“گولی اور امی کی موری”
میرا نام کامران ہے ۔ لوگ پیار سے کامی کہتے ہیں ۔ کچھ پیارا ہوں اور کچھ آج کل کے فیشن نے بھی پیارا بنا دیا ہے ۔ کوئی پرنس تو نہیں ہوں لیکن پھر بھی لوگ ہینڈ سم کہتے ہیں ۔
میرے علاوہ میری امی رخسانہ بیگم ہیں جو 45 سال کی ہیں ، خوبصورت ہیں کشمیری نسل ہے رنگ گورا چٹا ، ڈرامے فلموں کا اثر سب پر ہوتا ہے امی پر بھی ہے اور فیشن کے مطابق اپنا خیال رکھتی ہیں جسم کا بھی اور خوبصورتی کا بھی ۔
پھر مجھ سے بڑی بہن ہے عروسہ نام ہے ۔ پیار سے روچی بلاتے ہیں ۔عمر 22 سال ایم بی کر رہی ہیں ۔ بہت ہی پیاری جسم نا پتلا نا ہی موٹا ۔ کمر البتہ پتلی ہی ہے ۔ خاص حصے جو موٹے ہونے چاہیں وہ بھرے بھرے تھے ۔ جیسے کہ چھاتی اور ہپس Hips ۔ کئی لڑکوں بزرگوں کے دل پر اپنے حسن کی چھری چلا چکی ہے ۔ میری بہن کی شکل اور جسامت بڑی حد تک سیدہ طوبی عامر جیسی ہے ۔عامر لیاقت کی بیوی ۔ ماتھا بال ناک آنکھیں سب اس سے ملتی جلتی ہیں ۔ قد 5۔5 ہے ۔
پھر میں کامی یا کام چور جو 21 سال کا ہوں بی ایس سی پاس کر چکا ہوں ۔ جیم جانا اور باڈی بنانا میرا شوق ہے ۔ چوڑا سینا 6 پیک تو نہیں بنے البتہ جسم دیکھ کر پتا چلتا ہے کہ جیم جاتا ہوں ۔ مسلز بھی اچھے خاصے ہیں ۔ سلمان خان جیسے تو بالکل نہیں البتہ رندیپ ہدا جیسا جسم ہے ۔، قدر 5 فٹ 9 انچ ۔ میں بس اتفاقیہ پیدا ہو گیا ۔ میری بہن روچی پیدا ہوئی تھی تو والد محترم اس کو دیکھنے پاکستان تشریف لائے ۔ اور جاتے جاتے امی کو نیا تحفہ بھی دے گئے ۔ کافی سمجھ بوجھ کے بعد حمل ضائع نا کرنا ہی بہتر سمجھا ۔ اور بہن کے پیچھے پیچھے ایک سال بعد ہی میں بھی آگیا ۔
پھر مجھ سے 15 سال چھوٹی کیوٹ سی ایک بہن مریم ہے جسکو پیارسے مریو کہتے ہیں ۔ ناجانے ماں باپ کو کیا سوجھی کہ جوان اولاد کی موجودگی میں ایک اور بچہ پیدا کر دیا ۔ ( تب میں اور عروسہ سمجھدار ہی تھے جب مریو پیدا ہوئی )
پھر ابو جی وحید علی ، جو یوکے UK میں ہوتے ہیں وہا ں کسی کمپنی میں اکاونٹس کی نوکری کرتے ہیں ۔ ان کی عمر 50 سال ہے ۔ دادا کی تھوڑی سے زمین تھی وہ بیچ باچ کر یو کے نکل گئے تھے ۔ وہی سیٹل ہو گئے ۔ اور 15 ایکڑ کے قریب زمین بھی خریدی ۔ دو پلاٹ ہیں مظفر آباد میں ۔ اور دو گھر ہیں ایک میں ہم رہتے ہیں ایک کرائے پہ دے رکھا ہے ۔ جو کہ ہمارے گھر سے 8 یا 10 کلومیٹر دور ہے ۔ یعنی بے شمار دولت تو نہیں تھی ۔ لیکن پھر بھی اللہ کا شکر ہے کافی کچھ تھا ۔
میں بچپن سے ہی ہر لڑکے کی طرح پڑھائی سے دل چرانےو الا تھا ۔ اب لڑکوں کے قبیلے کا نام تو نہیں ڈبو سکتا تھا نا ۔ اس لیے گزارے کی پڑھائی کر کے لڑکا برادری کی ناک اونچی ہی رکھی ۔ بس اتنا پڑھ لیتا تھا کہ پاس ہو جاتا ۔ مجھے کونسا ایٹم بم کے پرزے بنانے ہیں ۔ یا کشش ثقل پر ریسرچ کرنی ہے ۔
مجھے نہیں پتا اپنی آپ بیتی کیسے شروع کروں ۔ مجھے لکھنے کا اتنا شوق بھی نہیں ۔ چنانچہ چھوٹی موٹی غلطیوں کو اگنور کر دیجیے گا ۔ اگر نہیں کرنا تو میرا کیا جاتا ہے ۔
خیر ہمارا گھر پاکستان کے ماڈرن گھرانوں کی طرح ایک گھر ہے ۔ کچھ کچھ فیشن کچھ کچھ مزہب ۔
اس لیے ہم ایک دو بار یوکے گئے ، کچھ ماہ رہے انجوائے کیا اور واپس پاکستان آگئے ۔ حلانکہ ہم سب کے کاغذات بھی بن چکے ہیں ۔ لیکن پاکستان میں اچھی زندگی گزر رہی ہے چنانچہ یو کے میں رہنا ضروری نہیں تھا ۔
میرا خیال اب کہانی کے طرف آتے ہیں کافی تعارف ہو چکا ہے ۔ مجھے بھی دوسروں کی طرح اپنی فیملی سے محبت تھی ۔ ہم ایک دوسرے سے جڑ کر رہتے تھے ۔ تنگ کرنا چھیڑ چھاڑ کرنا بھی چلتا ہے ۔ اور لان میں کھیل تماشا بھی ۔
میں تب بی ایس سی کے پیپرز دے رہا تھا ۔ میرا خاندان جدی پشتی حساب یا ریاضی میں ماہر تھا ۔ سالے سب 100/100 نمبر لینے والے ٹاپر ۔ اور میں جس کوریاضی سے چڑ تھی ۔ میٹرک سے لیکر اب تک ریاضی میری بڑی بہن ہی مجھے پڑھاتی تھی ۔ پڑھائی کے دوران میرا سر اکثر اسکے سر کے ساتھ ٹکرا جاتا ۔ یا میں جان بوجھ کر مار دیتا ۔
گرمی کے دن تھے اور پہاڑی علاقے میں حبس بنی ہوئی تھی جو کہ معمول کی بات ہے ۔ روچی میرے سامنے میرے ہی بیڈ پر بیٹھی تھی کدو کلر کا کاٹن کا سوٹ پہنے ہوئے تھی ۔ اس کی کہنی بیڈ کے گدے میں پیوست تھی اور اسکا ہاتھ اسکی ٹھوڈی کے نیچے اس کو سہارہ دے رہا یعنی بائیں ہاتھ پر اسکے چہرے وزن تھا اور دائیں ہاتھ سے وہ ریاضی کا ایک سوال حل کر رہی تھی ۔
میری اچانک نظر اس کے سینے پر پڑی ، کھلے گلے میں اس کے ممے آدھے آدھے نظر آرہے تھے ۔ دوپٹہ تو وہ لیتی نہیں تھی نا ہی امی ۔ بے پردگی کی بھی حد ہے ۔
میں نے پھر باجی روچی کے چہرے کی طرف دیکھا ۔ اس کا دھیان کاپی اور سوال کی طرف ہی تھا ۔ میں نے پھر اس کے مموں کی طرف لیکن اس بار گہری نظر سے دیکھا ۔
چٹے سفید بغیر داغ کے بھرے بھرے ممے ۔ لیکن لٹکے ہوئے نہیں تھے ۔
جسم میں عجیب سا سرور دوڑا گیا ۔ اگلے ہی لمحے دل نے مجھے عزت کے ساتھ مخاطب کیا ۔ جیسے عمران خان نواز شریف و زرداری کو مخاطب کرتا ہے ۔ اوئے بے غیرتا ۔ اوئے کمینے بہن ہے تیری ۔
خیر میں نے زبردستی دھیان کاپی پر رکھا ۔ نگاہ تھوڑی سرکی اور اس کے ہاتھوں پر غور کرنے لگا ۔
سفید اور ملائم ہاتھ ۔ نا جھری نا داغ نا میل ۔ اپنے ہاتھوں پر غور کیا تو لگا جیسے مزدور کے ہاتھ ہوتے ہیں ۔
دل نے کہا۔۔۔۔ کامی اپنا کام کر ۔ بہن یکی نا کر ۔ میں بھی کیا ہاتھوں کو لیکر بیٹھ گیا ۔
روچی : کامی !!!! تھوڑا پانی تو لانا۔۔۔۔۔۔۔۔ پیاس لگ گئی ہے ۔
میں کچن میں گیا تو امی چولہے کی طرف منہ کر کے کھانا پکا رہی تھی ۔ اور ان کی پشت میری طرف تھی ۔ میں نے نظر بھر کر دیکھا تو وہ ایک اچھی خاصی موٹی ہپ کی مالک تھیں ۔ غالبا 42 ہوگی ۔
منہ بسورتے ہوئے فریج سے پانی نکالا پانی کا گلاس لیا اور اپنے کمرے میں آگیا ۔
پانی بیڈ پر ہی رکھا تو روچی سیدھی ہو کر بیٹھ چکی تھی ۔ پانے کے گلاس کو منہ لگایا اور پینے لگی ۔ میری نظر اس کے گلاس سے ہوتی ہوئی اس کی گردن پر آئی ۔ عام لڑکیوں سے ہٹ کر تھوڑی لمبی گردن تھی وہ بھی پورے جسم کی طرح سفید ۔ اور واقعی جو کہتے ہیں اتنی گوری کہ پانی بھی گلے سے نظر آئے ۔
پانی کی چند بوندیں اس کے ہونٹوں سے بہتی ہوئی گردن سے ہوتی ہوئی مموں کے درمیان کہیں گم ہو گئیں ۔
مجلد ہی نظر ہٹا کر پانی والی بوتل کو دیکھنے لگا ۔ مجھے اب اپنے آپ پہ غصہ آرہا تھا ۔۔۔ کہ کیا ہوگیا آج ۔ ماں بہن ایک ہی کرتا جا رہا ہوں ۔
خیر میں نے سر جھٹک دیا اور ریاضی کے سوال کی طرف دھیان دینے لگا ۔ کچھ دیر سمجھانے اور پڑھانے کے بعد روچی اٹھ کر چلی گئی ۔
میں کچھ دیر کتابیں سمیٹیں کہ چلو آج کے لیے بہت ہوگئی پڑھائی ۔ لگاتار 1 گھنٹہ پڑھانا بھی عذاب تھا ۔
وہ بھی بغیر کسی ریسٹ کے ۔
اپنی گردن کو الٹا سیدھا گھماتا گھر سے باہر نکلا ۔ جیسے بہت پڑھ لیا ۔ باہر اتنی رونق نہیں تھی ۔ گرمی تھی لوگ گھروں میں ہی تھے ۔ گلی میں اسد چلتا آرہا تھا ۔ اسد مجھ سے چھوٹا ہے لیکن دوست ہے ۔ اس کے ابا حکیم ہیں ۔ اور دادا بھی حکیم تھے ۔ اسد کے زریعے میں جسم بڑھانے مسلز وغیرہ کے لیے دیسی دوائی لیتا تھا ۔
اس ضمن میں ایک واقع بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔ ( جب میں نویں کلاس میں تھا تو ابو یو کے سے آئے ہوئے تھے ۔ حکیم صاحب ان کے کلاس فیلو تھے ۔ اس ان سے بے شرمی ، بے شرمی دوائیاں لیتے تھے ۔ جیسے کہ ٹائمنگ کی اور لن کا سائز بڑا کرنے والی ۔
مجھے نہیں پتا تھا اس سے فرق پڑا یا نہیں ۔ انہوں نے اپنی ممنوعہ دیسی دوائیاں الماری میں رکھی ہوتی تھیں ۔ وہاں اور بھی بہت سی دوائیاں تھیں جو اکثر گھروں میں ہوتی ہیں ۔ انہوں نے جیسی بھی اور جتنی بھی استعمال کی وہ تو واپس یو کے چلے گئے ۔
مجھے ایک بار سر درد ہوا تو امی نے کہا میرے کمرے کی الماری سے ڈسپرین کی گولی لے آو ۔ یہ کہہ کر امی اپنے کاموں میں لگ گئیں اور میں نے ڈسپرین کا ڈبہ کھولا اس میں کچھ پُڑیاں تھیں ۔ میں نے پہلے کبھی ڈسپرین استعمال نہیں کی تھی ۔ ایک پڑی اٹھائی اس میں براون رنگ کی گول مٹول گولی تھی ۔ وہ میں نے پانی کے ساتھ لے لی ۔ مجھے گولی کھانے کا شوق تھا ، مجھے شک تھا کہ یہ جسم کو بڑا کرتی ہیں اور انسان جلدی بڑا ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ ڈسپرین جو ٹی وی میں دکھاتے ہیں وہ سفید رنگ کی ہوتی ہے ۔
اسی طرح لگاتار میں نے تین دن دوائی کھائی ۔ وہ لن لمبا کرنےو الی دوائی تھی ۔ میرا معدہ اس کو پچا نہیں سکا ۔ اور درد رہنے لگی ۔
جب امی کو بتایا تو انہوں نے ایک ڈاکٹر کو دکھایا ۔ ڈاکٹر نے امی سے میری خوراک پوچھی ۔
امی نے واجبی سے کھانے کا بتایا ۔ ڈاکٹر نے میرے پیٹ پر ہاتھ لگا کر دبایا اور پوچھا درد ہوئی ؟ میں نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
ڈکٹر نے امی سے کہا اس نے کچھ الٹا سیدھا کھا لیا ہے ۔ معدہ درد ہے اسکا ۔
ڈاکٹر نے دوا دی ۔ ہم نے ہسپتال کے میڈیکل سٹور سے وہ خریدی ۔
رستے میں امی نے پوچھا ۔۔۔۔۔ کامی بیٹا کیا کھایا تھا ؟
میں نے کہا امی سچی باہر سے کوئی چیز لیکر نہیں کھائی ۔ بس آپ نے جو دوائی کہی تھی وہی کھائی براون کلر کی ۔
امی نے گھور کر مجھے دیکھا ۔ ہیں ؟ کون سی براون گولی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈسپرین تو سفید ہوتی ہے ۔ میں کہا نہیں امی ڈسپرین کے ڈبے میں تھی ۔
امی اور میں فورا گھر آئے ۔ امی مجھے اپنے کمرے میں لے گئی ۔ اور مجھے کہا دکھاو کونسی دوائی لی تھی ؟
میں نے ڈسپرین کا ڈبہ اٹھایا اس کے اندر ایک پُڑی تھی ۔ پُڑی کے اندر گولیاں تھیں ۔ غالبا دو تین باقی بچی تھیں ۔
امی اس وقت سر پکڑ کر بیڈ پر گِر گئی اور دونوں ہاتھوں سے سر تھام لیا ۔
افففففف کامی تم نے یہ کیا کھا لیا ۔
کیوں امی یہ کس چیز کی گولی ہے ۔ میں نے حیرانگی سے پوچھا ۔
اب امی کیا بتاتیں ۔ مجھے کہنے لگیں ایک کھائی تھی ؟
میں نے جواب دیا نہیں ہاں ایک کھائی تھی ۔ لیکن تین دن تک ایک ایک
امی کی انکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔ غصہ بھی تھا لیکن اتار نہیں سکتیں تھیں ۔ کیونکہ اپنی بھی غلطی تھی ۔
پھر امی نے مجھے دونوں بازووں سے پکڑا اور اپنے قریب کیا اور چوما ۔
کہنے لگیں بیٹا کامی تم نے غلط گولی کھا لی ہے ۔ اب کسی کو بتانا مت ، لیکن تمھارے جسم میں کچھ بھی گڑ بڑ ہو ۔ درد ہو تو مجھے فورا بتانا ۔ میں تمھیں ڈاکٹر کے پاس لے چلوں گی ۔
اور پھر مجھے گلے لگا لیا ۔ میں اس وقت نویں کلاس میں تھا سمجھدار تو نہیں تھا لیکن بالغ تھا ۔
امی کے بڑے بڑے ممے جب میرے سینے پر لگے تو عجیب سی کیفیت آئی ۔ یہ پہلے نہیں تھی ۔
میرا بھی دل چاہا میں بھی امی کو بھینچ لوں ۔ لیکن ڈر رہا تھا ۔
شاید امی کو میں پریشان لگا ۔ یا انکو لگا مجھے پیٹ میں درد ہے ۔ اس لیے بس بُت بنا کھڑا ہے ۔
امی نے مجھے بیڈ لٹایا ۔ لیکن جونہی خود جھکیں تو 38 سائز کے مموں کی لکیر میر نظروں کے سامنے تھی ، اور ایسا لگ رہا تھا جیسے ابھی وہ قمیض پھاڑ کر باہر نکل آئیں گے ۔
یہ جذبات میرے لیے نئے تھے ۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا ۔ امی نے میرے پیٹ سے قمیض ہٹائی تاکہ پیٹ کی مالش کر سکیں ۔ لیکن شلوار اٹھی ہوئی تھی ۔ اگر تھوڑی سے اٹھی ہوتی تو شاید وہ یہی سمجھتیں کہ میرا لن کھڑا ہے ۔ لیکن وہ بہت زیادہ اٹھی ہوتی تھی ۔ امی نے سمجھا کہ شلوار کا کپڑا کھڑا ہے ۔ انہوں نے پیٹ پر ہاتھ لے جاتے ہوئے اس اٹھی ہوئی شلوار کو بٹھانے کے لیے چھوا تو انکو بھی 440 واٹ کا جھٹکا لگا ۔ میں فورا دہرا ہو گیا ۔
کیونکہ یہ کل رات سے کھڑا ہے ۔ اور تھکنے کی وجہ سے درد ہونے لگ گیا تھا ۔
میں کہانی بنانے یا جھوٹ بولنے کے لیے نہیں کہہ رہا ۔ اس وقت میرا ہم عمر لڑکوں سے ویسے بھی بڑا تھا اور باقی ادویات کا اثر تو جو میں لے رہا تھا ۔ 6 انچ تو ہو چکا تھا اور موٹا بھی ۔
امی پھر سر پکڑ کر بیٹھ گئیں ۔ انہوں نے فورا ابو کو کال ملائی ۔
اور ان سے بات کرنے لگیں ۔
رسمی سلام دعا کے بعد انہوں نے ابو سے کہا کہ گڑ بڑ ہو گئی ہے ۔ کامی نے آپ کی میڈیسن کھا لی ہے ۔ آگے سے ابو نے پوچھا ہوگا کونسی میڈیسن
تو امی نے جواب دیا وہی جو آپ حکیم سے لائے تھے ۔ اور ان کا اثر بھی ہو رہا ہے اس کے ہارمونز تبدیل ہو رہے ہیں ۔
تو ظاہر ہے ابو بھی پریشان ہو گئے ہوں گے ۔ لیکن کیا جواب دیا مجھے نہیں معلوم ۔
بس امی ہممم ہممم کرتی رہیں ۔ پھر فون بند کر دیا ۔
فون بند کرنے کے بعد امی نے دروازے کی طرف دیکھا ۔ پھر امی کچن میں گئیں اور پانی کا گلاس لیکر آگئیں ۔ آتے ہوئے کمرے کا دروازہ آدھا بند اور باقی کھلے دروازے کے سامنے پردہ ڈال دیا ۔
میں بیڈ پر بالکل سیدھا لیٹا ہوا تھا ۔ امی نے پیار سے میرے سر میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا کہ کامی جو میں پوچھوں گی وہ سچ سچ بتاو گے ؟
میں نے تابع داری سے کہا جی امی آپ حکم کریں ۔
بیٹا جو میں پوچھوں وہ کسی کو بتانا بھی مت ۔ نا روچی کو اور نا ہی احسان کو ۔ بلکہ کسی کو بھی نہیں ۔
میں بھی حیران ہو رہا تھا یہ کیسا روز پوچھنے والی ہیں ۔
مانیں نے مانیں میرے زہن میں فورا اس وقت ریاضی کا ٹیسٹ آگیا ۔ کہیں پتا تو نہیں چل گیا کہ ٹیسٹ میں فیل ہو گیا ہوں ؟
امی نے بغیر کسی تمہد کے پوچھا ۔ کامی کبھی مٹھ ماری ہے ؟
میں تو پہلے سمجھا نہیں کہ مٹھ کسے کہتے ہیں ۔ سچ کہوں تو مٹھی کو ہی مٹھ سمجھ بیٹھا تھا ۔ اس کشمکش میں تھا غالبا امی سمجھ چکی تھیں مجھے نہیں پتا ۔
فورا ہی کہا کبھی اپنے اس شیر کو ہاتھ میں پکڑ کر ہلایا ہے ؟
اب مجھے شرم آنے لگی ۔ آنکھیں نیچے کر لیں ۔ اور کہا نہیں امی مجھے شرم آتی ہے ۔
امی نے پانی کا گلاس پیا اور کچھ سوچنے لگیں ۔ پھر مجھے کہا کہ کامی جو باتیں ہوئی ہیں وہ کسی سے زکر نا کرنا ۔
میں نے جی اچھا کہا ۔
امی اٹھ کر اپنے کام کرنے لگ گئیں اور میں باہر نکلا ۔ گھر سے باہر جاتے ہوئے امی نے دیکھا اور میں نے بھی محسوس کیا کہ میری قمیض پر اچھا خاصہ تمبو بنا ہوا ہے ۔
بہن چود یہ کیا مصیبت ہے اب ۔ خیر قمیض کو پکڑ کر تھوڑا کھلا کر کے چل رہا تھا ۔ تاکہ پتا نا چلے شیر اٹھا ہوا ہے ۔ امی کی طرف دیکھا تو وہ مسکرا رہیں تھیں ۔
کچھ دیر باہر مٹر گشت کیے شام ہو گئی اور اپنے اپنے کمروں میں گھس گئے ۔ تب میرا کمرہ نیچے ہی ہوتا تھا ۔ روچی آپی کے پاس والا کمرہ ۔ سامنے ہال تھا جس میں ایل سی ڈی لگی ہوئی ہے اور سامنے صوفے وغیرہ رکھے ہیں اس کو کامن روم بنا رکھا ہے ۔ یا سٹنگ روم سمجھ لیں ۔ اسی ہال کے سامنے امی ابو کا کمرہ ہے اور ساتھ کچن و واش روم اور گھر کے پچھلے لان کی طرف جانےو الا دروازہ ۔
رات کا کھانا کھا کے سب اپنے اپنے بستروں میں گھس گئے میرے ذمہ داری تھی گھر کے دروزوں مین گیٹ کو تالا وغیرہ لگانا ۔ سب کام نپٹا کر میں اپنے کمرے میں آیا تو سردی لگنے کے بجائے مجھے گرمی لگ رہی تھی ۔ اس لیے قمیض اتار کر بیڈ پر لیٹ گیا ۔ میرا لن فل اکڑا ہوا تھا ۔ اس کی جڑوں میں درد ہو رہی تھی ۔ اور میں تنگ آکر اپنے لن سے ہی باتیں کرنے لگا ۔
بیٹھ جا میرے بھائی ۔ بس کردے سالے تھک گیا ہوں میں ۔
جونہی لن پر ہاتھ لگا تو سکون بھی آیا اور مزہ بھی ۔ ایسی ہی بے ہودگی سوچتے سوچتے گھنٹہ گزر گیا ۔
اچانک میرے کمرے کا درزاہ آہستہ سے کھلا ۔ باہر ہال میں زیرو کا بلب جل رہا تھا ۔ تو جسامت سے امی ہی لگیں ۔
امی نے دروازہ بند کیا اور آہستہ سے لاک بھی لگا دیا ۔ اور دبے پاوں میرے بیڈ کے پاس آکر مجھے دیکھنے لگیں ۔
اب حالت یہ تھی کہ میرا ایک بازو میرے سر کے نیچے تھا اور دوسرا ہاتھ میرا لن پہ تھے ۔ امی کی اچانک آمد پر میں ہاتھ ہٹا نہیں سکا ۔
امی نے بھی نوٹ کر لیا ۔ اور آکر میرے بیڈ پر ہی بیٹھ گئیں ۔ امی کچھ دیر بیٹھی رہیں ۔ وہ کچھ سوچ رہیں تھیں یا کچھ فیصلہ کرنا چاہ رہی تھیں ۔ لیکن معاشرہ مزہب سب کچھ حائل تھا ۔ کیونکہ ماں اپنے بیٹے سے ایسی باتیں نہیں کرتی ۔ جو امی نے مجھ سے کی ۔ اچھے بھلے لن کو شیر بنا دیا ۔ یہ سوچتے ہی میں نے فوراً لن کو چھوڑ دیا ۔
امی کی ٹانگیں ابھی بھی بیڈ کے نیچے لٹک رہی تھیں ۔ پھر اسی طرح مجھ پر جھک گئیں ۔ اور پوچھا ۔
کامی بیٹا کچھ آرام آیا ؟
میں نے نفی میں سر ہلایا اور کہا درد ہو رہی ہے ۔ امی نے کہا – بیٹا میں جانتی ہوں ۔
پھر مجھے کہا کہ وعدہ کرو کسی کو کچھ نہیں بتاو گے ؟
میں نے پوچھا کیا امی ؟
تو انہوں نے کہا جو میں کرنے والی ہوں ۔ کسی سے ذکر مت کرنا ۔ ورنہ تمھاری ماں مر جائے گی ۔
میں بھی جذباتی ہو گیا اور کچھ درد کا اثر تھا ۔ نم آنکھوں سے کہا امی ایسا نہ کہیں پلیز ۔ آپ کے لیے جان بھی حاضر ہے ۔
امی اب اٹھ کر بیڈ پر بیٹھ گئیں ۔ اور میری شلوار تھوڑی سے نیچے کی ۔ میرا لن اس وقت 90 ڈگری اینگل پر بالکل سیدھا کھڑا تھا ۔ امی نے اپنے ایک ہاتھ سے اس کو پکڑا ۔ انہوں نے جب لن پکڑ کر مٹھی بند کی تو میں دیکھ رہا تھا کہ آدھا لن ابھی بھی مٹھی سے اونچا ہے ۔
میں سوچ میں پڑ گیا یہ پہلے تو اتنا بڑ ا نہیں تھا ۔ خیر امی کے ہاتھ سے عجیب سا سرور آنے لگا ۔ اور مجھے اچھا لگنے لگا ۔ امی میرے پیٹ کے پاس بیٹھی تھیں اور بائیں ہاتھ سے لن کو آہستہ آہستہ ہلا رہی تھیں ۔ اتنا بڑا تو تیرے باپ کا نہیں ہوا ۔ اور ساتھ ہی مجھے مسکرا کر دیکھا ۔
پھر ایک کس میرے ماتھے اور گالوں پر کی ۔
جونہی وہ میرے اوپر جھکی ان کے بڑے بڑے ممے میرے سینے کو لگے ۔ سینے سے لگنے کی وجہ سے انکے سفید ممے انکی قمیض کے گلے سے باہر آنے کے لیے جتن کرنے لگے ۔
عجیب سا ہی سین تھا وہ ۔ آدھے سے زیادہ ننگے ممے ننگے ہو چکے تھے ۔ اور یہ میرے لیے بہت ہی حسیں نظارہ تھا ۔ میرے لن میں بھی کرنٹ دوڑا جو امی نے بھی محسوس کیا ۔
اسی دوران امی نے ایک اور عجیب حرکت کی ۔ ایک ٹانگ میرے اوپر سے ہوتی ہوئی دوسری طرف رکھی ۔، جیسے کوئی انسان کسی لیٹے ہوئے بندے کے اوپر چڑھ کر بیٹھ جاتا ہے ۔
امی کی انکھوں میں دیکھا تو ان کی آنکھوں میں عجیب سا خمار تھا ۔ اور ساتھ خوف بھی ۔
امی آہستہ آہستہ میرے اوپر لیٹ کر مجھ پر گرفت مضبوط کرنے لگیں جیسے قبضہ مافیا کسی پلاٹ پر قبضہ جما لیتا ہے ۔
اب حالت یہ تھی کہ میں بالکل سیدھا لیٹا ہوا تھا اور امی میری طرف منہ کر کے میرے اوپر ہی سیدھا لیٹ گئیں ۔
ان کی ٹانگوں کے درمیان میرا لن تھا ۔ انہوں نے دونوں بازو میرے چہرے اور سر کے گرد
لاک کیے ہوئے تھے ۔
امی تھوڑا سا نیچے ہوئی تو انہوں نے اپنے رانوں کوآخری حصے یعنی پھدی کے بالکل قریب سے میرے لن کو جکڑ لیا ۔ میں کچھ دیر حیران و پریشان لیکن جلد ہی اس صورت حال کو انجوائے کرنے لگا ۔
امی میرے رخساروں آنکھوں و ماتھے پر کس کر رہی تھیں ۔ اور ساتھ ہی رانوں کی گرفت میرے لن کے گرد سخت کرتی جا رہی تھیں ۔
میرا لن ننگا تھا لیکن انہوں نے شلوار پہن رکھی تھی ۔ اس کے باوجود مجھے ان کی رانوں کی گرمی ساتویں آسمان پر اڑا رہی تھی ۔
امی کی گرم سانسیں اپنے چہرے پر محسوس کر رہا تھا اور ان کے پورے جسم کے نیچے میرا جسم
تھا ۔ میری جسمات اس وقت ان سے کم تھی ۔ اس لیے ان کی گرفت مجھ پر سخت تھی ۔
اس حالت میں مجھ سے بھی نہیں رہا گیا اور خود ہی میں نے اپنی گانڈ کو اٹھانا شروع کر دیا پھر بٹھا لیتا ۔اپنے دونوں ہاتھ امی کی بڑی گانڈ پر تھے اور ان کو مسل رہا تھا ۔ ان کی گانڈ پورن ایکٹریس الیکسز ٹیکساس کی طرح بڑی تھی ۔ جس کی میں نے تصاویر بھی دیکھ رکھی تھیں ۔ امی کی گانٹھ میرے ہاتھوں بلکہ بازوں میں بھی نہیں آرہی تھی ۔ اتنی بڑی گول اور ملائم گانڈ کا سوچ کر مجھے اور جوش چڑھ گیا ۔ اور جھٹکے دینے لگا ایسے کرنے سے صاف دکھ رہا تھا جیسے میں انکی رانوں کو چود رہا ہوں ۔
اوپر سے امی بھی میری حرکت کو سمجھ گئی ۔ اور انہوں نے اپنے گانڈ کو بھی ہوا میں اٹھا لیتیں پھر واپس لن پر اپنی رانوں کی گرفت مضبوط کر لیتیں ۔
ایسا کم سے کم 5 منٹ چلا ۔ میں ایک عجیب سے نشے اور دنیا میں اتر چکا تھا ۔ مجھے اپنا لن گیلا محسوس ہوا ۔ شاید امی گیلی ہو چکی تھیں ۔ اور میں نے کچھ جھٹکے مار کر فارغ ہوتا گیا ۔
میرا جسم اکٹر گیا ۔ اور سر سے پاوں تک ایک عجیب سا مزہ تھا جو بیان سے باہر تھا ۔
کچھ دیر تک امی ایسے ہی پڑی رہیں ۔ جب دیکھا کہ میں کوئی حرکت نہیں کر رہا تھا میرے اوپر سے اٹھ گئیں ۔ اپنی شلوار دیکھی تو لگتا تھا کسی نے پوری بالٹی پانی بھر کر پھینکی ہے ۔ میرے جسم سے نکلے والی مادہ الگ ہی نظر آرہا تھا ۔ سرمئی رنگ گا اور گاڑہ ۔ (جاری ہے)
امی نے نے مجھے کہا اپنا وعدہ یار رکھنا ۔ کپڑے پہنو اور سو جاو ۔ اور ایسے ہی کمرے سے نکل گئی ۔
نیند لوڑا آتی ۔ میں ابھی شاک میں تھا ۔ یہ کیا ہو رہا ہے اور یہ کیسے ہو گیا ۔ لیکن ایک بات جس پر نہ میرے دل کو اعتراض تھا نا دماغ کو ۔ کہ مزاہ کی بلندیوں پر تھا ۔
یہی سوچ رہا تھا لن کی طرف دھیان گیا ۔ تو وہ آدھا بیٹھ چکا تھا ۔ میں نے شکر ادا کیا
اٹھ کر باتھ روم گیا شلوار وہیں رکھی ۔ ٹراوزر پہنا اور دوبارہ بیڈ پر لیٹ کر سو گیا ۔
اتنی ٹوٹ کر نیند آئی کہ بتا نہیں سکتا ۔ صبح اٹھا تو ترو تازہ اور ہشاش بشاش تھا ۔
شاید جسم کا پریشر نکل چلا تھا ۔ اور لن بھی بیٹھ چکا تھا ۔ لیکن بیٹھ کر بھی وہ عجیب سا ہو گیا پھولا پھولا جیسے سوجا ہوا ہے.۔۔۔ جاری ہے
ایک تبصرہ شائع کریں for "بہن کا شوہر قسط نمبر -1"