ہَوا میں ابھی بھی برف کی سی ٹھنڈک تھی، مگر اپریل کا مہینہ اپنے ساتھ بہار کی نرم خوشبو لے آیا تھا۔ بادام کے درختوں پر سفید شگوفے جھوم رہے تھے، جیسے کسی نے آسمان کے ٹکڑے درختوں پر ٹانک دیے ہوں۔ سبز جھیل کے کنارے خاموشی تھی، اور میں پُل کے جنگلے سے ٹیک لگائے کھڑا، اُس کا منتظر تھا۔
شام ڈھل گئی، ہاؤس بوٹس جھیل پر دھیرے دھیرے سرکنے لگے۔ پہلا تارا چمکا، اور پھر چاند نمودار ہوا — پورے جوبن پر، جیسے کسی نے خامشی کو چاندنی میں لپیٹ دیا ہو۔
وہ آئی۔ پگڈنڈی کے ڈھلوان پر تیز قدموں سے چلتی ہوئی، ہانپتی ہوئی میرے قریب آ کر رک گئی۔ اُس کی آنکھوں میں چاند کا عکس تھا، سانسیں تیز اور چہرہ سرخ۔ اُس نے میرے شانے پر سر رکھا، اور اس کے گھنے بالوں کی خوشبو میرے اندر کہیں اتر گئی۔
“میں سارا دن تیاری کرتی رہی… یہ دیکھو، تمھارے لیے مکئی کے بھٹے، خشک خوبانیاں اور زروالو لائی ہوں،” اُس نے پُر شوق لہجے میں کہا۔
ہم دونوں کشتی میں بیٹھے، اور جھیل کے بیچ جا پہنچے۔ چاند پانی پر جھلک رہا تھا، جیسے دونوں کا وصل مقدر میں لکھا ہو۔ اُس نے پوٹلی کھولی، زروالو دیے۔ “پچھلی بہار میں تم نہ تھے،” اُس نے کہا۔ اور میں سوچتا رہا، کہ واقعی، جب یہ پھل اُگے، خوشبوئیں مہکیں، میں نہ تھا۔
ہم نے خوبانیاں کھائیں، جن کی مٹھاس دیر سے زبان پر گھلتی تھی۔ اُس نے گٹھلی توڑی، بیج دیا۔ “یہ ہمارے آنگن کا درخت ہے۔”
پھر مکئی کا بھٹہ نکالا۔ ہم ایک ہی بھٹے سے نوالے لیتے رہے۔ “پچھلی فصل کے ہیں،” وہ بولی۔ اور میں سوچتا رہا — جب وہ تھی، میں نہ تھا۔ مگر اب، وہ میرے ساتھ تھی۔
وہ رات، وہ چاندنی، وہ لمس — جیسے دنیا تھم گئی ہو۔ ہم دونوں خاموش تھے، صرف جھیل کی لہریں اور سانسوں کی آہٹ تھی۔
مہینوں بعد شہر گیا، کہا تین دن میں آؤں گا۔ مگر جب لوٹا، اُسے کسی اور کے ساتھ ہنستے دیکھا۔ ایک ہی رکابی میں کھاتے، ہونٹوں پر ہنسی۔ اور میں واپس لوٹ آیا۔
اٹھالیس برس گزر گئے۔ اب لوٹا ہوں، بیٹے، پوتے ساتھ ہیں۔ وہی جھیل، وہی پگڈنڈی۔ میں اُس گھر تک آیا، وہی چھوٹا سا گھر۔ دروازہ کھلا، اندر وہی تھی — بوڑھی، مگر آنکھوں میں وہی چمک۔
“یہ میرا بیٹا ہے، بہو ہے، پوتے ہیں…” وہ سب سے ملواتی گئی۔ پھر ایک لمحے کو رکی، اور ہنس کر بولی، “تو تم وہ ہو؟”
ہم باہر نکل آئے، جھھیل کے کنارے۔ اُس نے کہا، “وہ میرا بھائی تھا۔ تم نے پوچھا ہی نہیں، اور چلے گئے۔ چھ سال تمہارا انتظار کیا۔ ایک بیٹا بھی ہوا، تمھارا بیٹا۔ مگر وہ بھی نہ رہا۔”
ہم دونوں چپ رہے۔ بچے ہمارے گرد کھیلتے رہے۔ اُس نے میری پوتی کو گود میں اٹھایا، میں نے اُس کے پوتے کو۔ اور ہم دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ اُس کی آنکھوں میں چاند چمک رہا تھا، وہی چاند، جو برسوں پہلے ہماری کشتی پر رقص کر رہا تھا۔
چاندنی کہہ رہی تھی، “انسان مر جاتے ہیں، مگر محبت نہیں مرتی۔ بہاریں لوٹتی رہتی ہیں، اور زندگی اپنے رنگ بدلتی رہتی ہے۔”
وہ کشتی آج بھی جھیل کے کنارے بندھی ہے — وقت کی گواہ، محبت کی یادگار۔
Post a Comment for " پورے چاند کی رات"