اداکاری”
ابھی میں وہی کھڑا یہ سوچ رہا تھا روچی پھر آئی ۔
اس کے ہاتھ میں 5000 کا نوٹ تھا ۔
میرا بائیاں بازو پکڑا اور میری ہتھیلی کھول کر 5000 ہزار کا نوٹ رکھا
غصے لیکن دھیمی آواز میں کہا ۔
کامی یہ 5000 ہزار پکڑو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور باہر حوس اور پیاس بجھا لو
اور ساتھ ہی میرے ہاتھ میں 5000 تھما دیے ۔
بات اتنی پچیدہ نہیں تھی ۔ اب باقی کچھ نہیں بچا تھا ۔
یکایک میں نے دائیاں ہاتھ بلند کیا ۔ اور ایک چپیڑ روچی آپی کے منہ پہ دے ماری ۔
میری زندگی ، میری چاہت ، میری بچپن سے دوست ، میری ہمدم ، میری روچی آپی
جس کو کوئی ہلکی سے تکلیف نہیں پہنچائی آج اس کے چہرے پر زوردار تھپڑ دے مارا ۔
اب میری بھی سمجھ میں نہیں آرہا تھا یہ کیا ہو رہا ہے میرے ساتھ ۔ میری تو پہلی ہی پھٹی پڑی تھی 5000 روپے کو لیکر اور روچی کے رویے کی وجہ سے
تھپڑ کھاتے ہی روچی کے قدم اکھڑ گئے اور گرتے گرتے بچی ۔
فورا سے پہلے اپنے چہرے پر اپنا دائیاں ہاتھ اپنے سلگتے رخسار پر رکھ دیا ۔
اور چہرہ میری طرف موڑتے ہی مجھے حقارت اور نم آنکھوں سے دیکھا ۔
اس سے پہلے کے وہ بھاگتی یا کچھ کہتی ۔
میں اس کے بالکل نزدیک آگیا ۔ اسکا ہاتھ چہرے سے اٹھا کر اس کو اپنے بہت قریب کر لیا ۔
میں نے دانت پیستے ہوئے غصے سے کہا ۔۔۔۔۔۔۔
حوس ؟
تمھاری جرعت کیسے ہوئی ایسا سوچنے کی بھی ؟ پیار کرتا ہوں تم سے ۔
سر سے پاوں تک ۔ جسم نہیں تمھاری روح سے ح سے ۔ میں تو بنا تمھیں بتائے تمھاری پرستش کرتا ہوں ۔ دیوی مانتا ہوں اپنی ۔
اس سے زیادہ پیسے ہیں میرے پاس ۔ کسی کے ساتھ بھی سیکس کر کے آگ بجھا سکتا ہوں ۔
لیکن آج تک کسی کو نہیں چھوا ۔ یہ میری محبت کی توہین ہوتی ۔
میں نے آج تک تمھارے ساتھ سیکس یا حوس بجھانے کا سوچا تک نہیں ۔ مجھے تمھاری قسم ہے ۔ اور تم میری زندگی کی سب سے قیمتی ہستی ہو ۔ جس کو میں دل و جان و روح سے محبت کرتا ہوں ۔ میں تو پل پل تمھارے ساتھ رہنے کو ترجیع دیتا ہوں ۔
بہن چود اتنی لمبی چھوڑ دی پتا نہیں کس فلم کا ڈائیلاگ تھا ۔ لیکن میرے آنسووں کو کیا ہوا ۔ وہ واقعی بہنے لگے ۔
روچی منہ کھولے کرب اور حیرت سے مجھے سن رہی تھی ۔ اسکا ایک ہاتھ میرے ہاتھ میں تھا اور دوسرا ہاتھ اس نے منہ پر رکھ لیا ۔ شاید میری گپ سن کر توبہ توبہ کر رہی تھی یا پھر حیران تھی ۔
روچی کا ہاتھ چھوڑتے ہوئے میں نے آخری ڈائیلاگ دے مارا ۔
آئندہ کے بعد پلیز مجھے اپنی شکل نا دکھانا ۔ اور میں تیزی سے کمرے سے باہر نکل گیا ۔
اب مجھے نہیں پتا روچی کتنی دیر میرے کمرے میں رہی یا کیا سوچتی رہی ۔
میں گیراج میں گیا اپنا 125 نکالا اور تیزی سے گھر سے نکل گیا ۔۔۔۔۔۔
میری ہوائیاں اڑ رہیں تھیں ۔ میرے کان بند ہو چکے تھے ۔ یہ 5 منٹ کے اندر اندر کیا ہو گیا ۔
میں غیر ارادی طور پر اپنے کھیتوں کی طرف بائک بھگا رہا تھا ۔
یہ سب سوچتے سوچتے میری آنکھوں میں آنسو جاری ہوگئے ۔ میں نے آج اپنی دیوی کو تھپڑ دے مارا ۔
اور وہی دائیاں ہاتھ زور سے بائک کے ہینڈل پہ دے مارا ۔
کچھ دیر بعد میں کھیتوں میں پہنچ گیا ۔ ہم نے یہ کھیت ٹھیکے پر دے رکھے ہیں ۔ ایک تو کیش میں پیسے مل جاتے ہیں دوسرا تازہ اناج اور تیسرا جس نے ٹھیکے پر لے رکھے ہیں اس نے بھینسیں اور گائے وغیرہ بھی رکھی ہیں ۔ چنانچہ تازہ دودھ بھی مل جاتا ہے ۔
میں جھونپڑے نما ڈیرے کی طرف چل پڑا ۔ صبح کا وقت تھا اور ٹھنڈ بھی بڑھتی جا رہی ہے ۔
اور کامی صاحب بغیر کسی جیکٹ کے ہواوں سے باتیں کرتے ہوئے آئے تھے ۔
میں نے بائک ایک طرف کھڑی کی ۔ اور نیچے زمین پر ہی بیٹھ گیا ۔ اپنے سر کو دونوں ہاتھوں میں پکڑ لیا اور سوچنے لگا کہ یار یہ کیا ہو گیا ۔ میں نے ایسا کیوں کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا سر چکرا رہا تھا ۔ اور میں سمجھ رہا تھا شاید صدمے کی وجہ سے ہے ۔
لیکن میرے سر کو ٹھنڈی ہوا لگ گئی تھی شاید ۔ جو مجھے بعد میں پتا چلا ۔
خیر اٹھ کر ڈیرے پر آیا تو ٹھیکے دار کی بیوی زبیدہ دور سے مجھے دیکھتے ہوئے چلی آرہی تھی ۔
میرے پاس آکر سلام کیا اور ایک چارپائی بچھا دی ۔ اور اندر سے پانی لینے چلی گئی ۔
جب پانی لیکر آئی تو میں نے گلاس پکڑتے ہوئے پوچھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فضل کہا ں ہے ؟
کہنے لگی شہر گئے ہیں ڈیزل لینے ۔
میں نے یہ سوچتے ہوئے جیب میں ہاتھ مارا کہ امی کو فون کر کے پوچھتا ہوں کوئی سبزی چاہیے تو بتائیں ۔
لیکن جیب خالی تھی ۔ میں موبائل اپنے روم پر ہی بھول آیا ۔
لوڑے لگ گئے کیا منحوس دن ہے آج کا ۔
پھر ٹھیکے دار کی بیوی زبیدہ نے پوچھا خیریت ہے ؟
میں نے جواب دیا ہاں خیریت ہے ۔ ویسے ہی ملنے چلا آیا ۔۔۔۔
دل میں سوچ رہا تھا کہ بہن کی لیتے لیتے اپنی دینی پڑ گئی ۔ کیا چتیاپا ہے یار ۔
اور ناگواری سے دوسری طرف دیکھنے لگا ۔
اس عورت کو ٹالنے کے لیے میں نے کہا میں یہاں کچھ دیر آرام کرنا چاہتا ہوں دھوپ میں ۔
آپ اپنا کام کریں بے شک ۔
تو اس نے نا سمجھتے ہوئے کہا ۔ آپ چارپائی کو دھوپ میں لے جائیں میں اندر سے تکیہ لے آتی ہوں ۔ اور ساتھ ہی چائے بناتی ہیں ۔
میں نے کہا اگر تیز پتی والی چائے مل جائے تو بڑا احسان ہوگا ۔ کام میرا باڈی بلڈنگ ہے لیکن شوق میرے ڈرائیوروں والے ہیں ۔
زبیدہ مسکراتے ہوئے کہنے لگی ۔ صاحب احسان کی کیا بات ہے ۔آپ کا اپنا ہی گھر ہے ۔
لیکن یہ بتائیں خیریت تو ہے ؟ کیونکہ آپ ایسے کبھی بغیر کام کے آئے نہیں ۔
یار یہ دنیا کی تمام خواتین میں ایک تھانیدار ضرور چھپا ہوتا ہے ۔ انویسٹیگیشن کرنا کوئی ان سے سیکھے ۔ بال کی کھال اتارنے میں دیر نہیں لگاتیں ۔
میں نے کہا میری ماں سب ٹھیک ہے ۔ بس طبیعت ٹھیک نہیں یہاں سے گزر رہا تھا سوچا کچھ دیر فضل سے گپ شپ لگاتا ہوں اور دھوپ میں بیٹھتا ہوں ۔
بس یا اور کچھ ؟
میرا جواب سن کر زبیدہ اندر چلی گئی ۔ 40 کے قریب عمر رہی ہوگی ۔ لیکن کھیتوں میں کام کرنے کی وجہ سے چست بھی ہے اور فٹ بھی ۔
خیر مجھے کیا میں کونسا گندی نگاہ سے دیکھ رہا تھا ۔
کچھ دیر بعد زبیدہ چائے کا کپ اور تکیہ لے آئی ۔ میں چائے پیتے ہوئے پھر سے وہی سوچنے لگا ۔ کہ روچی نے امی کا بتایا ہوگا ۔ کہ بھائی میرے مموں کو تاڑتا ہے ۔
اور ایک بار کوشش کی مجھے قریب کرنے کی ۔
آگے سے امی کیا کہیں گے ۔ ہے ہی کمینہ کھلا ہوا سانڈھ
جو کچھ بھی تھا مجھے ہاتھ نہیں اٹھانا چاہیے تھا ۔ کیا محبت ایسی ہوتی ہے ؟
کیا محبوب کو تھپڑ مارا جاتا ہے ؟
بچپن سے اب تک روچی میرے ساتھ رہی ۔ مجھے کبھی تکلیف نہیں اٹھانے دی ۔
مجھ سے بے شک 1 سال ہی ۔ لیکن تھی تو بڑی نا ۔
میں ایموشنل ہوتا گیا اور میری آنکھوں سے آنسو نکل آئے ۔
مزے کی دھوپ اور زہنی تھکاوٹ کی وجہ سے مجھے نیند آگئی ۔
اچانک میرے سر میں شدید درد ہوا اور میں جاگ گیا ۔ آس پاس دیکھا تو یاد آیا میں تو ڈیرے پر ہوں ۔
روشنی سے لگ رہا تھا غالبا دن ڈھل رہا ہے ۔ 3 کا ٹائم ہوگا ۔ اَدھر اُدھر نظر گھمائی تو فضل پانی کے پیٹر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر رہا تھا ۔
میں اپنی چارپائی سے اٹھا اس سے تھوڑی دیر بات کی ۔ وہ بھی میری آمد اور یہیں سونے کی وجہ سے حیران تھا ۔
وہاں سے بائک لیکر گھر کے لیے نکل کھڑا ہوا ۔ میرا گھر جانے کو جی نہیں چاہ رہا تھا ۔ لیکن جانا بھی ضروری تھا خامخواہ پریشان ہوتے رہیں گے ۔ یا پھر سوچتے ہوں اچھا ہے کامی سے جان چھوٹی ہوئی ہے ۔ شہر میں یہاں وہاں گھومتے ٹائم گزار رہا تھا ۔ مغرب کے وقت گھر جانے لگا ۔ آتے ہوئے پھر ٹھنڈی ہوا سے میرا سر دکھنے لگا تھا ۔
گھر آیا تو بائک گیراج میں کھڑی اور ڈرے ڈرتے گھر کے اندر داخل ہوا ۔
سب سے پہلی نظر مریو پر پڑی جو ادھر اُدھر بھاگ رہی تھی ۔ امی کہیں نظر نہیں آرہی تھیں ۔ شاید کچن یا باتھ روم میں تھیں ۔ اور یہ میرے لیے بہترین موقع تھا۔
میں بھاگتا ہوا اپنے کمرے میں آیا ۔ سب سے پہلے تو اپنا موبائل دیکھا ۔ امی کے نمبر سے 5کالز تھیں ۔
اور ایک کال روچی کے فون سے کی گئی ۔
میٰن موبائل کو سائیڈ ٹیبل پر چھوڑ کر گیا تھا جبکہ ابھی وہ میرے بیڈ پر تھا ۔ اسکا مطلب ہے کچھ کالز کرنے کے بعد گھر والوں کو پتا چل گیا ہوگا کہ میں موبائل روم پہ ہی چھوڑ گیا ہوں ۔
میں باتھ روم میں گھس گیا اور شاور لینے لگا ۔ یہیں مجھ سے غلطی ہو گئی ۔ مجھے نہانا نہیں چاہیے تھا ۔ وہ میں آگے چل کر بتاوں گا ۔
کپڑے تبدیل کر کے میں بیڈ پرلیٹ گیا ۔ مجھے ٹھنڈ کا شدید احساس ہوا ۔ میں نے اپنے اوپر کمبل لے لیا ۔
میرا پورا جسم ٹوٹ رہا تھا ۔ کمر اور کندھے درد کرنے لگے تھے ۔
اور میں پھر نیند کی وادیوں میں پہنچ گیا ۔
کچھ ہی دیر گزری تھی شاید آدھا گھنٹا میرے کمرے کا دروازہ کھلا ۔ اور امی کی گرج دار آواز آئی ۔
کامی بے شرم انسان ۔۔۔۔
اس وقت میری حالت یہ تھی کہ کانوں میں سائیں سائیں ہو رہی تھی ۔ پسینے سے شرابور تھا ۔ اور تھر تھر کانپ رہا تھا سردی سے ۔ ۔۔ زبردستی آنکھیں کھولتے ہوئے منہ ہی منہ میں بڑبڑایا ۔۔۔۔
وڑ گئے وائی ۔ اب ماں بہن ایک ہونے والی ہے ۔
منہ سے کمبل ہٹانے ہی والا تھا کہ والدہ محترمہ سے زبردستی میرے منہ سے کمبل ہٹا دیا ۔
مجھ پر نظر پڑتے ہی انکی انکھیں پھیل گئیں ۔ ۔۔۔۔۔۔۔
لال سرخ آنکھیں اور ان میں نمی ۔
پورا چہرہ پسینے سے بھیگا ہوا ۔ ہونٹ سکڑے ہوئے ۔
فورا جھک کر میرے ماتھے پر ایک ہاتھ رکھا ۔۔۔۔۔۔
کیا ہوا کامی بیٹے ؟ تمھیں تو بہت تیز بخار ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امی نے تشویش میں ڈوب گئیں ۔ میں کچھ بولنا چاہتا تھا لیکن گلا خشک تھا بول نہیں پایا ۔
ویسے بھی بولتا کیا ؟ کہ آپ کی بیٹی پر دل آیا ہے ۔ اس نے انکار کیا تو تھپڑ دے مارا ۔
بولو بیٹا کیا ہوا ؟
میں نے نحیف سی آواز میں کہا پتا نہیں امی آج کیا ہو گیا ۔۔۔۔
امی غالبا سمجھیں کہ بہن کو مارنے کی وجہ سے دکھی ہے ۔ اسی لیے پورا دن گھر نہیں آیا اور اتنی ٹینشن لی کہ بخار ہو گیا ۔
چوپڑیاں وہ بھی دو دو ۔۔۔۔۔۔
امی فورا میرے اوپر جھکیں اور میرے ماتھے کو چوما ۔ میں کسی ولی کی طرح آنکھیں بند کر چکا تھا ۔ اب میں نے ممے نہیں دیکھنے
بری بات ہے یہ ۔
امی اسی وقت کمرے سے باہر نکلیں ۔ اور 5 منٹ بعد واپس آئیں ۔ ساتھ میرے کانوں کو رس کھولتی ہوئی آواز آئی ۔
کامی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟
سر سے پاوں تک اس آواز کو سنتے ہی سرشار ہو گیا ۔
دل ہی دل میں کہا ۔ میری روچی ۔۔۔۔۔۔ اب کمبل کو نا اٹھانا میری محبت کی توہین ہوگی ۔ میرے سامنے امی اور ساتھ روچی کھڑی تھی ۔
دونوں کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہیں تھیں ۔ کمبل اٹھاتے ہوئے روچی آگے بڑھی اور میرے بیڈ کے سرہانے کے پاس نیچے فرش پر پنجوں کے بل بیٹھ گئی ۔ اور بے قراری سے میرے ماتھے پر ہاتھ رکھا ۔
درجہ حرارت محسوس کرتے ہی اس کے دل کا درجہ حرارت بھی بڑھنے لگا اور دو موٹے موٹے آنسو اس کے گالوں پر بہنے لگے ۔
بی سی یہ کیا ہو رہا ہے ۔ مجرم تو میں ہوں ۔ رو یہ رہی ہے ؟
کہیں مجھے ٹھنڈی مار مارنے کا ارادہ تو نہیں ۔ جسکی میٹھی بے عزتی کہتے ہیں ۔
امی نے فورا روچی کو اٹھایا اور میری سرہانے بیٹھ کر مجھے سہارہ دے کر اٹھانے لگیں ۔
میں نے اٹھتے ہوئے روچی کو دیکھا ۔ ننگے پاوں ، تنگ ٹراوزر اور سرخ رنگ کی شرٹ پہنی ہوئی تھی ۔ کسی پری سے کم نہیں لگ رہی تھی ۔ دوپٹے سے بے نیاز ممے میرا ہی منہ چڑا رہے تھے ۔
مرد کی ٹانگیں قبر میں بھی ہوں وہ ٹھرک سے باز نہیں اتا ۔ یہی حال میری بھی تھی ۔
بارحال دونوں ماں بیٹی میری خدمت تواضع میں لگ گئی ۔ سب سے پہلے تو امی نے پوچھا دن کو کچھ کھایا ؟
میں نے کہا نہیں امی ۔
امی مزید پریشان سی ہو گئیں اور روچی کو سوپ بنانے کا کہا ۔ روچی کمرے سے باہر نکلی تو امی نے کہا بیٹا تمھیں روچی کو مارنا نہیں چاہیے تھا ۔
اتنی بڑی تو بات ہی نہیں تھی ۔ اس کا موڈ بھی خراب اور تم بھی بیمار ہوگئے ۔
ہیں ؟ مجھے اپنے ممے تاڑتے ہوئے دیکھا اس نے ۔ اس کی برا کی سٹریپ پر بوسہ لیا میں نے ۔ یہ بہت بڑی بات نہیں ہے ؟
میں یہی سوچ رہا تھا تو امی بات جاری رکھتے ہوئے کہنے لگیں اپنا جسم دیکھو کوئی بھی بندہ یہی کہے گا کہ تم گوریلے ہو ۔ہٹے کٹے ہو ۔ اس نے تمھارے چہرے کی وجہ سے وجہ سے نہیں بلکہ جسامت کی وجہ سے کہا تھا بیٹے ۔ اور تم نے آگے سے تھپڑ مار دیا ۔ پورا دن بیچاری روتی رہی اور جونہی اس کو بتایا کہ کامی گھر آگیا ہے اور تیز بخار ہے تو بیچاری ننگے پاوں دوڑتی ہوئی چلی آئی ۔
او تیری ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ روچی نے یہ کیا فلم ڈال دی ۔ میں غیر یقینی صورت حال میں تھا ۔
اور دل کی گہرائیوں سے آئی لو یو روچی نکل گیا ۔
لو جی یہاں معاملہ بالکل الٹ بلکہ سمجھ لیں میرے حق میں آگیا تھا ۔ میں پورا دن کتوں کی طرح خوار ہوتا رہا لیکن شام کو مجرم محرم ٹھہرے ۔
میں نے بھی سر جھکا لیا اور بیمار ہونے کے باوجود تیزی سے اپنا جواب سوچ رہا تھا ۔
کچھ سیکنڈ بعد کہا امی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔روچی مجھے اپنی جان سے عزیز ہے ۔ مجھے پتا ہے مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ۔ لیکن پتا نہیں کیا ہوا مجھے اس کی بات پر بھی غصہ نہیں تھا ۔
مجھ سے اب مزید بحانہ بن نہیں پا رہا تھا ۔ میں نے شرمندگی سے کہا کہ مجھ سے برداشت نہیں ہوئی میری حرکت ۔ اور گھر سے باہر چلا گیا ۔
مجھے اتنی ٹینشن تھی کہ اسکا نتیجہ آپ کے سامنے ہے ۔
بہت بڑی فلم ہے تو کامی بہن چود ۔ بائک پر ہوا للگی اس کو بھی روچی کی محبت میں ڈال لیا ۔
امی نے مجھے گلے لگا لیا ۔ ان کے بڑے بڑے مموں پر سر رکھ کر سکون لے رہا تھا دل کر رہا تھا کہ ان کو پکڑ کر ان کے بیچ میں اپنی آنکھیں ناک منہ پھیروں ۔
کوئی بات نہیں بیٹا ۔ گھروں میں ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں ہو جاتی ہیں ۔ تم ریسٹ کرو ۔
ڈاکٹر کو گھر بلا لیتی ہوں ۔۔۔۔ میں نے کہا نہیں امی میں ٹھیک ہو جاوں گا ۔ تڑپنے دیں مجھے کچھ دن روچی کے ساتھ جو کیا اس کی سزا بھگتنے دیں ۔
ڈائیلاگ کی بھی حد ہوتی ہے ۔ میرا خیال ہے آج کے لیے اتنے ڈائیلاگ کافی ہیں ۔
امی پر مسکرانے لگیں اور اٹھ کر باہر چلیں گئی ۔ اس اثنا میں مریو بھی دوڑتی ہوئی آئی ۔ بھائی خبار ہوا ہے ؟ بخار کو وہ خبار کہہ رہی تھی ۔
میں نے ہنستے ہوئے اس کو اٹھا کر سینے سے لگا لیا ۔
کچھ دیر میں روچی آپی باول میں چمچ ہلاتے ہوئے آئیں ۔ میری سائیڈ ٹیبل پر سوپ کا باول رکھا اور مریو سے کہا جاو تم ماما کے پاس ۔
اب روچی میرے دائیں طرف سرہانے بیٹھ گئی ۔ میں بھی اس کی طرف مڑ کر بیڈ کے ساتھ ٹیک لگا کر آدھا لیٹا آدھا بیٹھا ہوا تھا ۔
روچی نے ایک نظر مجھے دیکھا اوراٹھ کر سائیڈ ٹیبل سے سوپ اٹھانے لگی ۔ ۔۔۔
تنگ کالے ٹراوزر کی وجہ سے اسکی مکمل ہپ یا گانڈ میرے سامنے تھی ۔ شرٹ اٹھی ہوئی تھی ۔ ایک ایک حصہ الگ الگ ۔ گول اور باہر نکلی ہوئی گانڈ ۔۔۔۔۔۔۔
یہ سین زیادہ سے زیادہ تین سیکنڈ رہا ۔ اور میں اپنی جگی ساکت ہو گیا ۔
دل چاہا اٹھا کر اس کے ہپس کے درمیان کس کروں ۔
اتنی دیر میں وہ اپنی جگہ پر واپس بیٹھی اور اپنے ہاتھوں سے مجھے سوپ پلانے لگی ۔
میں نے بغیر کسی ڈرامے کے منہ کھولا اور سوپ پینے لگا ۔
روچی نے میرے چہرے سے اپنے گورے چٹے ہاتھوں سے پسینہ صاف کیا ۔
سوپ کا باول واپس ٹیبل پر رکھا اور پھر مجھے اپنی کنواری گانڈ کے درشن کروائے ۔
بہن ہو تو ایسی ۔
اور ساتھ ہی کہنے لگی ۔ ۔۔۔۔ مجھ سے معافی مانگو میں معاف کر دوں گی ۔۔۔
میں نے بغیر کسی توقف کے کہا روچی میری جان آئی ایم سوری ۔ اور ساتھ ہاتھ بھی جوڑ دیے ۔
روچی مسکراتے ہوئے مجھے اپنی گلے لگا لیا ۔
بہن کی محبت سب کچھ بھلا دیتی ہے ۔ روچی کو یہ خبر نہیں تھی کہ میرے ہاتھ جڑے ہوئے ہوئے ہیں اور مجھے گلے لگانے سے ہاتھ کی انگلیاں اس کے مموں کو چھونے لگیں ۔ نرم نرم میری جنت ۔
یہ تو طے ہے کہ میں نہیں سدھر سکتا ۔ اس حالت اور ان حالات میں بھی بہن یکی سے باز نہیں آرہا تھا ۔
اسی دوران اسکی آواز مجھے اپنے کانوں کے بالکل قریب سے آئی ۔
اسکے ہونٹ میرے کان کے بالکل قریب تھے ۔ میرے جسم میں چوینٹیاں دوڑنے لگی اور لن صاحب نے اپنی موجودگی کا حساس دلوایا ۔
پگلے ایسے چھوڑ کر تھوڑی جاتے اپنی جان کو ؟
پھر روچی نے مجھے اپنے آپ سے جدا کیا
اور بات جاری رکھتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔۔ مارا بھی تم نے مجھے ۔ اور اب مجھ سے محبتیں بھی لے رہے ہو ؟
میں نے کہا ۔۔۔۔ آپ کو کس نے منع کیا ہے ۔ بلکہ آپ کو محبت دیتا تو ہوں ۔
یہ بات سن کر روچی نے اپنا دائیاں گال مجھے دکھاتے ہوئے کہا ۔
یہ محبت ؟
مجھ سے برداشت نہیں ہوا اور اس کے گال کے قریب منہ لے گیا جیسے غور سے دیکھ رہا ہوں ۔
لیکن
میں نے ایک ہلکا سا بوسہ لے لیا ۔ اور ساتھ ہی کہہ دیا حضرت بابا کامی شاہ نے دم کر دیا ہے ۔ اب ٹھیک ہو جائے گا ۔
روچی کے گال مزید سرخ ہو گئے ۔ میری ناک پکڑ کر ہنستے ہوئے کہنے لگی تم انسان نا بننا ۔
اسی لمحے امی کمرے بھی کمرے میں آگئیں ۔ اتے ہی روچی کو خبر دی کہ مریو کو سلا آئی ہوں ۔
بیٹا کامی !!!!!! آلو مٹر پکے ہیں ۔ لیکن تم بتاو کیا کھاو گے ؟
میں نے کہا امی بالکل بھوک نہیں ہے ۔ آپ دونوں جائیں ریسٹ کریں ۔
امی نے کہا نہیں بیٹا بیمار ہو اور کچھ کھاو گے نہیں تو کمزور ہو جاو گے ۔
اسی لمحے روچی نے کہا ۔ امی نا فکر کریں اس گوریلے کو کو کچھ نہیں ہوتا ۔ اور دونوں ہنسنے لگیں ۔
اور روچی نے ساتھ ہی مجھے آنکھ مار دی ۔
میں سمجھ تو چکا تھا اب کیا بولتا ۔
خیر روچی روم سے باہر گئی تو ماں کی مامتا پھر جاگ گئی ۔ اور مجھے پیار کرتے ہوئے کہنے لگیں میں تمھارے لیے بخار کی گولی لیکر آتی ہوں ۔
میں نے فورا کہہ دیا میں لے آوں الماری سے ؟
میں نے جان بوجھ کر سمائل نہیں دی ۔ اگر امی غصہ کرتیں تو میں کہہ سکتا تھا کہ امی آپ تھک ہوں گی میں لے آتا ہوں ۔
امی کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی ۔ کامی پہلے ہی تم نے غلط میڈیسن لی تھی ۔ میں خود لے آتی ہوں تم سکون کرو ۔ وہ کچھ حیران بھی تھیں کہ اتنی پرانی بات اس کمینے کو یاد ہے ۔
یادیں کب پرانی ہوتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
امی مڑگئیں اور اپنے کمرے میں چلی گئیں ۔
کچھ دیر بعد گولی دیکر وہ اپنے کمرے چلی گئیں اور مجھے بھی غنودگی چھانے لگی ۔
مجھے گرمی اور سردی دونوں کا احساس ہو رہا تھا شرٹ تنگ تھی وہ میں نے اتار دی اور سو گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح روچی کی آواز نے اٹھا دیا ۔۔۔۔۔۔۔
کامی اٹھنا نہیں میری جان ؟
یار کیا ہی پیارے لمحے تھے ۔ ایک خوبصورت بیوی جس کی نئی نئی شادی ہو اپنے مجازی خدا کو ایسے ہی اٹھاتی ہے ۔ ویسے روچی پہلے تو کبھی جان نہیں کہتی تھی ۔ یہ کل سے اس کو کیا ہو گیا ۔
اسی دوران اس نے پیار سے میرے منہ پر سے کمبل ہٹایا ۔
اس کے ہاتھ میں شاہی ٹکڑے تھے ۔آف وائٹ کلر کی تنگ سی شرٹ پہنی تھی ۔ ممے جیسے ابھی شرٹ پھاڑ کر باہر نکل آئیں گے ۔
کوئی شرم و حیا ہی نہیں جوان بھائی کے جزبات سے کھیل رہی ۔
مجھے اپنی طرف دیکھتا ہوا پایا تو روچی ہنستے ہوئے کہنے لگی ۔ پہلےمنہ ہاتھ دھو لو پھر جتنا مرضی دیکھ لینا ۔۔۔
میں اٹھ کر واش روم گیا ۔ منہ ہاتھ دھویا اور واپس اپنے بیڈ پر ۔
جونہی بیڈ پر بیٹھا روچی مجھ سے لگ کر ساتھ ہی بیٹھ گئی ۔
میرا دل زور زور سے اچھلنے لگا ۔ اس کی مہک مجھے دیوانہ بنا رہی تھی ۔ اونچے چاکوں والی شرٹ کی وجہ سے اس کی تھائی بہت واضع نظر آرہی تھی ۔ ہپس کے بمپ اٹھے ٹھے اور تھائی ہپس سے کم موٹی ۔
اس نے مجھے شاہی ٹکڑے کھلانے شروع کر دیے ۔ میں نے کہا بھی میں خود کھا لیتا ہوں ۔ لیکن وہ بضد تھی وہ خود کھلائے گی ۔
چنانچہ میں چپ چاپ کھانے لگ گیا ۔ اور دوران اس نے میرے ماتھے پر پھر ہاتھ رکھا اور کہا کامی ابھی بھی بخار ہے تمھیں ۔
میں بس محبتیں وصول کرتا جا رہا تھا ۔
تم لیٹ جاو میں تمھارے لیے چائے لاتی ہوں ۔
دس منٹ بعد روچی چائے لیکر آگئی ۔ میں بیڈ پر لیٹ چکا تھا اور سوچ رہا تھا کاش پوری عمر ایسے ہی بیمار رہوں.
ایک تبصرہ شائع کریں for "بہن کا شوہر قسط نمبر-3"