Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

"محبت اور امید کا سفر"



اماں، کچھ سنا آپ نے؟ شازیہ آپا چاند رات نکاح کرنا چاہتی ہیں۔ ہم اتنی جلدی بھلا کیسے انتظامات کر پائیں گے؟ رمضان کے دنوں میں تو ویسے بھی تیاریاں مشکل ہو جاتی ہیں۔ ان کو تو عادت ہے ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی۔ سو بکھیڑے ہوتے ہیں۔ اب بھلا یوں منہ اٹھا کر نکاح کے دو بول تو نہیں پڑھوا دیں گے ناں؟ لاکھ جھنجھٹیں ہوتی ہیں۔ میرے تو ہاتھ پاؤں پھولے جا رہے ہیں۔ آپ منع کر دیں ان کو کہ ہمیں نکاح نہیں کرنا اتنی جلدی۔" سارہ بیگم نے جب سے شازیہ بیگم کا ارادہ سنا تھا تب سے ساس کے سر پر کھڑی جھنجھلاہٹ کا اظہار کر رہی تھیں۔

"ارے سارہ، تم کاہے کو اتنا گھبرا رہی ہو؟ کوئی لمبا چوڑا پروگرام تھوڑا ہی رکھنا ہے۔ دھوم دھڑکا اور شور شرابہ شادی پر کر لیں گے بس گھر کے لوگوں کے سامنے نکاح ہو جاۓ گا۔" نادیہ بیگم نے ملائمت سے بہو کو سمجھایا۔

"چھوٹی ہو یا بڑی، اماں تقریب تو تقریب ہوتی ہے ناں۔ بیٹی کے معاملات میں ویسے بھی سو پنچائتیں نکل آتی ہیں اور۔۔۔"

"کیا ہو گیا بیگم؟" اس وقت احمد صاحب کمرے میں داخل ہوئے اور حواس باختہ سارہ بیگم کو دیکھ کر سوال کیا۔

"ارے بھئی، ہونا کیا ہے؟ آپ کی بہن کو تو عادت ہے شوشے چھوڑنے کی، اب شوشہ چھوڑ دیا کہ چاند رات کو حفصہ اور زید کا نکاح کر دیا جاۓ۔"

"ارے بھئی، تو اس میں اتنا بد حواس ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ تم کون سا گھر میں اکیلی ہو؟ صبوحہ ہے، عائشہ ہیں۔۔۔"

"چپ کریں آپ، عائشہ کا نام اس موقع پر نہ ہی لیں تو بہتر ہے۔ ایک تو آپا نے دماغ خراب کر دیا اوپر سے آپ بھی۔ کر لوں گی میں سب کچھ خود ہی۔" عائشہ کا نام سن کر سارہ بیگم کا غصہ مزید بڑھ گیا اور وہ تنتناتی ہوئی کمرے سے نکل گئیں۔ نادیہ بیگم اور احمد صاحب تاسف سے انہیں دیکھتے رہ گئے۔

نادیہ بیگم اپنے تین بچوں احمد، شازیہ اور عاصم کے ساتھ آبائی گھر میں رہتی تھیں۔ شوہر کا انتقال ہو چکا تھا، اپنی زمینیں اور اپنا کام تھا۔ دونوں بھائی تعلیم سے فارغ ہو گئے تو چھوٹا سا کاروبار اسٹارٹ کر لیا۔ شازیہ نے انٹر کا امتحان پاس کر لیا تو ان کی شادی کر دی گئی اور وہ اپنے شوہر زید کے ساتھ دوسرے شہر شفٹ ہو گئیں۔

احمد صاحب کی شادی سارہ بیگم اور عاصم صاحب کی شادی صبوحہ سے کر دی گئی۔ شازیہ کے دو بیٹے باسط اور زید اور ایک بیٹی عابدہ تھی۔ احمد کا ایک بیٹا اسجد اور بیٹی حفصہ تھی جبکہ عاصم صاحب کی بیٹی عائشہ تھی۔ گھر پر نادیہ بیگم کی مکمل حکمرانی تھی۔

دونوں بہوؤں کی ہر بات مانی جاتی تھی، اور ان کے درمیان کبھی کوئی رنجش یا چپقلش نہیں ہوتی تھی۔ بچے بڑے سب مل جل کر محبت سے رہتے تھے۔ گھر کے تمام فیصلے نادیہ بیگم ہی کرتی تھیں۔ کبھی کبھار شازیہ بیگم بھی آ جاتیں تو مہینہ بھر ٹھہرتیں، گھر میں رونق بڑھ جاتی۔ بچے بھی پھوپھو کے آنے پر بہت خوش ہو جاتے۔ بچوں کی چھٹیاں چار چاند لگ جاتے اور سب مل کر خوب لطف اندوز ہوتے۔ لڑائی ہوتی بھی تو فوراً صلح ہو جاتی۔

ایک دفعہ شازیہ بیگم آئیں تھیں۔ شام کے وقت سب لوگ بڑے سے صحن میں بیٹھے تھے۔ حفصہ چاۓ بنا لائی تھی۔ سب چاۓ سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ وہیں تھوڑے فاصلے پر بچے مختلف کھیل کھیل رہے تھے، ایک دوسرے سے تکرار بھی ہو رہی تھی اور ایک دوسرے کے حق میں بھی ہو رہے تھے۔

"بھابی اور لقمان بھائی، میری ایک خواہش ہے۔" شازیہ بیگم نے چاۓ کا گھونٹ لیتے ہوئے بڑے بھائی اور بھاوج کو مخاطب کیا۔

"کیا بات ہے آپا؟ بولیں۔" سارہ بیگم نے بسکٹ کی پلیٹ ساس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔

"میں چاہتی ہوں کہ باسط کی دلہن عائشہ کو بناؤں اور زید کی حفصہ کو۔ یہ میری خواہش ہے۔ اعجاز، حفصہ، اور اماں آپ لوگ کیا کہتے ہیں؟" شازیہ نے بات مکمل کرکے سب کو باری باری دیکھا۔

"یہ تو بہت اچھی بات ہے، آپا، کہ گھر کے رشتے گھر میں طے ہو جائیں۔ اس طرح رشتوں میں مزید پائیداری آئے گی۔ ہمارے بچے ہیں سارے۔"

"کیوں اماں؟" سارہ بیگم نے خوش دلی سے کہا۔

"بہت اچھا فیصلہ ہے۔ ایسا سوچ کر تم نے عقل مندی کا ثبوت دیا ہے۔ ہمیں کوئی اعتراض نہیں بلکہ ہم بھی عابدہ کو اپنے اسجد کے لیے مانگتے ہیں مگر۔۔۔ میرے خیال میں ایسی باتیں صرف گھر کی حد تک ہوں تو بہتر ہوگا۔" اماں نے دانشمندی سے کہا۔

" مطلب بات تو طے ہے؟" شازیہ بیگم نے خوش ہو کر کہا۔

"مبارک ہو! مبارک ہو!" سب نے ایک دوسرے کو مبارک دی۔

اعجاز احمد اور لقمان احمد نے آگے بڑھ کر بہن کو گلے لگایا۔ حفصہ دوڑ کر فریج سے چاکلیٹ لے آئیں۔ سب ہنس پڑے۔ اس بار واپس جاتے ہوئے شازیہ بیگم بہت خوش تھیں۔

"اس بار میں بہت اچھی یادیں لے کر جا رہی ہوں، بھابی، حفصہ۔" انہوں نے بھاوجوں سے گلے لگا کر کہا۔

"فُوپھو اب کب آئیں گی دوبارہ؟" عائشہ روہانسی تھی۔ اسے باسط کے ساتھ کھیلنا بہت اچھا لگتا تھا۔ باسط بھی عائشہ کا بہت خیال رکھتا تھا۔ سب بچوں کے چہرے اداس تھے۔ قدرتی طور پر سب بچے ایک دوسرے کے بہت قریب تھے۔

شازیہ بیگم خوشگوار یادیں لے کر اپنے شہر لوٹ گئیں۔ وقت گزرتا رہا، انصار صاحب کی اچھی نوکری تھی اور پھر انہیں جاب کی طرف سے آسٹریلیا جانے کا موقع بھی ملا۔ ایک ملک میں رہتے ہوئے شازیہ بیگم اپنے بھائیوں، ماں اور بھاوجوں سے سال بعد ہی ملنے آتی تھیں۔ اب اتنی دور جانے کا سن کر سب لوگ مغموم ہو گئے۔ سب سے زیادہ بچے اداس تھے۔ عائشہ، جو باسط سے بہت قریب تھی، بہت اداس تھی۔ وہ اتنی دور جا رہا تھا۔

"میں تمہارے لیے بہت سارے گفٹ لاؤں گی، عائشہ۔" باسط نے عائشہ کو اداس دیکھ کر اس کا ہاتھ تھام کر افسردگی سے کہا۔

"مگر باسط، گفٹ تو یہاں رہ کر بھی دے سکتے ہو ناں؟" وہ معصومیت سے بولی۔

"یار۔۔۔ ابو نہیں مانتے ناں۔ ضدی ہیں وہ۔" فہد نے جھنجلا کر کہا تو سارہ منہ بنا کر رہ گئی۔ اس کا ننھا سا دل ڈول رہا تھا اور پھر شازیہ بیگم میاں اور بچوں کے ساتھ آسٹریلیا شفٹ ہو گئیں۔ شازیہ بیگم ایسے گئیں کہ پہلی بار چھ سال بعد آئیں۔ جب فہد بیس سال کا تھا، احمد اٹھارہ اور مونا سولہ سال کی تھی۔ شازیہ اپنے سسرال اسلام آباد میں ہی زیادہ رہیں۔ وہیں پر ان کا اپنا گھر بھی تھا۔ اتنے عرصے میں سارہ جو سولہ سال کی تھی میٹرک کر چکی تھی۔ حفصہ میٹرک میں تھی۔ اسجد گریجویشن کر رہا تھا۔ سارہ اور فہد نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ ویسے تو اسکائپ وغیرہ پر بات ہو جاتی تھی مگر اب یوں آمنا سامنا ہوا تھا۔ بلو کلر کے کاٹن کے سوٹ میں لمبے بالوں والی معصوم گڑیا جیسی سارہ فہد کے دل میں اترتی چلی گئی۔ یہی حال سارہ کا تھا۔ دبلا پتلا سا مگر ہینڈسم سا فہد کتنا اچھا لگ رہا تھا۔ دونوں نے ڈھیر ساری باتیں کی تھیں۔ بچے بھی اپنے رشتہ داروں سے واقف تھے۔ حفصہ اور احمد کی آپس میں اتنی نہیں بنتی تھی، دونوں ہی لا ابالی تھے مگر فہد اور سارہ ایک دوسرے پر جان دیتے تھے جبکہ اسجد اور مونا بھی ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے۔ کچھ عرصہ رہ کر وہ واپس چلے گئے۔ کچھ سال گزار کر فہد، مونا اور احمد کی پڑھائی مکمل ہونے کے بعد شادی کرنے کا پروگرام تھا۔ سارہ بہت افسردہ تھی مگر فہد بہت سی امیدیں دلا کر، اچھے اچھے خواب دکھا کر کسی حد تک اسے مطمئن کر گیا تھا کہ چند سالوں بعد تو ہمیں ہمیشہ ہمیشہ ساتھ رہنا ہے اور سارہ روتے روتے شرما گئی تھی۔

وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔ بچوں کے تعلیمی مدارج طے ہو چکے تھے۔ ادھر فاطمہ اور حفصہ شادی کی تیاریاں شروع کر چکے تھے۔ دیکھتے دیکھتے وقت گزر گیا۔ تین بچوں کی شادی کی تیاریاں آسان نہ تھیں۔ یہاں کہ کسی بچے کو بھی باہر جانے میں کوئی انٹرسٹ نہیں تھا اور وہاں انصار تھے کہ کاروبار میں الجھتے جا رہے تھے۔ نجانے کیا کیا مصروفیات تھیں۔ شازیہ بیگم ان کی حد درجہ مصروفیت اور عدم توجہی سے بیزاری کا شکار رہنے لگی تھیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ انصار صاحب میں منفی تبدیلیاں بھی آ گئی تھیں۔ اب ان کی باتوں میں غرور اور تمکنت ہوتی۔ بات بات پر اپنی امارت کا رعب جھاڑتے ان کی نظر میں روپیہ پیسہ اور اونچا اسٹیٹس ہی سب کچھ تھا۔ بعض اوقات شازیہ ان کی باتوں سے ڈر جاتی تھیں۔ وہ انجانے خدشات اور خوف میں گھری رہنے لگی تھیں۔ بچوں سے ذکر کیا تو بچے بھی متفکر ہو گئے۔ ان کو بھی باپ کا رویہ نا مناسب لگتا اور ایک دن وہ سب کچھ ہو گیا جس نے شازیہ بیگم کی ہستی کو بری طرح ہلا کر رکھ دیا۔

"سن لو، میرے ایک دوست کی فیملی ہے یہاں کل ان کے گھر جانا ہے۔ مونا کے لیے اس کے بیٹے کا رشتہ آیا ہے اور ہمیں کل وہاں جا کر بات کرنی ہے۔" الفاظ بم کی مانند شازیہ کے سر پر دے مارے۔

"کیا۔۔۔ کیا کہہ رہے ہو انصار۔۔۔ تم ہوش میں ہو؟"

"کیوں؟ میں نے کیا کہا کہ تمہیں میری دماغی حالت پر شک ہو گیا؟ سب لوگ اچھا رشتہ دیکھ کر ہی شادیاں کرتے ہیں۔" انتہائی سرد لہجے میں کہا۔

"ہاں اور تم کو یہ بات معلوم ہے کہ ہمارے تینوں بچوں کے رشتے ہم نے باہمی خوشی اور رضا مندی سے طے کر دیے تھے۔ ہمارے یہاں رشتے خاندان میں طے ہوتے ہیں اور تم کو بھی یہ بات اچھی طرح معلوم ہے۔ بچپن سے آج تک ہمارے گھر میں ان رشتوں کے حوالے سے باتیں ہوتی رہی ہیں۔ ہم اور ہمارے بچے ذہنی طور پر ان رشتوں پر راضی اور خوش ہیں۔"

"ہم۔۔۔ ہم نہیں؟ میں تو راضی نہیں ہوں۔۔۔ کیا میں اس وقت موجود تھا؟" انصار نے مضحکہ خیز انداز اپنایا۔

"انصار، آپ سے بات کر کے، آپ سے مشورہ لے کر میں نے یہ بات کی تھی۔ اس وقت آپ بھی اس بات پر راضی تھے، خوش تھے اور آپ نے رضا مندی بھی دی تھی۔" شازیہ بیگم کا دماغ گھوم گیا کہ انصار تو بالکل الٹی بات کر رہے تھے۔

"واٹ؟" انصار بدتمیزی سے ان کی جانب دیکھے۔ "حد ہے بیوقوفی کی۔۔۔ فضول اور بے معنی بات کو دل سے لگا کر بیٹھی ہو۔ بے وقوف عورت۔۔۔ میرے نزدیک اس بات کی کوئی اہمیت نہیں اور نہ ہی حقیقت ہے۔"

"انصار، آپ کی نظر میں وہ بات غیر اہم ہو گی مگر میرے لیے عزت کا سوال ہے۔ میرے بھائیوں کی بیٹیاں اور بیٹا میرے بچوں کے نام سے منسوب ہیں۔ میں بھائیوں اور ماں کے سامنے جھوٹی نہیں بن سکتی اور۔۔۔ اور اہمیت اس بات کی بھی ہے کہ ہمارے بچے بھی ان رشتوں پر راضی اور خوش ہیں اور مونا بھی اسجد کو پسند کرتی ہے۔۔۔"

"چپ کرو۔" انصار صاحب نے بیوی کی بات کاٹی۔

"مونا کو وہی کرنا ہوگا جو میں چاہتا ہوں کیونکہ نہ صرف مونا کو اچھا، پیسے والا، پڑھا لکھا لڑکا ملے گا بلکہ اس طرح ہمارے بزنس کو بھی کافی بہتر اور مثبت پوائنٹس ملیں گے۔" انصار اپنا حتمی فیصلہ سنا کر چلے گئے۔

"ماما۔۔۔" مونا جو کمرے کے باہر کھڑی ماں باپ کی باتیں سن رہی تھی، بھاگ کر شازیہ کے پاس آ گئی۔ شازیہ دونوں ہاتھوں میں سر تھام کر رو رہی تھیں۔

"مونا، تمہارا ابو پاگل ہو گیا ہے۔ میں کیا منہ دکھاؤں اپنی بھائیوں کو؟ اتنے عرصے بعد تمہارے ابو کو رشتے میں برائی نظر آ رہی ہے؟ کتنی ترقی، کتنا پیسہ چاہیے ان کو؟"

"ماما، پلیز خود کو سنبھالو۔" مونا بھی ماں کے ساتھ رونے لگی۔ فہد، احمد اور مونا نے کتنا سمجھایا مگر انصار صاحب کی ناں ہاں میں نہ بدلی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی بیٹی کو واپس پسماندگی میں نہیں بھیجیں گے اور فرخ جیسا لڑکا نصیب سے مل رہا ہے۔ شازیہ بیگم سخت ذہنی اذیت کا شکار تھیں۔ مونا کا برا حال تھا، فہد اور احمد بھی پریشان تھے۔ باپ کے ساتھ بدتمیزی بھی نہیں کر سکتے تھے۔ شازیہ بیگم اپنی ماں سے بھی واقف تھیں، اصولوں کی پکی اور زبان پر قائم رہنے والی خاتون تھیں۔ اصولوں پر کبھی بھی سمجھوتہ نہ کیا۔ آنے والے حالات سے شازیہ بیگم سخت ہراساں تھیں کہ کس منہ سے مونا کی شادی اور رشتے کی بات کریں، کیسے کہیں کہ مونا اور اسجد کا رشتہ ختم کر دیا ہے۔ اور نتیجہ عین شازیہ بیگم کی توقعات کے مطابق نکلا۔ سلطانہ بیگم نے سنا تو ہتھے سے اکھڑ گئیں۔

"شازیہ، اب تمہیں اپنی بیٹی کے لیے بھائی کا گھر حقیر لگ رہا ہے۔ تمہارے معیار پر پورا نہ اترنے والا اگر ایسی بات ہے تو ٹھیک ہے، ہم تینوں بچوں کے رشتے ختم کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔" اماں نے ہتمی انداز اپنایا۔

"ارے۔۔۔ ارے اماں، کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ؟ وہ تو صرف اسجد۔۔۔؟" عطیہ بیگم نے ہلکا سا احتجاج کیا۔

"عطیہ، چپ کرو تم۔۔۔ جہاں میری زبان کا پاس نہیں وہاں میرے لیے ان لوگوں کی ضرورت نہیں ہے۔ سمجھ لو، آج سے شازیہ سے ہمارا رشتہ بھی ختم ہو گیا۔" سلطانہ بیگم غصے سے پیچ و تاب کھا رہی تھیں۔

"ارے اماں ایسا نہ کریں؟" صنم نے کچھ کہنا چاہا مگر۔۔۔ اماں کے جاہ و جلال کے آگے وہ چپ سی ہو گئی۔

دوسری جانب، شازیہ کے ساتھ سب سے زیادہ فیصل تڑپ گیا تھا۔ اسے نانی سے یہ امید نہ تھی۔ اس نے بہت کوشش کی کہ بات کرے لیکن اماں جی نے سب کو منع کر دیا کہ اب شازیہ سے کوئی بات نہ کرے۔ ادھر شازیہ بھی رو رو کر بری حالت میں تھی، میکہ چھوٹ گیا تھا، رشتے ختم ہو گئے تھے۔ یہاں سب سے زیادہ اثر مونا پر ہوا تھا۔ اچانک سے سب رشتے ختم ہو گئے۔ فیصل اور اس کا رشتہ ایک پل بھر میں ختم ہو جائے گا یہ تو اس نے سوچا بھی نہ تھا۔ وہ تو بچپن سے لے کر آج تک صرف فیصل کے بارے میں سوچتی آئی تھی، اس کے دل و دماغ پر صرف اور صرف فیصل کا راج تھا۔ اس نے فیصل کو دل کی شدتوں کے ساتھ چاہا تھا۔ فیصل کے ساتھ ساری زندگی گزارنے کے سپنے دیکھتی آئی تھی۔ جبکہ حفصہ پر اتنا اثر نہ ہوا تھا، وہ فطرتاً ہی لاابالی تھی، بلکہ وہ خود مونا کو سمجھاتی اور اس کا دماغ ادھر ادھر لگانے کی کوشش کرتی تھی۔

دونوں امتحانات سے فارغ ہوئیں تو مونا کے لیے اچھا سا رشتہ آ گیا اور تیاریاں شروع ہو گئیں۔ مونا کو یقین ہو گیا تھا کہ سب کچھ بدل چکا ہے، پہلے جیسا کچھ نہیں رہا تھا۔ پرانے رشتے ختم ہو کر نئے رشتے بننے جا رہے تھے، گھر والوں کی خوشی اور رضا مندی کے لیے اس نے خود کو حالات کے سپرد کر دیا۔ گو کہ لقمان صاحب اور اعجاز صاحب بھی بہن سے رشتہ ختم ہو جانے پر افسردہ تھے مگر اماں کے سامنے چپ تھے۔ گھر میں بجھے دل کے ساتھ مونا کی شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں تو اور گھر میں چھایا جمود ٹوٹا اور سب لوگ انتظامات میں لگ گئے۔ جھٹ پٹ رشتہ طے ہوا اور تاریخ بھی طے ہو گئی۔

مونا بھی گزری ہوئی یادوں کو بھول کر نئی زندگی کی شروعات کرنے جا رہی تھی۔ شادی والے دن بھاری بھرکم جوڑے، میک اپ اور جیولری میں وہ غضب ڈھا رہی تھی۔ سارے انتظامات ہو چکے تھے، دلہن والے ہال پہنچ چکے تھے۔ حفصہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ بارات کا انتظار کر رہی تھی۔ لقمان صاحب، اعجاز صاحب اور اسجد خاندان کے کچھ لوگوں کے ساتھ ہال کے گیٹ پر بارات کے منتظر تھے، جبکہ ہال کے اندر عطیہ اور صنم مہمانوں کو دیکھ رہی تھیں۔ ایک طرف سلطانہ بیگم اپنی دلہن بنی بے حد حسین پوتی کو دیکھ رہی تھیں۔ آج ان کا دل بری طرح بھر آ رہا تھا، پوتی کی جدائی کا غم اور ساتھ ساتھ شازیہ کی بھی یاد آ رہی تھی۔ اکلوتی بیٹی تھی، ان کی بظاہر وہ مضبوط تھیں مگر نہ جانے کیوں اندر سے دل دہلا جا رہا تھا۔ انجانا خوف آس پاس منڈلا رہا تھا۔ ہال مہمانوں سے بھر چکا تھا۔ ٹائم گزرتا جا رہا تھا اور بارات کا کوئی پتہ نہ تھا۔ اب تو لقمان صاحب اور اعجاز صاحب بھی سخت تشویش کا شکار ہو گئے تھے۔ کئی بار فون کیا مگر کوئی بھی کال ریسیو نہیں کر رہا تھا۔ عجیب بے چینی اور اضطراب طاری تھا۔ اعجاز احمد اندر باہر ہو رہے تھے۔ اسجد الگ پریشان تھا، صنم کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ انجانے خوف سے دل لرز رہا تھا جیسے نہ جانے کیا انہونی ہونے والی ہے۔

"اماں، بارات آنے اور ہماری کال ریسیو نہ کرنے کا مطلب اچھا نہیں ہو سکتا۔ میرا تو دل دہلا جا رہا ہے۔ مجھے لگ رہا ہے کہ وہ لوگ بارات نہیں لا رہے۔" عطیہ بیگم نے ساس کے پاس آ کر کہا تو سلطانہ بیگم کانپ گئیں۔

"عطیہ ایسی بد فال تو نہ نکالو، کوئی مجبوری ہو گی، کوئی مسئلہ ہو گا، اللہ نہ کرے کہ کچھ برا ہو۔ دیر سویر تو ہو ہی جاتی ہے۔" کہنے کو تو بیگم زہرہ کہہ رہی تھیں مگر اندر سے وہ بھی بہت پریشان تھیں کہ نجانے کیا ہونے والا ہے۔ ادھر فاروق صاحب کے پاس سمیرا کی کال آئی تھی۔ بے تحاشا سسکیوں کے ساتھ اس نے انور صاحب کے انتقال کی خبر دی تھی۔ فاروق آنکھیں پھاڑے منہ کھولے کال سن رہے تھے۔ تسلی کے الفاظ بھی منہ سے نہ نکل رہے تھے۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ خوشی کے اس موقع پر یہ کیا ہو گیا؟

عین آج کے دن انور صاحب کا انتقال۔۔۔ اماں کو یہ خبر کیسے دیں؟ ان کی حالت پر حسان اور ادیب بھی پریشان تھے۔ ابھی وہ اس پریشانی سے ہی نہ نکل پائے تھے کہ ایک اور خبر ملی جس نے سب کے ہوش اُڑا دیے۔ سحر چکرا کر گر پڑیں۔ بیگم زہرہ دل پر ہاتھ رکھے بے ہوش ہو گئیں۔ مونا کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔۔۔ بارات پر فائرنگ ہوئی تھی اور دولہا موقع پر ہلاک ہو گیا تھا۔ اف یہ کیا حادثہ ہو گیا تھا؟ شادی کا ماحول مکمل سوگ میں ڈھل چکا تھا۔ ہر آنکھ اشکبار تھی، ہر چہرہ افسردہ تھا۔ آنے والے مہمانوں نے گھر والوں کو سنبھالا۔ کوئی اسپتال بھاگا تو کوئی ڈاکٹر کو بلا لایا۔ عجیب منظر دیکھنے میں آ رہے تھے۔

"توبہ۔۔۔ توبہ، اللہ پاک محفوظ رکھے مونا کے ساتھ، یہ کیسی بدشگونی ہوئی ہے؟ پہلے رشتہ ختم، انور بھائی کا انتقال اور اب جوان جہان دولہا ختم۔ مونا کے قدم ٹھیک نہیں، اسے خوشیاں راس نہیں۔" یہ منفی رائے اور سوچ عطیہ بیگم کی تھی۔ مونا کو لے کر اسپتال گئے تھے، سحر اس کو سنبھال رہی تھیں۔ فاروق صاحب، حسان اور ادیب دولہا کے گھر گئے تھے۔ مونا بار بار ہوش میں آتی اور اپنے ہاتھوں کی چوڑیاں توڑتی اور پھر بے ہوش ہو جاتی۔ حفصہ بھی بری طرح روتی ہوئی مونا کو سنبھال رہی تھی۔ حالات اچانک اس طرح بدل گئے تھے کہ ہر کوئی پریشان تھا۔ شازیہ اماں سے بات کرنا چاہ رہی تھیں کہ "اماں جس نے آپ لوگوں کا دل دکھایا وہ تو چلا گیا، اب مجھے معاف کر دیں۔"

بیگم زہرہ ماں تھیں، ان کا دل بھی پگھل گیا تھا۔ مونا کے لیے بھی شازیہ بہت روئیں۔ ہونی کو کون ٹال سکتا ہے؟ کبھی اللہ پاک دے کر آزماتا ہے اور کبھی لے کر آزماتا ہے اور بندہ وہی ہے جو اس کی رضا میں راضی ہے۔

خوشیوں میں اس رب کا شکر ادا کرے جس نے خوشیاں عطا کی ہیں اور دکھ میں صبر کرے کہ صبر کرنے والوں کے ساتھ اللہ خود ہوتا ہے۔ یہی حالات مونا کے تھے، اسے پے در پے جن حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا اس کے لیے سخت اذیت کا باعث تھے۔ اس پر عطیہ بیگم کی منفی باتیں اور طنزیہ نظروں سے وہ خوفزدہ رہنے لگی تھی۔ وہ تو اب کھلم کھلا ایسی باتیں کرتیں کہ سحر یا مونا سنتی تو تڑپ جاتیں۔ وقت بہت بڑا مرہم ہے، آہستہ آہستہ بڑے سے بڑے زخموں کو بھی ٹھیک کر دیتا ہے۔ وقت گزرتا رہا، شازیہ کا رابطہ بحال ہو گیا تھا۔ وہ حد درجہ شرمندہ تھیں اور مونا کی جانب سے بھی فکر مند تھیں۔

"ارے آپا شکر کریں آپ۔۔۔ آپ بچ گئیں، اللہ پاک انور بھائی کے درجات بلند فرمائے، انہوں نے صحیح فیصلہ کیا تھا، اللہ کا شکر ہے کہ آپ کی بیٹی اپنے گھر میں خوش ہے، اس کو ذریعہ بنایا یہ رشتہ ختم ہو گیا۔" ایک روز شازیہ نے پرانے رشتے دوبارہ سے جوڑنے کی بات کی تو عطیہ بیگم نے سرگوشیانہ لہجے میں فون پر کہا۔

"میں سمجھی نہیں بھابی!" شازیہ ان کی بات کو نہ سمجھ پائیں۔

"ارے بھئی سمیرا تم بھی بہت بھولی ہو۔ دیکھو بھئی میں بات صاف کرتی ہوں۔ مونا کے قدم منحوس ہیں تم کو یاد نہیں بچپن سے ہی اس کے ساتھ ایسا ہوا ہے، میں نے ہمیشہ سے یہ بات نوٹ کی ہے اور کسی کو نہیں بتائی۔ جس دن وہ پیدا ہوئی تھی اس روز سحر کی دادی کا انتقال ہوا تھا۔ اس کا سوا مہینہ تھا جب سحر کی خالہ کا انتقال ہوا تھا۔ پہلے دن اسکول گئی۔ پہلے دن اسکول گئی تو اس روز ادیب میاں کی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوا، انہیں اچھی خاصی چوٹیں آئیں تھیں اور اب۔۔۔ انور بھائی، اللہ پاک محفوظ رکھے، انہیں کسی کا جوان جہان بیٹا ختم ہوا۔ اس ماں کا کیا حال ہوگا؟ جس کا بیٹا شادی کے دن یوں چلا گیا آپا، سچ پوچھو تو مجھے خوف آنے لگا ہے۔"

"ہاں بھابی آپ سچ کہہ رہی ہیں۔" سمیرا کو بھی ان کی باتوں میں سچائی لگی۔

"ہاں اگر تم چاہتی ہو تو ہم بسیم اور حفصہ کی شادی کر لیتے ہیں، برا نہ ماننا مگر میں نہیں چاہتی کہ میری بیٹی پر اس کا سایہ بھی پڑے۔" عطیہ بیگم نے کہا تو سمیرا چپ ہو گئیں۔

عبرہ کی شادی ہو چکی تھی، وہ وہیں آسٹریلیا میں سیٹ تھی، ادھر اسجد کے لیے بھی لڑکی دیکھی جا چکی تھی۔ مونا کا نکاح بھی شادی سے ایک دن پہلے ہو چکا تھا۔ وہ تو بیوہ ہی کہلا رہی تھی۔ سخت اذیت اور تکلیف دہ حالات کا سامنا کرنا پڑتا، جب لوگ اسے کبھی ہمدردی تو کبھی نفرت کی نگاہ سے دیکھتے، طرح طرح کی باتیں کرتے، وہ خود کو مجرم سمجھنے لگتی، کمرے میں آ کر بے تحاشا روتی۔ حالات نے اسے دوراہے پر کھڑا کیا تھا۔ اوپر سے سمیرا پھوپھو کا رویہ بھی کچھ بدل گیا تھا۔ باسط نے بھی ایک دو بار ہی سرسری بات کی تھی۔

جب برا وقت آتا ہے تو سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے، یہ تو دنیاوی رشتے تھے جو حالات کے ساتھ بدل گئے۔ بیگم زہرہ مونا کو دیکھ کر کڑھتی رہتیں، سحر بھی چھپ چھپ کر روتی رہتی، اور جب سے یہ پتا چلا تھا کہ سمیرا پاکستان آنے والی ہیں اور حفصہ اور بسیم کی شادی کر دیں گی، مونا اور زیادہ ٹوٹ چکی تھی۔ طے یہ پایا تھا کہ سمیرا سیدھا اسلام آباد جائیں گی، وہاں سسرال والوں سے مل کر اپنے گھر کو صاف کروا کر پھر کراچی آئیں گی اور شادی کی تاریخ وغیرہ طے کر دیں گی۔ بیگم زہرہ چاہتی تھیں کہ سمیرا مونا کے لیے بھی بات کرے لیکن۔۔۔ وہ تو بالکل چپ تھیں اور مونا کا ذکر تک نہ کرتیں۔ حالانکہ ابھی بھی بہت سارے لوگ مونا کے لیے خواہش مند تھے، اسے اپنانا چاہتے تھے، مگر مونا نے صاف انکار کر دیا تھا اور سب اس کی طرف سے چپ ہو گئے تھے۔ وہ جن حالات سے گزری تھی وہ بہت تکلیف دہ تھے، یہ بات سب ہی جانتے تھے۔ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا تھا۔ اکثر چاندنی راتوں کو جب دل غم سے بوجھل ہو جاتا تو وہ چھت پر چلی آتی اور چاند کو تکتے تکتے اس کی آنکھیں بھیگ جاتیں۔

ایک بات زرا تم بتلاؤ

جب چاند تمہاری کھڑکی میں

چپکے چپکے سے جھانکتا ہے

جب نیند تمہاری پلکوں پر

دھیرے دھیرے سے آتی ہے

جب رات کی رانی کی خوشبو

سانسوں میں سمانے لگتی ہے

جب جگنو رات اندھیرے میں اپنے پر پھیلاتے ہیں

جب ہر جانب سناٹا ہو اور خاموشی کا راج بھی ہو

جب ساری دنیا سوتی ہو

ہم چاند کو تکتے رہتے ہیں

ایک بات چاند سے پوچھتے ہیں

کیا وہ بھی؟

یاد ہمیں اب کرتا ہے؟

رمضان المبارک کا آغاز ہو چکا تھا۔ سحر اور مونا ہمیشہ رمضان المبارک شروع ہونے سے پہلے ہی عید کے حوالے سے شاپنگ کر لیتے تھے، روزوں میں گھومنا اچھا نہیں لگتا تھا۔ ویسے بھی اب مونا میں پہلے جیسی عید کی خوشی یا تیاریاں کرنے کی کوئی خواہش نہ تھی۔ وہ دل ہی دل میں روتی مگر بظاہر گھر والوں کی حالت دیکھتے ہوئے خود کو کسی حد تک نارمل کر لیا تھا۔ حفصہ کو مونا سے دلی لگاؤ اور ہمدردی تھی جبکہ اسجد کی بیوی ماریہ بھی اچھی تھی۔

نماز ظہر سے فارغ ہو کر مونا قرآن پاک کی تلاوت کرتی اور پھر کچن میں چلی جاتی۔ افطار کے تھوڑے بہت انتظامات کر لیتی۔ اس روز بھی وہ کچن میں جا رہی تھی تب ہی دادی کے کمرے سے آتی ہوئی آوازوں سے معلوم ہوا کہ حفصہ اور باسط کا نکاح ہونے جا رہا ہے اور ساتھ ہی تائی اماں کے مونا کے لیے کہے گئے الفاظ۔۔۔ مونا کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ اللہ پاک میرا سایہ کبھی بھی حفصہ پر نہ ڈالے، وہ ہمیشہ شاد آباد رکھے۔ آمین، دل سے دعا کی اور کچن کی طرف چلی گئی۔

وہ سچ مچ خود کو مجرم سمجھنے لگی تھی، جیسے اب خوشیوں پر اس کا کوئی حق نہ تھا۔ وہ حفصہ سے کٹی کٹی رہنے لگی، مبادا اس کا سایہ حفصہ کی زندگی پر کوئی برا اثر نہ ڈالے۔ عطیہ بیگم، بہو اور حفصہ کے ساتھ مل کر تیاریاں کر رہی تھیں۔ سمیرا بیگم عید سے پہلے آنے والی تھیں، اب ان کا ادارہ مستقل پاکستان میں سیٹل ہونے کا تھا کیونکہ وہاں سے دل بھر گیا تھا۔ اب وہ اپنے لوگوں میں وقت گزارنا چاہتی تھیں۔ رہائش تو اسلام آباد میں ہی تھی، اپنا گھر موجود تھا۔

عشاء کی نماز اور تراویح سے فارغ ہو کر مونا نے حسب معمول سب کے لیے چائے پکائی اور چائے کا کپ لیے بیگم زہرہ کے کمرے میں آ گئی۔ بیگم زہرہ نے اسے اپنے پاس بٹھا لیا۔

"مونا تم نے حفصہ کے نکاح کی تیاری کر لی؟" بیگم زہرہ نے پوچھا۔

"دادو مجھے کیا تیاری کرنی ہے؟" سوال پر سوال کر کے خالی خالی نظروں سے دادی کو دیکھا۔ بیگم زہرہ دکھی ہو گئیں۔

"ویسے دادو میرا نیا سوٹ رکھا ہے پہن لوں گی۔" دادی کو اداس دیکھ کر مونا نے جلدی سے کہا۔ "اور ویسے بھی میں نے کونسا سامنے آنا ہے۔" نا چاہتے ہوئے بھی لہجہ کڑوا ہو گیا۔

"مونا میری جان ایسا نہیں کہتے، کوئی اگر غلط بات سوچتا ہے تو سوچنے دو، یہ اللہ کی طرف سے ہونے والی باتیں ہیں اور ابھی بھی کتنے لوگ ہیں جو تمہیں اپنانا چاہتے ہیں۔ تمہارے لیے رشتوں کی لائن لگی ہے بیٹی۔ میری مانو تو تم اپنے لیے بھی سوچ لو، ہم تمہاری طرف سے بھی بے فکر ہونا چاہتے ہیں۔" بیگم زہرہ کی آواز رندھ گئی تھی۔

"دادو میں ٹھیک ہوں، آپ فکر کیوں کرتی ہیں؟ میں خوش ہوں اور اللہ کی رضا میں راضی ہوں۔" اس نے لہجے کو نارمل بنانے کی ناکام کوشش کی۔

"مگر بیٹا۔۔۔ ہم چاہتے ہیں کہ تم اپنے گھر کی ہو جاؤ۔ عابد کے گھر والے کافی پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ عید کے بعد ہم تمہارے لیے ان کو گھر پر بلوا کر کوئی فیصلہ کر لیں۔"

"دادو جیسے آپ لوگ بہتر سمجھیں۔" مونا نے سر جھکا کر دھیرے سے کہا۔

"میری بچی اللہ پاک آگے تجھے اتنی خوشیاں دے کہ تو سارے دکھ بھول جائے۔ تیرا نصیب ستاروں کی طرح چمکے، آمین۔" بیگم زہرہ نے اسے گلے لگا کر صدق دل سے دعائیں دیں۔

آخر کار چاند رات آ گئی۔ صبح سے ہی عذرا بیگم کی چڑچڑاہٹ اور جھنجلاہٹ عروج پر تھی۔ آج تو گھر کے ہی لوگ تھے، سمیعہ بیگم اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ آ رہی تھیں۔ سلیم عید کے بعد آنے والا تھا۔ مختصر سے لوگوں کی تقریب میں بھی بے حد تیاریاں تھیں، سب لوگ خوش تھے۔ اتنے عرصے بعد سمیعہ بیگم آ رہی تھیں۔ بیگم زہرہ بے چینی سے بیٹی کی منتظر تھیں جبکہ طارق اور فرخ صاحب بھی بے چین ہو رہے تھے۔

حفصہ بے حد خوش تھی، مونا بالکل نارمل تھی، کسی بھی قسم کے جذبات سے عاری۔ حفصہ کے نکاح کا جوڑا، جیولری اور ساری تیاریاں ہو چکی تھیں۔ مونا نے ایک چیز بھی جا کر نہیں دیکھی، وہ تو حفصہ خود لا لا کر ایک ایک چیز دکھاتی تھی۔ حفصہ کی دوستوں نے اور ماریہ نے مل کر رات کو حفصہ کو مہندی لگا دی تھی۔ مونا کچن میں ہی مصروف تھی اور صبح سے ہی وہ جان بوجھ کر کچن کے کاموں میں لگی تھی کہ عذرا بیگم ٹوک نہ دیں۔ افطار سے کچھ پہلے وہ لوگ پہنچنے والے تھے اور نکاح کی رسم افطار کے بعد ہونی تھی۔ افطار میں چند ایک چیزیں رکھی گئی تھیں، کھانا باہر سے آنا تھا۔ نکاح کا انتظام چھت پر کیا گیا تھا۔ مونا لاکھ خود کو مطمئن ظاہر کر رہی تھی لیکن اندر سے دل عجیب کیفیت کا شکار تھا۔ اتنے عرصے کے بعد باسط آ رہا تھا، باسط کو سامنے دیکھ کر کس طرح خود کو کنٹرول کر پائے گی؟ باسط کا کیسا رویہ ہو گا؟ سمیعہ پھوپھو تو اسے منحوس سمجھنے لگی تھیں، یقینا باسط بھی غلط سمجھ رہا ہو گا، تب ہی تو اس نے ایک دو دفعہ بات کی تھی، وہ بھی جب مونا بیوہ ہوئی تھی، عجیب حالات کا شکار تھی۔

افطار سے کچھ دیر پہلے وہ لوگ آ گئے۔ مونا نے کچن کی کھڑکی سے دیکھا، سفید براق شلوار کرتا پہنے باسط بہت اچھا لگ رہا تھا۔ مونا کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ سب لوگ والہانہ انداز میں مل رہے تھے، رو رہے تھے۔ جذباتی مناظر تھے۔ باسط کی بے چین نظریں ادھر ادھر بھٹک رہی تھیں۔ وہ کھڑکی سے دیکھ رہی تھی۔

"مونا کہاں ہے؟" سمیعہ نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے آنکھیں صاف کرتے ہوئے سوال کیا۔

"مونا۔۔۔۔۔۔۔مونا۔۔۔۔۔!" بیگم زہرہ کی آواز پر وہ آ گئی۔ سادہ سے پنک کلر کے کاٹن کے سوٹ میں بڑا سا پرنٹڈ دوپٹہ سر پر ڈالے وہ معصوم سی لڑکی باسط کے دل میں اترتی چلی گئی۔

"میری بچی۔" سمیعہ اس سے لپٹ کر ایک بار پھر رو پڑی۔

"السلام علیکم!" مونا نے باری باری باسط اور بسیم کی طرف دیکھ کر کہا۔ صبوحی نے حیرت اور تاسف سے اپنی بیٹی کی جانب دیکھا کہ کس خوبصورتی سے وہ اپنے اندر کا طوفان چھپا کر مسکرا رہی تھی۔ تب ہی اذان کی آواز آئی اور سب لوگ دستر خوان کی طرف بڑھ گئے۔

مونا جان بوجھ کر کام کے بہانے کچن میں مصروف تھی۔ افطار کے بعد مرد حضرات نماز پڑھنے مسجد چلے گئے، واپسی پر قاضی صاحب کو ساتھ لانا تھا جب تک ماریہ نے حفصہ کو تیار کر دیا۔ حفصہ بہت اچھی لگ رہی تھی، مونا دور دور سے دیکھ رہی تھی۔ مرد واپس آ گئے۔ چھوٹے سے بنے اسٹیج پر حفصہ اور بسیم کو بٹھا دیا گیا، سب لوگ آس پاس تھے۔ باسط بھی پاس کھڑا تھا۔ نکاح کے فارم بھرے جا رہے تھے اور مونا جان بوجھ کر کافی دور کھڑی خود کو کسی نہ کسی کام میں الجھا رہی تھی۔

"ارے بھئی مونا کہاں ہے؟" سمیعہ نے اسٹیج پر بیٹھ کر چاروں طرف دیکھا۔

"مونا یہاں آؤ حفصہ کے پاس بیٹھو۔"

"ارے آپا۔۔۔۔ کیا کہہ رہی ہیں آپ؟" سمیعہ کی بات پر عذرا بیگم جلدی سے آگے آ کر بولیں۔

"مونا کو نہ بلوائیں، یہ نکاح کی رسم ہے، حفصہ بعد میں مل لے گی اس سے۔ میں ایسے موقع پر کوئی بد شگونی نہیں چاہتی۔ آپ کو پتا ہے ناں آپا۔۔۔۔ مونا کی قسمت کیسی ہے اور ایسے موقع پر میں اپنی بچی پر اس کا سایہ نہیں پڑنے دوں گی۔" عذرا بیگم نے سمیعہ بیگم کے کان میں سرگوشی کی تو سمیعہ بیگم زور سے ہنس دیں۔ سب لوگ چونکے کہ یہ کیا کھسر پھسر ہو رہی تھی۔

"ارے بھابی آپ بھی کمال کرتی ہیں، کیسی جاہلانہ اور دقیانوسی سوچ ہے آپ کی جو اللہ کے فیصلوں کو اپنی الٹی سیدھی سوچوں پر رکھ کر کفر کہہ رہی ہیں۔ یہ منحوس سایہ، بد بخت، یہ سب فضول اور جاہلانہ سوچ ہے۔ سارے فیصلے اللہ پاک کے ہوتے ہیں۔ کسی کے ساتھ اچھا برا ہونا، غلط یا صحیح ہونا، اس میں اگر انسانوں کی مرضی ہوتی تو کبھی بھی کسی کا برا نہ ہوتا، ہر کوئی اپنے لیے اچھا کرتا اور اچھا سوچتا۔ ہم سب اللہ کے فیصلوں کے محتاج ہیں۔ یہ ہماری دین سے دوری، کم علمی اور نری جہالت ہے کہ ہم اللہ کے فیصلوں کو انسان سے اس طرح منسوب کر دیتے ہیں کہ جیسے انسان نے اپنے ہاتھوں سے کیا ہے۔ میں ان فرسودہ اور جاہلانہ باتوں کو قطعا نہیں مانتی اور میں نے تو پہلے ہی یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ پہلے میں باسط اور مونا کا نکاح کروں گی اور پھر بسیم اور حفصہ کا۔ میری بڑی بہو ہی اپنی دیورانی لے کر آئے گی۔"

"کیوں اماں؟ بھائی اعجاز آپ لوگوں کو کوئی اعتراض تو نہیں ہے ناں۔ میں بہت شرمندہ ہوں اور آپ لوگوں سے ہاتھ جوڑ کر یہ رشتہ دوبارہ سے استوار کرنا چاہتی ہوں۔" سمیعہ بیگم نے پہلے بھاوج کو لتاڑا اور پھر مڑ کر اماں اور بھائیوں کو مخاطب کر کے ہاتھ جوڑتے ہوئے عاجزی سے سوال کیا۔ سب لوگ حیران اور ششدر سمیعہ بیگم کی بات سن رہے تھے۔ آخری جملوں پر سب کے چہروں پر گیر یقینی کے ساتھ اطمینان بھی آ گیا تھا۔ مونا جو چپ کھڑی پھوپھو کی باتیں سن رہی تھی، بوکھلا کر ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ باسط اس کے پاس آ گیا تھا۔

"سمعیہ تم نے آج ہمارا دل خوش کر دیا بچی۔۔۔"

بیگم زہرہ نے آگے بڑھ کر بیٹی کو گلے لگا کر گویا اجازت دے دی تھی۔ سب لوگ ہی خوش تھے، مونا کو اچانک مل جانے والی خوشی غیر یقینی لگ رہی تھی۔

"بے شرم لڑکی دوپٹہ سر پر تو لے لو۔" باسط کی آواز پر بوکھلا کر جلدی سے دوپٹہ سر پر لے لیا۔ حفصہ نے بھاگ کر مونا کو گلے لگا لیا۔ عذرا بیگم منہ پھاڑے اس اچانک سے بدل جانے والی صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ لقمان صاحب، اعجاز صاحب، عذرا، اسجد اور ماریہ بھی بہت خوش تھے۔

"حفصہ سنبھالو اپنی دیورانی کو لگتا ہے مجھے گھور گھور کر نظر لگا دے گی۔" باسط کے شرارت بھرے جملے پر مونا نے گھبرا کر نگاہیں جھکا لیں۔

"کبھی کبھی حالات یوں بھی بدل جاتے ہیں واقعی میرا رب تو بڑا رحیم و کریم ہے جب چاہے ہماری جھولیوں میں اتنا کچھ ڈال دیتا ہے ایسی خوشیاں دے دیتا ہے کہ ہماری جھولیاں ان خوشیوں کا بوجھ برداشت کرتے کرتے تنگ پڑ جاتی ہیں۔ زندگی میں آنے والے اس خوبصورت موڑ نے سب کے ساتھ ساتھ مونا کو اتنی خوشیاں دے دی تھیں کہ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیسے اپنے رب کا شکر ادا کرے۔

کچھ دیر بعد ہی وہ باسط کے پہلو میں بیٹھی اپنے جملہ حقوق باسط کے نام کر رہی تھی۔ کتنی حسین اور دلکش چاند رات اس کی زندگی میں آئی تھی۔ جہاں سارے بڑے مل کر آئندہ کا لائحہ عمل تیار کر رہے تھے وہیں مونا اور باسط چھت پر بیٹھے ایک دوسرے کے سنگ میٹھی میٹھی اور مدھم سرگوشیوں میں مصروف تھے۔ کل آنے والی عید ان کے لیے کتنی خوبصورت تھی خوشیاں بہاروں کی صورت لوٹ آئی تھیں۔

"ارے دلہن بیگم اگر فرصت مل گئی ہے تو نیچے آ جائیں ہم سب مہندی لگوانے جا رہے ہیں۔" ماریہ کی شوخ آواز پر مونا مسکراتی ہوئی نیچے کی جانب بھاگی اور باسط کھل کر ہنس دیا تھا۔


Post a Comment for ""محبت اور امید کا سفر""