Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

ایک بہو کی کہانی


میری دیورانی کا نام "اوئے میں مر گئی" تھا۔ نہیں نہیں، یہ تو اس کا تکیہ کلام تھا، بھلا کسی کا نام "اوئے میں مر گئی" ہو سکتا ہے؟ گو کہ جتنی بار میری دیورانی کے منہ سے یہ جملہ ادا ہوتا تھا، اس حساب سے تو اس کا نام، کام، عمر، پیشہ سب "اوئے میں مر گئی" ہی ہونا چاہیے تھا۔ مگر میری دیورانی کا نام حنا تھا۔ حنا کے ہونٹوں سے نکلے ہر جملے کے ساتھ "اوئے میں مر گئی" بونس کے طور پر موجود ہوتا تھا۔ یعنی ہر جملے کے ساتھ "اوئے میں مر گئی" فری، فری، فری۔ کبھی کبھی تو حاتم طائی کی سخاوت کو مات دیتے ہوئے ایک جملے کے ساتھ دو بار بھی "اوئے میں مر گئی" مفت دیا جاتا تھا۔ بہرحال حنا کا یہ جملہ محض سیاسی بیان تھا، اس کا کیونکہ وہ صرف کہنا پسند کرتی تھی کہ میں مر گئی، مگر مرنا ہرگز پسند نہیں کرتی تھی۔

مرنا تو شاید کسی کی ترجیحات میں شامل نہیں ہوتا، مگر اس طرح کا جھوٹا بیان ایک دن میں اتنی زیادہ بار تو ہمارے سیاست دان نہیں دیتے جتنی بار یہ جملہ میری دیورانی حنا دہراتی تھی۔ میں، عائشہ، اس گھر کی پہلی بہو تھی، اور میری شادی کے بعد دو سال کا عرصہ تو خاصے سکون و آرام سے گزرا کہ اس گھر کی میں واحد اور چہیتی بہو تھی۔ میرے شوہر عمر کے علاوہ ساس امی جان، سسر ابو جان اور دیور علی بھی تھے۔ سب بہت اچھے تھے۔ میرے ابو جان کو زیادہ تعریفیں کرنے کی عادت تھی۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب رہے گا کہ میرے ابو جان سب کے سامنے میری تعریفیں کرنے اور دعا دینے کی عادت تھی۔ ابو جان کی یہ عادت میرے لیے باعث مسرت تھی۔ میں صبح اٹھتے ہی ان کے لیے چائے بناتی، اور وہ چائے پیتے ہوئے میری تعریفوں کے پل باندھ دیتے۔ "بیٹی عائشہ، تمہارے ہاتھ میں تو جادو ہے، ایسی چائے تو میری امی بھی نہیں بناتی تھیں۔" اور میں دل ہی دل میں پھولے نہ سماتی۔

میری شادی کے دو سال بعد جب حنا میری دیورانی بن کر آئی تو میں بے حد خوش تھی۔ وجہ۔۔۔ وجہ۔۔۔ نمبر ایک کہ گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانے والی آ گئی، اور وجہ نمبر دو کہ حنا سے میرے نمبر کچھ زیادہ ہی تھے۔ میں نے کسی امتحان گاہ میں حل کے لیے پرچے کی بات نہیں کر رہی۔ دراصل زندگی بھی تو امتحان گاہ ہی ہے نا۔ مجھے ہمیشہ پہلی پوزیشن پر رہنا پسند رہا ہے۔ حنا کے آنے کے بعد دل ہی دل میں اپنا اور حنا کا موازنہ کیا اور اپنے آپ کو حنا سے قدرے بہتر پا کر خوش ہو گئی۔ خوب صورتی بہت تھی میرے پاس اور ذہانت بھی۔ خوب صورت تو حنا بھی بہت تھی، مگر میری سرخ و سفید رنگت کے سامنے اس کا گندمی رنگ کچھ کچھ سانولا محسوس ہونے لگتا، اور اس پر مستزاد حنا کی بے تحاشا اور مسلسل بولنے کی عادت۔ اس کی آواز کان کے پردے پھاڑنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ جب حنا بولنے پر آتی تو شاید چپ ہو جانا بھول جاتی تھی۔

حنا کی آمد سے گھر میں ایک نئی رونق آ گئی تھی، یا یوں کہیے کہ ایک نیا طوفان۔ پہلے ہی دن جب وہ گھر میں داخل ہوئی، اس کے ہاتھ سے شربت کا گلاس گرا، اور اس کی آواز گونجی، "اوئے میں مر گئی! یہ کیا ہو گیا!" امی جان، ابو جان، عمر اور علی سب ہنسنے لگے۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا، "ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔"

شروع کے چند دن تو اس کا تکیہ کلام ایک مزاحیہ چیز لگا۔ جب وہ کچن میں کام کرتی اور ذرا سا بھی برتن گرتا، تو اس کی آواز آتی، "اوئے میں مر گئی!" اگر کوئی چیز ہاتھ سے پھسل جاتی، "اوئے میں مر گئی!" کبھی کبھی تو وہ صرف چلتے چلتے ٹھوکر کھاتی اور "اوئے میں مر گئی!" کہہ کر بیٹھ جاتی۔ ابو جان تو اس کی اس عادت پر بہت محظوظ ہوتے۔ وہ ہنستے اور کہتے، "حنا بیٹی، تم تو بڑی ڈرامے باز ہو۔" اور حنا مسکرا کر جواب دیتی، "ابو جان، یہ تو بس ایسے ہی منہ سے نکل جاتا ہے۔ اوئے میں مر گئی!"

میں نے شروع میں اسے نظر انداز کرنے کی کوشش کی، لیکن اس کی آواز اور اس کا تکیہ کلام ہر جگہ موجود ہوتا تھا۔ صبح کی چائے سے لے کر رات کے کھانے تک، ہر لمحہ اس کی آواز کانوں میں گونجتی رہتی۔ جب وہ فون پر بات کرتی تو اس کی آواز اتنی اونچی ہوتی کہ پورے گھر کو معلوم ہوتا کہ وہ کس سے بات کر رہی ہے اور کس موضوع پر۔ "اوئے میں مر گئی! باجی، آپ کو معلوم ہے آج کیا ہوا؟" اور پھر وہ پوری کہانی اس طرح سناتی جیسے وہ کسی اسٹیج پر کھڑی ہو۔

میری پہلی پوزیشن کا خمار آہستہ آہستہ اترنے لگا۔ ابو جان کی تعریفیں اب بھی میرے لیے تھیں، لیکن حنا کی موجودگی نے ان تعریفوں کا مزہ کچھ کم کر دیا تھا۔ مجھے محسوس ہوتا کہ وہ بھی ابو جان کی تعریفیں حاصل کرنا چاہتی ہے، اور اس کے لیے وہ ہر ممکن کوشش کرتی۔ وہ کچن میں میرے ساتھ کام کرتی، لیکن اس کی تیزی اور لاپرواہی اکثر کام بگاڑ دیتی۔ اگر میں روٹی بناتی تو وہ کہتی، "اوئے میں مر گئی! عائشہ باجی، آپ کی روٹی کتنی گول ہے، میری تو نقشہ بن جاتا ہے۔" اور پھر وہ اپنی روٹی دکھاتی جو واقعی کسی نقشے سے کم نہیں ہوتی تھی۔ اس کی اس معصومانہ اعتراف پر بھی سب ہنس پڑتے، اور مجھے محسوس ہوتا کہ وہ میری تعریف کر کے بھی مجھ سے توجہ چھین رہی ہے۔

ایک دن امی جان نے ہم دونوں کو کھانا بنانے کا کام سونپا۔ میں نے سوچا کہ آج تو میں اپنی مہارت دکھاؤں گی۔ میں نے بڑے اہتمام سے بریانی اور کباب بنانے شروع کیے۔ حنا بھی میرے ساتھ تھی، اور وہ شور مچا رہی تھی، "اوئے میں مر گئی! عائشہ باجی، یہ مرچیں کتنی تیز ہیں! اوئے میں مر گئی! میرا تو ہاتھ جل گیا!" اس کے شور کی وجہ سے میرا دھیان بٹتا، اور مجھے غصہ آتا۔ میں نے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا، لیکن وہ کہاں چپ رہنے والی تھی۔

جب کھانا تیار ہوا، تو بریانی اور کباب بہت لذیذ بنے تھے۔ ابو جان نے پہلی لقمہ لیتے ہی کہا، "واہ عائشہ بیٹی، تمہارے ہاتھ کا تو کوئی جواب نہیں!" میں مسکرائی، لیکن اسی وقت حنا نے کہا، "اوئے میں مر گئی! ابو جان، آپ کو معلوم ہے، آج عائشہ باجی نے کتنی محنت کی ہے! ساری مرچیں میرے ہاتھوں پر لگ گئی تھیں، اوئے میں مر گئی!" اور پھر اس نے اپنے ہاتھوں کو دکھایا جو واقعی سرخ ہو رہے تھے۔ ابو جان نے اس کی طرف دیکھا اور ہنس پڑے، "اچھا، تو تم بھی شہید ہوئی ہو آج؟" اور پھر سب ہنسنے لگے۔ مجھے محسوس ہوا کہ میری ساری محنت اور تعریف اس کے "اوئے میں مر گئی" کے شور میں دب گئی۔

حنا کی ایک اور عادت تھی، وہ ہر چیز کو ڈرامائی بنا دیتی تھی۔ اگر کوئی چیز گم ہو جاتی، تو وہ ایسے شور مچاتی جیسے کوئی بہت بڑا سانحہ ہو گیا ہو۔ "اوئے میں مر گئی! میرا چارجر کہاں گیا؟ اوئے میں مر گئی! اب میرا فون کیسے چارج ہوگا؟" اور پھر وہ پورے گھر میں چارجر ڈھونڈتی پھرتی، اور اس کے پیچھے پیچھے سب لوگ بھی پریشان ہو جاتے، حالانکہ چارجر اکثر اس کے اپنے ہاتھ میں ہی ہوتا تھا۔

میں نے کئی بار عمر سے شکایت کی، "عمر، تمہاری بھابھی بہت شور مچاتی ہے۔ مجھے تو سر میں درد رہنے لگا ہے۔" عمر ہنستا اور کہتا، "عائشہ، وہ تو ایسے ہی ہے۔ اس کی عادت ہے۔ تم اسے نظر انداز کرو۔" لیکن نظر انداز کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔

ایک دن گھر میں مہمان آنے والے تھے، اور مجھے بہت سارا کھانا بنانا تھا۔ میں نے صبح سے تیاری شروع کر دی تھی۔ حنا بھی میری مدد کر رہی تھی، لیکن اس کی مدد سے زیادہ اس کا شور تھا۔ "اوئے میں مر گئی! عائشہ باجی، یہ پیاز کاٹتے ہوئے میری آنکھوں سے پانی آ رہا ہے! اوئے میں مر گئی! میرا تو برا حال ہو گیا ہے!" میں نے اسے خاموش رہنے کو کہا، لیکن وہ کہاں سننے والی تھی۔

اسی دوران، دودھ ابل کر گرنے لگا۔ میں نے جلدی سے چولہے کی طرف دیکھا، لیکن اس سے پہلے کہ میں کچھ کر پاتی، حنا نے زور سے چیخ ماری، "اوئے میں مر گئی! دودھ گر گیا! اوئے میں مر گئی! اب کیا ہوگا!" اس کی آواز اتنی تیز تھی کہ امی جان اور ابو جان بھی کچن میں آ گئے۔ دودھ تو گر چکا تھا، لیکن حنا کی چیخ نے سب کو خبردار کر دیا تھا۔ امی جان نے غصے سے حنا کو دیکھا، لیکن پھر انہوں نے دودھ صاف کرنے میں میری مدد کی۔

میں اس دن بہت پریشان تھی۔ مجھے لگا کہ حنا کی وجہ سے سب کچھ خراب ہو رہا ہے۔ میں نے سوچا کہ میں اس سے بات کروں گی، اور اسے کہوں گی کہ وہ اپنی آواز اور تکیہ کلام پر قابو پائے۔ لیکن میں نے ہمت نہیں کی۔ مجھے ڈر تھا کہ وہ برا مان جائے گی۔

وقت گزرتا رہا، اور حنا کی عادتیں بھی پروان چڑھتی رہیں۔ اس کا "اوئے میں مر گئی" اب گھر کا حصہ بن چکا تھا۔ کبھی کبھی تو ہم سب بھی اس کے ساتھ ہنسنے لگتے۔ لیکن میرے دل میں کہیں نہ کہیں ایک چبھن رہتی تھی۔ مجھے لگتا تھا کہ میں اب اس گھر کی واحد اور چہیتی بہو نہیں رہی۔

ایک دن، عمر کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی۔ اسے تیز بخار ہو گیا اور وہ بے ہوش ہو گیا۔ میں بہت گھبرا گئی۔ میں نے امی جان کو بلایا، اور وہ بھی پریشان ہو گئیں۔ ہم نے ڈاکٹر کو بلایا، لیکن ڈاکٹر آنے میں دیر لگا رہا تھا۔ عمر کی حالت بگڑتی جا رہی تھی۔

میں رو رہی تھی، اور امی جان بھی پریشان تھیں۔ اسی وقت حنا کچن سے آئی۔ اس نے عمر کو دیکھا، اور اس کے چہرے پر پریشانی چھا گئی۔ "اوئے میں مر گئی! عمر بھائی کو کیا ہو گیا؟ اوئے میں مر گئی! یہ تو بے ہوش ہو گئے ہیں!" اس کی آواز میں ہمیشہ کی طرح شور تھا، لیکن اس بار اس شور میں ایک حقیقی خوف تھا۔

"حنا، چپ کرو!" میں نے غصے سے کہا۔ "دیکھو عمر کی حالت کیا ہو رہی ہے۔"

لیکن حنا چپ نہیں ہوئی۔ وہ فوراً عمر کے پاس گئی، اور اس نے ان کا ماتھا چھوا۔ "اوئے میں مر گئی! ان کو تو بہت تیز بخار ہے!" اس نے جلدی سے ایک کپڑا لیا اور اسے ٹھنڈے پانی میں بھگو کر عمر کے ماتھے پر رکھا۔ "امی جان، ہمیں انہیں فوراً ہسپتال لے جانا چاہیے۔ ڈاکٹر کا انتظار نہیں کر سکتے۔ اوئے میں مر گئی! کہیں کچھ ہو نہ جائے!"

اس کی آواز میں اتنی گھبراہٹ تھی کہ امی جان نے بھی اس کی بات مان لی۔ علی اور ابو جان بھی آ گئے تھے۔ حنا نے فوراً علی کو کہا کہ وہ گاڑی نکالے، اور ابو جان کو کہا کہ وہ عمر کو اٹھانے میں مدد کریں۔ اس کی تیزی اور اس کا شور، جو مجھے ہمیشہ پریشان کرتا تھا، آج وہی ہماری مدد کر رہا تھا۔

ہم عمر کو ہسپتال لے گئے۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ اگر ہم ایک لمحہ بھی دیر کرتے تو عمر کی حالت مزید بگڑ سکتی تھی۔ حنا وہاں بھی چپ نہیں بیٹھی۔ وہ ڈاکٹر سے سوال کرتی رہی، نرسوں سے بات کرتی رہی، اور ہر بات میں اس کا "اوئے میں مر گئی" شامل تھا۔ لیکن اس بار اس کا "اوئے میں مر گئی" مجھے پریشان نہیں کر رہا تھا، بلکہ مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ اس کی پریشانی حقیقی ہے۔

چند دنوں میں عمر صحت یاب ہو گئے۔ جب وہ گھر آئے، تو حنا نے ان کا بہت خیال رکھا۔ وہ ان کے لیے سوپ بناتی، انہیں دوائی دیتی، اور ہر وقت ان کے پاس بیٹھی رہتی۔ اس کی آواز اب بھی اونچی تھی، اور اس کا "اوئے میں مر گئی" اب بھی ہر جملے کے ساتھ آتا تھا، لیکن اب مجھے اس سے کوئی اعتراض نہیں تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ حنا کی یہ عادت اس کی شخصیت کا حصہ ہے، اور اس کے پیچھے ایک بہت اچھا دل ہے۔

ایک شام، جب ہم سب صحن میں بیٹھے تھے، ابو جان نے کہا، "حنا بیٹی، تم نے عمر کی بہت خدمت کی۔ تم نے ثابت کر دیا کہ تم کتنی اچھی ہو۔"

حنا مسکرائی، اور اس نے کہا، "اوئے میں مر گئی! ابو جان، یہ تو میرا فرض تھا۔ اوئے میں مر گئی! عمر بھائی تو میرے اپنے بھائی ہیں۔"

میں نے حنا کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں سچائی اور محبت تھی۔ مجھے محسوس ہوا کہ میں نے اسے غلط سمجھا۔ اس کی خوبصورتی، اس کی ذہانت، اور اس کی رنگت سے بڑھ کر اس کا دل تھا۔ وہ ایک سچی اور مخلص انسان تھی۔

اس دن کے بعد، میرے اور حنا کے رشتے میں ایک نئی تبدیلی آئی۔ میں نے اسے اپنی چھوٹی بہن سمجھنا شروع کر دیا۔ ہم دونوں مل کر گھر کا کام کرتے، ہنسی مذاق کرتے، اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ بانٹتے۔ اس کا "اوئے میں مر گئی" اب مجھے برا نہیں لگتا تھا، بلکہ کبھی کبھی تو میں خود بھی اس کے ساتھ ہنسنے لگتی۔

حنا کی موجودگی نے ہمارے گھر میں ایک نئی رونق اور ایک نئی زندگی بھر دی تھی۔ اس کی ہنسی، اس کا شور، اور اس کا "اوئے میں مر گئی" اب ہمارے گھر کی پہچان بن چکا تھا۔ میں نے سیکھ لیا تھا کہ رشتے کسی مقابلے یا موازنے کے محتاج نہیں ہوتے، بلکہ وہ محبت، سمجھداری اور قبولیت سے پروان چڑھتے ہیں۔

ابو جان اب بھی میری تعریف کرتے تھے، لیکن اب وہ حنا کی بھی تعریف کرتے تھے۔ "عائشہ اور حنا، تم دونوں اس گھر کی رونق ہو۔ تم دونوں نے اس گھر کو جنت بنا دیا ہے۔" اور ہم دونوں بہوئیں مسکرا کر ایک دوسرے کی طرف دیکھتیں۔

حنا کا "اوئے میں مر گئی" اب بھی جاری تھا، لیکن اب یہ صرف ایک تکیہ کلام نہیں تھا، بلکہ یہ اس کی شخصیت کا ایک پیارا حصہ بن چکا تھا۔ یہ اس کی معصومیت، اس کی بے باکی، اور اس کی زندہ دلی کی علامت تھا۔ اور میں، عائشہ، جو کبھی اپنی پہلی پوزیشن کے خمار میں رہتی تھی، اب میں نے یہ سیکھ لیا تھا کہ زندگی میں سب سے بڑی پوزیشن دلوں میں جگہ بنانا ہوتا ہے، اور حنا نے یہ جگہ بہت آسانی سے بنا لی تھی۔

ایک تبصرہ شائع کریں for "ایک بہو کی کہانی"