عنوان: "وہ پہلی نظر...!"
کہانی کا ترمیم شدہ آغاز:
"راہِ خلوص میں پیدا دشواریاں نہ کر..."
جب نیت صاف ہو اور دل میں سچائی ہو، تو راستے کی رکاوٹیں صرف امتحان ہوتی ہیں، سزا نہیں۔
یہ بات میں نے اُس دن سمجھی جب میں نے پہلی بار اُسے دیکھا تھا۔
میں، احسن مجتبٰی، شہر کے معروف بزنس مین جناب تابش مجتبٰی کا اکلوتا بیٹا۔ دولت، شان و شوکت اور سہولیات میرے قدموں میں تھیں۔ لاہور کی شاہراہوں پر میں اپنی نئی گاڑیوں کے ساتھ فخر سے گزرتا جیسے دنیا میری قدم بوسی پر آمادہ ہو۔ مگر دل کا غرور، دماغ کی ضد اور آنکھوں کی بے نیازی مجھے اندر سے کھوکھلا کیے جا رہی تھی۔
پنجاب یونیورسٹی میں میرا داخلہ ایک رسم کی طرح ہوا۔ اچھی تعلیم، بہترین نمبر، اور کچھ نہیں تو باپ کا نام ہی کافی تھا۔ پہلے ہفتے میں ہی میں نے یونیورسٹی میں اپنا راج قائم کر لیا۔ میری پرسنالٹی، مہنگے کپڑے، اور ہر لمحہ بدلتا انداز لوگوں کی توجہ کا مرکز بن چکا تھا۔ لڑکیاں میرے ارد گرد ایسے منڈلاتیں جیسے پروانے شمع کے گرد۔ میری ہر بات پر قہقہے، ہر انداز پر واہ واہ!
اور پھر...
ایک دن، وہ آیا۔
پروفیسر کا لیکچر جاری تھا جب ایک دھیمی، مدھر آواز نے خاموشی کو چیر ڈالا:
“سر، میں اندر آ سکتی ہوں؟”
پورا کلاس روم جیسے تھم سا گیا۔
سب نظریں دروازے کی جانب اٹھ گئیں۔
وہ تھی — عالیہ عمران۔
لمبے سیاہ بال، جنہیں اس نے ہلکے سے سمیٹا ہوا تھا۔ اس کی آنکھوں میں ستاروں جیسی چمک تھی، اور چہرے پر ایسی معصومیت کہ دیکھنے والے پل بھر میں خاموش ہو جاتے۔ دایاں گال ایک خوبصورت تل سے مزین تھا — جو اس کی سادگی میں ایک راز سا بُن دیتا تھا۔ وہ کوئی عام لڑکی نہ تھی — وہ ایک مکمل داستان تھی، جو نہ صرف دل بلکہ روح کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیتی۔
میں ساکت تھا۔
پہلی بار، میرا دل دھڑکنے لگا تھا — ایسے جیسے زندگی نے کسی اور رفتار میں دوڑنا شروع کیا ہو۔
عالیہ عمران...
یہ نام جیسے دل میں اتر گیا تھا۔ وہ صرف ایک لڑکی نہیں، ایک مکمل کیفیت تھی، ایک سادہ سا خواب جو آنکھ کھلنے پر بھی ختم نہ ہوتا۔
"آئیے، اندر آ جائیں۔"
پروفیسر نے نرمی سے کہا۔ وہ قدم بہ قدم اندر آئی اور میری ٹھہری ہوئی دنیا کو جیسے ہلا دیا۔ میرے قریب سے گزرتے ہوئے اس کی مہک نے جیسے میرے اندر کی ساری خود پسندی کو شرمندہ سا کر دیا۔ وہ خاموشی سے آ کر میرے سامنے والی خالی کرسی پر بیٹھ گئی۔
میری نگاہوں نے جیسے اس کے وجود کو ازبر کرنا شروع کر دیا تھا۔ میں جانتا تھا، یہ کچھ الگ ہے۔ یہ پہلی نظر عام نظر نہیں۔
لیکچر ختم ہوا، میں یونہی اپنی جگہ جما بیٹھا رہا۔ دوستوں نے کہا:
"چل یار، کیفے چلتے ہیں۔"
مگر میں نے بہانہ بنا دیا۔
دل چاہ رہا تھا اس نئی آنے والی سے بات کرنے کا، بس ایک بار۔
کلاس سے نکلتے ہوئے اس کی کتابیں ہاتھ سے گر گئیں۔ ایک لمحے کا بھی انتظار کیے بغیر میں فوراً آگے بڑھا۔
"یہ لیں، آپ کی کتابیں۔"
میری آواز پہلی بار اتنی نرمی سے نکلی تھی، جیسے خود حیران ہو گئی ہو۔
اس نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا، اور پھر شکریہ کہہ کر ہلکی سی مسکراہٹ دے دی۔
وہ مسکراہٹ... جیسے کسی خزاں زدہ شجر پر اچانک بہار آ جائے۔ میں کچھ پل وہیں کھڑا رہا۔ جیسے وقت رک گیا ہو، یا شاید دل۔
اسی لمحے میں نے فیصلہ کر لیا تھا —
کہ اگر زندگی میں کبھی کسی کو دل دینا ہے، تو وہ صرف اور صرف عالیہ ہوگی۔
دھماکوں سی مسکراہٹ اس کے حسین چہرے پر پھیل گئی۔ وہ کلاس میں قدم رکھ ہی رہی تھی کہ اس کے ٹانگوں کی چاپ سے پہلے ٹک ٹک کی آواز سنائی دی۔ میری نظر بے اختیار اس کی ٹانگوں پر گئی — وہ ایک ٹانگ سے معذور تھی، مصنوعی ٹانگ کے سہارے چل رہی تھی، اور دوسرے ہاتھ میں بلیک اسٹک تھی۔ یہ منظر دیکھ کر دل جیسے رکا سا گیا۔
پہلے تو میں اس کے حسن کے قصیدے پڑھ رہا تھا، پھر یہ حقیقت دیکھ کر شدید بے چینی سی ہوئی۔
وہ عائشہ ناصر تھی، نہ صرف خوبصورت بلکہ بی اے میں گولڈ میڈلسٹ بھی۔ میں نے اسے اپنا حریف سمجھ لیا تھا۔ سوچا تھا شاید وہ بھی میری وجاہت کی قید ہو جائے گی، مگر وہ بے نیازی میں مجھ سے آگے نکل گئی۔
وہ بہت خوش اخلاق اور دوستانہ تھی۔ کہا جاتا ہے کہ حسن کے ساتھ نزاکت بھی آتی ہے، مگر عائشہ میں نہ تو غرور تھا اور نہ فخر۔ چند دنوں میں وہ پورے کلاس میں مشہور ہو گئی۔
میں مرد تھا، اور مردوں کا جذبہ ہوتا ہے کہ وہ عورت کو فتح کریں۔ اور جب یہ خاتون اتنی بے نیاز ہو، تو مجھے اسے جیتنا تھا۔ میں نے میدان جنگ سنوار لیا۔
وہ بینچ پر تنہا نوٹس بنا رہی تھی۔ میں قریب جا کر بیٹھا تو وہ گھبرا گئی۔
"ارے آپ تو یوں گھبرا رہے ہیں جیسے میرے سر پر دو سینگ نکل آئے ہوں، اور دانت ڈریکولا جیسے ہوں!" میں ہنستے ہوئے بولا۔ وہ میری بات پر ہنس پڑی، اور وہ لمحہ ایسا تھا جیسے حسن کا سمندر ہو۔
میں نے کئی بار کوشش کی اسے قریب لانے کی، مگر وہ محتاط تھی۔ اسے کلاس کے فلرٹ کی کہانیاں سننے کو ملی تھیں۔
میں نے مسکرا کر کہا، "عائشہ، کیا ہم دوست بن سکتے ہیں؟"
اس کی آنکھوں میں حیرت اور ناگواری تھی۔
"دوستی؟" اس نے ٹنکارا۔ "مجھے لڑکیوں اور لڑکوں کی دوستی سمجھ نہیں آتی۔ آپ کے اتنے دوست ہیں، پھر مجھ سے دوستی کی ضرورت کیا؟"
اس نے بلیک اسٹک پکڑی اور طنزیہ نظر سے مجھے دیکھا، پھر اٹھ کر چلی گئی۔
میں نے سوچا، "کیا وہ سمجھتی ہے کہ میں کوئی مس ورلڈ ہوں؟" مگر میں مرد تھا، اور مردوں کو چیلنج پسند ہوتا ہے۔ عائشہ میرے لیے ایک چیلنج بن گئی تھی۔
کاغذ سر پر تھے، اور مریم انجم لائبریری میں کتابوں کے درمیان زیادہ وقت گزارتی۔ میری اس سے ملاقات اکثر براۓ نام ہوتی یا اتنی مختصر کہ مجھے اپنی چھوٹی چھوٹی "فنکاریاں" دکھانے کا موقع ہی نہ ملتا۔
نوٹس بورڈ پر پیپرز کی تاریخیں چیک کر رہا تھا کہ میری نظر مریم پر پڑی۔ کافی دنوں بعد وہ مجھے تنہا نظر آئی۔ میں فوراً تیز قدموں سے اس کے قریب پہنچا، جیسے تیز رفتاری سے رکنے والی گاڑی کا زور دار بریک لگتا ہے، جس سے شور مچتا ہے۔ اتنے شور پر اس نے غصے سے مجھے دیکھا اور کچھ فاصلے پر کھڑی ہو گئی۔
"بیس تاریخ کو اکنامکس کا پیپر ہے۔" میں جان بوجھ کر اونچی آواز میں بولا اور نوٹ بک میں لکھنے لگا۔
"پچیس کو کونسا ہے؟" میں نے اس کی نوٹ بک پر پین رکھ کر دیکھا۔
"میرے خیال میں نوٹس بورڈ پر صاف لکھا ہوا ہے۔" مریم چڑ کر بولی۔
"اصل میں میری نظر کمزور ہے،" میں نے معصومیت سے کہا۔
"اچھا، جلدی نوٹ کر لو۔" وہ کوفت میں بولی۔
"ویسے بہت اچھی خوشبو آ رہی ہے، کونسا پرفیوم لگایا ہے؟" میں مذاق کرنے لگا۔
"یہ لیڈیز کا معاملہ ہے، فضول باتیں چھوڑو اور نوٹس جلدی کر لو۔" اس کے چہرے پر ناراضگی چھا گئی۔
"کبھی کبھی فی میل فرینڈ کو گفٹ دینا پڑتا ہے، پرفیوم کا نام بتا دو۔" میں ہنس کر بولا۔
اتفاق سے عثمان اور علی نے پیچھے سے آواز دی، "مریم، کتنی بار نوٹس لکھو گے؟ اب دو بار تو ہمارے ساتھ نوٹ کر کے گئے ہو۔"
میں نے ان پر انگلی رکھ کر خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ مریم شاید سمجھ گئی تھی کہ یہ سب ڈرامہ ہے، اس نے نوٹ بک جھٹک کر اٹھا لی اور ناراض ہو کر چلی گئی۔
"تم لوگوں کو اس کے سامنے بکواس کرنے کی کیا ضرورت تھی؟" میں نے انہیں ڈانٹا۔
"حسن، یہ قابو سے باہر ہے، تمہارا کچھ نہیں بگڑے گا۔" وہ ہنس کر بولے۔
"تم دیکھو، ابھی تو یہ کھیل شروع ہوا ہے۔" میں نے ہار ماننے سے انکار کر دیا۔
اگلے دن ایک واقعہ ہوا جس کی وجہ سے مریم جیسے پکا ہوا پھل میری گود میں آ گری۔
آسمان پر گہرے بادل چھا چکے تھے، ابر رحمت برسنے والا تھا۔ چند لمحوں میں بارش شروع ہو گئی اور ہر طرف پانی ہی پانی ہو گیا۔ سٹوڈنٹس رش میں کوریڈور اور سیڑھیوں پر پناہ لے رہے تھے۔
مریم لائبریری سے نکل کر سیڑھیاں اتر رہی تھی۔ اپنی معذوری کے باعث بہت احتیاط سے چل رہی تھی۔ رش کی وجہ سے اس کا پاؤں پھسل گیا، اور وہ گرنے ہی والی تھی کہ میں نے فوراً اسے بازوؤں میں پکڑ لیا۔
وہ خوفزدہ تھی، جانتی تھی کہ اگر یہ سیڑھیاں گرتی تو شاید دوسری ٹانگ بھی ضائع ہو جاتی۔ اس کی مشکور نگاہیں مجھ پر جم گئیں، اور میں جان گیا کہ میرا کام بن گیا ہے۔
وہ لڑکی جو لڑکے اور لڑکی کی دوستی کے سخت خلاف تھی، میری دوست بن گئی۔ میں اسے قیمتی تحائف دیتا، وہ خوشی سے قبول کر لیتی۔ جب وہ مجھے دیکھتی تو اس کی آنکھوں میں چمک آ جاتی اور میرے بلانے پر اس کے گالوں پر حیا کی لالی چھا جاتی۔ میں اسے بے وجہ تڑپانے کے لیے کبھی کبھار دو تین چھٹیاں لیتا۔ جب یونیورسٹی آتا تو اس کا مضطرب چہرہ دیکھ کر میرے دل کو سکون ملتا۔ میں اسے مزید تڑپانے کے لیے دوسری لڑکیوں سے باتوں میں مصروف رہتا۔ اس کے سلگتے ہوئے گلاب جیسے چہرے کو دیکھ کر مجھے قرار آ جاتا۔ اس کی جھیل سی آنکھیں میری محبت سے لبریز رہتیں، مگر سب کے سامنے میں بے نیاز بنا رہتا کیونکہ میرا مقصد پورا ہو چکا تھا: اپنے فین کلب میں ایک اور ممبر کا اضافہ کرنا۔ اب مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں تھا۔
یونیورسٹی کے دو سال مکمل ہو گئے۔ ہمیں جونئیرز کی جانب سے الوداعی پارٹی دی جا رہی تھی۔ مائلہ ناصر اس قدر خوبصورت لگ رہی تھی کہ جو بھی اسے دیکھتا، اس کے حسن کے قصیدے پڑھتا تھا۔ مگر وہ جس کے منہ سے تعریف سننا چاہتی تھی، وہ خاک میں مل چکا تھا۔ میں جان بوجھ کر اسے اگنور کر رہا تھا۔ سوچ سمجھ کر سٹوڈنٹس کے ہجوم میں گھل جاتا تاکہ وہ مجھے ڈھونڈتے تھک جائے۔ وہ اپنی اسٹک پکڑے میرے پیچھے پیچھے بھٹک رہی تھی اور میں اس کی دیوانگی کا آج آخری دن بھرپور انجوائے کرنا چاہتا تھا۔
"حسن! مائلہ ناصر آج تو غضب ڈھا رہی ہے۔" میرے کلاس فیلو اس کی مدح سرائی کر رہے تھے۔
"ہاں، میں نے بھی دیکھا، وہ (لنگڑی حسینہ) واقعی کچھ کمال کی رہی۔" میری بات پر قہقہے بلند ہوئے اور سب نے ہاتھ پر ہاتھ مار کر خوب انجوائے کیا۔
چند لمحوں بعد مجھے قریب سے ٹک ٹک کی آواز سنائی دی۔ میں جو ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو رہا تھا اچانک رک گیا۔
مائلہ کچھ فاصلے پر کھڑی مجھے دیکھ رہی تھی۔ اس کی سیاہ چمکدار آنکھوں میں آنسو جھلملا رہے تھے۔ اس کے چہرے پر کرب و دکھ واضح تھے۔ شاید نہیں بلکہ یقیناً اس نے ہماری باتیں سن لی تھیں۔
وہ چلی گئی مگر شرمندگی اور پچھتاوے کا عجیب سا احساس میرے دل پر چھا گیا۔ میں اسے ڈھونڈنے اور معافی مانگنے کے لیے پوری یونیورسٹی میں دیوانہ وار گھوم رہا تھا، مگر وہ ایسی گم ہو گئی کہ مجھے نہ ملی۔
اس کی تلاش میں سالوں کی محنت گزرتی گئی۔ اکثر لوگوں سے اس کا فون نمبر اور گھر کا پتہ پوچھتا رہا۔ اسی دوران دو سال کا طویل عرصہ گزر گیا۔
میں نے والد کا بزنس سنبھال لیا۔ دن میں حسن رحمت ملک ایک نامور بزنس مین تھا اور رات کو ناکام و نا مراد عاشق۔ مجھے مائلہ ناصر سے سچی محبت ہو گئی تھی۔ مائلہ نے مجھے، حسن رحمت کو اپنا اسیر بنا لیا تھا۔
راتوں کو سجدوں میں روتے ہوئے، خدا سے دعا کرتا کہ ایک بار اسے ملنے کا موقع دے۔ اس کی آنکھوں میں جھلملاتے آنسو میرے دل کو بے چین رکھتے۔ ایک پل کے لیے بھی چین نہ آتا۔ میرا دل افسوس اور پچھتاوے کے ماتم میں گم رہتا۔ محبت دور کھڑی میرے تڑپنے کا تماشہ دیکھتی اور قہقہہ لگاتی۔
اتوار کو میرا معمول تھا کہ میں جاگنگ کے لیے پارک جاتا۔ دھند کے بادل چھٹتے تو سورج راجہ اپنا دیدار کرواتا۔ لوگوں کی بڑی تعداد نے پارک کا رخ کیا۔ میں پورے پارک کا ایک چکر لگا کر تھوڑا بیٹھ جاتا، پھر تازہ دم ہو کر دوسرا راؤنڈ لگاتا۔
ایک دن میں سنگی بینچ پر بیٹھا تھا، آنکھیں موندے۔ پانی کی بوتل پکڑنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو ایک اسٹک میرے ہاتھ میں آ گئی۔ میں حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ بلیک اسٹک، اسے میں کیسے بھول سکتا تھا؟ میری نظر ساتھ بیٹھی لڑکی کے چہرے پر ٹھہر گئی۔ جتنی حیرت میری آنکھوں میں تھی، وہ لڑکی بھی حیرت سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ کیونکہ وہ لڑکی کوئی اور نہیں، مائلہ ناصر تھی۔
میرا دل خوشی سے جھوم اٹھا، میرے رب نے میری دعائیں سن لیں، میری گمشدہ محبت مجھے واپس مل گئی تھی۔ باتوں باتوں میں اس نے بتایا کہ وہ گورنمنٹ کالج میں لیکچرار بن گئی ہے اور ہر اتوار اپنے ڈرائیور کے ساتھ پارک آتی ہے۔ اس کی باتوں اور آنکھوں میں خفگی صاف نظر آ رہی تھی، وہ میرا مذاق اڑانا آج تک نہیں بھولی تھی۔ وہ اپنی جگہ بالکل صحیح تھی کہ میں نے اس کا دل توڑا تھا، مجھے سزا ملنی چاہیے تھی۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ وہ مجھ سے لڑے، غصہ نکالے، مگر اس نے مجھ سے صرف مختصر سی رسمی بات چیت کی اور چلی گئی۔
اس سے ملنے کی شدت ایسی تھی کہ کئی راتیں نیند سے محروم گزرتیں۔ میں وقت سے پہلے پارک پہنچ جاتا اور جب تک وہ نہ آتی، دل کی دھڑکن بے ترتیب رہتی۔
میرا دل بہت چاہتا تھا کہ وہ پہلے جیسی فریحہ بن جائے، مجھ سے بے تکلف ہو کر باتیں کرے، میری محبت کا جواب محبت سے دے، مگر وہ بہت محتاط تھی۔ بھول کر بھی وہ کسی پرانے موضوع پر بات نہیں کرتی۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا تھا، میں اس کی شخصیت کے نئے پہلو دیکھ رہا تھا۔ خدا نے اسے ایک محرومی دی تھی مگر دوسری بہت سی خوبیاں بھی عطا کی تھیں۔ پارک میں جو غریب بچے چیزیں بیچتے، وہ ان سے بلا وجہ کچھ لے لیتی، بس ان کی مدد کی خاطر۔ وہ بچے دعائیں دے کر اسے خدا کا شکر ادا کرتے۔
اکثر پارک میں ایک غریب عورت اپنا چھوٹا سا معزور بچہ لے کر آتی۔ فریحہ چھوٹے سے پیکٹ میں رقم رکھ کر پورے رازداری سے اسے پکڑا دیتی۔ میرے پوچھنے پر پتہ چلا کہ وہ بچہ پیدائشی طور پر معذور ہے اور فریحہ اس کا علاج کروا رہی ہے تاکہ وقت پر علاج سے وہ ساری زندگی محتاج نہ رہے۔
پہلے میں صرف اس کے حسن کا دیوانہ تھا، اب اس کے کردار کی خوبیوں نے بھی مجھے اپنا دیوانہ بنا لیا تھا۔
فروری کا مہینہ، ویلنٹائن ڈے کا مہینہ شروع ہو چکا تھا۔ پارک میں جگہ جگہ سرخ گلاب کے پھول اور کلیاں بہار کی نوید دے رہے تھے۔ سرخ غبارے جو دل کی شکل میں تھے نوجوان لے پھر رہے تھے۔ کہیں کوئی جوڑا دنیا و مافیا سے بیگانہ دل کی باتوں میں مصروف تھا، تو کہیں کوئی اپنے روٹھے محبوب کو منانے کے لیے گلاب کے پھول پیش کر رہا تھا۔
مجھے بھی کسی روٹھے ہوئے کی یاد شدت سے ستانے لگی۔ طویل انتظار کے بعد اس کا گلاب سا چہرہ دکھائی دیا۔ باتوں ہی باتوں میں ویلنٹائن ڈے کا ذکر چھڑ گیا۔
"آپ اس دن کے حوالے سے کیا رائے رکھتی ہیں، فریحہ؟" میں پرجوش ہو کر پوچھا۔
"میں نہیں سمجھتی کہ اس دن کو منانا برائی ہے، ہاں اگر کوئی برائی ہے تو وہ ہے سوچ کا غلط ہونا۔" وہ بغیر میری طرف دیکھے بولی۔
ٹھنڈی ہوا اس کے حسین چہرے کو چھوتی تو اس کی شرارتی لٹ بار بار اس کے گلابی گالوں پر آ جاتی، جسے وہ ادا سے ہٹاتی اور میں گھائل ہو جاتا۔
"سوچ کی غلطی۔۔۔ کچھ سمجھا نہیں؟" میں تجسس سے بولا۔
"دیکھیں، اس دن کو صرف بوائے فرینڈ یا گرل فرینڈ کے ساتھ مخصوص کرنا غلط ہے۔ اگر یہ دن محبت کا ہے تو ہماری زندگی میں بہت سے رشتے ایسے ہیں جو محبت اور توجہ کے حقدار ہیں۔ ہمارے ماں باپ، بہن بھائی بھی اس محبت کے حق دار ہیں کہ ہم اپنی مصروفیت میں اُنہیں بھول جائیں۔"
انہیں اگنور کر دیتے ہیں، سارا سال کام کام اور بس کام میں کھوۓ رہتے ہیں۔ ان کے ساتھ محبت کا یہ دن منائیں، انہیں گفٹ دیں، ان کے لیے وقت نکالیں اور ان سے محبت کا اظہار کریں جو کام کے بوجھ تلے دن رات دب کر ماند پڑنے لگتی ہیں۔ میرے نزدیک یہی ویلنٹائن ڈے ہے۔
کئی دفعہ میں سخت حیران ہوتی ہوں کہ یہی جذباتی سے نوجوان لڑکے لڑکیاں جو ویلنٹائن ڈے پر اپنی جذباتی محبت کے اظہار کے لیے جان دینے کے درپے ہوتے ہیں کہ اگر ہم نے یہ دن نہ منایا تو محبت میں بڑے بےوفا کہلائیں گے، انہی میں سے کسی جوڑے کی شادی ہو جاتی ہے تو پھر شادی کے بعد یہی دن ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ وہ یوں روکھے اور بے حس بنے ہوتے ہیں جیسے اظہار محبت کی ضرورت صرف شادی سے پہلے ہوتی ہے۔ "اب تو ہم تھک چکے ہیں، اور محبت تو اظہار کے پانی سے پلتی پھولتی ہے ورنہ مرجھا جاتی ہے۔"
وہ بولتی جا رہی تھی اور میں دیوانوں کی طرح اسے دیکھتا جا رہا تھا۔ اس کی سوچ کا مثبت پہلو مجھے دیوانہ بنا رہا تھا۔ وہ میری دیوانگی سے بے نیاز ادھر ادھر کے مناظر میں کھوئی ہوئی تھی۔
"باجی، یہ پھول خرید لیں، میرے گھر میں کھانے کو کچھ نہیں، میری مدد کر دیں۔" چھوٹی سی بچی فریحہ سے مخاطب تھی۔
اس نے ایک لمحے کے لیے سوچے سمجھے بغیر پھول خرید لیے۔ میرا دل اس کی عظمت کے گن گا رہا تھا، مگر اچانک حسد اور جلن کے زہریلے ناگ نے اسے زور سے ڈسا کہ زہر میرے پورے جسم میں پھیلنے لگا۔ یہ میری پرانی عادت تھی، مجھ سے اپنی جلن چھپتی نہیں۔
"یہ پھول کس کے لیے ہیں، فریحہ؟" میری آنکھیں سلگ رہی تھیں اور دل میں ہزاروں اندیشے تھے کہ شاید اس کی زندگی میں کوئی اور آ چکا ہے۔
"اپنی ماں اور بہن کے لیے۔" اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا اور چلی گئی۔ اس کے جواب پر حسد و جلن کے زہریلے ناگ نے مجھے اپنی گرفت سے آزاد کیا۔
حسن اتفاق سے اگلا اتوار ویلنٹائن ڈے تھا۔ میں نے اپنے اور فریحہ کے درمیان ہر دیوار گرانے کا فیصلہ کر لیا۔ میں جانتا تھا کہ وہ آج بھی مجھ سے محبت کرتی ہے مگر ابھی تک ناراض ہے کیونکہ جس سے محبت ہوتی ہے، اس کی چھوٹی چھوٹی باتیں بھی بہت محسوس ہوتی ہیں۔ میں نے فریحہ کا دل دکھایا تھا، اب اسے منانا چاہتا تھا۔ محبت کے سفر میں تنہا چلتے چلتے میں تھک چکا تھا، اس لیے رسم محبت کا تقاضا ہے کہ اپنے اپنے حصے کا بوجھ خود اٹھائیں۔
میں نے ڈھیروں گلاب، تحائف، چاکلیٹ خریدے اور پارک پہنچ گیا۔ پورا پارک گلاب کے پھولوں اور ہارٹ شیپ کے غباروں سے دمک رہا تھا۔ میں نے بے دلی سے گراؤنڈ کے دو چکر لگائے، مزید لگانے کا میرا کوئی موڈ نہیں تھا۔
"بھڑ میں جائے فٹنس!" بے قراری سے ٹہلتے ہوئے میں ہر وقت اس کا منتظر تھا۔ ایک ایک منٹ میں سو بار گھڑی دیکھتا، دل مضطرب ہوتا جا رہا تھا۔
اس کے انتظار میں میری آنکھیں پتھر ہو گئی تھیں، دل میں اس کے آنے کی دعائیں تھیں۔ انتظار طویل ہوتا جا رہا تھا، وہ نہ آئی۔ میرا اضطراب بڑھنے لگا۔ مجھے خود پر غصہ آ رہا تھا کہ اتنی دفعہ ملاقات ہوئی، میں نے اس سے فون نمبر تک نہ مانگا۔ وہ دو دن میرے لیے سخت اذیت کا باعث تھے۔ ساری رات جاگتا رہتا اور سگریٹ پیتا رہتا۔ والدین میرے رویے پر حیران اور ملازم پریشان تھے۔ میں سخت چڑچڑا ہو رہا تھا۔ مجھے اگلے اتوار کا بے چینی سے انتظار تھا۔
اس دوران والدین نے رشتے کی بات چھیڑ دی۔
"بیٹا! زہرا بہت اچھی لڑکی ہے۔" ماما نے نرمی سے سمجھایا۔
"مجھے شادی نہیں کرنی۔" میں بیزاری سے بولا۔
"مگر کیوں بیٹا؟" پاپا بھی حیرت سے بولے۔
"بس، میں آپ کو کچھ نہیں سمجھا سکتا۔" میں اکتاہٹ سے کہتا ہوا اپنے کمرے میں چلا گیا۔
"کسی کو میرا خیال نہیں، مرنے دیں مجھے تنہا۔" میرا دل بے قرار ہو رہا تھا۔ سب میرے سخت ردعمل پر حیران تھے۔
اگلے اتوار میں پارک پہنچا، دل ہی دل میں دعا کر رہا تھا، بے دلی سے پارک کے چکر لگا رہا تھا۔ میری پتھرائی ہوئی آنکھیں مین گیٹ کی طرف لگی تھیں۔ محبت کے غم نے مجھے دیوانہ مجنوں بنا دیا تھا۔ اضطراب حد سے زیادہ بڑھ رہا تھا کہ اچانک میری دعائیں قبول ہوئیں اور محبوب کا روٹھا ہوا چہرہ سامنے آ گیا۔
میں دیوانوں کی طرح اس کی طرف لپکا، راستے میں چند لوگوں سے ٹکرا گیا۔
"اندھا ہو، نظر نہیں آتا؟" وہ مجھ پر جھنجھلا کر بولی۔
کیا بتاؤں، اندھا نہیں ہوں مگر محبت نے مجھے اندھا بنا دیا ہے۔ معافی مانگ کر میں جان بچا سکا۔ عندیہ میری حالت پر ہنس رہی تھی۔ عورتوں کے ہاتھوں میری دھلائی دیکھ چکی تھی، وہ میری دیوانگی پر مسکرائی۔
"اتنے دن کہاں تھے؟ خیریت تھی گھر میں؟ تمہارا فون نمبر بھی نہیں تھا، پتہ کر لیتا۔" پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ میں نے سوالات کی برسات کر دی۔
وہ مسکرا رہی تھی، جواب دینے کی بجائے بینچ پر بیٹھی گئی۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ پہلے سے زیادہ خوش اور تازہ دم لگ رہی تھی۔
"تم نے بتایا نہیں کہ اتنے دن کہاں تھیں؟" میں نے استفسار کیا۔ میری نظر اس کی گلابی ہتھیلیوں پر رک گئی جن پر مہندی کی خوبصورت نقشہ کاری تھی۔ دل ڈوب گیا۔ شک کے زہریلے بچھو نے مجھے ڈسا، میں لرز گیا۔ دل چاہا کہ اسے جھنجوڑ دوں، کہ میں پچھتاوے کی آگ میں جل رہا ہوں، تم سے معافی مانگنے کے لیے بے چین ہوں اور تم شادی کر کے بیٹھی ہو۔ پر میں نے ضبط کیا اور چپ چاپ بیٹھا رہا۔
"کس کے ساتھ آئی ہو؟" میں زہریلے لہجے میں پوچھا اور اس کے مہندی والے ہاتھوں پر زہریلی نظر دوڑائی۔
"ڈرائیور چھوڑ کر گیا ہے۔" اس نے مختصر جواب دیا۔
دل چاہ رہا تھا کہ سوچوں یہ اس کے شوہر کا ڈرائیور ہوگا۔
"اتنے دن کیوں نہیں آئی تھی؟" تجسس کے مارے ایک سوال بار بار دہرا رہا تھا۔
"فاطمہ کی شادی تھی۔" اس نے جواب دیا۔ اس جواب نے میری روح کو سکون دے دیا۔
"مگر زہرہ تم بڑی ہو، پھر چھوٹی بہن کی پہلے شادی؟" میں نے ہلکے پھلکے انداز میں سوال کیا کیونکہ اب مجھے اطمینان ہو چکا تھا۔ میرے سوال پر زہرہ کے چہرے پر سنجیدگی اور غم نمایاں ہونے لگے۔ اس نے ایک گہری نگاہ مجھ پر ڈالی۔ آج بہت عرصے کے بعد اس نے میری طرف دیکھا تھا اور اس کی آنکھوں میں نمی تیر رہی تھی۔
"مجھ لنگڑی حسینہ سے کون شادی کرے گا؟"
اس نے دکھ بھرے لہجے میں میرے الفاظ دہرائے۔
میں شرمندگی کے سمندر میں ڈوبنے لگا۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا، وہ آنسو صاف کرتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی، مگر اچانک بری طرح لڑکھڑا گئی۔ میں نے آگے بڑھ کر اسے سہارا دینا چاہا، لیکن اس نے غصے سے میرا ہاتھ جھٹکا اور آبدیدہ سی چلی گئی۔
واقعی میں نے اس کا دل بہت زخمی کیا تھا۔ صرف اپنی انا کی تسکین کے لیے اس کی عزت نفس کو مجروح کر ڈالا تھا۔ اب میرا فرض تھا کہ اس کے کرب کا ازالہ کروں۔
ماما پاپا کو میرے فیصلے کا علم ہوا کہ میں ایک معذور لڑکی کو اپنی شریکِ حیات بنانا چاہتا ہوں تو انہوں نے مجھے اپنا فیصلہ دوبارہ سوچنے کا کہا۔
"حاشر بیٹا، ایک بار پھر سوچ لو، زندگی کے کسی موڑ پر پچھتاوا نہ ہو۔ مرد تو مکمل بیوی میں خوبی نکال لیتا ہے، اور وہ معذور ہے۔" ماما نے کہا۔
اب میں انہیں کیا بتاتا کہ پہلے ہی غلطی کی وجہ سے پچھتاوے کی آگ میں جل رہا ہوں۔ اگر یہ موقع بھی ہاتھ سے نکال دیا تو شاید وقت دوبارہ رحم نہ کرے کہ روٹھے ہوئے محبوب کو منا سکوں۔
"میں شادی کروں گا تو زہرہ سے، ورنہ ساری عمر تنہا گزار دوں گا۔" میں نے اپنا آخری فیصلہ سنایا۔
میں ماما پاپا کو لے کر اچانک اس کے گھر پہنچ گیا۔ اسے دیکھ کر وہ چند لمحوں کے لیے خاموش رہی اور پھر اپنے کمرے میں چلی گئی۔
سب بڑے اپنی باتوں میں مصروف تھے۔ میں بھی چپکے سے اس کے پیچھے گیا۔ وہ مجھے دیکھ کر گھبرا گئی۔
"زہرہ، مجھے معاف کر دو، میں تمہارا مجرم ہوں، تمہارا دل دکھا کر ایک لمحہ بھی سکون سے نہیں گزارا۔" میں نے کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کیا۔
"سوچ لو حاشر! زندگی کا سفر اتنا آسان نہیں ہے۔ میں معذور ہوں، تمہارے ساتھ قدم سے قدم ملا کر نہیں چل پاؤں گی۔" اس کی جھیل سی آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔
"تو ٹھیک ہے، زہرا! اگر تم تیز نہیں چل سکتی تو میں اپنی رفتار آہستہ کر لوں گا۔" میں نے محبت بھرے انداز میں کہتے ہوئے اس کے موی ہاتھ تھام لیے۔ اس کے چہرے پر شرمگیں مسکراہٹ پھیل گئی، گلابی چہرہ کھل اٹھا تھا۔ دو ہفتے بعد ہی وہ دلہن بن کر میرے گھر آ گئی اور اب تو شادی کو بھی چھ سال ہوگئے ہیں۔
اب میں یہ دن ہر سال اپنی بیوی زہرا خان کے ساتھ بے حد محبت سے مناتا ہوں۔
اگر آپ کا بھی کوئی پیارا روٹھا ہوا ہے یا جسے آپ اپنی مصروفیت میں اگنور کر جاتے ہیں، جس کی منتظر نگاہیں آپ کے لیے ہوتی ہیں، تو پھر کر لیں تجدید وفا؛ سنہری موقع ہے۔
اور ہاں، یہ گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کے چکر سے نکلیں کیونکہ محبت کا دن سب کے لیے ہوتا ہے۔
اجی، پہلے سے تیاری کر لیں کہ کس کے سامنے کس طرح اظہار محبت کرنا ہے، اپنے تیر اور نشتر الفاظ سے جن کا دل دکھاتے ہیں انہیں منا لیں۔ ایک طریقہ تو میں نے سکھا دیا ہے، آگے آپ خود سمجھدار ہیں کیونکہ دکانیں گلاب کے پھولوں، ہارٹ شیپ کے گفٹس اور چاکلیٹ سے سجنے والی ہیں۔
محبت تو گلاب کی مانند ہے، جس کی خوشبو دل و نظر کو معطر کر دیتی ہے۔ میں جب بھی زہرا کے گلابی چہرے کو دیکھتا ہوں تو میرا دل گنگنا اٹھتا ہے۔
محبت اک حسین خواب سی ہے
مگر
تیرے حسین چہرے کو دیکھا
تو دل بے اختیار کہہ اٹھا
محبت...
ہاں، محبت گلاب سی ہے۔
Post a Comment for "محبت گلاب سی ہے۔"