واپس پلٹ آئی
ایک نیا آغاز
ایئرپورٹ کی پرشکوہ عمارت پیچھے رہ گئی تھی۔ گاڑی اب کھلی، شفاف سڑک پر رواں دواں تھی۔ سفید رنگ کی نئی ٹویوٹا کرولا کا اسٹیرنگ آمنہ کے ہاتھوں میں تھا۔ یہ گاڑی اس کے والد کے دوست کی بیٹی، زینب نے اس کے آنے سے پہلے ہی خرید کر رکھی تھی۔ آدھا گھنٹہ پہلے ہی آمنہ نے زینب کو ایک بھاری بھرکم رقم کا چیک تھمایا تھا۔
آمنہ شروع سے ہی آرام طلب طبیعت کی مالک تھی۔ لوکل بسوں اور ٹیکسیوں کے سفر سے اسے ہمیشہ نفرت رہی۔ بلکہ اس جگہ سے بھی، جہاں وہ اب اپنی مرضی سے جا رہی تھی، اسے کبھی پسند نہیں آیا تھا۔ “بھلا کیسے ممکن ہے کہ آمنہ عرفان اپنا دل بدل لے؟” برسوں پہلے حیات آباد کے مکینوں نے اس کے بارے میں جو طنزیہ باتیں کی تھیں، وہ آج بھی اس کے کانوں میں گونج رہی تھیں۔ وہ یقیناً اسے دیکھ کر اور یہ جان کر کہ آمنہ عرفان یورپ کے سحر سے آزاد ہوکر ہمیشہ کے لیے واپس آ گئی ہے، اس کا خوب مذاق اڑائیں گے۔
وہ ان تمام راستوں سے ناواقف ہونے کے باوجود ایک بار بھی نہیں بھٹکی۔ اونچے نیچے راستوں سے گزرتے ہوئے جب اس کی بے قرار نگاہیں سبز رنگ کے بورڈ سے ٹکرائیں، جس پر لکھا تھا “ڈیرہ حسن رضا”، تو اس کا دل ایک پل کے لیے دھڑکنا بھول گیا۔ وہ کئی لمحوں تک ان الفاظ کو زیر لب دہراتی رہی۔ چھ سال پہلے وہ حسن رضا سے شدید نفرت کرتی تھی، لیکن اب وہی دل اسی ایک شخص کی محبت سے لبریز تھا۔
“اگر اسے حسن سے ہی محبت کرنی تھی، تو یہ محبت چھ سال پہلے کیوں نہ جاگی؟” یہ سوال وہ پچھلے کئی مہینوں سے خود سے پوچھ پوچھ کر تھک چکی تھی۔
اسے یاد تھا کہ اسی سڑک پر پہلی بار اس کی ملاقات حسن سے ہوئی تھی۔ وہ پسینے سے شرابور، میلے کپڑوں میں ملبوس تھا۔ اس وقت آمنہ کے والد اس کے ساتھ تھے۔ والد نے ہی حسن کو دیکھ کر گاڑی رکوائی اور اسے گرم جوشی سے گلے لگایا۔ حسن نے اپنے ٹریکٹر کا انجن بند کیا اور سفید چادر سے، جو شاید دھوپ سے بچنے کے لیے اس نے سر پر لپیٹی تھی، اپنا سرخ و سفید چہرہ صاف کیا۔
“چچا جان، آپ گھر جائیں، میں ابھی آیا!” حسن نے والد سے کہا اور ایک گہری نگاہ آمنہ پر بھی ڈالی۔
آمنہ کو اس وقت شدید کوفت ہوئی تھی۔ اسے اپنا یہ کزن بالکل پسند نہیں آیا تھا۔ اسے حیات آباد کے مکینوں میں سے کوئی بھی قابل توجہ نہیں لگا تھا۔ لیکن اب، چھ سال بعد، اس کی آنکھیں بار بار نم ہو رہی تھیں۔ ایک ننھا سا وجود، اس کا بیٹا، عدنان، اس کی آنکھوں کے سامنے بار بار آتا تھا۔ وہ بے چین ہوکر گاڑی کی رفتار تیز کر دیتی۔
“تم کتنی سنگدل ماں ہو!” کوئی اس کے کان کے قریب چلایا۔ آمنہ نے اپنے سرخ، چمکیلے ہونٹوں کو بھینچ لیا۔ “میرا بچہ، میری جان، میرا عدنان!” اس کے دل میں ممتا کے سوتے پھوٹ پڑے۔ اس نے اس محبت کو اپنی نفرتوں کی بھینٹ چڑھا دیا تھا۔ اس کی دوست، صبا، نے ایک بار کہا تھا، “آمنہ، تم بہت خودغرض ہو!” اور آمنہ نے اپنی خودغرضی کو کب کا تسلیم کر لیا تھا۔
وہ خودغرض تھی، مغرور تھی، ضدی تھی، اور جذباتی تھی۔ ان تمام خصوصیات نے اسے اس مقام پر پہنچا دیا تھا جہاں پچھتاوے اسے ڈسنے لگے تھے۔ اس کی سوچوں کو اس وقت بریک لگی جب گاؤں کی حدود اور کچے پکے مکانات نظر آئے۔ حسن رضا کا وہ وسیع و عریض گھر قریب آیا، جس کے اندر بے شمار کمرے اور برآمدے تھے۔ اس کا دل نئے سرے سے دھڑکنے لگا۔
یہ گھر ڈھیروں محبتوں کو سموئے، بانہیں پھیلائے کھڑا تھا۔ لیکن چھ سال پہلے اس نے اس گھر کو ٹھوکر ماری تھی، ان محبتوں سے منہ موڑا تھا، اور آج وہ اسی دروازے پر گومگو کی کیفیت میں کھڑی تھی۔ لکڑی کا بڑا سا دروازہ بند تھا، اور آمنہ کے ہاتھ دستک دینے کے لیے اٹھ نہیں رہے تھے۔ نہ جانے کتنا وقت گزر گیا، وہ چلچلاتی دھوپ میں ہر شے سے بے نیاز کھڑی رہی۔ پھر ہمت جمع کرکے اس نے دروازے کو دھکیلا، اور وہ خود بخود کھلتا چلا گیا۔
وہ لڑکھڑاتے قدموں سے اندر بڑھی۔ اندرونی دروازے کے قریب اس کے قدم ایک بار پھر زنجیر پا ہو گئے۔ “کیا یہ لوگ مجھے قبول کریں گے؟ میری تمام نافرمانیوں، من مانیوں، اور بدتمیزیوں کے باوجود کیا وہ مجھے دوبارہ اپنائیں گے؟” یہ وہ سوال تھے جن کے جواب اسے ابھی تک نہیں ملے تھے، جب وہ یورپ میں اپنے خاندان اور عدنان کی یاد میں تڑپ رہی تھی۔
پچھلے چار مہینوں میں آمنہ مکمل طور پر بدل گئی تھی۔ اس کا دل، اس کی سوچ، اور اس کے نظریات سب بدل گئے تھے۔ وہ ماحول، جس کا وہ برسوں حصہ رہی تھی، اچانک اجنبی لگنے لگا تھا۔ وہ اپنے آشیانے کی طرف لوٹنا چاہتی تھی، لیکن کچھ مجبوریوں کی وجہ سے اسے وہاں کچھ عرصہ اور رکنا پڑا۔
اس کے والد نے بڑی محنت سے بنایا ہوا ہوٹل اور ان کا پیارا گھر بیچ کر وہ اندر سے ٹوٹ گئی تھی۔ اس گھر میں اس کی ماں کی یادیں تھیں، اس کا بچپن اور لڑکپن تھا۔ لیکن وہ صرف یادوں کے سہارے نہیں جینا چاہتی تھی۔ وہ حقیقی خوشیاں حاصل کرنے کے لیے واپس آئی تھی۔
سفر کی تھکان اس کی آنکھوں میں سمایا تھا۔ وہ اپنی نازک انگلیوں سے آنکھیں دباتے ہوئے دروازے کا ہینڈل گھمانے لگی جب اچانک اندر سے کسی نے دروازہ کھول دیا۔ یہ کوئی اور نہیں، زارا تھی، حسن کی بہن۔ زارا کی آنکھوں میں حیرت، بے یقینی، اور پھر شدید نفرت تھی۔
آمنہ نے جھجکتے ہوئے زارا کے چہرے کی طرف دیکھا۔ زارا کے چہرے پر سرخی چھلک رہی تھی، لیکن اس کی آنکھوں میں نفرت کا سمندر موجزن تھا۔ “کیا لینے آئی ہو یہاں؟” زارا نے زہریلے لہجے میں کہا۔
“م…میں… تم سب سے ملنے آئی ہوں… میرا مطلب ہے، عدنان سے…” آمنہ ہکلائی۔
“دفع ہو جاؤ یہاں سے!” زارا نے چیخ کر کہا۔ “تمہاری یہاں کوئی جگہ نہیں۔ سب تم سے نفرت کرتے ہیں۔ حسن تمہاری شکل پر تھوکے گا بھی نہیں۔ کس امید پر آئی ہو؟”
آمنہ کے گال سرخ ہو گئے، آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ “م… مجھے عدنان سے ملنے دو… بس ایک بار…” اس کی آواز لرز رہی تھی۔
“کون عدنان؟ تمہارا کوئی تعلق نہیں اس سے!” زارا غراتے ہوئے اس پر جھپٹی۔ “نکل جاؤ، ورنہ بالوں سے گھسیٹ کر باہر پھینک دوں گی!”
آمنہ کی رہی سہی ہمت بھی ٹوٹ گئی۔ وہ پلٹنے لگی جب بیرونی دروازہ کھلا اور تایا ابو، حسن کے والد، اندر آئے۔ ان کی نظر آمنہ پر پڑی، اور وہ ٹھٹک کر رک گئے۔
“آمنہ!” انہوں نے لرزتے ہوئے آواز دی اور آگے بڑھ کر اسے سینے سے لگا لیا۔ آمنہ بھی ان کے بازوؤں میں پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔ “تم نے اتنی دیر کیوں کی؟ کیوں چلی گئیں تھیں بغیر بتائے؟ ہماری محبتیں، عدنان کا وجود، اور حسن… کچھ بھی تمہیں نہ روک سکا!” تایا ابو کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہو گئی۔
“اور حسن…” آمنہ نے خوفزدہ انداز میں سر اٹھایا۔
زارا سامنے کھڑی تمسخرانہ نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ “حسن تمہاری شکل پر تھوکے گا بھی نہیں!”
دوسرا مرحلہ: ماضی کے سائے
تایا ابو نے آمنہ کو اندر لے جانے کی کوشش کی، لیکن زارا نے انہیں روکا۔ “ابو، اسے یہاں کیوں لے جا رہے ہیں؟ اس نے ہم سب کو دھوکا دیا، عدنان کو چھوڑا، اور حسن کو…!” اس کی آواز غصے سے کانپ رہی تھی۔
“زارا، بس!” تایا ابو نے سختی سے کہا۔ “یہ ہماری بہو ہے۔ اس گھر کی بیٹی ہے۔ اسے اپنے گھر آنے کا پورا حق ہے۔”
آمنہ کے دل کو کچھ سکون ملا، لیکن وہ جانتی تھی کہ زارا کی نفرت اس کے لیے مشکلات کھڑی کرے گی۔ وہ خاموشی سے تایا ابو کے پیچھے اندر چلی گئی۔ گھر وہی تھا، لیکن اس کی رونق ماند پڑ چکی تھی۔ کمروں میں وہ گرم جوشی نہیں تھی جو کبھی اس نے محسوس کی تھی۔
تایا ابو نے اسے بیٹھنے کو کہا۔ “آمنہ، بیٹا، تم یہاں کیوں آئی ہو؟ کیا ہوا جو تم واپس آ گئیں؟”
آمنہ نے ایک گہری سانس لی۔ “تایا ابو، میں… میں اپنی غلطیوں کا کفارہ دینے آئی ہوں۔ میں عدنان سے ملنا چاہتی ہوں۔ میں جانتی ہوں کہ میں نے بہت غلطیاں کیں، لیکن اب میں بدل گئی ہوں۔”
تایا ابو نے اس کی طرف دیکھا۔ ان کی آنکھوں میں کرب تھا، لیکن محبت بھی۔ “بیٹا، عدنان اب یہاں نہیں ہے۔”
آمنہ کا دل دھک سے رہ گیا۔ “کیا مطلب؟ وہ کہاں ہے؟”
“حسن اسے اپنے ساتھ لے گیا۔ وہ اب پشاور میں رہتا ہے۔ اس نے عدنان کو اپنی سرپرستی میں لے لیا ہے۔” تایا ابو نے کہا۔
آمنہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ “اور حسن… وہ مجھ سے ملے گا؟”
تایا ابو نے سر جھکایا۔ “بیٹا، حسن بہت زخمی ہے۔ تم نے اس کا دل توڑا، اس کے خواب چھین لیے۔ وہ تم سے ملنا نہیں چاہے گا۔”
آمنہ خاموش ہو گئی۔ اس کا دل درد سے بھر گیا۔ وہ جانتی تھی کہ اس نے اپنی خودغرضی میں سب کچھ تباہ کر دیا تھا۔ لیکن وہ ہار ماننے والی نہیں تھی۔
تیسرا مرحلہ: عدنان کی تلاش
اگلے دن آمنہ پشاور کے لیے روانہ ہوئی۔ اسے حسن کا پتا مل چکا تھا۔ وہ ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں رہتا تھا، جہاں وہ عدنان کی دیکھ بھال کر رہا تھا۔ آمنہ کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ وہ اپنے بیٹے سے ملنے کے لیے بے تاب تھی، لیکن حسن کے ردعمل سے خوفزدہ بھی۔
جب وہ حسن کے اپارٹمنٹ کے دروازے پر پہنچی، اس نے ہمت کرکے دستک دی۔ دروازہ حسن نے کھولا۔ اس کا چہرہ دیکھتے ہی آمنہ کے قدم لڑکھڑا گئے۔ حسن کی آنکھوں میں وہی درد تھا جو چھ سال پہلے اس نے چھوڑا تھا، لیکن اب اس میں نفرت بھی شامل تھی۔
“تم یہاں کیا کر رہی ہو؟” حسن نے سرد لہجے میں پوچھا۔
“حسن… میں عدنان سے ملنے آئی ہوں۔” آمنہ کی آواز لرز رہی تھی۔
“عدنان تمہارا بیٹا نہیں ہے۔ تم نے اسے چھوڑ دیا تھا۔ اب اس کی ماں بننے کا ڈرامہ مت کرو۔” حسن نے کہا اور دروازہ بند کرنے لگا۔
“حسن، پلیز! ایک بار… بس ایک بار اسے دیکھ لینے دو!” آمنہ نے التجا کی۔
حسن نے ایک لمحے کے لیے اس کی طرف دیکھا، پھر دروازہ کھلا چھوڑ کر اندر چلا گیا۔ آمنہ نے ہمت کرکے اندر قدم رکھا۔ وہاں، کمرے کے کونے میں، عدنان کھلونوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ اس کی معصوم آنکھیں دیکھ کر آمنہ کی سانس رکنے لگی۔ وہ اس کے قریب گئی اور اسے سینے سے لگا لیا۔
“عدنان… میرا بیٹا…” وہ روتے ہوئے بولی۔
عدنان نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔ “آپ کون ہیں؟”
یہ سوال آمنہ کے دل میں خنجر کی طرح چبھا۔ وہ خاموشی سے اسے دیکھتی رہی۔ حسن نے آگے بڑھ کر عدنان کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ “یہ کوئی نہیں ہے، عدنان۔ چلو، باہر چلتے ہیں۔”
آمنہ روتی رہی، لیکن حسن نے اسے نظر انداز کر دیا۔
چوتھا مرحلہ: معافی کی راہ
آمنہ نے فیصلہ کیا کہ وہ ہار نہیں مانے گی۔ وہ روزانہ حسن کے اپارٹمنٹ کے باہر انتظار کرتی۔ وہ عدنان کو اسکول جاتے اور واپس آتے دیکھتی، لیکن حسن اسے قریب نہیں آنے دیتا تھا۔ آمنہ نے صبر سے کام لیا۔ وہ جانتی تھی کہ اس کی غلطیوں کی سزا اسے مل رہی ہے، لیکن وہ اپنے بیٹے اور حسن کا دل جیتنا چاہتی تھی۔
ایک دن، جب حسن عدنان کو اسکول چھوڑنے گیا، آمنہ اس کے پیچھے گئی۔ “حسن، پلیز، میری بات سنو۔” اس نے کہا۔
حسن نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا۔ “تمہاری کوئی بات سننے کی ضرورت نہیں۔ تم نے سب کچھ تباہ کر دیا۔”
“میں جانتی ہوں کہ میں نے غلطیاں کیں۔ لیکن میں بدل گئی ہوں۔ میں اپنی غلطیوں کا کفارہ دینا چاہتی ہوں۔” آمنہ نے کہا، اس کی آنکھوں میں صداقت جھلک رہی تھی۔
حسن خاموش رہا۔ اس کی آنکھوں میں درد تھا، لیکن کہیں نہ کہیں ایک چھوٹی سی چنگاری بھی تھی۔ “تمہیں ثابت کرنا ہوگا کہ تم بدل گئی ہو۔” اس نے بالآخر کہا۔
پانچواں مرحلہ: نئی شروعات
آمنہ نے اپنی زندگی وقف کر دی۔ وہ روزانہ عدنان کے لیے کھانا بناتی اور اسے اسکول کے باہر چھوڑتی۔ وہ حسن کے لیے چھوٹے چھوٹے کام کرتی، جیسے اس کے کپڑوں کی استری یا گھر کی صفائی۔ حسن شروع میں اسے نظر انداز کرتا، لیکن آہستہ آہستہ اس کا دل پگھلنے لگا۔
عدنان بھی آمنہ سے مانوس ہونے لگا۔ وہ اسے “امی” کہنے لگا، اور آمنہ کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ جاتے۔ ایک دن، جب آمنہ عدنان کو کہانی سنا رہی تھی، حسن خاموشی سے دروازے پر کھڑا انہیں دیکھ رہا تھا۔ اس کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔
“تم واقعی بدل گئی ہو، آمنہ۔” اس نے کہا۔
آمنہ نے سر اٹھایا۔ “حسن، میں نے اپنی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ میں صرف اپنے بیٹے اور تمہارا ساتھ چاہتی ہوں۔”
حسن نے ایک گہری سانس لی۔ “یہ آسان نہیں ہوگا۔ لیکن… شायद ہم ایک نئی شروعات کر سکتے ہیں۔”
اختتام
وقت گزرتا گیا۔ آمنہ، حسن، اور عدنان ایک بار پھر ایک خاندان بن گئے۔ زارا نے بھی آہستہ آہستہ آمنہ کو قبول کر لیا۔ آمنہ نے اپنی خودغرضی اور مغروریت کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ اس نے سیکھا تھا کہ محبت اور معافی زندگی کے سب سے بڑے خزانے ہیں۔
حیات آباد کا وہ گھر ایک بار پھر محبتوں سے بھر گیا۔ آمنہ اب ہر صبح عدنان کو اسکول کے لیے تیار کرتی اور حسن کے ساتھ مل کر گھر کے کام سنبھالتی۔ اس نے اپنی زندگی کا مقصد پا لیا تھا—اپنے خاندان کی خوشی۔
اخلاقی سبق
یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ غلطیوں سے سیکھنا اور معافی مانگنا کمزوری نہیں، بلکہ طاقت ہے۔ زندگی ہمیں دوسرا موقع دیتی ہے، اور اگر ہم خلوص سے اپنی غلطیوں کا کفارہ دینے کی کوشش کریں، تو ہم اپنی کھوئی ہوئی خوشیاں واپس پا سکتے ہیں۔
ایک تبصرہ شائع کریں for "واپس پلٹ آئی"