Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

گرمیوں کی چھٹیاں




گرمیوں کی چھٹیاں: 
رانی اگلے مہینے کی پندرہ تاریخ کو آ رہی تھی۔ چچا حامد نے رانا سے خط لے کر اپنی اہلیہ کو اطلاع دی اور خود مرغی کا انتظام کرنے چل دیے۔
چچی کا خط کبھی ہمارے گھر آتا تو کبھی عارف چچا کے پاس، لیکن رہتی وہ ہمیشہ چچا کے گھر ہی تھیں۔ آنا جانا چاہے کہیں بھی ہو، ان کا سامان اور رہائش ہمیشہ چچا کے گھر ہی ہوتی تھی۔
رانا بھائی اور سمیرا باجی کی منگنی رانی چچی کے گھر ہوئی تھی۔ عائشہ ساتویں جماعت میں تھی اور سب سے چھوٹی تھی۔ رشتے بڑے گرمجوشی سے نبھائے جاتے تھے، اور اس میں دوسری برادری کے ساتھ ہم بھی شامل تھے۔ امی اور رانی چچی کا رشتہ وٹہ سٹہ تھا، اور چچا میرے ماموں بھی تھے۔
"خط میں کیا لکھا ہے؟" ابو کو اب ٹھیک سے دکھائی نہیں دیتا تھا، اس لیے خط پڑھنے اور جواب لکھنے کی ذمہ داری میری تھی۔ ساتویں جماعت میں ہی میرا خط بہت اچھا تھا، سب تعریف کرتے تھے۔ اس لیے خط لکھنے کا سہرا میرے سر بندھ گیا، گویا چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ ہانیہ اور علی، جو پانچویں اور چھٹی جماعت میں تھے، ان کے مقابلے میں مجھے زیادہ اہمیت مل گئی تھی۔
"سات تاریخ کو گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہو رہی ہیں۔ بچوں کے کپڑے تیار ہو گئے ہیں، اور اگلے دن کی تیاری ہے۔ سب گھر والوں کو سلام۔"
میں نے خط پڑھ کر گویا ایک دریا پار کر لیا۔ ابو نے عینک ایک طرف رکھ دی تھی۔
"اچھا، پیاز وغیرہ لے لیے، شاہینہ؟"
امی ڈھیر سارے پیاز خریدتی تھیں، جو گرمیوں کے کچھ عرصے تک چارپائی کے نیچے مٹی کے صاف فرش پر پڑے رہتے۔ پلاؤ کے لیے چاول ایک ساتھ صاف کر کے مٹی کے گھڑوں میں رکھے جاتے، اور آٹا پسوایا جاتا تھا۔ سب کام ایک ساتھ ہو جاتے تھے۔ گرمیوں کی دوپہر میں جب کسی کو بے وقت بھوک لگتی، تو کوئی آواز لگاتا:
"امی! روٹی ہے چولہے کے نیچے، پر سالن نہیں۔"
"ہاں، تو ایک پیاز توڑ لے۔"
پھر چارپائی کے پائے سے پیاز توڑ کر روٹی پر رکھا جاتا، تھوڑا سا نمک چھڑک کر بھوک مٹائی جاتی۔
گرمیوں کی چھٹیوں میں میرا دل بہت خوش ہوتا تھا۔ چھٹیوں کا کام کون کرے بھلا؟ ایک بار سب کر لیں گے، اور پھر سارا سلیبس سردیوں میں ختم کر لیں گے۔ اتنی گرمی میں پڑھائی، میرا تو دل ہی نہیں مانتا تھا۔
سارا دن ٹیوب ویل پر نہانے کے سوا مجھے کہیں چین نہ ملتا۔ علی البتہ استاد جی سے ڈرتا تھا، وہ پھر بھی کتابوں پر جھک جاتا تھا۔ کبھی کبھار ہانیہ بھی، لیکن میں نہانا نہیں چھوڑتا تھا۔
صبح صبح امی سارا کام کر کے درخت کے نیچے چارپائیاں ڈال دیتیں۔ ابو کی زمینوں پر کام ہوتا، اور میں امی کے ساتھ تھوڑا بہت ہاتھ بٹا کر گھر کے وسیع صحن میں لگے ٹیوب ویل پر نہاتا۔ کھلے پانی میں نہانے کا مزا تو بس مجھے ہی پتا ہے۔
"پیاز لے آیا ہوں، اور چاول صاف ہو گئے ہیں کہ نہیں؟"
ابو نے بوری صحن میں رکھ دی تھی۔ پچھلے سال خالہ رفعت سے پیاز خریدی تھی، لیکن اس بار ان کی پیاز سیدھا منڈی پہنچ گئی تھی۔ اب دوسرے گاؤں، چک پندرہ، سے پیاز لائے تھے۔
"سارا کام ہو گیا ہے، احمد کے ابو؟"
"پر تیرا بھائی، اللہ جانے کتنے دن یہاں رہا بھی کہ نہیں۔ جتنا عارف اسے کھلا سکتا ہے، اتنا شاید ہم سے نہ ہو سکے، اور وہ زیادہ ٹکیں گے بھی ادھر ہی۔"
امی اداس ہی تھیں۔ امی کا بڑا دل کرتا تھا کہ ان سے کوئی دکھ سکھ کرتیں۔ نانی کے مرنے کے بعد امی کا دل بڑا ٹوٹ گیا تھا۔ سب سے چھوٹی تھیں اور سب سے زیادہ تنہائی بھی ان کے حصے میں آئی تھی۔ نانی سے ان کا بڑا گہرا رشتہ تھا۔
عمر ماموں کی امی سے کم ہی بنتی تھی۔ وجہ عمر کا فرق اور زمینوں کا فرق تھا۔ ماموں کی زمینیں تھیں اور زاہد بھائی کی کھاد کھلی کی دکان الگ۔ ماموں کے اندر غرور بہت تھا۔ ان کی لمبی کالی گردن میں گویا سریا فٹ تھا، خود کو کوئی اونچی شے سمجھتے تھے۔ مجھے تو ان سے بڑی چڑ ہو گئی تھی۔ بھئی جو کترائے اسے منہ نہ لگاؤ مگر امی کو کون سمجھائے۔
کھلے چاندنی نہاتے صحن میں ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی۔ احمد اور سارہ پہلے لڑتے بھاگتے پھر رہے تھے۔ اب سو چکے تھے۔ ہوا تھی ہی اتنی سجیلی اور کھلی اور اوپر سے بدلتی رُت۔
امی اور ابو کے دکھ سکھ جاری تھے، میں نے ہلکا والا کھیس سارہ کے اوپر ڈالا اور چھت پر چلی آئی۔ دور تک اندھیرا پھیلا تھا اور اونچی چھت سے تاحد نظر فصلیں ہی فصلیں تھیں، جوار، باجرہ اور کپاس کے کھیت۔ ہاں کپاس کی تو کل چنائی بھی تھی جو اذان کے فوراً بعد شروع ہوئی اور پھر صفائی اور ونڈائی (تقسیم)۔ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے میں پانی کی خوشبو بھی تھی، شاید چاچا کریم کے کھیتوں کو پانی لگ رہا تھا۔ آج انہیں کی باری تھی۔
پچھواڑے والا ٹیوب ویل چل رہا تھا اور سارا دن بھی چل رہا تھا۔
"بیٹی! او بیٹی!" امی کی آواز تیز تھی، میں سیڑھیاں اترتی نیچے آئی۔ "جی امی!"
"اب سو جا، رات بہت ہو گئی ہے۔" امی اور ابو بھی لیٹ چکے تھے۔ میں بھی لیٹ گئی تھی۔ تین دن بعد اتنے سارے مہمان خالد، حسان اور ماریہ، عنبر آپی اور روحی خالہ۔ میں خوش تھی۔ خوب ہلا گلا رہے گا انہیں پانی میں چھلانگیں مار کے دکھائیں گے اور ہاں نہر پر تو ضروری ہی لے جائیں گے۔ احمد، سارہ اور میں مل کے انہیں چھوٹی مچھلیاں بھی پکڑ کے دکھائیں گے۔ چھوٹی سی نہر کے مٹیالے پانی میں مچھلیاں بھی ہوتی تھیں جنہیں بچے پکڑتے تھے اور کبھی کبھار کوئی ذرا بڑی مچھلی بھی۔
میرے دل میں بہت سارے منصوبے تھے اور پھر نیند نے میرے گرد بھی گھیرا تنگ کر دیا تھا۔
صبح ہی صبح کا وقت تھا، امی اپلوں کی راکھ اکٹھی کر رہی تھیں اور احمد اپنے کنچے بوتل میں گن کے ڈال رہا تھا۔ نیلے پیلے، ہرے سنہری، وہ کانچ کی بڑی ساری بوتل بہت سنبھال کے رکھا کرتا تھا اور سارہ اپنی گڑیوں اور ان کے کپڑوں کو چھپا چھپا کے رکھتی تھی۔
"کیا ہو رہا ہے؟" بڑے سارے کچے کمرے میں پلنگوں کی قطار تھی اور صندوق اوپر اینٹوں پر دھرے تھے۔
"دو غائب ہیں، تم نے چرائے ہوں گے۔" احمد کی گول موٹی آنکھوں میں شکوہ اور اداسی دونوں تھے، سارہ کو تو مار بھی لیتا تھا، اس کے پیچھے حسب استطاعت دوڑ کر جایا کرتا تھا اور میں چونکہ خط لکھتی اور پڑھتی تھی اور ویسے بھی بڑی تھی تو احمد بے چارہ کیا کرتا۔
کوئی اور وقت ہوتا تو میں بوتل اس سے لے لیتی مگر اب مجھے ذرا ترس آ گیا تھا۔
"ادھر آؤ۔" میں نے اسے اٹھا لیا تھا۔ "آؤ مل کے کنچے ڈھونڈتے ہیں، یہیں کہیں گر گئے ہوں گے، اور پھر دیکھو پلنگ کے نیچے، صندوق کے ساتھ والے پلنگ کے ساتھ ہاں یہ ایک مل گیا اب دوسرا بھی ڈھونڈ لیتے ہیں۔" نیچے سارہ کی گڑیوں والا شاپر بھی مل گیا تھا۔
"اچھا تو یہ ہے وہ جس کے دوپٹے پر گوٹا لگ رہا تھا۔" پرسوں میں نے سارہ کو اسی پلنگ پہ سوئی دھاگا اور گوٹے کا ٹکڑا لیے بیٹھے دیکھا تھا۔ وہ سوئی دھاگے سے گڑیوں کے کپڑے سیتی تھی۔
"اٹھا نہ لیں ایک یہ والی۔" سارہ سہیلیوں کے ساتھ باہر کھیلنے گئی تھی یا پھر چھت پر ہو گی۔ اسی لیے احمد کی اتنی جرات ہوئی تھی کہ اس نے سارہ کی گڑیوں میں سے ایک کو منتخب کر لیا تھا۔ اب کے اس کی آنکھوں میں شرارت تھی اور بغل میں بوتل۔
"چلو رکھو واپس۔"
میں اپنی جون میں واپس آ چکی تھی اور وہ پلنگ کے نیچے شاپر رکھ رہا تھا۔
بڑے چچا کے یہاں ہی روحی خالہ کی پہلے آمد ہوئی تھی۔ خالہ انہی کے گھر زیادہ رہتی تھیں پھر باقی برادری کے یہاں ملنا ملانا ہوتا تھا۔
"امی! خالہ آ گئی ہیں۔ کریم چاچا نے بتایا ہے۔ ابھی گنے لے کے جا رہے تھے گاؤں چک بارہ۔"
کریم چاچا نے ریڑھی پر بیٹھے بیٹھے ہی مجھے اطلاع دی تھی۔ جب میں ککڑیاں لے کے کھیت سے آ رہی تھی۔
"بیٹی! آ گئی ہے تیری چچی۔ سویرے سویرے اسٹیشن تک سالم تانگا کروایا ہے تیرے بڑے چچا حامد نے۔"
چاچا خوش ہو کے بتا رہا تھا اور میں بھی بڑی خوشی خوشی بھاگی آئی تھی۔ امی کے پاس۔
"چل شام کو چلتے ہیں تیرے ابا کے ساتھ۔"
"چچی آ گئی۔ چچی آ گئی۔" احمد سارے صحن میں گھومتا پھر رہا تھا۔ خوشی انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی۔
"تمہاری شادی نہیں ہو رہی جس میں شرکت کرنے آ رہی ہیں۔"
"پہلے تو تمہاری ہو گی آپی! سچ آپی! کب جاؤ گی یہاں سے۔" وہ بھاگ کر صحن عبور کر گیا تھا۔
"باجی! عنبر باجی میری باجی ہیں بس باقیوں میں سے کوئی تم لے لو۔"
احمد، عنبر باجی کی گود میں تھا اور سارہ، عمر بھائی کے ساتھ لٹکی کھڑی تھی اور میں ماریہ باجی سے چمٹی کھڑی تھی۔ امی خالہ سے مل رہی تھیں۔
"روحی! امی کے بعد تو میں۔۔۔۔۔۔۔" امی نانی کے انتقال کے دو سال بعد بھی سنبھل نہیں پائی تھیں، اب بھی پھوٹ پھوٹ کر رو پڑیں۔
"اب بس بھی کر دے، کیا ہر وقت رونا دھونا مچائے رکھتی ہے۔" یہ عمر ماموں تھے جنہیں نجانے کس بات پر غصہ آ گیا تھا اچانک ہی۔
"اسے تو اللہ جانے کیا ہے، یاد ہی نہیں کرتا اماں کو۔"
امی روحی خالہ سے الگ ہو کے آنسو پونچھ رہی تھیں۔ یہ دونوں بہنوں کا میکہ تھا۔ نانی تھیں تو امی کا گھر بھی تھا کیونکہ ماموں تو ایسے ہی تھے اور اب نانی کے بعد وہ صرف روحی خالہ کا میکہ رہ گیا تھا، شاید امی کا نہیں۔ مگر امی کو یہ سمجھاتا کون!
ممانی اپنے ہونے والے داماد کے لیے بوٹیوں اور تری والا سالن نکال کر رکھ رہی تھیں۔ زاہد، ماریہ باجی کو دیکھ رہا تھا اور نہال ہوئے جا رہا تھا جبکہ حسان بھائی شازیہ باجی کے لیے بے چین تھے وہ اکثر ہی یہاں پائے جاتے تھے انہیں گاؤں کی آب و ہوا بھا گئی تھی یا شاید شازیہ باجی کی نظر نے انہیں جکڑا تھا۔ دوسری وجہ زیادہ بھاری بھرکم تھی، ان کی محبت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی اور نہ ہی والہانہ پن مخفی تھا۔
عائشہ، عمر بھائی کے ساتھ لگی تھی، عمر ہماری ہی عمر کا تھا لیکن مجھ سے اور عائشہ سے ذرا بڑا تھا۔ بہرحال جو ان دونوں سال اول میں تھا۔
"عمر بھائی! میں آپ کو امرود توڑ کے کھلاؤں گی۔" عائشہ نے اسے بازو سے تھام رکھا تھا۔
"ہاں ضرور اور سیر کو بھی چلیں گے لیکن پہلے میں نہا لوں۔ بہت تھک گیا ہوں۔ خالہ صابن دے دیں مجھے۔"
اور جلدی سے صابن لانے دوڑیں۔ مرغیاں ذبح ہو گئی تھیں اور روٹیاں فاطمہ لگا رہی تھی۔
"لے بی بی فاطمہ! روٹیاں ہو گئیں، اب تنور ڈھانک رہی ہوں۔ کسی دوسرے نے روٹیاں لگانی ہوں تو سینک (تپش) ابھی بہت ہے۔" وہ تنور کو ڈھانکنے لگی۔
"اچھا تو یہ ہے وہ جس کے دوپٹے پر گوٹا لگ رہا تھا۔" پرسوں میں نے سارہ کو اسی پلنگ پہ سوئی دھاگا اور گوٹے کا ٹکڑا لیے بیٹھے دیکھا تھا۔ وہ سوئی دھاگے سے گڑیوں کے کپڑے سیتی تھی۔
"اٹھا نہ لیں ایک یہ والی۔" سارہ سہیلیوں کے ساتھ باہر کھیلنے گئی تھی یا پھر چھت پر ہو گی۔ اسی لیے احمد کی اتنی جرات ہوئی تھی کہ اس نے سارہ کی گڑیوں میں سے ایک کو منتخب کر لیا تھا۔ اب کے اس کی آنکھوں میں شرارت تھی اور بغل میں بوتل۔
"چلو رکھو واپس۔"
میں اپنی جون میں واپس آ چکی تھی اور وہ پلنگ کے نیچے شاپر رکھ رہا تھا۔
بڑے چچا کے یہاں ہی روحی خالہ کی پہلے آمد ہوئی تھی۔ خالہ انہی کے گھر زیادہ رہتی تھیں پھر باقی برادری کے یہاں ملنا ملانا ہوتا تھا۔
"امی! خالہ آ گئی ہیں۔ کریم چاچا نے بتایا ہے۔ ابھی گنے لے کے جا رہے تھے گاؤں چک بارہ۔"
کریم چاچا نے ریڑھی پر بیٹھے بیٹھے ہی مجھے اطلاع دی تھی۔ جب میں ککڑیاں لے کے کھیت سے آ رہی تھی۔
"بیٹی! آ گئی ہے تیری چچی۔ سویرے سویرے اسٹیشن تک سالم تانگا کروایا ہے تیرے بڑے چچا حامد نے۔"
چاچا خوش ہو کے بتا رہا تھا اور میں بھی بڑی خوشی خوشی بھاگی آئی تھی۔ امی کے پاس۔
"چل شام کو چلتے ہیں تیرے ابا کے ساتھ۔"
"چچی آ گئی۔ چچی آ گئی۔" احمد سارے صحن میں گھومتا پھر رہا تھا۔ خوشی انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی۔
"تمہاری شادی نہیں ہو رہی جس میں شرکت کرنے آ رہی ہیں۔"
"پہلے تو تمہاری ہو گی آپی! سچ آپی! کب جاؤ گی یہاں سے۔" وہ بھاگ کر صحن عبور کر گیا تھا۔
"باجی! عنبر باجی میری باجی ہیں بس باقیوں میں سے کوئی تم لے لو۔"
احمد، عنبر باجی کی گود میں تھا اور سارہ، عمر بھائی کے ساتھ لٹکی کھڑی تھی اور میں ماریہ باجی سے چمٹی کھڑی تھی۔ امی خالہ سے مل رہی تھیں۔
"روحی! امی کے بعد تو میں۔۔۔۔۔۔۔" امی نانی کے انتقال کے دو سال بعد بھی سنبھل نہیں پائی تھیں، اب بھی پھوٹ پھوٹ کر رو پڑیں۔
"اب بس بھی کر دے، کیا ہر وقت رونا دھونا مچائے رکھتی ہے۔" یہ عمر ماموں تھے جنہیں نجانے کس بات پر غصہ آ گیا تھا اچانک ہی۔
"اسے تو اللہ جانے کیا ہے، یاد ہی نہیں کرتا اماں کو۔"
امی روحی خالہ سے الگ ہو کے آنسو پونچھ رہی تھیں۔ یہ دونوں بہنوں کا میکہ تھا۔ نانی تھیں تو امی کا گھر بھی تھا کیونکہ ماموں تو ایسے ہی تھے اور اب نانی کے بعد وہ صرف روحی خالہ کا میکہ رہ گیا تھا، شاید امی کا نہیں۔ مگر امی کو یہ سمجھاتا کون!
ممانی اپنے ہونے والے داماد کے لیے بوٹیوں اور تری والا سالن نکال کر رکھ رہی تھیں۔ زاہد، ماریہ باجی کو دیکھ رہا تھا اور نہال ہوئے جا رہا تھا جبکہ حسان بھائی شازیہ باجی کے لیے بے چین تھے وہ اکثر ہی یہاں پائے جاتے تھے انہیں گاؤں کی آب و ہوا بھا گئی تھی یا شاید شازیہ باجی کی نظر نے انہیں جکڑا تھا۔ دوسری وجہ زیادہ بھاری بھرکم تھی، ان کی محبت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی اور نہ ہی والہانہ پن مخفی تھا۔
عائشہ، عمر بھائی کے ساتھ لگی تھی، عمر ہماری ہی عمر کا تھا لیکن مجھ سے اور عائشہ سے ذرا بڑا تھا۔ بہرحال جو ان دونوں سال اول میں تھا۔
"عمر بھائی! میں آپ کو امرود توڑ کے کھلاؤں گی۔" عائشہ نے اسے بازو سے تھام رکھا تھا۔
"ہاں ضرور اور سیر کو بھی چلیں گے لیکن پہلے میں نہا لوں۔ بہت تھک گیا ہوں۔ خالہ صابن دے دیں مجھے۔"
اور جلدی سے صابن لانے دوڑیں۔ مرغیاں ذبح ہو گئی تھیں اور روٹیاں فاطمہ لگا رہی تھی۔
"لے بی بی فاطمہ! روٹیاں ہو گئیں، اب تنور ڈھانک رہی ہوں۔ کسی دوسرے نے روٹیاں لگانی ہوں تو سینک (تپش) ابھی بہت ہے۔" وہ تنور کو کپڑے سے ڈھک کر جا رہی تھی۔ ظاہر ہے ہم آئے ہوئے مہمان زیادہ تھے تو کھانا بھی زیادہ تھا۔ ہمارا واپس جانے کا ارادہ تھا، شام ہو رہی تھی اور واپسی جاتے جاتے اندھیرا زیادہ ہو جاتا۔
ابا گھر پر اکیلے تھے، بڑے چچا حامد سے دو کل ملنے آتے۔
"سارا سوٹ تباہ کر دیا تو نے۔" ماموں دھاڑ اٹھے تھے۔ امی پانی سے ہاتھ دھو کر پیچھے ہٹیں تو ذرا سا پانی ان پر بھی گر گیا تھا اور وہ غضب ناک ہو گئے تھے۔ بات اتنی تھی نہیں جتنا اسے بڑھا دیا گیا تھا۔
امی دکھی ہو گئی تھیں وہ لمبی کچی سڑک پر ہمیں لیے باہر نکل آئی تھیں۔ اچھا تو مجھے بھی نہیں لگا تھا مگر کیا کر سکتی تھی۔ سورج دور کھیتوں میں تانبے کے بڑے گولے کی طرح غروب ہو رہا تھا، امی اور ماموں کے تعلقات بھی ایسے ہی غائب ہو جاتے تو کتنا اچھا تھا۔
"ہے تو میرا بھائی مگر۔" امی رو پڑی تھیں۔
"ایسے ہوتے ہیں بھائی!" میں بڑبڑائی ضرور مگر بولی نہیں۔
"روحی خالہ شاید کل ہماری طرف بھی آئیں۔" احمد بستر پر لیٹے لیٹے پوچھ رہا تھا یا بتا رہا تھا۔
"تم نے سونا ہے یا نہیں۔" امی کے گھر پر دبک گیا تھا اور سارہ، وہ تو یوں بھی جلدی سو جاتی تھی۔
"مہمان تو ماموں کے تھے اور ہم نے یونہی اناج کے ڈھیر جمع کر لیے ہیں۔ اب پتا نہیں ہمارے گھر ماموں انہیں آنے دیں گے یا نہیں۔"
میں نے انہیں جو جو دلیریاں دکھانی تھیں سارے خواب مجھ سے پہلے لم لیٹ ہونا شروع ہوگئے تھے۔
پنجیری کی بڑی لبالب بھری پلیٹ کریم چاچا کے ہاں سے آئی تھی۔ گرم پنجیری میں سے دیسی گھی کی مہک اٹھ رہی تھی۔ احمد اس میں انگلی ڈبو ڈبو کر کھا رہا تھا اور سارہ بے چاری جب بھی انگلی قریب لاتی، جلنے کا ڈر اس کے گرد گھیرا ڈال لیتا اب وہ چمچ کی تلاش میں بھاگی پھر رہی تھی جبکہ احمد جلدی جلدی ہڑپ کرنے کے چکر میں تھا۔
"امی! یہ حلوہ کس خوشی میں تھا؟" میں نے امی سے پوچھا تھا۔
"جہاں دید خیر سے وڈا افسر ہو گیا ہے نہروں کے محکمے میں، اسی خوشی میں سب کا منہ میٹھا کروایا ہے کریم چاچا نے۔" امی نے کہا۔
"اچھا اچھا جہاں دید!" میری نظر میں جہاں دید کا سراپا گھوم گیا تھا۔ وہ شہر میں پڑھتا تھا اور اکثر ہی گاؤں آتے جاتے اسے دیکھتی تھی۔ چھوٹے سے لمبے بیگ کو کندھے سے لٹکائے وہ کھیتوں میں آتے ہوئے وہ شہری ہی لگتا۔ گاؤں کا باسی نہیں۔ وہ سب کو سلام کرتا تھا گھروں میں آتا جاتا بھی تھا اور پھر وہ موٹی موٹی کتابیں پڑھنے والا بابو ایک عجیب کام کرتا تھا۔
وہ درانتی پکڑ کر پٹھے (چارہ) کاٹتا تھا اور پھر مشین میں باریک کر کے بھینسوں کے آگے ڈالتا اسے اس میں بھی مہارت حاصل تھی۔
"خالہ آ گئیں۔"
میں اور سارہ کریم چاچا کے گھر بیٹھے تھے۔ عائشہ سے میری اچھی دوستی تھی، وہ دوپٹے پر بیل کاڑھنے میں مصروف تھی۔ قمیض کے بیل بوٹوں پر کڑھائی مکمل تھی، صرف دوپٹہ باقی بچا تھا۔
"سنا میں تمہیں بھی ایسا ہی دوپٹہ کاڑھ کر دوں گی۔" وہ سبز سبز دھاگے میں الجھی الجھی بولی تھی کہ احمد بھاگتا بلکہ چوکڑیاں بھرتا چلا آیا تھا۔
"حسان بھائی، عمر اور خالہ اور اور آپیاں بھی آئی ہیں۔"
اب جب میں مایوس ہو گئی تھی تو وہ آ گئے تھے۔ ابا بڑے چچا حامد سے ملنے کے بعد لکڑیاں کاٹ رہے تھے، اور امی پلاؤ کے لیے پیاز کاٹ رہی تھیں۔
"السلام علیکم حسان بھائی!" میں نے حسان بھائی کو سلام کیا تھا پھر عمر بھائی کو۔ ماریہ آپی اور عنبر آپی نے مجھے گلے لگایا تھا۔
"سنا! جا کرم علی کے گھر میں مرغیوں کا کہہ آئی ہوں۔ تیری خالہ سے پکڑی نہیں جا رہیں، تو اور احمد مل کے پکڑ لاؤ اور جلدی آنا۔" میں اور احمد اٹھ کے چل دیے تھے پیچھے پیچھے سارہ بھی۔
"خالہ! میں بھی ان کے ساتھ جاؤں۔" اور عمر بھی ہمارے ساتھ چل پڑا تھا۔
"تمہارا گاؤں بہت خوبصورت ہے۔" بہتی ندی کے شفاف پانی میں عمر نے جھانک کر کہا تھا۔
"ہمیں تو گاؤں میں ہی ہونا چاہیے تھا، یہ حسین مناظر شہر میں کہاں؟"
"تو ان مناظر کو نگاہوں میں بھر لے جائیے، تازہ دم رہیے۔"
میں مسکرا اٹھی اور احمد نے چلو بھر کر ٹھنڈا پانی ان پر پھینک دیا۔
"واہ بھئی! تم تو بڑے اچھے لفظ استعمال کرتی ہو۔" وہ ہنس کر بولے۔
"یہ عائشہ کون سی کلاس میں ہے بھلا؟" وہ ذہن پر زور دے کر بولے۔
"آٹھویں میں۔" احمد پھر بول پڑا تھا۔ "خیر، تم تو اس کے برعکس سنجیدہ اور ذمہ دار ہو گئی ہو، وہ تو جیسی پچھلے برس چھٹیوں میں تھی اب بھی ویسی ہی ہے۔" مرغیاں پکڑ کے ہانپتا ہوا احمد بھی مرغا ہی لگ رہا تھا۔
"اب کرتا ہوں تیرا بندوبست۔" وہ بڑی چونچ والے غصیلے مرغے کو گھور کر بولا۔
"بہت غصے میں ہے یہ مرغا۔" عمر نے احمد کو بتایا تھا کیونکہ وہ تیز چونچ کھولے اسے چٹکی بھرنے کا ارادہ باندھ رہا تھا۔ بڑے چولہے پر امی پلاؤ کا دیگچہ دھرے خالہ سے محو گفتگو تھیں۔
"اب تم خود ہی سوچو، بھائی ساجد کا (ماموں جان) رویہ میرے ساتھ ٹھیک ہے۔ میرا بھی میکہ ہے۔ کبھی جاؤں تو ایسے ہی بہانے بنا کے شروع ہو جاتا ہے، جب سے اماں گئی ہیں، مجھے تو وہ گھر اپنا گھر لگتا ہی نہیں۔"
خالہ مرغے کی ٹانگ سے نبرد آزما تھیں جو امی نے انہیں بھنائی کے وقت نکال دی تھی۔
"ایک ہی بھائی ہے ہمارا، پتا نہیں میں اسے اتنی بری کیوں لگتی ہوں۔ مجھے تو دیکھ کر ہی اس کے تیور بگڑ جاتے ہیں، تو بھی تو بہن ہی ہے ناں، چلو تیرے گھر رشتے کر رکھے ہیں، میں بھی بس تیری وجہ سے آئی تھی۔"
عنبر آپی اور ماریہ آپی پلاؤ پکنے کا انتظار کر رہی تھیں۔
"یہ پودینہ کس نے لگایا ہے؟" عمر بھائی نے پودینے کی خوشبو اپنے اندر اتارتے ہوئے مجھ سے پوچھا تھا۔
"میں نے لگایا ہے، جب کبھی دل چاہا، چٹنی بنا لی۔ رائتہ بنا لیا اور پھر خوشبو سارے گھر میں پھیلی رہتی ہے۔"
"یہ تو بہت اچھی بات ہے، بلکہ تم تو ساری کی ساری اچھی ہو بیٹا!" وہ مسکرا کر بولا۔
پھر چھٹیاں ختم ہوئیں اور وہ واپس لاہور کے ہنگاموں میں کھو گئے تھے، اب اگلی چھٹیوں میں پھر ملنا تھا۔ عمر بھائی کی تعریف پر میں بہت خوش بھی تھی اور حیران بھی، انہوں نے میری تعریف ہی کی تھی یا ان کی نظروں میں پسندیدگی بھی کنڈلی مارے بیٹھی تھی، سردی کی راتیں ستاروں سے بھری تھیں اور میں یہ سوچ بھگانے کے چکر میں تھی کہ وہ مجھے پسند کر بیٹھے تھے۔

ساجد ماموں لاہور گئے تھے اور اپنے ساتھ خوشبودار باسمتی چاول، گڑ، مکھن، دیسی گھی اور میوے بھرا حلوہ بنوا کر لے گئے تھے اور بڑی بات اس دفعہ عائشہ بھی ان کے ساتھ گئی تھی اور ہمیں کانوں کان خبر بھی نہ ہو سکی تھی۔
عائشہ مہینے بھر کے لیے وہاں رک گئی تھی۔ اس بات کی خبر ہمیں یوں ہوئی کہ اس دفعہ سردیوں کے کپڑے ہم نے لاہور کے انارکلی بازار سے لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ سنا تھا کہ وہاں سے اعلا سے اعلا کپڑا، جوتے اور بھی خوبصورت چیزیں جیسے کلپس، سویاں، چوڑیاں وغیرہ مل جاتی ہیں۔ اس بازار کی تو دھوم تھی ہمارے چک میں۔ اس بار سارہ اور احمد ابا کے ساتھ لاہور جا رہے تھے اور پر ٹھوکر نیاز بیگ سے ہوتے ہوئے ہم خالہ جان کی طرف آ گئے تھے۔ میں اور سارہ عائشہ کو دیکھ کر حیران رہ گئے تھے۔ وہ وہاں اٹھلاتی پھر رہی تھی۔
ماموں نے حسان بھائی کے لیے تو شازیہ باجی کا رشتہ دیا ہی تھا اور اب وہ عائشہ کے لیے عمر کو پسند کرنے لگے تھے کیونکہ ان کی آمد و رفت یہی بتاتی تھی، خیر بڑے برآمدے میں بیٹھی خالہ جان سے مل ملا کر وہ کولڈ ڈرنک بمشکل حلق سے اتار رہے تھے۔

"اور سنائیں حامد بھائی۔" خالہ جان ابو سے باتیں کرنے لگی تھیں، ابو منہ ہاتھ دھو پنکھے تلے بہتر محسوس کر رہے تھے۔
"آہا! سنا آئی ہیں!" عمر خوش نظر آ رہے تھے اور عائشہ کے منہ پر بارہ بج چکے تھے۔ اس کے ایسے استحقاق پر مجھے حیرت ہوئی تھی، وہ عمر کے لیے ایسی ہے مگر کس رشتے سے؟ اور ماموں جو اسے خالہ جان کے ہاں چھوڑ گئے تھے اور پھر کسی کو خبر نہ ہونے دی تھی۔
خالہ کے گھر کے چھوٹے سے دروازے سے لگی بغیر خوشبو پھولوں والی بیل کی طرح عائشہ بھی ان کے برآمدے میں لگ جانا چاہتی تھی۔
پھر یوں ہوا کہ ماموں جیت گئے، ان کی پلاننگ کامیاب رہی۔ خالہ جان کی بہوئیں، ان کی دونوں بیٹیاں عائشہ اور شازیہ بنیں۔ ہمیں ایک طرف کر دیا گیا۔ بڑے چچا نے تو ہمیشہ سے بیکار زندگی گزاری تھی۔ انہیں خالہ جان کے فیصلوں کا علم نہ ہو سکا۔
ماموں جان، زاہد بھائی کو ان کے گھر کا داماد بنانے کے ساتھ ساتھ ان کے بیٹوں کو اپنا داماد بنا بیٹھے۔
"آپی! بالآخر تم یہاں سے جا رہی ہو۔" احمد میرے کان میں خوش ہوا تھا البتہ سارہ اداس سی تھی۔
"جا رہی ہوں مگر اسی گاؤں کی دوسری گلی میں۔ اچھا زیادہ خوش نہ ہو۔"
میں بھی منمنائی کیونکہ گھونگھٹ میں زیادہ بولنا کوئی سن لیتا تو، اسی وجہ سے میں چپکے چپکے احمد کو جواب دے رہی تھی۔
"تم میری محبت ہو۔" جہاں دید ایسا بھی بول سکتا تھا، ایسے بھی سوچ سکتا تھا، میں حیران تھی۔ "جب جب میں گاؤں کی رسیلی ہواؤں اور گنگناتی ندیوں کو چھوڑ کے گیا، وہاں سنا تم میرے ساتھ رہیں۔ میں نے صرف تمہیں چاہا۔"
جہاں دید کی نگاہیں ہمیشہ نیچی رہی تھیں تو پھر اس نے مجھے دیکھا کب تھا؟ سوال جو دل میں چھپا بیٹھا تھا، لبوں تک نہیں آیا۔ چوڑیوں کی چھن چھن پوری کائنات میں بکھر گئی – میرا ہاتھ اس کے ہاتھ میں تھا۔
"میں اتنا خوش نصیب ہوں کہ مجھے تم مل گئیں۔" وہ بولتا اور میں سنتی تھی۔
"کیا تم مجھ سے میرے جتنی محبت کرو گی سنا؟" وہ میری چپ جو حیرت تھی، اسے توڑنا چاہتا تھا۔
"جی!" میں یہی کہہ سکتی تھی کیونکہ دل اور زبان میرا اتنا ہی ساتھ دے پائے تھے۔
جہاں دید نے مجھے بتایا کہ محبت کیا ہے، ہمت کیا ہے، اور عمر اس سے تو میں نے کچھ نہیں سیکھا، مگر شاید کچھ سیکھنا باقی تھا جو میں اپنے چچا زاد سے ملنے چل پڑی تھی۔
"تباہ کر دی ہے تم نے میری زندگی اور تمہارا باپ وہ (گالی)۔" گھر جو چھوٹی سی کھولی میں بدل چکا تھا بٹوارے کے بعد اور اچانک ہی چوکھٹ پر پڑے قدم نے سمجھا دیا تھا کہ اللہ کے ہر کام میں مصلحت ہے۔ ماموں جان کھلا کر کتا کہلائے تھے اور میں نے راستے سے ہٹ کر اپنا مقام بنا لیا تھا۔
عمر کے بال اڑ چکے تھے اور عائشہ کی حالت مجھے دیکھ کر اور بگڑ گئی تھی۔ وہ مجھے دیکھ رہی تھی اور خالہ جان بے بسی کی تصویر۔
میں ذرا سی دیر بیٹھ کر اٹھ گئی تھی۔ عائشہ پیچھے برآمدے کے ستون سے لگی تھی۔
تمہیں تو خیر میرے غم کدے سے جانا تھا کہاں گئیں میری نیندیں کدھر گئے میرے خواب
امی اور ابو کو کسی سے کوئی شکایت نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ہمیشہ سے نواز رکھا تھا اور آج بھی۔ ماموں نے خود اپنے لیے جو راستہ چنا تھا اس کی کوئی منزل نہیں، وہ بازی جیت کر بھی ہار گئے تھے۔

کہانی کا اختتام اور مشورہ
کہانی کا یہ اختتام بتاتا ہے کہ زندگی میں رشتے اور تعلقات کس طرح بدلتے ہیں۔ یہ اس بات کو نمایاں کرتا ہے کہ بعض اوقات ہماری توقعات کے برعکس فیصلے ہوتے ہیں، لیکن قسمت ہمیں بہتر راستوں کی طرف لے جاتی ہے۔ یہاں راوی نے دکھ، تنہائی، اور خاندانی جھگڑوں کو جھیلنے کے بعد بالآخر اپنی خوشی اور اپنا مقام حاصل کر لیا ہے۔ جہاں دید کا کردار اس کی زندگی میں ایک مثبت موڑ لے کر آیا، اور اس نے اسے محبت اور ہمت کا سبق سکھایا۔ ماموں کے رویے اور ان کے فیصلوں نے اگرچہ ایک وقت کے لیے دکھ دیا، لیکن آخر میں وہ خود ہی اس کے نتائج بھگتے۔
مشورہ: زندگی میں ایسے موڑ آتے ہیں جہاں ہمیں لگتا ہے کہ ہم نے سب کچھ کھو دیا ہے یا ہمارے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔ لیکن ہر مشکل کے پیچھے کوئی نہ کوئی مصلحت چھپی ہوتی ہے، اور اللہ تعالیٰ بہترین منصوبہ ساز ہے۔ ہمیں صبر اور استقامت سے کام لینا چاہیے اور اپنے راستے پر مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے۔ رشتے، چاہے کتنے ہی پیچیدہ کیوں نہ ہوں، اگر ہم اپنا رویہ مثبت رکھیں تو بالآخر ہمیں اپنی منزل مل جاتی ہے۔ منفی لوگوں اور ان کے رویوں کو اپنی خوشیوں پر حاوی نہ ہونے دیں، کیونکہ ان کی اپنی سوچ ہی ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں for "گرمیوں کی چھٹیاں"