دل کی عدالت میں
پہلا مرحلہ: نفرت کا زہر
سہیلہ پارک کی سنسان بینچ پر بیٹھی اپنے خیالات میں گم تھی۔ اس کے دل میں نفرت کا لاوا ابل رہا تھا۔ “مجھے اس عورت سے نفرت ہے، اس کے بچوں سے شدید نفرت ہے… اور اب تو مجھے اپنے آپ سے بھی نفرت ہونے لگی ہے۔” اس نے کرب سے سوچا۔ آنسو اس کے گالوں سے لڑھکتے ہوئے گردن تک پہنچ گئے۔
“جب انسان انسانیت سے گرتا ہے، تو کیا محسوس کرتا ہے؟ اور جب کسی کی نظر سے گرتا ہے، تو اس پر کیا گزرتی ہے؟” اس نے سر جھکائے سوچا۔ اس نے تھک کر بینچ کی پشت سے ٹیک لگائی۔ “وہ خود کو اندھی کھائی میں گرتا محسوس کرتا ہے، یا پھر ضمیر کی عدالت میں صفائیاں پیش کرتا ہے؟”
“ضمیر کی عدالت…” وہ بڑبڑائی۔ “یہ بڑی سخت عدالت ہوتی ہے، جہاں مجرم خود اپنی سزا تجویز کرتا ہے۔ کیا کوئی اپنے ہاتھوں اپنے گلے میں پھانسی کا پھندا ڈال سکتا ہے؟” اس نے ہتھیلیوں سے آنسو پونچھے۔
دھند کی وجہ سے پارک کا منظر دھندلا تھا۔ ہر چیز اداس تھی، بالکل سہیلہ کی طرح۔ اس نے ہمت کرکے اٹھنے کی کوشش کی، لیکن اس کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں—نہ سردی کی وجہ سے، بلکہ اس بوجھ کی وجہ سے جو اس کے دل پر تھا۔ اس کی سانس دھونکنی کی طرح چل رہی تھی، لیکن وہ اسے قابو نہ کر سکی۔ اس نے دائیں ہاتھ سے ٹٹولتے ہوئے منرل واٹر کی بوتل اٹھائی اور منہ سے لگا لی۔ پھر بائیں ہاتھ کی مٹھی کھول کر تین چار گولیاں نکالیں اور نگل لیں۔
“میں نے ساری زندگی کیا کیا؟” اس کے ذہن میں ایک فلم چلنے لگی۔ آنکھیں بند کرکے اس نے سر جھٹکنا شروع کیا۔ وہ کچھ سوچنا نہیں چاہتی تھی، لیکن خیالات تھمنے کا نام نہ لے رہے تھے۔ “میں نے صرف نفرت کی…” اس نے سوچا، اور پھر اچانک اسے یاد آیا کہ اس نے کسی سے محبت بھی تو کی تھی۔
威
آنسوؤں سے اس کا چہرہ تر ہو گیا۔ “ہاں، میں نے عادل سے محبت کی تھی۔” وہ ہذیانی انداز میں چیخی اور پھر دھاڑیں مار کر رونے لگی۔ رات کے دو بجے پارک سنسان تھا۔ اس نے دور تک سناٹوں کو محسوس کیا اور ایک بار پھر اٹھنے کی کوشش کی۔ اس بار وہ کامیاب ہوئی، لیکن اگلے ہی لمحے لڑکھڑاتی ہوئی سرد گھاس پر گر پڑی۔ اس کے منہ سے سفید جھاگ نکل رہا تھا، اس کی ٹانگیں بے جان ہو گئیں، اور شاید اس کا جسم بھی۔
دوسرا مرحلہ: ایک نئی صبح
اگلی صبح عطیہ کے لیے ایک نیا ہنگامہ لے کر آئی۔ وہ جلدی اٹھنے والی تھی، لیکن آج نہ جانے کیوں اس کی آنکھ دیر سے کھلی۔ سورج چمک رہا تھا۔ وہ اچھل کر واش روم کی طرف بھاگی، منہ پر پانی کے چھینٹے مارے، اور تولیے سے چہرہ تھپتھپایا۔ اس کے بچے، ایان اور زارا، ابھی سو رہے تھے۔ اسے کچھ سکون ملا۔ اس نے عادل کے کندھے ہلائے اور اسے باتھ روم کی طرف دھکیلا۔
کچن میں آکر اس نے چائے کا پانی چولہے پر رکھا اور فریج سے آٹا نکالنا چاہا، لیکن برتن خالی تھا۔ شدید کوفت میں اس نے بریڈ کا پیکٹ نکالا اور ٹوسٹر آن کیا۔ تبھی عادل کی آواز آئی، “عطیہ! میرا تولیہ کہاں ہے؟” وہ باتھ روم سے گرج رہا تھا۔ عطیہ نے گھبرا کر بچوں کی طرف دیکھا، پھر تلملاتے ہوئے تولیہ اس کے ہاتھ میں تھمایا۔
عادل “جلدی جلدی” کی رٹ لگائے جا رہا تھا، جو عطیہ کو بوکھلا دیتا تھا۔ ہر کام، جو ڈیڑھ منٹ میں ہونا چاہیے تھا، الٹ پلٹ ہو کر دس منٹ لے لیتا۔ عادل کی خفگی عروج پر پہنچ جاتی، اور سارا نزلہ عطیہ پر گرتا۔ اس نے اپنی غلطی کبھی تسلیم نہیں کی۔
عادل نیلی شرٹ کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا۔ عطیہ کا سانس حلق میں اٹک گیا۔ “عادل، وقت کم ہے، لیٹ ہو جائیں گے۔ جلدی چینج کرو اور ناشتہ کر لو۔” اس نے اس کا دھیان شرٹ سے ہٹانا چاہا۔ تبھی اسے چولہے پر رکھی چائے یاد آئی۔ وہ کچن کی طرف جانے لگی جب عادل نے جھنجھلا کر شرٹ صوفے پر پھینکی۔
“وہ سفید لائن والی شرٹ پریس کر دو۔ تم جانتی ہو کہ مجھے یہ رنگ ناپسند ہے!” اس نے کہا۔
“آج یہی پہن لو۔ رات کو میں نے آدھی بند آنکھوں سے تمہارے کپڑے استری کیے تھے۔ ابھی ناشتہ بھی بنانا ہے۔” عطیہ نے ڈرتے ہوئے کہا۔ عادل نے اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورا، ٹیبل کو ٹھوکر ماری، شرٹ اٹھائی، اور استری اسٹینڈ کی طرف بڑھ گیا۔
“انتہائی ضدی شخص ہے!” عطیہ نے منہ ہی منہ میں بدبدایا اور ناشتہ لگانے لگی۔ پندرہ منٹ بعد عادل تیار ہو کر کمرے سے نکلا۔ عطیہ پر نظر پڑتے ہی اس نے ایک خطرناک گھوری پھینکی۔
“ناشتہ تو کر لو۔” عطیہ نے کہا۔
تیسرا مرحلہ: ماضی کا بوجھ
عطیہ کی زندگی عادل کے غصے اور اس کی اپنی نفرتوں کے سائے میں گزر رہی تھی۔ وہ عادل سے محبت کرتی تھی، لیکن اس کی ایک سابقہ بیوی، آمنہ، اور اس کے بچوں سے اسے شدید نفرت تھی۔ آمنہ عادل کی زندگی سے جا چکی تھی، لیکن اس کی یادیں اور اس کے بچوں کی موجودگی عطیہ کے دل میں زہر بھرتی تھی۔
ایک دن، جب عادل دفتر چلا گیا، عطیہ گھر میں اکیلی تھی۔ ایان اور زارا اسکول گئے تھے۔ اس نے خاموشی سے گھر کے ایک کونے میں پڑی آمنہ کی پرانی تصاویر نکالیں۔ وہ تصاویر دیکھ کر اس کا خون کھولنے لگا۔ “یہ عورت میری زندگی کا زہر ہے۔ اس کے بچوں نے میری خوشیاں چھین لیں۔” اس نے سوچا۔
لیکن پھر اس کا دل ڈوبنے لگا۔ “کیا میں واقعی ایسی ہوں؟ کیا میری نفرت نے مجھے اندھا کر دیا ہے؟” اس نے تصاویر واپس رکھیں اور سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔ اسے اپنی نفرت سے نفرت ہونے لگی تھی۔
اس رات، جب عادل گھر آیا، عطیہ نے اس سے بات کرنے کی کوشش کی۔ “عادل، ہمیں آمنہ اور اس کے بچوں کے بارے میں بات کرنی چاہیے۔”
عادل نے سخت لہجے میں کہا، “اس موضوع کو چھیڑو مت، عطیہ۔ وہ میری ماضی ہے، اور تم میری حال۔ بس اسے بھول جاؤ۔”
لیکن عطیہ بھول نہیں پا رہی تھی۔ اس کی نفرت اسے کھوکھلا کر رہی تھی۔
چوتھا مرحلہ: پارک کا واقعہ
ایک رات، جب گھر میں عادل کے ساتھ ایک اور جھگڑا ہوا، عطیہ رات کے دو بجے پارک چلی گئی۔ وہی پارک جہاں کہانی شروع ہوئی تھی۔ وہ بینچ پر بیٹھی، اپنی نفرت اور پچھتاوے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اس نے گولیاں نگل لیں، اور اس کا جسم بے جان ہو گیا۔
صبح جب اسے ہسپتال لے جایا گیا، ڈاکٹروں نے اس کی جان بچائی۔ وہ ہوش میں آئی تو اس کے پاس عادل تھا۔ اس کی آنکھوں میں پریشانی تھی، لیکن محبت بھی۔ “عطیہ، تم نے یہ کیا کیا؟” اس نے پوچھا۔
عطیہ خاموش رہی۔ اسے اپنی نفرت کا وزن محسوس ہو رہا تھا۔ “عادل، میں تھک گئی ہوں… اپنی نفرت سے، اپنی حسد سے۔” اس نے کہا۔
عادل نے اس کا ہاتھ تھاما۔ “ہم مل کر اسے ٹھیک کر لیں گے۔”
پانچواں مرحلہ: تبدیلی کا سفر
ہسپتال سے واپسی کے بعد عطیہ نے اپنی زندگی کو بدلنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے ایک تھراپسٹ سے ملنا شروع کیا۔ اس نے اپنی نفرت کو سمجھنا شروع کیا۔ اسے احساس ہوا کہ اس کی نفرت آمنہ یا اس کے بچوں سے نہیں، بلکہ اس کی اپنی غیر محفوظی سے تھی۔
اس نے عادل سے کھل کر بات کی۔ “عادل، میں تم سے محبت کرتی ہوں، لیکن آمنہ اور اس کے بچوں سے نفرت نے مجھے تباہ کر دیا۔ میں اب انہیں قبول کرنا چاہتی ہوں۔”
عادل نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔ “عطیہ، یہ آسان نہیں ہوگا۔ لیکن اگر تم تیار ہو، تو میں تمہارے ساتھ ہوں۔”
عطیہ نے آمنہ کے بچوں سے ملنا شروع کیا۔ وہ ایان اور زارا کے ساتھ وقت گزارتی، ان سے بات کرتی۔ آہستہ آہستہ اس کی نفرت محبت میں بدلنے لگی۔ وہ ان بچوں میں عادل کی جھلک دیکھتی تھی، اور اسے سکون ملتا تھا۔
ایک دن، عطیہ نے آمنہ کو فون کیا۔ “آمنہ، میں تم سے معافی مانگتی ہوں۔ میں نے تم سے نفرت کی، لیکن اب میں اپنی غلطی سمجھ گئی ہوں۔”
آمنہ خاموش رہی، پھر بولی، “عطیہ، ہم سب غلطیاں کرتے ہیں۔ لیکن معافی مانگنا بڑا دل چاہتا ہے۔”
چھٹا مرحلہ: دل کی عدالت میں سکون
وقت گزرتا گیا۔ عطیہ نے اپنی نفرت کو محبت سے بدل دیا۔ وہ ایان اور زارا کی ماں نہ سہی، لیکن ان کی دوست بن گئی۔ عادل اس کی تبدیلی سے خوش تھا۔ ان کا گھر اب نفرت کی بجائے محبت سے بھر گیا تھا۔
عطیہ اب ہر صبح ایان اور زارا کے ساتھ ناشتہ کرتی۔ وہ ان کے اسکول کے واقعات سنتی، ان کے ساتھ ہنستی۔ اس نے اپنے ضمیر کی عدالت میں خود کو معاف کر دیا تھا۔
ایک دن، جب وہ پارک میں بیٹھی تھی، وہی پارک جہاں اس نے اپنی زندگی ختم کرنے کی کوشش کی تھی، اس نے آسمان کی طرف دیکھا۔ “میں نے نفرت کو جیتنے دیا تھا، لیکن اب محبت جیت گئی۔” اس نے مسکراتے ہوئے سوچا۔
اخلاقی سبق
یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ نفرت ایک زہر ہے جو دل اور ضمیر کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔ لیکن معافی مانگنا اور محبت کو قبول کرنا انسان کو دوبارہ زندہ کر سکتا ہے۔ جب ہم اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہیں اور تبدیلی کی طرف قدم بڑھاتے ہیں، تو ہم اپنے دل کی عدالت میں سکون پا سکتے ہیں۔
ایک تبصرہ شائع کریں for "دل کی عدالت میں"