ان کہی محبت: موسموں کے رنگ
آریان:- ایک ہنر مند شیشہ گر، خاموش طبع اور گہرے جذبات کا مالک۔
زینب: - ایک حساس، مشاہدہ کرنے والی اور محبت کرنے والی لڑکی جو اپنے جذبات کو اشاروں میں بیان کرتی ہے۔
وہ یہ نہیں کہتی تھی کہ میں تجھ سے محبت کرتی ہوں، وہ صرف اتنا کہتی۔ "آریان! اگر میرا بس چلے تو تمہاری ساری پریشانیاں اپنے سر لے لوں۔" اور آریان اسے معصومیت سے دیکھے جاتا، اس کی آنکھوں کے سارے عکس محبت کا منتر پڑھتے نظر آتے تھے۔ یہ عکس کس کے ہیں؟ آریان کو سروکار نہیں تھا، یا شاید وہ سروکار رکھنا نہیں چاہتا تھا۔ اسے بس اتنا معلوم تھا کہ جب وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہے تو اسے ایک ایسی دنیا نظر آتی ہے جہاں صرف سکون اور اپنائیت ہے۔ اور جب وہ چلی جاتی تو آریان آئینے کے سامنے جا کھڑا ہوتا۔ اسے اپنی آنکھوں میں وہی رنگ دکھائی دیتا جو اس کی آنکھوں کے آئینوں میں دکھتا تھا – ایک گہرا، بے نام، اور پرسکون رنگ۔ وہ ان کی آنکھوں میں صرف اس کے خواب بطور امانت رکھتا آیا تھا۔ خوابوں کو سنبھالنا آسان تو نہیں تھا، خاص طور پر جب وہ ان کہے ہوں، لیکن محبت بڑے بڑے مشکل کام بھی آسانی سے کروا لیتی ہے۔ یہ ایک ایسا رشتہ تھا جو الفاظ کا محتاج نہیں تھا، بلکہ احساسات کی زبان میں پروان چڑھ رہا تھا۔
کوئی ایسا ہی میگھ ملہار کے موسم کا سورج ہوتا جو کبھی چہرہ دکھاتا کبھی چھپا لیتا بادلوں کے پردے میں۔ حبس زدہ گرمی سے نڈھال دوپہریں ہوتیں، جب ہوا بھی تھم جاتی اور درختوں کے پتے بھی ساکت ہو جاتے۔ ایسے میں زینب اماں کے ملنے کے بہانے سے آتی۔ اس کے قدموں کی چاپ سنتے ہی آریان کا دل ایک عجیب سی دھڑکن سے دھڑکنے لگتا۔ وہ لسی اور ساگ بنا کر لاتی، اس کے ہاتھوں کی بنی لسی کی ٹھنڈک روح تک اتر جاتی اور ساگ کی خوشبو پورے گھر میں پھیل جاتی۔ آریان گرم گرم مکئی توے پر بھونتا، اس کے ہاتھوں کی مہارت دیکھنے لائق ہوتی۔ مکئی کے دانوں کو توے پر بھونتے ہوئے وہ ایک خاص تال میں چمچ چلاتا، اور دانے پھٹ پھٹ کی آواز کے ساتھ کھلتے جاتے۔ اماں کی ہر صحیح غلط بات پر وہ ہاں ہوں میں گردن ہلاتی، اس کی سماعتیں اماں کی باتوں میں ہوتیں، مگر اس کی نظریں اسے ڈھونڈتیں رہتیں۔ وہ عین سامنے چوکی پر جا بیٹھتا اور مکئی بھونتا۔ اسے مکئی پسند جو بہت تھی۔ آنکھیں سوال کرتیں اور دبی دبی مسکراہٹ میں کئی سوالوں کے جواب ملتے رہتے۔ ان کی خاموش گفتگو میں ہزاروں باتیں کہی جاتیں، جو الفاظ میں کبھی ادا نہیں ہو سکتی تھیں۔ مکئی کے دانوں کا مزا لیا جاتا، چاول کی روٹی ساگ کے ساتھ کھائی جاتی، اور ہر نوالے میں ایک انوکھا ذائقہ محسوس ہوتا۔ پھر اماں اٹھ کر بستر بچھانے اندر چلی جاتی اور انہیں باتوں کا موقع مل جاتا۔ باتیں بڑی عام سی اور معصومانہ ہوتیں، کبھی موسم کی، کبھی گاؤں کی، کبھی اماں کی صحت کی، مگر ان میں چھپے سارے مفہوم لہجوں کے ذریعے آشکار ہو جاتے، جو ان کی ان کہی محبت کی گہرائی کو بیان کرتے تھے۔ سخت گرمی اور حبس کے موسم میں وہ اپنے ہاتھ کی بنی ہوئی ٹھنڈائی لانا نہ بھولتی۔ اس کے ہاتھوں کی مہک محسوس کرتا اور اس کی ٹھنڈک اس کے دل تک اثر کرتی۔ یہ ٹھنڈائی صرف پیاس نہیں بجھاتی تھی، بلکہ آریان کے دل کو بھی سکون دیتی تھی۔
سردیوں کی ٹھنڈی دوپہریں وہ اس کے لیے سوئیٹر بنتے گزار دیتی۔ اس کی انگلیاں سلائیوں پر تیزی سے حرکت کرتیں، اور ہر پھندے میں اس کی محبت کا ایک تار گوندھا جاتا۔ آریان کو معلوم تھا کہ وہ سوئیٹر صرف سردی سے بچنے کے لیے نہیں تھا، بلکہ اس کے لیے زینب کی محبت کا ایک گرم احساس تھا۔ بہار کے موسم میں وہ اس کے لیے گجرے بھجواتا۔ چنبیلی اور گلاب کے گجرے، جن کی خوشبو سے آریان کا سارا دن مہکتا رہتا۔ وہ دونوں بچپن سے سارے موسموں کے ساتھی تھے، ہر موسم ان کی کہانی کا ایک نیا باب لکھتا تھا۔ اور بڑھتے وقت نے اس ساتھ کو محبت کا رنگ چڑھا دیا تھا۔ یہ محبت اتنی آہستہ آہستہ پروان چڑھی تھی کہ انہیں خود بھی اس کا احساس نہیں ہوا تھا، یا شاید وہ اسے محسوس کرنا نہیں چاہتے تھے، اس ڈر سے کہ کہیں یہ خوبصورت رشتہ ٹوٹ نہ جائے۔
ایک روز، جب آریان اپنے چتروں کے شیشہ گری کے کام میں مگن تھا، زینب اس کے پاس آئی۔ اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا شیشے کا ٹکڑا تھا، جسے وہ غور سے دیکھ رہی تھی۔ آریان کی انگلیاں شیشے پر مہارت سے حرکت کر رہی تھیں، اور وہ ایک پیچیدہ ڈیزائن بنا رہا تھا۔ زینب نے اس کے ہاتھوں کو دیکھا، جو شیشے کو اس قدر خوبصورتی سے تراشتے تھے۔
"تمہارے ہاتھ کتنے خوب صورت ہیں۔ آریان! اسی لیے تو حسن تخلیق کرتے ہیں۔" زینب نے نرمی سے کہا، اس کی آواز میں ایک عجیب سی گہرائی تھی۔ آریان نے سر اٹھا کر اسے دیکھا، اس کی آنکھوں میں ایک سوال تھا۔ زینب نے اپنی بات جاری رکھی، "تمہارے بچوں کے ہاتھ کس پہ گئے ہیں؟ تم پر یا تمہاری بیوی پر؟ اور کیا اس کے ہاتھ بھی ایسے ہی خوب صورت ہیں؟" وہ سوالوں پر سوال کرتی خاصی بے تکلفی سے اس سے پوچھ رہی تھی، جیسے یہ کوئی عام بات ہو۔
آریان پہلی ہی ملاقات میں کچھ کنفیوز سا ہو گیا۔ اس کے ہاتھ شیشے پر جم گئے، اور وہ اپنا کام بھول گیا۔ اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ زینب اس طرح کا سوال کرے گی۔ اس کے ذہن میں ایک لمحے کے لیے ہزاروں خیالات آئے اور چلے گئے۔ کیا زینب کو معلوم نہیں تھا کہ وہ شادی شدہ نہیں ہے؟ یا وہ صرف مذاق کر رہی تھی؟
"میری شادی نہیں ہوئی ابھی تک۔" وہ اپنا چتروں کا شیشہ گری کا کام اس کو دکھاتے ہوئے ہکلا سا گیا۔ اس کی آواز میں ایک عجیب سی گھبراہٹ تھی، جیسے اس نے کوئی راز فاش کر دیا ہو۔ اس نے توقع نہیں کی تھی کہ یہ سوال اس طرح اچانک سامنے آئے گا۔
زینب کے چہرے پر ایک لمحے کے لیے حیرت کے آثار نمودار ہوئے، پھر ایک ہلکی سی سرخی اس کے گالوں پر پھیل گئی۔ اس نے جلدی سے اپنا ہاتھ پیچھے ہٹا لیا اور شیشے کا ٹکڑا میز پر رکھ دیا۔ "اوہ! مجھے لگا کہ تم شادی شدہ ہو۔ تم اتنے اچھے ہو، اور تمہارا کام بھی اتنا خوبصورت ہے، تو ظاہر ہے کسی نے تو تمہیں اپنا بنایا ہوگا۔" اس نے جلدی سے بات بدلنے کی کوشش کی، اس کی آواز میں ہلکی سی گھبراہٹ تھی۔
آریان نے اسے خاموشی سے دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں وہ پرانے عکس پھر سے ابھر آئے، جو محبت کا منتر پڑھتے تھے۔ کیا یہ عکس اب بھی صرف اس کے خوابوں کے ہیں؟ یا ان میں کچھ اور بھی شامل ہو گیا تھا؟
اس دن کے بعد زینب کی آمد و رفت میں ایک ہلکا سا فرق آ گیا۔ وہ اب بھی اماں سے ملنے آتی تھی، لسی اور ساگ لاتی تھی، لیکن اس کی نظریں اب پہلے سے زیادہ محتاط ہو گئی تھیں۔ آریان کو محسوس ہوتا تھا کہ وہ اسے دیکھنا چاہتی ہے، مگر خود کو روک لیتی ہے۔ یہ خاموشی ان کے درمیان پہلے سے زیادہ گہری ہو گئی تھی، ایک ایسی خاموشی جس میں ہزاروں ان کہے الفاظ چھپے تھے۔
ایک شام، گاؤں میں ایک نئے لڑکے، فاروق، کی آمد ہوئی۔ وہ شہر سے آیا تھا اور گاؤں میں ایک چھوٹا سا کاروبار شروع کرنا چاہتا تھا۔ فاروق خوش مزاج اور باتونی تھا، اور جلد ہی گاؤں والوں میں گھل مل گیا۔ زینب کے گھر والے بھی اس سے متاثر ہوئے، خاص طور پر زینب کی خالہ، جو ہمیشہ سے زینب کی شادی کی فکر میں رہتی تھیں۔
"زینب، فاروق بہت اچھا لڑکا ہے۔ شہر سے آیا ہے، پڑھا لکھا ہے، اور اپنا کاروبار بھی کر رہا ہے۔ تم اس سے مل کر دیکھو۔" خالہ نے ایک دن زینب سے کہا۔
زینب نے پہلے تو ٹال دیا، لیکن خالہ نے اصرار کیا۔ ایک دن فاروق زینب کے گھر اماں سے ملنے آیا۔ آریان بھی وہیں موجود تھا، اپنے کام میں مگن۔ اس نے زینب اور فاروق کو بات کرتے دیکھا۔ فاروق زینب سے ہنسی مذاق کر رہا تھا، اور زینب بھی مسکرا رہی تھی۔ آریان کے دل میں ایک عجیب سی بے چینی محسوس ہوئی۔ اسے لگا جیسے کوئی اس کی امانت پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس نے پہلی بار اپنے دل میں ایک انوکھا درد محسوس کیا۔ یہ درد اس محبت کا تھا جو اس نے کبھی زبان پر نہیں لائی تھی۔
رات کو آریان سو نہ سکا۔ اسے زینب کے وہ سوال یاد آئے، "تمہارے بچوں کے ہاتھ کس پہ گئے ہیں؟" اور پھر اس کا اپنا جواب، "میری شادی نہیں ہوئی ابھی تک۔" کیا زینب نے اس سوال کے پیچھے کوئی اور بات چھپائی تھی؟ کیا وہ اسے یہ بتانا چاہتی تھی کہ وہ اس کے لیے دستیاب ہے؟ یا یہ صرف ایک معصومانہ سوال تھا؟
اگلے دن، آریان نے زینب کو اپنے گھر کے قریب اکیلے دیکھا۔ وہ ایک درخت کے نیچے کھڑی تھی اور کچھ سوچ رہی تھی۔ آریان نے ہمت کی اور اس کے قریب گیا۔
"زینب، تم ٹھیک ہو؟" آریان نے پوچھا۔
زینب چونکی، "ہاں، میں ٹھیک ہوں۔ بس ایسے ہی کھڑی تھی۔"
"میں نے سنا ہے فاروق سے تمہاری بات چل رہی ہے۔" آریان نے بڑی مشکل سے یہ الفاظ ادا کیے۔ اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی تھی۔
زینب نے اسے دیکھا، اس کی آنکھوں میں ایک لمحے کے لیے دکھ کی جھلک آئی، پھر وہ مسکرائی۔ "ہاں، خالہ چاہتی ہیں کہ میں اس سے ملوں۔"
"اور تم کیا چاہتی ہو؟" آریان نے ہمت کر کے پوچھا۔
زینب نے گہرا سانس لیا، اور پھر اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ "میں نہیں جانتی۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں کیا چاہتی ہوں۔" اس کی آواز میں ایک عجیب سی اداسی تھی۔ "میں نے ہمیشہ سوچا تھا کہ میری زندگی میں جو بھی آئے گا، وہ میرے لیے موسموں کا ساتھی ہوگا، جیسے تم ہو۔"
آریان کا دل ایک لمحے کے لیے رک گیا۔ "میں؟"
"ہاں، تم۔" زینب نے سر ہلایا۔ "تم وہ ہو جس کے ساتھ میں نے بچپن سے ہر موسم دیکھا ہے۔ جس کے ہاتھوں کی مکئی اور ٹھنڈائی کا ذائقہ آج بھی میری زبان پر ہے۔ جس کے لیے میں سردیوں میں سوئیٹر بنتی ہوں، اور جو میرے لیے بہار میں گجرے بھیجتا ہے۔" اس کی آواز میں ایک دبی ہوئی لرزش تھی۔
آریان کو لگا جیسے اس کے سارے خواب حقیقت کا روپ دھار رہے ہیں۔ اس نے زینب کا ہاتھ تھاما۔ اس کے ہاتھ میں وہی ٹھنڈک تھی جو اس کی ٹھنڈائی میں ہوتی تھی۔ "زینب، میں نے کبھی تمہیں بتایا نہیں، لیکن میں نے ہمیشہ تمہیں اپنے خوابوں میں دیکھا ہے۔ میری آنکھوں میں جو عکس تھے، وہ صرف تمہارے تھے۔"
زینب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ "اور میں نے بھی ہمیشہ تمہاری آنکھوں میں اپنے لیے محبت دیکھی ہے۔ میں نے ہمیشہ سوچا تھا کہ تم شادی شدہ ہو، اور یہ سوچ کر میرا دل ٹوٹ جاتا تھا۔"
"میری شادی نہیں ہوئی ابھی تک، اور میں چاہتا ہوں کہ میری زندگی کا ہر موسم تمہارے ساتھ گزرے۔" آریان نے نرمی سے کہا، اس کی آواز میں ایک گہرا وعدہ تھا۔
زینب نے مسکراتے ہوئے سر ہلایا۔ اس کی آنکھوں میں اب کوئی دکھ نہیں تھا، صرف محبت اور سکون تھا۔ ان کی ان کہی محبت نے آخر کار الفاظ کا روپ دھار لیا تھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے کھڑے تھے، اور سورج بادلوں کے پردے سے نکل کر ان پر اپنی سنہری کرنیں بکھیر رہا تھا، جیسے ان کی محبت کا جشن منا رہا ہو۔ یہ ایک نئی شروعات تھی، ایک ایسے سفر کی جہاں الفاظ کی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ ان کے دل ایک دوسرے کی زبان سمجھتے تھے۔ اور آریان کو معلوم تھا کہ اس کے سارے منصوبے، جو اس نے کبھی بنائے تھے، اس ایک لمحے کے سامنے کچھ بھی نہیں تھے۔ اس لمحے میں، اس نے وہ سب کچھ پا لیا تھا جو وہ ہمیشہ سے چاہتا تھا۔
ایک تبصرہ شائع کریں for "ان کہی محبت"