Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

شکاری کا دردناک انجام


باب اول: شکاری یا ظالم؟

احمد اپنے کمرے میں بے چین قدم گھسیٹ رہا تھا۔ اس کا دماغ عجیب و غریب خیالات کے گرداب میں گھوم رہا تھا۔ “کیا میں شکاری ہوں؟ صرف شکاری، یا طاقتور شکاری؟ یا شاید… اشرف شکاری، جیسے اشرف المخلوقات؟” اس نے خود سے سوال کیا۔ “لیکن کیا واقعی انسان اشرف المخلوقات ہے؟”

یہ سوالات اس کے ذہن میں صبح سے گونج رہے تھے۔ وہ بستر سے اٹھا اور کمرے میں چکر لگانے لگا۔ صبح جب وہ بیدار ہوا تھا، اس کے ذہن میں کوئی عجیب سی بات گھوم رہی تھی، مگر اب وہ اسے یاد نہیں کر پا رہا تھا۔ اس نے اپنی بیوی صائمہ سے بھی اس کا تذکرہ کیا تھا، لیکن اب وہ بات دھندلی سی ہو گئی تھی۔

کمرے کا دروازہ کھلا تھا۔ بیڈ کے سامنے نصب بڑی سی ٹی وی سکرین پر ڈسکوری چینل پر ایک منظر چل رہا تھا۔ ایک بھینس، جو شیروں کے نرغے میں پھنس چکی تھی، اپنی آخری کوشش کر رہی تھی کہ کسی طرح ان کے پنجوں سے نکل کر جنگل کی گہرائیوں میں غائب ہو جائے۔ لیکن شیر اس کے ہر حربے کو ناکام بنا رہے تھے۔ گروہ کی طاقتور شیرنیوں نے اس کی پشت اور گردن پر اپنے پنجے گاڑ دیے، اور اسے زمین پر گرا دیا۔ پھر نر شیروں نے اس کے جسم پر قبضہ جما لیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ خونی تماشا ایک دعوت میں بدل گیا۔

“یہی وہ جنگل ہے جہاں پہلے بھینس تھی، اور اب نہیں!” احمد نے سوچا۔ شیروں کے کھانے کے بعد گدھوں اور دوسرے جانوروں نے باقی ماندہ جسم کو صاف کر دیا۔ وہ بستر پر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا، “ہمیشہ فتح طاقتور کی ہوتی ہے۔ کیا انسان بھی ایک طاقتور جانور ہے؟”

“میں کیوں ایسی باتیں سوچ رہا ہوں؟ مجھے یہ سب نہیں سوچنا چاہیے!” اس نے خود کو سمجھایا۔

اسی وقت صائمہ کمرے میں آئی اور ناشتے کی ٹرے میز پر رکھی۔ انڈے، پراٹھے، چائے، اور بالائی۔ “ہر وقت کیا سوچتے رہتے ہو؟ میں آئی، تمہیں پتا بھی نہیں چلا!” صائمہ نے کہا۔ وہ احمد کے سامنے بیٹھ گئی۔ “ناشتہ کرو، اور اتنا مت سوچا کرو۔ ڈاکٹر کے پاس جاؤ، دوا تبدیل کرواؤ، اور اپنی حالت کے بارے میں بتاؤ۔ رات بھر جاگتے رہتے ہو، اور جب سوتے ہو تو عجیب و غریب خواب دیکھتے ہو!”

“تم ٹھیک کہتی ہو، صائمہ۔ مجھے ڈاکٹر سے ملنا چاہیے۔” احمد نے کہا اور ناشتے کی طرف متوجہ ہو گیا۔ صائمہ کمرے سے باہر چلی گئی۔

ناشتے کی پلیٹ میں انڈے کو دیکھتے ہی احمد کے ذہن میں ایک اور خیال آیا۔ “یہ انڈا مرغی کا ہے۔ مرغی ایک جاندار ہے۔ انڈا بھی ایک مکمل وجود ہے، جو دنیا میں آنے سے پہلے ہی انسان کے ہاتھوں موت کا شکار ہو جاتا ہے۔ یعنی انسان بھی ایک شکاری ہے۔ طاقتور شکاری۔ اشرف شکاری۔ ہر کمزور چیز کو اپنے قابو میں کرنے والا۔”

اس نے پراٹھے کی طرف دیکھا۔ “یہ گندم کے آٹے سے بنا ہے، اور گندم کے دانے بیج ہیں، جن سے نئے پودے جنم لے سکتے ہیں۔” پھر اس کی نظر بالائی پر پڑی۔ “یہ بھینس کے دودھ سے بنی ہے، جو اس کے بچوں کے لیے ہوتا ہے۔ ہم اپنی طاقت سے اسے حاصل کرتے ہیں۔ کیا یہ طاقت کا ناجائز استعمال نہیں؟”

“میں کیا سوچ رہا ہوں؟ مجھے یہ سب نہیں سوچنا چاہیے!” احمد نے خود کو ڈانٹا اور ناشتہ چھوڑ کر دوبارہ کمرے میں چ چکر لگانے لگا۔ “انسان سب سے بڑا شکاری ہے۔ اس نے اپنی طاقت سے سب کو زیر کر رکھا ہے۔ ایک خوف ہے جو انسانوں نے غیر انسانوں پر طاری کر دیا ہے۔”

صائمہ دوبارہ کمرے میں آئی۔ احمد نے پوچھا، “میں نے صبح تم سے کچھ کہا تھا نا؟”

“ہاں، کہا تھا۔” صائمہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ “تمہاری باتیں کوئی یاد رکھنے والی ہوتی ہیں؟ کوئی سنے تو کانوں کو ہاتھ لگائے! صبح تم نے کہا تھا کہ تم نے رات خواب دیکھا کہ ایک ایسی مخلوق پیدا ہو گئی ہے جو انسان سے زیادہ طاقتور ہے۔ وہ گوشت کھاتی ہے اور انسانوں سے زیادہ سوچنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ تم اپنے دوستوں کے ساتھ ایک ایسی جگہ پر تھے جہاں وہ مخلوق نے انسانوں کو کھانے کے لیے فارم بنا رکھے تھے۔ انسانوں کو وہی سلوک مل رہا تھا جو ہم مرغیوں، بکروں، اور مچھلیوں کے ساتھ کرتے ہیں۔”

“اف!” صائمہ نے سر ہلایا۔ “تمہارے خواب بھی عجیب ہیں۔ میری تو روح کانپ گئی! بس خدا کا نام لو اور ڈاکٹر کے پاس جاؤ۔ میں چائے دیکھنے جا رہی ہوں۔”

احمد دوبارہ اپنے خیالات میں ڈوب گیا۔ “کیا واقعی ایسی مخلوق پیدا ہو سکتی ہے؟” اس نے سوچا۔ “ہم نے جانوروں کے فارم بنا رکھے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ وہ جاندار ہیں، ان میں جذبات ہیں، احساسات ہیں، لیکن ہم اپنی طاقت سے انہیں کھا جاتے ہیں۔ کیا کوئی ایسی مخلوق آ سکتی ہے جو ہم سے زیادہ طاقتور ہو اور ہمارا وہی حال کرے؟”

صائمہ چائے لے کر آئی۔ “چائے پی لو اور بغیر کوئی سوال کیے ڈاکٹر کے پاس جاؤ!” اس نے کہا۔

احمد نے چائے کا کپ اٹھایا، لیکن جیسے ہی اسے دودھ کی یاد آئی، اسے بھینس کی بے بسی پر ترس آیا۔ “انسان کتنا ظالم ہے کہ جاندار کے بچوں کی غذا پر بھی قبضہ کرتا ہے۔” اس نے چائے رکھ دی۔

“چائے کیوں رکھ دی؟” صائمہ نے پوچھا۔

احمد کچھ کہنا چاہتا تھا، لیکن بات اس کے ذہن سے نکل گئی۔ وہ بیڈ سے اٹھا، ڈریسنگ ٹیبل کے شیشے میں خود کو دیکھا، اور کلینک کی طرف نکل پڑا۔

باب دوم: تباہی کا منظر

احمد کلینک کی طرف جا رہا تھا کہ اچانک اس کے فون پر ایک میسج آیا۔ اس کی منگیتر سارہ کا میسج تھا۔ “جلدی آؤ، میں کیفے پہنچ گئی ہوں۔ تم ہمیشہ لیٹ ہو جاتے ہو!”

احمد نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، “بس پہنچ رہا ہوں۔” اس نے فون بیگ میں رکھا اور بائیک سٹارٹ کی۔ وہ خوش تھا۔ سارہ سے منگنی کے بعد یہ ان کی پہلی ملاقات تھی۔ اس نے سارہ کے لیے کچھ تحائف بھی لے رکھے تھے—جیولری اور لال و سفید پھول۔ وہ سوچ رہا تھا کہ وہ کیفے میں ناشتہ کریں گے اور پھر کہیں گھومنے جائیں گے۔

لیwater: لیکن اچانک ایک زوردار دھماکے کی آواز نے اسے چونکا دیا۔ وہ بائیک سے گر پڑا۔ ہر طرف دھواں اور چیخ و پکار تھی۔ کیفے ٹیریا کی عمارت کا آدھا حصہ ملبے میں بدل چکا تھا۔ خون آلود انسانی اعضاء اور ادھوری لاشیں زمین پر بکھری ہوئی تھیں۔ پولیس اور ایمبولینسز کے سائرن کانوں کو چیر رہے تھے۔ لوگ ادھر اُدھر بھاگ رہے تھے۔

احمد کا دماغ چکرا رہا تھا۔ اس کا بیگ کہیں کھو گیا تھا۔ اس نے ایک ریسکیو ورکر سے فون مانگا اور اپنے والد کو کال کی۔ “بابا جان، سارہ کا کچھ پتا چلا؟”

“بیٹا، ہم سرکاری ہسپتال میں ہیں۔ کچھ زخمیوں کو دوسرے ہسپتال لے جایا گیا ہے۔ تم وہاں پتا کرو۔” والد نے کہا۔

احمد کے ذہن میں ہزاروں وسوسے پھوٹ رہے تھے۔ وہ ہسپتال کی طرف بڑھا۔ راستے میں اس نے سنا کہ ایک زخمی عورت کو ابھی ایمبولینس میں لے جایا گیا تھا۔ ایک شخص بتا رہا تھا، “بے چاری کا چہرہ جھلس گیا تھا۔ اس کی ایک ٹانگ غائب تھی، اور کسی نے اس کے ہاتھ اور کان کاٹ دیے تھے۔”

احمد کے جسم میں ٹھنڈک سی دوڑ گئی۔ ایک بھیانک گمان اس کے ذہن میں آیا۔ وہ ہسپتال پہنچا، لیکن سارہ کا کوئی سراغ نہ ملا۔ وہ ہر ward میں گیا، ہر چہرے کو دیکھا، لیکن سارہ کہیں نہیں تھی۔

باب سوم: حقیقت کا سامنا

ہسپتال میں افراتفری تھی۔ زخمیوں کی چیخیں، رشتہ داروں کی آہ و بکا، اور سائرنوں کی آوازیں۔ احمد کا دل بیٹھ رہا تھا۔ اس نے اپنے والد کو دوبارہ فون کیا۔ “بابا جان، کچھ پتا چلا؟”

“بیٹا، ہم اب دوسرے ہسپتال جا رہے ہیں۔ تم بھی آ جاؤ۔”

احمد دوسرے ہسپتال پہنچا۔ وہاں اسے ایک نرس نے بتایا کہ ایک عورت کو لایا گیا تھا، جس کی حالت بہت نازک تھی۔ احمد کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ وہ اس کمرے کی طرف بھاگا جہاں وہ عورت تھی۔

جب اس نے اسے دیکھا، اس کا دل بیک وقت ٹھہر گیا۔ یہ سارہ تھی۔ اس کا چہرہ بری طرح جھلس چکا تھا۔ اس کی ایک ٹانگ غائب تھی، اور اس کے ہاتھ پر گہرے زخم تھے۔ احمد کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ وہ اس کے پاس بیٹھ گیا اور اس کا ہاتھ تھام لیا۔

“سارہ… تم ٹھیک ہو جاؤ گی۔” اس نے دھیمی آواز میں کہا، لیکن اسے خود یقین نہیں تھا۔

سارہ کی حالت نازک تھی۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ وہ شاید بچ نہ پائے۔ احمد رات بھر اس کے پاس بیٹھا رہا، دعائیں مانگتا رہا، لیکن صبح ہوتے ہوتے سارہ اس دنیا سے رخصت ہو گئی۔

باب چہارم: شکاری کا المیہ

سارہ کی موت نے احمد کو توڑ دیا۔ وہ اپنے گھر واپس آیا، لیکن اس کا دماغ ابھی تک اسی صبح کے خیالات میں الجھا ہوا تھا۔ “انسان شکاری ہے۔ طاقتور شکاری۔ لیکن کیا ہوتا ہے جب کوئی اس سے بھی طاقتور شکاری آ جائے؟”

وہ رات بھر جاگتا رہا۔ اس کے خوابوں میں وہی مخلوق تھی جو انسانوں کو کھاتی تھی۔ وہ سوچتا رہا کہ انسان نے اپنی طاقت سے ہر چیز کو زیر کیا، لیکن جب اس کی اپنی باری آئی تو وہ کتنا بے بس تھا۔

صبح وہ دوبارہ ڈاکٹر کے پاس گیا۔ ڈاکٹر نے اسے کچھ دوائیں دیں اور کہا، “تمہارا دماغ بہت دباؤ میں ہے۔ کچھ آرام کرو اور سوچنا بند کرو۔”

لیکن احمد سوچنا بند نہ کر سکا۔ وہ سوچتا رہا کہ انسان کی طاقت اسے کہاں لے گئی۔ اس نے جانوروں پر، فطرت پر، اور ایک دوسرے پر ظلم کیا۔ اور اب، جب اس کی اپنی باری آئی، تو وہ خود اپنی طاقت کے ہاتھوں شکست کھا گیا۔

باب پنجم: سبق

احمد نے اپنی زندگی کو بدلنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اب ایک “شکاری” نہیں رہے گا۔ وہ ایک ایسی زندگی جینا چاہتا تھا جو دوسروں کے لیے رحمت ہو۔ اس نے اپنی خوراک بدل دی—وہ اب گوشت نہیں کھاتا تھا۔ اس نے اپنی زندگی سے تشدد اور ظلم کو نکال دیا۔

سارہ کی یاد اسے ہر لمحے ستا رہی تھی، لیکن اس نے اسے اپنی طاقت بنایا۔ وہ اب دوسروں کی مدد کرتا تھا۔ وہ ہسپتالوں میں جاتا، زخمیوں کی دیکھ بھال کرتا، اور ان کے لیے دعائیں مانگتا۔

ایک دن، جب وہ ہسپتال سے واپس آیا، اس نے اپنے گھر کی دیوار پر ایک جملہ لکھا: “طاقت وہ نہیں جو دوسروں کو زیر کرے، بلکہ وہ جو دوسروں کو اٹھائے۔”

اخلاقی سبق

یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ طاقت کا استعمال ہمیشہ فتح نہیں دلاتا۔ انسان اپنی طاقت سے فطرت اور دوسرے جانداروں پر ظلم کرتا ہے، لیکن جب اسے خود اسی طاقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو وہ اپنی بے بسی کو سمجھتا ہے۔ زندگی کا اصل مقصد طاقت کا غلط استعمال نہیں، بلکہ دوسروں کے لیے رحمت بننا ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں for "شکاری کا دردناک انجام"