Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

“فنا کے ملک کی لاشِ بادشاہ کی بیٹی”



نعام تھا سونے کی زندگی – سچا تاج نہیں، بلکہ ایک لقمہ خوشی نہیں تھا، جیسا کہ اعلان ہوا۔
فنا، دیوتا لاشوں کی خاتون، دکھ داری، مایوسی کی ملکہ، اور لاشوں کے بادشاہ گوریزین کی تیسری بیٹی۔
وہ تین ہفتے قبل رات کے سناٹے میں اپنے والد کے قلعہ سے فرار ہو گئی تھی۔ اب وہ واپس لائی جانی تھی۔

میں نے اُس کا راستہ آسانی سے ٹریس کیا—جہاں اُس کی کشتی لگی تھی وہیں سے شوروی پیروں کی نشانیاں کچی مٹی میں گہرائی سے نمایاں تھیں۔ یہ جنگل دھواں کا جنگل کہلاتا تھا؛ ستر سال پہلے فنا کے ہاتھوں جلایا گیا تھا۔ موجودہ جنگل اب اس کی واپسی کی گواہی تھا – گہرا، گھنا، اور بغاوت بھرا—ایسا محسوس ہوتا تھا کہ قدرت گوریزین کی مرضی کا جواب دے رہی ہو۔

میں نے جنگل کا راستہ اختیار کیا، اس کی بگاڑی فضاء محسوس کر کے—یقیناً وہ زندہ تھی، مگر موت کی روشنی اس کے جسم سے اٹھی اور ماحول کو سڑنے پر مجبور کرتی۔ وہ خود ایک وائرس تھی، جنگل سے بھاگتی ہوئی وائرس۔

میں نے خاموشی سے قدم بڑھائے، چھپا ہوا، چاہتا تھا اسے گھیردوں۔ دل دھڑک رہا تھا، خوف اٹھا — مگر پرہیز میں کھویا وہ جنگل کے سایوں میں رکھ گئی تھی۔

جب میں نزدیک گیا تو اُس کے زنگ آلود زہر کی مہک نے مجھے جکڑا۔ خوف لیکن برداشت کر لیا، میں خود کو ڈیزائن شدہ خاموشی میں ریاضت دی۔

پھر سنا میں نے اُس کے لال لاکڑی زرہ کی خراش — ہر قدم کی گونج نے مجھے پھانس لیا۔ سفید بال واپس جھلملاتے، راکھ جیسی جلد مگر جوانی کی حسین یاد باقی۔

ہم دونوں ان کے سامنے کھڑے تھے—خاموشی اور دانش کے درمیان۔ اس نے پوچھا:
“کیا تم مجھے جانتے ہو؟”

میں نے جواب دینے سے گریز کیا—وہ خطرہ، طنز، یا محاذ آرائی کا انتظار کر رہی تھی، مگر اس کی آواز نرمی میں سراب تھی جس نے کسی یاد کو جگایا۔

پھر اُس نے کہا، “میریونگا نہی؟”
میں نے اپنا بند کٹارنی ہتھیار زمین پر چھوڑ دیا۔ وہ، لاشِ بادشاہ کی پسندیدہ بیٹی، لڑائی نہیں چاہتی تھی؟

میرے ذہن نے اسے 'جہں کی آنکھ' کہا، مگر اب وہ پسپا ہونے لگی تھی۔
میں نے جلدی کوشش کی—ہوا سے چھری پھینکی—وہ بازو سے زنجیر روکے اور حملہ موڑ دیا۔
میں ڈھیلا ہو گیا، اُس نے لات ماری، میری پسلی ٹوٹی، ہوا پھٹ گئی۔ میں گِر کر سسک سسک کر بیٹھ گیا۔

اس نے چُپکے سے کہا: “مت مارو مجھے۔” اور وہ رخصت ہو گئی۔

میں زنجیر پر جان بچا کر اُٹھا۔ زخم رکھ کر اُس کے نقش قدم کی پیروی کی۔


آخر میں وہ ایک گاؤں کے ملبے پر پہنچی۔ ایک ٹوٹا ہوا گھر، نیلا دروازہ، وہیں پر ایک سرگزشت ابھر رہی تھی—

فنا جھکی، دہانے پر وہ سرگم گاتی ہے—
"علی، تنویّا، کھانا!"
اور عجب پیار سے بے داغ یاد کی گونج اس گاؤں کو جگاتی ہے۔

میں نے دل سے پوچھا: “تم کون ہو؟”

پھر اُس نے تلوار گردن پر لگائی — یہ سلما کے اجداد سے قتل کی داستان ٹٹول رہی تھی۔

میں نے کہا: “میری ماں کا نام تنویّا فلاورز ہے—جس نے تمہیں درنسن کے راستے پر مات دی”

فنا کے چہرے پر بے اختیا خاموشی طاری، پھر اُس نے کہا:
“میں تمہاری ماں کی ماں تھی—ایک زندگی پہلے۔ ماں تمہاری دادا تھی… مگر زمانہ بدل گیا۔”

وہ علیحدہ ہو کر چل دی۔ میں رکا، دل بھرا تھا—ماں، بیٹی، طاقت سے پھیلی داستاں۔

فنا نے پیچھے مڑ کر پوچھا:
“کیا تم مجھے جانتی ہو؟”
میں نے مختصر کہا: “نہیں...”

اس نے سر ہلایا، پھر غم گداز لہجے میں کہا:
“میں اسے تلاش کر رہی ہوں… لیکن اپنا بھول جانا بہتر ہے۔”

وہ ملبے کی راہ پر گم گئی—ایک لاشِ بادشاہ، ایک لوری، اور ایک راز جس نے مجھے ہر قدم پر پکڑا رکھا۔

ایک تبصرہ شائع کریں for "“فنا کے ملک کی لاشِ بادشاہ کی بیٹی”"