جهگڑا اور ہوس”
وہ دن گیا اور آج کا دن نا امی نے کبھی ایسا کیا نا ہی یہ دوبارہ ایسے کھڑا ہوا ۔ کھڑا ہوتا ہے اور پرپھر بیٹھ جاتا ہے ۔ نارمل انسانوں کی طرح ۔ لیکن اس واقعے نے میرے زہن میں گہرے نقوش چھوڑے ۔ میری بھی فرمانبرداری تھی کہ دوبارہ امی کو تنگ نہیں کیا ۔ البتہ تاڑ ضرور لیتا تھا ۔ اور مزے لے لیتا ہوں ۔ لیکن ایک حد تک ۔
احسان سے پوچھا کدھر تھا بے تو ؟ اور کدھر سے آرہا ہے ؟
کہنے لگا باجی آشی کو ٹویشن سینٹر چھوڑ کر آرہا ہوں ۔
مجھے تپ چڑھ گئی ۔ سالے تو اور تیری بہن ایک دن پٹو گے مجھ سے ۔ کتنی بار کہا ہے کہ میری بائک لے جایا کر ۔ بہن چود پوری دنیا کو دکھانا لازمی ہے کہ ہم ٹویشن جا رہے ہیں ۔
آشی اور احسان دونوں مجھ سے چھوٹے ہیں ۔ اور مجھے چھوٹے بہن بھائیوں کی طرح ہی عزیز ہیں ۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان کی فیملی جو حیثیت میں ہم سے کم تھی اور ہماری فیملی کے آپس میں اچھے تعلقات تھے ۔ احسان کا ایک بھائی اس سے چھوٹا ہے ۔ اور ایک بڑی بہن آشی ہے ۔ جس کو وہ ٹویشن چھوڑ کر آیا ہے ۔
خیر ہم دونوں باتیں کرتے کرتے بازار کی طرف جانے لگے ۔ جم میں گھس گیا اور احسان ٹریڈ مل پر چڑھ کر والک کرنے لگا اور میں مسل بنانے لگا اور ساتھ ہلکی پھلکی ورزش بھی ۔
دوران ورزش میرا خیال اچانک روچی آپی کی طرف چلا گیا ۔ اور میرے لیے حیران کن تھا کہ میں اس کے مموں کے بارے نہیں بلکہ اس کے پورے وجود کے بارے میں سوچنے لگا ۔
کیا کوئی لڑکی اتنی بھی پیاری ہو سکتی ہے ؟ سارے فگرز بالکل پرفیکٹ ۔ پتلی سی کمر ۔ اور سب سے بڑھ کر اسکا مجھ سے پیار ۔ مجھ سے غصہ ۔ میرے چھوٹے موٹے کام کرنا میرا خیال رکھنا ۔
ہمارے معاشرے میں بڑی بہن آدھی ماں ہوتی ہے ۔ بلکہ سچ کہوں تو دوسری ماں ہوتی ہے ۔
ایسا سوچتے سوچتے میں تیزی سے ورزش کرنے لگا میں اس وقت pek deck مشین پر تھا اور تیزی سے وزن اٹھا رہا تھا ۔ کچھ دیر بعد میں پسینے میں شرابور ہو چکا تھا ۔ اور اپنا آپ صاف کیا احسان اس وقت تک جا چکا تھا ۔
میں گھر گیا تو گیٹ میں انٹر ہوتے ہی فرنٹ لان میں دیکھا سب سے پہلے جس پر نظر پڑی وہ روچی آپی ہی تھیں ۔ کرسی پہ ٹانگ پر ٹانگ چڑھا کر بیٹھی تھیں اور موبائل استعمال کر رہی تھیں ۔ مجھ پر نظر پڑی تو مسکرا کر کہا ۔
آگئے تم باڈی بلڈر ۔ ؟ شاید میری بھیگی شرٹ کو دیکھ کر انکو اندازہ ہو گیا تھا میں جیم سے ہی آرہا ہوں ۔
جی آپی آپ سنائیں کیسی ہیں ۔ میں نے بھی مسکراتے ہوئے جواب دیا اور ساتھ سوال بھی کر دیا ۔
میں ٹھیک ہوں زرا دکھاو تو اپنے ڈولے ۔
لان میں اس وقت دور ایک بلب جل رہا تھا اسکی روشنی میں ہم ایک دوسرے کو صاف صاف دیکھ سکتے تھے ۔
روچی آپی اٹھ کر میری کرسی کے پاس کھڑی ہوگئی ۔ اور اپنا ملائم سا ہاتھ میرے دائیں ڈولے پر رکھ دیا ۔
اور بہت پیار سے دیکھ رہی تھیں اور ہلکا سا ہاتھ بھی پھیر رہی تھیں ۔
واہ کیا بات ہے کامی ۔ تم تو بہت سخت اور جاندار ہو ۔ روچی آپی کافی متاثر نظر آئیں ۔
اور میرا بازو پکڑ کر مجھے اٹھنے پر مجبور کر دیا ۔ چلو اندر آجاو میں اپنی جان کو دودھ پلاتی ہوں ۔ بیچارہ تھکا ہوا ہوگا ۔
میں بھی اس کے ساتھ چلنے لگا ۔ یہ ایک مزے کا احساس تھا ۔
گھر کے اندر آکر مجھے دودھ کا گلاس لا دیا ۔ جو میں فورا پی گیا ۔ پھر کہنے لگی شرٹ اتار دو میں تولیے سے جسم صاف کر دیتی ہوں ۔ پھر نہا لینا ۔
یہ اب نیا تجربہ تھا ۔ اس سے پہلے کے مریو آجاتی میں نے شرٹ اتار دی ۔
روچی آپی سے نظر بھر کر میرے جسم کو دیکھا اور پھر تولیے سے پہلے بال صاف کیے پھر میررے کندھے اور سینے پر تولیہ سے نمی کو صاف کرنے لگی ۔ ۔
سینے پر صاف کرتے ہوئے روچی آپی میرے بہت ہی قریب آچکی تھی ۔
مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میرا محبوب میرے جسم کو صاف کر رہا ہے ایک عجیب سا احساس تھا ۔
لیکن اس احساس میں بہت سکون تھا ۔
اس لیے میں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں ۔ فورا روچی آپی کی آواز آئی ۔
اوئے کھڑے کھڑے سو مت جانا ۔ چلو شاباش اب جاکر نہا لو ۔
اسی لمحے امی کی آواز آئی ۔ کامی بیٹا زیادہ ایکسرسائز جسم کے لیے اچھی نہیں ہوتی بیٹا ۔ کیوں اس کو مشقت میں ڈالتے ہو ۔
میں نے امی کو جواب دیا کہ نہیں امی جو پرفیشنل ہوتے ہیں میں ان کی طرح نہیں کرتا ۔ بلکہ ہاتھ ہولا ہی رکھتا ہوں ۔
اپنے کمرے میں گیا وہاں سے نئی شرٹ اور ٹراوزر لیا اور وش روم میں گھس گیا ۔
نہا دھو کر اپنی لاڈو رانی مریو کو اٹھایا اور اس سے کھیلنے لگا ۔
اتنی دیر میں کھانا لگ گیا اور سب کھانا کھانے لگے ۔ مریو ابھی بھی میری گود میں بیٹھی تھی ۔
اور میں خود بھی کھانا کھا رہا تھا ساتھ اس کو بھی کھلا رہا تھا ۔
کھانا کھانے کے دوران میری نظر روچی آپی کی طرف جا رہی تھی ۔ چھوٹے چھوٹے نوالے توڑ کر کھا رہی تھی ۔
کیا ہو گیا مجھے کیوں اس کی ہر ادا پسند آنے لگی ۔ کیوں دل کو اچھی لگنے لگی ۔
خود کو سمجھایا جوتے ہی کھا کر باز آوں گا ۔
آپی روچی دن کا بیشتر حصہ سیریس ہی رہتی ہے ۔ بہت کم سہیلیاں ہیں ۔ کسی سے فالتو بات نہیں کرتی ۔ ہے مجھ سے ایک سال بڑی لیکن مجھے اسکے غصے سے بہت ڈر لگتا ہے ۔
ایسے ہی کچھ دن گزر گئے میرے پیپرز ختم ہو چکے تھے ۔ اس دوران بس میرا دل اپنی آپی کی طرف مائل ہوتا جا رہا تھا ۔ اور میں کچھ نہیں کر پا رہا تھا ۔
دل چاہتا تھا وہ نظروں کے آس پاس رہے ۔ وہ میرا خیال رکھے ۔ اور میں ؟
میں اس کو زمین پر پاوں نہ اتارنے دوں ۔ اسکا چہرہ اپنے دونوں میں لیکر اس کو چومتا رہوں ۔ اس کے ہاتھوں کو ۔ سیکس کو چھوڑ کر ایک محبوب کی طرح اس کو پوجوں ۔ اس کو پیار کروں ۔
وقت کے ساتھ ساتھ یہ جزبہ مزید پختہ ہوتا گیا یا پروان چڑھ گیا ۔ میرا دن ہی نہیں گزرتا تھا اگر روچی آپی سے بات نہ کروں یا ان کے بارے میں نا سوچوں ۔
کئی بار مزاحمت کرنے کی کوشش کی لیکن بے سود رہا ۔
کئی سوچوں میں گھرا رہا ۔ کہ وہ میری بہن ہے ۔ مقدس رشتہ ہے ۔ فورا ہی دل پکار اٹھتا ہے کہ میں کونسا غلط نظر سے دیکھتا ہوں ۔ پیار سے ہی دیکھتا ہوں ۔ البتہ کبھی کبھی اس کے جسمانی حصوں پر غور کرتا تو خود پر کنٹرول کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔
آہستہ آہستہ ھوا میں خنکی آنے لگی ۔ شامیں اور صبحیں سرد ہونے لگیں ۔ لیکن میرے جزبات مسلسل سلگ رہے تھے ۔
ایک صبح روچی آپی کو گرلز کیمپس اتارا اور گھر واپس آگیا ۔ دوپہر کو پھر لینے جانا تھا ۔
امی نے بھی سامان کی لسٹ پکڑا دی ۔ کہ جب عروسہ کو لینے جاو تو واپسی پر سامان لیتے آنا ۔
دوپہر کے وقت سوچا روچی کو کہاں ساتھ لیے پھرتا رہوں گا ۔ پہلے گھر کا سودا لے لیتا ہوں ۔ پھر اس کو بھی پک کر لوں گا ۔
سامان خریدتے مجھے کچھ تاخیر ہو گئی ۔ میں بائیک پر ہی روچی کے کیمپس گیا تو کچھ ہنگامہ نظر آیا ۔ جو کہ عموما ایسا ہوتا نہیں ہے ۔
وہاں دو لڑکے تھے جو لڑکیوں سے چھیڑ چھاڑ کر رہے تھے ۔ جب غور سے دیکھا تو روچی بھی تھی ان لڑکیوں میں۔
بس کامی صاحب کا پارہ ساتویں آسمان پر ۔ گردن کی رگیں پھولنے لگیں ۔ سارا خون میرےچہرے پر سمٹ آیا ۔ کان بند ہو چکے تھے ۔ بس نظریں اس منظر پر ٹکی تھیں ۔
میں نے بائک کو سٹینڈ پر لگانے کے بجائے ویسے ہی پھینک دیا ۔ اور بھاگ کر ایک لڑکے کے بال پیچھے سے پکڑ لیے ۔ اسکا ہاتھ روچی کی طرف اٹھا ہوا تھا لیکن اب ٹچ نہیں ہوا تھا۔
میرے زہن میں کوئی فلمی سین نہیں تھا ۔ نا ہی وہ موقع تھا ایسا ۔ بس فلمی سین پیدا ضرور ہو گیا ۔ میں آہستہ سے اس لڑکے کو اپنی طرف کھینچنا شروع کر دیا ۔ اسکے سر و گردن بلکہ کمر تک دھری ہوتی گئی ۔ اگر مزید دہرا کرتا تو اسکی ریڑھ کی ہڈی یا گردن کا منکا ٹوٹ جاتا ۔ کیونکہ وہ بین چود مزاحمت کر رہا تھا سیدھا ہونے کی ۔
اسکے بال میرے شکنجے میں تھے جونہی چہرہ میرے چہرے کے سامنے آیا تو اسکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر غصے لیکن ٹھہراو کے ساتھ کہا ۔
تیری سانس جڑ سے پی جاوں گا ۔ میری روچی کو ہاتھ لگانے کی جرعت کیسے کی ؟
میری آنکھوں میں غضب کے شعلے دیکھ کر وہ لڑکا ڈر گیا اور جوڑ کر معافی مانگنے لگا ۔ میں نے کھینچ کر ایک تھپڑ اس کے منہ پر مارا جس سے اس کے ناک سے خون بہنے لگا ۔ یہ سب کچھ 15 سیکنڈ کے اندر اندر ہوا ۔
اس کے ساتھ دوسرے لڑکے نے مجھ سے الجھنے کی جرعت نہیں کی بلکہ بھاگ گیا ۔
یکایک روچی آپی بھاگتی ہوئی آئی اور میرے سینے سے چمٹ گئی ۔ ۔
وہ رو رہی تھی ۔
جب سے ہوش سنبھالا ہے اس کو میں نے کبھی روتا ہوا نہیں دیکھا ۔
میں نے دونوں بازووں کو اس کے گرد لپٹا لیا ۔ کچھ لوگ یقین سمجھ رہے تھے کہ شاید یہ عاشق ہیں ۔ کیونکہ نا تو میرے منہ سے بہن کا لفظ نکلا ۔
نا ہی روچی آپی کے منہ سے بھائی ۔
روچی کے آنسو گرم تیزاب کی طرح میرے سینے پر محسوس ہو رہے تھے ۔ اور میں اس کی کمر کو سہلا رہا تھا ۔
میں نے آہستہ سے اس کے کان میں کہا ۔ میری جان ٹھیک ہے ؟ اتنا کہنا تھا کہ وہ مزید مجھ میں پیوست ہو گئی ۔ میں نے موقعے کی مناسبت سے کہا گھر جا کر کسر پوری کر لینا ۔ لوگ دیکھ رہے ہیں ۔
وہ فورا پیچھے ہٹی اور ہلکی سے مسکرائی ۔
اتنے میں پولیس جو کہ موٹر سائکلوں پر تھے گشت کرتے ہوئے آئے ۔ پہلے تو یونیورسٹی کی میڈموں اور لڑکیوں نے پولیس والوں کی کلاس لی ۔ اور زمین پر گرے ہوئے اس لڑکے کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگیں یہ چھیڑ رہا تھا ۔
پولیس نے اس کو اٹھایا ۔ اور اپنے ساتھ بٹھا کر لے گئے ۔
میں نے اپنی بائک سیدھی کی اور روچی کو پیچھے بٹھایا ۔ اور گرھر کی طرف چل پڑا ۔
آج روچی آپی مجھ سے چپک کے بیٹھی ہوئی تھیں، شاید انکو تحفظ کا احساس تھا ۔
گھر آکر اس نے امی کو ساری رام لیلہ سنائی ۔ امی کبھی روچی کو گلے لگاتیں کبھی میرا سر چومتیں ۔ کہ شکر ہے کامی وقت پر پہنچ گیا ۔
روچی میری طرف ہی پیار بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔ میں بھی بس شرمیلا سا بن کر وہیں بیٹھا رہا ۔
اچانک میرے زہن میں یہ واقعہ کسی فلم کی طرح چلا ۔ ۔۔۔۔۔۔ دماغ میں ہی ڈائیلاگ پر غور کیا تو پتا چلا میں نے میری جان کہا تھا ۔ نا روچی نا آپی ۔ سیدھا ہی میری جان ۔
فورا دل نے کہا تو وہ میری جان ہی ہے ۔
اسی لمحے روچی کی طرف دیکھا تو وہ مجھے ابھی بھی دیکھ رہی تھی لیکن ساتھ ہی ہلکی سے مسکرا رہی تھی ۔
مجھے اب ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں روچی نے نوٹ تو نہیں کیا ۔؟
لیکن یہ تو دیکھ رکر ہنس رہی ہے ۔ شاید اس نے غور نہیں کیا ۔ ایسے ہی دل کو تسلیاں دیکر اٹھ کر اپنے روم میں آگیا ۔
نہا دھو کر فریش ہوا تو دوپہر کا کھانا کھایا ۔
اس واقعے کے بعد روچی آپی میرے آگے پیچھے میری خدمت پہلے سے بڑھ کر کرنے لگی ۔
شاید وہ اس طرح سے اپنی محبت کا اظہار کر رہی تھی ۔
اندھے کو کیا چاہیے دو آنکھیں ؟
اور روچی آپی بہت قریب آچکے تھے ۔ میرے دل میں بہن سے بڑھ کر بھی محبت تھی ۔ جائز یا ناجائز اس پر نا سوچا نا ہی سوچنا چاہتا تھا ۔
کچھ دنوں بعد میں رات کو میں اپنے روم میں بیڈ پر بیٹھا لیپ ٹاپ استعمال کر رہا تھا ۔
یوٹیوب پر گانا چلا کر خود فیس بک کھول لی ۔
فیس بک پر کچھ خاص نہیں تھا لیکن روچی کی آئی ڈی کھول کر دیکھ رہا تھا ۔
جب واپس گیا اپنی وال پر پھر نیوز فیڈ میں تو ایک پوسٹ جس کا عنوان تھا ” بہن کے ساتھ سیکس “
میرا ماتھا ٹھنکا ۔ میں نے جب دیکھا تو اس کے نیچے روچی کے کمنٹس تھے اور کچھ ریپلائی ۔
اوئے یہ کیا ہو گیا روچی کو ؟ یہی سوچ رہا تھا کہ اسکا پہلا کمنٹ پڑھنے لگا ۔
بس یہی لکھا تھا ” شیم آن یو ۔ اتنے پیارے رشتے کو تباہ کر رہے ہو “
کمنٹ پڑھ کر میرا دل ناجانے کیوں ٹوٹ سا گیا ۔
خیر اس کے ریپلائی میں ایک میڈم صاحبہ نے روچی کو مخاطب کر کے کہا ۔
میں آپ سے اتفاق نہیں کرتی ۔ دنیا کا سب سے حسین ترین تعلق رشتہ احساس اپنے بھائی کے ساتھ ہی ہے ۔
اس کے جواب میں روچی نے کہا ۔ آپ کو شرم نہیں آتی ۔ اتنے مقدس رشتے کو بدنام کر رہی ہیں ۔
اسی میڈم نے پھر ریپلائی کیا ۔ ۔۔۔ واہ واہ ۔ پوری زندگی بھائی بہن کا محافظ بن کر رہے ۔ اس کے لوڈ ناز نخرے اٹھائے ۔ اور بہن شادی کے بعد کسی اور مرد کے نیچے لیٹ جائے ۔اس کو منافقت کہتے ہیں روچی صاحبہ
میرا دل اسکا کمنٹ پڑھ کر باغ باغ ہو گیا ۔ ہر طرف گھنٹیاں بجنے لگیں ۔
میری بہن نے اگلا کمنٹ داغ دیا کہ یہ غیر اخلاقی ہے اور سوسائیٹی بھی اسکی اجازت نہیں دیتی ۔
اسی میڈم پرنس حورین جس کی آئی ڈی کا نام پرنسز حورین تھا ۔ ریپلائی کیا
سوسائیٹی جائے بھاڑ میں ۔ سوسائیٹی تو طلاق یافتہ کو بھی نہیں جینے دیتی ۔ بیوہ کو بھی نہیں جینے دیتے ۔ پہلے بھائی کی گڑیا بن کر رہو ۔ پھر اگر سسرال میں کوئی گڑ بڑ ہو جائے پھر بھائی کے دروازے پر ۔ پیسا خیالات سب بھائی کا شئیر کیا جائے ۔ اور جب سیکس کرنا ہو تو باہر کے مرد ۔ چھوڑ دیں مس روچی آپ نہیں سمجھیں گی ۔ بھائی کی بانہوں میں آنا اور دنیا کر عظیم ترین سیکس کرنا ۔ اس کی احساس ہی انسان کو پاگل کر دے ۔
ناظرین خواتین حضرات ۔ اب میری دلچسپی کی کوئی انتہا نہیں تھی ۔ مجھے تو وہ لڑکی واقعی میں حور لگ رہی تھی ۔ زیر لب مسکرا رہا تھا اور سوچ رہا تھا خواتین کا دماغ تو پورا جتنا ہوتا ہے ۔ پھر بھی اچھے نقطے اٹھائے تھے ۔
یہ اسکا آخری کمنٹ تھا ۔ جو دو گھنٹے پہلے اس نے لکھا تھا ۔ لیکن روچی آپی نے کوئی جواب نہیں دیا ۔
ہائے ظالم ۔۔۔۔۔ اتنی صحیح تو باتیں کر رہی ہے ۔
کچھ ہی دیر بعد روچی اوپر آئی ۔ اور دروازے سے داخل ہوتے ہی کہا ۔
کیا کر رہے ہو باڈی گارڈ ؟
میرے کان کھڑے ہوگئے ۔ ہیں یہ تو باڈی بلڈر کہتی تھی ۔
باڈی گارڈ کہا سے آگیا ؟
اور اس تبدیلی کا اظہار میں نے روچی سے بھی کیا ۔
کہنے لگی بھائی محافظ ہی تو ہوتے ہیں ۔
میرا دل بلیوں اچھل آیا ۔ یہ وہی الفاظ تھے جو کمنٹس مین پرنسز حورین نے کیے ۔
کیا روچی بھی ایسا سوچنے لگی ہے ؟
اسی اثنا میں روچی کی آواز آئی ۔ کہاں کھو گئے ہیرو ؟
میں نے ایک چول ماری ۔ جو اکثر مجھ سے وج جاتی ہے ۔
میں ہاتھ آگے بڑھایا ۔ روچی نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا ۔
میں نے اس کے ملائم سے ہاتھ کو اپنی طرف کھینچا ۔
روچی نا سمجھتے ہوئے میرے قریب ہوتی گئی ۔
روچی ایسے ہی دھڑم سے بیڈ پر آبیٹھی ۔میری بانہوں میں ۔ لیکن اس کی ٹانگیں بیڈ زمین پر ہی تھیں ۔
آج خیر ہے کامی ؟
میں نے کہا ۔ روچی آئی لو یو ۔۔۔
روچی نے یہ سنا تو فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی ۔ کونسا آئی لو یو ہے ؟ اسکی کشمکش میں نے بھانپ لی ۔
اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔ میری انگلیوں کے نیچے اس کی برا کی سٹریپ تھی ۔ جو میں نے محسوس کر لی ۔
کندھے سے پکڑ کر گھماتے ہوئے اس کے چہرے کو بالکل اپنے سامنے کر لیا ۔
اور پھر اپنے نزدیک ۔۔۔۔۔
روچی آپی کچھ کچھ سمجھ چکی تھئ کہ میرا بھائی حوس مٹانا چاہتا ہے ۔ حلانکہ ایسا میرے زہن میں بھی نہیں تھا ۔
شاید وہ میری انتہا دیکھنا چاہتی تھی اس لیے اس نے جسم کو بالکل ڈھیل چھوڑ دیا ۔
میں نے روچی کو گلے لگایا اس کے کندھے پر عین برا کی سٹریپ پر کس کیا ۔
اب اس کے لیے کسی شک کی گنجائش نہیں تھی ۔
میں نے بھی سوچا اتنا لمس کافی ہے ۔ اور اس کو دور ہٹانے لگا ۔
روچی بنا کچھ کہے اٹھ کر چلی گئی ۔
اور میرے زہن میں کئی سوال چھوڑ گئی ۔
اس نے کیا سوچا میرے بارے ؟ کیا محسوس کیا ؟
میری قربت کو انجوائے کیا یا نہیں ۔ اب آگے وہ کیا کہے گی ؟
انہی سوچوں میں گم میں سو گیا ۔
صبح روچی ہی اٹھانے آئی ۔
اٹھو کامی بیڈ شیٹ چینچ کرنی ہے ۔ میں نے انکھیں کھولتے ہوئے حسین چہرے کو اپنے سامنے پایا ۔
اتنی حسین ہے یار ۔ میں تو ڈوب رہا ہوں دن بدن اس کے حسن میں ۔
خیر بیڈ سے اتر کر اپنی چادر کھینچی ۔
اتنی دیر میں روچی بیڈ کے دوسری طرف گئی اور چادر پھیلا دی ۔ اب ظاہر ہے وہ چادر پھیلانے کے لیے جھکی اور جھکنے کی وجہ سے ممے کسی ہیرے کی مانند جگمانے لگے ۔
وقت رک گیا زمین ٹھہر گئی ۔ میں ٹک ٹکی باندھے قدرت کے حسین شہکار کو دیکھ رہا تھا ۔
میرے لن نے انگڑائی اور میرے پورے جسم میں بجلی سی دوڑ گئی ۔
میرا دیکھنا کچھ زیادہ ہی لمبا ہو گیا ۔ اور پہلی بار روچی آپی نے مجھے اپنے ممے تاڑتے دیکھ لیا ۔
میری چوری پکڑی گئی ۔
کیونکہ مجھے اسی کی آواز نے چونکایا ۔
کامی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !!!
بیڈ شیڈ پکڑو اپنی طرف سے اور سیدھا کرو ۔ اس کے چہرے پر ناگواری کے اثرات تھے ۔
بیڈ شیٹ ٹھیک ہوتے ہی وہ تیزی سے باہر نکل گئی ۔۔۔۔
اور مجھے پھر سوچوں میں چھوڑ گئی ۔ روچی غصہ کر گئی ؟
کیا کروں میں مجھ سے کیوں کنٹرول نہیں ہو رہا ؟
ایک تبصرہ شائع کریں for "بہن کا شوہر قسط نمبر-2"