بھرکم خاتون پردوں کے پیچھے سے نمودار ہوئیں۔
"ہیلو۔" بہت غور سے مجھے دیکھتے ہوئے تفاخر سے کہا گیا۔
"جی، السلام علیکم۔" میں کھڑی ہو گئی۔
"بیٹھیے۔" وہ مخاطب ہوئیں۔
"میں ماہرِ نفسیات فریحہ حسن ہوں، علی زوار صاحب کا علاج کر رہی ہوں۔" میں بیٹھتے ہوئے بولی۔
"اوہ اچھا... مگر آپ تو بہت چھوٹی ہیں۔ اُسے کسی بڑے اور تجربہ کار ماہرِ نفسیات کے پاس جانا چاہیے تھا۔" انہوں نے ناک سکیڑتے ہوئے نخوت سے کہا۔
"آپ غالباً؟" میں نے بات بدلتے ہوئے پوچھا۔
"میں علی کی بہن ہوں، ثمینہ زوار۔ اُس کے ساتھ ہی رہتی ہوں۔" میری بات کاٹتے ہوئے وہ بولیں۔
"شاید سب ہی کنوارے ہیں؟" میں مسکرائی۔ میری رگِ شرارت پھڑکی، لیکن چونکہ بقول ثمینہ صاحبہ کے میں ابھی چھوٹی تھی، اس لیے مزید مسکرانے سے خود کو روک لیا۔
"زوار صاحب نے ابھی تک شادی کیوں نہیں کی؟ کوئی خاص وجہ؟" میں اصل موضوع کی طرف آئی۔
یہ تو علی کا پرسنل میٹر ہے، آپ کو اس سے ڈسکس کرنا چاہیے تھا۔"
وہ شاید جلد اٹھنا چاہتی تھیں۔
"میں ان سے پوچھ چکی ہوں لیکن آپ کے خیال میں؟"
وہ کافی دیر تک سوچتی رہیں۔
"کوئی لڑکی؟ کوئی محبت وغیرہ کا چکر؟" میں نے پوچھا۔
"نہیں، ایسی تو کوئی بات نہیں بلکہ یوں کہیں کہ لڑکیوں سے بھاگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی سے مطمئن نہیں ہوتا۔ چار منگنیاں کر کے توڑ چکا ہے۔ بلاوجہ ہی وہ اچھی بھلی لڑکی بھی کچھ دن بعد اسے بری لگنے لگتی ہے۔ سب ہی اس کی ان عادتوں سے اپ سیٹ ہیں بلکہ آج کل تو وہ خود بھی پریشان ہے۔"
میں اس کی بیماری کی تشخیص کرنے میں آہستہ آہستہ کامیاب ہو رہی تھی۔
"یہ کوٹھی کتنی پرانی ہے؟" میں نے پوچھا۔
"یہ تقریباً ڈیڑھ سال پرانی ہے، اور یہ پہلی بار ہے کہ ہم کسی گھر میں ڈیڑھ سال ٹھہرے ہوں۔ علی اکتا جاتا ہے۔ کہتا ہے ایک جیسا سب کچھ... وہی کمرے، وہی لان، وہی کاریڈور۔ ہر تین ماہ بعد نیا پینٹ کراتا ہے اور ہر دوسرے ہفتے ڈیکوریشن تبدیل کرواتا ہے۔"
ان کے لہجے سے بے زاری جھلک رہی تھی۔
"بلکہ کبھی تو لگتا ہے جیسے مجھ سے بھی اکتا گیا ہے۔ تب میں اپنی بیٹی کے پاس لاس اینجلس چلی جاتی ہوں۔ ہر چھ ماہ بعد نوکر بدل ڈالتا ہے۔ پلیز... اسے ہولڈ کریں۔ اسے نارمل ہونا ہے — میرے لیے، اس گھر کے لیے۔ وہ خود بھی اپ سیٹ ہے۔" ان کی آنکھیں نم ہو گئیں۔
"ٹیک اِٹ ایزی۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔"
بظاہر یہ بیماری بہت چھوٹی سی لگتی تھی، لیکن جونک کی طرح اس سے چمٹ چکی تھی۔ اور نہ صرف علی زوار کو، بلکہ اس کے آس پاس کے تمام لوگوں کو متاثر کر چکی تھی۔ میں پرس اٹھا کر باہر نکل آئی۔
آہستہ آہستہ میں اس کی ذہنی کیفیت پر قابو پا رہی تھی۔ عجیب مقناطیسی آنکھیں تھیں اس کی، اور میری طرف بہت زیادہ توجہ اور نرمی کے ساتھ مائل ہو رہا تھا، بالکل دوسرے مریضوں کی طرح۔ لیکن فرق یہ تھا کہ میں اسے نظر انداز نہیں کر پا رہی تھی۔ بلکہ خود بھی کسی الجھن میں گرفتار تھی۔
کلینک سے واپسی پر میں نے گاڑی پروفیسر یٰسین قریشی کے گھر کی طرف موڑ لی۔ جانے کیوں، شاید کسی بے چینی کی دوا چاہتی تھی۔
پروفیسر قریشی لان میں ہی اخبار پھیلائے بیٹھے تھے۔
"السلام علیکم سر!"
"وعلیکم السلام، آؤ آؤ، آج کیسے وقت نکال لیا؟"
"بس سر..." بہت دن بعد آنے پر میں شرمندہ ہو گئی۔
"کیسا جا رہا ہے مشن؟" سر پوچھنے لگے۔
"ہمیشہ کی طرح اچھا، سر۔" میرے لہجے میں سکون اتر آیا۔
"آپ کیسے ہیں، سر؟"
"خدا کا شکر ہے، بہت شکر۔" ہمیشہ کی سی عاجزی ان کے لہجے میں تھی۔
"ایسے لوگ بھی ہیں جو 'سچے' ہیں..." میں نے دل میں سوچا۔
"اتنے بڑے گھر میں آپ تنہا نہیں ہوتے، سر؟" میں نے کاٹیج کے چاروں طرف پھیلے سناٹے اور ہوکتے ہوئے در و دیوار پر نظر ڈالتے ہوئے پوچھا۔
"تنہا؟" پروفیسر قریشی نے مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ چہرہ روشن کرتے ہوئے کہا،
"اللہ کی ذات پر انحصار کرنے والا کبھی تنہا نہیں ہوتا۔ لگتا ہے جیسے ہمارے وجود میں موجود روح کے ساتھ اور بہت سی محفلیں جمی ہوتی ہیں۔ ہر وقت شکر... ہر حال میں شکر۔ اللہ کی ذات شکر سے اور قریب آ جاتی ہے۔"
پروفیسر قریشی وجد کی کیفیت میں بول رہے تھے۔
"سر! لیکن یہ 'شکر' بہت مشکل ہے۔ شکر قربانی مانگتا ہے، اور قربانی ہنسی خوشی دینا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔"
میری بات پر پروفیسر یٰسین قریشی تھوڑا سا مسکرائے۔
"دیکھو نا فریحہ بیٹے، ہم جتنا کچھ کر رہے ہیں، اللہ کی رضا کے لیے کر رہے ہیں — اور یہ بھی شکر کا ایک طریقہ ہے۔ ہمارے سامنے ایک مشن ہے، اس مشن کو ہم نے اپنی ذات کی قربانیاں دے کر زندہ رکھا ہے۔ یہ مشن اگر ہم آئندہ نسلوں تک منتقل کر دیں، تو یہ ہمارے شکر اور قربانی کی ایک بڑی مثال ہوگی۔"
"یس سر! بالکل، میرے لیے بھی دعا کرتے رہیں کہ میں آپ کا ساتھ دے پاؤں۔"
"آمین، آمین۔" سر قریشی کے لب ہلے اور مجھے لگا جیسے واقعی اللہ قبول کر رہا ہے۔
پروفیسر قریشی کی آواز میں ایک خاص تاثیر تھی۔ ان کے شاگردوں میں سے بہت سے لوگ ایک مشن لے کر نکلے تھے۔
حسان رضوی کہا کرتا تھا:
"اگر میرے بس میں ہو تو ایک ایک ابنارمل شخص کو پکڑ کر لاؤں، اور ایسا دن آئے کہ دنیا اعتماد اور خلوص سے جینا سیکھ جائے!"
وہ خود بھی واقعی جینے کا ہنر جانتا تھا۔ ہر وقت مسکرانے والا، ہر دل عزیز شخص جو بیک وقت کئی ادارے چلا رہا تھا۔
پروفیسر قریشی کی رہنمائی میں "مشن کلینک" ایک خاص اور اہم منصوبہ تھا — جسے ہم سب بغیر کسی معاوضے کے چلا رہے تھے۔ بغیر فیس کے، ہم غریب اور منشیات کے عادی افراد کو نفسیاتی طریقوں سے اس عذاب سے نکالنے کی کوشش کرتے۔
ہم ہر قسم کی تھراپی آزماتے۔
تحلیلِ نفسی (psychoanalysis — کہانی اور ماضی پوچھ کر علاج) میں، میں ماہر تھی۔
نمرہ شاہد ہپناٹزم میں مہارت رکھتی تھی۔
حسان رضوی نے سائیکوڈرامہ (drama therapy) کو سنبھالا ہوا تھا۔
شازیہ بلوچ اور عثمان اکبر نے کنڈیشنگ اور لرننگ تھراپی کا انتخاب کیا تھا۔
ہمارے ساتھ مریم جلیل، ریحان علی اور وسیم یٰسین بھی شامل تھے۔
ہم روزانہ دو دو گھنٹے کی ڈیوٹی "مشن کلینک" میں دیتے۔ ہم نہ صرف مریضوں کا مفت علاج کرتے بلکہ حسبِ استطاعت مالی مدد بھی کرتے۔ ہمارا ساتھ شہر کے بڑے امرا اور نیک دل مخیر حضرات بھی دے رہے تھے۔
اور اگر تمام تھراپی کے باوجود کوئی مریض بار بار پلٹتا، تو ہم اُسے پروفیسر قریشی کی فیلڈ میں لے جاتے — جہاں وہ روحانی طریقہ علاج (Spiritual Methods) سے شفا دیتے۔
عثمان اکبر ہنستے ہوئے کہتا:
"اگر ابلیس بھی مشن کلینک میں آ جائے، تو اتنی تھراپیوں سے گزر کر کندن بن جائے اور عزازیل بن کر واپس اپنی پرانی گدی پر جا بیٹھے!"
پروفیسر قریشی نے یہ سن کر مسکرا کر کہا:
"وہ اللہ کا دھتکارا ہوا ہے، اور اللہ کا دھتکارا ہوا مشن کلینک کے قریب بھی نہیں پھٹکتا، کیونکہ اللہ نے اس کی ڈور ڈھیلی کر دی ہے!"
کبھی کبھی والد صاحب اور والدہ کے درمیان پھیلی ہوئی خاموشی سے مجھے خوف آتا۔
جانے کیسی گرہ ہے، جو کھلتی ہی نہیں۔
بظاہر سب کچھ نارمل، لیکن ایک عجیب سی سرد مہری۔
کبھی سوچتی، ایک ہی بار جھگڑ کیوں نہیں لیتے؟
اپنی اپنی جگہ دونوں مجھے بہت وقت دیتے۔ شاید میں ہی ان دونوں کے تعلق کی واحد کڑی تھی۔
جب سے میں نے ذاتی کلینک کھولا تھا، میں نے ان کے معاملات پر سوچنا کم کر دیا تھا۔
چھتیس سال اس گھر میں رہنے کے باوجود ان کے باہمی تعلق کی اصل گہرائی سے لاعلمی میرے لیے کبھی مسئلہ بن جاتی، لیکن اب مصروفیت ہی میری پناہ گاہ تھی۔
چائے کے ہلکے ہلکے سپ لیتے ہوئے میں انہی سوچوں میں گم تھی۔
ٹائم دیکھا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔
مسلسل ایک ماہ اور دو ہفتے کے علاج کے بعد علی زوار کو "ماڈیزرم" یعنی خانہ بدوشی اور ایک جگہ نہ ٹکنے کی بیماری سے نجات مل چکی تھی،
لیکن اس کے باوجود اس کا اسی روٹین سے کلینک آتے رہنا — میری سمجھ سے باہر نہیں تھا۔
اور میں... میں بھی اس کا انتظار کرنے لگی تھی۔
جب تک میں کسی دوسرے سبجیکٹ پر کام کرتی، وہ آفس میں بیٹھا میرا انتظار کرتا۔
اب میں ایمچور نہیں تھی — بلکہ چھتیس سالہ تجربہ کار ماہرِ نفسیات فریحہ حسن تھی۔
لیکن جانے کیا تھا یہ سب؟
جب وہ کلینک نہیں آیا تھا تو عجیب سا لگ رہا تھا۔
میں گھر واپس آئی تو بوا کلثوم نے بتایا کہ کوئی صاحب آپ سے ملنے آئے ہیں۔
اپنے کمرے میں پرس رکھ کر، لمبے بالوں کی چٹیا میں بل ڈالتی، میں ڈرائنگ روم کی طرف چلی آئی۔
پردہ ہٹاتے ہی مجھے لگا جیسے بہت سارے گلاب میری جھولی میں آن گرے ہوں۔
"السلام علیکم!"
میں نے خود کو سنبھالتے ہوئے کہا۔
"ہیلو، کیسی ہیں؟"
وہ سیدھا میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا۔
"بالکل ٹھیک۔ آج آپ ادھر کیسے آ گئے؟"
میں نے اسے دیکھا— وہاں آنکھیں باتیں کر رہی تھیں۔
مجھے لگا جیسے اس نے مجھے ہیپناٹائز کر دیا ہے اور مجھے اپنے خیالات کے ساتھ وہاں تک لے جا رہا ہے جہاں تک اس کی رسائی ہو،
اور میں اس کے ہیپناٹزم کے زیرِ اثر چلتی جا رہی ہوں۔
سایہ دار سبز درختوں والی ٹھنڈی فٹ پاتھ پر چلتے چلتے میرے کپڑے آگ اگلنے لگے،
لیکن اس کے وجود کے احساس نے گرمی کے احساس سے نجات دلائی تھی،
اور جیسے سرخ گلاب میرے راستے میں بچھ گئے ہوں۔
جی چاہتا تھا ننگے پاؤں اس فٹ پاتھ پر چلتی جاؤں۔
"ہوں..."
کافی دیر کی خاموشی کے بعد اس نے اپنے ہونے کا احساس دلانا چاہا۔
اسے کیا علم کہ اس کے ہونے کا احساس سورج کی پہلی کرنوں کے ساتھ مجھے بیدار کرتا ہے،
اور رات گئے تک میرے کمرے کے پردوں اور کھڑکیوں پر لہرانے والا عکس بھی اسی کا ہوتا ہے۔
وہ شاید میرے چہرے پر سرخ گلابوں کا عکس دیکھ رہا تھا
اور یوں دیکھ رہا تھا جیسے کوئی "انہونی" ہو گئی ہو۔
"اچھا، میں چلتا ہوں۔"
وہ ہنستا ہے۔
میں مسکراتی ہوں۔
وہ ہنستا ہوا اچھا لگتا ہے،
اور میں مسکراتی ہوں اس لیے کہ مسکراہٹ میں ایک ترسانے کی کیفیت ہوتی ہے
اور ہنسی میں نچھاور کر دینے کی۔
نمرہ شاہد اور حسان رضوی نے اچانک "شادی" کا اعلان کرکے دھماکہ کر دیا
اور بقول مریم جلیل کے، اس سے بھی بڑا دھماکہ "لو میرج" کا ہے۔
ہم سب خوش بھی تھے اور حیران بھی۔
اس قدر کام سے کام رکھنے والے اور "لو میرج"... واہ! کیا خوبصورت صورتحال تھی۔
ہم میں سے کچھ لوگ نمرہ کی طرف سے انوائٹڈ تھے اور کچھ حسان کی طرف سے۔
میں جیل روڈ پر کار بھگائے لے جا رہی تھی۔
مدھم آواز میں اسد امانت علی خان گا رہے تھے:
ہر ویلے تانگاں یار دیاں...
مجھے تھوڑا ڈسٹرب دیکھ کر نمرہ نے غور سے مجھے دیکھا۔
"ہیلو؟ کیا چکر ہے؟"
"کیا مطلب؟"
میں بوکھلا گئی۔
میرے کان کے قریب منہ لا کر آہستہ سے بولی:
"کیا بات ہے مائی ڈئیر فریحہ حسن؟
بہت بڑے بڑے آپریشن کرنے والا سرجن بھی بہت پرہیز کے باوجود کبھی کبھی نزلے، زکام کا شکار ہو ہی جاتا ہے۔
آخر 'انسان' ہے نا۔
یہ الگ بات ہے کہ وہ دوسروں کی نسبت جلد سنبھل بھی جاتا ہے... کڑوی دوا کھا کر۔"
"مگر کیا ہوا؟"
"بنو مت! ہمیں دھوکا دیتی ہے بچہ؟
ہم تو دل کا سب حال جانتے ہیں۔"
نمرہ نے ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا اور مجھے واقعی یقین ہو گیا کہ وہ واقعی ہیپناٹزم میں ماہر ہے۔
"شرم کرو، دلہن ہو کے ایسی حرکتیں؟"
میں نے ہنستے ہوئے کہا۔
شازیہ بلوچ اور مریم جلیل اُسے تیار کرنے آئیں تو میں باہر چلی آئی۔
کاشف علی اور عثمان اکبر اسٹیج بنوانے کے لیے ہدایات دے رہے تھے۔
"فریحہ سس! آپ وہاں کھڑی ہیں، ادھر آئیں نا۔ مل کر گیسٹ ڈیل کرتے ہیں۔"
یہ عائشہ تھی، نمرہ کی چھوٹی بہن۔
"ان سے ملیں، یہ نمرہ کی بڑی ڈھیٹ دوست نازش ریاض ہیں، ڈھیٹ اس لیے کہ بچپن سے لے کر اب تک ساتھ ہیں۔"
عائشہ نے مجھ سے نازش کو ملواتے ہوئے کہا۔
"ارے تم کافی ایڈیٹ ہوتی جا رہی ہو، شرم کو میرے کالے بالوں کی۔"
نازش خاصی حاضر جواب تھی، اور اس کے چہرے پر بسی معصومیت اس سے بھی زیادہ خوبصورت۔
مجھے دیکھ کر کافی لڑکیاں اور ٹین ایجر لڑکے میرے اردگرد اکٹھے ہو گئے،
اور میں بہت بردباری سے ہلکی پھلکی مسکراہٹ کے ساتھ ان کی ایک ایک بات کا جواب دے رہی تھی۔
کچھ لوگوں کے ساتھ مسکراہٹ کا تعلق ہوتا ہے— جیسے میرا۔
یہ تعلق بڑا قوی اور توانا ہوتا ہے۔
اگر اس سے آگے نہ بڑھے تو ماند ہونے کا خطرہ نہیں ہوتا۔
بہت سوں نے میرا ایڈریس لیا، فون نمبر اور وقت لیا۔
میں سوچنے لگی کہ اس عمر میں بچے اتنے ابنارمل نہیں ہوتے جتنا محسوس کرتے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں۔
"فریحہ سس! ادھر آئیں نا۔"
عائشہ نے مجھے جھمگٹے میں گھرے دیکھ کر بلایا۔
"نمرہ تو اس طرح کسی بھی تقریب میں زیادہ وقت کسی کو نہیں دیتی۔
اس طرح تو یہ لوگ خوامخواہ ڈسٹرب کرتے ہیں۔"
شانوں تک کٹے بالوں کو پیچھے ہٹاتے ہوئے عائشہ بولی۔
"نہیں بھئی، ہمارا تو مشن ہی یہی ہے کہ لوگوں کو ٹائم دیں اور اچھا ڈیل کریں۔
کوئی بھی یہ نہ سوچے کہ وہ کسی بڑے سائیکالوجسٹ یا کسی بھی فیلڈ میں کسی ’بڑے بندے‘ سے مل نہیں سکتا۔"
میں نے دھیمے لہجے میں اسے سمجھایا۔
"واہ فریحہ سس، واہ۔ یہ مشن وشن کلینک چھوڑ آیا کریں۔
ایمان سے لگتا ہے کہ سارے پاگلوں میں سے ایک اعلیٰ درجے کا پاگل ’سائیکاٹرسٹ‘ بھی ہوتا ہے۔"
وہ ہنستی ہوئی مجھے کھینچ کر باہر لے آئی۔
سب سے زیادہ تھرل شاید اسی عمر میں ہوتا ہے۔
میں مسکرا دی۔
سب سے بھٹکتی ہوئی میری نظر انکل نعمان شاہد (نمرہ کے پاپا) سے باتیں کرتے علی زوار پر جا رکی۔
وہ میری طرف دیکھ کر ہنسا۔
میرے چاروں طرف سرخ گلاب بکھر گئے۔
وہ میری طرف لپکا۔
"آج میں نہیں پوچھوں گا کہ آپ کیسی ہیں؟"
"کیوں؟"
میں حیرانی سے اسے دیکھنے لگی۔
"اس لیے کہ مجھے علم ہے... اور مجھے روبن کا قول یاد آ گیا:
’ایک سچا محب اپنے ساتھی کے نشیب و فراز کو ہی نہیں جانتا بلکہ اسے ان کا تجربہ بھی ہوتا ہے۔‘"
"آپ ڈسٹرب کیوں ہیں؟
میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں ’ٹک‘ گیا ہوں کسی ایک چیز پہ۔
اب اس میں جانے آپ کی شخصیت وجہ ہے یا تھراپی۔"
اس کی آنکھیں پھر سے مجھے ہیپناٹائز کرنے لگیں۔
میں کھسک آئی۔
میں اس سے کچھ خوف زدہ تھی— یا پھر لاشعوری طور پر،
کہ وہ پھر "نوماڈیزم" (خانہ بدوشی) کی طرف نہ مڑ جائے۔
میں اس کے آس پاس رہنے لگی۔
آہستہ آہستہ رگوں میں اترتی ہوئی،
مسکراتی ہوئی،
ترسانے والی کیفیت کے زیرِ اثر— تتلی بنی اس کے آگے بھاگتی رہتی،
اور وہ مجھے پکڑنے کے لیے بے تاب، نچھاور ہوتی کیفیت لیے،
میرے پیچھے بھاگتا ہوا۔
فائزہ زبیر لاس اینجلس گئی ہوئی تھیں۔ ان کی غیر موجودگی میری معاون بنی۔ ناشتے سے لے کر ڈنر تک میں علی زوار کی ایک ایک چیز کا خیال رکھتی۔ اس کا لان سرخ گلابوں سے بھر گیا۔ وہ مجھ سے قریب ہوتا گیا اور "نوماڈیزم" کہیں دور سورج کے ساتھ ڈوب گیا۔
یہاں موسم بدلتے بھی ہیں۔ بارشوں کا موسم بھی آتا ہے جب کنول سراپا پیاس بن جاتے ہیں اور سفید بطخیں اداس ہو جاتی ہیں، تو ایسے میں بارش ہوتی ہے، گہرے سبز درخت کھل کر اور سبز ہوجاتے ہیں۔ گھاس نہاتی ہے۔ پھول ہنستے ہیں۔ آج کل میں بہت مصروف تھی۔ وہی ٹھوس اور مضبوط فریحہ حسن، اپنے مشن پر کام کرنے والی۔
پروفیسر سلیم انور کی سائیکالوجی کے متعلق بہت اہم کتاب کی رونمائی کے سلسلے میں ہم اس ہال میں جمع تھے۔ یہ سرکاری تقریب میں نے اور زین اکبر نے پروفیسر صاحب کے منع کرنے کے باوجود ارینج کر لی تھی۔ شہر کے معززین کے ساتھ علی زوار کو بھی میں نے خاص طور پر مدعو کیا تھا۔ مرزا صاحب بھی آج میرے بہت اصرار پر یہاں موجود تھے۔
علی اپنی تمام تر مردانہ وجاہت اور پہلے سے زیادہ خود اعتماد اور مطمئن چہرے کے ساتھ تقریب میں نمایاں تھا (یا مجھے لگ رہا تھا)۔ مرزا صاحب نے تقریب کے اختتام پر پچاس ہزار روپے کا چیک دیا، جبکہ علی زوار نے ایک لاکھ روپے کا۔ میرا قد اور لمبا ہو گیا۔ میں مائیک پر سب کا شکریہ ادا کرتی اسٹیج سے نیچے اتری۔
یہ تقریب اصل میں "مشن کلینک" کی مزید شاخیں قائم کرنے کے لیے فنڈز جمع کرنے کے لیے بھی منعقد کی گئی تھی، اور یہ ہماری بڑی کامیابی تھی۔
پچھلے دنوں پہلی بار تحلیل نفسی کے ذریعے شیزوفرینیا کے مریض کا علاج کیا تھا، اس لیے بھی میں بہت خوش تھی۔
پروفیسر سلیم انور کے پاس کھڑی انہیں میں اسی سبجیکٹ کے متعلق بتا رہی تھی کہ مجھے اس کی ہنسی کی آواز آئی۔ میں نے مڑ کر دیکھا۔ تقریب میں موجود اس کے پاس کھڑی نازش ریاض مسکرا رہی تھی۔
اگلے روز میں کلینک آئی تو میرے لیے ایک خط رکھا تھا۔ میں نے لفافہ کھولا۔
"میری واپسی عرصوں پر محیط تھی۔ ٹھنڈی فٹ پاتھ نے میرے تلوے جلا دیے تھے۔ کنول کہیں کھو گئے تھے۔ سفید بطخیں کہیں اور کوچ کر گئیں۔ پھولوں کی خوشبو، سیلن اور کلر کی بو بن کر میرے اردگرد پھیل گئی۔"
گھبرا کر میں باہر نکلی اور گھر کی طرف گاڑی کا رخ کر دیا۔ میں نے کار کا ریکارڈ پلیئر آن کرتے ہوئے اپنے طور پر فرار چاہا،
مگر یہاں اسد امانت علی خان کی آواز میرے درد میں اضافہ کرتی رہی:
"پھلاں دے رنگ کالے، سرخ گلاباں دے موسم وچ..."
میرا درد بڑھتا گیا۔
"ننگے پنڈے مینوں چھمکاں مارے تے میرے روندے نین نمانے..."
"جِنیاں تن میرے تے لگیاں، تینوں اک لگے تے توں جانے..."
"غلام فریدا، دل اوتھے دیے جتھے اگلا قدر وی جانے..."
میری آنکھیں جلنے لگیں۔
واہ فریحہ حسن! تم ایک میچور، چھتیس سالہ ماہرِ نفسیات... تم بھی اندر سے موم سے بنی ایک عام عورت نکلیں۔
میں خود کو مضبوط بنانے لگی۔ کئی دن میں نے سوچنے میں لگا دیے۔
میرے فرائض اور ذمہ داریاں ابھر کر میرے سامنے آ گئیں، جنہیں ادا کرنے میں، میں خود کو بڑی اہم نظر آتی۔ ایسے حالات میں اس طرح کی قبولیت اور خود پسندی اور بھی نمایاں ہو جاتی ہے۔
جب دکھ کی ندیا میں ہم نے
جیون کی ناؤ ڈالی تھی
تھا کتنا کس بل بانہوں میں
اور لہو میں کتنی لالی تھی۔
کتنے لوگ بچھڑ گئے۔ پروفیسر سلیم انور جیسا پیارا اور شفقت کا منبع خاک نشین ہوا۔
سحر اور فیصل کراچی میں بچوں سمیت سیٹل ہو کر مشن کی ایک شاخ چلا رہے ہیں۔
زین اکبر ملتان میں ہے۔
عنایا اور نورین شادی کے بعد فیلڈ ہی چھوڑ گئیں۔
میں... میں آج کل خوبصورت ذہن سامنے لا رہی ہوں۔ مجھے لگتا ہے پروفیسر سلیم انور کی روح مجھ میں اتر آئی ہے۔ اسی لیے تو سب بچے جب بے چین ہوں تو میرے پاس مشورہ لینے آتے ہیں۔
کل ایمن زاہد مجھ سے پوچھ رہی تھی کہ اتنے بڑے گھر میں میں تنہا ہوتی ہوں؟
اور میں نے وہی جواب دیا جو پندرہ سال پہلے پروفیسر سلیم انور نے مجھے دیا تھا۔
بس یہ خوشی ہے کہ میری زندگی، بلکہ میری ذات کسی کے کام آئی۔
مگر پھر بھی، کبھی کبھی صرف ایک عورت بن جاتی ہوں، حالانکہ "شکر" کے سارے دروازے میں نے کھول رکھے ہیں۔
پھر بھی مجھے علی زوار کا وہ چند لائنوں کا خط یاد آ جاتا ہے، جو مجھے ازبر ہے، اور جس نے مجھے صبر و شکر کی بہت سی منازل طے کروائیں۔
علی زوار نے لکھا تھا:
**"میں ہرگز نہیں چاہوں گا کہ آپ کو مجھ سے کسی قسم کی کوئی اذیت پہنچے، کیونکہ میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں۔ نہ صرف ایک سائیکاٹرسٹ کے حوالے سے آپ نے میرا علاج کیا بلکہ میرے اسٹینڈ لینے میں آپ میری سب سے بڑی معاون بنیں۔
آپ پر میں نے تجربہ کیا اور کامیاب رہا، کہ بقول آپ کے "نوماڈیزم" اب مجھ سے کوسوں دور ہے۔
پچھلے دنوں مجھے میری پہلی منگیتر اور میری پہلی محبت (یہ میں نے بہت بعد میں محسوس کیا) نازش ریاض مل گئیں۔
میں اب کامیاب ہوں۔ ٹھہرنے والا۔ رکنے والا۔
لیکن سب سے زیادہ میں آپ کا شکر گزار ہوں۔
اب میں اس قابل ہوں کہ نازش ریاض کو پا لوں۔
آپ میری ’’تجربہ گاہ‘‘ بنیں۔
آپ کے لیے بہترین زندگی کی دعائیں۔
امید ہے، عام سائیکاٹرسٹ کا سا رویہ رکھتے ہوئے آپ مجھے اگنور کر دیں گی۔آپ کا شکر گزار،
علی زوار"**
اس روز میری آنکھوں سے آنسو نکل کر "تجربہ گاہ" پر جا گرے تھے،
جو اب اکثر میرے دل پر لکھے، ایک عام عورت کے دل پر لکھے ایک ایک حرف پر گرتے رہتے ہیں…
اور عجیب بات ہے کہ مٹنے کی بجائے یہ الفاظ اور چمکنے لگتے ہیں۔
Post a Comment for "کندن بننے کا سفر"