"اماں، کیا سنا آپ نے؟ شازیہ آپا چاند رات کو نکاح کرنا چاہتی ہیں! ہم اتنی جلدی بھلا کیسے انتظامات کر پائیں گے؟ رمضان کے دنوں میں تو ویسے بھی تیاریاں مشکل ہوتی ہیں۔ ان کو تو عادت ہے ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی۔ سو بکھیڑے ہوتے ہیں، اب بھلا یوں منہ اٹھا کر نکاح کے دو بول تو نہیں پڑھوا دیں گے ناں؟ لاکھ جھنجھٹیں ہوتی ہیں۔ میرے تو ہاتھ پاؤں پھولے جا رہے ہیں۔ آپ منع کر دیں ان کو کہ ہمیں نکاح نہیں کرنا اتنی جلدی!" ثمینہ بیگم جب سے شازیہ بیگم کا ارادہ سن چکی تھیں، تب سے ساس کے سامنے کھڑی جھنجھلاہٹ کا اظہار کر رہی تھیں۔
"ارے ثمینہ، تم کیوں اتنا گھبرا رہی ہو؟ کوئی بڑا پروگرام تھوڑی رکھنا ہے۔ دھوم دھڑکا اور شور شرابہ شادی پر کر لیں گے، بس گھر کے لوگوں کے سامنے نکاح ہو جائے گا،" زبیدہ بیگم نے نرمی سے بہو کو سمجھایا۔
"چھوٹی ہو یا بڑی، اماں، تقریب تو تقریب ہوتی ہے ناں! بیٹی کے معاملات میں ویسے بھی سو پریشانیاں نکل آتی ہیں اور..." ثمینہ بیگم کی بات ادھوری رہ گئی جب کمرے میں ایک ہلچل سی مچ گئی۔ دروازے پر کھڑی ایک پڑوسی خاتون، رخسانہ، نے اندر جھانکتے ہوئے کہا، "زبیدہ بیگم، یہ کیا سن رہی ہوں؟ شازیہ چاند رات کو نکاح کی بات کر رہی ہیں؟ واہ، یہ تو بڑی دلچسپ بات ہے!"
"کیا ہو گیا، بیگم؟" اسی وقت مراد صاحب کمرے میں داخل ہوئے اور حواس باختہ ثمینہ بیگم کو دیکھ کر سوال کیا۔
"ارے بھئی، ہونا کیا ہے؟ آپ کی بہن کو تو عادت ہے شوشے چھوڑنے کی۔ اب کہہ رہی ہیں کہ چاند رات کو عائشہ اور زید کا نکاح کر دیا جائے!" ثمینہ نے جھنجھلاتے ہوئے کہا۔
"ارے بھئی، تو اس میں اتنا پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ تم گھر میں اکیلی تو نہیں ہو۔ رمشا ہے، حنا ہے..." مراد صاحب نے بات مکمل کرنے کی کوشش کی۔
"چپ کریں آپ! حنا کا نام اس موقع پر نہ لیں تو بہتر ہے۔ ایک تو آپا نے دماغ خراب کر دیا، اوپر سے آپ بھی! کر لوں گی میں سب کچھ خود ہی!" حنا کا نام سن کر ثمینہ بیگم کا غصہ مزید بھڑک اٹھا۔ وہ تنتناتی ہوئی کمرے سے نکل گئیں۔ زبیدہ بیگم اور مراد صاحب تاسف سے انہیں دیکھتے رہ گئے۔
زبیدہ بیگم اپنے تین بچوں—مراد، شازیہ، اور وسیم—کے ساتھ آبائی گھر میں رہتی تھیں۔ ان کے شوہر کا انتقال ہو چکا تھا۔ ان کی زمینیں اور ایک چھوٹا سا کاروبار تھا، جو مراد اور وسیم نے مل کر سنبھال لیا تھا۔ شازیہ نے انٹرمیڈیٹ پاس کیا تو ان کی شادی کر دی گئی، اور وہ اپنے شوہر عمران کے ساتھ دوسرے شہر منتقل ہو گئیں۔
مراد کی شادی ثمینہ بیگم سے اور وسیم کی شادی رمشا سے ہوئی۔ شازیہ کے دو بیٹوں، زید اور عامر، اور ایک بیٹی، عائشہ، تھی۔ مراد کے ایک بیٹے، اویس، اور بیٹی، عائشہ، تھی، جبکہ وسیم کی بیٹی حنا تھی۔ گھر پر زبیدہ بیگم کی مکمل حکمرانی تھی، لیکن شازیہ کی اچانک واپسی اور چاند رات کو نکاح کا اعلان نے گھر میں ہلچل مچا دی تھی۔
اگلے دن، جب گھر والے ناشتے کی میز پر جمع تھے، شازیہ نے اپنی بات کو مزید دلچسپ بنا دیا۔ "اماں، میں نے سوچا ہے کہ نکاح سادہ رکھیں گے، لیکن عائشہ اور زید کے لیے ایک چھوٹی سی تقریب کے بعد ہم سب مل کر چاند رات کی سیر کو نکلیں گے۔ شہر کی روشنیوں میں چاند دیکھنا، کتنا خوبصورت ہوگا!"
ثمینہ بیگم نے سر پکڑ لیا۔ "شازیہ آپا، آپ کے خیالات تو بس ایک کے بعد ایک آتے ہیں! اب یہ سیر کی بات کہاں سے آ گئی؟"
زبیدہ بیگم مسکرائیں۔ "ثمینہ، اس میں کیا برائی ہے؟ چاند رات ہے، عید کا رنگ ہے۔ نکاح کے بعد سب مل کر گھوم آئیں گے۔ بس تم اپنا غصہ ٹھنڈا کرو۔"
اسی وقت حنا کمرے میں داخل ہوئی، ہاتھ میں ایک رنگین ڈائری پکڑے۔ "اماں، آپ سب کیا پلان کر رہے ہیں؟ اگر چاند رات کو تقریب رکھنی ہے تو میں عائشہ کے لیے ایک خاص ڈیزائن بناتی ہوں۔ میں نے کچھ نئے جوڑوں کے ڈیزائن دیکھے ہیں، جو اس موقع کو یادگار بنا دیں گے!"
ثمینہ نے حنا کی طرف دیکھا اور پھر ایک گہری سانس لی۔ "حنا، تم تو بس اپنی ڈیزائننگ میں لگی رہتی ہو۔ چلو، اگر تم مدد کرنا چاہتی ہو تو ٹھیک ہے، لیکن کوئی ہنگامہ نہیں چاہیے!"
شازیہ نے ہنستے ہوئے کہا، "دیکھا، ثمینہ؟ سب مل کر کر لیں گے۔ بس عائشہ اور زید کی خوشی کے لیے یہ سب کچھ ہے۔"
گھر میں تیاریوں کی ہلچل شروع ہو گئی۔ حنا نے عائشہ کے لیے ایک خوبصورت لہنگا ڈیزائن کیا، جبکہ رمشا نے کھانوں کا مینو ترتیب دیا۔ مراد صاحب نے اپنے کاروباری دوستوں سے چند اضافی وسائل کا بندوبست کیا تاکہ تقریب سادہ لیکن پر وقار ہو۔ زبیدہ بیگم سب کو ہدایت دیتی رہیں، اور شازیہ اپنی منفرد تجاویز سے سب کو حیران کرتی رہی۔
چاند رات آئی تو گھر روشنیوں سے جگمگا رہا تھا۔ عائشہ اور زید کا نکاح گھر کے صحن میں ہوا، جہاں چند قریبی رشتہ دار اور دوست جمع تھے۔ نکاح کے بعد، سب مل کر شہر کی سیر کو نکلے۔ چاند کی چاندنی میں شہر کی گلیاں اور بھی خوبصورت لگ رہی تھیں۔ ثمینہ بیگم، جو پہلے پریشان تھیں، اب سب کے ساتھ ہنستی مسکراتی گاڑی میں بیٹھی تھیں۔
"شازیہ آپا، آپ کے شوشے کبھی کبھی اچھے بھی ہوتے ہیں،" ثمینہ نے ہنستے ہوئے کہا۔
شازیہ نے آنکھ ماری اور کہا، "دیکھا، میں نے کہا تھا نا، سب ٹھیک ہو جائے گا!"
دونوں بہوئیں زبیدہ بیگم کے ہر حکم کی تعمیل کرتی تھیں۔ آپس میں کوئی رنجش یا چپقلش نہ تھی۔ بچے، بڑے، سب مل جل کر پیار سے رہتے تھے۔ گھر کے فیصلے زبیدہ بیگم ہی کرتی تھیں۔ کبھی کبھار شازیہ بیگم بھی آ جاتیں تو مہینہ بھر قیام کرتیں، اور گھر میں رونق بڑھ جاتی۔ بچوں کو پھوپھو کے آنے کی خوشی دوبالا ہو جاتی۔ چھٹیوں کے دنوں میں تو گویا چار چاند لگ جاتے، سب مل کر خوب لطف اندوز ہوتے۔ اگر کبھی لڑائی ہوتی بھی تو فوراً صلح ہو جاتی۔ ایک بار یوں ہی شازیہ بیگم آئیں۔ شام کے وقت سب لوگ گھر کے وسیع صحن میں بیٹھے تھے۔ رمشا چائے بنا لائی تھی۔ سب چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ وہیں تھوڑے فاصلے پر بچے مختلف کھیلوں میں مصروف تھے، ایک دوسرے سے تکرار بھی کر رہے تھے اور ایک دوسرے کی طرفداری بھی۔
"بھابی، مراد بھائی، میری ایک خواہش ہے،" شازیہ بیگم نے چائے کا گھونٹ لے کر بڑے بھائی اور بھابی کو مخاطب کیا۔
"کیا بات ہے، آپا؟ بولیں ناں!" ثمینہ بیگم نے بسکٹ کی پلیٹ ساس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
"میں چاہتی ہوں کہ زید کی دلہن حنا کو بناؤں اور عامر کی عائشہ کو۔ یہ میری خواہش ہے۔ مراد، رمشا، اور اماں، آپ لوگ کیا کہتے ہیں؟" شازیہ نے بات مکمل کر کے سب کو باری باری دیکھا۔
"یہ تو بہت اچھی بات ہے، آپا! گھر کے رشتے گھر میں ہی رہ جائیں تو رشتوں میں مزید مضبوطی آتی ہے۔ یہ تو ہمارے اپنے بچے ہیں!" ثمینہ بیگم نے خوش دلی سے کہا۔
"کیوں، اماں؟" مراد نے زبیدہ بیگم کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"بہت اچھا فیصلہ ہے۔ ایسی سوچ سے تم نے عقلمندی کا ثبوت دیا ہے۔ ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ ہم تو عائشہ کو اپنے اویس کے لیے بھی مانگتے ہیں، لیکن میرا خیال ہے کہ ایسی باتیں گھر تک ہی محدود رکھنی چاہئیں،" زبیدہ بیگم نے دانشمندانہ انداز میں کہا۔
"تو مطلب بات پکی؟" شازیہ بیگم نے خوشی سے اٹھتے ہوئے کہا۔
"مبارک! مبارک!" سب لوگ ایک دوسرے کو مبارکباد دینے لگے۔ مراد اور وسیم نے آگے بڑھ کر بہن کو گلے لگایا۔ رمشا دوڑ کر فریج سے چاکلیٹس لے آئی، اور سب کے چہرے مسکراہٹ سے جگمگا اٹھے۔ اس بار واپسی پر شازیہ بیگم بہت خوش تھیں۔
"اس بار میں بہت خوبصورت یادیں لے کر جا رہی ہوں، بھابی، رمشا،" انہوں نے دونوں بھابیوں سے گلے مل کر کہا۔
"پھوپھو، اب کب آئیں گی دوبارہ؟" حنا کی آواز میں رنجش تھی۔ اسے زید کے ساتھ کھیلنا بہت پسند تھا، اور زید بھی اس کا بہت خیال رکھتا تھا۔ سب بچوں کے چہرے اترے ہوئے تھے؛ قدرتی طور پر سب ایک دوسرے سے بہت قریب تھے۔ شازیہ بیگم خوشگوار یادیں لے کر اپنے شہر واپس لوٹ گئیں۔
وقت گزرتا رہا۔ عمران صاحب کی اچھی نوکری تھی، اور پھر انہیں نوکری کے سلسلے میں آسٹریلیا جانے کا موقع مل گیا۔ ایک ملک سے دوسرے ملک جاتے ہوئے شازیہ بیگم اپنے بھائیوں، ماں، اور بھابیوں سے ملنے سال میں ایک بار ہی آ پاتی تھیں۔ جب آسٹریلیا جانے کی بات سنی تو سب کے چہرے لٹک گئے۔ سب سے زیادہ بچے اداس تھے۔ حنا، جو زید سے خاص طور پر قریب تھی، بہت پریشان تھی کہ وہ اتنی دور جا رہا ہے۔
"میں تمہارے لیے بہت سارے تحفے لاؤں گا، حنا،" زید نے حنا کو اداس دیکھ کر اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے افسردگی سے کہا۔
"لیکن زید، تحفے تو یہاں رہ کر بھی دے سکتے ہو ناں؟" حنا نے معصومیت سے کہا۔
زید نے مسکرا کر اسے دیکھا اور کہا، "ٹھیک ہے، ایک وعدہ ہے۔ جب واپس آؤں گا، تمہارے لیے ایک خاص تحفہ لاؤں گا جو تم کبھی نہیں بھولو گی!"
حنا کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔ "وہ کیا ہوگا؟ ابھی بتاؤ!" اس نے جوش سے پوچھا۔
"ارے، یہ تو سرپرائز ہے!" زید نے ہنستے ہوئے کہا۔ "بس انتظار کرو، جب واپس آؤں گا تو سب بتاؤں گا۔"
اس رات گھر میں ایک چھوٹی سی تقریب رکھی گئی، جہاں سب نے مل کر زید اور اس کے خاندان کے لیے دعائیں مانگیں۔ زبیدہ بیگم نے سب کو ایک بار پھر یاد دلایا کہ رشتوں کی مضبوطی محبت اور قربت سے ہوتی ہے، چاہے فاصلے کتنے ہی کیوں نہ ہوں۔ سب نے مل کر کھانا کھایا، ہنسی مذاق کیا، اور زید کے سفر کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
شازیہ بیگم جب اپنے خاندان کے ساتھ آسٹریلیا روانہ ہوئیں تو ان کے دل میں اپنے گھر اور خاندان کی یادیں تازہ تھیں۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ جلد واپس آئیں گی، اور اس بار ایک بڑی تقریب کے ساتھ سب کو ایک بار پھر جمع کریں گی۔ حنا اور دیگر بچوں نے زید کو ویڈیو کالز کے ذریعے قریب رکھنے کا فیصلہ کیا، اور گھر میں ایک نئی امید کی کرن جاگ اٹھی کہ فاصلوں کے باوجود ان کے رشتے ہمیشہ مضبوط رہیں گے
"یار… پاپا نہیں مانتے ناں۔ ضدی ہیں وہ،" زید نے جھنجھلا کر کہا تو حنا منہ بنا کر رہ گئی۔ اس کا ننھا سا دل ڈول رہا تھا۔ پھر شازیہ بیگم اپنے میاں اور بچوں کے ساتھ آسٹریلیا منتقل ہو گئیں۔ شازیہ بیگم ایسی گئیں کہ پہلی بار چھ سال بعد واپس آئیں، جب زید بیس سال کا تھا، عامر اٹھارہ اور عائشہ سولہ سال کی تھی۔ شازیہ بیگم زیادہ تر اپنے سسرال اسلام آباد میں رہتی تھیں، جہاں ان کا اپنا گھر بھی تھا۔ اس عرصے میں حنا، جو سولہ سال کی تھی، میٹرک کر چکی تھی۔ عائشہ میٹرک میں تھی، جبکہ اویس گریجویشن کر رہا تھا۔
زید اور حنا نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ ویسے تو اسکائپ اور واٹس ایپ پر باتیں ہو جاتی تھیں، لیکن اب آمنے سامنے ملاقات ہوئی تھی۔ نیلے رنگ کے کاٹن سوٹ میں لمبے بالوں والی، معصوم گڑیا سی حنا زید کے دل میں اترتی چلی گئی۔ یہی حال حنا کا تھا۔ دبلا پتلا، لیکن ہینڈسم زید کتنا اچھا لگ رہا تھا۔ دونوں نے ڈھیر ساری باتیں کیں۔ بچے اپنے رشتہ داروں سے خوب واقف تھے۔ عائشہ اور عامر کی آپس میں زیادہ نہیں بنتی تھی، دونوں ہی لاابالی تھے، لیکن زید اور حنا ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے۔ اویس اور عائشہ بھی ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے۔
کچھ عرصہ رہ کر وہ واپس چلے گئے۔ چند سال بعد زید، عائشہ، اور عامر کی تعلیم مکمل ہونے پر شادیوں کا پروگرام بنایا گیا۔ حنا بہت افسردہ تھی، لیکن زید نے بہت سی امیدیں دلا کر، خوبصورت خواب دکھا کر اسے مطمئن کیا کہ "چند سال بعد تو ہمیں ہمیشہ کے لیے ساتھ رہنا ہے۔" حنا روتے روتے شرما کر رہ گئی۔
وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔ بچوں نے اپنے تعلیمی مراحل مکمل کر لیے تھے۔ ادھر ثمینہ اور رمشا شادی کی تیاریوں میں مصروف ہو گئی تھیں۔ تین بچوں کی شادیوں کی تیاری آسان نہ تھی۔ یہاں کسی بچے کو باہر جانے میں دلچسپی نہیں تھی، جبکہ وہاں عمران صاحب کاروبار میں الجھ کر رہ گئے تھے۔ نجانے کیا کیا مصروفیات تھیں۔ شازیہ بیگم ان کی شدید مصروفیت اور عدم توجہی سے بیزار ہونے لگی تھیں۔ وقت کے ساتھ عمران صاحب میں منفی تبدیلیاں بھی آ گئی تھیں۔ اب ان کی باتوں میں غرور اور تمکنت جھلکتی تھی۔ بات بات پر وہ اپنی دولت اور اسٹیٹس کا رعب جھاڑتے۔ شازیہ بیگم بعض اوقات ان کی باتوں سے ڈر جاتی تھیں۔ وہ انجانے خدشات اور خوف میں گھری رہنے لگی تھیں۔
جب انہوں نے بچوں سے بات کی تو بچوں کو بھی فکر ہوئی۔ انہیں بھی باپ کا رویہ نامناسب لگتا تھا۔ ایک دن وہ سب کچھ ہو گیا جس نے شازیہ بیگم کی ہستی کو ہلا کر رکھ دیا۔
"سنو، میرے ایک دوست کی فیملی ہے۔ کل ان کے گھر جانا ہے۔ عائشہ کے لیے ان کے بیٹے کا رشتہ آیا ہے۔ ہمیں کل وہاں جا کر بات کرنی ہے،" عمران صاحب کے الفاظ بم کی طرح شازیہ بیگم کے سر پر گرے۔
"کیا… کیا کہہ رہے ہیں، عمران؟ آپ ہوش میں تو ہیں؟" شازیہ بیگم نے حیرت سے پوچھا۔
"کیوں، میں نے کیا کہہ دیا کہ تمہیں میری دماغی حالت پر شک ہو گیا؟ سب لوگ اچھا رشتہ دیکھ کر ہی شادیاں کرتے ہیں،" عمران صاحب نے سرد لہجے میں کہا۔
"ہاں، اور آپ کو معلوم ہے کہ ہم نے اپنے تینوں بچوں کے رشتے باہمی رضامندی سے طے کر دیے تھے۔ ہمارے گھر میں رشتے خاندان میں طے ہوتے ہیں۔ آپ کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے۔ بچپن سے لے کر آج تک ان رشتوں کے بارے میں باتیں ہوتی رہی ہیں۔ ہم اور ہمارے بچے ذہنی طور پر ان رشتوں سے خوش ہیں!" شازیہ بیگم نے جذباتی انداز میں کہا۔
"ہم… ہم نہیں! میں تو راضی نہیں ہوں۔ کیا میں اس وقت موجود تھا جب یہ فیصلے ہو رہے تھے؟" عمران صاحب نے طنزیہ انداز میں کہا۔
شازیہ بیگم سکتے میں آ گئیں۔ ان کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ "عمران، آپ جانتے ہیں کہ یہ رشتے ہمارے خاندان کی روایت ہیں۔ زید اور حنا، عامر اور عائشہ، اویس اور عائشہ… یہ سب ہم نے مل کر طے کیا تھا۔ بچے بھی ایک دوسرے سے خوش ہیں۔ آپ اب یہ نئی بات کیوں لے آئے؟"
عمران صاحب نے سرد مہری سے کہا، "دیکھو، شازیہ، دنیا بدل گئی ہے۔ اب رشتے اسٹیٹس اور کاروباری فائدوں کے لیے ہوتے ہیں۔ میرا دوست ایک بڑا بزنس مین ہے۔ اس کا بیٹا عائشہ کے لیے بہترین رشتہ ہے۔ تمہیں اسے قبول کر لینا چاہیے۔"
"لیکن عمران، عائشہ اور اویس کی بات پکی ہو چکی ہے۔ ہم نے زبیدہ بیگم، مراد، اور رمشا سے وعدہ کیا تھا۔ یہ ہمارے خاندان کا سوال ہے!" شازیہ بیگم کی آواز لرز رہی تھی۔
"خاندان، خاندان!" عمران صاحب نے طنز کیا۔ "تمہارا یہ خاندان میری ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ میں نے فیصلہ کر لیا ہے۔ عائشہ کا رشتہ میری مرضی سے ہوگا۔"
شازیہ بیگم کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ وہ خاموشی سے کمرے سے نکل گئیں۔ زید، جو دروازے کے پاس کھڑا یہ سب سن رہا تھا، اپنی ماں کے پاس آیا۔ "اماں، آپ پریشان نہ ہوں۔ میں پاپا سے بات کروں گا۔ ہم سب مل کر اسے سمجھائیں گے۔ حنا میری زندگی ہے، اور عائشہ اویس بھائی کی۔ ہم اپنے رشتوں کو نہیں توڑیں گے۔"
شازیہ بیگم نے زید کے سر پر ہاتھ رکھا۔ "بیٹا، تمہارا باپ اب بدل گیا ہے۔ لیکن ہم مل کر کوئی حل نکالیں گے۔"
اگلے دن، شازیہ بیگم نے زبیدہ بیگم کو فون کیا اور ساری بات بتائی۔ زبیدہ بیگم نے کہا، "شازیہ، تم فکر نہ کرو۔ ہم سب مل کر عمران سے بات کریں گے۔ یہ رشتے ہمارے خاندان کی خوشیوں کا حصہ ہیں۔ ہم انہیں ٹوٹنے نہیں دیں گے۔"
چند دن بعد، زبیدہ بیگم، مراد، اور رمشا نے ایک ویڈیو کال پر عمران صاحب سے بات کی۔ زبیدہ بیگم نے نرمی سے لیکن پختگی سے کہا، "عمران، ہم نے یہ رشتے بچوں کی خوشی کے لیے طے کیے ہیں۔ زید اور حنا، عامر اور عائشہ، اویس اور عائشہ… یہ سب ایک دوسرے کے لیے بنے ہیں۔ تمہاری مرضی اہم ہے، لیکن خاندان کی عزت اور بچوں کی خوشی اس سے بھی بڑی ہے۔"
عمران صاحب خاموش رہے۔ شاید ان کے دل میں کچھ ہلچل ہوئی۔ زید نے بھی اپنی بات رکھی، "پاپا، میں حنا سے محبت کرتا ہوں۔ وہ میری زندگی ہے۔ آپ ہمیں الگ نہیں کر سکتے۔"
کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد عمران صاحب نے کہا، "ٹھیک ہے، میں سوچتا ہوں۔ لیکن میرا فیصلہ حتمی ہوگا۔"
شازیہ بیگم اور بچوں نے امید کی ایک کرن دیکھی۔ وہ جانتے تھے کہ یہ لڑائی آسان نہیں ہوگی، لیکن خاندان کی محبت اور اتحاد کے سامنے کوئی رکاوٹ ٹھہر نہیں سکتی تھی۔ زید نے حنا کو فون کیا اور کہا، "حنا، تم فکر نہ کرو۔ ہم سب مل کر پاپا کو سمجھا لیں گے۔ ہمارا رشتہ ہمیشہ مضبوط رہے گا۔"
حنا نے مسکراتے ہوئے کہا، "زید، مجھے تم پر بھروسہ ہے۔ بس جلدی واپس آؤ۔ ہم سب مل کر اپنی خوشیوں کا جشن منائیں گے۔"
"انصار، آپ سے بات کر کے، آپ سے مشورہ لے کر میں نے یہ بات کی تھی۔ اس وقت آپ بھی اس بات پر راضی تھے، خوش تھے، اور آپ نے رضامندی بھی دی تھی!" شازیہ بیگم کا دماغ گھوم گیا۔ عمران تو بالکل الٹی بات کر رہے تھے۔
"واٹ؟" عمران نے بدتمیزی سے ان کی جانب دیکھا۔ "حد ہے بیوقوفی کی! فضول اور بے معنی بات کو دل سے لگا کر بیٹھ گئی ہو۔ بے وقوف عورت! میرے نزدیک اس بات کی نہ کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی کوئی حقیقت۔"
"عمران، آپ کی نظر میں وہ بات غیر اہم ہوگی، مگر میرے لیے یہ عزت کا سوال ہے۔ میرے بھائیوں کی بیٹیاں اور بیٹا میرے بچوں کے نام سے منسوب ہیں۔ میں اپنے بھائیوں اور ماں کے سامنے جھوٹی نہیں بن سکتی۔ اور… اور اہمیت اس بات کی بھی ہے کہ ہمارے بچے بھی ان رشتوں سے راضی اور خوش ہیں۔ عائشہ بھی اویس کو پسند کرتی ہے!" شازیہ بیگم نے جذباتی انداز میں کہا۔
"چپ کرو!" عمران نے بیوی کی بات کاٹ دی۔ "عائشہ کو وہی کرنا ہوگا جو میں چاہتا ہوں۔ کیونکہ نہ صرف عائشہ کو اچھا، پیسے والا، پڑھا لکھا لڑکا ملے گا، بلکہ اس سے ہمارے کاروبار کو بھی کافی فائدہ ہوگا۔" عمران اپنا حتمی فیصلہ سنا کر چلے گئے۔
"مما!" عائشہ، جو کمرے کے باہر کھڑی ماں باپ کی باتیں سن رہی تھی، بھاگ کر شازیہ کے پاس آئی۔ شازیہ دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ کر رو رہی تھیں۔
"عائشہ، تمہارا باپ پاگل ہو گیا ہے۔ میں کیا منہ دکھاؤں گی اپنے بھائیوں کو؟ اتنے عرصے بعد تمہارے باپ کو رشتے میں برائی نظر آئی۔ کتنی ترقی، کتنا پیسہ چاہیے ان کو؟" شازیہ بیگم روتے ہوئے بولیں۔
"مما، پلیز خود کو سنبھالیں!" عائشہ بھی ماں کے ساتھ رونے لگی۔ زید، عامر، اور عائشہ نے کتنا سمجھایا، مگر عمران کی نہ ہاں میں بدلی۔ ان کا کہنا تھا، "میں اپنی بیٹی کو واپس پسماندگی میں نہیں بھیجوں گا۔ فراز جیسا لڑکا نصیب سے مل رہا ہے۔"
شازیہ بیگم شدید ذہنی اذیت میں تھیں۔ عائشہ کا برا حال تھا۔ زید اور عامر بھی پریشان تھے، لیکن باپ سے بدتمیزی بھی نہیں کر سکتے تھے۔ شازیہ بیگم اپنی ماں زبیدہ بیگم کو اچھی طرح جانتی تھیں۔ وہ اصولوں کی پکی اور اپنی بات پر قائم رہنے والی خاتون تھیں۔ انہوں نے کبھی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ شازیہ بیگم آنے والے حالات سے سخت پریشان تھیں کہ کس منہ سے عائشہ کے رشتے کی بات کریں گی، کیسے کہیں گی کہ عائشہ اور اویس کا رشتہ ختم کر دیا ہے؟
نتیجہ وہی نکلا جس کا شازیہ بیگم کو ڈر تھا۔ جب زبیدہ بیگم نے یہ بات سنی تو وہ ہتھے سے اُکھڑ گئیں۔
"شازیہ، اب تمہیں اپنی بیٹی کے لیے بھائی کا گھر حقیر لگ رہا ہے؟ تمہارے معیار پر پورا نہیں اترتا؟ اگر ایسی بات ہے تو ٹھیک ہے۔ ہم تینوں بچوں کے رشتے ختم کرنے کا اعلان کرتے ہیں!" زبیدہ بیگم نے حتمی انداز میں کہا۔
"ارے… ارے اماں، کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ؟ وہ تو صرف اویس…" ثمینہ بیگم نے ہلکا سا احتجاج کیا۔
"ثمینہ، چپ کرو تم!" زبیدہ بیگم نے غصے سے کہا۔ "جہاں میری زبان کا پاس نہیں، وہاں مجھے ان لوگوں کی ضرورت نہیں۔ سمجھ لو، آج سے شازیہ سے ہمارا رشتہ بھی ختم ہو گیا۔"
شازیہ بیگم کے لیے یہ بات دل دہلا دینے والی تھی۔ انہوں نے فوراً زید اور عائشہ کو بلایا اور کہا، "بیٹو، ہم واپس پاکستان جا رہے ہیں۔ میں اپنی ماں اور بھائیوں سے مل کر یہ غلط فہمی دور کروں گی۔"
زید نے ماں کی بات سنی اور کہا، "اماں، میں آپ کے ساتھ ہوں۔ لیکن پاپا کو سمجھانا آسان نہیں ہوگا۔"
عائشہ نے روتے ہوئے کہا، "مما، میں اویس بھائی کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ ہم سب مل کر پاپا کو سمجھائیں گے۔"
چند ہفتوں بعد، شازیہ بیگم اپنے بچوں کے ساتھ پاکستان واپس آئیں۔ زبیدہ بیگم، مراد، اور رمشا سے ملاقات کے لیے ان کا گھر پہنچیں۔ زبیدہ بیگم اب بھی ناراض تھیں، لیکن جب انہوں نے عائشہ اور زید کی پریشانی دیکھی، ان کا دل پسیجا۔
شازیہ بیگم نے روتے ہوئے کہا، "اماں، میں آپ سے معافی مانگتی ہوں۔ عمران بدل گئے ہیں۔ انہوں نے ہمارے خاندان کی عزت کو نظر انداز کر دیا۔ لیکن میں اپنے بچوں کی خوشی کے لیے سب کچھ کرنا چاہتی ہوں۔"
زبیدہ بیگم نے گہری سانس لی اور کہا، "شازیہ، تم میری بیٹی ہو۔ تمہارا درد میرا درد ہے۔ لیکن تمہارے شوہر نے ہماری عزت کو ٹھیس رسید کی ہے۔ اگر تم اپنے بچوں کے رشتوں کو بچانا چاہتی ہو تو عمران کو سمجھانا ہوگا۔"
اسی دوران، زید نے حنا کو فون کیا اور ساری صورتحال بتائی۔ حنا نے کہا، "زید، تم فکر نہ کرو۔ میں اویس بھائی اور عائشہ کے ساتھ ہوں۔ ہم سب مل کر یہ رشتے بچائیں گے۔"
مراد اور وسیم نے بھی شازیہ بیگم کی حمایت کی۔ انہوں نے کہا، "اماں، شازیہ ہماری بہن ہے۔ ہم اسے اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔ ہم مل کر عمران سے بات کریں گے۔"
چند دن بعد، زبیدہ بیگم نے ایک خاندانی میٹنگ بلائی۔ عمران صاحب کو بھی مدعو کیا گیا۔ زبیدہ بیگم نے صاف صاف کہا، "عمران، یہ خاندان ہمارا سب کچھ ہے۔ تمہاری مرضی سے ہمارے بچوں کی خوشی نہیں چھین سکتی۔ زید اور حنا، عامر اور عائشہ، اویس اور عائشہ کے رشتے ہم نے مل کر طے کیے تھے۔ اگر تم ان رشتوں کو توڑنا چاہتے ہو تو ہم سے کوئی تعلق نہیں رکھنا۔"
عمران صاحب خاموش رہے۔ ان کے چہرے پر پچھتاوا جھلک رہا تھا۔ زید نے آگے بڑھ کر کہا، "پاپا، آپ کو پیسے اور اسٹیٹس سے زیادہ ہماری خوشی کی فکر ہونی چاہیے۔ ہم سب ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ آپ ہمیں الگ نہیں کر سکتے۔"
عائشہ نے بھی کہا، "پاپا، میں اویس بھائی کے ساتھ خوش ہوں۔ آپ پلیز ہمیں اپنی دعائیں دیں۔"
عمران صاحب نے سر جھکا لیا۔ کچھ لمحوں کی خاموشی کے بعد وہ بولے، "شازیہ، میں غلط تھا۔ میں نے اپنے کاروبار اور اسٹیٹس کو ترجیح دی، لیکن اب میں سمجھتا ہوں کہ خاندان کی خوشی سب سے اہم ہے۔ میں سب سے معافی مانگتا ہوں۔"
زبیدہ بیگم کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ انہوں نے عمران کا ہاتھ پکڑا اور کہا، "عمران، تم ہمارے خاندان کا حصہ ہو۔ بس یہ یاد رکھو کہ محبت اور عزت پیسے سے زیادہ قیمتی ہیں۔"
خاندان نے ایک بار پھر اتحاد کا مظاہرہ کیا۔ زید اور حنا، عامر اور عائشہ، اور اویس اور عائشہ کے رشتوں کو مقدم رکھا گیا۔ چند ماہ بعد، تینوں جوڑوں کی شادی ایک بڑی تقریب میں ہوئی۔ گھر روشنیوں سے جگمگا رہا تھا۔ زبیدہ بیگم، شازیہ بیگم، ثمینہ، اور رمشا سب مل کر بچوں کی خوشیوں میں شریک تھیں۔
شازیہ بیگم نے اپنے بچوں کو دیکھا اور زبیدہ بیگم سے کہا، "اماں، آپ کے اصولوں نے ہمیں دوبارہ جوڑ دیا۔ آج ہم سب ایک ہیں۔"
زبیدہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا، "شازیہ، یہ ہمارے خاندان کی طاقت ہے۔ محبت اور اتحاد ہمیشہ جیتتا ہے۔"
شادی کی تقریب کے بعد، سب نے مل کر عید منائی۔ زید اور حنا ہاتھ میں ہاتھ ڈالے چاند رات کی سیر کو نکلے، جبکہ عائشہ اور اویس ایک دوسرے کی آنکھوں میں محبت بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ خاندان کی خوشیوں نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ رشتوں کی مضبوطی پیسے یا اسٹیٹس سے نہیں، بلکہ محبت اور اعتماد سے آتی ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں for ""چاند رات کی باتیں""