Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

ہم لوگ


میں نے اس کی بات کو سنجیدگی سے لیا۔ کیونکہ جو لڑکی رشتے جیسے حساس معاملے میں اپنے والدین کی رضامندی کو اہمیت دے، اس کی سوچ اور کردار دونوں ہی مضبوط ہوتے ہیں۔

"ٹھیک ہے ماہین۔۔۔" (میں نے دل میں اُسے ماہین کہنا شروع کر دیا تھا، کیونکہ ثنا رحمان کی جگہ اب وہ میرے دل کی ماہین ارشاد بن چکی تھی)۔
"آپ اپنے والدین سے بات کیجیے، پھر جو فیصلہ وہ کریں، مجھے منظور ہوگا۔"

چند دن گزر گئے۔
مجھے اس کے جواب کا انتظار تھا۔ دل کسی انجانے خوف میں مبتلا تھا۔ نہ ہاں کی امید بندھی تھی، نہ انکار کا یقین۔ ان دنوں دل و دماغ میں عجیب سا شور برپا رہتا۔

پھر ایک شام، دفتر سے واپسی پر مجھے اس کا پیغام ملا۔

"امی اور ابو آپ سے اور آپ کے گھر والوں سے ملنا چاہتے ہیں۔"

یہ سن کر جیسے دل میں عید ہو گئی۔
امی کو بتایا تو وہ تو جھٹ تیار ہو گئیں۔
"اللہ کرے کوئی نیک، شریف، باپردہ بچی ہو، ہمارا عبداللہ تو بس ایک ہی بار دل دے گا، اب کی بار ہم اسے خوش ضرور دیکھنا چاہتے ہیں۔"

اور یوں، کچھ دن بعد ہمارا "صدیقی ہاؤس" جا پہنچا "ارشاد ولا"۔

وہ شام میری زندگی کی روشن ترین شام تھی۔
ماہین کی امی بڑی نرمی اور محبت سے پیش آئیں، اور اس کے ابا جی تو ابا جی سے بہت ملتے جلتے نکلے—سادگی پسند، بااصول اور گفتگو میں وقار۔

چائے کے بعد رسمی سوالات کا سلسلہ ختم ہوا تو میں نے ایک نظر اس پر ڈالی۔ وہ سلیقے سے دوپٹے کو سنبھالے بیٹھی تھی، نظریں جھکی ہوئی تھیں، مگر چہرے کی شرافت اور خامشی سب کچھ کہہ رہی تھی۔

"اللہ نے چاہا تو ہم رشتہ منظور کرتے ہیں۔" اس کے والد نے کہا تو میرے دل نے شکر ادا کیا۔

امی کے چہرے پر رونق تھی، اور بہنیں۔۔۔ وہ جو برسوں سے میرے سہرا سجانے کا خواب دیکھ رہی تھیں، اب خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھیں۔

ماہین ارشاد میری زندگی میں صرف ایک شریک حیات بن کر نہیں آئی، وہ میری محرومیوں کے سب خوابوں کی تعبیر تھی۔ اور "صدیقی ہاؤس" کی رونق اب مکمل ہو چکی تھی۔

گھر والوں سے بات کی جائے۔ میں نے اسی کو بہت جانا اور اب اگلا مرحلہ گھر والوں کو منانا تھا اور نتیجہ غیر متوقع نہ تھا۔

امی اور بہنیں حیران بلکہ کچھ غصے میں نظر آئیں اور اس آزاد اور شتر بے مہار لڑکی سے خائف اور نالاں بھی۔ جس نے ان کے شرمیلے بیٹے کو یوں قابو میں کر لیا تھا کہ وہ اپنا سہرا خود سجانے بیٹھ گیا تھا۔ حالانکہ حقیقت برعکس تھی۔

ابا جی کے تعاون سے ہم سب اِرم شہباز کے گھر گئے۔ وہ تینوں بہنوں اور دو بھائیوں میں بڑی تھی۔ مڈل کلاس فیملی۔۔۔۔ پینشن یافتہ والد صاحب، بھائی چھوٹے اور بہنیں شادی شدہ۔ گھر آ کر سب سخت بد مزا تھے اور مجھ سے خفا بھی۔

"اِرم کا نکاح دو سال رہ کر ٹوٹا ہے، مطلقہ ہے۔۔۔۔" امی کو شکوہ تھا (اس کے نکاح ٹوٹنے کی وجہ لڑکے کا بیرون ملک نیشنلٹی کے لیے شادی کرنا تھا اور یہ بات میرے علم میں تھی)۔

"کیسے ابا جی اور بھائی کے سامنے ٹرالی گھسیٹ کر لائی اور چاۓ بنا بنا کر پیش کرنے لگی، نہ جھجک نہ شرم۔۔۔۔" نائلہ آپا نے منہ بنایا۔

"وہ میری کولیگ ہے آپا، ہم دونوں آفس میں ملتے ہیں۔۔۔۔" مجھے ان کا لہجہ برا لگا۔

"کیا وہ تمہیں روز اسی طرح چاۓ پیش کرتی ہے؟" نائلہ آپا نے آنکھیں نکالیں اور میں سرجھٹک کر رہ گیا۔

"بھائی سے بڑی لگتی ہے۔" ثمن اور ماہم ہزار آپس میں لڑتیں، میری بیوی (ہونے والی) کے متعلق ان کا ایکا مثالی تھا۔ میں نے ابا جی کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھا تو وہ نظریں چرا گئے گویا ان کو بھی اِرم پسند نہ آئی تھی۔ لیکن میں بھی ڈٹ گیا۔ بہنیں میری بغاوت پر کمر کس کر میدان میں آ گئیں۔

"میں اِرم سے ہی شادی کروں گا۔" اِرم نے مجھے کبھی اپنی طرف متوجہ نہ کیا تھا۔ اکسایا نہ تھا۔ بس وہ مجھے اچھی لگی اور اتنی اچھی لگی کہ دل میں بس گئی۔ میں نے احادیث کی کتب سے مثالیں دیں، اسلام کے احکامات بتائے۔

"ارے بھئی ان پاکیزہ ہستیوں سے ہمارا کیا مقابلہ؟" امی توبہ توبہ کر کے پیٹتیں۔

"لوگ کیا کہیں گے؟" بہنیں چلاتیں۔

اِرم پر وہ الزام لگاتیں کہ اگر اِرم سن لیتی تو ایٹمی جنگ کا آغاز ہمارے گھر سے ہوتا۔ بہرحال، وہ اپنے کردار کے متعلق بہت حساس تھی۔

میں اپنی محبت کے محاذ پر تنہا تھا اور جس قلعے پر محبت کا جھنڈا گاڑنا چاہتا تھا، اس کی ملکہ گھر والوں پر فیصلہ چھوڑے بیٹھی تھی۔ اچانک اِرم کی ٹرانسفر ہو گئی اور وہ اپنا اتا پتا بتاۓ بغیر غائب ہو گئی۔ گھر میں اب سکون تھا۔ غیبت، عیب جوئی کے چینلز (بہنوں کے تبصرے) بند تھے۔ امی وظائف میں مصروف۔

ایک روز میں نے سنا کہ میری منگنی ہو رہی ہے۔ پھپھو کی نند کی دیورانی کی بہن۔۔۔ میں سکتے میں رہ گیا تھا۔ ابا جی نے میرا چہرا دیکھا تو مجھے اپنی اسٹڈی میں لے گئے۔

"دیکھو بیٹا! ہمارا با پردہ، دین دار ماحول۔۔۔ وہ لڑکی یہاں نہیں رہ سکتی تھی۔ نسل کی تربیت، اِرم کی جاب، نکاح کا ٹوٹنا، لوگوں کے تبصرے۔۔۔ وہ سب نقصانات گنوا رہے تھے جو اِرم سے شادی کی صورت میں متوقع تھے۔"

"نائلہ اور تمہاری ماں اِرم کے گھر گئیں اور ان کے والدین کو سمجھایا کہ وہ ہمارے بیٹے کو پھنسانے کے لیے اپنی بیٹی کو آگے نہ کریں۔"

"ابا جی!" میں ششدر رہ گیا تھا۔

"اس لڑکی نے ایک غیر محرم کو اپنی طرف مائل کیا ہے۔"

"ایسا کچھ نہیں ہے، اس نے مجھے کبھی آنکھ اٹھا کر نہ دیکھا تھا۔" میں صدمے کے باعث بول نہ پا رہا تھا۔ صرف لڑکیاں مشرقی نہیں ہوتیں، لڑکے بھی مشرقی ہوتے ہیں اور میں اس کا چلتا پھرتا ثبوت تھا، جیتی جاگتی تصویر۔

بعد میں ماہم نے بتایا کہ جب میں بھوک ہڑتال پر تھا تو نائلہ آپا اور امی نے ایمن کو فون پر خوب سنائیں کہ وہ ان کے بیٹے کو ورغلا رہی ہے۔ میں دکھ سے رو بھی نہ سکا (مرد رو نہیں سکتے ناں)۔ میں ایمن سے فون پر بات کر کے اپنی پوزیشن واضح کرنا چاہتا تھا۔ اس کا نمبر بہت مشکل سے ملا۔

"ایمن! میں شرمندہ ہوں کہ..." میں اس سے سب کچھ کہتا گیا، وہ خاموشی سے سنتی رہی۔

"اواب! اگر تمہارے دل میں میری عزت ہے، احترام ہے، تو مجھے اس کا ثبوت دو۔۔۔"
میں سمجھا وہ مجھے کورٹ میرج کا مشورہ دے گی۔ میں بھی بغاوت پر تیار تھا۔

"تم اپنے گھر والوں کی مرضی سے شادی کر لو۔ میں اپنی نگاہوں میں سرخرو ہو جاؤں گی۔ اگر تمہارے دل میں میرے لیے کوئی جذبہ ہے تو مجھ سے کبھی رابطہ نہ رکھنا۔۔۔ میں جاب کرتی ہوں، باہر نکلتی ہوں، تو یہ اعتماد میرے والدین نے مجھے بخشا ہے جس کی میں نے ہمیشہ پاسداری کی ہے۔۔۔ ویسے بھی میری شادی ہو رہی ہے، اور وہ شخص اور اس کا گھرانہ مجھے وہ عزت و احترام دے رہے ہیں جو تم اور تمہاری فیملی کبھی مجھے نہ دے سکتے۔ اور یاد رکھنا۔۔۔"
وہ تھوڑی دیر رکی، میرا پورا وجود کان بن چکا تھا۔ میں ایک لفظ نہ بول سکا۔ اس نے فون بند کر دیا تھا۔

ایمن سے محبت تھی یا اس محبت کی پاسداری، جو میں گھر والوں کے فیصلے پر راضی ہو گیا تھا۔

ساری گلی بقعۂ نور بنی ہوئی تھی۔ میری شادی پر گھر والوں نے سارے ارمان نکالے تھے (اور میرے ارمان!!!)۔

حمنہ فاطمہ بنت حاجی مبشر علی شرعی حقِ مہر کے مطابق میری زندگی میں شامل ہو گئی تھی۔ میرے نکاح میں شرعی طریقوں کی پیروی کی گئی تھی۔ ابا جی نے خود نکاح پڑھایا تھا۔ ولیمہ شاندار ضیافت تھی۔ بہنیں، امی دلہن پر واری صدقے جا رہی تھیں۔ اور میں بالکل خاموش تماشائی بنا یہ سب دیکھ رہا تھا۔

ایمن کا ایک جملہ میرے کانوں میں گونج رہا تھا:

"اواب! مذہب وہ نہیں ہے جو صرف عبادات میں نظر آئے، مذہب تو وہ ہے جو روزمرہ معاملات میں شامل ہو کر تعارف بن جائے۔ پھر لڑکی جو گھر سے فکرِ معاش لے کر نکلتی ہے، وہ بے راہ رو نہیں ہو سکتی۔ ہر لڑکی محبت سے زیادہ عزت چاہتی ہے جو تم نہیں دے سکتے تھے۔ اور مجھے صرف عزت ہی چاہیے تھی، جو تمہارے گھر والے مجھ جیسی 'خود مختار' اور 'آزاد خیال' لڑکی کو نہیں دے سکتے تھے۔"


Post a Comment for "ہم لوگ"