Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

زندگی کے امتحان



کہانی: زندگی کے امتحان

مریم ایک ایسی لڑکی تھی جس کی زندگی کے 18 سال ہنسی خوشی گزرے۔ اس کے والدین، فاطمہ اور یوسف، نے اسے ہمیشہ ایک ہی سبق سکھایا: "بیٹی، گھر سے باہر قدم رکھنے سے پہلے اپنی اور ہماری عزت کا خیال رکھنا۔" مریم کے لیے یہ سبق کوئی معمولی بات نہ تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اس کے والدین کا بھرم اس کے دامن سے جڑا ہے، اور اسے ہر حال میں اس کی حفاظت کرنی ہے۔ اپنی تعلیم کے سفر کو اس نے اسی عزم کے ساتھ مکمل کیا کہ وہ کبھی اپنے والدین کی تربیت پر انگلی نہ اٹھنے دے گی۔ روزانہ کے سبق اس کے دل و دماغ میں نقش تھے، جیسے کوئی مقدس تحریر جو کبھی بھلائی نہ جا سکے۔

لیکن زندگی ہمیشہ منصوبوں کے مطابق نہیں چلتی۔ ایک دن مریم کی ملاقات عمر سے ہوئی۔ عمر ایک ایسی شخصیت کا مالک تھا جو بظاہر پرسکون اور دلکش تھا۔ اس کی گفتگو کا انداز دل میں اتر جاتا تھا، جیسے وہ مایوسی کو کبھی چھو بھی نہ سکتا ہو۔ اس کی مسکراہٹ میں ایک عجیب سی کشش تھی، اور اس کی باتوں میں ایک ایسی سچائی جو مریم کے دل کو موہ لیتی تھی۔ پہلی ہی ملاقات میں مریم اس کی دلدادہ ہو گئی۔ اس نے دل ہی دل میں خواہش پال لی کہ وہ ہر روز عمر سے ملے، اس کی باتیں سنے، اور اس کے قریب رہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مریم اور عمر کی دوستی گہری ہوتی گئی۔ مریم نے اپنا ہر دکھ سکھ عمر کے ساتھ بانٹنا شروع کر دیا۔ وہ اسے اپنے خوابوں، اپنی خواہشات، اور اپنی زندگی کی چھوٹی بڑی باتوں سے آگاہ کرتی۔ عمر بھی اس کی باتوں کو غور سے سنتا، اور اسے لگتا کہ وہ اسے سمجھتا ہے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد مریم نے نوکری کرنے کا فیصلہ کیا۔ خوش قسمتی سے اسے وہی نوکری مل گئی جہاں عمر کام کرتا تھا۔ اب ہر روز اس کا چہرہ دیکھنا، اس سے بات کرنا، مریم کے لیے کسی معجزے سے کم نہ تھا۔

چند روز بعد، مریم اور عمر نے ایک دوسرے سے اپنی محبت کا اعتراف کر لیا۔ دونوں نے فیصلہ کیا کہ وہ شادی کریں گے اور ایک نئی زندگی شروع کریں گے۔ لیکن مریم کے لیے یہ فیصلہ آسان نہ تھا۔ اس کا تعلق ایک ایسے خاندان سے تھا جہاں پسند کی محبت کا تصور ایک جرم سے کم نہ تھا۔ فاطمہ اور یوسف کے لیے بیٹی کی عزت سب سے مقدم تھی، اور وہ کبھی نہ چاہتے کہ مریم کوئی ایسا قدم اٹھائے جو خاندان کی بدنامی کا باعث بنے۔ مریم اور عمر نے سوچا کہ وہ وقت کے ساتھ اپنے خاندان کو قائل کر لیں گے، اور فی الحال اپنی محبت کو چھپا کر زندگی گزارنا شروع کر دیا۔

لیکن محبت نے اپنے اصول وضع کر دیے، جو والدین کے سکھائے سبق سے کہیں زیادہ سخت تھے۔ عمر نے مریم سے کہا، "میری اجازت کے بغیر کوئی قدم نہ اٹھانا۔ کسی سے بات کرنے سے پہلے یہ سوچنا کہ تم میری عزت ہو۔ کسی سے دوستی کی تو سمجھ لینا کہ ہمارا رشتہ ختم۔ سچ اس حد تک بولنا کہ جھوٹ کی کوئی گنجائش نہ رہے۔" مریم نے یہ سب قبول کر لیا۔ اسے عمر پر اتنا یقین تھا کہ اس نے ان اصولوں کو پابندی نہیں، بلکہ اپنی حفاظت کا ذریعہ سمجھا۔ وہ سوچتی تھی کہ یہ اصول اس کی محبت کی مضبوطی کے لیے ہیں۔

دفتری زندگی میں بات چیت ناگزیر تھی، لیکن مریم ہر وقت احتیاط کرتی کہ کہیں عمر کے اصولوں کی خلاف ورزی نہ ہو۔ وہ اپنے دامن کو ہر داغ سے بچانے کی کوشش کرتی، لیکن یہ احتیاط اس کے لیے ایک امتحان بن گئی۔ عمر کے اصول یکطرفہ تھے، اور مریم کو لگتا کہ اسے ہی ہر قربانی دینی پڑتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس نے سوچنا شروع کیا کہ کسی سے بات کرنا کوئی گناہ نہیں، البتہ محبت میں شرک کرنا گناہ ہے۔ اسی سوچ کے تحت اس نے ارشد کی دوستی قبول کر لی۔

ارشد ایک مختلف انسان تھا۔ اس کی نظر میں عورت کے لیے احترام تھا، اور وہ دوستی کو وقت گزاری نہیں، بلکہ ایک مضبوط رشتہ سمجھتا تھا۔ مریم کو اس کی سادگی اور خلوص نے متاثر کیا۔ وہ اس سے اپنی باتیں بانٹنے لگی، لیکن اس نے عمر کو اس دوستی سے آگاہ نہ کیا۔ ارشد کے ساتھ اس کی دوستی گہری ہوتی گئی، اور وہ اسے اپنا ایک اچھا دوست سمجھنے لگی۔ لیکن جب عمر کو اس دوستی کا پتہ چلا، وہ آگ بگولہ ہو گیا۔ اس نے مریم کو لعن طعن کرنا شروع کر دیا اور کہا کہ اس نے اس کی محبت کی توہین کی ہے۔ عمر نے ارشد کی موجودگی کو برداشت نہ کیا اور مریم سے رشتہ توڑنے کی دھمکی دی۔

مریم، جو عمر سے بے پناہ محبت کرتی تھی، نے فوراً ارشد سے دوستی ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے عمر سے معافی مانگی اور اپنی محبت کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ لیکن عمر کا یقین ٹوٹ چکا تھا۔ وہ مریم کو معاف تو کرتا، لیکن ہر جھگڑے میں ارشد کا ذکر چھیڑ دیتا۔ مریم کے لیے یہ شک کی پہلی سیڑھی تھی، جس نے اس کے دل کو زخمی کر دیا۔

کچھ عرصہ بعد، ارشد نے مریم سے اپنی محبت کا اعتراف کر لیا۔ اس نے شادی کی پیشکش بھی کی۔ مریم کے لیے یہ ایک عجیب کشمکش تھی۔ وہ عمر سے محبت کرتی تھی، اور ارشد کی محبت کو قبول کرنا اس کے لیے ناممکن تھا۔ لیکن ارشد کی دیوانگی اور خلوص نے اسے متاثر کیا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ ارشد کی محبت کو قبول نہیں کرے گی، لیکن اس کی دوستی کو نبھائے گی۔ لیکن یہ دوستی عمر کے لیے ناقابل برداشت تھی۔

ایک دن، عمر نے مریم کے باپ یوسف کو فون کیا اور کہا، "آپ کی بیٹی کا کردار مشکوک ہے۔ اسے نوکری کرنے کی کیا ضرورت ہے؟" یوسف کے لیے یہ بات قیامت سے کم نہ تھی۔ اس نے مریم سے پوچھ گچھ کی اور اسے سخت سست کہا۔ فاطمہ نے بھی مریم سے منہ موڑ لیا، کیونکہ ان کے لیے خاندان کی عزت سب سے مقدم تھی۔ مریم اپنے والدین کا اعتماد کھو چکی تھی۔ وہ تنہا تھی، اور اس کا واحد سہارا ارشد تھا، جو ہر مشکل میں اس کے ساتھ کھڑا رہتا۔

لیکن عمر نے اپنی حدود پار کر دیں۔ اس نے مریم کو "طوائف" کہا اور کہا کہ وہ ایک "گندی عورت" ہے جو شادی کے قابل نہیں۔ اس نے دوبارہ یوسف کو فون کیا اور کہا کہ مریم کی "حوس" کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ مریم نے اپنی صفائی پیش کی، لیکن نہ عمر نے سنی، نہ اس کے والدین نے۔ ہر بار مریم کو ہی قصوروار ٹھہرایا گیا۔ اس نے اپنے والدین اور عمر سے معافی مانگ کر اپنا رشتہ بچانے کی کوشش کی، لیکن اس کی عزت، اس کا وقار، سب کچھ داغدار ہو چکا تھا۔

مریم اندر سے ٹوٹ چکی تھی۔ عمر کے الزامات نے اس کے ذہن پر گہرا اثر چھوڑا۔ وہ خود سے سوال کرنے لگی کہ کیا وہ واقعی ایسی ہے؟ کیا اس میں اور ایک طوائف میں کوئی فرق نہیں؟ اس کے دل میں ایک طوائف سے ملنے کی خواہش جاگی، تاکہ وہ اپنے اور اس کے درمیان فرق دیکھ سکے۔ حالات نے اسے پاگل پن کی طرف دھکیل دیا۔ وہ خود کو نقصان پہنچانے لگی، لیکن موت سے ڈر کی وجہ سے خودکشی تک نہ پہنچی۔

ایک دن، ارشد کے سامنے مریم نے خود کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ ارشد اسے روکتا رہا، کہتا رہا کہ وہ غلط نہیں، کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ لیکن مریم سننے کو تیار نہ تھی۔ ارشد غصے میں وہاں سے چلا گیا، اور مریم کو معلوم نہ تھا کہ وہ ہمیشہ کے لیے چلا جائے گا۔ اس کا جانا مریم کے لیے ایک اور بڑا دھچکا تھا۔ وہ تنہا رہ گئی، نہ عمر اس کے پاس تھا، نہ ارشد، نہ اس کے والدین۔

مریم نے سیکھا کہ محبت اور دوستی دونوں کے اپنے اصول ہوتے ہیں، لیکن اگر قربانی صرف ایک طرف سے ہو تو وہ رشتہ کمزور ہو جاتا ہے۔ عمر کے اصول اس کی اپنی زندگی پرو نہ تھے، لیکن اس نے مریم کو ہمیشہ کٹہرے میں کھڑا کیا۔ مریم نے اپنی غلطیوں کو مانا، لیکن اس نے یہ بھی سیکھا کہ زندگی کے برے حالات انسان کو خود ہی اٹھنا سکھاتے ہیں۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی ہمت خود بنے گی، اور اپنی چوٹوں سے مضبوط ہو کر دوبارہ اٹھے گی، تاکہ کوئی اسے دوبارہ گرانے کی ہمت نہ کر سکے۔

یہ کہانی محبت، دوستی، اعتماد، اور زندگی کے امتحانات کی ایک ایسی داستان ہے جو مریم کے سفر کو بیان کرتی ہے۔ اس کے فیصلے، اس کی غلطیاں، اور اس کی جدوجہد اسے ایک ایسی عورت بناتی ہیں جو حالات سے لڑ کر اپنی شناخت بناتی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں for "زندگی کے امتحان"