ایک خاندانی عدالت کا فیصلہ
اس نے بڑی خموشی سے پلیٹوں کو آہستہ آہستہ دھویا اور ریک پر ٹکا دیا۔ پانی کی مدھم آواز، برتنوں کے ہلکے سے ٹکرانے کی سرسراہٹ، یہ سب اس کی کوشش تھی کہ کچن میں کوئی ایسی آواز پیدا نہ ہو جو لاؤنج سے آنے والی آوازوں میں خلل ڈالے۔ زارا، جو ہر کام میں تیزی اور چستی کی عادی تھی، آج ایک ایک پلیٹ کو ایسے اٹھا رہی تھی جیسے وہ شیشے کی بنی ہوں اور ذرا سی بے احتیاطی سے ٹوٹ جائیں گی۔ اس کا دل دھک دھک کر رہا تھا، جیسے کوئی ڈھول بج رہا ہو، اور اس کی توجہ کچن سے زیادہ لاؤنج سے آنے والی آوازوں پر تھی، جو بہت صاف سنائی دے رہی تھیں۔ ہر لفظ، ہر لہجہ، ہر سانس اس کے کانوں میں گونج رہا تھا، اور وہ جانتی تھی کہ ان آوازوں کے پیچھے ایک طوفان چھپا ہے۔
لاؤنج جو لاؤنج کم اور کمرہ عدالت زیادہ لگ رہا تھا۔ وہاں کی فضا میں ایک عجیب سی گھمبیرتا چھائی ہوئی تھی، جیسے ہوا میں بجلی بھری ہو۔ جہاں ملزم ایک تھا، لیکن جج ایک نہیں تھا بلکہ پورا بینچ بیٹھا تھا۔ دادی، جن کے چہرے پر ہمیشہ نرمی رہتی تھی، آج ان کی پیشانی پر بل پڑے ہوئے تھے، اور ان کی آنکھوں میں غصہ صاف جھلک رہا تھا۔ خالہ، جو ہمیشہ ہر بات میں چٹخارے لیتی تھیں، آج ان کا چہرہ سنجیدہ تھا اور ان کی آنکھیں شعلے اگل رہی تھیں۔ پھوپھو، جو عام طور پر خاموش رہتی تھیں، آج ان کے ہونٹ سختی سے بھینچے ہوئے تھے اور ان کی نظریں ملزم پر گڑی تھیں۔ تائی، جو سب سے زیادہ عملی سوچ رکھتی تھیں، آج ان کے چہرے پر فکرمندی اور مایوسی کے ملے جلے تاثرات تھے۔ امی، جن کی آنکھوں میں ہمیشہ اپنے بچوں کے لیے محبت اور نرمی رہتی تھی، آج ان کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں اور ان کے چہرے پر بے بسی اور پریشانی صاف نظر آ رہی تھی۔ دادا، جو گھر کے سربراہ تھے اور جن کی آواز میں ہمیشہ رعب اور دبدبہ ہوتا تھا، آج ان کی آواز کی گرج پورے گھر میں سنائی دے رہی تھی۔ چاچو اور چاچی بھی اپنی جگہ پر بیٹھے تھے، ان کے چہرے پر بھی تشویش اور غصے کے ملے جلے تاثرات تھے۔ خالو اور پھوپھا کو بے خبر رکھا گیا تھا، کیونکہ عزت کے معاملے کو آج بھی بیٹی کے سسرال والوں سے چھپا کے رکھا جاتا ہے۔ اس لیے نہیں کہ انہیں غیر سمجھا جاتا ہے، بلکہ اس لیے کہ وہ طعنہ مارنے اور غیر ہونے میں دیر نہیں لگاتے۔ یہ ارڈر دادا کے تھے اور آج کی عدالت بھی ان کے کہنے پر سجائی گئی تھی۔ دادا کا حکم پتھر پر لکیر تھا، اور کوئی اس سے سرتابی کی جرات نہیں کر سکتا تھا۔
اور ملزم کے کٹہرے میں بے چارا اکلوتا دانیال، اکیلا کھڑا تھا۔ اس کا سر جھکا ہوا تھا، اور اس کے چہرے پر پسینے کے قطرے نمایاں تھے۔ اس کی آنکھوں میں بے چارگی اور شرمندگی صاف نظر آ رہی تھی۔ نہ وکیل، نہ گواہ، نہ حمایتی۔ بلکہ سارے دلائل اور گواہ اس کے خلاف تھے، بقول شاعر۔۔۔۔ تمہارا شہر تم ہی مدعی، تم ہی منصف ہمیں خبر ہے ہمارا قصور نکلے گا اور قصور تو واقعی اس کا نکلا تھا۔ صرف قصور نہیں، جرم۔ ایک ایسا جرم جس کی سزا شاید اسے پوری زندگی بھگتنی پڑتی۔ ایسی غلطی جہاں سے واپسی کا کوئی تصور نہیں، بس سمجھو کہ گئے اور پھنس گئے۔ وہی غلطی جو پرویز مشرف نے چیف جسٹس کو ہٹا کے کی تھی اور پھر سنبھلنے کا موقع ہی نہ ملا۔ بے چارا دانیال! ایک لمحے کو زارا کا دل بہت دکھی ہوا اس کے لیے۔ وہ جانتی تھی کہ دانیال نے جو کچھ کیا ہے، وہ خاندان کے اصولوں کے خلاف ہے، لیکن وہ یہ بھی جانتی تھی کہ دانیال دل کا برا نہیں تھا۔ وہ صرف محبت میں اندھا ہو گیا تھا۔
وہ تھا بھی تو سب کا لاڈلا، دادا کا سب سے پیارا پوتا، دادی کی آنکھوں کا تارا، امی کا دل، اور زارا کا بڑا بھائی، جس پر وہ جان چھڑکتی تھی۔ لیکن کیا کر سکتے تھے سب؟ معاملہ ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ ایک ایسی گانٹھ پڑ گئی تھی جسے سلجھانا ناممکن لگ رہا تھا۔
"برخوردار! اس طرح چپ رہنے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔" دادا کی گھمبیر آواز لاؤنج میں گونجی، جس میں رعب اور غصہ دونوں شامل تھے۔ "ہمیں حتمی فیصلہ چاہیے اور وہ بھی ابھی۔ یہ کوئی مذاق نہیں ہے۔ یہ ہمارے خاندان کی عزت کا معاملہ ہے۔"
دانیال نے بمشکل سر اٹھایا، اس کی نظریں فرش پر گڑی تھیں۔ "لیکن دادا جان! یہ نا انصافی ہے۔" وہ چیختے ہوئے بولا، اس کی آواز میں درد اور بے بسی تھی۔
"کیسی نا انصافی۔۔۔؟" دادی بھی اسی کے انداز میں بولیں، ان کی آواز میں غصہ اور مایوسی تھی۔ "اور کچھ کرنا باقی ہے ابھی؟ کیا تم نے یہ سوچا تھا کہ ہم تمہاری اس حرکت کو نظر انداز کر دیں گے؟"
"مجھے کچھ تو وقت دیں۔" وہ شرمندہ سے لہجے میں بولا، اس کی آواز میں التجا تھی۔ "میں سب کچھ ٹھیک کر دوں گا۔"
"کتنا وقت! ہمارے پاس وقت ہی تو نہیں ہے۔" دادا کی آواز اب بھی گرج دار تھی، اور ان کے چہرے پر سختی نمایاں تھی۔ "تم نے جو کیا ہے، اس کے بعد وقت مانگنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔"
زارا کچن میں کھڑی یہ سب سن رہی تھی، اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ اسے معلوم تھا کہ دانیال نے کیا کیا ہے۔ وہ واحد تھی جسے دانیال نے اپنے دل کا حال سنایا تھا۔ دانیال، جو ہمیشہ سے خاندان کی توقعات پر پورا اترتا تھا، جو ہر فیصلے میں دادا کی مرضی کو مقدم رکھتا تھا، آج اس نے وہ کام کر دیا تھا جو کسی نے سوچا بھی نہیں تھا۔ اس نے حناء سے شادی کر لی تھی، ایک ایسی لڑکی سے جو ایک چھوٹے سے شہر سے تعلق رکھتی تھی، اور جس کا خاندان ان کے معیار کے مطابق نہیں تھا۔ یہ شادی صرف ایک راز نہیں تھی، بلکہ ایک ایسا دھماکہ تھا جس نے پورے خاندان کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
"دانیال! تم نے یہ سب کرنے سے پہلے ایک بار بھی نہیں سوچا؟" خالہ نے طنزیہ لہجے میں کہا۔ "ہم نے تمہیں کس چیز کی کمی دی تھی؟ کیا تمہیں ہماری عزت کا ذرا بھی خیال نہیں آیا؟"
دانیال نے ایک گہری سانس لی، اس کی آنکھوں میں نمی تیر آئی۔ "خالہ جان! یہ محبت کا معاملہ ہے۔ میں حناء کے بغیر نہیں رہ سکتا۔"
"محبت!" تائی نے ناک بھوں چڑھا کر کہا۔ "یہ محبت نہیں، یہ بے وقوفی ہے۔ ایک ایسی لڑکی سے شادی کر لی جس کے بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے۔"
"ہم سب نے تمہارے لیے کتنے اچھے رشتے دیکھے تھے، دانیال۔" امی نے روتے ہوئے کہا، ان کی آواز بھرائی ہوئی تھی۔ "تم نے ہمیں شرمندہ کر دیا۔"
دانیال نے سر اٹھا کر امی کی طرف دیکھا، اس کی آنکھوں میں دکھ تھا۔ "امی! میں نے آپ کو شرمندہ نہیں کیا۔ حناء بہت اچھی لڑکی ہے۔ وہ بہت نیک ہے، بااخلاق ہے، اور وہ مجھے بہت خوش رکھتی ہے۔"
"بس کرو دانیال!" دادا نے میز پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔ "ہمیں تمہاری اس لڑکی کی تعریفیں نہیں سننی۔ ہمیں یہ بتاؤ کہ تم نے یہ قدم کیوں اٹھایا؟ کیوں ہمیں اندھیرے میں رکھا؟"
دانیال نے ایک بار پھر گہری سانس لی۔ اسے معلوم تھا کہ اسے اب سب کچھ بتانا پڑے گا۔ "دادا جان! میں حناء سے یونیورسٹی میں ملا تھا۔ وہ بہت ذہین ہے، اور اس کا دل بہت صاف ہے۔ ہم شروع میں صرف دوست تھے، لیکن پھر آہستہ آہستہ ہمیں ایک دوسرے سے محبت ہو گئی۔"
"اور تم نے ہمیں بتانا ضروری نہیں سمجھا؟" دادا نے غصے سے پوچھا۔
"میں ڈر گیا تھا، دادا جان۔" دانیال نے اعتراف کیا۔ "مجھے معلوم تھا کہ آپ لوگ کبھی نہیں مانیں گے۔ حناء کا خاندان ہمارے جیسا نہیں ہے۔"
"تو کیا تم نے یہ سوچا کہ ہمیں بتائے بغیر تم یہ سب کر لو گے اور ہمیں خبر بھی نہیں ہوگی؟" چاچو نے کہا، ان کی آواز میں مایوسی تھی۔ "تم نے ہمارے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے۔"
زارا کچن سے لاؤنج میں آئی، اس کے ہاتھ میں پانی کا گلاس تھا۔ اس نے گلاس دانیال کی طرف بڑھایا۔ دانیال نے اسے دیکھا، اس کی آنکھوں میں ایک خاموش شکریہ تھا۔ اس نے پانی پیا، اور پھر ایک بار پھر بولنے کے لیے تیار ہوا۔
"میں جانتا ہوں کہ میں نے غلطی کی ہے۔" دانیال نے کہا، اس کی آواز میں اب کچھ مضبوطی تھی۔ "لیکن میں نے جو کیا ہے، وہ غلط نہیں ہے۔ حناء میری بیوی ہے۔ ہم نے نکاح کر لیا ہے۔"
پورے لاؤنج میں ایک دم سے خاموشی چھا گئی۔ ہر کوئی دانیال کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ یہ وہ بات تھی جس کا انہیں ڈر تھا، لیکن وہ اسے سننا نہیں چاہتے تھے۔ دادی کے ہاتھ سے تسبیح گر گئی، اور امی نے منہ پر ہاتھ رکھ لیا۔
"نکاح؟" دادا کی آواز میں اب غصے کے بجائے حیرت تھی۔ "تم نے یہ سب کب کیا؟"
"دو مہینے پہلے۔" دانیال نے آہستہ سے کہا۔ "میں نے سوچا تھا کہ میں آپ لوگوں کو آہستہ آہستہ بتاؤں گا، لیکن پھر یہ بات لیک ہو گئی۔"
"لیک کیا ہوئی؟" پھوپھو نے کہا۔ "تم نے خود ہی کسی کو بتایا ہوگا، اور پھر یہ بات ہم تک پہنچی ہے۔"
دانیال نے سر جھکا لیا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کے پاس کوئی جواز نہیں ہے۔ "میں نے اپنے دوست کو بتایا تھا، اور شاید اس نے کسی اور کو بتا دیا۔"
"تو اب کیا چاہتے ہو تم؟" دادا نے پوچھا، ان کی آواز میں اب تھکاوٹ تھی۔ "کیا تم چاہتے ہو کہ ہم اس لڑکی کو قبول کر لیں؟"
"ہاں، دادا جان۔" دانیال نے کہا، اس کی آواز میں اب التجا تھی۔ "حناء بہت اچھی لڑکی ہے۔ آپ لوگ اس سے ملیں گے تو خود ہی جان جائیں گے۔"
"ہمیں کسی سے ملنے کی ضرورت نہیں ہے۔" دادی نے کہا۔ "ہم نے تمہارے لیے کتنا اچھا رشتہ دیکھا تھا، تمہاری کزن، سارہ۔ وہ کتنی پیاری لڑکی ہے، اور ہمارے ہی خاندان کی ہے۔"
دانیال نے سارہ کا نام سن کر ایک لمحے کے لیے چونکا۔ سارہ اس کی بچپن کی دوست تھی، اور خاندان میں سب یہی چاہتے تھے کہ ان کی شادی ہو جائے۔ لیکن دانیال کے دل میں سارہ کے لیے کبھی محبت پیدا نہیں ہوئی تھی۔
"دادی جان! میں سارہ سے شادی نہیں کر سکتا۔" دانیال نے کہا۔ "میں حناء سے محبت کرتا ہوں، اور میں نے اس سے شادی کر لی ہے۔"
دادا نے ایک گہری سانس لی۔ "دانیال! تم نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ تم نے ہمارے خاندان کی عزت کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ لوگ کیا کہیں گے؟"
"لوگوں کی پرواہ نہ کریں، دادا جان۔" زارا نے اچانک کہا۔ سب نے اسے حیرت سے دیکھا۔ زارا عام طور پر ایسی باتوں میں نہیں بولتی تھی۔ "دانیال نے محبت کی ہے، کوئی جرم نہیں کیا۔"
"تم چپ رہو زارا!" دادا نے غصے سے کہا۔ "تمہیں ان معاملات میں بولنے کی ضرورت نہیں ہے۔"
زارا خاموش ہو گئی، لیکن اس کی آنکھوں میں ایک چمک تھی، جو دانیال کو حوصلہ دے رہی تھی۔
"دانیال! تمہارے پاس دو راستے ہیں۔" دادا نے کہا، ان کی آواز میں حتمی فیصلہ تھا۔ "یا تو تم اس لڑکی کو چھوڑ دو، اور ہم تمہاری شادی سارہ سے کر دیں گے۔ یا پھر تم اس لڑکی کے ساتھ رہو، اور ہم تمہیں اس خاندان سے بے دخل کر دیں گے۔"
دانیال کے چہرے پر ہوائیاں اڑ گئیں۔ یہ وہ فیصلہ تھا جس کا اسے ڈر تھا۔ اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ دادا اتنا سخت فیصلہ سنائیں گے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
"دادا جان! آپ ایسا نہیں کر سکتے۔" دانیال نے کہا، اس کی آواز میں درد تھا۔ "میں حناء کو نہیں چھوڑ سکتا۔"
"تو پھر تم ہمارے لیے مر گئے۔" دادا نے کہا، اور ان کی آواز میں کوئی لرزش نہیں تھی۔ "آج کے بعد تمہارا اس گھر سے کوئی تعلق نہیں۔"
امی رو پڑیں، اور دادی نے اپنا سر پکڑ لیا۔ خالہ اور پھوپھو بھی خاموش ہو گئیں۔ سب کو معلوم تھا کہ دادا اپنا فیصلہ نہیں بدلیں گے۔
دانیال نے ایک بار پھر زارا کی طرف دیکھا۔ زارا کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے، لیکن اس نے اسے ہمت دینے کی کوشش کی۔
"میں جانتا ہوں کہ یہ مشکل ہے، دادا جان۔" دانیال نے کہا، اس کی آواز میں اب مضبوطی تھی۔ "لیکن میں حناء کو نہیں چھوڑوں گا۔ میں نے اس سے وعدہ کیا ہے، اور میں اپنا وعدہ پورا کروں گا۔"
"تو پھر نکل جاؤ اس گھر سے!" دادا نے غصے سے کہا۔
دانیال نے ایک لمحے کے لیے پورے خاندان کو دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ سب کی آنکھوں میں دکھ تھا، لیکن کوئی بھی اس کی حمایت میں کھڑا نہیں ہو رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ اس کی قسمت ہے۔ اس نے ایک گہری سانس لی، اور پھر مڑا۔
"دانیال!" امی نے اسے پکارا، لیکن دانیال رکا نہیں۔ وہ جانتا تھا کہ اگر وہ رکا تو وہ اپنا فیصلہ بدل دے گا۔
وہ آہستہ آہستہ لاؤنج سے باہر نکلا، اس کے قدم بھاری تھے۔ زارا اس کے پیچھے بھاگی۔ "دانیال! کہاں جا رہے ہو؟"
"میں حناء کے پاس جا رہا ہوں، زارا۔" دانیال نے کہا، اس کی آواز میں ایک عجیب سا سکون تھا۔ "میں اسے اکیلا نہیں چھوڑ سکتا۔"
زارا نے اسے گلے لگا لیا۔ "مجھے معلوم ہے، بھائی۔ تم صحیح کر رہے ہو۔"
دانیال نے زارا کو چھوڑا اور دروازے کی طرف بڑھا۔ اس نے ایک بار پھر پیچھے مڑ کر دیکھا۔ پورا خاندان لاؤنج میں بیٹھا تھا، خاموش اور غمگین۔ اسے معلوم تھا کہ یہ فیصلہ اس کی زندگی بدل دے گا۔
وہ گھر سے باہر نکلا۔ رات کا اندھیرا چھا چکا تھا، اور ستارے آسمان میں چمک رہے تھے۔ اسے معلوم تھا کہ اس کا راستہ مشکل ہوگا، لیکن اسے یہ بھی معلوم تھا کہ وہ اکیلا نہیں ہے۔ حناء اس کے ساتھ تھی، اور اس کی محبت اس کی طاقت تھی۔ اس نے ایک نئی زندگی کا آغاز کیا تھا، ایک ایسی زندگی جہاں اسے اپنے فیصلوں کے لیے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں تھی۔ اور شاید یہی آزادی اس کی سب سے بڑی جیت تھی۔ وہ چلتا رہا، اندھیرے میں، ایک نئے سفر کی طرف، جہاں اس کا دل اسے لے جا رہا تھا۔ اس کے قدموں میں ایک نئی منزل کا عزم تھا، اور اس کے دل میں حناء کی محبت کی روشنی تھی۔
ایک تبصرہ شائع کریں for "خاموشی کی گونج:"