Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

ہاکی اور دل کا کھیل







باب اول: شکست کا سائے

جیسے ہی عثمان نے اپنے کمرے میں قدم رکھا، اس کا سیل فون زور سے بجنے لگا۔ اس نے ایک نظر فون کی سکرین پر ڈالی اور پھر غصے سے بھر کر سفید رنگ کی ہاکی گیند کو دیوار پر زور سے مارا۔ ہاتھ میں پکڑی ہاکی اسٹک اور پسینے سے شرابور شرٹ کو اس نے بیڈ پر پھینک دیا۔ فون کی گھنٹی مسلسل بج رہی تھی، لیکن وہ اس کی طرف متوجہ نہ ہوا۔ اس کا دماغ ابھی تک ہاکی کے میدان میں تھا، جہاں تماشائیوں کا ہنگامہ اور آج کی شکست اسے بری طرح تلملا رہی تھی۔

سو گز لمبے اور ساٹھ گز چوڑے ہاکی فیلڈ میں ابھی تک ہجوم کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ عثمان کی ٹیم کو آج بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس نے فون کے بند ہونے کا انتظار کیا، لیکن جب گھنٹی بند نہ ہوئی تو وہ اچانک چونک کر اٹھا۔

“خدایا! اگر یہ بابا کا فون ہوا تو… وہ کتنے پریشان ہوں گے!” اس نے سوچا اور تیزی سے فون اٹھا کر سکرین پر نظر ڈالی۔ نمبر اجنبی نہیں تھا۔ یہ وہ نمبر تھا جس سے گزشتہ ایک سال سے کالز آ رہی تھیں، اور وہ ہر بار نہ چاہتے ہوئے بھی کال اٹینڈ کر لیتا تھا۔

کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے غصے سے دانت پیستے ہوئے کال اٹھائی۔

“عثمان ڈارلنگ! کہاں تھے؟ اتنا انتظار کروایا!” دوسری طرف سے زارا کی چہکتی ہوئی آواز آئی، جس میں عجیب سی تازگی تھی۔

عثمان گہری سانسیں لیتے ہوئے خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ “میں جانتا تھا تم ضرور کال کرو گی۔ کیا چاہتی ہو؟” اس کا لہجہ روکھا تھا۔

“ارے، مجھے پورا یقین تھا کہ تم اس وقت بہت اداس ہو رہے ہو گے۔ اسی لیے سوچا تمہیں تسلی دوں۔ کیا، رو رہے تھے نا؟” زارا کے لہجے میں ہمدردی کے پردے میں چھپا طنز صاف جھلک رہا تھا۔

“بس کرو!” عثمان غصے سے تپ گیا۔ “ہار اور جیت کھیل کا حصہ ہیں۔ میں اتنی چھوٹی سی بات پر نہیں روتا۔”

“واہ! حوصلے تو بہت بلند ہیں، جناب!” زارا نے شرارتی انداز میں کہا۔ “مگر آج کا میچ… واہ واہ! ستر منٹ میں ایک بھی گول نہیں کر سکے۔ تمہاری گیند تو فلیگ پوسٹ کے قریب بھی نہیں گئی۔ جازم کی ٹیم نے تو تم لوگوں کو رگڑ دیا!”

عثمان کا خون کھول اٹھا۔ “کیوں فون کیا ہے، زارا؟”

“بس یوں ہی، سونے کی قیمت بتا رہی تھی۔ دن بہ دن بڑھ رہی ہے!” زارا نے ایک بار پھر اسے چھیڑا۔

“دیکھو، زارا اکرم!” عثمان کچھ کہنا چاہتا تھا، مگر زارا نے فوراً اس کی بات کاٹی۔

“ارے، ایک سال ہو گیا، عثمان۔ اب تک میرا نام تو یاد ہو جانا چاہیے تھا!” زارا کی آواز میں وہی شرارت تھی۔

“یاد تو تب کرتا جب میں کوشش کرتا!” عثمان نے طنزیہ انداز میں جواب دیا۔

“کوئی بات نہیں، عثمان۔ ایک دن تو میرا نام نہ صرف یاد کرو گے، بلکہ اس کی مالا بھی جپو گے!” زارا ہنسی۔

“بڑی خوش فہمی ہے!” عثمان نے خون کے گھونٹ پی کر کہا۔

“جو بھی کہو!” زارا کو پروا نہ تھی۔ “ویسے، تم کلب کیوں نہیں آ رہے؟”

“میری مرضی!” عثمان چڑ کر بولا۔

“کل ضرور آنا!” زارا کا لہجہ دھونس بھرا تھا۔

“کیوں، تم نے میرا ولیمہ رکھوایا ہے کیا؟” عثمان نے غصے میں کہا۔

“ہاہاہا! واہ، عثمان! سوچ تو لیا کرو۔ ویسے، اگر تم دولہا بننے کو تیار ہو جاؤ تو ہم اکیس توپوں کی سلامی کے ساتھ سارا انتظام کر لیں گے!” زارا نے ہنستے ہوئے کہا۔

“تم آخر چاہتی کیا ہو، زارا؟” عثمان اب زچ ہو چکا تھا۔

“بس، پوچھنا تھا کہ ہاکی برصغیر میں کب متعارف ہوئی؟” زارا نے پھر اسے چھیڑا۔ “ویسے، آج تم بہت برا کھیلے۔ تین گول مس کیے۔ تم اچھے کھلاڑی نہیں ہو!”

“تم…” عثمان کچھ کہنا چاہتا تھا، مگر زارا نے پھر اس کی بات کاٹ دی۔

“لنچ کی آفر کرو گے کیا؟” زارا ہنسی۔

“تم…” عثمان پھر لفظ ترتیب دینے لگا، مگر زارا نے موقع نہ دیا۔

“کلب کیوں نہیں آ رہے؟” زارا نے موضوع بدلا۔

“میری مرضی!” عثمان نے روکھا جواب دیا۔

“کل ضرور آنا!” زارا نے کہا۔

عثمان نے فون بند کر دیا۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ زارا کو خوب سنائے، مگر وہ جانتا تھا کہ زارا ہر بار اسے اپنی باتوں میں الجھا لیتی ہے۔ وہ صوفے پر بیٹھ کر جوتوں کے تسمے کھولنے لگا، مگر اس کا دماغ ابھی تک ہاکی کے میدان میں تھا۔

باب دوم: زارا کی شرارتیں

اگلے دن عثمان کلب پہنچا۔ وہ جانتا تھا کہ زارا وہاں ضرور ہو گی، اور وہ اس سے ملنے سے گریز کرنا چاہتا تھا۔ مگر کلب اس کی ٹیم کا پریکٹس گراؤنڈ تھا، اور وہ اپنی ذمہ داریوں سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا تھا۔

کلب کے گراؤنڈ میں داخل ہوتے ہی اس نے زارا کو دیکھا، جو اپنی دوستوں کے ساتھ ہنستے ہوئے کھڑی تھی۔ اس نے عثمان کو دیکھتے ہی ہاتھ ہلایا۔ “ارے، ہیرو! آ گئے آخر کار!”

عثمان نے اس کی طرف دیکھا اور نظریں پھیر لیں۔ وہ گراؤنڈ کی طرف بڑھا، جہاں اس کی ٹیم پریکٹس کے لیے تیار تھی۔

“عثمان! ذرا ادھر آؤ!” زارا نے آواز دی۔

عثمان نے ایک گہری سانس لی اور اس کی طرف بڑھا۔ “اب کیا چاہتی ہو؟”

“بس، یہ بتانے آئی تھی کہ آج تمہاری پریکٹس دیکھنے آئی ہوں۔ دیکھوں تو سہی، تمہارا گیم کیسا ہے!” زارا نے شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔

“تمہارا کام ہی چھیڑنا ہے، زارا۔” عثمان نے کہا اور گراؤنڈ کی طرف چل دیا۔

پریکٹس کے دوران عثمان نے اپنی پوری توجہ کھیل پر رکھی۔ وہ جانتا تھا کہ کل کی شکست کو بھول کر آج بہتر کارکردگی دکھانی ہے۔ مگر زارا کی موجودگی اسے عجیب طرح سے پریشان کر رہی تھی۔ وہ بار بار اس کی طرف دیکھتی اور کبھی کبھار ہنستی، جس سے عثمان کا غصہ بڑھتا جا رہا تھا۔

پریکٹس کے بعد زارا اس کے پاس آئی۔ “واہ، عثمان! آج تو تم نے کمال کر دیا۔ دو گول کیے! لگتا ہے میری موجودگی تمہارے لیے لکی ہے!”

“تم بس اپنی بکواس بند کرو!” عثمان نے کہا، مگر اس کے لہجے میں اب وہ پہلی سی تیزی نہ تھی۔

“ارے، غصہ کیوں ہوتے ہو؟” زارا نے ہنستے ہوئے کہا۔ “چلو، ایک کافی تو بنتی ہے۔ میری طرف سے!”

عثمان نے ایک لمحے کے لیے اس کی طرف دیکھا۔ اسے زارا کی باتوں سے چڑ تو بہت تھی، مگر اس کی چہکتی ہوئی آواز اور بے فکری اسے عجیب طرح سے اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔ “ٹھیک ہے، چلو۔” اس نے کہا اور زارا کے ساتھ کلب کے کیفے کی طرف چل دیا۔

باب سوم: دل کی گہرائی

کافی کے دوران زارا نے عثمان سے کھل کر بات کی۔ “تم جانتے ہو، عثمان، میں تمہیں اس لیے چھیڑتی ہوں کیونکہ تم بہت سنجیدہ رہتے ہو۔ زندگی کو ہلکا پھلکا لینا سیکھو!”

“ہاکی میری زندگی ہے، زارا۔ یہ کوئی مذاق نہیں۔” عثمان نے سنجیدگی سے کہا۔

“میں جانتی ہوں۔ مگر ہر وقت ہاکی کے بارے میں سوچنا تمہیں تھکا دیتا ہے۔ کبھی کبھار ہنسی مذاق بھی کر لیا کرو!” زارا نے کہا۔

عثمان خاموش رہا۔ اسے زارا کی باتوں میں کچھ سچائی نظر آ رہی تھی۔ وہ ہمیشہ سے ایک نظم و ضبط والا کھلاڑی رہا تھا، مگر شاید اس نے زندگی کے دوسرے رنگوں کو نظر انداز کر دیا تھا۔

“تم ہر وقت ہنستی کیوں رہتی ہو؟” عثمان نے اچانک پوچھا۔

زارا نے ایک لمحے کے لیے اس کی طرف دیکھا، پھر مسکرائی۔ “کیونکہ زندگی بہت چھوٹی ہے، عثمان۔ اگر ہم ہنسیں گے نہیں، تو کیا فائدہ؟”

اس دن کے بعد عثمان اور زارا کی ملاقاتیں بڑھنے لگیں۔ زارا کی شرارتیں اب عثمان کو اتنی بری نہیں لگتی تھیں۔ وہ اس کی باتوں میں دلچسپی لینے لگا تھا۔ زارا کی ہنسی اور اس کی بے فکری اس کے لیے ایک نئی دنیا کی طرح تھی۔

باب چہارم: دل کا معرکہ

ایک دن عثمان کی ٹیم کا ایک اہم میچ تھا۔ یہ میچ ان کے لیے بہت اہم تھا، کیونکہ اس سے ان کی چیمپئن شپ کی پوزیشن کا فیصلہ ہونا تھا۔ عثمان پوری طرح تیار تھا، مگر اس کے دل میں ایک عجیب سی گھبراہٹ تھی۔

میچ سے پہلے زارا اس کے پاس آئی۔ “عثمان، آج تم جیتو گے۔ مجھے یقین ہے۔”

عثمان نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا۔ “تمہاری دعائیں کام آئیں تو جیت جاؤں گا۔”

“دعائیں نہیں، یقین!” زارا نے ہنستے ہوئے کہا۔ “اور اگر تم جیت گئے تو مجھے پارٹی چاہیے!”

میچ شروع ہوا۔ عثمان نے اپنی پوری جان لڑا دی۔ اس نے دو گول کیے اور اپنی ٹیم کو جیت کی طرف لے گیا۔ آخری منٹوں میں اس نے ایک شاندار گول کر کے میچ اپنی ٹیم کے نام کیا۔ تماشائیوں کی تالیاں اور شور نے گراؤنڈ کو گونجدار کر دیا۔

میچ کے بعد زارا عثمان کے پاس آئی۔ “واہ، ہیرو! تم نے تو کمال کر دیا!”

عثمان نے ہنستے ہوئے کہا، “تمہاری وجہ سے جیتا ہوں۔ تمہارا یقین کام آ گیا۔”

“اب پارٹی کب دے رہے ہو؟” زارا نے شرارتی انداز میں پوچھا۔

“جلد ہی!” عثمان نے مسکراتے ہوئے کہا۔

باب پنجم: دل کی جیت

اس میچ کے بعد عثمان اور زارا کی دوستی گہری ہوتی گئی۔ عثمان کو احساس ہوا کہ زارا کی شرارتیں اور ہنسی مذاق اس کی زندگی میں ایک نئی روشنی لے آئے تھے۔ وہ اب ہاکی کے ساتھ ساتھ زندگی کے دوسرے رنگوں سے بھی لطف اندوز ہونے لگا تھا۔

ایک دن عثمان نے زارا کو کافی پر بلایا۔ “زارا، تم نے میری زندگی بدل دی۔ تمہاری وجہ سے میں نے سیکھا کہ ہار اور جیت سے بڑھ کر زندگی میں خوشیاں ہیں۔”

زارا نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا۔ “عثمان، تم ایک شاندار کھلاڑی ہو، مگر اس سے بڑھ کر ایک اچھے انسان ہو۔ بس، کبھی کبھار ہنسی مذاق بھی کر لیا کرو!”

دونوں ہنس پڑے۔ اس دن عثمان نے فیصلہ کیا کہ وہ زارا کے ساتھ اپنی زندگی کا ایک نیا باب شروع کرے گا۔ ہاکی کا میدان اب اس کے لیے صرف کھیل کا میدان نہیں تھا، بلکہ وہ جگہ تھی جہاں اس نے اپنے دل کی جیت حاصل کی تھی۔

اختتام

عثمان اور زارا کی دوستی جلد ہی محبت میں بدل گئی۔ انہوں نے مل کر نہ صرف ہاکی کے میدان میں کامیابیاں حاصل کیں، بلکہ زندگی کے ہر میدان میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔ عثمان اب ہر میچ کے بعد زارا کی طرف دیکھتا اور مسکراتا، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس کی سب سے بڑی جیت زارا کا ساتھ تھا۔

ایک تبصرہ شائع کریں for "ہاکی اور دل کا کھیل"