میں نے اُس کا راستہ آسانی سے ٹریس کیا—جہاں اُس کی کشتی لگی تھی وہیں سے شوروی پیروں کی نشانیاں کچی مٹی میں گہرائی سے نمایاں تھیں۔ یہ جنگل دھواں کا جنگل کہلاتا تھا؛ ستر سال پہلے فنا کے ہاتھوں جلایا گیا تھا۔ موجودہ جنگل اب اس کی واپسی کی گواہی تھا – گہرا، گھنا، اور بغاوت بھرا—ایسا محسوس ہوتا تھا کہ قدرت گوریزین کی مرضی کا جواب دے رہی ہو۔
میں نے جنگل کا راستہ اختیار کیا، اس کی بگاڑی فضاء محسوس کر کے—یقیناً وہ زندہ تھی، مگر موت کی روشنی اس کے جسم سے اٹھی اور ماحول کو سڑنے پر مجبور کرتی۔ وہ خود ایک وائرس تھی، جنگل سے بھاگتی ہوئی وائرس۔
میں نے خاموشی سے قدم بڑھائے، چھپا ہوا، چاہتا تھا اسے گھیردوں۔ دل دھڑک رہا تھا، خوف اٹھا — مگر پرہیز میں کھویا وہ جنگل کے سایوں میں رکھ گئی تھی۔
جب میں نزدیک گیا تو اُس کے زنگ آلود زہر کی مہک نے مجھے جکڑا۔ خوف لیکن برداشت کر لیا، میں خود کو ڈیزائن شدہ خاموشی میں ریاضت دی۔
پھر سنا میں نے اُس کے لال لاکڑی زرہ کی خراش — ہر قدم کی گونج نے مجھے پھانس لیا۔ سفید بال واپس جھلملاتے، راکھ جیسی جلد مگر جوانی کی حسین یاد باقی۔
میں نے جواب دینے سے گریز کیا—وہ خطرہ، طنز، یا محاذ آرائی کا انتظار کر رہی تھی، مگر اس کی آواز نرمی میں سراب تھی جس نے کسی یاد کو جگایا۔
اس نے چُپکے سے کہا: “مت مارو مجھے۔” اور وہ رخصت ہو گئی۔
میں زنجیر پر جان بچا کر اُٹھا۔ زخم رکھ کر اُس کے نقش قدم کی پیروی کی۔
آخر میں وہ ایک گاؤں کے ملبے پر پہنچی۔ ایک ٹوٹا ہوا گھر، نیلا دروازہ، وہیں پر ایک سرگزشت ابھر رہی تھی—
میں نے دل سے پوچھا: “تم کون ہو؟”
پھر اُس نے تلوار گردن پر لگائی — یہ سلما کے اجداد سے قتل کی داستان ٹٹول رہی تھی۔
میں نے کہا: “میری ماں کا نام تنویّا فلاورز ہے—جس نے تمہیں درنسن کے راستے پر مات دی”
وہ علیحدہ ہو کر چل دی۔ میں رکا، دل بھرا تھا—ماں، بیٹی، طاقت سے پھیلی داستاں۔
وہ ملبے کی راہ پر گم گئی—ایک لاشِ بادشاہ، ایک لوری، اور ایک راز جس نے مجھے ہر قدم پر پکڑا رکھا۔
ایک تبصرہ شائع کریں for "“فنا کے ملک کی لاشِ بادشاہ کی بیٹی”"