Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

"وہ پل جب سب بدل گیا"



"میں فون کر رہی تھی اور تمہارا فون آف تھا۔ کہاں تھے تم؟ کیوں کیا فون آف؟" فریحہ نے بمشکل اس کے پانی پینے کا انتظار کیا تھا۔ احسان کی آنکھیں سکڑیں، جو اکثر ایسے وقت ہی سکڑ جایا کرتی تھیں۔

"بیٹری ختم ہو گئی تھی۔"

فریحہ نے سامنے ٹیبل پر رکھا موبائل اس کے سامنے آن کیا۔ "بیٹری تو ہے، دو پوائنٹس ہیں ابھی۔"

"پتا نہیں! ایسے ہی رکھے رکھے بند ہو گیا۔ میں سمجھا بیٹری ختم ہو گئی۔"

"آں۔۔۔ نیا موبائل ہے اور رکھے رکھے بند ہو گیا؟"

"مجھے کیا معلوم کیسے ہوا؟" وہ چڑ گیا۔

"جب معلوم ہو جائے تو مجھے بتا دیتا۔ سالن بن چکا ہے۔ میں روٹی بنا کر کھانا لگا دوں گی۔"

"کیا مطلب۔۔۔؟" احسان نے بے چارگی سے اس کی طرف دیکھا۔ "کھانا لگا دو، مجھے بھوک لگی ہے۔"

"مجھے بھی بھوک لگی ہے۔ میں بھی تھک گئی ہوں کام سمیٹ کر۔ مجھے بھی آرام کرنا ہے۔ تم اتنی دیر سے آئے ہو۔ تمہارا انتظار کرتے کرتے پریشان الگ ہو گئی تھی۔ اب تم سچ بتاؤ تو میں کھانا لگا دوں۔"

"یار کہا تو ہے آف ہو گیا تھا۔۔۔ تم میری بات کا یقین کیوں نہیں کرتیں؟ ہر بار گھر آتے ہی سوال، سوال، تکرار۔"

"ہر بار۔۔۔" وہ حیرت سے چیخی۔

"ہاں! ہر بار تم اپنے سوال کرتی ہو، ایک بات کو اتنا کھینچتی ہو اور پھر میرا یقین بھی نہیں کرتیں۔"

"تو مجھے یقین دلواؤ۔ جو کچھ تم نے بتایا اس پر نہیں آیا یقین، جب آئے گا تو کر لوں گی۔"

"کب آئے گا یقین۔۔۔؟"

"یقین ہمیشہ سچ پر آتا ہے۔"

"تو میں ڈرامہ کر رہا ہوں؟"

"معلوم نہیں، خود سے پوچھو اور مجھے بھی بتاؤ۔"

"کیا تم کبھی کسی بات کو بغیر بحث کیے جانے نہیں دے سکتیں، اسے ویسے ہی نہیں مان سکتیں، جیسے میں بتاتا ہوں؟"

"شاید کبھی ایسا کر لوں، لیکن آج نہیں۔" وہ اسی انداز سے بولی جس انداز سے وہ منواتی تھی، مانتی نہیں تھی۔

"مجھے نہیں یاد کہ میرے موبائل کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ کھانا دو، مجھے ورنہ میں بھوکا سو جاؤں گا۔"

"ایک اور جھوٹ۔۔۔ میں جانتی ہوں کہ تمہیں سب یاد ہے۔"

"ہاں، یاد ہے، سب یاد ہے۔ میں نے خود کیا تھا آف پھر۔۔۔؟"

"پھر۔۔۔؟" وہ اسے گھورنے لگی۔ "پھر یہ کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟"

"بس کر دیا، میری مرضی۔ میرا دل کر رہا تھا۔"

"بہت اچھا کیا۔ تم نے یہ بھی نہیں سوچا کہ کوئی ایمرجنسی بھی ہو سکتی ہے۔ گھر میں تمہاری بیوی، تمہارے دو بچے رہتے ہیں۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ میں گرسکتی ہوں، کھانا پکاتے ہوئے جل سکتی ہوں، تمہارے کپڑے دھوتے ہوئے مجھے کرنٹ لگ سکتا ہے، اور کچھ نہیں تو میں مُر بھ بھی سکتی ہوں۔"

"دیکھا۔۔۔ اپنے مطلب کے رنگ دینا تم کتنا اچھی طرح سے جانتی ہو۔ صرف اتنا ہی کہا ہے کہ ہاں، کیا تھا آف۔۔۔ اور دیکھو، کیا کیا کہہ رہی ہو۔ ایک تو سچ بولا اور۔۔۔"

"تو یہ سچ پہلے کیوں نہیں بولا۔۔۔؟"

"اس ڈرامے سے بچنے کے لیے، جو تم اب کر رہی ہو۔"

"یہ ڈرایا ہے۔" اس کی آواز اونچی ہو گئی۔ "تمہیں حقیقت بتا رہی ہوں، تم سے گپیں لگانے کے لیے فون نہیں کیا تھا۔"

"تم روزانہ مجھے فون کرتی ہو تو کیا وہ ایمرجنسی ہونے پر کرتی ہو؟"
"روزانہ ایمرجنسی نہیں ہوتی۔ کبھی تو ہو سکتی ہے نا۔"

"کیا ایمرجنسی تھی آج؟" اس نے تحمل سے پوچھا جس پر وہ اور چڑ گئی۔

"تھی نہیں، ہو سکتی تھی ناں!" اسے اور غصہ آ گیا اس کے انداز پر۔

"تھی تو نہیں ناں۔" وہ زیر لب مسکرانے لگا۔ "نہ تم گریں، نہ تم جلیں، نہ تمہیں کرنٹ لگا۔"

"اپنی غلطی مت ماننا۔ میرا مذاق بنا لو پہلے تم۔"

"کون سی غلطی؟ کس کا خون کر دیا ہے میں نے؟" اسے غصہ آ گیا تو وہ جو کھڑی تھی، عین اس کے سامنے آ کر بیٹھ گئی اور منہ پھلائے اسے دیکھنے لگی۔ یہ اس بات کی نشان دہی تھی کہ اسے اس کی کسی بات پر یقین نہیں آیا، اور وہ اس سے ناراض بھی ہے۔ اب اسے اس کی طرف اسی ایک انداز میں تب تک دیکھتے رہنا تھا جب تک وہ اسے یقین نہیں دلا دے گا۔

"تم مجھ پر شک کر رہی ہو؟" وہ اس کے مسلسل اس طرح دیکھتے رہنے کو اچھی طرح سمجھتا تھا۔

فریحہ نے آنکھوں کے زاویے کو ایسے بدلا جیسے سنا ہی نہیں کہ اس نے کیا کہا ہے۔

"آفس میں ایک کلائنٹ کے ساتھ گرما گرمی ہو گئی، پھر گاڑی راستے میں خراب ہو گئی۔ جے نے اسے ٹھیک کیا۔ مجھے اندازہ تھا کہ تمہاری کال آئے گی۔ میں نے پہلے ہی فون آف کر دیا۔ میں اس وقت کسی سے بھی بات کرنا نہیں چاہتا تھا۔"

"مجھ سے بھی نہیں؟"

"نہیں!"

"تم نے جھوٹ کیوں بولا کہ فون خود بخود بند ہو گیا؟"

"اگر میں کہتا کہ میں نے خود کیا، تو اس سے زیادہ خطرناک صورت حال ہوتی۔ سوچا تھا ایک ہی بات کہہ کر بات ختم کر دوں گا، لیکن میری غلط فہمی تھی، تم تو اچھا خاصا شک کرتی ہو مجھ پر۔۔۔"

"میں نے کب تم پر شک کیا؟"

"کب نہیں کیا، دن میں سو بار بیل کرتی ہو یہ دیکھنے کے لیے کہ میرا فون بزی تو نہیں۔" اس نے خفا ہو کر منہ بنایا۔

"فون بزی ہے یا نہیں، یہ نہیں چیک کرتی۔ تمہارا دل چیک کرتی ہوں۔" یہ کہہ کر وہ کھلکھلا کر ہنسا۔

"ابھی تک تمہیں میرے دل پر یقین نہیں آیا۔" وہ اور خفا ہو گیا اور وہ اسے خفا ہی چھوڑ کر کچن میں آ گئی۔ کچھ ہی دیر میں احسان بھی وہیں تھا۔

"میں تمہارے لیے اتنی مشقت کرتا ہوں۔ میرا شکریہ ادا کرو۔" اس کے عین پیچھے کرسی پر بیٹھے وہ اس کی کمر پر پانی کے چھینٹے مارنے لگا۔ شادی کے بعد سے یہ اس کا پسندیدہ کام رہا تھا۔

"تم بھی میرا شکریہ ادا کرو، میں تمہارے گھر اور بچوں کے ہزار کام روزانہ کرتی ہوں اور مجھے تو اتوار کی چھٹی بھی نہیں ملتی۔" وہ بھی اسی انداز میں بولی۔

"لیکن میں تم سے محبت بھی کرتا ہوں۔"

"میں بھی تم سے محبت کرتی ہوں۔۔۔"

"لیکن تم شک بھی کرتی ہو مجھ پر، مجھے جھوٹا فریبی کہتی ہو۔"

"میں کہتی بھی ہوں اور ثابت بھی کرتی ہوں کہ تم جھوٹے فریبی ہو۔ میرے پاس شک کرنے کی وجہ ہوتی ہے جبکہ تمہارے پاس نہیں ہوتی۔"

"وجہ۔۔۔ وجوہات ہیں فریحہ! میکے کی تقریبات میں تم کیسے اپنے چھوٹے بڑے ہر سائز کے کزن کے ساتھ ہنسی مذاق کرتی ہو۔ کیسے ان کی گردنیں دبوچتی ہو۔ تمہارے ہی خاندان کے دور نزدیک کے لوگ تمہیں شک کی نظروں سے گھورتے ہیں۔ میں تو پھر تمہارا شوہر ہوں۔"

"تم بھی گھور لیا کرو۔" روٹی بنا کر وہ اس کے سامنے آ کر بیٹھ گئی۔ "کر لیا کرو سوال جواب۔"

"کر لیتا اگر وہ سب شکوک میری محبت سے قد میں بڑے ہوتے۔"

"تمہاری محبت کا قد بڑا نہیں ہے۔ میری اپنی ذات کا یقین تمہیں کوئی شک نہیں کرنے دیتا۔ تمہیں یقین ہے کہ تمہاری بیوی خواب میں بھی تمہیں قریب نہیں دے سکتی۔ میری ذات کو لے کر تمہاری ذات میں کوئی الجھاؤ نہیں کیونکہ میں نے الجھاؤ بننے ہی نہیں دیا۔ اس الجھاؤ کو اپنے اندر سے کاٹ کر ہمیشہ کے لیے پھینک دیا ہے۔"

"تو تمہارے خیال میں میرے اندر الجھاؤ جو تمہیں الجھا دیتا ہے؟"

"کچھ تو ہے۔" اس نے اسے کہا جیسے زیادہ بحث نہیں کرنا چاہتی۔

"یعنی سب تمہاری ہی خوبی ہے اور میری محبت کا تو کمال ہی نہیں۔ اتنی محبت کرتا ہوں۔"

وہ ایسے سر ہلانے لگی جیسے وہ اس کی باتوں پر ہلایا کرتی تھی تب سے جب وہ اسے یونیورسٹی میں کہا کرتا تھا کہ اسے اس کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتا اور وہ ہنسی روک کے سر ہلایا کرتی۔ چہرے پر وہی تاثر ہوتا تھا جو ایک نادان کی بات سن کر کسی بزرگ کے چہرے پر آ جاتا ہے۔ شروع میں احسان کے لیے یہ صرف اس ایک ادا تھی، پھر جیسے گزرتے وقت کے ساتھ وہ سمجھ گیا۔ پہلے وہ اس سے لڑتا جھگڑتا تھا، اسے قائل کرتا تھا، ناراض بھی ہو جاتا تھا، پھر وہ اسے صرف دیکھ کر رہ جاتا۔

"نہ مانو، تم کیا جانو میرے دل کا عالم۔۔۔"

"بات یہی ہے کہ یہ دل تمہارا نہیں ہے۔"

"تو۔۔۔!"

"تو یہ کہ ہم اپنی چیزوں کو اچھی طرح جانتے ہیں۔" فریحہ نے ایک آنکھ دباکر کہا۔

"دیکھا۔۔۔ دیکھا۔۔۔ پھر وہی بات! تمہیں مجھے چڑانے میں مزہ آتا ہے نا!"

"شاید! تمہیں چڑاتے ہوئے میں اپنے شکوک کا اظہار کر جاتی ہوں۔" اس نے مکمل سنجیدگی سے کہا۔

"کیسے شکوک؟ جبکہ میں نے تم سے کیا اپنا ہر وعدہ پورا کیا ہے۔" احسان نے کھانا ختم کر کے اپنی اور اس کی پلیٹ اٹھائی اور انہیں دھونے لگا۔

"گھر کے کاموں میں تمہاری مدد کرتا ہوں، آفس سے سیدھا گھر آتا ہوں۔ تمہارا اتنا خیال رکھتا ہوں، تمہاری الٹی سیدھی باتوں کا جواب دیتا ہوں اور انہیں برداشت کرتا ہوں۔"

"لیکن ایک وعدہ رہتا ہے۔" کچن کی سلّب صاف کرتے اس کے ہاتھ رُکنے لگے، "صرف میرے ہی رہنے کا۔"

وہ دل کھول کر ہنسا اور اس کا رخ اپنی طرف کیا۔

"تمہیں یقین کیوں نہیں آتا؟"

"مجھے خود نہیں معلوم کہ مجھے یقین کیوں نہیں۔"

"گزرے وقت کا حساب کتاب کر کے مجھ پر یقین کر لو۔"

"لیکن میں تو آنے والے وقت کا حساب کتاب کرتی ہوں۔" اور وہ پھر دل کھول کر ہنسا۔

ان کی ایسی تکراریں ہزاروں بار ہوتی تھیں۔ ان کی پہلی ملاقات سے محبت کے پہلے بار اظہار سے، اس کے ساتھ زندگی شروع کرنے کے پہلے دن سے۔۔۔۔

"نرگس پاگل ہے۔" اکثر تکرار کے اختتام پر وہ اس کے کان کے پاس آ کر چلا کر کہتا۔

"رامان پاگل تھا۔" وہ بھی اسی انداز میں کہتی۔

"میری آنکھوں میں دیکھو! کیا یہ کسی پاگل کی آنکھیں ہیں؟ کیا پاگل ایسے ہوتے ہیں؟ یہ تو رانجھے کی سی آنکھیں ہیں۔"

"رانجھا بھی محبت سے سیر نہیں ہوا تھا۔ ان آنکھوں میں اور۔۔۔ اور ہوا ہوگا کیا پتا۔۔۔"

"رانجھے پر بھی شک! پھر بھی اس کی زندگی میں صرف ہیر ہی تھی کیونکہ شاید اسے اور۔۔۔ اور محبت صرف ہیر سے چاہیے تھی۔۔۔"

"مطلب؟"

"چھوڑو مطلب۔" اس نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے گول گول گھمانے لگا، ساتھ وہ گنگا بھی رہا تھا۔

ایک روز وہ رات گئے ایسے کسی کزن کے ساتھ گھر واپس آیا۔ اس کے بار بار فون پر وہ صرف اتنا ہی کہتا رہا کہ وہ بس گھر آ ہی رہا ہے اور وہ "بس" پانچ گھنٹے بعد آیا۔ اس کے روتین بار اس کے مزید فون کرنے پر وہ مزید غصے میں آ گیا۔

"آ رہا ہوں نا یار! کہا تو ہے۔" اس کے انداز نے نرگس کا خون جلا دیا۔

"پانچ گھنٹوں میں تمہیں پانچ منٹ نہیں ملے کہ تم اطمینان سے مجھے فون کرکے بتا دو کہ تم کہاں ہو، کیا کر رہے ہو، کب تک آ جاؤ گے۔" اس کا کزن فیصل جا چکا تھا اور اب وہ عین اس کے سامنے بیٹھا تھا۔

"اگر میں فون نہیں بھی کرتی تو تمہیں چاہیے تھا کہ تم کرو اور مجھے بتاؤ۔ ایک لاکھ دفعہ میں نے فون چیک کیا، ہاتھ میں فون لیے لیے میرا جسم شل ہو گیا اور تم اپنے کزن کو شاپنگ کرواتے رہے۔ تم گاڑی میں بیٹھ کر کسی دکان کے کونے میں کھڑے ہو کر مجھے اطمینان سے ساری بات نہیں بتا سکتے تھے۔ بیوی پرانی ہو گئی ہے، اس نے کھانا کھایا ہے کہ نہیں، وہ سوسکے گی یا نہیں تمہیں پرواہ نہیں۔"

"فیصل کے پاس وقت کم تھا، اسے واپس دوسرے شہر جانا تھا۔ یقین کرو اتنی بری طرح سے ہم الجھ گئے خریداری میں کہ اس سب کا خیال ہی نہیں رہا۔"

"مجھے یہ مت بتاؤ کہ تم کتنے مصروف تھے۔ مجھے یہ بتاؤ کہ اس مصروفیت میں سے کچھ وقت نکالنا کیا مشکل تھا؟"

"ہاں مشکل تھا۔" اس نے صاف کہا۔ اس بات سے نرگس کا غصہ اور بڑھ گیا۔ بیوی سے بات کے لیے وقت نہیں۔۔۔ واہ۔۔۔ وہ سوں سوں کر کے رونے لگی۔

"یہی تو بات ہے یار! تمہیں ایک بات یوںہی کہہ دو تم اسے سچ جان لیتی ہو۔" اس کے روتے ہی اس نے بچوں کی طرح اس کے گرد اپنے بازو ڈال لیے۔ "اکثر باتوں کے وہ مطلب نہیں ہوتے جو نکالے جاتے ہیں۔"

"میں وہی مطلب نکالتی ہوں جو تمہاری باتوں میں ہوتا ہے۔ رات کے ایک بجے تم گھر واپس آ رہے ہو اور تم چاہتے ہو کہ میں تم سے کچھ پوچھوں بھی نہیں۔" خود کو اس کے حلق سے آزاد کرواتے ہوئے وہ بیڈ روم کی طرف جانے لگی۔

"میں شرمندہ ہوں۔" وہ تیزی سے اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔

"مجھے پرواہ نہیں۔"

"تم ناراض ہو؟" اس نے انگلی سے اس کی گیلی آنکھوں کی طرف اشارہ کیا۔

"تمہیں پرواہ کرنے کی ضرورت نہیں۔" رات گئے تک وہ اسے مناتا رہا۔ وہ اسے منا منا کر تھکتا نہیں تھا۔ یونیورسٹی سے ہی یہ اس کا پسندیدہ کام رہا تھا۔ وہ دن میں کئی کئی بار ناراض ہوتی، بات کتنی ہی معمولی ہوتی، مانتی وہ اپنی مرضی سے ہی تھی۔

"تم تھکتی نہیں ہو ناراض ہو ہو کر؟" وہ اکثر اس کے بار بار ناراض ہونے پر پوچھتا۔

"تم نہیں تھکتے مجھے منا منا کر؟"

"نہیں، مجھے اچھا لگتا ہے تمہارا ناراض ہونا، بات بات پر لڑنا، ہزاروں بار ہزاروں سوال کرنا، ہر بار ایک نیا انداز، ایک نیا کھیل۔"

"میں کھیل ہوں؟"

"کھیل سے کم بھی نہیں ہو۔ تمہیں یہ سن کر اطمینان نہیں ہوتا کہ ہر بار تمہارے نئے انداز کے ساتھ میری محبت کا انداز بھی نیا ہوتا ہے۔"

"آں۔۔۔ لیکن مجھے تو لفظ 'نئے' نے سوچ میں ڈال دیا ہے۔ تم اتنے متلاشی ہو نئے پن کے؟"

"اوہ۔۔۔ یعنی تم اپنی بات کو پھر سے اپنی مرضی کا رنگ دینے جا رہی ہو؟"

"میرا خیال ہے میں تمہاری بات کی گہرائی میں جا رہی ہوں۔"

"میری بات میں کوئی گہرائی نہیں ہے، یہ صرف ایک بات ہے۔"

"اس کا مطلب کہ تمہاری باتیں بھی صرف باتیں ہی ہیں۔ صرف باتیں۔ ہیں نا؟"

"میرے پاس اتنا دماغ ہے کہ یہ سب سوچوں، لیکن تمہارا دماغ بہت گہرا ہے۔"

"شاید واقعات دماغ کو گہرا بنا دیتے ہیں۔" وہ ٹھوڑی پر ہاتھ رکھ کر اپنے مخصوص انداز میں اس کی طرف دیکھنے لگی۔ دونوں بچے سو چکے تھے اور وہ دونوں لان کی طرف بنی سیڑھیوں پر بیٹھے تھے۔

"کیا؟" رامان کی شکل سوالیہ بن گئی، وہ جانتا تھا اس اس طرح سے دیکھنا۔

"تم بتاؤ۔۔۔ کیا؟" نرگس نے دیکھتے رہنے کا کام جاری رکھا۔ "کچھ تو ہوگا بتانے لائق۔"

"میں نے کیا کہا اب؟" وہ حیران ہوا۔

"تم نے ان میں کسی کو میسج کیا اور سینٹ آئٹم اور ان باکس میں سے میسجز ڈیلیٹ کر دیے۔ باقی میسجز رہنے دیے۔ تم نے وہی میسج کیوں ڈیلیٹ کیا؟"

"کون سا میسج۔۔۔ مجھے نہیں یاد۔"

"اداکاری مت کرو پلیز۔"

"یار! کر دیا ہو گا ڈیلیٹ۔ اس میں ایسی کون سی بڑی بات ہے۔"

"یہی میں سوچ رہی تھی کہ اسے میسج میں ایسا کیا تھا کہ خاص طور پر ڈیلیٹ کیا گیا تاکہ میں نہ پڑھ سکوں۔ دراصل تم نے میسج تو ڈیلیٹ کر دیا مگر ڈلیوری رپورٹ ڈیلیٹ نہیں کی۔"

رامان ایسے چونکا جیسے پکڑا گیا ہو۔ نرگس کا منہ اتر گیا۔ اسے توقع تھی کہ رامان سچ بولے گا اور ان کی ایک ہزار ایک لڑائیاں صرف اسی ایک بات پر ہوتی تھیں کہ وہ اسے پہلی بار پوچھنے پر ہی حقیقت کیوں نہیں بتاتا۔

یار! صائمہ کو کیا تھا؟" حمید اس کا لٹکا ہوا منہ دیکھ کر ڈر گیا۔

"اس کا 'ہیلو' کا میسج آیا تھا، میں نے بھی حال چال پوچھ لیا اس کا، پھر میسجز ڈیلیٹ کر دیے۔ سوچا تم موبائل دیکھو گی تو پھر پوچھو گی، اور صائمہ ویسے ہی تمہیں زہر لگتی ہے۔"

"یہی تو بات ہے کہ تم اس وقت تک حقیقت نہیں بتاتے ہو جب تک میں ثبوت پیش نہ کروں، پھر تم ساری کہانی سناتے ہو۔"

"یہ غلط بات ہے۔ ہر بار تو تم ثبوت پیش نہیں کرتیں۔ میں خود ہی مان جاتا ہوں۔"

"تم مانتے نہیں ہو، میں منواتی ہوں۔"

"رات کے گیارہ بجنے والے ہیں۔ تمہارا پھر سے ناراض ہونے کا ارادہ ہے۔"

"پھر سے؟" اس نے بھنویں اچکا کر پوچھا۔ "نہیں، میرا مطلب ابھی اس وقت سونے کا ارادہ ہے؟"

"تم کبھی مجھے نہیں سمجھوگی۔" ندا کا منہ پھول گیا۔

وہ بالکل ایک چھوٹی سی بچی کی طرح بن جاتی تھی، ایسی بچی جس کا سرپرست ہر حال میں اس کے لاڈ اٹھاتا ہے۔ وہ عورت تھی اور اسے لاڈ اٹھوانا بے حد پسند تھا۔ جب ہر بار اسے منایا جاتا تو اس کا رتبہ اور بلند ہو جاتا۔

حمید چڑتا تو وہ بھی چڑ جاتی۔ یہ نہیں کہ یہ صرف حمید کا ہی حق ہے۔

حمید غصہ کرتا تو وہ بھی کر لیتی۔

دونوں لڑنے پر آتے تو جی جان لگا کر لڑتے تھے۔

"یعنی تم دونوں کا ابھی بھی یونیورسٹی والا ہی حال ہے۔" سویرا نے گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے کہا۔ پہلے تو وہ ہنسا کرتی تھی ندا کے لمبے چوڑے قصوں پر۔ وہ دونوں ہم نام تھیں، ہم خیال تھیں، اور ایک دوسرے کی بہترین دوست تھیں۔

"کامران تو مجھ پر چیزیں اٹھا اٹھا کر پھینکتا ہے۔" اس نے اداسی سے کہا۔

"کیوں؟ کیوں کرتا ہے ایسا؟"

"پتا نہیں۔۔۔ خیال بھی بہت رکھتا ہے بس اپنے آگے بولنے نہیں دیتا۔ کہتا ہے گھر میں راج کرو بس سوال جواب نہ کرو۔ کہاں جا رہا ہے، کب آرہا ہے، کیا کر رہا ہے، غلطی سے پوچھ بھی لوں تو میری شامت آ جاتی ہے۔ ایسے دھاڑتا ہے کہ دل دہل جاتا ہے۔"

"تمہیں اس پر شک ہے؟ کیا کوئی اور۔۔۔؟"

"بات کسی اور کے ہونے کی نہیں ہے ندا! بات صرف اتنی ہے کہ ہماری زندگی میں 'محبت' صرف اچھا اور صرف میرے اچھا رہنے پر رہے گی۔ میری فرمان برداری میری محبت ہے بس۔ شادی سے پہلے تک ہر اچھی بری بات تھی ہم دونوں میں۔ شادی کے بعد اسے میری طرف سے کوئی ایسی بات نہیں چاہیے۔ اسے سب کچھ اپنی پسند کا چاہیے۔ مجھے گھر میں سب کچھ ملتا ہے، صرف اسی تک جانے کا راستہ نہیں ملتا۔

کبھی میرا دل چاہتا ہے اس سے بات کرنے کو لیکن میں اسے بلا ضرورت فون نہیں کر سکتی۔ کبھی میرا دل چاہتا ہے کہ میں بار بار فون کرکے اسے گھر آنے کے لیے کہوں کیونکہ میرا دل چاہ رہا ہوتا ہے کہ ہم مل کر لنچ کریں۔"

"اور تم ایسا نہیں کر سکتیں؟" ندا نے حیرت لیے پوچھا۔

"ہاں۔۔۔ نہیں کر سکتی۔"

"کیوں؟"

کیونکہ اماں نے ایک بار کہا تھا کہ ایک عورت میں اتنی غیرت تو ہونی چاہیے کہ وہ برداشت کرے اور گالی نہ کھائے، اور اگر گالی سنے تو برداشت نہ کرے۔ اور میں نے برداشت کرلیا ہے کیونکہ میں گالی نہیں سن سکتی، اور برداشت اس لیے کرلیا کیونکہ میں اس کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔"

سلمیٰ اپنی گیلی آنکھیں صاف کرنے لگی۔

"وہ تو تم سے محبت کرتا تھا! کہاں گئی وہ محبت؟"

سلمیٰ نے اسے ایسے دیکھا جیسے کسی نادان بچے کو دیکھا جاتا ہے۔

"محبت۔۔۔ محبت کے نام پر جو کھیل کھیلا تھا اب ختم۔۔۔ اب ہم میاں بیوی ہیں۔۔۔"

"میاں بیوی۔۔۔ تو کیا میاں بیوی میں محبت نہیں ہوتی؟ کہاں چلی گئی تم دونوں کی محبت؟"

"شاید کہیں چلی گئی ہے ندا! محبت یکطرفہ ہو تو وہ نہ ہونے کے برابر ہی ہوتی ہے، اور بیوی کی محبت تو سرے سے ہوتی ہی نہیں ہے۔" وہ تلخی سے ہنسی۔

رات گئے تک سلمیٰ کے الفاظ ندا کے ذہن میں گھومتے رہے۔

"عورت میں تمہاری پسندیدہ خوبی کون سی ہے؟" حمید فٹ بال میچ دیکھ رہا تھا اور وہ بور ہو رہی تھی۔ اس نے جھٹ سے ٹی وی آف کر کے اس کے سامنے بیٹھ کر پوچھا۔

"یہی کہ وہ دوبارہ سے ٹی وی آن کر دے جلدی سے۔"

"تم اپنی بیوی سے باتیں کرو، اسے دیکھو، ٹی وی میں کیا رکھا ہے۔" اس کا انداز شرارت لیے ہوئے تھا۔ وہ اکثر اس سے ایسے ہی سوال کر کے الجھا دیا کرتی تھی۔

"کیا عورت میں خوبی ہوتی ہے؟"

"میرا خیال ہے عورت کا عورت ہونا ہی خوبی ہے بس۔"

"کیا مطلب؟" وہ خفا ہو کر بولی۔ "تمہارا مطلب ہے کہ مجھ میں کوئی خوبی نہیں۔ ویسے دم بھرتے رہتے ہو میرا کہ میں یہ ہوں، میں وہ ہوں۔"

"ہاں کہتا ہوں، اور اپنی بیوی سے کہتا ہوں اور بس۔"

"بس؟"

"بس یہ کہ تم مجھے بھا گئی ہو۔"

"اوہ۔۔۔ تو میں تمہیں بھا گئی ہوں۔" وہ چڑ گئی۔

"بالکل اس لیے تمہاری خامیاں بھی میرے لیے خوبیاں ہی ہیں۔ عورت میں بس یہ خوبی ہونی چاہیے کہ اسے 'بھا' جانا آ جانا چاہیے۔"

"بالکل صحیح فرمایا آپ نے، باقی بچے، کھانا پکانا، سینا پروانا، گھر کے ہزار کام جائیں بھاڑ میں کیونکہ یہ سب تو کسی گنتی میں ہی نہیں۔ بس وہ اٹھلاتی پھرے شوہر کے آگے پیچھے۔"

اور وہ ہنسنے لگا۔ "دیکھا۔۔۔ دیکھا۔۔۔ تم کتنا چڑتی ہو، پھر کہتی ہو کہ میں سچ نہیں بولتا۔"

"یعنی کہ میں تمہیں بھا گئی ہوں اس لیے ہمارا یہ رشتہ قائم ہے۔ میری خامیاں 'خامیاں نہیں، خوبیاں 'خوبیاں نہیں۔"

"اتنی گہرائی میں تم جاتی ہو، میں نہیں جا سکتا۔" حمید نے معصوم شکل بنا کر کہا۔

"میں اتنا جانتا ہوں کہ جن سے محبت کی جاتی ہے وہ 'دیوتا' بن جاتے ہیں، پھر تم جانتی ہو کہ دیوتاؤں کی صرف پوجا ہی کی جاتی ہے۔" اس کے ہاتھ سے ریموٹ لے کر اس نے ٹی وی آن کیا۔

"حمید سے پوچھنا تھا کہ اس دیوتا کی پوجا کب تک کی جائے۔"

سلمیٰ سنجیدہ ہو گئی جیسے کہ اب وہ اکثر سنجیدہ ہی رہتی تھی۔

"پتا نہیں کیوں ندا! مجھے لگتا ہے حمید نے ٹھیک ہی کہا ہے، دیکھو ناں وہی عورتیں جو خُرابت ہوتی ہیں، چالاک، دو نمبر اور بد نیت ہوتی ہیں۔ انہیں بھی تو وہی مرد ہی بساتے ہیں نا کیونکہ وہ ان کے دلوں کو رام کر لیتی ہیں۔"

"یہ کیا بات ہوئی؟" ندا نے پوچھا بھی اور سوچا بھی۔

"بس ایسی ہی کوئی بات ہے۔"

سلمیٰ کو الوداع کہہ کر ندا حمید کو فون کرنے لگی۔ بیل جا رہی تھی لیکن وہ فون نہیں اٹھا رہا تھا۔ آج کل وہ پہلے سے کہیں زیادہ مصروف رہنے لگا تھا۔ آفس میں بہت سے لوگوں کو تقرر کیا گیا تھا اور وہ پرانے ورکرز کی ماتحتی میں کام کر رہا تھا۔ کسی نئی پراڈکٹ کی لانچنگ کی وجہ سے سارے اسٹاف کو رات گئے تک کام کرنا پڑتا تھا۔

شروع میں ندا نے کافی شکوہ کیا اس کی بدلی ہوئی روٹین کا۔ رات کا کھانا کھانے کے بعد لان میں بیٹھ کر وہ ایک ڈیڑھ گھنٹہ باتیں کرتے تھے۔ اب وہ آتا ہی اتنا لیٹ تھا کہ کھانا کھا کر سوجاتا تھا۔ پھر جیسے اس نے سمجھوتا کر لیا۔ اب وہ شکایت بھی نہیں کرتا تھا ندا سے اور نہ ہی اس کے چہرے پر وہ تھکن نظر آتی تھی جو شروع شروع میں آیا کرتی تھی۔

"کب تک تمہاری یہ روٹین رہے گی؟" اس نے اس کے سامنے کھانے کی ٹرے رکھی۔

نوالہ چباتے رہنے کے بہت دیر بعد اس نے کہا، "کچھ کہہ نہیں سکتا۔" جواب دینے میں اتنا وقفہ ندا کو بہت کھلا۔

"پھر بھی کچھ تو پتہ ہو گا۔" ندا نے خفگی سے کہا۔ حمید نے نظر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور کھانا کھانے لگا اور کھانا ہی کھاتا رہا۔ ندا نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔ اس کے چہرے پر کوئی ایسا تاثر تو تھا کہ ندا نے اگلا سوال نہیں پوچھا۔

"تمہیں لگتا ہے کہ حمید کہیں اور وقت گزار رہا ہے؟" وہ سلمیٰ سے فون پر بات کر رہی تھی۔

"ہوتا تو وہ آفس میں ہی ہے۔ آفس سے معلوم کیا ہے میں نے۔ کام بھی نئی پراڈکٹ پر ہی کر رہے ہیں۔ رات گئے تک زیادہ اسٹاف وہاں موجود ہوتا ہے۔"

"تو پھر؟" سلمیٰ نے پوچھا۔

"تو پھر۔" ندا نے خود سے کہا۔ "اب کچھ ویسا ہی ہے اور شاید کچھ بھی ویسا نہیں۔ کچھ دن پہلے اس کا موبائل میرے پاس تھا۔ اس نے کال کرنے کے لیے میرے ہاتھ سے لیا۔ حمید کا کہنا ہے کہ اس نے صرف لیا تھا اور مجھے جانے کیوں یقین ہے کہ اس نے چھینا تھا۔"

"تمہارا وہم ہے۔ تم جانتی ہو کہ حمید کتنا اچھا ہے۔"

"ہاں! اچھا تو ہے۔" وہ خود الجھ گئی۔

حمید نے اسے گول گول گھمانا بھی چھوڑ دیا تھا اور پانی کے چھینٹے مارنا بھی۔ وہ اسے بار بار فون کرتی اور وہ اسے آرام سے بتا دیتا کہ کب تک وہ گھر آ جائے گا اور وہ اس وقت گھر آ بھی جاتا تھا۔

لیکن ایک رات تو ندا کے لیے حد ہی ہو گئی جب وہ رات کے دو بجے گھر آیا۔ تین گھنٹے سے وہ اسے مسلسل فون کر رہی تھی اور اس کا فون آف تھا۔

"کہاں تھے تم؟" لاؤنج میں اس کے داخل ہوتے ہی وہ اس پر پھٹ پڑنے پر تیار تھی۔

"میں تھکا ہوا ہوں، سونے جا رہا ہوں۔ تم اپنی یہ پڑتال صبح کر لینا۔" احمد نے اس کے بولنے سے ہی سختی سے کہا۔

"میں کبھی تھکی ہوئی ہوں۔ مجھے بھی سونا ہے۔ تمہارا فون آف تھا، بارہ بجے آفس بھی بند ہو چکا تھا، تم کہاں تھے دو گھنٹے؟" ندا جیسے اسے سنے بغیر کہیں اور ہی گم تھی۔

"تم سے بات کے بغیر، میں نہ خود سوؤں گی نہ تمہیں سونے دوں گی۔ تم کیا کر رہے ہو آج کل آفس میں؟ تمہارا آفس بند ہو چکا تھا۔ واپس تم اب آرہے ہو۔ کہاں تھے تم اور کہاں رہتے ہو؟" وہ غصے میں تیز تیز بول رہی تھی۔

"اور یہ فون دو مجھے اپنا۔ میں دیکھوں کہ یہ آف کیسے ہوگیا؟" وہ فون پکڑنے اس کے ہاتھ کی طرف آئی۔

"بکواس بند کرو اپنی۔" احمد نے اس کا ہاتھ بری طرح جھٹکا۔ "اور بند ہی رکھو۔" احمد نے دوسری بار بھی اسی سختی سے کہا، جیسے اسے للکارا، جیسے کھینچ کر اسے تھپڑ مارا۔

"بکواس۔" ندا بھی اسی طرح دھاڑی۔

"ہاں! جو میں اب اور نہیں سنوں گا۔"

ندا نے اس کی آنکھوں میں در آئی سختی کو دیکھا، اجنبیت کو دیکھا اور اس کی آنکھوں میں موجود کچھ نئے رنگوں کو پہچانا۔ اس کا وہ کھٹکا جو اس کے اپنے اندر احمد کو لے کر رہتا تھا، اسے اس کی آنکھوں میں نظر آنے لگا۔

"میرے سامنے ایک لفظ منہ سے نہ نکالنا۔" احمد نے انگلی سے اس کی طرف اشارہ کیا۔

اس کا انداز صاف بتا رہا تھا کہ وہ اب اس کا ایک لفظ، ایک سوال برداشت نہیں کرے گا۔ کوئی تکرار، کوئی جواز، وہ اب نہیں سنے گا۔

اسے اٹھا کر باہر پھینک دے گا۔ اب برداشت نہیں کرے گا۔

"احمد!" ندا کی آنکھیں گیلی ہو گئیں اور یکایک اس کا چہرہ آنسوؤں سے تر ہو گیا، لیکن احمد نے جیسے نہ اس کی آواز سنی اور نہ ہی اس کے آنسو دیکھے۔ وہ روم میں جا کر سونے کی تیاری کرنے لگا۔ بے آواز ہوتے ہوئے ندا کو گمان سا ہوا کہ احمد سیٹی بجا رہا ہے۔

"ندا! تم تو اتنی نڈر ہو۔ تم تو کبھی چوکی ہی نہیں، پھر اس رات تم نے احمد کو بنا کچھ بتائے سونے کیسے دیا؟" سلمیٰ نے کی بمشکل اسے چپ کروایا تھا۔

"مجھے اسی رات، اسی وقت یہ معلوم ہوا سلمیٰ کہ میں احمد کے بل بوتے پر ہی نڈر تھی، ورنہ۔۔۔ ورنہ۔۔۔ میں تو اس رات اس کی چنگھاڑتی ہوئی سن کر ہی سمجھ گئی تھی کہ میں کتنی ڈرپوک ہوں۔

ہمت کر کے میں اس کے آفس گئی، رات گئے۔ آفس تقریباً خالی ہو چکا تھا۔ اس سے پہلے میں احمد کو کال کرتی رہی تھی، لیکن احمد نے میری کال ریسیو ہی نہیں کی۔"

"پھر۔۔۔؟"

"احمد کے کیبن میں۔۔۔ میں نے دونوں کو باتیں کرتے دیکھا۔ دونوں کے ہاتھوں میں کافی کے مگ تھے۔ احمد کے قریب ہی موبائل رکھا تھا۔

احمد نے مجھے دیکھ بھی لیا تھا مگر اسے جیسے کوئی فرق نہیں پڑا۔ اس کی آنکھوں میں دیدہ دلیری تھی۔

ایک نظر میں۔۔۔ میں یہ سب کچھ دیکھ کر واپس پلٹ آئی۔"

"کون تھی وہ؟"

"اس سے فرق نہیں پڑتا کہ وہ کون تھی۔ ندا نے اپنے گیلے گال رگڑے۔ سات آٹھ ماہ میں ہی اتنا کچھ بدل گیا۔"

"تمہیں وہیں احمد سے بات کرنی چاہیے تھی۔"

"کیسے کرتی؟ مجھے احمد سے ڈر لگ رہا تھا۔"

"ڈر۔۔۔؟" سلمیٰ حیران ہوئی۔

"ہاں۔۔۔!" اس کے آنسو روانی سے گرنے لگے۔

"کیوں؟"

"کیونکہ اب وہ احمد نہیں، صرف میرا شوہر ہے۔ محبت، محبت کا جو کھیل وہ کھیل رہا تھا اب شاید وہ ختم۔۔۔"

ندا نے اسی کے الفاظ میں اسے سمجھا دیا۔


Post a Comment for ""وہ پل جب سب بدل گیا""