Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

"اک خاموش سی محبت"


"براؤن بریڈ۔۔۔ ایک انڈا ابلا ہوا، آدھا چکوترا اور کیا بولا تھا، آگے یاد نہیں آ رہا۔ عائشہ نے پین سر پر تقریباً مارتے ہوئے اپنی حسین یادداشت کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ وہ تقریباً ایک گھنٹے سے ایک معروف و مشہور چینل سے آنے والے مارننگ شو کے آگے اپنا سر کھپا رہی تھی۔ ایک نسخہ جلدی کاپی کرتی تو دوسرا رہ جاتا۔ دس بجنے والے تھے اور وہ نو بجے سے لیٹر پیڈ اور پین پکڑے نہایت انہماک سے ٹی وی دیکھنے میں مگن تھی۔

وقفہ ختم ہونے والا تھا، ایک بار پھر وہ لکھنے کے لیے الرٹ ہوئی۔ آج کل اس پر ڈائٹنگ کا بھوت سوار تھا — کیوں سوار تھا، یہ ایک لمبی کہانی تھی۔

"گرین ٹی... اخ! یہ نہیں پی جائے گی مجھ سے، ایسا کرتی ہوں بغیر چینی کے چائے پی لوں گی۔" میزبان نے دودھ شکر والی چائے کے بجائے گرین ٹی کے استعمال کا مشورہ دیا تو اسے سخت کوفت ہوئی۔

"افوہ یار! کہاں پھنس گئی میں، یہ ڈائٹنگ وائٹنگ میرے بس کی نہیں!" اب وہ جھنجھلا گئی۔ نسخے نوٹ کرتے کرتے، ویسے بھی آج کل ہر چینل پر روز صبح صبح ٹوٹکے اور وزن کم کرنے کے طریقے بتائے جاتے تھے اور گھر بھر کی فارغ خواتین وہی ٹوٹکے خود پر آزمانے میں مصروف ہو جاتی تھیں۔

"یہ اچھا شغل لگایا ہے تم نے! گھر کی صفائی ستھرائی، برتن سب کام ویسے ہی پڑے ہیں اور محترمہ یہاں ٹی وی دیکھ رہی ہیں!" اماں نے اچانک کسی سیاستدان کی طرح انٹری دی اور ٹی وی بند کر دیا۔

"افوہ اماں! آپ بھی نہ، آج لائٹ نہیں گئی تو آپ نے بند کر دیا۔ میری پیاری اماں، کر لوں گی نا سارا کام، دیکھنے تو دیں!" عائشہ نے اماں کو مکھن لگانے کی کوشش کی۔

"نہ پریزے، نہ! یہ تو گیارہ بجے تک آتا رہے گا، گھر گندا پڑا رہے گا، تیرے ابا نو بجے جاتے ہیں اور تُو یہ لگائے بیٹھ جاتی ہے! نجانے کیا دبلا ہونے کی دھن سوار کر لی ہے تُو نے۔ ارے ایک زمانہ تھا، سب کھاتے تھے اور فِٹ رہتے تھے اور ایک آج کل کا زمانہ ہے، یہ مت کھاؤ، وہ مت کھاؤ، پھر بھی کمزوری!" اماں ذرا پرانے زمانے کی تھیں، ان کو آج کل کے طریقوں سے خدا واسطے کا بیر تھا۔

"اماں پلیز، بس آج دیکھنے دیں!" وہ اب رو دینے کو تھی۔

"پہلے کام کرو، پھر یہ فالتو کام کرتی رہنا!" اماں اب باقاعدہ ٹی وی کا پلگ نکال کر ریموٹ بھی اٹھا کر لے گئیں، مبادا کہیں وہ ان کے جاتے ہی پھر ٹی وی آن نہ کر لے۔ اماں بھی بڑی موڈی تھیں، موڈ ہوتا تو خوب لاڈ کرتیں اور موڈ نہ ہوتا تو کسی شیر سے کم نہ تھیں۔

اب وہ بیچاری شمیم آرا کی طرح اپنی بے بسی پر آنسو بہاتی، بڑی ہی بے دلی سے جھاڑو لگا رہی تھی اور اماں مزے سے کمرے میں بیٹھی آرام فرما رہی تھیں۔

"سعدیہ یار! تم تو دو دن میں اتنی دبلی پتلی لگنے لگی ہو، کیا کر رہی ہو آج کل؟" اس کی خالہ زاد بہن حرا نے آتے ہی اس کی کمر پر ایک مکا رسید کیا۔

"ہائے مار ہی ڈالا ظالمہ! اور کیا کہا، تم نے دبلی لگنے لگی ہوں؟ تو کیا پہلے موٹی تھی؟" وہ نہایت انہماک سے اپنا من پسند ناول شہرِ چارہ گراں کوئی دسویں بار پڑھ رہی تھی۔ اس اچانک افتاد پر اپنی کمر پکڑ کے حرا کے پیچھے پیچھے بھاگی۔ اسے تو ابھی تک یہی سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس کی ڈائٹنگ والی بات خالہ کے گھر تک کیسے پہنچی۔

"ہمت ہے تو پکڑ کے دکھاؤ!" حرا نے اسے چیلنج کیا اور سعدیہ کی امی کے کمرے میں گھس گئی، اور وہ بیچاری اندھا دھند بھاگتی ہوئی ایک بھاری بھرکم وجود سے بری طرح ٹکرا گئی۔

"آؤچ... میرا سر پھاڑ دیا! دیکھ کے نہیں چل سکتے تم؟ کیا بہت شوق ہے راہ چلتی لڑکیوں سے ٹکرانے کا؟" ابھی اس کی کمر نہ سنبھلی تھی کہ وہ بے چاری اپنا سر ایک ہاتھ سے پکڑے، اپنی اکلوتی خالہ کے اکلوتے بیٹے تیمور آفتاب پر بری طرح گرجی۔

"محترمہ سعدیہ صاحبہ! آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ بھاگ آپ رہی تھیں، میں نہیں۔ اور دوسری بات، آپ کوئی راہ چلتی لڑکی نہیں، میری اکلوتی خالہ کی اکلوتی لڑکی ہیں!" وہ اپنے نام کا ایک تھا، مجال ہے جو اپنی غلطی مان لے۔

"ہونہہ... تم سے تو بات ہی کرنا فضول ہے!" سعدیہ پیر پٹختی ہوئی امی کے کمرے کی جانب بڑھ گئی۔

"مجھے بھی تم سے بات کرنے میں کوئی انٹرسٹ نہیں ہے، سعدیہ عرف موٹی!" اس نے لفظ "موٹی" باقاعدہ اونچی آواز میں اسے سنانے کے لیے کہا۔

"کیا کہا تم نے؟ اپنی آنکھیں چیک کراؤ یا جا کے اپنا دماغی علاج کراو! ہر کوئی تمہاری طرح ماچس کی تیلی کی طرح نہیں ہوتا!" وہ واپس پلٹی اور اس نے بھی تیر ٹھیک نشانے پر پھینکا۔

"تمہاری تو...!" تیمور نے اسے گھورا۔

"بس بس... یہاں کشتی مت شروع کر دینا آپ لوگ!" حرا نے بیچ بچاؤ کیا، "امی بلا رہی ہیں تمہیں سعدیہ، جلدی چلو!" اس سے پہلے کہ سعدیہ کوئی اور وار کرتی، حرا اسے کھینچ کر اندر لے گئی۔

"آئی بڑی بھائی کی چمچی!" سعدیہ نے حرا کے ہاتھ پر بڑی زور سے چٹکی کاٹی۔ اپنی دانست میں اس نے بدلہ لے لیا تھا۔ حرا تلملا کے رہ گئی۔ سعدیہ کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔ صحن میں کھڑے تیمور نے بڑی دلچسپی سے اسے دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں چمک سی اتر آئی تھی، یوں کہ جیسے آنے کا مقصد پورا ہو گیا ہو۔

ڈبل اسٹوری پر مشتمل چار کمروں کے اس چھوٹے سے گھر میں آمنہ وحید، وحید علی اور ان کی اکلوتی بیٹی سعدیہ وحید بڑے ہی پیار سے رہتے تھے۔ یوں بھی، ابا کی مین روڈ پر کپڑوں کی چلتی ہوئی دکان تھی۔ اولاد بھی ایک ہی تھی، سو گھر کا خرچ بڑی ہی آسانی سے چلتا تھا۔ بہت امیر نہ سہی لیکن ان کا تعلق اچھے خاصے خوش حال گھرانے سے تھا۔ وحید علی کے دو ہی بھائی تھے جو ان سے چھوٹے تھے۔

امی ابا کے انتقال کے بعد تینوں بھائی الگ الگ گھروں کے مکین ہو کے رہ گئے تھے۔ ملنا جلنا بھی بس تہواروں پر ہی ہوتا۔ وحید علی ذرا سادہ سی طبیعت کے مالک تھے، سو ابا کی ساری جائیداد دونوں بھائیوں کے حوالے کر کے...

سکون میں آ گئے، ورنہ دونوں بھائیوں نے ابا کے مرتے ہی فساد برپا کر دیا تھا، جبکہ آمنہ کی ایک ہی بہن تھی، ناہید، جن کے دو بچے تھے تیمور اور حرا۔ دونوں بہنیں ایک دوسرے پر جان چھڑکتی تھیں، ملنا جلنا بھی کافی تھا۔ یوں سعدیہ، حرا اور تیمور تینوں کا بچپن ساتھ ہی گزرا تھا۔ سعدیہ اور حرا ہم عمر تھیں، جبکہ تیمور ان دونوں سے دو سال بڑا تھا۔ حرا اور سعدیہ کو پڑھائی سے کچھ خاص دلچسپی نہ تھی، سو کامرس سے گریجویشن کر کے فارغ تھیں۔ حرا گھر کے کاموں میں مصروف رہتی تو سعدیہ پر آج کل ڈائٹنگ کا بھوت سوار تھا۔ نجانے کیوں، آج کل اسے خبط لاحق ہوگیا تھا کہ وہ بہت موٹی ہے، حالانکہ نہ تو وہ زیادہ موٹی تھی نہ زیادہ دبلی۔ ہلکی سی بھاری جسامت، گندمی رنگت اور تیکھے نقوش کی حامل سعدیہ کسی کی بھی پسند بن سکتی تھی۔

تیمور ایم بی اے ایوننگ کے ساتھ ساتھ ایک پرائیویٹ فرم میں بھی جاب کر رہا تھا۔ ناہید پر آج کل تیمور اور حرا کی شادی کا بھوت سوار تھا۔ ان کی دیکھا دیکھی اب آمنہ کو بھی سعدیہ کی فکر لاحق ہونے لگی تھی۔

وہ آٹا گوندھ کر کام سے جان چھڑا کے بڑے ہی مزے سے ڈائجسٹ لے کر بیٹھ گئی تھی۔ اب اماں کی باری تھی روٹی پکانے کی۔ فی الحال اس کے ناتواں کندھوں پر صفائی ستھرائی، آٹا گوندھنے اور چائے وغیرہ بنانے کی ذمہ داری عائد تھی، اور یہ بھی اسے بھاری لگتی تھی۔

"سعدیہ! ادھر آؤ!" ماں کی پاٹ دار آواز نے سمیرا شریف طور کے ناول ٹوٹا ہوا تارا کا سارا مزہ کرکرا کر دیا۔

"آتی ہوں!" اس نے بڑی ہی بے دلی سے ڈائجسٹ رکھا اور کچن کی راہ لی۔

"جی اماں۔" اس نے مہذب و تابعدار بننے کی بڑی ہی ناکام کوشش کی۔

"یہ آٹا گوندھا ہے تم نے؟ لئی بنائی ہے؟ اب اس سے روٹیاں پکاؤں یا چودہ اگست کی جھنڈیاں چپکاؤں؟ دھیان لگتا کہاں ہے تمہارا کام میں؟" چشمے کے پیچھے سے اماں نے اپنی بڑی بڑی آنکھیں غصے سے گھمائیں۔ آج کل اماں کو اس کی شادی کی فکر لاحق ہو چلی تھی، سو گھرداری سکھانا اور اسے سدھارنا ان کا مشن بن گیا تھا، ورنہ اس کی پیاری اماں آمنہ بی بی ہٹلر کبھی نہ تھیں۔

"اللہ پوچھے گا تجھے، حرا! تیری وجہ سے پڑھائی چھوڑ دی، اچھا ہوتا جو آگے پڑھ لیتی۔ اس کام سے تو جان چھوٹتی۔" من ہی من میں اس نے حرا کو کوسا، اگر وہ سامنے آ جاتی تو وہ اس کے بال نوچ لیتی۔

"اب منہ سے کچھ بولو گی بھی یا یونہی ٹکر ٹکر دیکھتی رہو گی اور من ہی من میں بڑبڑاتی رہو گی؟" اماں نے پھر گھورا۔

"سوری نا، پیاری اماں!" اس نے اماں کو مکھن لگانے کی مصنوعی کوشش کی۔

"سوری وغیرہ مجھے نہیں پا، ڈرم سے آٹا نکالو اور اس میں اور آٹا ملا کے میرے سامنے صحیح کرو!" اماں کہاں اس کے جال میں پھنسنے والی تھیں!

"جی امی..." وہ روتی صورت بنا کے مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق آٹا نکالنے لگی۔

"اور سنو! آج میرے سامنے روٹی بھی تم ہی بناو گی۔ تمہارے ابا آنے والے ہیں، جلدی کرو!" اماں نے ایک اور ظلم اس پر کیا۔

"مگر اماں! روٹی تو آپ۔۔۔"

"کہا نا اگر مگر نہیں! جو کہا ہے وہ کرو! کل کو دوسرے گھر بھی جانا ہے، میری ناک نہ کٹوا دینا!" اب کی بار اماں نے اس کی بات کاٹ کے سخت لہجے میں حکم صادر کیا۔

"جی اچھا۔" بھیگی بلی کی طرح ہلکی سی آواز نکال کے وہ بری طرح حرا کو کوسنے میں مصروف تھی۔ اس وقت اسے اپنی اماں، آمنہ بی بی، کسی ہٹلر سے کم نہیں لگ رہی تھیں۔

اس روز حرا کو لڑکے والے دیکھنے آ رہے تھے، سو ناہید نے کام کاج میں مدد کے لیے سعدیہ کو صبح ہی بلا لیا تھا۔ سعدیہ اور حرا نے اپنی موج مستیوں سے سارا گھر سر پر اٹھا رکھا تھا۔

"توبہ ہے تم لڑکیوں سے! بھئی کام کاج کے لیے بلایا ہے نا سعدیہ بیٹا تمہیں بھی۔ شام میں جلدی ہی آ جائیں گے مہمان، اور تم لوگوں کی مستیاں ہی ختم نہیں ہو رہیں۔ حرا! تم جلدی صفائی وغیرہ کرو، پھر میرے ساتھ کچن میں آ کے ذرا کباب بنا لینا۔ لڑکے والوں کو کم از کم اتنا اندازہ تو ہونا چاہیے کہ لڑکی کو زیادہ نہیں تو تھوڑا بہت تو کام کاج آتا ہے۔" ناہید کی بات پر دونوں نے فوراً اپنی ہنسی کو بریک لگائے اور کام میں لگ گئیں۔

ایک گھنٹے کے اندر انہوں نے سارا گھر چمکا ڈالا تھا۔

"میری حرا کی آئے گی بارات، میں ڈھول بجاؤں گی!" وہ ترنگ میں گاتی مسلسل حرا کو چھیڑ رہی تھی۔ کھانا کھانے کے بعد وہ دونوں ذرا سی دیر سستانے کی غرض سے کمرے میں آ گئی تھیں۔

"تمہارا بھی وقت آئے گا میری جان، پھر دیکھنا میں بھی یہی کروں گی۔" حرا نے اسے بڑی زور سے چٹکی کاٹی اور وہ تلملا کر رہ گئی۔

"ہاہاہا۔۔۔ دیکھ لیں گے! ابھی تو گانے دو! میری حرا کی آئے گی بارات، میں ڈھول بجاؤں گی!" وہ ایک بار پھر گانے لگی۔

"حرا کی سہیلی ریشم کی ڈوری، چھپ چھپ کے شرمائے، دیکھے چوری چوری۔" تیمور نے اچانک انٹری دی۔

"آہم آہم..." حرا نے مصنوعی کھانسی کر کے اسے چھیڑا۔

"آج آفس والوں نے بھگا دیا کیا؟" سعدیہ نے اپنی دھڑکتی دھڑکنوں کو قابو میں کرتے ہوئے پوچھا۔

"تمہاری طرح نہیں کہ جہاں جاتی ہو، لوگ بھگا دیتے ہیں۔ امی کا آرڈر تھا، سو آنا پڑا۔ ویسے تم دونوں کی آج کی کارکردگی دیکھ کر ہماری پڑوس والی راشدہ خالہ ضرور تمہیں اپنے گھر میں ماسی کی نوکری دے دیں گی۔" تیمور نے چمکتا دھلا گھر دیکھتے ہوئے دونوں کو چھیڑا۔

"تیمور تم..." سعدیہ نے کھینچ کے کشن مارا۔ وہ شروع سے ہی اسے بھائی نہیں کہتی تھی۔ اس نے ایک بار آمنہ اور وحید علی کی بات سنی تھی کہ ان کا ارادہ ہے کہ سعدیہ کو ناہید کے گھر بیاہ دیں، سو وہ تب سے ہی اپنی حسین آنکھوں میں تیمور کا خواب سجائے بیٹھی تھی، بنا جانے کہ تیمور کیا سوچتا ہے۔ دونوں کی ہمہ وقت ہونے والی نوک جھونک سے اب تو حرا بھی بھائی کو چھیڑنے لگی تھی۔

"بھائی، لگی تو نہیں؟" حرا کو فوراً تھکے ہارے گھر لوٹے بھائی کی فکر لاحق ہو گئی۔ اس کے منہ سے نکلتی مصنوعی آہیں اور کراہیں دیکھ کر کوئی بھی یقین کر لیتا کہ بیچارے کو واقعی زور سے لگی ہے۔

"آپ بیٹھیں، میں کھانا لگاتی ہوں۔" حرا تیمور کو کھینچتی ہوئی باہر لے گئی۔

سعدیہ مسکراتی ہوئی لیٹ گئی۔ کافی تھک گئی تھی اور اب اسے نیند آنے لگی تھی۔ وہ وہیں بیڈ سے ٹیک لگائے، آنکھیں موندے سو گئی۔

شام میں اس کی آنکھ تقریباً چار بجے کھلی۔ وہ سو کے اٹھی تو حرا کمرے میں موجود نہیں تھی۔ اس نے لائٹ آن کی اور اپنے بال ٹھیک کرتے ہوئے دوپٹہ سنبھالتی باہر نکل آئی۔ ادھر ادھر نظر دوڑائی تو حرا کہیں نظر نہ آئی۔

"ہو سکتا ہے کہ خالہ کے کمرے میں ہو۔" وہ خود سے سوال جواب کرتی ناہید کے کمرے کی جانب چلی آئی۔ اس سے پہلے کہ وہ دروازہ کھولتی، اندر سے آتی آواز پر اپنا نام سن کر وہ ٹھٹک گئی۔

"تیمور، تم سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ پہلے کی بات اور تھی، مگر اب میں تمہارے ابا اور باقی رشتے داروں کو کیا جواب دوں گی؟ سعدیہ سے اب تمہارا جوڑ نہیں بنتا۔ کہاں تم دبلے پتلے اور کہاں وہ بھاری جسامت کی حامل!" خالہ ناہید نجانے کیا کچھ سمجھانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ سعدیہ کو جب پوری بات سمجھ میں آئی، تو مارے شرمندگی کے اس سے اپنا آپ سنبھالا نہ جا رہا تھا۔ آگے خالہ اور تیمور نے کیا بات کی، وہ سن نہ پائی تھی۔ اسے تو اپنے بارے میں خالہ کی یہ رائے جان کر ہی اتنی تکلیف ہوئی کہ وہ مزید وہاں کھڑی نہ رہ سکی۔ اُس نے فوراً ابا کو کال کر کے بلایا اور کوئی بہانہ بنا کر چلی آئی۔

اگلے دن سے اس پر ڈائٹنگ کا بھوت سوار تھا۔ یہ تھی اصل کہانی — جو نہ تیمور کو پتہ تھی نہ حرا کو۔ کافی دن لگے تھے اسے خود کو نارمل کرنے میں۔ وہ اچھی، صحت مند لڑکی تھی، موٹی بالکل نہیں تھی۔ اب اگر تیمور اتنا دبلا پتلا تھا، تو اس میں اس کے دل کا کیا قصور جس میں بچپن سے ہی تیمور کی محبت پہرا دیے بیٹھی تھی۔

اس دن کے بعد وہ خالہ کے گھر نہیں گئی تھی۔ خالہ کو بھی وہ لڑکے والے پسند نہ آئے تھے۔ اس دن کے بعد جب بھی خالہ ان کے ہاں آتیں، تو وہ صرف حرا اور تیمور سے بات کرتیں، اور سعدیہ کو یکسر نظرانداز کر دیتی تھیں۔ اس کی یہ خاموش تبدیلی کسی نے نوٹ کی ہو یا نہ کی ہو، لیکن تیمور نے بہت شدت سے نوٹ کی تھی۔

دن یونہی روکھے پھیکے سے گزر رہے تھے۔ مارننگ شوز کی کرامات تھیں یا یہ اس کی سچی لگن، اب وہ خاصی کمزور ہو چکی تھی۔ ابا تو بے چارے جب بھی اسے دیکھتے، یہی کہتے:

"ہائے میری بچی، اتنی کمزور ہو گئی۔"

جبکہ اماں نہال ہو جاتیں:

"سعدیہ، شکر ہے تُو نے کچھ کیا نہ کیا، یہ کام تو صحیح کیا! اب لگ رہی ہے نا بالکل ہیروئن ثناء کی طرح!" اماں اسے فلم اسٹار ثناء سے ملاتیں تو وہ دھیمی سی، پھیکی سی ہنسی ہنس دیتی۔ نگاہ ہر وقت دروازے پر اٹکی رہتی۔

ایک ہفتہ ہو چلا تھا، تیمور نے آ کے جھانکا تک نہ تھا۔ آتا تو دیکھتا کہ وہ کتنا بدل گئی تھی، اُس کی خاطر۔

"پیار وہ تو نہیں ہوتا کہ انسان خود کو ہی بدل دے... پیار تو وہ ہے جو جیسے ہو، ویسے ہی قبول کیا جائے۔" اس کا دل الگ دہائی دیتا، مگر وہ اُسے تھپکی دے کر سلا دیتی۔

کہاں وہ ہر وقت شرارتیں کرنے والی سعدیہ اور کہاں اب، ایک دم خاموش، سنجیدہ۔ اب تو وہ اماں سے بھی بحث نہ کرتی۔ جو کام کہتیں، چپ چاپ کر دیتی۔ اماں الگ حیران تھیں اس کایا پلٹ پر۔

"بات سنیں، آپا نے تو اب تک سعدیہ کے رشتے کی بات ہی نہیں کی، جبکہ وہ خود تو حرا کے لیے خوب رشتے ڈھونڈتی پھر رہی ہیں۔ خیر سے میری بچی بھی جوان ہو رہی ہے، ماشاءاللّٰہ، خوبصورت ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے، ہمیں کیا کرنا چاہیے؟" وہ ٹی وی لاؤنج میں بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی کہ اماں کی اندر سے آتی آواز پر اس نے آواز دھیمی کر دی تھی۔ اس کے کان اماں اور ابا کی باتوں کی طرف لگ گئے۔

"ابھی کچھ دن دیکھتے ہیں۔ اگر انہوں نے بات نہیں کی، تو ہم سعدیہ کے لیے رشتے دیکھنا شروع کر دیں گے۔ بھلے وہ آپ کی بہن ہوں، مگر ہم اپنی بیٹی کے متعلق خود سے تو بات نہیں کر سکتے نا۔" وحید علی نے نرمی سے آمنہ بی بی کو سمجھایا۔

"جیسے آپ کی مرضی۔" آمنہ وحید ان کی رضا میں خوش تھیں۔

"تو کیا اماں ابا میری شادی کہیں اور کر دیں گے؟" سعدیہ کا دل ڈوب کے ابھرا تھا۔ یکایک، اس کا دل ہر چیز سے بےزار ہو گیا تھا۔ اُس نے شدت سے تیمور کے وصل کی دعا مانگی تھی۔

فضا میں کافی خنکی در آ چکی تھی۔ موسم ہلکا سا سرد ہو چلا تھا۔ میٹھی دھوپ میں ٹھنڈی ہوا ایک...

رکشش سا تاثر پیش کر رہی تھی۔ وہ کام وغیرہ سے فارغ ہو کر ابھی ٹی وی کے آگے بیٹھی تھی۔ دوپہر کے دو بج رہے تھے۔ وہ ادھر سے اُدھر چینل بدل رہی تھی مگر کہیں کچھ دلچسپ نہیں آ رہا تھا۔ ایک نیوز چینل سے آتی اس اچانک خبر سے ریموٹ اس کے ہاتھ سے پھسل کر گر گیا۔

پاکستان کے مختلف شہروں میں 8.1 شدت کا شدید ترین زلزلہ آیا تھا۔

سعدیہ کو اچھی طرح یاد تھا کہ دس سال پہلے اکتوبر میں بھی اسی نوعیت کا خوفناک ترین زلزلہ آیا تھا، جو اپنے ساتھ تباہی و بربادی کی کئی داستانیں لے گیا تھا — اور اب تو یہ اس سے بھی شدید تھا۔ یکایک اسے سردی بری لگنے لگی۔

"اگر سردی اور بڑھ گئی تو زلزلہ متاثرین کیسے گزاریں گے دن رات؟ پتہ نہیں کتنی تباہی ہوئی ہو گی۔"
وہ دل ہی دل میں استغفار کا ورد کرتی ہوئی، ابا کو فون ملانے لگی۔

کراچی میں بھی کچھ علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے تھے اور آفٹر شاکس کا بھی شدید خطرہ تھا۔ صد شکر کہ کراچی مغرب کی طرف تھا۔ ابا کو کال کرنے کے بعد اُس نے خالہ ناہید کو فون کیا، اماں سو رہی تھیں، ان کو جا کے جگایا اور پھر سارا دن وہ اس ناگہانی آفت کے بارے میں ہی سوچتی رہی۔ وہ جان گئی تھی کہ زندگی کا ایک لمحہ بھی یقینی نہیں... لو لگانی ہے تو صرف اللہ سے لگاؤ۔

آنے والے چند دنوں میں اس کا وقت ٹی وی سے زیادہ عبادت میں گزرنے لگا تھا۔ من ہلکا ہوا، تو اب وہ تیمور کے بارے میں بھی بہت کم سوچنے لگی تھی۔

اس نے اپنے سارے پرانے کپڑے نکالے تھے۔ اماں نے بھی کچھ فالتو بستر اور رضائیاں نکال دی تھیں۔ وہ ابا کے ساتھ جا کر زلزلہ متاثرین کے لیے لگائے گئے کیمپ میں امداد دے آئی تھی۔ دل نے ایک عجیب سی، سچی خوشی پائی تھی۔
آج اُسے ابا کی کھٹارا سی ایف ایکس بھی بری نہیں لگ رہی تھی، ورنہ وہ جب بھی اس میں بیٹھتی، ابا کو اُسے بیچ دینے کا مشورہ دیتی تھی — مگر اب اس نے رب کی رضا میں صبر کرنا سیکھ لیا تھا۔


"آپ کی بہن سے یہ امید نہیں تھی مجھے، حد ہوتی ہے خودغرضی کی!"
خالہ ناہید، شکیل صاحب سے بری طرح الجھ رہی تھیں۔

"خیریت تو ہے؟ اب کیا کر دیا میری معصوم بہن نے؟"
شکیل صاحب ہمیشہ سے ہی اپنے بہن بھائیوں پر جان چھڑکتے تھے، ان کا جھکاؤ ہمیشہ اُن ہی کی طرف ہوتا، اور ناہید اسی بات سے چڑتی تھیں۔

"زیادہ نہ بولیں آپ! آپ نے ہی کہا تھا کہ میں آپا سے بات کروں — حرا اور تیمور کے لیے۔ آپا کی بیٹی ہی لاؤں زایان کے لیے، اور حرا کے لیے بھی ان کے بیٹے سے بہتر کوئی نہیں! میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ یہ مناسب نہیں، مگر آپ نے کوئی کسر نہ چھوڑی۔"

ناہید بیڈ کی چادر سیدھی کرتی مسلسل غصے میں بول رہی تھیں۔ اب کے شکیل صاحب نے بھی ٹی وی بند کر کے چونک کر ان کی طرف دیکھا۔

"کیوں؟ کیا ہوا؟"
شکیل کا دل ایک دم دھڑکا تھا۔

"بہت چالاک ہیں آپ کی بہن۔ صرف آپ کی وجہ سے میں نے اپنی بھانجی کی جگہ ان کی بیٹی کا سوچا۔ جب بچپن میں تیمور اور سعدیہ کی بات ہوئی تھی، تب ہی آپ کو منع کر دینا چاہیے تھا۔ مجھے کیا پتا تھا کہ آپ بدل جائیں گے؟ شکر ہے اللہ نے مجھے آپ کی بہن کے سامنے شرمندہ ہونے سے بچا لیا۔ وہی معصوم بہن، صرف اپنی بیٹی کا رشتہ کرنا چاہتی ہیں تیمور سے — حرا کے لیے انہوں نے صاف منع کر دیا ہے۔ آج کل سب صرف اپنی بیٹیوں کے بارے میں سوچتے ہیں۔ میری بچی کو رشتوں کی کمی نہیں، پھر بھی میں نے آپ کی وجہ سے بات کی۔ وہ کیا سوچتی ہوں گی؟ کہ ان کی بیٹی کے رشتے نہیں آ رہے؟ اُس دن اتنا اچھا رشتہ آیا تھا، مگر آپ کی وجہ سے منع کرنا پڑا!"

وہ غصے سے بھری بیٹھی تھیں۔ آج انہوں نے صاف دل کا آئینہ دکھانے کا فیصلہ کر لیا تھا — صرف شکیل صاحب کی ضد کی وجہ سے انہوں نے اپنے معصوم بیٹے کا دل توڑا تھا۔

کیا وہ نہیں جانتی تھیں کہ تیمور سعدیہ کو چاہتا ہے؟

"میں خود بات کروں گا آپا سے۔"
شکیل صاحب تو فوراً اپنی آپا سے لڑنے کو تیار بیٹھے تھے۔

"رہنے دیں! اب ہماری بچی کو رشتوں کی کمی نہیں کہ بار بار اپنی بےعزتی کرواؤں۔ میں تیمور کے لیے منع کر آئی ہوں۔"
خالہ ناہید نے دوٹوک لہجے میں بات ختم کر دی تھی۔ بات شکیل صاحب کی سمجھ میں آ گئی تھی۔ وہ سوچ میں ڈوبے چپ چاپ بیٹھ گئے۔ زندگی میں پہلی بار ان کی لاڈلی بہن نے انہیں یوں مایوس کیا تھا۔

بہت دن گزر گئے تھے۔ حرا کا رشتہ وہیں طے پا گیا تھا، جہاں سے لوگ اسے دیکھنے آئے تھے۔ خالہ نے رسم بھی کرا لی تھی۔ اماں اور ابا گئے تھے، سعدیہ خالہ کے گھر ہی رک گئی تھی۔ آج ہی لوٹی تھی۔ وہ روٹی پکا رہی تھی جب حرا نے آ کے اس کی کمر پر دھموکا جڑا۔

"او میڈم! آج سال کا آخری دن ہے، یونہی ماسی بنی گھومتی رہو گی کیا؟"
وہ بیلن اٹھا کے اس کی طرف گھومی تھی۔ اسے افسوس تھا کہ اس زلزلے کے بعد بھی لوگ نئے سال کی خوشیاں منانے کو تیار تھے — وہ بھی اس کی اپنی عزیز کزن۔

"پاگل ہو گئی ہو کیا؟ ابھی ملک اتنے بڑے سانحے سے گزرا ہے، متاثرین بحال نہیں ہوئے، اور تمہیں نیو ایئر کی پڑی ہے؟"
سعدیہ کو غصہ آ گیا تھا۔

"بالکل صحیح کہہ رہی ہے سعدی! تم بھی سدھرنا مت۔ سعدیہ کو دیکھو کتنی اچھی ہو گئی ہے، کبھی دوسروں کا بھی سوچ لیا کرو۔"
تیمور اچانک نمودار ہوا۔ سعدیہ نے بڑی مشکل سے اس کی نگاہوں سے نظریں چرائیں۔

"اچھا بابا، سوری!"
حرا نے ہار مان لی۔

"اچھا، روٹی پک گئی ہے تو چلو، امی بلا رہی ہیں۔"
حرا کو اچانک یاد آیا تو واپس مُڑی۔ سعدیہ جلدی سے روٹی پکا کر ہاٹ پاٹ میں رکھ کے باہر آ گئی۔ اس نے خالہ ناہید کو سلام کیا۔

"و علیکم السلام، میری بیٹی، جیتی رہو۔"
خالہ ناہید نے اسے والہانہ پیار کیا اور خود سے لپٹا لیا۔ وہ حیران رہ گئی۔ حرا نے شرارتی نظروں سے اسے دیکھا۔

خالہ ناہید نے اپنے پرس سے ایک انگوٹھی نکال کر اس کے نازک ہاتھ میں پہنائی، وہ منہ کھولے ہکا بکا بیٹھی رہ گئی۔

"منہ تو بند کر لو، بھابی صاحبہ!"
حرا نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگا لیا۔ تیمور کھڑا شریر نظروں سے اسے گھور رہا تھا، اور اماں عابدہ صدقے واری جا رہی تھیں۔

"میں جانتی ہوں تم حیران ہو بیٹا، اور یہ بھی جانتی ہوں کہ اُس دن تم نے میری اور تیمور کی باتیں سن لی تھیں، جب ہی تم اچانک وہاں سے چلی آئی تھیں۔
جس دن سے تم نے ڈائٹنگ شروع کی، شک تو مجھے اُسی دن ہو گیا تھا۔
میری بچی، اُس دن جو کچھ کہا، وہ مجبوری تھی۔ تمہارے خالو کی وجہ سے مجھے وہ سب کہنا پڑا، صرف تیمور کو اس رشتے سے روکنے کے لیے۔ خدا گواہ ہے، تم میں اور حرا میں کبھی کوئی فرق نہیں کیا۔
تم کل بھی اچھی تھیں، تمہیں بدلنے کی ضرورت نہیں تھی۔ مجھے معاف کر دو۔"

سعدیہ کو ندامت سے سر جھکانا پڑا۔ وہ بنا سچ جانے خالہ سے بدظن ہو گئی تھی، جبکہ خالہ ناہید مجبور تھیں۔

اماں عابدہ تو فریدہ کی زبانی پہلے ہی سب جان چکی تھیں۔ سعدیہ شرما کر کمرے میں چلی گئی۔ سب خوش تھے، اور شاید وہ بھی۔

"میں تو سمجھا تھا محترمہ میرے پیار میں پاگل ہو گئی ہیں، جب ہی خوب دبلا ہونے کی کوششیں کر رہی ہیں۔
سنو، تم سے میں نے کب کہا کہ تم موٹی ہو؟"
تیمور اُس کے پیچھے پیچھے آ گیا تھا۔

"آپ۔۔۔ وہ ایسی کوئی بات نہیں۔۔۔"
رشتہ کی نوعیت بدلی، تو وہ فوراً مؤدب ہو گئی۔

"آہم آہم۔۔۔ ابھی سے 'آپ جناب' شروع؟ بھئی، اس کا مطلب ادھر سے بھی ہاں ہے!"
تیمور کھلکھلا کر ہنسا، تو وہ نظریں جھکا گئی۔


Post a Comment for ""اک خاموش سی محبت""