Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

"دوستی سے محبت تک"


آج نورین اشرف کی اٹھارہویں سالگرہ تھی، نصیر اشرف بہت خوش تھا کیونکہ علی ریاض آج سارا دن اس کے ساتھ تھا اور اب وہ اس کی رات خوبصورت بنانے کے لیے اس کی پسندیدہ جگہ کلفٹن بیچ کلب لے آیا تھا۔ یہ کلب کراچی کے خوبصورت کلبز میں سے ایک تھا۔ دنیا بھر سے لوگ یہاں وزٹ کے لیے آتے تھے۔ نورین نے کچھ دیر علی کے ساتھ تیراکی کی اور پھر دونوں سمندر سے نکل آئے اور گیلی ریت پر چلتے ہوئے چیئرز کے قریب آئے اور دونوں چیئرز پر لمبے ہو گئے۔ کلفٹن بیچ کلب رنگ برنگی روشنیوں میں نہایا ہوا تھا۔ کلب میں موجود سارے لوگ اس مدہوش کر دینے والے ماحول میں مدہوش ہو رہے تھے۔ ویٹر ٹرے میں رنگ برنگے مشروب گلاس میں لیے ان کے قریب آیا۔

"کیا آپ وائن لینا پسند کریں گے؟" دونوں نے اپنے اپنے پسندیدہ مشروب کے گلاس اٹھا لیے اور گھونٹ گھونٹ کے اندر اتارنے لگے۔ کچھ دیر بعد اس نے ویٹر کو اشارہ کیا۔

اس نے ان سے خالی گلاس لے لیے۔
"علی!" نورین نے خمار آلود لہجے میں اسے پکارا۔

"جی ہاں، جانِ من۔" علی نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا تو اس نے اس کے قریب ہوتے ہوئے اپنا سر اس کے سینے پر رکھ دیا اور اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ جب اسے علی پر زیادہ پیار آتا تھا وہ ایسے ہی کرتی تھی، یہ اس کے اظہار کا ایک طریقہ تھا۔ علی نے مسکراتے ہوئے اپنے دونوں بازو اس کے گرد لپیٹ کر اسے خود میں سمو لیا۔

وہ بارہ سال کا تھا جب اس کی خالہ زہرہ اور چاچا زبیر اپنی چار سالہ بیٹی کے ہمراہ ڈنمارک سے کراچی آئے تھے۔ وہ کلفٹن کے سمندر کی سیر کرنا چاہتے تھے، جس کے لیے انہیں ہنزہ کے پہاڑوں کو کراس کرنا پڑتا تھا۔ یہ ایک پانچ گھنٹے کا راستہ تھا جو ہنزہ سے کراچی کو منسلک کرتا ہے۔ جب وہ جانے لگے تو اس کے دل میں جانے کیا آیا کہ اس نے اپنی خالہ کا ہاتھ پکڑا اور ان کی بیٹی کی طرف اشارہ کر کے بولا:

"پیاری خالہ! آپ اور چاچا کراچی سے ہو آئیں لیکن یہ ڈول میرے پاس رہنے دیں، میں اس کے ساتھ کھیلوں گا اور اسے رونے بھی نہیں دوں گا۔"
تو زہرہ کو بھی اس کی بات پسند آئی تھی کہ اس طرح وہ زیادہ بہتر انجوائے کر سکیں گے، سو وہ اپنی بیٹی کو ان کے پاس چھوڑ کے روانہ ہو گئے اور سفر کے دوران ان کی کار حادثے کا شکار ہو گئی۔ ہنزہ کے پہاڑوں نے انہیں نگل لیا تھا، لیکن وہ اپنی کہی بات پوری کر رہا تھا۔ اس کے ماں باپ نے اسے بھی اسکول داخل کروا دیا تھا۔ وہ اس کے ساتھ کھیلتا اور اس کا ایسے خیال رکھتا جیسے ایک ماں اپنے بچے کا رکھتی ہے۔ وہ اس کے منہ سے نکلی ہر بات پوری کرتا چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی غلط باتیں مان کر وہ بہت دفعہ اپنے ماں باپ سے ڈانٹ کھا چکا تھا۔

"سوری ماما اور ڈیڈ! اس میں میری جان ہے، میں اسے کبھی ناراض نہیں کر سکتا، میں اس کی ہر خواہش پوری کروں، چاہے اس کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے مجھے اپنی جان ہی کیوں نا دینی پڑے۔"
ویسے تو اس کے ماں باپ اور دونوں بہنیں ماہ نور اور عائشہ دونوں ہی اس سے بہت پیار کرتی ہیں، لیکن ان کا پیار علی ریاض کے پیار کے آگے کچھ بھی نہیں تھا، اور نورین اشرف کو اس کی اتنی عادت ہوگئی تھی کہ وہ اس کے بغیر ایک دن بھی نہیں رہ سکتی تھی۔ وہ اس سے دس سال بڑا تھا لیکن وہ اس کا بہترین دوست تھا جو اس کی ہر بات فوراً مان لیتا تھا۔ اس کی آنکھ میں ایک آنسو تک نہیں آنے دیتا تھا، سال گزرتے رہے اور ان کا پیار بھی دن بہ دن بڑھتا گیا۔ وہ اٹھائیس سال کا ہو گیا تھا اور اسے اپنی پروفیشنل زندگی شروع کیے چار سال ہو گئے تھے۔

دوپہر کے تین بجے کا وقت تھا کہ ایک لڑکی نورین بلیک عبایا پہنے ایک ہاتھ سے اسکارف کے پلو کو پکڑ کر چہرے کو ڈھانپے، دوسرے ہاتھ میں ہینڈ بیگ تھامے یونیورسٹی کے گیٹ سے باہر نکلی۔ تو ایک نیلے رنگ کی کار اس کے پاس آ کر رکی، اور وہ فرنٹ ڈور کھول کر بیٹھی۔ کار دوبارہ سڑک پر فراٹے بھرنے لگی۔

اس نے چہرے سے نقاب ہٹایا۔ آس نے لمحہ بھر کے لیے اس کی طرف دیکھا، پھر دو بار نظریں سڑک پر مرکوز کیں اور بولا،
"تم واقعی خوبصورت ہو یا میری نظر کا قصور ہے؟"

نورین نے مسکرا کر جواب دیا،
"جناب! آپ کی نظر کا قصور نہیں، میں ہی خوبصورت ہوں۔"

آدمی نے ادا سے کہا،
"اچھا جی۔"

اور کار کا رخ دائیں طرف ایک سنسان گلی کی طرف موڑ دیا۔ کچھ آگے جا کر اس نے بریک لگائی، انجن بند کیا، اور اس کی طرف متوجہ ہو کر اس کی گود میں رکھے ہاتھوں کو اپنے دونوں ہاتھوں میں تھاما اور آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا،
"اب ادھر تو کوئی نہیں دیکھ رہا نا، میری جان۔"

وہ اس بات کا مطلب سمجھ کر اپنے آپ میں سمٹ گئی۔

"احمد! مجھے یہ سب ٹھیک نہیں لگ رہا۔"

"یار! اس میں غلطی کیا ہے؟ ایک کس تو کرنی ہے۔ ویسے تم کہتی ہو کہ تم مجھ سے محبت کرتی ہو، اور یہ کیسی محبت ہے کہ تم میری ایک چھوٹی سی خواہش نہیں پوری کرسکتی؟"
وہ اسے لفظوں کے جال میں لپیٹ رہا تھا اور وہ لپٹ رہی تھی۔

"میری محبت پر شک نہ کرو، محبت ہے تو تمہاری بات مان کر تمہارے ساتھ آئی ہوں نا۔"

"اگر آ گئی ہو تو پھر میری بات ماننے میں کیا حرج ہے، میری جان؟"
اس نے اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے لبوں سے چھوا اور اسے اپنے قریب کر لیا۔ وہ شیطان کے بہکاوے میں آ گئے تھے، اور شیطان اپنی کامیابی پر خوشی سے جھوم رہا تھا، پاگلوں کی طرح قہقہے لگا رہا تھا۔ ہمارے نبی ﷺ نے پہلے ہی ہمیں بتا دیا تھا کہ کوئی نامحرم مرد و عورت آپس میں تنہائی میں نہ ملیں کیونکہ ان کے درمیان تیسرا شیطان ہوتا ہے۔ لیکن وہ اپنے نبی ﷺ کی بات نہ مان کر اپنے لیے دنیا اور آخرت کی تباہی خرید رہے تھے۔


نورین رشید اپنی دوست مریم کے ساتھ کوکو بونگو شاپنگ کے لیے آئی تھی۔ شاپنگ کے بعد وہ میکسیکو کے سہانے موسم کو انجوائے کرنے کے لیے پیدل مارچ کرنے لگیں کہ اس کی نظریں سامنے اسپائیڈر مین کے مجسمے کے پاس کھڑے تین مشرقی لڑکوں پر پڑیں۔ اس کے اٹھتے قدم یک دم رک گئے۔ وہ بس درمیان والے کو دیکھتی رہ گئی اور ایک عجیب سا احساس اسے گھیرنے لگا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اس کے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ وہ ان دونوں لڑکوں سے منفرد تھا بلکہ کولوبونگو میں موجود سب لڑکوں سے۔ وہ بلیک شلوار قمیض میں ملبوس، دائیں کندھے پر کالی چادر ڈالے ہوئے اور کالی مونچھوں کے تلے مسکراتے لب، بلاشبہ دوسروں کو ہیپنوٹائز کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتا تھا۔ وہ سب لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا، لیکن اسے ہیپنوٹائز نہ تو اس کی خوبصورتی کر رہی تھی، نہ ہی خالص مشرقی اسٹائل۔ یہ کچھ اور تھا، جیسے وہ اس کے جسم کا حصہ ہو اور وہ ایک جادوئی کشش کی طرح اسے اپنے پاس کھینچ رہا ہو، جیسے ایک مقناطیس دوسرے مقناطیس کو کھینچتا ہے۔ اس کے قدم اس کی طرف بڑھنے لگے۔ نہ تو اسے مریم کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں اور نہ ہی اس کے علاوہ کوئی دکھائی دے رہا تھا۔ جب وہ اس کے بالکل سامنے آ کھڑی ہوئی، تب اس نے اس کی طرف دیکھا تھا۔ ڈارک براؤن آنکھوں کا وہ اس کی طرف دیکھنا اس کے دل و دماغ میں ہلچل مچا گیا تھا اور اس کے دماغ میں ایک جھماکا ہوا تھا۔ اسے یاد آ گیا تھا...

"آپ وہی ہیں؟" اس نے گم سم انداز میں کنفرم کرنے کے لیے پوچھا، اپنے سوال کے جواب میں اسے اس کے ساتھ کھڑے دونوں لڑکوں کا قہقہہ سنائی دیا۔ جبکہ ایک لڑکے نے اپنے قہقہے کو کنٹرول کر لیا تھا، لیکن وہ اپنی مسکراہٹ کنٹرول نہیں کر سکا تھا۔

"وہ کون میڈم؟" اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
"وہی جو پچھلے ہفتے مجھ سے ملا تھا۔"

"لیکن کہاں میڈم؟" اس نے حیرانی سے پوچھا۔
"خواب میں۔" اس کے جواب نے اسے بھی قہقہے لگانے پر مجبور کر دیا تھا۔
"عائشہ، تم پاگل ہوگئی ہو کیا، بیوقوفوں والی حرکتیں کر رہی ہو؟" مریم نے اسے بازو سے پکڑ کر اپنی طرف گھماتے ہوئے کہا تو اس نے بازو چھڑواتے ہوئے کہا،
"مریم، میں مذاق نہیں کر رہی۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں راستہ بھول جاؤں، تب میں گلیوں میں بھٹک رہی ہوں، میں پکارتی ہوں 'کوئی ہے؟ کوئی ہے؟' تب مجھے اپنے پیچھے سے آواز سنائی دیتی ہے، میں دیکھتی ہوں تو آپ کھڑے ہوتے ہیں۔ آپ کہتے ہیں، اس سے پہلے کہ آسمان سے دخان آئے اور تمہیں تباہ و برباد کر دے، تم سیدھے راستے کو ڈھونڈ لو۔ میں آپ سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ یہ دخان کیا ہے؟ اور مجھے کیوں تباہ و برباد کرے گا؟ اور سیدھا راستہ کون سا ہے؟ لیکن آپ ادھر سے چلے جاتے ہو۔ میں آوازیں بھی دیتی ہوں، میں آپ کے پیچھے بھی جاتی ہوں، لیکن آپ میری آواز ہی نہیں سنتے۔ میں بھاگ بھاگ کے تھک کے گر جاتی ہوں۔"
اس نے جلدی سے بتایا اور ان تینوں کے قہقہے بیک وقت تھم گئے اور وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔


"امی! ریاض سے میرا بیگ تیار کروا دیجیے گا، میں کل پندرہ دنوں کے لیے دوستوں کے ساتھ سیر کے لیے میکسیکو جا رہا ہوں۔ بابا جان سے میں نے اجازت لے لی ہے۔"
اس نے صحن میں صوفے پر بیٹھی عائشہ کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا، جو عصر کی نماز کے بعد تسبیح پڑھنے میں مصروف تھیں۔

"اچھا، نماز پڑھ کے آتی ہے تو کہتی ہوں۔ تم مجھے یہ بتاؤ، میکسیکو کہاں ہے؟"

"امی، یہ شمالی امریکا کا ایک ملک ہے۔" اس نے عائشہ کے گلے میں بازو ڈالتے ہوئے کہا۔

"تو بیٹا! پھر دفع کرو بے حیاؤں میں جا کر کیا کرنا ہے۔"

"امی جان! اب ان بے حیاؤں کے لیے ہم قدرت کے نظارے دیکھنا چھوڑ دیں؟ یقین مانیں، کیا شہر ہے، میں نے انٹرنیٹ پر تصویریں دیکھیں تھیں۔ چاروں طرف سے پہاڑوں میں گھرا ہوا اور بہت خوبصورت ہے۔"
ریاض اس کے میکسیکو جانے کی بات سن کر اداس ہو گیا۔

"جب تمہاری بھابی آئے گی ناں تو پھر سب چلیں گے۔ پھر تم اپنی بھابی کے ساتھ خوب انجوائے کرنا۔"
اس نے اس کی ناک دباتے ہوئے کہا۔

"مطلب آپ شادی کے لیے مان گئے ہیں؟" وہ سب بھول بھال کے خوشی سے چیخی۔

"ہاں نا، اسی لیے تو بابا جان نے اجازت دی ہے جانے کی۔"
وہ اس کے ساتھ لپٹ گئی۔

"بھیا! آپ بہت اچھے ہو، آج آپ کی ہر بات مان لوں گی وہ بھی بنا رشوت کے۔"
اس نے اٹھتے ہوئے شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ کہا اور اس کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ وہ بھی مسکراتے ہوئے باہر کی طرف چل دیا۔


تقدیر نے ہمیں آپ سے ملوایا
خوش نصیب تھے ہم؟

یا وہ پل تھا حسین؟

وہ تینوں دوست ہوٹل کانکون نیوٹرا میں مقیم تھے جو کوکو بونگو سے تین سو میٹر کے فاصلے پر تھا۔ وہ رات کے دس بجے پہنچے تھے سو وہ اگلا دن سوتے رہے اور پھر چار بجے وہ کھانا کھانے کے لیے ہوٹل سے نکلے اور ٹیکسی لے کر کوکو بونگو پہنچے۔ انہوں نے منڈالا بیچ کلب کی رات کی ٹکٹس بک کروائی تھیں جس کی ٹائمنگ شام چھ بجے سے صبح چھ بجے تک تھی۔

”لگتا ہے چوہدری صاحب کی پرسنلٹی نے اس لڑکی کو ہیپنوٹائز کر دیا ہے، دیکھو کیسے دیکھ رہی ہے۔“ عمیر نے کہا تو علی بھی اس کی نظروں کی سمت دیکھنے لگا۔

"تو دیکھنے دو مجھے کیا۔" اس نے کہا لیکن جب وہ ان کی جانب آنے لگی تو علی بولا۔

"یار! وہ ایسے تمہیں دیکھ کے تمہاری طرف آ رہی جیسے پچھلے جنم میں تم اس سے مل چکے ہو۔"
وہ تینوں ہنسنے لگے لیکن اس کا خواب سن کے اسے لگا کہ وہ ٹھیک کہہ رہی ہے کیونکہ اس کا اپنا نام دخان تھا۔

"کل میں چار بجے آپ کا انتظار کروں گا اور پھر مطلب بتا دوں گا۔ ابھی میں کلب جا رہا ہوں۔" اور عائشہ تب تک اسے مڑ کے دیکھتی رہی جب تک وہ منڈالا بیچ کلب میں داخل نہیں ہو گیا۔


فہد کام کے سلسلے میں ایک ہفتے کے لیے دوسرے شہر گیا ہوا تھا جب واپس آیا تو سارہ کو پریشان پایا۔

"کیا ہوا ہے مام؟ آپ پریشان کیوں ہیں؟"

"آج کل عائشہ بہت عجیب برتاؤ کر رہی ہے۔ تمہارے جانے کے اگلے دن رات کو میں نے اس کے کمرے سے چیخ کی آواز سنی تھی تو میں اور روہان اس کے کمرے کی طرف بھاگے تھے۔ جب اسے دیکھا تو وہ پسینے میں شرابور تھی اور کانپ رہی تھی اور یہی بولتی جا رہی تھی، ‘مجھے بتاو دخان کیا ہے؟ یہ مجھے کیوں تباہ و برباد کرے گا؟’ ہم سے تو سنبھالی نہیں جا رہی تھی۔ پھر میں نے اسے نیند کی گولی دے کر سلا دیا اور اگلے دن بھی اٹھ کر یہی پوچھا تھا کہ کوئی اس سے ملنے تو نہیں آیا تھا۔ میں نے پوچھا کس نے آنا تھا تو کہتی وہی جو رات کو آیا تھا۔ میں نے اسے سمجھایا بھی کہ وہ خواب تھا لیکن وہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھی۔ اٹھتے ہی اس کا پوچھتی ہے، ‘اب تم آ گئے ہو تو تم اسے سنبھال لوگے۔’ ناشتہ کروا اور آج عائشہ کے ساتھ وقت گزارو، میں آفس کے لیے نکلتی ہوں۔" سارہ نے اٹھتے ہوئے کہا۔

"ٹھیک ہے، آپ جائیں میں دیکھتا ہوں اس کو۔" اس نے کہا اور اس کے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔

"کیسی ہے میری باربی ڈول؟" اس نے اس کا ماتھا چومتے ہوئے کہا اور اسے لیے کمرے میں آ گیا۔

"میں ٹھیک ہوں، فہد، میں نے تمہیں بہت زیادہ مس کیا۔"

"میں نے بھی بہت مس کیا اپنی جان کو۔" اس نے اس کے ساتھ بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔

"اس لیے میں نے سوچا ہے کہ آج کا دن ہم دونوں بار میں گزاریں گے، اپنے دوستوں کے ساتھ ڈانس پارٹی انجوائے کریں گے۔"

"نہیں آج نہیں۔" اس نے اس سے الگ ہوتے ہوئے کہا۔

"کیوں؟ آج کہیں جانا ہے تم نے؟" اس نے حیرانی سے پوچھا۔

"ہاں، آج مجھے اس سے ملنے جانا ہے جو اس دن مجھے خواب میں ملا تھا۔"

"میں نہیں چاہتا کہ تم غیر مسلم لوگوں سے ملو، وہ جادوگر ہیں، دوسروں پر جادو کر کے اپنے مذہب میں داخل کر لیتے ہیں اور تمہیں نقصان پہنچے، یہ میں برداشت نہیں کر سکتا۔"

"لیکن فہد، مجھے صرف اس سے یہ پوچھنا ہے کہ اس نے ایسا کیوں کہا تھا۔" اس نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

"میں نے کہہ دیا نا کہ تم اس سے ملنے نہیں جاؤ گی۔ اگر تم کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔ تم نے ابھی تک میرا پیار دیکھا ہے، غصہ تمہیں اور وہ خواب تھا، خواب کو حقیقت کا رنگ نہ دو۔" اس نے سخت لہجے میں کہا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ بے یقینی سے اس کی طرف دیکھتی رہ گئی۔ اس نے باہر جانے کے قدم اٹھائے ہی تھے کہ عائشہ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اٹھ کے اس کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔

"پلیز فہد، مجھے نہ روکوں، جانے دو۔ میں مان لیتی ہوں کہ وہ خواب تھا لیکن اس خواب نے مجھے اپنے سحر میں لے رکھا ہے، میں رات کو سو نہیں پاتی۔ مجھے یقین تھا کہ وہ آئے گا اور کل میں نے اسے دیکھا اور مجھے لگا میں اس کے وجود کا ایک حصہ ہوں، میں ایک انجانی کشش کے باعث اس کی جانب کھنچتی چلی گئی۔"

"تم نے آج تک میری ہر چھوٹی سے چھوٹی بات مانی ہے تو پھر آج میری زندگی اور موت کا سوال بن گیا ہے، تو آج کیوں آنکھیں پھیر رہے ہو؟" عارفہ نے دونوں ہاتھوں سے فہد کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لے کر کہا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو اسے تکلیف دے رہے تھے۔ وہ نرم پڑ گیا۔

"مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ اگر میں نے آج تمہیں جانے دیا تو میں تمہیں ہمیشہ کے لیے کھو دوں گا۔ چودہ سال سے اپنی سانسوں کی طرح جی رہا ہوں تمہیں میں، بتاؤ تمہیں کھونے کا حوصلہ کہاں سے لاؤں؟" بے بسی کی آخری حد پہنچتے ہوئے وہ بولا۔ اس نے اسے اپنے بازوؤں میں بھینچ لیا تھا۔

"جاو تم چلی جاؤ، میں تمہیں نہیں روکوں گا، تمہاری زندگی سے زیادہ مجھے کچھ عزیز نہیں۔" اس نے بے چارگی سے کہا اور دو آنسو اس کی آنکھوں سے لڑھک کے عارفہ کے سنہری بالوں میں جذب ہو گئے تھے۔

ہے قول خدا، قول محمدﷺ، فرمان نہ بدلا جائے گا

بدلے گا زمانہ لاکھ مگر قرآن نہ بدلا جائے گا

سامنے ساحل سمندر تھا جس کے ساتھ ریسٹورنٹ بنا ہوا تھا۔ وہ دونوں بھی ریسٹورنٹ میں ایک ٹیبل کے گرد آمنے سامنے بیٹھ گئے تھے۔

"میڈم، آپ کا مذہب کیا ہے؟" اسلم نے بات کا آغاز کیا۔

"عیسائیت۔" عارفہ نے جواب دیا۔

"تو آپ اس خواب کو اتنا خود پر سوار کیوں کر رہی ہیں؟ آخر کیوں مطلب جاننا چاہتی ہیں؟"

"مجھے نہیں پتہ کیوں اس خواب نے مجھے اپنے سحر میں لے رکھا ہے اور مجھے یقین تھا کہ آپ آئیں گے اور مجھے بتائیں گے کہ آخر دخان کیا ہے اور یہ کیوں مجھے تباہ و برباد کر دے گا، اور کون سا سیدھا راستہ ہے جس کو ڈھونڈنے کے لیے آپ نے مجھے کہا۔" اس نے تفصیل سے پوچھا۔

جب ہی ویٹر جوس اور کافی لے آیا تھا، اس نے کافی کا مگ تھاما اور وہ جوس میں پائپ ہلاتے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی۔ اسلم نے کافی کا گھونٹ لیا اور اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا:

"دخان کا مطلب ہے دھواں۔ یہ ہماری مقدس کتاب قرآن پاک کی ایک سورۃ کا نام ہے اور یہ لفظ اس کی دسویں آیت میں آیا ہے جس کا ترجمہ ہے: 'تو تم اس دن کے منتظر رہو جب آسمان ایک واضح دھواں لائے گا۔' یہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے اور یہ دھواں مومن کے لیے صرف ایک طرح کا زکام پیدا کر دے گا اور کافر کے سارے بدن میں بھر جائے گا یہاں تک کہ اس کے ہر مسام سے نکلنے لگے گا۔ اور آپ کو اس لیے تباہ و برباد کرے گا کیونکہ آپ یہ غلط راستے پر چل رہی ہو، سیدھا راستہ اسلام ہے۔۔۔" وہ رکا اور کافی پینے لگا۔ عارفہ جو اس کا ایک ایک لفظ بہت دھیان سے سن رہی تھی اور اس کا ہر لفظ اس کے اندر سکون پیدا کر رہا تھا، اس کے چپ ہونے سے ایک دم چونک گئی۔

"یہ آپ کے خواب کا مطلب تھا جو میں نے بتا دیا۔ مزید معلومات کے لیے آپ قرآن پاک کا ترجمہ پڑھ سکتی ہیں خاص طور پر اس سورۃ کا۔"

"آپ کے خیال میں مجھے یہ خواب کیوں آیا؟"

"میرے خیال میں اس لیے کیونکہ اللہ تعالی آپ کو ایک موقع دے رہے ہیں کہ اپنے صحیح راستے کو تلاش کر لو اس سے پہلے کہ قیامت آئے اور کافر لوگ پچھتائیں۔"

"آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اسلام سیدھا راستہ ہے؟ ہر انسان اپنے مذہب کو ہی سچا بولے گا۔"

"میڈم! میں آپ سے بحث نہیں کرنا چاہتا اور رہی بات اسلام کی تو صرف اسلام ہی سچا مذہب ہے۔ آپ جہاں سے بھی قرآن پاک پڑھو گی، چاہے انٹرنیٹ سے پڑھو یا دنیا کے کسی بھی کونے سے، اسے لفظ بہ لفظ سچا پاؤ گی۔ اس کے علاوہ تورات، زبور، انجیل کسی بھی کتاب کو لے لو، یہ ہر انسان کے پاس مختلف ہوگی۔ آپ خود سرچ کرو، جو ٹھیک لگے وہ راستہ اپنا لینا۔ اب مجھے اجازت دیجیے میڈم۔"

"شکریہ آپ میرے لیے آئے۔" عائشہ نے اٹھتے ہوئے کہا اور اس کے ساتھ چلنے لگی۔ "آپ وزٹ کے لیے آئے ہیں؟" اسلم نے پھر پوچھا۔

"جی ہاں، میں پہاڑوں اور سمندروں کا دیوانہ ہوں۔"

"کب تک ہیں یہاں؟"

"دس دن تک۔" اسلم نے کار کے پاس پہنچ کے کہا۔

"آیئے میں آپ کو چھوڑ دوں۔"

"نہیں میڈم! میں چلا جاؤں گا۔" اسلم نے انکار کرتے ہوئے ایک ٹیکسی روکی اور گھر کی راہ لی۔

وہ گھر آتے ہی فہد کے کمرے میں گئی۔ وہ آنکھوں پہ بازو کے لیٹا ہوا تھا۔

"آ جاؤ عائشہ، کیا تم اس سے مل آئی ہو؟" اس کی آواز سن کے وہ آگے بڑھ آئی اور اس کے پاس بیٹھ گئی۔ وہ بھی اٹھ بیٹھا تھا۔

"تھینک یو فہد! تم بہت اچھے ہو۔ اگر میں گھر میں کسی اور سے کہتی تو وہ مجھے جانے نہ دیتے۔" اس کے لفظوں میں ایک سحر تھا۔ "جب تک وہ بولتا رہا میں اس کے سحر میں کھوئی رہی تھی، مجھے یہ بھی بھول گیا کہ وہ کسی اور مذہب کو ماننے والا ہے، بس مجھے ایسا لگا کہ وہ میرا خیر خواہ ہے، اسے خدا نے میرے لیے بھیجا ہے۔" وہ ابھی بھی اس کے سحر سے نہیں نکل پائی تھی۔ فہد نے بغور اسے دیکھا۔ اس کے اندیشے سچ ثابت ہوئے تھے، ان دونوں کے درمیان ایک تیسرا انسان آ گیا تھا، جس محبت کی ڈوری میں وہ چودہ سالوں سے بندھے ہوئے تھے، آج وہ ڈوری ٹوٹ گئی تھی۔

"اب تو میری گڑیا خوش ہے نا؟" اس نے اپنی تکلیف چھپاتے ہوئے مسکرا کے پوچھا۔

"بہت زیادہ فہد! میں قرآن کو پڑھنا چاہتی ہوں۔"

"اب یہ کیا ڈرامہ ہے؟"

"پلیز فہد! میں اٹھارہ سال کی ہو چکی ہوں۔ میں اپنی چوائس سے کوئی بھی مذہب چوز کرسکتی ہوں۔ میں کسی کے دباؤ میں آ کے نہیں کچھ کر رہی، نہ ہی ایسا ہے کہ مجھے اس شخص سے محبت ہوگئی ہے۔ یہ کچھ اور ہے جو مجھے اپنے سحر میں جکڑ رہا ہے۔ اس لیے میں تفصیل سے جاننا چاہتی ہوں کہ آخر یہ کیا ہے جو مجھے سکون نہیں لینے دے رہا۔ دخان کیا ہے یہ تو پتہ چل گیا ہے، اب اس نام کا ٹاپک میں پورا پڑھنا چاہتی ہوں۔ فہد اگر کسی نے مجھ پر سختی کی تو میں خود کو نقصان پہنچا لوں گی، اس لیے مجھے جو کرنا ہے کرنے دو اور مجھے پتہ ہے تم گھر والوں کو سنبھال لو گے۔" اس نے آنکھوں میں یقین لیے اسے کہا تھا۔ تو فہد کا سر خود بخود اثبات میں ہل گیا تھا۔ وہ چاہنے کے باوجود بھی اسے رکنے کا نہ کہہ سکا اور اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔

کس کی ہیبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے

منہ کے بل گر کر ہو اللہ ہو احد کہتے تھے

اس نے پاپ کارن کا باؤل اور مشروب کا گلاس بیڈ کے سائیڈ ٹیبل پر رکھا اور لیپ ٹاپ اپنے سامنے بیڈ پر رکھ کے بیٹھ گئی۔ اس نے لیپ ٹاپ آن کرکے سورة دخان ان انگلش ٹرانسلیشن سرچ کیا اور پڑھنے لگی۔

"اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان نہایت رحم والا ہے۔ قسم ہے اس روشن کتاب کی، بے شک ہم نے اسے برکت والی رات میں اتارا، بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں، اس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام، ہمارے پاس کے علم سے بے شک ہم بھیجنے والے ہیں، تمہارے رب کی طرف سے رحمت، بے شک وہی سنتا جانتا ہے، وہ جو رب ہے آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے۔ اگر تمہیں یقین ہو اس کے سوا کسی کی بندگی نہیں، وہ جلائے اور مارے تمہارا رب اور تمہارے اگلے باپ دادا کا رب۔" ایک خوف اور کپکپی اس پر طاری ہو چکی تھی، اس کے باوجود ایک سحر نے اسے لپیٹ میں لے لیا تھا۔ اس نے پڑھنا جاری رکھا۔ "بلکہ وہ شک میں پڑے کھیل رہے ہیں، تو تم اس دن کے منتظر رہو جب آسمان ایک ظاہر دھواں لائے گا اور لوگوں کو ڈھانپ لے گا، یہ ہے دردناک عذاب۔"

اس پر وحشت سی طاری ہونے لگی، ایسے جیسے ابھی آسمان سے دھواں آئے گا اور اسے بھسم کر دے گا۔ اس نے جلدی سے اٹھ کے اپنے کمرے کی کھڑکیاں بند کیں اور بیڈ پہ بیٹھ کے لمبے لمبے سانس لینے لگی۔ اور مشروب کے گلاس کی طرف ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ ایسے پیچھے کھینچا جیسے گلاس میں مشروب کی جگہ کوئی زہریلی...

چیزہو وہ اُٹھی اور روم فریج سے پانی کی بوتل نکالی اور منہ سے لگا لی۔ اس نے خود کو ریلیکس کیا اور پھر پڑھنے لگی۔

"اس دن کہیں گے اے ہمارے رب ہم پر سے عذاب کھول دے ہم ایمان لاتے ہیں۔" وہ بڑھتی گئی اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ "تو تم انتظار کرو، وہ بھی کسی انتظار میں ہیں۔" آخری لائن پڑھ کر اس نے اپنے آنسو صاف کیے۔ اسے سیدھا راستہ مل گیا تھا، اس نے بے خودی کے عالم میں اللہ کو پکارا تھا۔ ایک عجیب سا سکون اسے ملا تھا۔

"اے اللہ! مجھے سمجھ آ گئی ہے، مجھے خواب میں اس لڑکے کو دکھانا اور پھر اس کا مجھے یہ الفاظ کہنا، اور پھر اس کا پاکستان سے میکسیکو آنا، اور پھر مجھ سے ملنا، آپ نے مجھے چن لیا ہے ہدایت کے لیے۔ آپ نے مجھے ان لوگوں سے نکال لیا ہے جن پر تیرا عذاب نازل ہوگا۔ اے میرے اللہ! میں تجھ پر ایمان لاتی ہوں، میں تیری اس کتاب پر ایمان لاتی ہوں، تو اکیلا ہے تیرا کوئی شریک نہیں۔ بے شک میں گمراہی کے راستے پر چل رہی تھی، میں گناہوں میں لتھڑی ہوئی ہوں، میرے سارے گناہ معاف کردے۔"

وہ سسکتے ہوئے اللہ کو پکار رہی تھی۔ اس نے اٹھ کر کھڑکیاں کھولیں۔ اب اسے کوئی خوف محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ وہ مسکراتے ہوئے اندھیرے میں ڈوبے آسمان کو دیکھنے لگی، جیسے اسے یقین ہو کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔

وہ یونیورسٹی کے لیے تیار تھی اور آئینہ میں اپنے عکس کو دیکھنے لگی — وائٹ پینٹ پہ فل فٹنگ کے ساتھ ڈارک بلیو لانگ شرٹ، سفید جالی دار دوپٹہ گلے میں ڈالے۔ کانوں میں بلیو کلر کے ٹاپس، ہاتھ پر بلیو ہی بریسلٹ (جو احمر نے اس دن کار میں اسے گفٹ کیا تھا)، آنکھوں میں کاجل، پلکوں پر مسکارا اور ہونٹوں پر گلابی لپ اسٹک۔ بلاشبہ وہ بہت حسین لگ رہی تھی۔

اس کے ذہن میں لاشعوری طور پر اپنی چار سال پہلے کی لک نظر آئی تھی۔ بڑی سی چادر میں لپٹی سادہ سی لڑکی کی۔ اس نے نفرت سے سر جھٹکا۔ بھلا وہ بھی کوئی زندگی تھی؟ اسے اپنی اس زندگی سے یہ والی زندگی پسند تھی جو وہ اپنوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کے گزار رہی تھی۔ آج اس کا یونیورسٹی میں آخری دن تھا۔ کاش یہ لمحے ادھر ہی تھم جائیں۔ اس نے دل سے دعا کی تھی۔

"بہت خوبصورت لگ رہی ہو، ہمیشہ کی طرح، اس لیے اب آ جاؤ احمر، انتظار کر رہا ہوگا تمہارا۔" زینب نے اسے آئینے کے سامنے کھڑا دیکھ کر کہا۔ تو وہ مسکراتے ہوئے اس کے ساتھ چل دی۔

وہ یونیورسٹی میں ابھی فرنٹ لائن کے آگے سے گزر رہی تھی کہ اس کی کلاس فیلو زوبیہ نے اسے پکارا۔ وہ اپنی فرینڈز سے بولی:

"آپ لوگ جاؤ، میں زوبیہ کی بات سن کر کیفے میں آ جاؤں گی۔"

وہ لان کے بنچ پر زوبیہ کے ساتھ بات کرتے ہوئے بولی، "ہیلو، کیسی ہو؟"

"میں ٹھیک ہوں، آج ہمارا لاسٹ ڈے ہے تو سوچا تم سے بات ہی کر لی جائے۔" زوبیہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔

"ہاں یار، پتہ ہی نہیں چلا کیسے چار سال گزر گئے۔" وہ افسردہ ہوتے ہوئے بولی۔

"یاد ہے جب تم نے بلیک ڈریس پر بڑی سی چادر لی ہوئی تھی، تب تمہارے چہرے پر نمازیوں کا سا نور اور کشش تھی، لیکن جب کلاسز کے لیے فرسٹ ڈے آئی تو میں یقین ہی نہ کر پائی کہ یہ تم نے غلط لڑکیوں کی روش اختیار کر لی تھی، اور آج تک تم اسی روش پر چل رہی ہو۔ تم اپنے والدین کو دھوکا..."

دے رہی ہو۔ احمر ایک کرپٹ انسان ہے، وہ اور بھی بہت سی لڑکیوں کو دھوکہ دے چکا ہے۔ وہ تم سے جھوٹے شادی کے وعدے کر رہا ہے۔ وہ کبھی بھی اپنے ماں باپ کو تمہارے گھر رشتہ لینے کے لیے نہیں بھیجے گا۔ ابھی بھی وقت نہیں گزرا، تم توبہ کر لو۔ تم بھی اپنے والدین کی پسند پر سر جھکا دینا، احمر کا انتظار نہ کرنا۔ ایسا کرکے تم اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی کرو گی۔

"بکواس بند کرو اپنی! میں نے تم سے کوئی مشورہ نہیں مانگا اور احمر ایسا نہیں ہے، وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔ تم سے ہمارا پیار برداشت نہیں ہوا اس لیے مجھے احمر کے خلاف کرنے کی ناکام کوشش کر رہی ہو۔" وہ غصے سے کہتی چلی گئی اور زوبیہ بس افسوس سے سر ہلا کے رہ گئی۔

آدھی رات تک وہ میکسیکو کی سڑکوں پر آوارہ گردی کرتے رہے تھے اور اب پڑے سو رہے تھے۔ مسلسل ہوتی دستک سے علی نے اٹھ کے دروازہ کھولا تو سامنے کھڑے وجود کو دیکھ کے وہ حیران ہوا۔

"کیا میں آپ کے دوست سے مل سکتی ہوں؟"

"یار! وہ تم سے ملنے آئی ہے، باہر گاڑی میں تمہارا انتظار کر رہی ہے۔"

"کون؟"

"وہی جو تم سے خواب میں ملی تھی۔" علی نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ اٹھ بیٹھا۔

ہوٹل کے سامنے ایک لڑکی گھٹنوں تک آتی سفید شرٹ کے ساتھ نیلے فل ٹراؤزر پہنے اور گلے میں نیلا مفلر لپیٹے کار کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑی تھی۔ نجانے کن خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی۔ وہ اسے اس طرح مکمل لباس میں دیکھ کے حیران ہوا تھا۔ جب ہی اس نے فرنٹ ڈور کھولا اور خود ڈرائیونگ سیٹ پر جا بیٹھا اور کار اسٹارٹ کی۔

کچھ دیر بعد وہ بولی۔

"میں اسلام قبول کرنا چاہتی ہوں۔"

اس نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ تو وہ اس کے اس طرح دیکھنے پر بولی۔

"ہاں، میں اللہ پر ایمان لاتی ہوں، اس سے پہلے کہ آسمان سے دخان آئے اور مجھے بھی اپنی لپیٹ میں لے لے۔"

"تم بہت خوش قسمت ہو۔" وہ دھیرے سے بولا۔ تو اس نے سڑک کے ایک طرف گاڑی روکی اور اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔

"ہاں، میں خوش قسمت ہی تو ہوں کہ اللہ نے اتنے سارے لوگوں میں سے مجھے ہدایت کے لیے چنا ہے۔ جب وہ مجھے اپنی طرف بلا رہا ہے تو میں کیوں نہ اس کی طرف اپنے قدم بڑھاؤں؟ آپ کا خواب میں مجھے نظر آنا، پھر آپ کا میکسیکو آنا، مجھ سے ملنا، اور مجھے میرے خواب کا مطلب بتانا، یہ سب ایک معجزہ ہی تو ہے۔"

پھر اس نے آنکھوں میں آنسو لیے دخان کے ساتھ ساتھ کلمہ کے الفاظ دہرائے اور ایک گھنٹہ دخان کے ساتھ باتیں کیں، جس سے وہ اسلام کی بہت سی باتیں جان گئی تھی۔ اس نے ہوٹل کے گیٹ کے آگے کار روکی، تو اس کی طرف دیکھ کے بولی۔

"سوری سر! میں نے آپ کا نام ہی نہیں پوچھا ابھی تک۔"

اس نے مسکراتے ہوئے کہا، "میرا نام تم جانتی ہو، میڈم، اس لیے میں نے تمہیں نہیں بتایا تھا۔"

اس نے سوالیہ انداز میں اپنی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"دخان، بالکل، مجھے کبھی نہیں بھولے گا۔"


"اور میرا اسلامی نام؟ آپ مجھے بتائیں اللہ کی کتاب میں سے کوئی نام۔" اس نے کچھ پا لینے کی سرشاری سے کہا تھا۔

"مائدہ،" اس نے اپنا پسندیدہ نام بتایا۔ قرآن پاک کے پانچویں پارے کی سورة کا نام ہے، اس کا مطلب ہے 'دی ٹیبل اسپریڈ'۔

"بہت اچھا نام ہے۔" اس نے کہا اور وہ اس کی طرف دیکھ کر بولا۔

"اوکے میڈم، اب مجھے اجازت دیجیے۔" تو اس نے الوداعی مسکراہٹ اس کی طرف اچھالی اور اسے جاتے ہوئے دیکھنے لگی۔ پھر روز وہ اس کے ساتھ دو گھنٹے گزارنے لگی، وہ اپنا اسلام کے بارے میں نالج اس سے شیئر کرتا اور وہ نیٹ سے سرچ کیا گیا ڈیٹا اس سے شیئر کرتی۔

علی کے علاوہ گھر میں کسی کو اس کے اسلام قبول کرنے کا نہیں پتہ تھا۔ البتہ وہ حیران ضرور ہوئے تھے اسے فل ڈریسرز پہنتے دیکھ کر، لیکن علی نے یہ کہہ کر انہیں چپ کروا دیا کہ "اس کا دل کر رہا ہے تو پہننے دو"۔

پھر اس کے جانے کا دن آ گیا۔ وہ سمندر پر آیا تھا اس سے ملنے۔ وہ جنگلے پر ہاتھ رکھے پانی کی لہروں کو ہوا کے ساتھ مستیاں کرتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔ وہ اس کے ساتھ کھڑا ہو گیا اور اس نے بھی اپنے ہاتھ جنگلے پر ٹکا دیئے۔

"تم جا رہے ہو؟"

"ہاں۔" اس کا ہاں سن کر نجانے کیوں آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔

"نہ جاؤ نا۔۔۔" مائدہ نے کہا تو اس نے اس کی طرف دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا۔ جھیل سی نیلی آنکھوں سے برسات ہو رہی تھی، اور ایسا لگ رہا تھا جیسے نیلے آسمان سے پانی برس رہا ہو۔

"آپ روتے ہوئے اتنی حسین لگتی ہو، مجھے اندازہ نہیں تھا۔" اس نے آنکھوں میں شرارت لیے اسے کہا تو مسکرا دیا۔ اسے لگا جیسے بارش میں پھول کھلے ہوں۔ وہ ان نیلی آنکھوں میں ڈوب رہا تھا۔ وہ بس اس لیے اس سے ملتا رہا تھا کیوں کہ اس کا خواب سن کر لگا تھا کہ اللہ اسے ہدایت دینا چاہتا ہے اور اس کے لیے اسے منتخب کیا ہے۔ اس لیے اس نے اسے اسلام کے بارے میں جتنا ہو سکا گائیڈ کیا، لیکن وہ نہیں جانتا تھا

کہ آخری لمحے میں وہ اس کی جھیل سی نیلی آنکھوں میں ڈوب جائے گا۔ اس نے اپنے آپ کو سنبھالا اور بولا۔

"مجھے یہ بھی اندازہ نہیں تھا کہ تم ہنستے ہوئے قیامت کی لگتی ہو۔"

وہ ایک میں آپ سے تم پر آیا تو وہ کھل کر ہنسی۔

"ایک مہینے تک شادی ہے میری، آؤ گی میری شادی پر؟" نجانے کیوں اس نے پوچھا تھا تو اس نے بے یقینی سے اسے دکھایا جیسے کہہ رہی ہو کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔

"بچپن سے میری کزن کے ساتھ میری بات طے ہے۔ ابھی وہ بھی پڑھائی میں مصروف تھی اور میں بھی مصروف تھا خود کو اسٹیبلش کرنے میں۔ اس لیے انکار کرتا رہا تھا، لیکن اب بابا نے اس شرط پر میکسیکو آنے کی اجازت دی تھی کہ میں شادی کے لیے مان جاؤں۔" اس نے وضاحت کی تو اس کی آنکھوں سے دوبارہ برسات شروع ہو گئی۔

"ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتا ہے؟ اللہ نے آپ کو صرف میرے لیے بنایا ہے، پھر اللہ کیسے آپ کو کسی اور کو سونپ سکتے ہیں؟ بتائیں کیسے؟" وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھ رہی تھی۔ اس نے نظریں چرائیں کہیں وہ اس کی آنکھوں سے اس کے دل کا حال نہ جان لے۔

"میرے بس میں ہوتا تو میں ابھی تمہیں اپنا لیتا، لیکن میں وعدہ غلافی کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ میں اپنے بابا جان سے کیا وعدہ نہیں توڑ سکتا۔"

میرے خالق میں تیرے کن کی طلب میں زندہ

ہر گھڑی ایک قیامت سے گزر جاتی ہوں۔

علی کو جب پتہ چلا کہ مائدہ نے اسلام قبول کر لیا ہے تو وہ دو دن کمر بند کیے پڑا رہا اور تیسرے دن اس نے بھی قرآن کا ترجمہ پڑھنے کے لیے لیپ ٹاپ آن کیا تھا۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ آخر اس کتاب میں ہے کیا؟ اس نے چھ دن لگا کے قرآن کا ترجمہ پڑھا اور ساتویں دن وہ اس کتاب پر ایمان لے آیا تھا۔ بھلا ایسا ہو سکتا ہے کہ کوئی قرآن پڑھے اور اس کی سچائی سے انکار کر سکے۔ وہ بہت دنوں بعد مائدہ کے کمرے میں آیا تھا۔ اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں اور آنکھوں میں آنسو تھے۔ وہ دوبارہ بیڈ پر جا کے بیٹھ گئی۔ علی نے اندر آتے ہوئے بے چینی سے اسے پکارا۔

"جوزفينا ؟"
"میں جوزفینا نہیں ہوں میرا نام مائدہ ہے۔"

"سوری میں بھول گیا تھا لیکن تمہیں کیا ہوا، ساری رات تم روتی رہی ہو؟"

"وہ پاکستان چلا گیا۔" اس نے چہرہ اٹھا کے اس کی طرف دیکھ کر سسکتے ہوۓ کہا۔

"کیا تم پاکستان جانا چاہتی ہو؟" ٹومس نے کہا تو وہ بولی۔

"اس کی اگلے مہینے شادی ہے۔"

"اگلے مہینے تک ہے نا، ہوئی تو نہیں نا؟ تو پھر تم اللہ کی رحمت سے کیوں مایوس ہو؟ اللہ کے لیے کچھ ناممکن نہیں ہے، بس کن کہنے کی دیر ہے تو فیکون ہو جاتا ہے۔" اس سے منہ کھولے اپنی طرف دیکھتے پا کے اس نے کہا۔
"ایسے نا دیکھو، میں اللہ پر اور اس کی کتاب قرآن پاک پر ایمان لے آیا ہوں اور اس بات پر بھی کہ حضرت عیسیٰ کو قتل نہیں کیا گیا تھا، تو اللہ نے ان کی جگہ کسی اور کی شکل آن جیسی بنا دی تھی اور نہیں، اسی طرح آسمان پر اٹھا لیا گیا تھا اور اب وہ قیامت کے قریب دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے۔ میں اسی لیے تمہارے پاس آیا تھا، میں پراپر اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں اور پھر ہم دونوں پاکستان شفٹ ہو جائیں گے، اس لیے مجھے بس پندرہ دن دو بزنس وائنڈ اپ کرنے کے لیے اور باقی ضروری کام کے لیے، اور پلیز رونا بند کر دو، ہم پندرہ دن بعد پاکستان میں ہوں گے۔ تمہارے پاس اس کا ایڈریس تو ہے نا؟"

"ہاں! لیکن خالو اور خالہ۔۔۔۔۔۔۔" وہ اس کی بات کاٹ کے بولی۔

"ان کی فکر نہ کرو، میں ان کو سنبھال لوں گا۔" تو اس نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہلا دیا اور مائدہ نے کلمہ کے الفاظ دہرائے اور اس کے پیچھے ٹومس نے بھی کلمہ کے الفاظ ادا کیے اور ایک سچے دین کو پا لینے کی خوشی میں دونوں نے مسکرا کے ایک دوسرے کو دیکھا۔

ریارح، عائشہ اور حامد کے ساتھ شادی کی تاریخ لینے جانے لگی تو دخان کو کہا۔

"بھیا جی! بھابی کے لیے کوئی پیغام ہے تو بتا دیں۔"

"نہیں، مجھے کوئی پیغام پہنچانا۔"

"آپ کو کیا ہوا؟ آپ کو تو خوش ہونا چاہیے۔" اور اسے وہ جھیل سی نیلی آنکھیں یاد آئیں۔

"اے اللہ تو جانتا ہے موت اور محبت پہ تیرے سوا کسی کا اختیار نہیں ہے، تو ہی دلوں میں محبتوں کا بیج بوتا ہے، تو اے میرے پیارے اللہ کوئی معجزہ کر دے۔" اس نے سچے دل سے اللہ کو پکارا تھا۔

اللہ سب کی سنتا ہے۔۔۔ اس نے پاکستان جانے کا سارا انتظام کر لیا تھا، اس کی توقع کے مطابق اس کے ماں باپ اور دونوں بہنوں نے بریک اپ کر دیا تھا، آج میکسیکو میں ان کی آخری رات تھی۔

"اے میرے اللہ تو نے اسے میرے لیے نہیں بنایا، اس لیے اس کی محبت بھی میرے دل سے نکال دے، جو تیری چاہت ہے اسے میری چاہت بنا دے، مجھے در در بھٹکنے سے بچا لے، مجھے ہدایت دے، اے میرے اللہ جو میرے لیے نہیں ہے اس کی خواہش بھی میرے دل سے نکال دے، میرے مالک مجھے مانگنا نہیں آتا، بن مانگے مجھے عطا فرما، مجھے یقین ہے تو میری دعا ضرور قبول فرمائے گا، آمین۔" وہ سسک رہا تھا اللہ سے مانگ رہا تھا اور اللہ نے اس کی دعا سن لی تھی، کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ جب اللہ سے اس یقین کے ساتھ مانگا جائے کہ وہ ہماری دعا ضرور پوری کرے گا اور اللہ دعا قبول نہ کرے؟

یوں اچانک میں نے تجھے پایا
جیسے تاثیر دعا میں آئے

آج اس کی مہندی تھی، سب گاؤں والے حویلی میں اکٹھے تھے کہ فون کی گھنٹی بجی تو حامد صاحب نے فون اٹھایا۔ دوسری جانب سے نجانے کیا کہا گیا تھا کہ ریسیور ان کے ہاتھ سے چھوٹ کے نیچے گر گیا۔ دخان جو کسی کام سے اندر آیا تھا، آگے بڑھ کے ان کو اٹھایا اور صوفے پر بٹھایا۔

"بابا جان! آپ ٹھیک تو ہیں؟" اس نے پریشانی سے پوچھا۔

"افشاں اپنے کلاس فیلو عادل کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔" اس نے غصے سے اپنی مٹھیوں کو بھینچ لیا تھا۔

س نے اس خاندان کی عزت مٹی میں ملا دی تھی اور اس نے دعا کی تھی کہ اب وہ کبھی اس کے سامنے نہ آئے ورنہ وہ کچھ کر بیٹھے گا، حویلی میں یہ بات پھیل گئی اور سب ہی افسردہ سے بیٹھے تھے۔

"دخان میکسیکو سے تمہارے مہمان آئے ہیں۔" اس کے پھپھو زاد سیف نے برآمدے میں داخل ہو کے کہا تو سب نے ہی نظریں اٹھا کے اس کے پیچھے آنے والے لڑکے اور لڑکی کو دیکھا اور دخان بے یقینی کے عالم میں اپنی جگہ سے اٹھا اور ان کی طرف بڑھا اور گرم جوشی سے لڑکے کو گلے لگایا تو مائدہ اس کے کان میں بولی۔

"یہ میرا کزن اور بہترین دوست عبدالمہد ہے۔" دخان نے ان کا سب سے تعارف کروایا۔

"یہ میرا دوست ہے عبدالمہد اور یہ اس کی کزن مائدہ ہیں۔" عائشہ اور حامد نے دونوں کو پیار دیا۔

"کسی کا برتھ ڈے ہے آج؟" اس نے سجے ہوئے گھر اور اتنے لوگوں کی موجودگی کو دیکھ کے اندازہ لگایا اور ریاح سے پوچھا تو دخان اس کے اردو بولنے پر حیران ہوا تھا۔

"تمہارے لیے یہ اردو کیا کسی بھی پہاڑ کو سر کرسکتی ہے۔" عبدالمہد نے اس کے کان میں سرگوشی کی۔ ریاح کی بجائے عائشہ نے اسے مختصر سا بتا دیا کہ لڑکی نے شادی سے انکار کردیا ہے اس لیے اب دخان کی شادی نہیں ہورہی تو مائدہ کے چہرے پر دھنک سے رنگ کھلے تھے۔

"کیا آپ دخان کی شادی میری کزن مائدہ سے کریں گے؟" عبدالمہد نے عائشہ اور حامد کی طرف دیکھ کے پوچھا اور پھر ساری بات اسلام قبول کرنے سے پاکستان شفٹ ہونے تک بتادی تو سب نے انہیں اسلام قبول کرنے کی مبارک دی اور پھر حامد نے ان سے پوچھا اور اس نے فرماں بردار بیٹوں کی طرح کہا۔

"بابا جان! جیسے آپ سب کی مرضی۔" اور پھر سب کی رضامندی سے پرپوزل قبول کرلیا گیا۔

وہ صبح سے مائدہ سے بات کرنے کا بہانہ ڈھونڈ رہا تھا لیکن موقع ہی نہیں مل رہا تھا اور وہ بات کرنے کے لیے بے چین ہو رہا تھا۔ وہ اس کی ہونے والی دلہن تھی اس سے نکاح تک پردہ کروا دیا گیا تھا۔ سب لوگ اپنے کمروں میں آرام کر رہے تھے اور عائشہ کچھ خواتین کے ساتھ بازار گئی تھیں مائدہ کے شادی کے کپڑے اور زیور خریدنے کے لیے۔ اس کی نظر ریاح پر پڑی تو اس نے اسے جا لیا۔

"میری بلی میرا ایک کام کرو گی؟ اپنی بھابی سے ملوا دو، دراصل میں ایک دفعہ اسے دیکھنا چاہتا ہوں یہ نہ ہو کے شادی کے بعد پچھتانا پڑے۔" اس نے چہرے پر معصومیت طاری کرتے ہوۓ کہا اور حویلی کے پچھلی طرف جا کے جامن کے درخت سے ٹیک لگا کے اس کا انتظار کرنے لگا۔

"دخان۔" اپنا نام پکارے جانے پر اس نے مسکراتے ہوۓ اس کی طرف دیکھا تھا۔

"جی جان دخان۔" اس نے آنکھوں میں بے شمار محبت لاتے ہوۓ کہا تو وہ بلش ہو گئی تھی۔ وہ اس کے چہرے پہ بکھرے دھنک رنگ دیکھنے لگا اور مائدہ کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کنفیوژ کیوں ہو رہی ہے اور وہ اسے کنفیوژ ہوتے دیکھ کے ہنسنے لگا اور اس کی پیلی اور سبز رنگ کی چوڑیوں سے سجی کلائی تھام کر بولا۔
"سب کچھ تو لے لیا تم نے، اب ان قاتل اداؤں سے جان لو گی کیا؟" اس نے نفی میں گردن ہلائی تھی اور کھنکتے لہجے میں بولی۔

"میں نے کہا تھا نا کہ اللہ نے آپ کو صرف میرے لیے بنایا ہے تو اللہ آپ کو کسی اور کو کیسے سونپ سکتے تھے؟ اللہ نے اپنی طرف لوٹنے پر مجھے آپ کی صورت میں انعام سے نوازا ہے، آپ اللہ کی طرف سے میرا انعام ہیں۔" وہ محبت سے اسے دیکھنے لگا۔ بے شک اللہ نے اسے ایک پاکیزہ عورت سے نوازا تھا۔ اسے اس کے کل سے کوئی سروکار نہیں تھا، اس نے اس کے ساتھ اپنا آج گزارنا تھا اور آنے والا کل۔

"آپ نے مجھے یاد کیا تھا؟"

"یاد۔۔۔ تمہاری ان نیلی آنکھوں نے مجھے راتوں کو سونے نہیں دیا اور تم یاد کی بات کر رہی ہو۔" اس کی آنکھوں میں نظر آتی سچائی کو دیکھتے ہوئے اس نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ "یہ احساس ہی بہت فرحت بخش ہوتا ہے جس سے ہم محبت کرتے ہوں وہ بھی ہم سے اس سے زیادہ محبت کرتا ہے۔" اس کو یوں اپنی طرف دیکھتا پا کے دخان نے شرارت سے پوچھا۔

"کیا ہے؟"

"عشق ہے صاحب۔" وہ بھی کھلکھلاتی ہنسی ہنستے ہوئے بولی اور اس سے پہلے کہ وہ کوئی گستاخی کرتا، وہ اپنا بازو چھڑوا کے بھاگی تھی۔

"بھاگ لو بھاگ لو گن گن کے بدلے لوں گا۔" دخان نے اسے بھاگتے دیکھ کے کہا اور دلاویزی سے مسکرا دیا۔

ریاح، مائدہ کو کچن کے دروازے سے لا کے حویلی کی پچھلی طرف چھوڑ کے اپنے دھیان میں مگن چہرے پر ہلکی مسکان لیے برامدے سے گزرنے لگی کہ اس کا کوئی دیوار سے ٹکرایا تھا اور پھر اس کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوئی تھیں۔ تو اس نے آہ کی آواز کے ساتھ اوپر دیکھا۔ ہیزل گرین آنکھوں کو اپنی طرف دیکھتے پا کے وہ تیزی سے پیچھے ہٹی اور گڑبڑاتے ہوئے بولی۔

"سوری، میں سمجھی کہ کوئی دیوار ہے۔" اس کی بات پر پہلے تو وہ حیران ہوا پھر مطلب سمجھ کے ہنسا اور اسے ہنستے ہوئے دیکھ کے اسے احساس ہوا کہ اس نے کیا بولا ہے تو منہ پر ہاتھ رکھے الٹے پاؤں پیچھے کی طرف چلنے لگی۔ تو وہ بولا۔

"دھیان دے اب کہیں سچ میں نہ دیوار سے ٹکرا جانا۔" اس نے شرارت سے کہا تو وہ اس کے اس طرح دیکھنے پر شرما کے زخم پھیر کے بھاگ گئی۔

عبرالمہد کو پتہ چل گیا تھا کہ اللہ کیا چاہتا ہے اور اس نے اللہ کا فیصلہ دل و جان سے قبول کرلیا تھا۔

احمر شادی کا جھانسہ دے کے افشاں کو گھر سے بھگا کے لے گیا تھا۔ وہ صبح کورٹ میں جا کے میرج کریں گے لیکن اس کی نوبت نہیں آئی تھی۔ تب اسے احساس ہوا کہ وہ کیا کر بیٹھی ہے لیکن اب پچھتاوے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ اب وہ اس حالت میں نہ تو گھر جا سکتی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس کے گھر والے اسے قتل کردیں گے اس لیے اس نے خود کشی کر لی تھی۔ ایسی لڑکیوں کا یہی حال ہوتا ہے جو اللہ کو بھول جاتی ہیں اور اپنے ماں باپ کی عزتوں کو روند ڈالتی ہیں۔


Post a Comment for ""دوستی سے محبت تک""