Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

روایت شکن


                                                                                       

یہ کہانی غیرت، رسم، بغاوت اور عورت کی عزت جیسے اہم موضوعات کو چھوتی ہے — خاص طور پر ایک ایسے مرد کی بیداری کی کہانی ہے جو روایت شکن بنتا ہے، اور ایک مظلوم عورت کی خاموشی کو عزت میں بدلنے کی جدوجہد۔ اس کہانی کے لیے پاکستان کے دیہی و قبائلی پس منظر اور جذباتی تہہ کو سامنے رکھتے ہوئے چند موزوں اردو عنوانات پیش کیے جا رہے ہیں:

                                                                                           روایت شکن

دنیا کے گوشے گوشے میں عورت کی عزت و حرمت کو لے کر کئی طرح کی داستانیں سننے کو ملتی ہیں، مگر ہمارے دیہی معاشرے میں بدقسمتی سے کچھ ایسی رسومات آج بھی زندہ ہیں جو عورت کو غلامی کا درجہ دیتی ہیں۔ ونی، کاروکاری اور سنسار جیسی رسمیں عورت کی زندگیوں کو تار تار کر دیتی ہیں۔ مگر آج میں آپ کو ایک ایسے قبائلی گھرانے کی کہانی سناؤں گا جہاں ایک مرد نے ان جڑ پکڑتی ہوئی ظالمانہ رسومات کے خلاف آواز اٹھائی، اور روایت شکن بننے میں فخر محسوس کیا۔

یہ کہانی اندرون سندھ کے ایک وڈیرے شاہ عالم کی حویلی کی ہے، جو جتنی خوبصورت ہے، اتنی ہی سختی اور ظالمی کی علامت بھی ہے۔ اس حویلی کی دیواریں تو سنگلاخ اور اونچی ہیں مگر یہاں کے مردوں کے دل اس سے بھی زیادہ سخت اور بے حس ہیں، جو عورت کو کبھی اپنا برابر سمجھنے کو تیار نہیں۔

پھپھو بشیراں، وڈیرے کی بڑی بہن، ایک چلتی پھرتی بدروح ہے۔ سفید لباس میں ملبوس، اس کے چہرے پر کوئی مسکراہٹ نہیں، نہ ہی کسی طرح کے جذبات کا عکس۔ خاندان کے کسی بھی مسئلے کو جوڑنے کی بجائے اس نے خود کو قرآن کی آڑ میں بند کر رکھا ہے۔

پھر ہے شاہ خاور کی بیوی، ایک جوان لڑکی جس کی عمر ابھی جوانی کے خواب دیکھنے کی ہے، مگر قسمت نے اسے ایک دگنی عمر کے شوہر کے پلے باندھ دیا۔ اس کا بھائی شاہ عالم کے منجھلے بیٹے کا قاتل تھا، اور یہ شادی خون کے بدلے کی قربانی تھی۔ اس لڑکی کی زندگی ملازموں کے ہاتھ میں گھومتی ہے، گھر کے کام اور ظلم کے سوا کچھ نہیں۔ ساس اور سسر کی تحقیر اس کی روزمرہ زندگی کا حصہ ہے اور شوہر فطرتا عیاش ہے، جو اپنی بیوی کو نظر انداز کر کے باہر کی بازاری عورتوں کے ساتھ فخر کرتا ہے۔

شاہ بخت، شاہ عالم کا سب سے چھوٹا بیٹا، اپنی مردانہ شان اور خوبصورتی کا عملی نمونہ ہے۔ کراچی یونیورسٹی میں بزنس ایڈمنسٹریشن کا طالب علم، نڈر اور جرات مند رہنما۔ اس کے دل میں اپنے گھر کی عورتوں کے لیے گہری محبت اور عزت ہے۔ وہ ان رسموں کو ختم کرنے کا خواہشمند ہے جو عورتوں کو غلام بنا دیتی ہیں۔

نور العین، ایک عام اسکول ماسٹر کی بیٹی، ایک ذہین اور خوددار لڑکی ہے۔ محدود وسائل کے باوجود اس کی شخصیت میں تمکنت اور فخر ہے جو اسے اپنے گھرانے کی آنکھ کا تارہ بناتی ہے۔

شاہ بخت اور نورالعین کی ملاقات ایک نئے دور کی شروعات تھی۔ شاہ بخت نے اپنی حویلی کی قدیم روایات کو چیلنج کیا، عورت کی عزت کی بات کی، اور ظلم کے خلاف آواز اٹھائی۔ اس نے نہ صرف اپنے خاندان بلکہ پورے معاشرے کو یہ پیغام دیا کہ عورت صرف قربانی کا ذریعہ نہیں، بلکہ اس کی عزت و حقوق کی حفاظت سب کی ذمہ داری ہے۔

یہ کہانی روایت شکن مرد کی ہے، جو ظلم کی زنجیروں کو توڑنے کا جذبہ رکھتا ہے، اور اس عورت کی ہے جو اپنے خوابوں اور عزت کے لیے لڑتی ہے، ایک نئی صبح کی طرف۔

زید خان کا پہلا ٹکراؤ ماریہ سے کینٹین میں ہوا، پروفیسر جمشید کی کلاس کے بعد تمام اسٹوڈنٹس نے کینٹین کا رخ کیا جس میں ماریہ بھی شامل تھی جو اپنی یونیورسٹی فرینڈ صائمہ کے ساتھ سموسے اور چائے سے لطف اندوز ہونے آئی تھی۔ رش کی وجہ سے انہیں اپنی باری کا انتظار کرنا پڑ رہا تھا کہ اتنے میں ایم بی اے کا مشہور لیڈر زید خان اپنے دوستوں کے ساتھ اندر داخل ہوا اور باقی لوگوں سے پہلے ان کا مطلوبہ آرڈر تک پہنچا دیا گیا۔ یہ منظر دیکھ کر ماریہ کا چہرہ غصے سے تپنے لگا وہ تنفن کرتی کینٹین بوائے کی طرف بڑھی۔

"ماریہ! رک جاؤ یار، میں کہتی ہوں زید خان کے گروپ سے الجھنا فضول ہے، وہ بہت بڑے وڈیرے کا بیٹا ہے، یہ پوری کینٹین سیکنڈوں میں خرید سکتا ہے اور ہمیں معلوم ہے یونیورسٹی کے سالانہ فنڈز میں بھی اس کے باپ کا بہت بڑا حصہ ہے۔" صائمہ نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔

"تو اس کا کیا مطلب ہے کہ یہاں باقی اسٹوڈنٹ حقیر اور کیڑے مکوڑے ہیں؟ تم نے آنا ہے تو آؤ ورنہ اس نواب سے ڈرتے رہو۔ میں یہ ناانصافی نہیں دیکھ سکتی، واہ بھئی، ہم کب سے بھوکے پیاسے صبر سے انتظار کر رہے ہیں اور وہ موصوف وہاں بیٹھے مزے اڑا رہے ہیں۔" یہ کہہ کر ماریہ زید خان کے عین سامنے کھڑی ہوگئی۔ زید خان نے چونک کر اس کم نیس لڑکی کو دیکھا جس کے ماتھے پر شکن اور غصے سے سرخ چہرہ اسے حسین تر بنا رہا تھا۔

"اے مسٹر! یہ کہاں کا انصاف ہے؟ پہلے ہماری باری تھی اور تم ہم سے پہلے اپنا آرڈر لے کر یہاں آرام سے بیٹھے ہو۔ یہاں موجود باقی مخلوق کیا تمہیں احمق نظر آ رہی ہے؟ امیر ہو گے اپنے گھر کے، اپنے باپ کی دولت کا زعم کسی اور کو دکھانا۔ یہ یونیورسٹی ہے، یہاں کے اصول و قوانین سب کے لیے مساوی ہیں، اوکے؟ آئندہ مینرز اور ڈسپلن کا خیال رکھنا۔" ماریہ نے شہادت کی انگلی تنبیہ کے انداز میں اٹھائے ہوئے کہا اور پھر ٹیبل پر سموسے سے بھری اور چھولے چاٹ کی پلیٹ اٹھائی اور یہ جا وہ جا۔

"ارے مس بات تو سنیں، اس کی پے منٹ ہم نے کی ہے، آپ ایسے کس طرح یہ لے کر جا سکتی ہیں۔" زید خان کے دوست عارف نے احتجاج کیا جسے زید خان نے ہاتھ دبا کر روک دیا۔

زید جو کہ پہلے اس صورتحال سے خورحیران تھا مگر اب ماریہ کی خوداعتمادی اور جرات مندی کو انجوائے کر رہا تھا۔ آج تک اس نے صنف نازک کو بہانے بہانے سے اپنے گرد منڈلاتے دیکھا تھا مگر یہ لڑکی زید کو ان چند لمحوں کے فسوں میں اسیر کر گئی تھی، علی خان کا دل اب اس کا نہیں رہا تھا۔

"یہ لو میری بزدل دوست، انجوائے کرو سموسے اور چاٹ وہ بھی اس اکڑو زید خان کے پیسوں سے، ہونہہ تم بلاوجہ ڈر رہی تھی، کیا کر لیا اس نے یا اس کے چمچوں نے؟ بلکہ آئندہ کے لیے توبہ کر لے گا۔" ماریہ نے مزے سے سموسے پر کیچپ ڈالتے ہوئے کہا جس کا ساتھ اب صائمہ بھی دے رہی تھی، اس بات سے بے خبر کہ وہ دو بلوریں آنکھیں مسلسل حصار میں ہیں جس کے لبوں کی جامد خاموشی اور گہری آنکھیں کسی اور ہی فسوں کی کہانی سنا رہی تھیں۔

"زید یار! یہ تجھے کیا ہو گیا؟ وہ لڑکی اتنے آرام سے نہ صرف ہمارا لنچ اٹھا کر لے گئی بلکہ بل بھی ہمیں ادا کرنا پڑا اور تو خاموشی سے سب کچھ دیکھتا رہا، حیرت ہے، تجھ جیسا اصول کا پکا اور نڈر شخص بھی ایک معمولی لڑکی سے شکست کھا سکتا ہے۔" زید اپنے دوست فہد کی بات سن کر ہوش کی دنیا میں واپس لوٹا مگر ابھی تک اس کے لبوں پر پراسرار مسکراہٹ تھی۔

"او کم آن یار! اس لڑکی نے ایسا کچھ غلط بھی نہیں کیا، غلطی ہماری ہی تھی، ہم بعد میں آئے تو ہمیں اپنے آرڈر کا دوسرے اسٹوڈنٹس کی طرح انتظار کرنا چاہیے تھا۔" یہ کہہ کر اس نے اپنی کلائی میں بندھی ریڈیم ڈائل کی چمکتی گھڑی پر نظر ڈالی اور وہاں سے نکلتا چلا گیا۔ جاتے جاتے وہ ماریہ پر ایک سرسری مگر بھرپور نظر ڈالنا نہیں بھولا تھا جو بے نیازی سے سموسے کے ساتھ انصاف کرنے پر محو تھی جس کے دائیں گال پر پڑتے ڈمپل کے بھنور میں زید خان کا دل اٹک گیا تھا۔

عائشہ بیگم (شاہ عالم کی زوجہ) کے حکم پر آج تمام ملازمائیں صبح سے ہی کچن میں مصروف تھیں کیونکہ آج ان کا لاڈلا اور خوبرو سپوت زید خان دو مہینے کے بعد گھر تشریف لا رہا تھا۔

صبا نے اپنے دوپٹے سے ادیدہ پسینہ صاف کرتے ہوئے مسکرا کر کہا، "اوہ بالیو! ذرا تیزی سے ہاتھ چلاؤ، مرن جوگیو! ہاتھوں میں دم نہیں ہے کیا؟" عائشہ بیگم نے گھریلو ملازمہ کی بیٹی صبا کو آواز دیتے ہوئے کہا۔ صبا کم عمر گندمی رنگت کی پرکشش ملازمہ تھی جو سارے گھر میں پھرتی کی طرح کام کرتی نظر آتی تھی۔ جان کے غصے سے ڈر کر اس نے لسی بلوتے برق رفتاری سے چلتے ہاتھوں کو مزید حرکت دی۔

"سلام عائشہ بیگم!" زید خان نے ہمیشہ کی طرح جھک کر ادب سے عائشہ بیگم کو سلام کیا۔ عائشہ بیگم اس کے انداز تکلم اور فرمانبرداری پر نہال ہو گئیں۔

"بسم اللہ، بسم اللہ، میرا سوہنا پت گھر آیا ہے، گھر کی دیواروں تک تیرے آنے سے روشن ہو گئی ہیں۔ سفر میں تو سب خیر رہی ناں؟ صبا! او صبا! اف ایک تو اس سستی کی ماری لڑکی سے میں بیزار ہوں۔ ارے جلدی زید پتر کے لیے لسی لے کر آ۔ اتنی چلچلاتی دھوپ میں میرا بیٹا آیا ہے، دیکھ چہرہ کیسا سرخ ہو رہا ہے۔" عائشہ بیگم نے اپنے دوپٹے سے نادیدہ پسینہ صاف کرتے ہوئے کہا تو زید خان ان کی سادگی پر مسکرا کر رہ گیا۔

"ارے عائشہ بیگم! مجھے کوئی گرمی نہیں لگ رہی، میں کوئی پیدل چل کر تھوڑا ہی آیا ہوں۔"

اتنے میں صبا لسی سے بھرا جگ لے کر آ گئی، عائشہ بیگم نے بڑے پیار سے زید کے نہ نہ کرنے کے باوجود لسی کے دو گلاس پلا دیے۔ صبا جب تک وہیں ہاتھ باندھ کر کھڑی رہی زید کی اس پر نظر پڑی۔

"ارے صبا تم کھڑی کیوں ہو؟ بیٹھ جاؤ ناں۔"

"ارے نہیں چھوٹے سائیں، میں ایسے ہی ٹھیک ہوں۔" صبا نے تھوڑا جھجکتے ہوئے جواب دیا۔ عائشہ بیگم سے اسے بہت خوف آتا تھا۔

"ارے زید پت یہ کمی کمین ہیں، ان کی جگہ ہمارے برابر نہیں بلکہ ہمارے قدموں میں ہے۔ ان کو اتنا سر چڑھانے کی ضرورت نہیں۔" عائشہ بیگم نے نخوت سے تحقیر آمیز انداز میں کہا جس کی بات پر نہ صرف صبا کی شرمندگی کے مارے آنکھیں بھیگ گئیں بلکہ زید کو بھی عائشہ بیگم کا مغرورانہ لہجہ اچھا نہیں لگا۔

"عائشہ بیگم! مجھے کم از کم آپ سے یہ امید نہیں تھی، بابا جان کی حاکمیت کا انداز آپ میں بھی رچ بس گیا ہے۔ آپ بھی ان کی زبان بولنے لگیں ہیں۔ ارے عائشہ بیگم، ہم سب نبی پاک ﷺ کے امتی ہیں، اللہ نے تمام انسانوں کو برابر بنایا ہے، تو ہم اور آپ اللہ کی کسی بھی مخلوق کو حقیر سمجھنے والے کون ہوتے ہیں جبکہ ہم خود اس کے ادنیٰ سے بندے اور محتاج ہیں۔ وہ جب چاہے ہمارا مال و متاع، ہماری شان و شوکت ہم سے چھین کر فقیری میں لے آئے۔ یہ سب اس کا کرم ہے جس کے شکرانے کے طور پر ہمیں اپنے غریب ملازموں کا خیال رکھنا چاہیے۔" صبا کی نظر میں زید کا رتبہ مزید بلند ہو گیا۔ اس نے تشکرآمیز نظر سے زید کی طرف دیکھا۔

"اور صبا یہ تمہاری کچھ کتابیں ہیں۔ ان میں اہم جوابات کے نشان لگا دیئے ہیں۔ پھر بھی کوئی مسئلہ ہو تو مجھ سے پوچھ لینا، میں بھی ایک ہفتے تک یہیں ہوں۔ اگلے سال تم نے میٹرک کے بورڈ کے امتحان میں بیٹھنا ہے اور اچھے نمبروں سے پاس ہونا ہے۔"

"اوہ سائیں، میں آپ کا شکر یہ کیسے ادا کروں؟ اللہ سائیں آپ کو بہت ساری کامیابی اور سوہنی سی زال دے۔" صبا نے خوشی سے بھرپور لہجے میں سرشاری سے جواب دیا، زید خان اس کی معصومانہ بات پر ہنس پڑا۔ آخری بات پر چھم سے دو سیاہ گہری آنکھیں خود اعتمادی سے بھرپور سراپا اس کی نظروں میں گھوم گیا۔ پھر زید خان حلیمہ بی بی سے ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگا۔

"السلام علیکم پھوپھو جان!" زید نے حلیمہ بی بی کو سلام کیا جن کا سفید دوپٹے کے ہالے میں پرنور چہرہ چمک رہا تھا۔ زید خان کو دیکھ کر وہ مسکرانے لگیں۔ پوری حویلی میں زید ہی وہ واحد شخص تھا جو اس کی عزت کرتا تھا، باقی سب تو اس سے لاتعلق ہو گئے تھے۔ اس وقت بھی وہ قرآن پاک کی تلاوت کر رہی تھیں، پھر انہوں نے زید پر دم کیا۔

"ارے پھوپھو، یہ کیا، ہر وقت کمرے میں بند رہتی ہیں؟ باہر دیکھیں کتنا اچھا موسم ہو رہا ہے، بارش کے بعد ہر چیز نکھر گئی ہے۔ چلیں باہر لان میں چلتے ہیں، میں نے بھاجائی کو پکوڑے اور میٹھی پوریاں بنانے کے لیے کہا ہے، آپ کو پسند ہیں ناں؟ ہم لان میں گپ شپ کے ساتھ انجوائے کریں گے۔" اور پھر ان کے منع کرنے کے باوجود حلیمہ بی بی کو وہ لان میں لے کر آ گیا جہاں سردار جاوید خان اور فیصل بھائی پہلے ہی بی بیٹھے تھے اور کسی سیاسی مسئلے پر بحث چل رہی تھی۔

"اور زید پت، تیری پڑھائی کیسی چل رہی ہے؟ آخری سال ہے ناں تیرا؟ اب تجھے بھی فیصل کی طرح یہ باپ دادا کی گدی سنبھالنی ہے۔ مجھ میں اب دم خم نہیں رہا، بس تیری بی جان کے ساتھ اب اللہ کے در پر حاضری دوں گا۔" سردار جاوید خان نے اپنے مخصوص رعب و پُر جلال انداز میں زید خان کو اپنے ارادے سے آگاہ کیا۔

"بابا جان، میری پڑھائی بہت اچھی چل رہی ہے۔ مگر معذرت کے ساتھ، بابا جان، مجھے اس زمینداروں اور سیاست سے کوئی لگاؤ نہیں۔ میں وہی شہر میں اپنی فیلڈ سے متعلق بزنس کروں گا اور یہاں گاؤں میں ایک ڈسپنسری اور اسکول کھولوں گا جہاں تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولتیں غریبوں کو مفت میسر ہوں۔ مجھے بہت دکھ ہوتا ہے اپنے علاقے کی بدحالی اور غربت دیکھ کر۔" زید نے تاسف سے کہا جس پر اتنی دیر سے خاموش بیٹھا فیصل خان مزید چپ نہ رہ سکا۔

"یہ کیا کہہ رہے ہو؟ یہ شہری پڑھائی نے تمہارا دماغ خراب کر دیا ہے۔ اب تم ان کمی کمین کو ہماری برابری پر لے آؤ گے، انہیں ہمارے سر پر بٹھاؤ گے بابا! پاؤں کی جوتی پاؤں میں ہی اچھی لگتی ہے، ان کو اتنا مت چڑھاؤ کہ وہ ہمارا ادب کرنا بھول جائیں۔" فیصل خان نے غصے سے اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہا۔

"پلیزدا سائیں، میں بابا سائیں سے بات کر رہا ہوں۔ تعلیم انسان کو شعور اور آگہی دیتی ہے۔ یہ لوگ پڑھ لکھ کر آپ کے سر نہیں چڑھیں گے بلکہ آپ کی مزید عزت کریں گے۔ آپ کو معلوم ہے، آپ کی بلا وجہ کی اجارہ داری اور طاقت کے گھمنڈ سے لوگ آپ سے ڈرتے تو ہیں مگر دل سے عزت نہیں کرتے۔ رہی برابری کی بات تو آپ شاید بھول رہے ہیں۔ ان کمی کمین کے ووٹوں کی وجہ سے ہی ہر سال آپ ان جیتتے ہیں۔ یہ معصوم ہر سال نئے ولولے اور نئی امید کے ساتھ ووٹ دیتے ہیں مگر آپ لوگوں نے آج تک کوئی بھی وعدہ پورا کیا جس سے ان کو فائدہ پہنچے، جبکہ اپنے لوگوں کی ضرورت کا خیال رکھنا ہماری ذمہ داری ہے اور اللہ سائیں کے یہاں بھی جواب دینا ہوگا۔" زید نے اپنے مخصوص دھیمے مگر پراعتماد انداز میں جواب دیا۔

"بس اب تو کل کا چھوکرا ہمیں تمیز اور ادب کی باتیں سکھائے گا۔"

"بابا سائیں، میرا ادا سائیں سے بحث کا کوئی موڑ نہیں۔ ویسے بھی جن کے دلوں پر مہریں لگ جائیں، ان پر کوئی بات اثر نہیں کرتی اور ویسے ہی میں اپنے حصے کی زمینوں پر اپنا یہ خواب پورا کروں گا۔ آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، بہتر ہوگا آپ اپنے معاملات پر نظر رکھیں۔ مجھے میرے ارادوں سے کوئی پچھے نہیں ہٹا سکتا۔" یہ کہہ کر زید خان وہاں سے نکلتا چلا گیا۔ فیصل اس کی جرات مندی اور حق بات پر دانت پیس کر رہ گیا۔

"بابا سائیں! آپ نے اس کو بہت چھوٹ دی ہوئی ہے، اس کو لگام ڈالیں زرا۔"

"ارے ہاتھ ہولا رکھ پت، ابھی جوان خون ہے، نیا نیا نو جوانی کا جوش ہے۔ وقت کے ساتھ خود سمجھ آ جائیں گے۔ تو فکر نہ کر۔ یہ بتا وہ محمد بخش والی زمینوں کا کیا بنا؟" اس کے بعد وہ دونوں اس معاملے پر بات چیت کرنے لگے کہ ان کی نظر حلیمہ بی بی اور فیصل کی بیوی (رابعہ) پر پڑی۔

"اور تم دونوں یہاں کیا کر رہی ہو؟ چلو اندر، اس طرح زال کا مردوں کے سامنے دندناتے پھرنا ہمارے یہاں معیوب سمجھا جاتا ہے۔ آئندہ میں تم دونوں کو باہر نکلتے نہ دیکھوں۔ اپنی اوقات میں رہو تو بہتر ہے، سمجھی؟ زید تو نا سمجھ بچہ ہے مگر حلیمہ تجھے تو عقل ہے ناں؟ تیرا اس طرح سے باہر نکلنا، عام لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا کتنا برا سمجھا جائے گا؟ گوٹھ والوں نے دیکھ لیا تو کیا سوچیں گے؟ آئندہ خیال رکھنا اور تو چھوری، کتنی بار کہا ہے میرے سامنے اپنی شکل مت دکھایا کر۔ تجھے دیکھتا ہوں تو اپنا مرحوم بیٹا یاد آ جاتا ہے۔ چل یہاں سے دفعہ ہو۔ یاد رکھو تو یہاں خون بہا میں آئی ہے، یہی کافی ہے۔ تجھے عزت سے رکھا ہے، دو وقت کی روٹی اور کپڑا مل رہا ہے۔ اس سے زیادہ کی نہ تیری اوقات ہے نہ ہمارا ظرف۔" سردار جاوید خان کے تحقیرانہ انداز پر رابعہ نے ڈبڈبائی آنکھوں سے سردار جاوید کی طرف دیکھا۔ جوان تمام باتوں سے بے نیاز موبائل میں لگا ہوا تھا۔ وہ وہاں سے دوڑتی ہوئی اندر کی طرف بھاگی تو اس کا سامنا باہر آنے والے زید خان سے ہوا۔

"کیا ہوا، بھر جائی! اس طرح کیوں رورہی ہو، پلیز مجھے بتاؤ۔" زید نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے سامنے صوفے پر بٹھایا۔

"کچھ نہیں، ابا سائیں۔ آنکھ میں تنکا چلا گیا تھا جس کی وجہ سے پانی نکل آیا اور تم میری فکر نہ کیا کرو۔ میں اس عزت کے قابل نہیں، میں صرف خون بہا میں آئی ایک باندی ہوں جو پوری حیاتی اپنے بھائی کے گناہ کا کفارہ ادا کرتی رہے گی۔" رابعہ نے رندھی ہوئی آواز میں جواب دیا۔

"اوہ، سمجھ گیا۔ ادا سائیں اور بابا سائیں نے پھر آپ کی تذلیل کی ہوگی۔ غلطی میری ہے، آپ کو اس طرح ان کے درمیان چھوڑ کر نہیں آنا چاہیے تھا۔ آپ میرے کہنے پر ہی باہر گئی تھیں۔ سوری بھرجائی، میں بہت شرمندہ ہوں مگر آئندہ آپ کی دل آزاری نہیں ہوگی۔ اور پلیز، آپ اپنے آپ کو باندی نہ کہا کریں۔ جو کچھ ہوا اس میں آپ کا کیا قصور؟ آپ کو سردار جاوید، ادا سائیں کے ساتھ نکاح کرکے لائے ہیں۔ آپ اس گھر کی عزت ہیں۔ آپ کا بھی اس گھر پر اتنا ہی حق ہے جتنا دوسروں کا۔ پلیز اپنے آپ کو مظلوم سمجھنا چھوڑ دیں ورنہ یہ ظالم دنیا آپ کو جینے نہیں دے گی۔ انشاء اللہ ایک وقت ضرور آئے گا جب اللہ سائیں، ادا سائیں کا دل آپ کی طرف سے نرم کر دے گا۔ ان کے دل میں نفرت کی جگہ محبت ہوگی۔ بس صبرو تحمل کے ساتھ اپنے منصب پر ڈٹے رہیں۔" زید کی باتوں نے ہمیشہ کی طرح رابعہ کی ڈھارس باندھی۔ زندگی کی اس تپتی صحرا میں زید کی شخصیت ہی نخلستان تھی جس کی وجہ سے وہ اب تک زندہ و پر امید تھی۔ اس نے تشکر آمیز نظروں سے اس کی طرف دیکھا تو زید مسکرا دیا۔

"اچھا اب جلدی سے مجھے گرم گرم چائے پلائیں۔ آپ کے ہاتھ کے بنائے ہوئے مزیدار پکوڑے کھا کر تو چائے کی طلب بڑھ گئی ہے۔" زید نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا۔

"ابھی لاتی ہوں، ادا تم اپنے کمرے میں جاؤ، وہاں بھیجواتی ہوں۔"

"اوکے اور میری باتوں پر ضرور عمل کرنا، اب میں اپنی پیاری ادی کی آنکھوں میں ایک آنسو بھی نہ دیکھوں۔" زید نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔

"اوہ تو یہاں یہ گل کھلایا جا رہا ہے؟ میں بھی تو کہوں کہ اس سے اتنی ہمدردی کا بخار کیوں چڑھ رہا ہے، اور یہاں یہ رنگ رلیاں منائی جا رہی ہیں۔ ارے بے غیرت تھا منہ کالا کرنے کے لئے میری زال ملی تھی۔"

"بس ادا سائیں! آگے ایک لفظ بھی منہ سے نکالا تو میں یہ بھول جاؤں گا کہ سامنے میرا بھائی کھڑا ہے۔ ارے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھو، اسے کبھی بیوی کا درجہ دیا جو آج غیرت جاگ رہی ہے؟ ارے اس بیچاری کا کیا قصور، جو کچھ ہوا اس معاملے میں صرف عورت ہی قربانی کیوں دیتی ہے؟ تم اسے اپنی عزت بنا کر لائے اور گھر کی ملازمہ سے بھی بدتر درجہ دیا۔ میں اگر اسے انسان سمجھ کر اس کی عزت کر رہا ہوں تو اتنا گھٹیا الزام۔۔۔ مجھے یقین نہیں آتا کہ تم اتنا بھی گر سکتے ہو۔ اپنے گھر کی عزت اور اپنے بھائی پر تہمت لگانے، اس کے کردار پر کیچڑ اچھالنے سے پہلے اپنے کرتوتوں پر نظر رکھو۔ تم کیا سمجھتے ہو، مجھے معلوم نہیں یہ جو ضروری کام کا بہانہ بنا کر ہر دوسرے دن شہر جاتے ہو تو تمہارا چکر کن بدنام گلیوں میں لگتا ہے؟ تم بابا سائیں کی محنت کی کمائی کن بازاری عورتوں پر خرچ کرتے ہو، ہونہہ۔ اس کو آج تک ایک جوڑا بنا کر نہیں دیا اور پرائی نا محرم عورتوں کو ان کے جسم کی نمائش پر خراج حسین پیش کرتے ہو۔ کیا یہ شریفوں کا شیوہ ہے؟ تمہارے لئے یہی بہتر ہے کہ میرا منہ مت کھلواؤ۔"

زید نے غم سے سرخ چہرے کے ساتھ جواب دیا۔ اس سچ کا آئینہ دکھانے پر فیصل بھی کچھ گھبرا گیا، مگر پھر اپنی روش پر واپس آتے ہوئے بولا:

"ارے میں مرد ہوں، مجھ پر سب جائز ہے، مگر یہ۔۔۔ اس کی اتنی ہمت کیسے ہوئی؟ بیوی ہے تو کیا ہوا؟ آئی تو خون بہا میں ہے، رہے گی پاؤں کی جوتی بن کر۔ تو اپنی علمیت، اپنے یاس رکھ اور کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کے لئے مجھ پر بہتان لگانا بند کر۔"

شور کی آواز سن کر سردار جاوید اور حلیمہ بی بی بھی وہاں آ گئیں تھیں۔

"یہ کیا شور مچا رکھا ہے؟ گھر کے ملازمین تک تم لوگوں کی آواز سن رہے ہیں۔ ارے سردار جاوید، میں نے ان دونوں کو رنگے ہاتھوں رنگ رلیاں مناتے پکڑا ہے۔ اس نے اس کمینی کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا اور وہ مسکرا مسکرا کر اس سے سرگوشی میں باتیں کر رہی تھی۔" فیصل نے مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے جھوٹ کی انتہا کر دی۔

"ارے زید، یہ میں کیا سن رہا ہوں؟ یہ ہے میری تربیت کہ تُو اپنے گھر کی عزت پر ہی ڈاکہ ڈالے؟" سردار جاوید نے گرج دار آواز میں پوچھا۔ رابعہ یہ تمام صورتحال سہمی ہوئی نظروں سے دیکھ رہی تھی، حلیمہ بی بی اور بی جان بھی نا سمجھی سے سب کچھ دیکھ رہی تھیں۔

"سردار جاوید، آپ بھی؟ کیا آپ مجھے نہیں جانتے؟ کیا آپ کو اپنے خون پر بھروسہ نہیں؟ بس اب میرے یہاں رہنے کا کوئی جواز نہیں۔ لعنت بھیجتا ہوں میں اس اونچے شملے پر جو انسان کو انسانیت کے معراج سے گرا دے۔"

یہ کہہ کر زید وہاں رکا نہیں، لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا حویلی سے نکلتا چلا گیا۔ پیچھے بی جان اور حلیمہ بی بی آہ بھرتی رہ گئیں۔ فیصل کے چہرے پر شاطرانہ و فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔

"ہونہہ! بڑا آیا لوگوں کے حالات بدلنے والا، اسکول کھولے گا، لوگوں کو مفت علاج کی سہولت بھی دے گا۔ اب دیکھتا ہوں کیسے کھلتا ہے وہ اسکول! ارے یہ ساری زمینیں اور جائیداد کا میں اکلوتا وارث ہوں، اس کانٹے کو تو نکال پھینکا۔ اب اس کمین زادی سے نمٹتا ہوں۔ آج قدرت نے اچھا موقع دیا، ایک تیر سے دو شکار! ابھی اس کم بخت سے دو بول بول کر جان چھڑاتا ہوں۔ اور وہ شیرین بی بی کے پاس جو نئی چھوکری آئی ہے، کیا مکھن لگایا ہے اس نے؟ اب تو اس کو دل کی ملکہ بناؤں گا، راج کرے گی اس حویلی میں، میرے دل کی شہزادی! اور یہ بابا جان اور بی جان کی زندگی بھی کتنی ہے؟ اس کے بعد ساری جائیداد پر میرا قبضہ ہوگا، ہاہاہا!"

انسان جب کسی برائی کا سوچتا ہے تو وہ یہ بھول جاتا ہے کہ اوپر والا منصف ہے، جو ظالم کو اس کے انجام تک پہنچا دیتا ہے۔


بابا جان کے منع کرنے پر وقتی طور پر وہ مہرین کو طلاق دینے سے رک گیا تھا، مگر اس کا ارادہ جلد از جلد اسے گھر سے نکالنے کا تھا۔ مہرین اب حویلی تک محصور ہو گئی تھی۔ وہ معصوم لڑکی فضول رسموں کی بھینٹ چڑھ گئی تھی۔ نہ جانے کب تک مہرین جیسی بنت حوا کو ابن آدم کی بھول کا قرض ادا کرنا پڑے گا۔


آج کل شاہ بخت اپنے دوست نبیل کے فلیٹ میں مقیم تھا۔ یونیورسٹی کے بعد وہ نبیل کے آفس میں پارٹ ٹائم جاب بھی کر رہا تھا۔ ایم بی اے کے آخری سال کے بعد اس کا روشن مستقبل تھا، مگر فی الحال وہ تعلیم کے اخراجات کی فکر سے آزاد تھا کیونکہ بابا جان نے اس کے اکاؤنٹ میں پہلے ہی کافی رقم منتقل کر دی تھی۔ لیکن وہ چاہتا تھا کہ اپنی محنت سے کچھ کرے، تجربہ حاصل کرے۔

اپنے بھائی کی انا اور ظلم کو وہ اچھی طرح سمجھتا تھا۔ اس کی جائیداد پر قبضہ کرنے اور اپنے ارادے عملی جامہ پہنانے کے لیے شاہ خاور نے سب کچھ منصوبہ بندی سے کیا تھا، لیکن شاہ بخت مصلحت سے خاموش تھا۔ وقت آئے گا، تب وہ اپنا ارادہ ظاہر کرے گا۔


ایک دن یونیورسٹی کے بعد جلدی جلدی آفس کی طرف جاتے ہوئے اس کا سامنا ایک لڑکی سے ہو گیا، جو عجلت میں تھی۔

"اوہ! معاف کرنا، میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا!" شاہ بخت نے شرمندگی سے سر جھکاتے ہوئے کہا اور بکھری ہوئی فائلیں اٹھانے لگا۔

"کیا اندھے ہیں آپ؟ رئیس زادہ ہونے کی وجہ سے فرش کی بجائے عرش کی طرف دیکھ کر چلتے ہیں اور سامنے سے آتی ہوئی ایک جیتی جاگتی ہستی بھی نظر نہیں آتی!" نرم مگر تیز آواز سن کر شاہ بخت چونکا اور سر اٹھا کر دیکھا تو سامنے نورین کھڑی تھی۔ اس کی چمکتی آنکھیں اور بے مثال وقار نے شاہ بخت کے دل کو دھڑکا دیا۔

نورین نے فائلیں اس کے ہاتھ سے لے کر دروازے کی طرف چل دی۔


شاہ بخت حیرت سے اندر داخل ہوا، اور اپنے سیٹ کے سامنے نورین کو دیکھا جو اپنی خاموشی میں چاندنی بکھیر رہی تھی۔

"اوہ! تو یہی وہ جونیئر اکاؤنٹنٹ ہے جو اپنے والد کی بیماری کی وجہ سے چھٹی پر تھا۔ میں نے اس کو ہر ڈیپارٹمنٹ میں تلاش کیا، مایوس ہونے لگا تھا کہ اللہ نے اس گوہر نایاب سے اس طرح ملاقات کروائی۔"

عدنان کو نبیل سے پتہ چلا کہ نورین، اس کے والد کے بہترین دوست کی بیٹی ہے۔ وہ ایم اے اکنامکس کے فائنل ائیر کی ہونہار طالبہ تھی، مگر معاشی مشکلات اور والد کی بیماری کی وجہ سے وہ اپنے آخری سمسٹر میں باقاعدہ کلاسز نہیں لے پائے گی۔ اب تمام پروفیسرز کے تعاون سے اسے صرف امتحان دینے کے لیے یونیورسٹی آنا ہوگا۔

عدنان کو اس کمین مگر باوقار لڑکی سے جو پہلے ہی ملاقات کے دوران دل کے قریب ہو چکی تھی، شدید ہمدردی محسوس ہوئی۔


دوسرے دن عدنان تھوڑا جلدی یونیورسٹی پہنچ گیا۔ اتفاق سے وہ نورین کو اپنے کیبن میں کمپیوٹر کے سامنے مصروف پایا۔

"السلام علیکم، مس نورین!" عدنان نے گلا کھنکھارتے ہوئے اسے آواز دی۔

نورین جو اپنے کام میں مکمل طور پر منہمک تھی، چونک کر اسے دیکھا۔ عدنان کی پیشانی پر شکنیں تھیں کیونکہ یونیورسٹی میں اس کی شاندار خوبصورتی اور دولت کا چرچا تھا۔ لڑکیاں اس کے گرد شہد کی مکھی کی طرح منڈلاتی تھیں، مگر نورین اسے بس ایک بگڑا ہوا رئیس زادہ سمجھتی تھی۔

"وعلیکم السلام!" اس نے مختصر مگر بندھے بندھے لہجے میں جواب دیا۔


عدنان نے بات آگے بڑھانے کی کوشش کی، "نبیل سے سنا ہے کہ آپ بھی اسی آفس میں کام کر رہی ہیں۔ زیادہ تفصیل نہیں دی نبیل نے، شاید آپ کو لگتا ہے کہ یہ امیر زادوں کا انداز ہے جو ملازمت کرتے ہیں تاکہ لائف میں تھوڑی تبدیلی آ جائے۔"

"اور کیسی ہیں آپ؟ آپ اس دن کے بعد یونیورسٹی میں نظر نہیں آئیں؟" عدنان نے ہنسی چھپاتے ہوئے پوچھا۔

"یہ تو بس معمولی باتیں ہیں۔" نورین نے ٹالنے کی کوشش کی، مگر عدنان نے مزاح کے انداز میں کہا، "بجائے اسائنمنٹ تیار کرو، ورنہ کل تمہارے سر کے بل گرادیں گے۔"


"مسٹر عدنان! شاید یہ میرا ذاتی معاملہ ہے، آپ کو میری ذاتیات پر سوال کرنے کا کوئی حق نہیں۔ آپ نبیل کے دوست اور میرے کولیگ ہیں، اس لیے احترام کرتی ہوں، لیکن برائے مہربانی آئندہ اتنی بے تکلفی نہ کریں۔ امید ہے میری بات آپ کو برا نہیں لگی ہوگی۔" یہ کہہ کر نورین نے فائل اٹھائی اور ایم ڈی کے روم کی طرف چل دی۔

نبیل جو کافی دیر سے دونوں کی گفتگو سن رہا تھا، نورین کے جاتے ہی مسکرا کر عدنان کے سامنے آیا۔


"ہاہاہا! شاہ بخت کی بولتی ایک نازک سی لڑکی نے بند کر دی، جس کی ذہانت کے آگے کوئی نہیں چل سکتا۔ آج ایک لڑکی سے شکست کھا گیا۔" نبیل نے ہنستے ہوئے کہا۔

عدنان نے بھی مسکرا کر جواب دیا، "ارے واہ! جیسے جلالی انسان میری بات پر غصے کی بجائے مسکرا رہے ہیں۔ آج کل تو انقلاب کا زمانہ ہے۔"


نبیل نے مزاح میں کہا، "مجھے تو دال میں کچھ کالا لگ رہا ہے، کہیں دل ول کا کوئی معاملہ تو نہیں؟ اگر ایسا ہے تو بھائی، ابھی سے اپنے ناتواں دل کو سمجھا لے کہ یہ کسی اور حسینہ عالم کے زلف کا اسیر ہو جائے گا۔ نورین جیسی پر اعتماد اور اپنے ارادوں میں پکے لڑکی کے سامنے تیری دال نہیں گلنے والی!"

عدنان نے مسکرا کر کہا، "کہتے ہیں منہ اچھا نہ ہو تو بات اچھی کر لینی چاہیے، مگر اچھی بات کرنے کے لیے دماغ چاہیے جو تمہارے پاس نہیں۔ تو فضول قیاس آرائیاں کرنے کی بجائے اسائنمنٹ تیار کرو، ورنہ کل انکل تمہیں گھوڑے سمیت سر کے بل گرا دیں گے!"

اوہ ہاں! میں اسی سلسلے میں تمہارے پاس آیا تھا، کچھ پوائنٹس سمجھ نہیں آ رہے تھے، سوچا تم سے ڈسکس کر لوں۔ یار، اکلوتا وارث ہونے کا بھی کوئی فائدہ نہیں، ڈیڈی اتنے سخت مزاج ہیں کہ مجھے یہاں تمہارے ساتھ باندھ کر رکھ دیا ہے۔ آہ، یہ حسین شام پٹنا، بینا اور ماریہ جیسی حسیناؤں کے ساتھ رنگین بنانے کی ہے یا یہاں اس آفس میں تمہاری بورنگ شکل دیکھنے کے لیے؟

فیصل نے اپنی فضول گوئی کا جواب دینے کے بجائے اسائنمنٹ کی فائل کھول لی جو اس کے لیے ایک بڑا چیلنج تھا۔ اس پروجیکٹ کے کامیاب ہونے پر ان کی کمپنی بین الاقوامی سطح پر پہنچ سکتی تھی، اور یہ اس کی ترقی کا آغاز تھا۔


دوسرے دن پریزنٹیشن تھی۔ سب سے پہلے نورین نے اپنے پوائنٹس پیش کیے۔ بلاشبہ، سب نے اس کی ذہانت اور صلاحیت کو سراہا۔ پھر فیصل کی باری آئی۔ بلیک ڈنر سوٹ میں وہ انتہائی باوقار اور متاثر کن لگ رہا تھا۔ اس کے چہرے پر وہی مخصوص مسکراہٹ تھی جو اس کی شخصیت کا خاصہ تھی۔


"ہونہہ، جاب تو ہم جیسے ضرورت مندوں کی مجبوری ہے اور ان جیسے بڑے لوگوں کے لیے ایک مشغلہ۔"
نورین ابھی اپنے عظیم خیالات میں کھوئی ہوئی تھی کہ فیصل کی سحر انگیز، گھمبیر آواز نے کمرے میں خاموشی چھا دی۔ پھر اس نے ایک کے بعد ایک سلائیڈ اور ٹرانسپیرنسی کے ذریعے کمپنی کے منافع بخش پہلوؤں پر روشنی ڈالی، جسے دیکھ کر نورین حیرت اور تعجب میں مبتلا ہو گئی۔


ڈنر کے بعد سب اپنے اپنے گھر روانہ ہو گئے۔ فیصل بھی پارکنگ کی طرف جا رہا تھا کہ پیچھے سے نبیل کی آواز سن کر رک گیا۔

"یار، ایک چھوٹا سا کام ہے، تم نورین کو اس کے گھر چھوڑ آؤ۔ ابھی ابھی ماں کی کال آئی ہے، وہ دبئی سے واپس آ گئی ہیں، مجھے ائیرپورٹ جانا ہے۔ یار، نورین کا گھر راستہ بالکل مخالف ہے، ورنہ میں خود چھوڑ دیتا۔"

نبیل عجلت میں چلا گیا، جبکہ فیصل مسلسل نورین کی طرف دیکھ رہا تھا جو لیمن کلر کی لونگ شرٹ اور ٹراوزر کے ساتھ بلیک اسکارف پہنے اس کے دل کے تار چھو رہی تھی۔ اس کے چہرے کے تاثرات سے لگ رہا تھا کہ وہ بحالت مجبوری اس کے ساتھ جانے کو تیار ہوئی ہے۔


فیصل کو اس کے ساتھ یہ سفر بہت خوبصورت لگا۔ اس نے کیسٹ پلیئر آن کیا اور نورین کی طرف کن اکھیوں سے دیکھا جو گانے کے بول سن کر شرماتے ہوئے پہلو بدل گئی۔ پورے آٹو میں گانے کی نرم دھن گونج رہی تھی، اور یہ کلیکشن نبیل کی تھی جو آج کل اس کے زیر استعمال تھی۔


"فلک تک چل ساتھ میرے، فلک تک چل..."

نورین کے ایکسپریشن پر فیصل کے عنابی ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔ اسے حیرت ہوتی کہ وہ جیسا خشک انسان جو صنف نازک سے دور رہتا تھا، جس نے کبھی کوئی گرل فرینڈ نہیں بنائی اور نہ ہی کسی لڑکی کی حوصلہ افزائی کی، نورین کی سادہ مگر پر اعتماد شخصیت نے کیسا جادو کر دیا ہے کہ دن بہ دن وہ اس کے سحر میں گم ہوتا جا رہا تھا۔


"مس نورین، آج آپ کی پریزنٹیشن واقعی بہت اچھی تھی، ماشاءاللہ! میں متاثر ہوں۔ مجھے آپ جیسی پر اعتماد اور آگے بڑھنے کی جستجو رکھنے والی لڑکیاں ہمیشہ سے متاثر کرتی آئی ہیں۔"

نورین نے کچھ کہنا چاہا...

"آہ ہاں، پلیز اب یہ مت کہیے گا کہ یہ آپ کا پرسنل میٹر ہے۔ بقول آپ کے ہم کولیگز ہیں، تو بحیثیت کولیگ، آفیشل ورک پر تو آپ کو اپریشیئٹ کر سکتا ہوں۔" پہلی بار ثنا اس کی بات سن کر لا جواب ہو گئی، پھر اپنا تاثر بدلنے کے لیے جواب میں اس نے بھی اس کی تعریف کی۔

"اوہ تو آپ بدلہ اتار رہی ہیں۔ اینی ویز، تھینکس! آپ کی یہ تعریف میرے لیے انمول خزانہ ہے۔" یہ آخری بات اس نے زیر لب کہی جو ثنا کی سماعت تک پہنچ نہ سکی۔

"مسٹر فیصل! واقعی آپ بھی ہارڈ ورکر ہیں، میں متاثر ہوں، اور پاسنیٹ بھی۔ جبکہ میں سمجھتی تھی۔۔۔"

"جبکہ آپ مجھے ایک بگڑا ہوا امیر زادہ، لا ابالی، گرل فرینڈز بنانے والا اور لڑکیوں کے ساتھ ٹائم پاس کرنے والا نوجوان سمجھتی تھیں۔ آپ کے خیال میں میری عزت اور شاندار تعلیمی ریکارڈ میرے والد کی جاہ و جلال کی بدولت ہے، مگر آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ میں کچھ وجوہات کی بناء پر اپنے والد کا سہارا چھوڑ چکا ہوں اور اب خود کفیل ہوں، خود سے کچھ کرنا چاہتا ہوں۔ میں مانتا ہوں میرا تعلق ایک جاگیردار گھرانے سے ہے، مگر یقین کریں میں نے کبھی اپنی حیثیت کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا۔ میرے اساتذہ صرف میرے ٹیلنٹ اور اعلیٰ کردار کی وجہ سے مجھے پسند کرتے ہیں۔ صنف نازک کا احترام میں بالکل ویسے ہی کرتا ہوں جیسے اپنی حویلی کی خواتین، میرے لیے باعثِ احترام ہیں، اور میں اپنے علاقے کی ترقی کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتا ہوں۔ یہ ملازمت بھی سمجھ لیں اسی مقصد کی جانب پہلا قدم ہے۔"

"میں اپنے زور بازو پر اپنی شناخت بنانا چاہتا ہوں۔ یہ سب باتیں بتانے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ آپ پلیز میری طرف سے جو غلط فہمیاں ہیں وہ دور کر لیں، کیونکہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔" فیصل نے سنجیدگی سے اپنی بات مکمل کی۔

ثنا، جو اس کی گھمبیر اور سحر انگیز آواز کے طلسم میں کھوئی ہوئی تھی، اچانک چونک گئی۔

"سوری فیصل! آپ کا امیج واقعی میرے سامنے بہت خراب تھا، مگر دو ماہ سے اس آفس میں جاب کرتے ہوئے آپ کی شخصیت کے مثبت پہلو سامنے آئے ہیں، تو آج میں بر ملا کہتی ہوں کہ واقعی آپ دوسرے جاگیردارانہ فطرت رکھنے والے نوجوانوں سے مختلف ہیں۔ لیکن اس طرح کی سوچ پر میرا بھی کوئی قصور نہیں، دراصل میرے والد کا تعلق ایک دیہی علاقے سے ہے جہاں وہ اسکول ٹیچر تھے۔ انہوں نے گاؤں میں جہالت کے اندھیرے کو تعلیم کی روشنی سے دور کرنا چاہا، مگر گاؤں کے وڈیروں نے انہیں در بدر کر دیا۔ اگر نبیل کے والد کا ساتھ نہ ہوتا تو آج ہم کہاں ہوتے؟ اس لیے مجھے فیوڈل سسٹم سے تعلق رکھنے والوں سے نفرت ہے۔ اب میں اپنی سوچ پر شرمندہ ہوں، واقعی ہر انسان کے کردار کو ایک ہی پلڑے میں نہیں توکھنا چاہیے۔" ثنا نے اپنے پچھلے رویے پر معذرت کی۔

"اٹس اوکے! بہت افسوس ہوا آپ کے والد کے ساتھ اس ناروا سلوک کا سن کر۔ مگر اب تو آپ کا دل میری طرف سے صاف ہو گیا نا؟ تو ہم اچھے دوست بن سکتے ہیں؟ دیکھیں پلیز، اب یہ مت کہیے گا کہ میں لڑکوں سے دوستی نہیں کرتی۔ پلیز یقین کریں، میں ایک بے ضرر سا انسان ہوں، جو پہلی بار کسی لڑکی کے ٹیلنٹ، اس کے رکھ رکھاؤ اور کردار کی مضبوطی کی وجہ سے متاثر ہوا ہے۔"

ثنا نے اس کی بات کے جواب میں صرف اتنا کہا...

"مجھے آپ کے خلوص پر کوئی شک نہیں رہا، مگر ہماری کچھ اسلامی حدود اور معاشرتی اقدار ہیں، جن کی پاسداری ایک لڑکی ہونے کی حیثیت سے میری ذمہ داری ہے۔ اس لیے آپ سے دوستی میں افورڈ نہیں کر سکتی۔ البتہ ہم کولیگز ہیں، اس لحاظ سے آپ میرے لیے قابلِ احترام ہیں۔ آج بھی مجبورا آپ کے ساتھ آنا پڑا، آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے مجھے گھر تک ڈراپ کیا۔ میں آپ کو ایک کپ چائے کی آفر ضرور کرتی، مگر رات کے اس پہر میں یہ افورڈ نہیں کر سکتی۔ میرا یہ اخلاقی رویہ میرے لیے باعثِ زلت بھی بن سکتا ہے۔ امید ہے آپ میری مجبوری سمجھتے ہوئے میری بات کا برا نہیں مانیں گے۔ اللہ حافظ۔"

یہ کہہ کر عائشہ نے اپنے سائیڈ کا دروازہ کھولا اور سامنے موجود اپارٹمنٹ کی طرف بڑھ گئی۔ فیضان اسے اس وقت تک جاتا دیکھتا رہا جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہو گئی۔ عائشہ کی یہ احتیاط پسندی اور ریزرو رہنے کی عادت نے فیضان کے دل میں محبت کے ساتھ احترام و تکریم کا جذبہ پروان چڑھایا تھا۔ وہ ہلکی سی دھن گنگناتے ہوئے وہاں سے روانہ ہوا۔

وقت کے گزرنے کے ساتھ فیضان کے دل میں عائشہ کے لیے پروان چڑھنے والی محبت کی کونپل ایک تناور درخت بن چکی تھی۔ اب وہ خود بھی محتاط رہتا تھا کہ کہیں اس کی کوئی بات عائشہ کو ناگوار نہ گزرے۔ عائشہ بھی اس کے جذبے سے بے خبر نہیں رہی تھی۔ اس کے دل میں بھی فیضان کے لیے نرم گوشہ پروان چڑھ چکا تھا۔ اب وہ کبھی کبھار فیضان کے ساتھ ہلکے پھلکے موضوعات پر بات کر لیتی تھی۔ فیضان کے لیے اس کا اتنا ہی بے التفاتی کافی تھی۔


اسی دوران، حویلی کے دوسرے گوشے میں طوفان برپا تھا۔

"فیضان عالم! یہ میں کیا سن رہا ہوں؟ تم نے آم کے باغ والی زمین بیچ دی ہے؟ ارے بابا، ایسی کیا ضرورت آن پڑی تھی کہ اپنے آبا و اجداد کی آبائی زمین مجھ سے پوچھے بغیر بیچ دی؟"

بزرگ شاہ عالم کی آواز غصے سے دہاڑیوں جیسی گونج رہی تھی۔ انہیں اپنے خاص مشیر کے ذریعے زمینوں کی فروخت کی خبر ملی تو ان کا صبر لبریز ہو چکا تھا۔

"بابا، ضرورت تھی ناں، جب ہی بیچی ہے۔ ویسے بھی وہ زمین میری ملکیت تھی، تو پھر اجازت کی کیا ضرورت؟" فیضان نے نرمی سے جواب دیا، مگر اس کی بات میں ایک پُر خطر اشارہ بھی چھپا تھا۔

"اوہ تو اب تم اتنے با اختیار ہو گئے ہو کہ مجھ سے پوچھنا بھی گوارا نہیں کیا؟ بھلا ایسی کیا آفت پڑی تھی، مجھے بھی تو پتہ چلے!" شاہ عالم کی آنکھوں میں آگ اور چہرے پر سختی تھی۔

"بابا، بات کھل ہی گئی ہے تو سن لیں، میں نے شہر میں نکاح کر لیا ہے، اور یہ زمین بیچ کر رقم اپنی بیوی کے نام ٹرانسفر کر دی ہے۔"

یہ الفاظ نہ صرف بم کے برابر تھے بلکہ پورے گھرانے کی بنیادیں ہلا دینے والے تھے۔ مہرو، جو پہلے ہی ناپسندیدہ تھی، اب دوسری شادی کے بعد اس حویلی میں بے چارہ نظر آ رہا تھا۔ غریب والدین اپنی بیاہی ہوئی بیٹی کو دوبارہ گھر بٹھا نہیں سکتے تھے۔ مہرو کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل آئے۔

"اوہ یعنی فیضان نے تمہارے بارے میں جو انکشافات کیے وہ درست تھے! میں غصے میں اس کو ہی غلط سمجھتا رہا۔ اپنے ہیرے جیسے لائق بیٹے کو بے اختیار کر دیا۔ نجانے وہ کہاں در بدر ہو رہا ہوگا۔ میں کہتا ہوں، ابھی اور اسی وقت حویلی سے نکل جاؤ! مجھے تم جیسے ناخلف اولاد کی کوئی ضرورت نہیں۔"

شاہ عالم کی آواز نے پورے گھر میں گونج مچا دی۔ مہرو کی دنیا گہری خاموشی میں ڈوب گئی۔ اس کی شکست خوردہ آنکھوں میں ناامیدی اور درد کی کہانیاں تھیں، اور فیضان کے قدموں تلے جیتے جی اس کے خواب چکنا چور ہو چکے تھے۔

"ہا ہا ہا، حویلی سے میں نہیں، آپ کو نکلنا ہوگا بابا سائیں، کیونکہ یہ حویلی میرے نام ہے۔ بابا سائیں، آپ شاید بھول رہے ہیں، آپ نے خود پچھلے سال اسے میرے نام کیا تھا، اور اب گدی نشین بھی مجھے ہی رواج کے مطابق ہونا ہوگا۔"

فاروق خان نے اپنی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے بڑے زعم و تکبر سے کہا۔

یہ سن کر شاہ عالم حیرت و بے یقینی سے اپنے بیٹے کی طرف دیکھنے لگے، جن کے عیوب پر انہوں نے ہمیشہ آنکھیں بند رکھی تھیں، ہر برائی اور غلطی پر پردہ ڈالا تھا، اور آج وہ بیٹا انہیں گھر سے نکلنے کا حکم دے رہا تھا۔

سینے میں اچانک تیز درد نے انہیں گھیر لیا، وہ گرتے ہوئے بیٹھ گئے۔ بی بی جان ان کی درد بھری چیخ سن کر باہر آئیں تو اپنے سر کے سائیں کو زمین پر بےہوش پڑا پایا۔

"سائیں، سائیں! کیا ہوا آپ کو؟ اٹھیں سائیں! ارے بشیراں، نذیراں! جلدی آؤ، تمہارے بابا کو کیا ہو گیا ہے؟ اللہ سا ئیں، میرے سر کے سائیں کو سلامت رکھنا۔"

پورے حویلی میں گویا بھونچال آ گیا تھا۔ فاروق خان وہاں سے پاؤں کی دھمک کے ساتھ چلا گیا۔ مہرو نے بڑی کوششوں کے بعد شاہ بخت سے رابطہ کیا۔ یہ بھیانک خبر سن کر شاہ بخت فوراً گاؤں کی طرف روانہ ہوا اور بابا سائیں کو شہر کے مشہور ہسپتال میں داخل کروایا گیا جہاں ان کا میجر ہارٹ اٹیک کا علاج کیا گیا۔

رات دن کی انتھک محنت اور بی بی جان کی دعاوں سے بابا سائیں اب خطرے سے باہر تھے۔ اس مشکل وقت میں نبیل نے ان کا بھرپور ساتھ دیا، نور بھی دو بار ان سے ملنے آئی تھی۔ بابا سائیں نور کی پاکیزگی، سنجیدگی اور شائستہ انداز گفتگو سے بے حد متاثر ہوئے تھے۔ انہیں اب یہ بات سمجھ میں آ گئی تھی کہ تعلیم انسان کو کیسے سنورتا ہے۔ اگر انہوں نے فاروق کی تعلیم پر بھی توجہ دی ہوتی اور اس کی ہر بے جا خواہش کو نہیں مانا ہوتا تو آج اس کی شخصیت اتنی مسخ شدہ نہ ہوتی۔

آج بابا سائیں کو ہسپتال سے ڈسچارج ہونا تھا۔ نور اپنے والد کے ساتھ ان سے ملنے آئی تھی۔ اس کا سامنا کوریڈور میں ہی شاہ بخت سے ہوا۔ ان کربناک لمحات میں نور کی مہربانی اور اخلاقی سہارا ملنے کی وجہ سے وہ دل سے اس کا شکرگزار تھا۔

وہ دونوں باتیں کرتے ہوئے بابا کے کمرے میں پہنچے، جہاں بابا دوسری طرف کروٹ لے کر سو رہے تھے۔

"بابا سائیں، دیکھیں، آج نور اپنے والد کے ساتھ ملنے آئی ہے۔" شاہ بخت نے کہا۔

بابا سائیں نے کروٹ بدلی تو نور کے والد پر ان کی نظر پڑی، جن کا چہرہ غم و رنج کی شدت سے زرد پڑا ہوا تھا۔

"انکل، یہ میرے بابا سائیں ہیں، اور بابا سائیں، یہ۔۔۔"

شاہ بخت کی نظر نور کے والد پر پڑی، جن کا چہرہ دُکھ اور بے بسی میں گھرا ہوا تھا۔

"انکل آریا، او کے؟ آپ کی طبیعت ٹھیک ہے؟"

اتنے میں نور بھی قریب آ چکی تھی۔

"بابا، بابا کیا ہوا؟ پلیز شاہ بخت، کیا پانی ملے گا؟"

نور کے والد نے دونوں کی طرف چونک کر دیکھا اور اپنی اندرونی کیفیت پر قابو پاتے ہوئے شاہ بخت کو ہاتھ کے اشارے سے روکا۔

"میں۔۔۔ میں ٹھیک ہوں بیٹا، چکر آ گیا تھا۔ اور شاہ صاحب، آپ سنائیں، خیریت تو ہے؟ نور نے آپ کی شخصیت اور وقار کی بہت تعریف کی تھی۔ پھر شاہ بخت جیسے فرمانبردار اور نیک لڑکے کے والد ہیں آپ، تو بس آپ کی عیادت کے لیے چلا آیا ہوں۔ اب اجازت دیجیے گا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ کا سایہ آپ کے بچوں اور اپنے لوگوں پر سلامت رہے۔ اللہ حافظ۔"

یہ کہہ کر عارف خان نے نور کو اٹھنے کا اشارہ کیا۔


"ٹھرو، جلال احمد! مجھے اور کتنا شرمندہ کرو گے؟ میں نے ہمیشہ تمہارے ساتھ برا رویہ رکھا، تمہارے علم کی روشنی پھیلانے کے جذبے کو تمہارا جرم بنا دیا، اور کہیں گاؤں سے زلیل کر کے رات کے اندھیرے میں در بدر کر دیا، اور آج تمہاری زبان پر کوئی حرف شکایت نہیں۔ تمہیں تو مجھ سے نفرت کرکے منہ موڑ کر چلے جانا چاہیے تھا، مگر تم نے آج بھی میرا بھرم رکھا۔ واقعی تم نے ثابت کر دیا جلال احد کہ تعلیم انسان کو شعور و آگہی دیتی ہے، اور اس میں درگزر کی طاقت پیدا کرتی ہے۔ مجھے دیکھو، میں جسے اپنی جاہ و حشمت اور گدی نشینی پر غرور تھا، آج مجھے اپنے ہی بیٹے نے بی در بدر کر دیا، پورے گاؤں میں میری جگ ہنسائی کا باعث بنا۔ اگر مہرو نے بروقت شاہ بخت کو اطلاع نہ دی ہوتی، تو نہ جانے آج میرا کیا حال ہوتا۔"

یہ کہہ کر بابا سائیں شرمندگی اور ندامت سے سر جھکا گئے۔ نور کو بھی پوری کہانی سمجھ میں آ گئی کہ وہ جس شخص سے نفرت کرتی آئی تھی، آج ان کی زبوں حالی دیکھ کر اس کے نرم دل میں نفرت کے بجائے ہمدردی کے جذبات جاگ اٹھے۔ شاہ بخت اب بھی سکتے کے عالم میں تھا، تب نور کے والد نے بابا سائیں کو گلے لگایا۔


"شاہ صاحب، جو کچھ ہوا، بھول جائیں۔ شاید میری قسمت میں ہی اپنی مٹی کی خدمت کرنا نہیں لکھا تھا۔"


"نہیں، جلال ایسا مت کہو۔ مجھے ایک موقع دو تلافی کا۔ تم، نور بیٹی اور شاہ بخت مل کر گاؤں سے جہالت کا اندھیرا دور کر کے علم کے دیے روشن کرنا ہیں، اور اس جہاد میں میں تمہارے ساتھ ہوں۔"

بابا سائیں کے اس فیصلے سے شاہ بخت کے ساتھ ساتھ نور اور اس کے والد کے چہرے بھی خوشی سے چمک اٹھے۔ نور کے والد کو خوشی تھی کہ اللہ نے انہیں اپنی مٹی کی خدمت کا موقع دیا۔


اگلے دن شاہ بخت اور نور نے نبیل سے دو ماہ کی چھٹی لی اور گاؤں کے لیے روانہ ہو گئے۔ گاؤں پہنچ کر ان کی منتظر ایک بہت بری خبر تھی۔ جلال کے بھائی، شاہ خادم، جس عورت کی خاطر اپنے والد کا شملہ نیچا کیا تھا اور انہیں در بدر کیا تھا، وہ عورت سب کچھ اپنے نام کروا کر اسے دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال چکی تھی۔

گاؤں واپسی پر شاہ خادم کی گاڑی کا ٹرک سے ٹکراؤ ہو گیا، جو کہ نشے میں ڈرائیونگ کی وجہ سے ہوا تھا۔ وہ موقع پر ہی جاں بحق ہو گیا۔ اس کی لاش دو دن بعد سنسان سڑک پر سے گزرتے ہوئے ایک راہگیرے کو ملی، چہرہ مسخ ہو چکا تھا، جسم سے تعفن اٹھ رہا تھا۔ شناختی کارڈ کی مدد سے اس کی شناخت ہوئی، اور دیکھنے والے روتے ہوئے ہاتھ رکھے بغیر نہ رہ سکے۔

زمین پر غرور و تکبر سے اکڑ کر چلنے والے کا اتنا برا انجام ہر کسی کے لیے باعث عبرت تھا۔ سردار صاحب کا دل جواں بیٹے کی اس طرح لاوارث موت پر خون کے آنسو رو رہا تھا۔ بی بی جان اور مہک کی آنکھیں بھی نم تھیں، بہرحال وہ اس کے سر کا سائیں تھا۔

پورے گاؤں میں سوگ کی کیفیت چھائی ہوئی تھی، مگر زندگی کا تقاضا ہے کہ اپنے دامن میں خوشیوں اور غم کے موتی سمیٹ کر آگے بڑھتے رہنا۔ چند دنوں بعد اس خاندان کو بھی صبر آ گیا۔ پھر سردار خلیل کے نام پر گاؤں میں "خلیل میموریل اسکول اینڈ انڈسٹریل ہوم" کی بنیاد رکھی گئی، جس کا افتتاح نور کے والد سے کروایا گیا۔ پچیس سال پہلے انہیں جس طرح ذلیل و خوار کر کے نکالا گیا تھا، آج وہی عزت و تکریم واپس مل گئی۔

ماہرہ کا نکاح سردار صاحب نے اپنے پرانے وفادار ملازم کے ساتھ کروا دیا تھا اور اسے عزت کے ساتھ بیٹی بنا کر گھر سے رخصت کیا۔ ماروی بہت خوش تھی، آج اس کا اسکول میں نویں کلاس کا پہلا دن تھا۔ اسے امید تھی کہ ایک دن وہ بھی نور کی طرح پڑھ لکھ کر اس علم کے روشن دیے میں اپنا نام روشن کرے گی۔ اسی کے ساتھ ایک مدرسے کا قیام بھی کیا گیا تھا جہاں بشیراں بی بی گاؤں کی عورتوں کو دین کی تعلیم دیتی تھیں۔ وہ اس کار خیر سے بے حد خوش اور مطمئن تھیں کہ اس طرح ان کی زندگی دوسروں کے لیے کارآمد اور بامقصد بن گئی۔

نور اسکول اور انڈسٹریل ہوم کے لیے ضروری بنیادی سامان کی لسٹ بنا رہی تھی، وہ پوری طرح اپنے کام میں منہمک تھی۔ شاہ بخت نے اسے وقتی طور پر اسکول کا انچارج بنا دیا تھا۔ اس نے اخبار میں اسٹاف کی اسامیوں کے لیے درخواست دی تھی۔ قریبی قصبے سے پانچ لڑکیوں کو ٹیچر مقرر کیا گیا تھا اور ایک چوکیدار بھی رکھا گیا تھا۔ نور اور شاہ بخت کا ارادہ تھا کہ وہ ہر ماہ وزٹ کرتے رہیں گے، جبکہ نور کے والد کو بطور مستقل یہاں قیام کرنا تھا۔

آج نور کا آخری دن تھا، کل اسے شہر واپس جانا تھا۔

"مس نور! میرے خیال میں سارا سیٹ اپ مکمل ہو چکا ہے، اگر کہیں کوئی کمی ہو تو پلیز مجھے بتا دیں، میں جانے سے پہلے پوری کر دوں گا۔ میں نہیں چاہتا کہ ہمارے گاؤں کے بچوں کو کسی قسم کی کوئی پریشانی ہو، میں انہیں ہر سہولت فراہم کرنا چاہتا ہوں۔" شاہ بخت نے سنجیدہ لہجے میں پوچھا۔

نور نے شاہ بخت کی طرف دیکھا، معمول سے ہٹ کر آج وہ سفید کرتا شلوار میں ملبوس تھا، جس میں اس کا لمبا قد اور بھی نمایاں ہو رہا تھا۔ پہلی بار نور نے اپنا دل دھڑکتا ہوا محسوس کیا۔ اس نے جلدی سے نظریں ہٹائیں جو شاہ بخت کی نگاہ سے اوجھل نہ رہ سکیں۔ وہ اس کے اس انداز پر مسکرا دیا۔

"اوہو تو محترمہ کے دل میں میری محبت کی بارش نے دستک دے دی! چل شاہ بخت، ہمت پکڑ، ورنہ تیری زندگی میں یہ نور بکھیرتی لڑکی اندھیرا کر کے چلی جائے گی۔"

"نہیں، فی الحال کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ کچھ فرنیچر اور کتابوں کی ضرورت تھی جو میں نے رحمت چاچا کو شہر بھیج کر منگوالی ہیں۔ اور انڈسٹریل ہوم کی بھی آپ فکر مت کریں، اسکول کے بعد نویں دسویں کی بچیوں کو مہک اور ماہرہ مختلف سلائی کڑھائی کے ہنر سکھائیں گی۔"

"گڈ، تو پھر آپ کل یہاں سے روانہ ہو رہی ہیں؟"

"جی جانا تو ہے، مگر ہر چار ماہ بعد چکر لگاتا رہوں گا، زینب بھی مجھ سے رابطے میں رہیں گی۔" آریان نے جواب دیا۔

"ہونہہ، اگر جانے سے پہلے میں آپ کی انگلی میں اپنے نام کی انگوٹھی پہنا دوں تو آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں ہوگا؟" شاہزار نے اس کے چہرے کی طرف محبت سے دیکھتے ہوئے گھمبیر لہجے میں اپنے دل کی آرزو بیاں کی۔ زینب نے اس خلاف توقع بات پر حیرت سے اسے دیکھا۔

"دیکھئے شاہزار۔۔۔" مگر شاہزار نے اس کی بات فوراً کاٹ دی۔

"پلیز اب یہ مت کہیے گا کہ آپ کو جاگیردار نظام سے نفرت ہے، آپ کی نفرت کی جو وجہ تھی وہ اب ختم ہو چکی ہے، آپ کے والد کا خواب پورا ہو چکا ہے تو اب پلیز آپ بھی اس معصوم انسان پر رحم کھائیں جس کا ناتواں دل پہلی نظر میں ہی آپ کی شخصیت کے جادو میں ایسا جکڑا کہ آج تک اس کی گرفت سے نکل نہیں سکا۔" شاہزار کے گھمبیر محبت سے لبریز لہجے پر زینب مزید کچھ کہہ نہ سکی، اس کی آنکھیں بارِ حیا سے جھک گئیں۔

"شاہزار یہ فیصلہ بڑوں کے درمیان ہونا چاہیے، میرا وہی جواب ہوگا جو میرے والد کا ہوگا۔" یہ کہہ کر وہ وہاں سے جانے لگی۔

"اچھا، یہ تو بتائیں کہ آپ کو کوئی اعتراض نہیں؟" زینب ایک لمحے کے لیے رکی، مگر بغیر پلٹے ہی جواب دیا،

"نہیں۔"

یہ ایک لفظ اقرار نے شاہزار کی زندگی کو جگنوؤں سے بھر دیا تھا۔ پھر سردار صاحب اور زینب کے والد کی رضا مندی سے اگلے ہفتے دونوں کو نکاح کے پاکیزہ بندھن میں باندھ دیا گیا، جس میں نبیل کی فیملی نے بھی شرکت کی تھی۔ اب واپسی کے سفر میں دونوں ایک دوسرے کے ہمسفر اور اپنی آئندہ زندگی سے مطمئن تھے۔



Post a Comment for " روایت شکن"