سرما کی نرم گرم دھوپ نے آنگن میں ڈیرہ جما لیا تھا۔ نکھرا ستھرا آسمان کچھ زیادہ ہی پیارا لگ رہا تھا۔ جھاگ کی مانند بڑے بڑے سفید بادل نیلے افق پر پھیلے ہوئے تھے، گویا کوئی خوابناک منظر پیش کر رہے ہوں۔ چھت پر دیوار کے ساتھ کین کی کرسی رکھی تھی، جہاں عادل بیٹھا چائے سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ سامنے میز پر اخبار پھیلا ہوا تھا۔ چڑیوں کی چہچہاہٹ فضا میں گونج رہی تھی۔ آج اتوار تھا، اور کچھ فراغت کا وقت بھی میسر تھا۔
"اتنا خرچہ کرا دیا! بھلا اس صورت کے ساتھ کون پسند کرے گا تجھے؟ مگر یہ بات تیرے بھائی کی سمجھ میں نہیں آتی۔ آئے دن کسی نہ کسی رشتے والے کو لے آتے ہیں۔ اس پر نئی نئی فرمائشیں! کمر تختہ ہو گئی میری۔ اب کھڑی اپنی رونی منحوس صورت کا ماتم نہ کرتی رہنا! جلدی سارا کچن سمیٹ کر نیچے آؤ، کپڑوں کا ڈھیر رکھا ہے دھونے کے لیے!" ایک اٹی پاٹ دار، بھدی آواز نے عادل کی سماعت کو جھنجھوڑا۔ یہ آواز دیوار کے پار سے آ رہی تھی۔
عادل چند روز قبل ہی اس نئے مکان میں منتقل ہوا تھا، اور یہ آواز گویا روز کا معمول بن چکی تھی۔ جانے کیا مسئلہ تھا اس عورت کے ساتھ، جو ہر وقت چیختی چلاتی رہتی تھی۔ کبھی بچوں پر برس رہی ہوتی، کبھی برتنوں کو زور زور سے پٹخ رہی ہوتی۔ مگر عادل کو لگتا تھا کہ اس کے غصے کا زیادہ تر نشانہ ایک لڑکی بنتی تھی، جس کا نام ثانیہ تھا۔ وہ گرج برس کر جا چکی تھی، اور اب ثانیہ کی دبی دبی سسکیاں سنائی دے رہی تھیں۔
عادل کچھ بے چین ہو اٹھا۔ دل چاہ رہا تھا کہ اٹھ کر دیوار کے پار دیکھے کہ آخر کیا بات ہے۔ اس لڑکی میں ایسی کیا کمی تھی؟ اس کا دل شدت سے چاہ رہا تھا کہ وہ ثانیہ کو دیکھے، کہ وہ کتنی بدصورت ہے، کیونکہ اس کی ماں ہر بار اس کے رشتے کے مسترد ہونے کی وجہ اس کی صورت کو قرار دیتی تھی۔
وہ کرسی سے اٹھا، لیکن پھر رک گیا۔ "نہیں، یہ بہت ہی معیوب اور غیر اخلاقی حرکت ہوگی۔" اس نے دل کو سمجھا کر بہلا لیا، مگر دیوار کے پار کی بن بادل برسات نے اسے بے چین رکھا تھا۔
ادھر ثانیہ کچن سمیٹ کر برتن دھونے کے بعد باہر نکلی تو ایک مخصوص خوشبو کا جھونکا اس کے نتھنوں سے ٹکرایا۔ اتنی دلکش اور معطر خوشبو نے جیسے اس کے اندر کے بوجھل پن کو زائل کر دیا۔ وہ کتنی ہی دیر کھڑی اس خوشبو کو اپنی سانسوں میں اتارتی رہی۔ یہ کسی مردانہ پرفیوم کی خوشبو تھی۔ ثانیہ نے اکثر اس خوشبو کو دیوار کے پار محسوس کیا تھا۔
"لگتا ہے یہ بندہ پرفیوم کی پوری بوتل ہی خود پر انڈیل لیتا ہے،" وہ اکثر یہ بات سوچتی اور پھر مسکرا دیتی۔
کہانی کا تسلسل
عادل کی بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ ہر روز صبح چھت پر بیٹھتا، چائے کا کپ ہاتھ میں پکڑتا، اور دیوار کے پار سے آنے والی آوازوں کو سنتا۔ ثانیہ کی ماں، جو شاید اس کی سوتیلی ماں تھی، ہر روز اسے کوئی نہ کوئی طعنہ دیتی۔ کبھی اس کی شکل پر، کبھی اس کے کام پر، اور کبھی اس کے رشتوں پر۔ عادل نے کبھی ثانیہ کو نہیں دیکھا تھا، لیکن اس کی سسکیوں اور دبی آوازوں سے وہ ایک حساس اور نازک دل لڑکی کی تصویر بناتا تھا۔
ایک صبح، جب دھوپ پھر سے آنگن میں پھیل رہی تھی، عادل نے فیصلہ کیا کہ وہ اس معمے کو حل کرے گا۔ وہ اپنی چھت سے اترا اور پڑوسیوں کے گھر کی طرف چلا۔ اس نے سوچا کہ کوئی بہانہ بنا کر ان سے ملاقات کرے۔ اس نے ایک چھوٹی سی ٹوکری میں کچھ پھل رکھے اور پڑوسیوں کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔
دروازہ ایک نوجوان لڑکی نے کھولا۔ اس کی بڑی بڑی آنکھیں، ہلکا سا گندمی رنگ، اور سادہ سے کپڑوں میں لپٹی ہوئی ایک معصوم سی لڑکی۔ عادل ایک لمحے کے لیے سکتے میں آ گیا۔ "یہ… یہ ثانیہ ہے؟" اس نے دل میں سوچا۔ وہ بالکل ویسی نہیں تھی جیسا اس کی ماں بیان کرتی تھی۔ اس کی سادگی اور آنکھوں میں چھپا درد عادل کے دل کو چھو گیا۔
"جی، آپ کون؟" ثانیہ نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا۔
"میں… میں عادل ہوں، آپ کا نیا پڑوسی۔ بس سوچا کہ ملاقات کر لوں، یہ پھل لائے ہیں آپ کے لیے،" عادل نے ہکلاتے ہوئے کہا۔
ثانیہ نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ پھل لے لیے۔ "شکریہ، بہت مہربانی۔"
اسی وقت ثانیہ کی ماں، رخسانہ بیگم، باہر آئیں۔ "ارے، یہ کون ہے؟" انہوں نے تیز آواز میں پوچھا۔
"اماں، یہ ہمارے نئے پڑوسی ہیں، عادل صاحب۔ پھل لائے ہیں،" ثانیہ نے نرمی سے کہا۔
رخسانہ بیگم نے عادل کو سر سے پاؤں تک دیکھا اور پھر ایک سرد سی مسکراہٹ دی۔ "اچھا، بہت اچھا۔ لیکن ثانیہ، تم کھڑی کیا کر رہی ہو؟ جلدی اندر آؤ، کام پڑا ہے!"
ثانیہ نے معذرت خواہانہ نظروں سے عادل کی طرف دیکھا اور اندر چلی گئی۔ عادل واپس اپنے گھر آیا، لیکن اس کی آنکھوں کے سامنے ثانیہ کا چہرہ گھوم رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ آخر اس لڑکی کو کیوں اتنا طعنہ دیا جاتا ہے۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ثانیہ کی مدد کرے گا۔
کچھ دنوں بعد، محلے میں ایک چھوٹی سی تقریب ہوئی، جہاں عادل اور ثانیہ کی دوبارہ ملاقات ہوئی۔ عادل نے دیکھا کہ ثانیہ اپنی ماں کے سخت رویے کے باوجود ہر ایک سے نرمی سے پیش آتی تھی۔ اس نے ثانیہ سے بات شروع کی اور جانا کہ وہ پڑھائی میں بہت اچھی تھی، لیکن اس کی ماں اسے گھر کے کاموں میں الجھا کر رکھتی تھی۔
"ثانیہ، تم پڑھائی کیوں نہیں جاری رکھتیں؟" عادل نے ایک دن پوچھا جب وہ دونوں چھت پر آمنے سامنے تھے، صرف ایک دیوار کے فاصلے پر۔
"بھائی کہتے ہیں کہ میری شادی ہو جانی چاہیے۔ اماں کہتی ہیں کہ میری صورت ایسی نہیں کہ کوئی پسند کرے۔ بس اسی لیے…" ثانیہ کی آواز بھاری ہو گئی۔
عادل کا دل پسیج گیا۔ "ثانیہ، تم بالکل ویسی نہیں ہو جیسا تمہاری اماں کہتی ہیں۔ تمہاری خوبصورتی تمہارے دل میں ہے، اور یہ کوئی بھی دیکھ سکتا ہے۔"
ثانیہ شرما گئی، لیکن اس کی آنکھوں میں ایک چمک آ گئی۔ وقت گزرتا گیا، اور عادل اور ثانیہ کی دوستی بڑھتی گئی۔ عادل نے ثانیہ کو حوصلہ دیا کہ وہ اپنی پڑھائی دوبارہ شروع کرے۔ اس نے اپنے ایک دوست کے ذریعے ثانیہ کو ایک مقامی کالج میں داخلہ دلوانے میں مدد کی۔
ایک دن، جب ثانیہ کی ماں نے پھر سے اسے طعنہ دیا، عادل نے ہمت کر کے رخسانہ بیگم سے بات کی۔ "بیگم صاحبہ، ثانیہ بہت قابل لڑکی ہے۔ اسے پڑھنے کا موقع دیں۔ وہ اپنا مستقبل خود بنا سکتی ہے۔"
رخسانہ بیگم پہلے تو ناراض ہوئیں، لیکن جب عادل نے انہیں سمجھایا کہ ثانیہ کی تعلیم اس کے لیے بہتر رشتے لا سکتی ہے، وہ کچھ نرم پڑ گئیں۔
وقت کے ساتھ، ثانیہ نے اپنی تعلیم مکمل کی اور ایک اچھی نوکری حاصل کی۔ اس کی خود اعتمادی بڑھ گئی، اور اس کی ماں کا رویہ بھی بدلنے لگا۔ عادل اور ثانیہ کی دوستی محبت میں بدل گئی۔ ایک دن، عادل نے ثانیہ سے اپنے دل کی بات کہہ دی۔
"ثانیہ، میں تمہیں اسی دن سے پسند کرتا ہوں جب سے تم نے وہ پھل لے کر مسکرایا تھا۔ کیا تم میرے ساتھ اپنی زندگی بانٹنا چاہو گی؟"
ثانیہ کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔ "عادل، تم نے مجھے وہ خود اعتمادی دی جو میں نے کبھی سوچی بھی نہ تھی۔ ہاں، میں تمہارے ساتھ ہر پل گزارنا چاہتی ہوں۔"
رخسانہ بیگم نے کچھ ہچکچاہٹ کے بعد رشتہ قبول کر لیا، کیونکہ وہ جان گئی تھیں کہ عادل ایک سچا اور خیال رکھنے والا انسان ہے۔ دونوں کی شادی ایک سادہ مگر خوبصورت تقریب میں ہوئی۔ چھت پر وہی کین کی کرسی اب بھی موجود تھی، جہاں عادل اور ثانیہ اکثر بیٹھ کر چائے پیتے اور اپنی محبت بھری باتوں سے آنگن کو گونجدار بناتے۔
دیوار کے پار کی سسکیاں اب مسکراہٹوں میں بدل گئی تھیں، اور دھوپ بھرا وہ آنگن محبت کی خوشبو سے معطر ہو گیا تھا۔
ایک تبصرہ شائع کریں for "دل کے پاروس"