Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

نادیہ کی کہانی


ہیٹ-ایشبری کی فضاؤں جیسی ان خیالی گلیوں کی جگہ، یہ قصبہ گلنار روڈ تھا—جہاں گٹار کی دھن ہوا میں شامل تھی، اور خوشبو پاؤڈر و آزادی کی گنگناتی تھی۔ نادیہ، قدرے مٹیالی سنہرے بالوں والی نوجوان، ایک ملبوسے دکان کے بیرونی دروازے سے ٹیک لگائے نوٹ بک میں خاکے بنا رہی تھی۔

اچانک ایک نوجوان لڑکا—جس کی آنکھیں سفید چمکتی شام کی طرح نیلی اور شکن زدہ تھی، بال ادھر ادھر بے ترتیب—اس کے پاس سے گزرا اور خاکے کے قلم اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئے۔

“ارے، معذرت!” اس نے جلد کہا۔ ٹھہری ہوئی مسکراہٹ جیسے کسی جگنو کی روشنی۔ “میں عرفان ہوں۔”

نادیہ نے آہستہ سر ہلاتے کہا، “نادیہ۔”

عرفان نے قلم سنبھال کر کہا، “خوبصورت نام ہے۔ کیا خاکہ ہے؟”

“یہاں کی فضا — جذبہ— توانائی۔”

عرفان نے قریب آ کر کہا، “یہ شہر برقی ہے۔ میں ابھی لاہور سے آیا ہوں—یہاں کی آزادی محسوس کرنی تھی۔ تم سمجھتی ہو؟”

نادیہ نے نرمی سے سر ہلایا، “ظلم ہمیں اندر سے دباتا ہے۔ میں خاکے بناتی ہوں وہ کھل اٹھے جو لفظوں میں بند ہیں۔”

عرفان نے ہلایا، “میں گٹار بجاتا ہوں—کبھی سنو گی؟”

نادیہ کے دل کی دھڑکن تیز ہوئی، “آج رات ایک میلہ ہے، گٹار بجاؤ گے؟”

عرفان مسکرایا، “کاش جا پاؤں، مگر میرے پاس کرایہ بھی مشکل سے ہے۔”

نادیہ نے فیصلہ کیا: “ٹھیک ہے—میں لے آتی ہوں۔ تم کتنے سال کے ہو؟”

“بیس۔”—عرفان نے نرم انداز میں کہا۔

دکان کی روشنی میں...
نادیہ وسکی کی ایک بوتل لڑیے پیچھے رکھتی ہے، پانچ روپے(منافع کے بغیر) ادا کرتی ہے، اور باہر آ کر عرفان کو دیتی ہے۔

چند لمحوں بعد...
گلنار کار واش کے سامنے ایک آدمی چیخ رہا ہوتا ہے، عورت کو دھکے دے رہا ہے۔
عرفان قدم بڑھاتے ہیں، “اترو! عورت پر ہاتھ اٹھانا ٹھیک نہیں!”
شاکرد آدمی غائب، عورت روتی ہے—پولیس پہنچتی ہے—عرفان پیچھے کھڑے مسکرا کر پولیس کو سمجھاتے ہیں۔

نادیہ حیرت سے دیکھتی ہے:
“واہ... کیوں خاموش رہ گئی تھی میں؟” وہ سر شرمندگی سے جھکا کر بولی، “شکریہ۔”
اور وہ خاموشی میں عرفان سے وہ بوتل اور خودکا عطر —روحانی جشن— شیئر کرتی ہے۔

دین دوستی میں...
رات سورج مدھم ہوتا ہے، فرش پر بیٹھے دونوں امن، عشق اور موسیقی میں مشغول—ڈیلن، ہنڈریکس، احساس، خواب...

عرفان اٹھ کر کہتا ہے:
“مجھے جانا ہے، مگر تم سے مل کر خوشی ہوئی، نادیہ۔”
وہ اپنے چھوٹے کاغذ پر نمبر لکھ کر نرم بوسہ دیتا ہے—ایک وعدہ برائے آنے والی راتوں کا۔

عہدین کی گمشدگی...
دن، ہفتے، ماہ گزرتے ہیں—کبھی کال نہیں…

پھر برسوں بعد...
نادیہ دفتر، لوڈشیڈنگ، خاموشی…
اچانک فون کی گھنٹی—جو کہتی ہے
“نادیہ بول رہی ہوں…”—اور وہ آواز:
“عرفان... میری پکار؟”
وہی نرم دل، وجدان بھرا لمحہ—تصور کیا—
وہ پوچھتا ہے:
“تمہیں یاد رہ گیا—یہ میری محبت تھی—میں تم سے ملنا چاہتا ہوں؟”

ایک نیا سفر
نادیہ نے سوچا—’’میں اتنی سولڈ تھی—میں غرق تھی۔ مگر بہانہ تھا یہ عشق کی یاد کا؟‘‘
وہ خاموشی—پھر ایک ہنسی—یہ سب رومانوی، مگر ٹوٹ گیا۔

آخری چکر
ایک جمعرات کی شام—بارحصار—نادیہ گلابی جامنی ڈریس میں، C7 کے انتخاب سے جُوکن باکس میں اپنا گانا لگا دیتی ہے—
"867‑530‑…"
چراغاں روشنی میں وہ جھلملاتی ہیں، اس کے چہرے پر خوداعتمادی کا نور ہوتا ہے، اور دو گمنام آدمی اس کے ساتھ گاتے ہیں۔

وہ خود ہنستی ہے، آزادی کے ساتھ—
جانے دو ہو ان گمشدگیوں کو،
نیا سورج اب اس کی روشنی میں چمکے گا۔

ایک تبصرہ شائع کریں for "نادیہ کی کہانی"