برسوں بیت چکے تھے جب شہزادی آمنہ کی محبوبہ، نایاب، جنگ پر روانہ ہوئی تھی۔ وہی نایاب جس نے آمنہ کو نہ صرف تلوار چلانا سکھایا بلکہ یہ سبق بھی دیا کہ زندگی صرف ظاہری خوبصورتی کا نام نہیں۔ وہی عورت جس نے اسے اپنے خیالات بیان کرنا اور بادشاہ — اُس کے باپ — کے تسلط کے خلاف کھڑے ہونا سکھایا۔
نایاب کے محاذ پر بھیجے جانے کے ایک سال بعد ایک خط آیا، جس میں لکھا تھا کہ وہ جنگ میں شہید ہو گئی ہے۔ آمنہ کو یہ یقین نہ آیا۔ دکھ سے نڈھال، وہ خود جنگ کے میدان کا رخ کرتی ہے تاکہ اپنی محبت کی لاش تلاش کرے یا کوئی ایسا سراغ پائے جو ثابت کرے کہ نایاب واقعی مر چکی ہے۔ کیونکہ یہ خط اس کے والد، بادشاہ، کی طرف سے آیا تھا — جس نے ہمیشہ ان دونوں کے درمیان جدائی ڈالنے کی کوشش کی تھی۔
گھوڑے پر لمبا سفر کرتے ہوئے اور اپنے باپ کے سپاہیوں سے چھپتی ہوئی، آمنہ بالآخر اس ویران جنگی میدان تک پہنچتی ہے۔ وہ دیوانہ وار زمین چھانتی ہے، کچھ ایسا تلاش کرنے کی کوشش میں جو نایاب کی موجودگی یا موت کی تصدیق کر سکے۔
کئی گھنٹوں کی تلاش کے بعد اسے وہ لاکٹ ملتا ہے جو اس نے نایاب کو رخصت ہونے سے پہلے تحفے میں دیا تھا۔ وہ زخمی لاکٹ اور ٹوٹی ہوئی چین کو مٹھی میں لے کر پھوٹ پھوٹ کر روتی ہے، یہ مان کر کہ نایاب واقعی جنگ میں مار دی گئی ہے — اور دل ہی دل میں اپنے باپ کو کوستی ہے۔
اسی عالمِ غم میں شہزادی آمنہ کا ذاتی محافظ اسے ڈھونڈ نکالتا ہے اور نرمی سے، مگر دلی مجبوری کے ساتھ، اسے محل واپس جانے کو کہتا ہے۔ آمنہ خاموشی سے لاکٹ کو سینے سے لگائے اس کے ساتھ واپس چل پڑتی ہے۔ دل شکستہ، اور ذہن الجھا ہوا — اسے نہیں معلوم کہ وہ دوبارہ کبھی محبت کر سکے گی یا نہیں۔
واپسی کے سفر میں محافظ اسے ایک افسانوی دریا کے بارے میں بتاتا ہے — وہ دریا جس کا پانی پینے سے یادیں مٹ جاتی ہیں۔ وہ مشورہ دیتا ہے کہ اگر آمنہ واقعی اس درد سے نجات چاہتی ہے تو اس دریا سے پانی پی لے۔ آمنہ پہلے تو دھوکہ کھانے کی سی نظر سے اسے دیکھتی ہے، مگر پھر سوچتی ہے کہ شاید بھلا دینا ہی بہتر ہو — تاکہ وہ حکمرانی پر بہتر توجہ دے سکے۔
ایک سال اور گزر گیا، مگر دکھ کم نہ ہوا۔ آخرکار وہ دریا تلاش کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ سخت اور طویل سفر کے بعد وہ دریا کے کنارے پہنچتی ہے۔ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر پانی کو تکتی ہے، پینے ہی والی ہوتی ہے کہ کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
وہ چونک کر پیچھے مڑتی ہے — اور حیرت سے ہچکی بندھ جاتی ہے۔ سامنے نایاب کھڑی تھی — دو سال سے جسے وہ مردہ جانتی تھی۔ زخمی، تھکی ہوئی، مگر زندہ۔ آمنہ کی آنکھوں کے سامنے وہ عورت موجود تھی جسے وہ زندگی سے زیادہ چاہتی تھی۔
آمنہ کپکپاتے ہاتھ سے نایاب کی طرف بڑھتی ہے، جیسے یقین نہ ہو کہ وہ اصلی ہے یا کوئی سراب۔ مگر جیسے ہی اس کا ہاتھ نایاب کے بازو کو چھوتا ہے، سچائی کا لمس آنکھوں سے آنسو بہا دیتا ہے۔ وہ نایاب کو گلے لگا لیتی ہے۔
نایاب، جو اب ایک جنگجو اور زندہ بچ جانے والی ہے، اسے اپنے بازوؤں میں لے لیتی ہے۔ آمنہ کی کمر سہلاتے ہوئے اسے تسلی دیتی ہے کہ اب سب ٹھیک ہو جائے گا اور وہ دونوں پھر کبھی جدا نہیں ہوں گی۔
آمنہ آنسوؤں میں پوچھتی ہے: "تم کہاں تھیں؟ اتنے عرصے بعد کیوں آئیں؟"
نایاب بتاتی ہے کہ بادشاہ کے سپاہیوں نے اُسے میدانِ جنگ پر جانے سے پہلے ہی قید کر لیا تھا۔ اور جو لاکٹ آمنہ کو میدان میں ملا تھا، وہ تو جان بوجھ کر چھوڑا گیا تھا تاکہ نایاب کی موت کا دھوکہ دیا جا سکے۔
یہ سن کر آمنہ اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھتی ہے اور نایاب کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیتی ہے۔ وہ قسم کھاتی ہے کہ اب سچ سب کے سامنے لائے گی اور اپنے باپ کو بے نقاب کرے گی۔
چند دنوں بعد وہ دونوں محل واپس پہنچتی ہیں۔ محل کے محافظ حیرت زدہ اور بادشاہ غصے سے پاگل ہو جاتا ہے۔ جیسے ہی اسے ان کی واپسی کی خبر ملتی ہے، وہ دھاڑتا ہوا سامنے آتا ہے۔ ان سپاہیوں کو ڈانٹتا ہے جنہیں نایاب کو ختم کرنے کا حکم دیا گیا تھا، مگر وہ ناکام رہے۔
جب آمنہ اور بادشاہ آمنے سامنے آتے ہیں، ایک خاموش تصادم جنم لیتا ہے۔ دونوں کی آنکھوں میں نفرت اور سچ چھپا ہوتا ہے۔ قریب کھڑے محافظ اور درباری اس تناؤ کو محسوس کرتے ہیں۔ نایاب آمنہ کے کندھے پر ہاتھ رکھتی ہے — وفاداری اور حوصلے کی علامت۔
آخرکار آمنہ زبان کھولتی ہے۔ اونچی آواز میں باپ پر الزام لگاتی ہے کہ اُس نے نایاب کو مارنے کی کوشش کی اور اُسے دھوکہ دیا — صرف اپنی بیٹی کو قابو میں رکھنے کے لیے۔ وہ اعلان کرتی ہے کہ بادشاہ کو تخت چھوڑ دینا چاہیے، ورنہ وہ اپنی بیٹی کو ہمیشہ کے لیے کھو دے گا۔
بادشاہ کا چہرہ پہلے غصے سے سرخ ہوتا ہے، پھر حیرت اور آخر میں شکست خوردہ۔ وہ جانتا ہے کہ اب عوام بھی آمنہ کے ساتھ ہیں۔ وہ آہستہ سے تاج اتارتا ہے، اور بیٹی کے ہاتھ میں دے دیتا ہے — اس اعتراف کے ساتھ کہ اب حکومت کا حق اس کی بیٹی کا ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں for "کھوئی ہوئی محبت اور یادیں"