Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

سورج کا لمس


 شاہ گڑھ کو جاتی خم دار، مگر ویران پگڈنڈی پر سناٹے راج کرتے تھے۔ یہ پگڈنڈی، جو کبھی کبھار ہی کسی مسافر کے قدموں کی چاپ سے جاگتی تھی، آج بھی خاموش اور بے حس پڑی تھی۔ اس پر پھیلی دھول، اور دونوں جانب پھیلے ہوئے خشک جھاڑ جھنکاڑ، اس کی ویرانی کا منہ بولتا ثبوت تھے۔ سر کے متوازی چمکتا سورج آگ کے گولے برساتا تھا۔ اس کی تمازت اتنی شدید تھی کہ ہوا میں بھی ایک عجیب سی جلن محسوس ہوتی تھی۔ اس پر ہول سناٹے میں دم گھونٹتا حبس، جو انسان تو کیا حیوانوں کو بھی منہ کھول کر ہانپنے پر مجبور کرتا تھا۔ دور دور تک کوئی پرندہ بھی اڑتا نظر نہیں آتا تھا، جیسے وہ بھی اس شدید گرمی سے پناہ لیے ہوئے ہوں۔

شاہ خاور – سورج کا ایک اور نام – اپنی تابناک شعاعوں سے ہر شے پر سنہری رنگ جماتا تھا۔ یہ شعاعیں اتنی تیز تھیں کہ ریت کے ذرے بھی پارے کی طرح لشک لشک کر جاتے تھے۔ گندم کی بالیوں کے سٹے، جو ابھی پوری طرح پکے نہیں تھے، اس سنہرے پن کو اپنے اندر سموئے ساکت نظر آتے تھے۔ ان میں کوئی حرکت نہیں تھی، جیسے وہ بھی سورج کی تمازت سے بے حس ہو گئے ہوں۔ ہواؤں نے "شاہ گڑھ" والوں سے بیر باندھ لیا تھا اور اب ان کی جانب آنے سے انکاری تھیں۔ درختوں کے پتے بھی ساکت تھے، کوئی سرسراہٹ نہیں، کوئی جنبش نہیں۔ اس سارے ساکن ماحول میں اگر کوئی شے حرکت میں تھی تو وہ "نور" کا دستی پنکھا تھا جسے وہ مسلسل جھل رہی تھی۔ اس کے ہاتھ تھک چکے تھے، مگر وہ پھر بھی پنکھے کو تیزی سے ہلا رہی تھی، شاید اس امید میں کہ ایک ہلکی سی ہوا کا جھونکا ہی آ جائے۔

اس سلگتی جان لیوا گرمی میں اس کا دو آتشہ حسن گویا موم کی مانند بہنے پر آمادہ لگتا تھا۔ اس کی پیشانی پر پسینے کے قطرے موتیوں کی طرح چمک رہے تھے، اور اس کے بال جو اس نے بڑی مشکل سے سمیٹے تھے، اب پیشانی پر بکھر رہے تھے۔ برگد کے چند چھدرے پتوں سے چھن کر آتی حرارت اس کے گلاب کے سے گلابی عارضوں کو دہکا کر سرک انار کی مانند سرخ بناتی تھی۔ اس کا چہرہ، جو عام طور پر گلاب کی پنکھڑیوں کی طرح نرم و نازک تھا، اب گرمی کی شدت سے تمتما رہا تھا۔ مساموں سے پسینہ یوں پھوٹتا تھا گویا وہ نکڑ والے جوہڑ کے نیم گدلے پانی میں غوطہ لگا کر آئی ہو۔ اور نکڑ والا وہ جوہڑ جس کے کنارے دو پستہ قامت مگر چھدرے پتوں والے کیکر ایستادہ تھے، کسی طور بھی، جوہڑ کے نیم گدلے پانی کو اپنے سایوں سے ٹھنڈک فراہم کرنے میں ناکام رہتے تھے۔ جوہڑ کا پانی بھی گرمی سے ابل رہا تھا، اور اس میں تیرتے ہوئے مینڈکوں کی آنکھیں بھی ساکت نظر آتی تھیں، جیسے وہ بھی اس حبس سے بے حال ہو چکے ہوں۔

سفید سفید سی بطخیں جو خورشیدہ کمہارن نے رکھی ہوئی تھیں، شاہ گڑھ کے چپے چپے کو چھان کر اس میں رینگتے کیڑے مکوڑے تلاش کرتی تھیں، اس سمے ان کی گول گول آنکھیں بھی ساکت نظر آتی تھیں اور وہ جوہڑ کے کنارے چپکی بیٹھی تھیں۔ ان کی چونچیں کھلی ہوئی تھیں اور وہ ہانپ رہی تھیں، جیسے وہ بھی اس گرمی سے تنگ آ چکی ہوں۔

"اماں۔۔۔۔۔ اٹھ اماں۔" نور نے برابر والی چارپائی پر بے خبر سوئی اماں کو جھنجھوڑ ڈالا۔ اس کی آواز میں بے چینی اور ایک عجیب سی چمک تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اماں گہری نیند سو رہی ہیں، مگر آج اسے جگانا ضروری تھا۔

اماں ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھیں، ان کی آنکھوں میں نیند کی خمار تھی۔ "کیا ہے نور؟ کیا آفت آ گئی تجھ پر۔۔۔۔؟" اماں نے غصے سے پوچھا، ان کی آواز میں چڑچڑاپن تھا۔

"اماں! آج پندرہ تاریخ ہے اور آج فہد نے آنا ہے، بھول گئی ہو کیا؟" نور نے چمکتی آنکھوں سے اماں کو یاد دلایا۔ اس کی آواز میں ایک ایسی خوشی تھی جو اس شدید گرمی میں بھی ماحول کو ٹھنڈا کر گئی۔

اماں کی نیند سے بھری آنکھیں چوپٹ کھلے دروازے کی طرح پوری کی پوری وا ہو گئیں۔ ان کے چہرے پر حیرت اور پھر خوشی کے ملے جلے تاثرات نمودار ہوئے۔ "ہائے اللہ! ہاں! میں تو بالکل ہی بھول گئی تھی۔" اماں نے جلدی سے اٹھتے ہوئے کہا۔ "اور تو ابھی تک یہاں بیٹھی ہے؟ جا جلدی سے گھر کا کام دیکھ، کھانا بنا، صفائی کر۔ فہد آتا ہی ہوگا۔"

نور کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ فہد، اس کا بچپن کا دوست، اس کا ہم راز، اور اس کے دل کی دھڑکن۔ فہد ہر پندرہ تاریخ کو شاہ گڑھ آتا تھا، اور یہ دن نور کے لیے کسی عید سے کم نہیں ہوتا تھا۔ فہد شہر میں پڑھتا تھا اور ہر مہینے اپنے گاؤں آتا تھا، لیکن اس بار اس کا آنا نور کے لیے خاص تھا۔ اسے معلوم تھا کہ فہد اس بار کسی خاص مقصد سے آ رہا ہے۔

دن بھر نور نے گھر کے کاموں میں اماں کا ہاتھ بٹایا۔ اس نے گھر کو ایسے صاف کیا جیسے کوئی دلہن اپنے گھر کو سجاتی ہے۔ چولہے پر دال پک رہی تھی، اور روٹیاں بنانے کی تیاری ہو رہی تھی۔ نور کا دل خوشی سے اچھل رہا تھا، مگر وہ اپنی خوشی کو چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔ اماں بھی آج بہت خوش تھیں، فہد ان کا بھی لاڈلا تھا۔

شام ڈھلنے لگی، اور سورج کی تمازت میں کمی آئی۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے چلنے لگے، جو دن بھر کی حبس کو دور کر رہے تھے۔ نور بار بار دروازے کی طرف دیکھتی، اس کی آنکھیں پگڈنڈی پر گڑی تھیں۔ اسے فہد کی آمد کا شدت سے انتظار تھا۔

آخر کار، دور سے ایک دھول کا بادل اٹھتا دکھائی دیا۔ نور کا دل زور سے دھڑکا۔ وہ جانتی تھی کہ یہ فہد ہی ہے۔ دھول کا بادل قریب آیا، اور پھر ایک سائیکل پر فہد دکھائی دیا۔ اس کے چہرے پر تھکن تھی، مگر اس کی آنکھوں میں چمک تھی۔ اس نے سائیکل روکی اور نیچے اترا۔

"فہد! آ گئے تم؟" اماں نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگا لیا۔

"جی اماں، بس ابھی پہنچا ہوں۔" فہد نے مسکراتے ہوئے کہا، اس کی نظریں نور کو ڈھونڈ رہی تھیں۔ نور ایک کونے میں کھڑی تھی، اس کے چہرے پر شرم اور خوشی کے ملے جلے تاثرات تھے۔ فہد نے اسے دیکھا اور مسکرا دیا۔ ان کی آنکھوں ہی آنکھوں میں ہزاروں باتیں ہو گئیں۔

فہد نے اپنا سامان رکھا اور ہاتھ منہ دھونے چلا گیا۔ نور نے اس کے لیے ٹھنڈا پانی رکھا۔ جب وہ واپس آیا، تو سب صحن میں بیٹھے تھے۔ اماں نے اس کے لیے کھانا لگایا۔ فہد نے کھانا کھایا، اور پھر سب باتیں کرنے لگے۔

"فہد، اس بار اتنی دیر کیوں ہو گئی؟" اماں نے پوچھا۔

"اماں، شہر میں کام بہت بڑھ گیا ہے۔ پڑھائی بھی ہے اور ساتھ میں پارٹ ٹائم جاب بھی کر رہا ہوں۔" فہد نے بتایا۔

نور خاموشی سے سب سن رہی تھی، اس کی نظریں فہد پر جمی تھیں۔ اسے فہد کی محنت پر فخر تھا۔ وہ جانتی تھی کہ فہد اپنے خاندان کے لیے کتنی محنت کر رہا ہے۔

باتوں ہی باتوں میں اماں نے کہا، "فہد، اب تمہاری پڑھائی بھی پوری ہونے والی ہے، اور تم ماشاءاللہ جوان بھی ہو گئے ہو۔ اب تمہاری شادی کی بات کرنی چاہیے۔"

فہد نے ایک لمحے کے لیے نور کی طرف دیکھا، اور پھر اماں کی طرف۔ "جی اماں، اسی سلسلے میں تو میں آیا ہوں۔"

نور کا دل زور سے دھڑکا۔ اسے معلوم تھا کہ فہد کیا کہنے والا ہے۔

"کیا مطلب؟" اماں نے حیرت سے پوچھا۔

"اماں، میں نور سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔" فہد نے کہا، اس کی آواز میں مضبوطی اور عزم تھا۔

پورے صحن میں ایک دم سے خاموشی چھا گئی۔ اماں حیرت سے فہد کو دیکھ رہی تھیں۔ انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ فہد اتنی جلدی یہ بات کرے گا۔ نور کا چہرہ سرخ ہو گیا، اور اس نے نظریں جھکا لیں۔

"فہد! یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟" اماں نے حیرت سے پوچھا۔ "نور تو ابھی چھوٹی ہے۔"

"اماں، نور چھوٹی نہیں ہے۔ وہ جوان ہو گئی ہے، اور میں اسے پسند کرتا ہوں۔" فہد نے کہا۔

اماں ایک لمحے کے لیے خاموش ہو گئیں، پھر انہوں نے نور کی طرف دیکھا۔ نور کا سر جھکا ہوا تھا۔ اماں نے محسوس کیا کہ نور بھی فہد کو پسند کرتی ہے۔

"فہد، یہ اتنا آسان نہیں ہے۔" اماں نے کہا۔ "تمہیں معلوم ہے کہ رؤف کا خاندان نور کے لیے رشتہ بھیجنا چاہتا ہے۔"

نور کا دل ڈوب گیا۔ رؤف، گاؤں کا سب سے امیر اور بااثر شخص۔ اس کا خاندان بہت بڑا تھا، اور رؤف خود بھی ایک مغرور اور ضدی شخص تھا۔ رؤف کی نظریں نور پر بہت عرصے سے تھیں، اور اس کے خاندان نے کئی بار نور کے لیے رشتہ بھیجا تھا۔ اماں نے ہمیشہ ٹال دیا تھا، مگر اب رؤف کے خاندان کا دباؤ بڑھتا جا رہا تھا۔

"رؤف؟" فہد نے حیرت سے پوچھا۔ "وہ تو ایک نمبر کا بدمعاش ہے۔ اماں، آپ نور کی شادی اس سے کیسے کر سکتی ہیں؟"

"میں نے کب کہا کہ میں کروں گی؟" اماں نے کہا۔ "لیکن ان کا دباؤ بہت ہے۔ وہ ہماری زمینوں پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں۔"

فہد کے چہرے پر پریشانی چھا گئی۔ اسے معلوم تھا کہ رؤف کتنا طاقتور ہے۔ "اماں، میں نور کو رؤف سے شادی نہیں کرنے دوں گا۔"

"لیکن تم کیا کرو گے؟" اماں نے کہا۔ "تمہارے پاس کیا ہے؟ تم ابھی پڑھ رہے ہو، اور تمہارے پاس کوئی مستقل ذریعہ آمدنی بھی نہیں ہے۔"

فہد خاموش ہو گیا۔ اماں کی بات سچ تھی۔ اس کے پاس کچھ نہیں تھا، سوائے اپنی محبت کے۔

نور نے سر اٹھا کر فہد کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں دکھ تھا، مگر اس نے فہد کو ہمت دینے کی کوشش کی۔ "فہد، تم پریشان نہ ہو۔"

"نور، میں تمہیں رؤف سے شادی نہیں کرنے دوں گا۔" فہد نے کہا، اس کی آواز میں ایک عزم تھا۔

اگلے چند دن فہد نے اماں کو سمجھانے کی کوشش کی۔ اس نے انہیں بتایا کہ وہ کتنی محنت کر رہا ہے، اور وہ جلد ہی ایک اچھی نوکری حاصل کر لے گا۔ اس نے انہیں یقین دلایا کہ وہ نور کو ہمیشہ خوش رکھے گا۔ اماں بھی فہد کی باتوں سے متاثر ہو رہی تھیں، مگر انہیں رؤف کے خاندان کا ڈر تھا۔

ایک دن رؤف کے خاندان سے لوگ نور کے گھر رشتہ لے کر آ گئے۔ رؤف کی ماں اور خالہ آئیں، اور انہوں نے اماں سے بات کی۔ نور کچن میں کھڑی یہ سب سن رہی تھی۔ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ یہ اس کی زندگی کا سب سے اہم دن ہے۔

"ہم رؤف کے لیے نور کا ہاتھ مانگنے آئے ہیں۔" رؤف کی ماں نے کہا۔ "ہم چاہتے ہیں کہ یہ رشتہ جلد از جلد ہو جائے۔"

اماں نے ایک لمحے کے لیے فہد کی طرف دیکھا، جو صحن میں بیٹھا تھا۔ فہد کی نظریں بھی اماں پر تھیں۔

"دیکھیں بہن جی، نور ابھی چھوٹی ہے۔" اماں نے ٹالنے کی کوشش کی۔

"چھوٹی نہیں ہے، ماشاءاللہ جوان ہو گئی ہے۔" رؤف کی خالہ نے کہا۔ "اور رؤف کو نور بہت پسند ہے۔"

"لیکن ہم ابھی شادی نہیں کرنا چاہتے۔" اماں نے کہا۔

"کیا مطلب؟" رؤف کی ماں نے غصے سے پوچھا۔ "کیا آپ کو رؤف پسند نہیں ہے؟ وہ کتنا اچھا لڑکا ہے، اور ہمارا خاندان بھی کتنا بڑا ہے۔"

اماں خاموش ہو گئیں۔ انہیں معلوم تھا کہ اگر انہوں نے انکار کیا تو رؤف کا خاندان انہیں پریشان کرے گا۔

فہد نے ایک دم سے کھڑے ہو کر کہا، "نور کی شادی رؤف سے نہیں ہو سکتی۔"

سب نے فہد کو حیرت سے دیکھا۔ رؤف کی ماں اور خالہ غصے سے لال ہو گئیں۔

"تم کون ہوتے ہو بولنے والے؟" رؤف کی ماں نے کہا۔

"میں نور کا ہونے والا شوہر ہوں۔" فہد نے کہا، اس کی آواز میں مضبوطی تھی۔

رؤف کی ماں ہنس پڑی۔ "تم؟ تمہارے پاس کیا ہے؟ تم ایک غریب لڑکے ہو، اور تم نور سے شادی کرنے کا خواب دیکھ رہے ہو۔"

"میرے پاس محبت ہے، اور یہی سب سے بڑی دولت ہے۔" فہد نے کہا۔

"محبت سے پیٹ نہیں بھرتا۔" رؤف کی خالہ نے طنزیہ لہجے میں کہا۔

"میں نور کو خوش رکھوں گا، اور اسے ہر وہ چیز دوں گا جو اسے چاہیے۔" فہد نے کہا۔

رؤف کی ماں نے اماں کی طرف دیکھا۔ "کیا آپ اس لڑکے کی باتوں میں آ رہی ہیں؟"

اماں نے ایک گہری سانس لی، اور پھر فہد کی طرف دیکھا۔ انہوں نے فہد کی آنکھوں میں سچائی اور عزم دیکھا۔ انہیں معلوم تھا کہ فہد نور سے سچی محبت کرتا ہے۔

"دیکھیں بہن جی، میری بیٹی کی مرضی بھی ضروری ہے۔" اماں نے کہا۔ "اور نور فہد کو پسند کرتی ہے۔"

رؤف کی ماں غصے سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ "تو ٹھیک ہے! اگر آپ کو ہماری عزت کی پرواہ نہیں، تو ہم بھی آپ کو دیکھ لیں گے۔" وہ غصے سے باہر نکل گئیں، اور ان کے پیچھے رؤف کی خالہ بھی چلی گئیں۔

صحن میں ایک بار پھر خاموشی چھا گئی۔ فہد نے اماں کی طرف دیکھا، اس کے چہرے پر اطمینان تھا۔ نور کچن سے باہر آئی، اس کی آنکھوں میں آنسو تھے، مگر وہ خوشی کے آنسو تھے۔

"اماں! آپ نے میرا ساتھ دیا؟" نور نے حیرت سے پوچھا۔

"ہاں بیٹی۔" اماں نے نور کو گلے لگا لیا۔ "میں نے دیکھا کہ تم دونوں ایک دوسرے سے کتنی محبت کرتے ہو۔ اور محبت سے بڑی کوئی دولت نہیں ہوتی۔"

فہد نے اماں کا ہاتھ چوما۔ "اماں، میں آپ کو کبھی مایوس نہیں کروں گا۔"

اس دن کے بعد شاہ گڑھ میں ایک نئی کہانی کا آغاز ہوا۔ فہد نے اپنی پڑھائی مکمل کی اور شہر میں ایک اچھی نوکری حاصل کر لی۔ اس نے اپنی محنت سے ثابت کر دیا کہ محبت سے بڑی کوئی طاقت نہیں ہوتی۔

کچھ مہینوں بعد، شاہ گڑھ میں شادی کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ نور اور فہد کی شادی کا دن قریب آ رہا تھا۔ شاہ گڑھ کی پگڈنڈی اب ویران نہیں تھی، بلکہ اس پر خوشیوں کے قدموں کی چاپ سنائی دیتی تھی۔ سورج اب آگ کے گولے نہیں برساتا تھا، بلکہ اپنی سنہری شعاعوں سے ان کی محبت کو روشن کرتا تھا۔

شادی کا دن آیا۔ نور دلہن بنی، اس کا حسن دوبالا ہو گیا تھا۔ فہد شیروانی پہنے، کسی شہزادے سے کم نہیں لگ رہا تھا۔ ان کی آنکھوں میں ایک دوسرے کے لیے محبت اور عزم تھا۔ نکاح ہو گیا، اور دونوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھاما۔

نور نے فہد کی طرف دیکھا، اس کی آنکھوں میں وہی چمک تھی جو اس دن تھی جب اس نے فہد کی آمد کی خبر اماں کو دی تھی۔ فہد نے نور کا ہاتھ دبایا، اور اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ ان کی آنکھوں میں وہی عکس تھے جو محبت کا منتر پڑھتے تھے۔ یہ عکس اب صرف خواب نہیں تھے، بلکہ حقیقت بن چکے تھے۔

شاہ گڑھ کی ہواؤں نے اب ان سے بیر نہیں باندھا تھا، بلکہ وہ ان کی محبت کا گیت گا رہی تھیں۔ برگد کے پتے بھی اب چھدرے نہیں لگتے تھے، بلکہ ان سے چھن کر آتی روشنی ان کے مستقبل کو روشن کر رہی تھی۔ اور نکڑ والا جوہڑ، جس کا پانی کبھی گدلا لگتا تھا، اب اس میں ان کی محبت کا عکس صاف دکھائی دیتا تھا۔ سفید بطخیں بھی اب ساکت نہیں تھیں، بلکہ پانی میں تیرتی ہوئی خوشی کا اظہار کر رہی تھیں۔

نور اور فہد نے ایک دوسرے کو دیکھا، اور مسکرا دیے۔ ان کی محبت نے تمام رکاوٹوں کو پار کر لیا تھا۔ یہ کہانی صرف ان کی محبت کی نہیں تھی، بلکہ یہ اس بات کی بھی گواہ تھی کہ سچی محبت ہر مشکل کا سامنا کر سکتی ہے، اور ہر خواب کو حقیقت بنا سکتی ہے۔ شاہ گڑھ میں اب صرف سناٹے نہیں تھے، بلکہ خوشیوں کی گونج تھی

ایک تبصرہ شائع کریں for "سورج کا لمس"