Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

"کاش کسی نے سنا ہوتا"

 




                                                                                                      "ہم نہ ہوتے تو کسی اور کے چرچے ہوتے،
                                                                                                              خلقتِ شہر تو کہنے کو فسانے مانگے۔"

نایاب بی بی، آج پھر اپنی نم آنکھوں کے ساتھ چھت پر بیٹھی تھیں۔ بارش کے بعد بھیگی ہوئی فضا میں بھی ان کے اندر کا صحرا سوکھا کا سوکھا تھا۔ کبھی کبھی وہ سوچتی تھیں کہ زندگی اگر واقعی ایک کتاب ہے، تو اس کے کچھ صفحات کیوں اتنے تاریک اور سیاہ ہوتے ہیں؟

نایاب، ایک پڑھے لکھے، مہذب اور متوسط گھرانے کی بیٹی تھی۔ ماں باپ بہت محبت کرنے والے، بہن بھائی ہمدرد — سب کچھ مکمل، سوائے قسمت کے۔ وہی ایک "نادانی" جو جوانی کے ابھرتے لمحوں میں ہوئی، پوری زندگی کی سزا بن گئی۔ وہ نادانی جسے دنیا "محبت" کہتی ہے۔

مگر نایاب نے جان بوجھ کر محبت نہیں کی تھی۔ وہ کوئی ناولوں کی ہیروئن نہیں تھی، نہ ہی اسے کسی "اسامہ ملک" یا "دل آور شاہ" کی تلاش تھی۔ وہ تو بس دل کی زمین پر پڑنے والی پہلی بارش میں بھیگ گئی تھی، اور اس کا نام تھا کرار حسین شاہ۔ ایک سادہ، باوقار، نرم گفتار اور علم دوست لڑکا۔ نہ بہت خوبصورت، نہ مالدار، بس دل کا اچھا۔ نایاب کو اس کی سچائی سے محبت ہوئی، اور پھر یہ محبت ایسا زخم بن گئی جس پر کبھی مرہم نہیں رکھا گیا۔

گھر والوں نے اس محبت کو جرم بنا دیا۔ ایک نادانی تھی، سو سب بھول گئے، مگر وہ نہیں۔ ماں، جو اکثر سوتی جاگتی اوقات یاد دلاتی تھی۔ باپ، جو چپ رہ کر بھی لفظوں کے نیزے مارتا تھا۔ بھائی، جو عزت کے بوجھ تلے خود کو قاضی سمجھنے لگا۔ اور بہنیں، جو کبھی ہمدردی سے اور کبھی حقارت سے اسے دیکھتیں۔ مگر وہ سب "سگے" تھے۔

اور نایاب؟ وہ محبت کے جرم میں مجرم بن گئی۔ نہ کوئی گواہ، نہ کوئی وکیل، بس عمر قید سنائی گئی — بے عزتی، الزام، شک، اور تذلیل کی۔

زندگی بھر اس نے خود کو ثابت کرنے کی کوشش کی، لیکن زمانہ بھول گیا، گھر والے نہیں۔ شازیہ چوہدری نے لکھا تھا کہ "زمانہ بھلکڑ ہوتا ہے"، شاید واقعی! لیکن نایاب کی قسمت میں ایسے ذہین نقاد لکھے گئے تھے جو ہر دن اس کی پرانی غلطی کو تازہ کرتے رہے۔

اور آج، کئی سال بعد، جب دل میں حسرتوں کی آگ تھک چکی تھی، تو وہ تھکن نایاب کے وجود پر چھا گئی تھی۔ بھوک پیاس نے جسم کو مفلوج اور ذہن کو ساکت کر دیا تھا۔ اب کچھ دکھائی نہ دیتا، نہ ہی کوئی راہ سجھائی دیتی۔

وہ سوچتی، کاش ایک بار پھر وقت پلٹتا، تو وہ پھر اسی کرار حسین شاہ سے محبت کرتی۔ وہی ایک شخص جو صرف محبت کرتا تھا، دعویٰ نہیں۔ وہی شخص جو دنیا کو چھوڑ کر بھی اس کے دل میں زندہ تھا۔

مگر زندگی کہانیوں جیسی کب ہوتی ہے؟ یہاں تو ایک محبت کی قیمت عمر بھر کے طعنے، شک، اور تنہائی میں ادا کرنی پڑتی ہے۔

اس کہانی کا انجام ابھی باقی ہے۔ مگر ایک بات طے ہے:
نایاب نے محبت کی تھی — اور سچ میں کی تھی۔

صبح کا اجالا کمرے کی کھڑکیوں سے اندر چھن چھن کر آ رہا تھا، مگر شانزے کے لیے وہ روشنی بھی اندھیرے جیسی تھی۔ بدن ٹوٹا ہوا، آنکھیں سوجھی ہوئی، اور دل ایسا بوجھل جیسے سینے پر پتھر رکھ دیا گیا ہو۔ کرار شاہ کا نام لبوں پر تھا، مگر اب وہ نام بھی زخم بن چکا تھا، ہر دھڑکن کے ساتھ چھبتا ہوا۔

وہ آہستہ آہستہ بستر سے اٹھی، آئینے میں خود کو دیکھا تو پہچان ہی نہ سکی۔ بال بکھرے، آنکھوں کے گرد حلقے، ہونٹوں پر خراشیں، اور اندر ایک خالی پن — جیسے کوئی سب کچھ لے گیا ہو، بس ایک خول چھوڑ گیا ہو۔

کچن سے چولہے کی آواز آ رہی تھی، شاید حرا تھی، جو اب بھی اسے بچانے کی کوشش کر رہی تھی۔ مگر شانزے جانتی تھی کہ یہ جنگ اب اس کی اپنی تھی، اور اس جنگ میں وہ اکیلی تھی — بالکل اکیلی۔

کمرے کی ایک دراز سے کرار شاہ کی پرانی ڈائری نکالی۔ وہی نیلے رنگ کی جلد والی، جسے وہ ہمیشہ جیب میں رکھتا تھا۔ شانزے کے آنسو بے قابو ہو گئے۔ ایک صفحے پر کرار کا لکھا ہوا جملہ آج بھی ویسا ہی تھا:

"شانزے، تم میری زندگی کا سب سے خوبصورت فیصلہ ہو۔"

وہ چیخ اٹھی، "تو پھر چھوڑ کر کیوں گئے کرار؟ کیوں؟؟"

کمرہ اس کی آواز سے گونج اٹھا، مگر جواب دینے والا کوئی نہ تھا۔ صرف خاموشی تھی، اداس، بے حس خاموشی۔

نیچے سے زرینہ بیگم کی آواز پھر گونجی، "افف یہ لڑکی کب سدھرے گی؟ روز رونا، روز ڈرامے۔ ارے کوئی غیرت ہے تو مر کیوں نہیں جاتی؟"

شانزے نے کانوں پر ہاتھ رکھ لیے، جیسے وہ آوازیں سننا بند کر دے گی تو سب کچھ ختم ہو جائے گا، مگر الفاظ دروازے دیواروں سے ہوتے ہوئے دل پر تیر بن کر اترتے رہے۔

حرا دروازے پر آ کھڑی ہوئی، آنکھوں میں بھیگی ہوئی ہمدردی تھی۔

"شانزے پلیز، دوبارہ کبھی ایسا مت کرنا۔ تم جو برداشت کر رہی ہو، وہ کسی اور کے بس کی بات نہیں۔"

شانزے نے ایک تھکی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ سر ہلایا۔ "بس اب برداشت نہیں ہوتا، حرا۔ یہ دنیا صرف الزام دیتی ہے، اور اپنوں کے لگائے زخم کبھی نہیں بھرتے۔"

حرا خاموش ہو گئی۔ وہ جانتی تھی شانزے کی ہر بات سچ تھی — کڑوا سچ۔

کچھ دیر بعد شانزے نے دوبارہ آئینے میں جھانکا، پھر کرار شاہ کی ڈائری کو چوما، آنکھوں سے لگایا اور ایک فیصلہ کر لیا۔

"اگر دنیا نے مجھے مارنا ہی ہے، تو میں کم از کم خود کو جینے کا حق دوں گی۔ کرار نے چاہا تھا کہ میں مضبوط بنوں۔ میں اب وہ شانزے نہیں رہوں گی جو صرف روتی ہے — میں اب اپنے لیے جینے کی کوشش کروں گی، صرف کرار کی یاد کے لیے نہیں، اپنے آپ کے لیے۔"

یہ کہتے ہوئے اس نے آنسو پونچھ ڈالے۔ باہر ہلکی ہلکی بارش ہو رہی تھی، اور شانزے کے اندر، برسوں بعد، پہلی بار کوئی بیج پھوٹا تھا — امید کا بیج۔

وہ کمرے سے نکلی تو باہر صوفے پر چاروں بہن بھائی اپنی اپنی دنیا میں گم تھے۔ ٹی وی چل رہا تھا، مگر توجہ سب کی موبائل کی اسکرین پر تھی۔ اماں پیچھے بیٹھیں سبزی چھیل رہی تھیں اور ابا حسبِ معمول خبروں میں مگن تھے۔ اس نے خاموشی سے سبزی والی ٹوکری اٹھائی اور کچن میں آ گئی۔ یہی اس کا معمول تھا—ناشتہ بنانا، دوپہر کا کھانا تیار کرنا، برتن، کپڑے، صفائیاں… سب کچھ وہی کرتی تھی۔ گھر میں سب اسے اُس وقت تک ہی یاد رکھتے تھے جب تک کام باقی ہوتا، اُس کے بعد وہ ایک "مفت کی ملازمہ" بن جاتی تھی۔

کچھ برس پہلے جب اس نے میٹرک میں پوزیشن لی تھی، سب نے اس پر فخر کیا تھا۔ اس نے ایف ایس سی میں داخلہ لیا تھا، خواب تھا کہ ڈاکٹر بنے گی۔ سب بہن بھائیوں میں وہ سب سے زیادہ ذہین، باکردار اور حسین تھی۔ مگر قسمت؟ قسمت شاید اتنی حسین نہ تھی۔

اس کی زندگی میں زایر یوسف آیا تھا۔

زایر بہت سنجیدہ، شائستہ اور سلجھا ہوا نوجوان تھا۔ وہ خود بھی تعلیم کا دلدادہ تھا اور شانزے سے سچّی محبت کرتا تھا۔ شانزے کو اُس کے الفاظ اپنے لہو میں گونجتے محسوس ہوتے تھے۔ محبت کی وہ لہر اتنی بےخبری سے اس کے دل میں اتری کہ کچھ خبر نہ رہی۔ اس راز سے صرف ایک دوست، حرا، واقف تھی۔

ایک دن زریٰ نے فون کر کے شانزے کو کالج بلایا۔ وہ جلد بازی میں بغیر بتائے چلی گئی، مگر زریٰ وہاں موجود نہ تھی۔ وہاں زایر ملا۔ شانزے کو محسوس ہو رہا تھا کہ زایر اب پہلے سا نہیں رہا، دور دور سا تھا۔ وہ دل کی بات صاف کرنے پہنچی تو زایر نے دھیمے لہجے میں کہا:

"شانزے، ابھی تم فرسٹ ایئر میں ہو، اور میں سیکنڈ ایئر کے امتحان دے چکا ہوں۔ مجھے زندگی میں بہت کچھ حاصل کرنا ہے۔ ابھی میں کچھ بھی نہیں ہوں، تمہیں کیا دوں گا؟ تم جاؤ، اپنی پڑھائی پر توجہ دو۔ میں تمہارے ساتھ ہوں… ان شاء اللہ سب بہتر ہو گا۔"

مگر واپسی پر قسمت نے ایک اور وار کیا۔ شانزے کا ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ اجنبی لوگ اسے ہسپتال لے گئے۔ جب ہوش آیا، تب اس نے گھر کا نمبر بتایا۔ وہ رات کو ہی واپس گھر پہنچی، مگر جیسے ساری عزت، اعتبار، خواب سب وہیں سڑک پر چھوڑ آئی ہو۔

گھر والوں نے، خاص طور پر ماں اور بھائیوں نے، اس پر سوالوں، شک، غصے اور طنز کی بارش کر دی۔ موبائل چھین لیا گیا، اسکول بند کروا دیا گیا۔ ہر وقت اس پر نظر رکھی جانے لگی۔

پھر ایک دن اس نے حرا سے فون مانگا اور زایر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، مگر بے سود۔

کئی دن بعد زایر یوسف کا ایک میسج آیا:

"تمہارے بھائی نے مجھ سے بدتمیزی کی، اور تمہاری بہن نے وعدہ لیا ہے کہ میں تمہاری زندگی سے نکل جاؤں۔ میں نے ان سے وعدہ کر لیا ہے کہ اگر وہ تمہیں عزت دیں گے تو میں پیچھے ہٹ جاؤں گا۔ شانزے، میں اپنی بات سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔ اللہ تمہیں خوش رکھے۔ خدا حافظ۔"

یہ الفاظ نہیں تھے، یہ اس کے دل کی آخری سانسیں تھیں۔

پیغام تھا یا کوئی بم؟ زخم تو جسم پر نہیں پڑا مگر دل کا ہر ذرّہ چکنا چور ہو گیا۔ وہ دن اور آج کا دن… اریبہ مراد نے خود پر ایک خاموش خول چڑھا لیا تھا۔

پہلے پہل تو ہر طرف سے مایوس ہو کر وہ انٹرنیٹ کی دنیا میں بھٹکنے لگی، رانگ نمبر کی دوستی، فیک آئی ڈیز، نیٹ پر دھوکے… مگر جلد ہی اسے سمجھ آ گیا کہ دنیا بس کھیلتی ہے، دکھ سمیٹنے والا، زخم پر مرہم رکھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔

دنیا کے سامنے وہ ہنستی تھی، قہقہے لگاتی تھی مگر رات کی تنہائیوں میں آنکھیں نم رہتیں۔
روح کی گہرائیوں میں اب بھی زایر یوسف کی محبت خون کی طرح دوڑتی تھی۔
آٹھ سال بیت چکے تھے، مگر ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جب اس نے اسے یاد نہ کیا ہو، اسے میسج نہ بھیجا ہو، اس کا نمبر ٹرائی نہ کیا ہو — مگر بے سود۔

دنیا اسے بھول چکی تھی…
مگر گھر والے؟
انہوں نے تو جیسے قسم کھا رکھی تھی کہ ہر دن اس کی پرانی غلطی کا طعنہ تازہ کریں گے۔ آج بھی ایک معمولی سی بات پر شور ہوا، اور ہر الزام ایک بار پھر اریبہ پر آ گرا۔
اس نے اماں کی حمایت کی تھی، مگر الزام پھر اسی پر آیا۔

ابا، جو کبھی اس پر ہاتھ تک نہ اٹھاتے تھے، اب ہر روز اسے یاد دلاتے تھے:
"تمہیں کالج پڑھنے بھیجا تھا تو تم نے کیا کیا؟"

وہ کیا بتاتی کہ کالج تو چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ گھر کی قید، بے عزتی، شک، تنقید، اور پھر… بے یار و مددگار تنہائی۔
نہ معافی، نہ آزادی، نہ عزت۔
شادی کا تو سوال ہی نہ تھا۔

اسی طعن و تشنیع میں اس نے دو دن سے کھانا چھوڑ دیا تھا۔
حنا — اس کی دوست — مسلسل سمجھاتی رہی، مگر وہ تو اپنے دکھوں کے گرداب میں ڈوب چکی تھی۔

"میرے سگے ماں باپ نے مجھے طعنوں سے مارا ہے حنا۔"
وہ کہتی، اور سسکیاں اس کی ہچکیوں میں بدل جاتیں۔

آج ضبط کا دامن چھوٹ چکا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ خودکشی حرام ہے، مگر جب جینا ہی حرام لگے تو موت حلال لگنے لگتی ہے۔
دو تین دن کی بھوک اور پیاس نے بدن توڑ دیا تھا، دماغ میں سوچوں کا لاوا پک رہا تھا، نسیں تن گئی تھیں۔
اچانک چکر آیا، اور وہ بیڈ پر اوندھے منہ گر گئی۔

جب شام تک کمرے سے باہر نہ نکلی تو اماں اندر آئیں۔
دیکھا تو وہ بے سدھ پڑی تھی۔

"یہ دیکھو نواب زادی! سارا دن سوتی ہے، کام تو نوکر کریں گے، اور پتا نہیں کن یاروں سے فون پر لگی رہتی ہے… اُٹھ! حرام خور!"

اماں نے جھنجھوڑا، بال کھینچے، تھپڑ مارے…
مگر وہ ہلی تک نہیں۔

پھر نہ جانے کیوں اماں نے اس کی نبض ٹٹولی — سانس بند تھی۔

چلّا چلّا کر گھر والوں کو بلایا گیا۔
حنا بھی شور سن کر دوڑی چلی آئی۔
حنا نے فوراً اپنے بھائی کے ساتھ قریبی اسپتال لے جانا چاہا۔
کسی کو بتائے بغیر وہ چلی گئی۔

کچھ دیر بعد ایمبولینس کے ہارن نے محلے کو ہلا دیا۔
دروازہ کھولا گیا — سفید چادر میں لپٹا وجود، جو کبھی خوشبو سا بکھرتا تھا، آج خاموش تھا۔

ابا کی زبان سِل گئی تھی، اماں ساکت تھیں، بہن بھائی پتھر جیسے۔
یہ وہی بیٹی تھی، جسے کبھی سب سے زیادہ چاہا جاتا تھا۔

ڈاکٹر نے بتایا تھا، بلڈ پریشر ہائی ہونے سے دماغ کی نس پھٹ گئی تھی۔ بروقت اسپتال نہ پہنچانے کی وجہ سے… اریبہ مراد اب زندہ نہیں رہی تھی۔

حنا ماتم کر رہی تھی، مگر اریبہ؟
اب وہ خاموش تھی۔
زندگی کی آخری جنگ ہار چکی تھی۔

"ہائے ہائے… سمیرا مراد تو جیسے سب سے الگ تھی، اللہ بخشے بڑی سوہنی، شائستہ، اور باادب بچی تھی۔ جہاں ملتی، سلام ضرور کرتی، حال احوال پوچھے بغیر نہ رہتی تھی۔"

ایک پڑوسن آنکھیں پونچھتے ہوئے کہہ رہی تھی، آواز میں بھاری دکھ چھپا تھا۔

"ہاں آپا، بہت سلیقے والی بچی تھی، کھانا پکاتی تو خوشبو محلے میں پھیل جاتی، کوئی مہمان آ جاتا تو چائے پانی کے بغیر جانے نہ دیتی۔"

سامنے کھڑی نسرین خالہ نے ٹھنڈی آہ بھری۔

"میری سمیرا… ہائے، کیسی نیک اور فرمانبردار تھی، چند دنوں میں میرے اُس نکمے بیٹے کو بھی سیدھا کر دیا تھا، خود استاد کہنے لگے تھے کہ ‘یہ کس کے پاس پڑھنے گیا ہے؟’ اتنی ذہین تھی، اتنی مخلص کہ جیسے اس دور میں آنا ہی بھول گیا ہو۔"

پاس کھڑی جامعہ والی شازیہ باجی نے بھی اپنی بات میں تاثر شامل کیا:

"جی خالہ، سمیرا واقعی بہت بااخلاق، سمجھ دار اور نرم دل لڑکی تھی۔ حالات نے اس کے ساتھ ظلم ضرور کیا، مگر وہ بھٹکی نہیں، نہ کوئی غلط راہ چُنی، نہ کسی کا برا چاہا۔ ایسے لوگ کم ہوتے ہیں — جو اندر باہر ایک جیسے ہوں، دو چہرے نہ رکھتے ہوں۔ اللہ اس کی مغفرت کرے، اسے جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ آمین۔"

کوئی کچھ کہہ رہا تھا، کوئی کچھ۔
افسوس کا طوفان ہر طرف چھایا ہوا تھا — لیکن اب کیا فائدہ؟
وہ جا چکی تھی۔

اماں، بہنیں، بھائی… سب خاموش تھے، جیسے کوئی دھماکہ ہوا ہو۔ آنکھیں ساکت، چہروں پر ندامت کا کرب، دل میں خالی پن۔ اب صرف پچھتاوے تھے، افسوس کے آنسو تھے، اور وہ لفظ جو زندگی بھر نہ کہے گئے۔

چند لمحے رو لیں گے، پھر جنازہ اٹھے گا۔
جو رشتے تھے، وہ آنسو بہا کر اپنے اپنے حساب سے دل ہلکا کریں گے…
مگر جو گیا ہے، وہ تو ساری دنیا کا حساب بند کر کے گیا ہے۔

بابا کو یاد آئے گی، وہ ننھی سی مسکراہٹ۔
اماں کو وہ دعائیں، جو وہ ان کے پاؤں دباتے ہوئے مانگتی تھی۔
بہن بھائیوں کو وہ بانٹتی چھوٹی چھوٹی خوشیاں یاد آئیں گی۔

کتنی حیرت کی بات تھی…
جس کو لوگ گناہ کی علامت کہتے تھے، آج اس کے جنازے پر آسمان رو رہا تھا۔

بادل ایسے گھِر آئے تھے جیسے سمیرا کی میت پر سایہ کرنے آئے ہوں۔
ٹھنڈی ہوائیں، جیسے اس کی روح کو پرسکون کر رہی ہوں۔

پھر جیسے کسی کے دل سے صدائے درد نکلی:

"لو اپنا جہاں دنیا والو
ہم ہی دنیا چھوڑ چلے
جو رشتے ناطے تم نے جوڑے تھے
وہ رشتے ناطے توڑ چلے
کچھ سکھ کے سپنے دیکھ چلے
کچھ دکھ کے سپنے جھیل چلے
تقدیر کی اندھی گردش نے
کھیل جو کھیلے، کھیل چلے
تیری ہر چیز لوٹا دی ہم نے
اب دوش نہ دینا اے لوگو
دیکھ لو ہم خالی ہاتھ چلے
اس پار نجانے کیا ہوگا
اس پار تو سب کچھ ہار چلے
ہار چلے… ہار چلے…"


Post a Comment for ""کاش کسی نے سنا ہوتا""