Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

دل کے رشتے



کردار

  • عالیہ: ایک معصوم، حساس، اور خوابوں سے بھرپور لڑکی جو اپنے والد سے گہری محبت رکھتی ہے اور ان کی غیر موجودگی میں ان کی یادوں کو دل میں سمیٹتی ہے۔

  • اسلم صاحب: عالیہ کے والد، ایک محنتی شخص جو اپنی بیوی اور بچوں کے لیے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ بیرونِ ملک گزارتا ہے۔

  • نادیہ: عالیہ کی ماں، ایک محبت کرنے والی اور روایتی عورت جو اپنی بیٹی کی ہر خواہش پوری کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

  • سارہ: عالیہ کی بڑی بہن، جو اس کی رازدان اور ہر مشکل میں اس کا سہارا ہے۔

  • عبداللہ: عالیہ کا چھوٹا بھائی، جو اپنی الگ شناخت بنانے کی جدوجہد میں ہے۔

  • ڈاکٹر فیصل: ہسپتال کا ڈاکٹر جو اسلم صاحب کا علاج کرتا ہے اور کہانی میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔

  • عائشہ: عالیہ کی قریبی دوست، جو اس کے کالج اور یونیورسٹی کے دنوں میں اس کی ساتھی ہے۔

  • رحیم چاچا: گاؤں کا ایک بزرگ جو اسلم صاحب کا دوست ہے اور خاندان کے لیے رہنما کا کردار ادا کرتا ہے۔

کہانی: دل کے رشتے

عالیہ اپنے والد، اسلم صاحب، کی لاڈلی تھی، لیکن وہ ان کے لیے صرف بیٹی نہیں، بلکہ ایک شہزادی تھی، جیسے کوئی باربی ڈول۔ اس کی پانچویں سالگرہ ایک خاص دن تھا۔ ہر سال اس کی ماں، نادیہ، اس کی پسند کا تحفہ لاتی تھیں، لیکن اس بار عالیہ نے کوئی تحفہ نہیں مانگا۔ اس کے دل میں ایک ہی خواہش تھی: اپنے ابا کو دیکھنا۔ لفظ "ابا" اس نے اپنے دوستوں سے سنا تھا، کتابوں میں پڑھا تھا، لیکن اس کے لیے یہ لفظ ایک خواب تھا، ایک ایسی حقیقت جو اس کی زندگی میں ہمیشہ دور رہی۔ وہ رات دن اپنے ابا کے گن گاتی، ان کی باتیں کرتی۔ "امی، میرے ابا دیکھنے میں کیسے ہیں؟" وہ ہر بار نادیہ سے پوچھتی۔ نادیہ اس معصوم سوال پر مسکراتیں، لیکن ان کی آنکھوں میں ایک چھپی سی اداسی جھلکتی تھی۔

اسلم صاحب اپنی بیوی نادیہ اور بچوں—عالیہ، سارہ، اور عبداللہ—کے لیے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ بیرونِ ملک گزارتے تھے۔ وہ ایک محنتی شخص تھے، جنہوں نے اپنی اولاد کے روشن مستقبل کے لیے اپنی خوشیوں کو قربان کر دیا تھا۔ تین چار سال بعد وہ ایک ماہ کی چھٹی پر گھر آتے، اور وہ ایک ماہ عالیہ کے لیے جنت کے لمحات ہوتا۔ اس سالگرہ پر گھر میں تیاریاں عروج پر تھیں۔ نادیہ نے گھر کو پھولوں سے سجایا، سارہ نے کیک تیار کیا، اور عبداللہ، جو ابھی چھوٹا تھا، اپنی بہن کی خوشی کے لیے چھوٹے موٹے کاموں میں مصروف تھا۔ رحیم چاچا، اسلم صاحب کے پرانے دوست، بھی اس موقع پر گھر آئے اور اپنی حکمت بھری باتوں سے سب کو حوصلہ دیا۔

دروازے پر دستک ہوئی، اور عالیہ کی بے قراری اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔ وہ دو دو زینے پھلانگتی ہوئی دروازہ کھولنے دوڑی۔ جب اس نے اپنے ابا کو پہلی بار دیکھا، اسے لگا جیسے وہ صدیوں سے انہیں جانتی ہو۔ اسلم صاحب کی آنکھوں میں محبت تھی، ان کے چہرے پر تھکن بھری مسکراہٹ۔ عالیہ خوشی سے چھلانگیں مارتے ہوئے ان سے لپٹ گئی، جیسے دیوار پر چپکلی چپکتی ہے۔ اسلم صاحب نے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا، اور عالیہ کو لگا جیسے وہ کسی محل کی شہزادی بن گئی ہو۔

اسلم صاحب صبح تہجد کی نماز کے لیے عالیہ کو اٹھاتے، اس کے بالوں کی پونی بناتے، اور اسے سکول کے لیے تیار کرتے۔ ہوا میں جھولتی اس کی پونی ٹیل اور اسلم صاحب کے مشقت بھرے ہاتھوں کو پکڑ کر وہ سکول جاتی۔ وہ اسے زندگی کے فلسفے سمجھاتے، جو اس کے ننھے سے دماغ پر سے گزر جاتے۔ وہ کہتے، "بیٹی، زندگی ایک امتحان ہے۔ صبر اور محنت سے ہر مشکل آسان ہو جاتی ہے۔" عالیہ ان باتوں کو سمجھ نہ پاتی، لیکن اسلم صاحب کی آواز میں ایک عجیب سا سکون تھا جو اس کے دل کو چھو لیتا۔

ایک ماہ کیسے گزرا، کسی کو پتہ نہ چلا۔ جب اسلم صاحب واپس جانے لگے، عالیہ چھت پر کھڑی ہو کر ہر گزرتے ہوائی جہاز کو دیکھتی اور بلند آواز میں "بائے بائے ابا" کہتی، جیسے وہ اسے سن رہے ہوں۔ اس کی آنکھوں میں اداسی ہوتی، لیکن وہ اپنے ابا کی محبت کو دل میں سمیٹ لیتی۔ نادیہ اسے تسلی دیتیں، "بیٹی، تمہارے ابا تمہارے لیے سب کچھ کرتے ہیں۔ وہ جلد واپس آئیں گے۔" سارہ، جو عالیہ سے چند سال بڑی تھی، اس کی اداسی کو دیکھ کر اسے کہانیاں سناتی، جبکہ عبداللہ اپنی شرارتوں سے گھر کا ماحول ہلکا کرتا۔

وقت گزرتا گیا۔ عالیہ بڑی ہوئی، سکول سے کالج، اور پھر یونیورسٹی پہنچی۔ وہ ایک ذہین طالبہ تھی، جو اپنے ریسرچ ورک میں مصروف رہتی۔ اس کی قریبی دوست عائشہ اس کے کالج اور یونیورسٹی کے دنوں میں اس کی ساتھی تھی۔ عائشہ ایک جاندار اور خوش مزاج لڑکی تھی، جو ہمیشہ عالیہ کو ہنسانے کی کوشش کرتی۔ وہ دونوں گھنٹوں باتیں کرتیں، اپنے خواب بانٹتیں، اور مستقبل کے منصوبے بناتیں۔ عالیہ اپنی تعلیم پر پوری توجہ دیتی، کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس کے ابا اس کے لیے دن رات محنت کر رہے ہیں۔

اسلم صاحب کی زندگی بیرونِ ملک آسان نہ تھی۔ وہ ایک فیکٹری میں کام کرتے، جہاں دن رات کی مشقت نے ان کے جسم کو تھکا دیا تھا۔ لیکن ان کے دل میں اپنے خاندان کے لیے ایک عجیب سی طاقت تھی۔ وہ ہر ماہ اپنی تنخواہ کا بڑا حصہ گھر بھیجتے، اور نادیہ اسے سنبھال کر بچوں کی تعلیم اور گھر کے اخراجات پورے کرتیں۔ اسلم صاحب کبھی اپنی تھکن کی شکایت نہ کرتے، لیکن ان کی خطوط میں ایک چھپی سی اداسی ہوتی۔ وہ لکھتے، "نادیہ، عالیہ سے کہنا کہ وہ اپنی تعلیم پر توجہ دے۔ میں اس کے لیے یہ سب کر رہا ہوں۔" نادیہ یہ خطوط عالیہ کو پڑھ کر سناتی، اور عالیہ کے دل میں اپنے ابا کے لیے محبت اور احترام بڑھتا جاتا۔

ایک دن، جب عالیہ یونیورسٹی میں اپنے ریسرچ ورک میں مصروف تھی، اس کا فون مسلسل بجنے لگا۔ اس نے بے دھیانی سے فون کان سے لگایا۔ دوسری طرف سے رونا کی آواز آئی۔ عالیہ نے فون کی سکرین دیکھی، اور پرسکون لہجے میں پوچھا، "امی، سب خیریت ہے؟" نادیہ کی آواز کانپ رہی تھی۔ "عالیہ، تمہارے ابا کی طبیعت خراب ہے۔ وہ ہسپتال میں ہیں۔" یہ الفاظ سنتے ہی عالیہ کے لیے دنیا رک سی گئی۔ وہ بھاگتی ہوئی، گرتی پڑتی ہسپتال پہنچی۔ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اسلم صاحب کب واپس آئے؟ کب بیمار ہوئے؟ لیکن اس کے پاس نہ ہمت تھی نہ الفاظ کہ یہ سوالات پوچھ سکے۔

کورونا وائرس کی وجہ سے ہسپتال مریضوں سے بھرا ہوا تھا۔ لوگوں کی بے احتیاطی نے ہسپتال کو ایک مچھلی منڈی بنا دیا تھا۔ عالیہ نے مغرب کی نماز کے لیے وضو کیا، اور سجدے میں سر جھکا کر اپنے رب سے دعا مانگی۔ اس کے آنسو رکنے کا نام نہ لیتے تھے۔ وہ لوگوں کی ظاہری ہمدردی سے دور بھاگتی تھی۔ اس کے دل میں بے بسی تھی، لیکن امید بھی تھی۔ ڈاکٹر فیصل، جو اسلم صاحب کا علاج کر رہے تھے، ماسک اتارتے ہوئے عالیہ کی طرف بڑھے۔ انہوں نے کہا، "آپ ان سے مل سکتی ہیں، لیکن ان کی بہت دیکھ بھال کرنی ہوگی۔"

عالیہ نے آنسو صاف کیے اور بوجھل دل کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئی۔ وہ آنکھیں، جنہوں نے اس کے لیے سنہری خواب دیکھے تھے، بند تھیں۔ وہ ہاتھ، جنہوں نے اسے چلنا سکھایا تھا، عاجز ہو چکے تھے۔ اسلم صاحب کے بالوں میں چاندی جھلک رہی تھی۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی اپنی اولاد کے لیے قربان کر دی تھی، لیکن کبھی انہیں محرومی کا احساس نہ ہونے دیا۔ عالیہ خود کو سنبھالنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس کے آنسوؤں کی ایک بوند اسلم صاحب کے ہاتھ پر گری۔ انہوں نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں۔ سب کچھ دھندلا تھا۔ "عالیہ، مت رو، میں ٹھیک ہوں،" انہوں نے کمزور آواز میں کہا۔ عالیہ نے اثبات میں سر ہلایا۔

عالیہ نے اپنے ابا کی خدمت میں دن رات لگا دیے۔ وہ انہیں اپنی یونیورسٹی کی کہانیاں سناتی، اپنے خواب بتاتی، اور ان سے وعدہ کرتی کہ وہ ان کے لیے ہمیشہ مضبوط رہے گی۔ اسلم صاحب کی کمزور مسکراہٹ عالیہ کے لیے سب کچھ تھی۔ نادیہ بھی ہسپتال میں عالیہ کے ساتھ تھی، لیکن اس کی اپنی بے بسی اسے کھائے جا رہی تھی۔ سارہ اپنی بہن کی ہمت بندھاتی، جبکہ عبداللہ اپنے غم کو چھپاتا۔ رحیم چاچا ہر چند روز بعد ہسپتال آتے اور اپنی حکمت بھری باتوں سے سب کو حوصلہ دیتے۔ وہ کہتے، "زندگی ایک سفر ہے، بیٹی۔ جو اسے صبر سے گزرتا ہے، وہی اس کی گہرائی کو سمجھتا ہے۔"

اسلم صاحب کی طبیعت کبھی بہتر ہوتی، کبھی خراب۔ ڈاکٹر فیصل نے بتایا کہ ان کی حالت نازک ہے، لیکن امید نہیں چھوڑنی چاہیے۔ عالیہ نے فیصل کی باتوں سے حوصلہ لیا۔ وہ دن رات ہسپتال میں رہتی، اپنے ابا کی خدمت کرتی، اور ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھتی۔ ایک دن، جب وہ ہسپتال کے کمرے میں بیٹھی تھی، ایک صاحب، جو وہاں موجود تھے، اخبار پر نظر ڈالتے ہوئے بولے، "یہ دور تاریخ کے بدترین ادوار میں سے ایک ہے۔ انسانوں کو انسانوں سے ہی خطرہ ہے، چاہے وہ بیماری کی صورت میں ہو یا رازداری کی۔ ہم زوال کی طرف جا رہے ہیں۔" عالیہ نے ان کی بات سنی، لیکن اس کا دھیان اپنے ابا پر تھا۔

اسلم صاحب کی بیماری نے عالیہ کو زندگی کی تلخ حقیقت سے روشناس کرایا۔ وہ سوچتی کہ کیا وہ اپنے ابا کو کھو دے گی؟ کیا وہ دوبارہ ان کے ساتھ وہ لمحات گزار سکے گی؟ لیکن اس کے دل میں امید کی ایک کرن تھی۔ وہ اپنے ابا کی کہانیوں کو یاد کرتی، جب وہ اسے بتاتے تھے کہ وہ کس طرح کٹھن حالات میں اپنی فیملی کے لیے محنت کرتے تھے۔ عالیہ نے اپنی ماں نادیہ سے بھی بہت کچھ سیکھا۔ نادیہ نے کبھی اسلم صاحب کی غیر موجودگی کی شکایت نہ کی، بلکہ اپنے بچوں کو ہمیشہ مضبوط رہنے کی ترغیب دی۔

سارہ، جو اب شادی شدہ تھی، اپنے گھر سے ہسپتال آتی اور عالیہ کو تسلی دیتی۔ وہ کہتی، "عالیہ، ہم سب کو مل کر اس مشکل سے گزرنا ہے۔ ابا ٹھیک ہو جائیں گے۔" عبداللہ، جو اب نوعمر تھا، اپنی پڑھائی اور اپنے خوابوں کے درمیان پھنسا ہوا تھا۔ وہ اپنے والد کی بیماری سے پریشان تھا، لیکن اپنی شرارتوں سے گھر کا ماحول ہلکا کرنے کی کوشش کرتا۔ عائشہ، عالیہ کی دوست، ہسپتال آتی اور اسے ہنسانے کی کوشش کرتی۔ وہ کہتی، "عالیہ، تو مضبوط ہے۔ تیرے ابا کو تیری ہمت کی ضرورت ہے۔"

وقت گزرتا گیا، اور اسلم صاحب کی طبیعت میں بہتری آنے لگی۔ ڈاکٹر فیصل نے بتایا کہ ان کی حالت اب مستحکم ہے، لیکن مکمل صحت یابی میں وقت لگے گا۔ عالیہ کے لیے یہ خبر کسی معجزے سے کم نہ تھی۔ وہ اپنے ابا کے ساتھ ہر لمحہ گزارنا چاہتی تھی۔ ایک دن، جب اسلم صاحب کچھ بہتر ہوئے، انہوں نے عالیہ سے کہا، "بیٹی، میں نے ہمیشہ تمہارے لیے خواب دیکھے۔ تم نے میری محنت کو سچ کر دکھایا۔" عالیہ کی آنکھوں میں آنسو تھے، لیکن اس بار یہ خوشی کے آنسو تھے۔

اسلم صاحب کی بیماری نے عالیہ کو زندگی کے کئی سبق سکھائے۔ اسے معلوم ہوا کہ محبت صرف خوشیوں کا نام نہیں، بلکہ درد، قربانی، اور صبر کا امتحان بھی ہے۔ اس نے اپنے ابا کے فلسفوں کو سمجھنا شروع کیا، جو بچپن میں اس کے سر پر سے گزر جاتے تھے۔ وہ جان گئی کہ زندگی ایک سفر ہے، جس میں ہر موڑ پر ایک نیا سبق منتظر ہوتا ہے۔ نادیہ نے بھی اپنی بیٹی کی ہمت کی داد دی۔ وہ کہتی، "عالیہ، تم نے ثابت کر دیا کہ تم میری شہزادی ہو۔"

سارہ اور عبداللہ نے بھی اپنے والد کی صحت یابی میں اہم کردار ادا کیا۔ سارہ نے اپنے گھر اور ہسپتال کے درمیان توازن رکھا، جبکہ عبداللہ نے اپنی پڑھائی پر توجہ دی تاکہ وہ اپنے والد کے خوابوں کو پورا کر سکے۔ عائشہ نے عالیہ کو ہر مشکل میں ہمت دی، اور رحیم چاچا کی حکمت نے پورے خاندان کو ایک مضبوط سہارا دیا۔ ڈاکٹر فیصل کی محنت اور لگن نے اسلم صاحب کی زندگی بچائی، اور عالیہ ان کی شکر گزار تھی۔

کہانی کے اختتام پر، اسلم صاحب گھر واپس آئے۔ ان کی صحت اب بہتر تھی، لیکن وہ اب بھی کمزور تھے۔ عالیہ نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی تعلیم مکمل کرے گی اور اپنے ابا کے خوابوں کو سچ کرے گی۔ اس نے اپنے دل میں ایک عزم کیا کہ وہ اپنے خاندان کی محبت اور قربانیوں کو کبھی نہیں بھولے گی۔ یہ کہانی عالیہ کے سفر کی ہے، جو اپنے والد سے محبت، ان کی غیر موجودگی میں انتظار، اور ان کی بیماری کے دوران جدوجہد کی داستان ہے۔ اس میں خاندانی رشتوں کی گہرائی، بیماری کے چیلنجز، اور زندگی کے تلخ و شیریں لمحات شامل ہیں۔ عالیہ کی ہمت، نادیہ کی محبت، سارہ کی رفاقت، عبداللہ کی جدوجہد، اور اسلم صاحب کی قربانی اس کہانی کو ایک ایسی داستان بناتی ہے جو دل کو چھوتی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں for "دل کے رشتے"