میں آج آٹھویں جماعت میں پہنچ گئی ہوں۔ کچھ سال پہلے تک میں باِلکل ‘فلیٹ’ تھی۔۔ آگے سے بھی۔۔ اور پِیچھے سے بھی۔ لیکن اسکول بس میں آتے جاتے ہوئے لڑکوں کے کندھوں کی رگڑ کھا کھا کر مجھے پتا ہی نہیں چلا کہ کب میرے کولہوں اور چھاتیوں پر گوشت چڑھ گیا۔۔ اتنی کم عمر میں ہی میرے چوتڑ بیچ سے کٹے ہوئے اسپرنگ لگے ہوئے ایک گول تربوز کی طرح ابھر گئے۔ میری چھاتیاں بھی اب ‘امرودوں’ سے بڑی ہوکر موٹے موٹے ‘سنگتروں’ جیسے ہو گئے تھے۔ میں کئیِ بار باتھ روم میں ننگی ہوکر حیرت سے انہیں دیکھا کرتی تھی۔۔ چھو کر۔۔ دبا کر۔۔ مسل کر۔ مجھے ایسا کرتے ہوئے عجیب سا مزہ آتا ۔۔ ‘وہاں بھی۔۔ اور نیچے چوت میں بھی۔
میرے گورے چِٹ جسم پر اس چھوٹی سی چوت کو چھوڑکر کہیں بھی بالوں کا نام ونِشان تک نہیں تھا۔۔ ہلکے ہلکے سے بال میری بغلوں میں بھی تھے۔ اسکے علاوہ گردن سے لیکر پیروں تک میں بالکل مکھن کی طرح چِکنی تھی۔ کلاس کے لڑکوں کو للچائی نظروں سے اپنی چھاتی لیکن جھولتے ہوئے ‘سنگتروں’ کو گھورتے دیکھ کر میری رانوں کے بیچ چھِپیِ ہوئی ہلکے ہلکے بالوں والی، مگر چِکناہٹ سے بھری ہوئی تِتلی کے پر پھڑپھڑنے لگتے اور مموں پر گلابی رنگت کے ‘انار دانے’ تن کر کھڑے ہو جاتے۔ لیکن مجھے کوئی فرق نہیں پڑا۔ ہاں، کبھی کبھار کچھ کچھ شرم آ جاتی تھی۔ یہ بھی نہیں آتی اگر ممی نے نہ بولا ہوتا،”اب تو بڑی ہو گئی ہے انجو ۔۔ برا پہننی شروع کر دے اور شمیز بھی پہن لِیا کر!”۔۔۔۔۔
سچ بتاؤں تو مجھے اپنے خوبصورت کسے ہوئے مموں کو برا میں قید کر کے رکھنا کبھی اچھا نہیں لگا اور نہ ہی انکو شمیز کے پردے میں رکھنا۔ اسکول میں موقع مِلتے ہی میں شمیز اور برا کو جان بوجھ کر اسکول کے باتھ روم میں اتار آتی اور کلاس میں منچلے لڑکوں کو اپنے مموں کے جلوے دیکھنے کے چکر میں اِرد گِرد منڈلاتے ہوئے دیکھ کرخوب مزے لیتی۔۔ میں اکثر جان بوجھ کر اپنے ہاتھ اوپر اٹھا کر انگڑائیاں لیتی جس سے میرے ممے تن کر جھولنے لگتے۔ اس وقت میرے سامنے کھڑے لڑکوں کی حالت خراب ہو جاتی۔۔ کچھ تو اپنے ہونٹوں ایسے زبان پھیرنے لگتے جیسے موقع مِلتے ہی مجھے نوچ ڈالیں گے۔ کلاس کی ساری لڑکِیاں مجھ سے جلنے لگی تھیں۔۔ حالانکہ ‘وہی’ سب انکے پاس بھی تھا۔۔ لیکن میرے جیسا نہیں
میں پڑھائی میں بِالکل بھی اچھیِ نہیں تھی لیکن سارے مرد ٹیچروں کا ‘پورا پیار’ مجھے مِلتا تھا۔ یہ انکا پیار ہی تو تھا کہ ہوم-ورک نہ کرنے کے باوجود بھی وہ مسکراکر بغیر کچھ کہے چپ چاپ کاپی بند کرکے مجھے پکڑا دیتے۔۔ باقی سب کی پِٹائی ہوتی۔ لیکن ہاں، وہ میرے پڑھائی میں دھیان نا دینے کا ہرجانہ وصول کرنا کبھی نہیں بھولتے تھے۔ جِس کِسی کا بھی خالی پیرِیڈ نِکل آتا۔کِسی نا کِسی بہانے سے مجھے اکیلے میں سٹاف روم میں بلا لیتے۔ میرے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیکر مسلتے ہوئے مجھے سمجھاتے رہتے۔ کمر سے چِپکا ہوا انکا دوسرا ہاتھ آہستہ آہستہ پھِسلتا ہوا میرے چوتڑوں پر آٹِکتا۔ مجھے پڑھائی کی ‘طرف زیادہ’ دھیان دینے کو کہتے ہوئے وہ میرے چوتڑوں پر ہلکی ہلکی چپت لگاتے ہوئے میرے چوتڑوں کے تھِرکنے کا مزہ لوٹتے رہتے۔۔ مجھے پڑھائی کے فائدے گِنواتے ہوئے اکثر وہ ‘کھو’ جاتے تھے، اور چپت لگانا بھول کر میرے چوتڑوں پر ہی اپنے ہاتھ جما لیتے۔ کبھی کبھار تو انکی انگلیاں سکرٹ کے اوپر سے ہی میری گانڈ کی دراڑ کی گہرائیوں کو ناپنے کی کوشِش کرنے لگتیں۔۔
انکا دھیان ہر وقت انکی تھپکیوں کی وجہ سے لگاتار تھرکتے ہوئے میرے مموں پر ہی ہوتا تھا۔۔ لیکن کِسی نے کبھی میرے مموں پر جھپٹا نہیں مارا۔ شاید وہ سب یہ سوچتے ہوں گے کہ کہیں میں بِدک نہ جاوں۔۔ لیکن میں انکو کبھی چاہ کر بھی یہ نہ بتا پائی کہ مجھے ایسا کرواتے ہوئی مجھے اپنی چوت میں میٹھا-میٹھا مزہ آتا ہے۔۔
ہاں! ایک بات میں کبھی نہیں بھول پاؤنگِی۔۔ میرے ہِسٹری کے سر کا ہاتھ ایسے ہی سمجھاتے ہوئے ایک دِن کمر سے نہیں بلکہ میرے گھٹنوں سے چلنا شروع ہوا ۔۔ اور آہستہ آہستہ میری سکرٹ کے اندر گھس گیا۔ اپنی کیلے کے تنے جیسی لمبی گوری اور چِکنی رانوں پر انکے ‘کانپتے’ ہوئے ہاتھ کو محسوس کرکے میں مچل اٹھی تھی۔۔ خوشی کے مارے میں نے آنکھیں بند کرکے اپنی رانیں کھول دیں اور انکے ہاتھ کواپنی رانوں کے بیچ میں اوپر چڑھتا ہوا محسوس کرنے لگی۔۔ اچانک مجھے ایسا لگا کہ میری نازک سی چوت سے پانی سا ٹپکنے لگا۔۔
اچانک انہوں نے میری رانوں میں بری طرح پھنسی ہوئی ‘نِیکر’ کے اندر انگلی گھسا دی۔۔ لیکن جلدبازی میں غلطی سے انکی انگلی سیدھی میری چِکنی ہوکر ٹپکتی ہوئی چوت کے موٹے موٹے لبوں کے بیچ میں گھسا دی۔۔ میں درد سے تِلمِلا اٹھی۔۔ میں اس اچانک حملے کو برداشت نہ کر پائی۔ چھٹپٹاتے ہوئے میں نے اپنے آپکو ان سے چھڑایا اور دیوار کی طرف منہ پھیر کر کھڑی ہو گی۔۔ میری آنکھیں دبدبا گئی تھی۔
میں اِس ساری پرکرِیا کے ‘پیار سے’ پھِر شروع ہونے کا اِنتظار کر ہی رہی تھی کہِ ‘وہ’ ماسٹرصاحب میرے آگے ہاتھ جوڑکر کھڑے ہو گئے،”پلیز انجلِ۔۔ مجھ سے غلطی ہو گئی۔۔ میں بہک گیا تھا۔۔ کِسی سے کچھ مت کہنا۔۔ میری نوکری کا سوال ہے۔۔!” اِس’سے پہلے میں کچھ بولنے کی ہِمت کر پاتی; وہ بک بک کرتا ہوا سٹاف روم سے بھاگ گیا۔۔ مجھے تڑپتا ہواِ چھوڑکر۔۔
اس کی انگلی نے میری چوت کی آگ کو اِس قدر بھڑکایا کی میں ہر وقت اپنے جلووں سے لڑکوں کے دِلوں میں آگ لگانے اوراپنی چوت کی پیاس بجھانے کی جگاڑ میں رہنے لگی۔ اِس کے لِئے میں نے اپنے جسم کی نمائش کی مہم کو اور تیز کر دِیا۔ انجان سی بن کر، کھجلی کرنے کے بہانے میں بینچ پر بیٹھی ہوئی سکرٹ میں ہاتھ ڈال کر اسکو رانوں تک اوپر کھِسکا لیتی اور کلاس میں لڑکوں کی سیٹِیاں بجنے لگتیں۔ اب سارا سارا دِن اپنا دھیان صرف لڑکوں کی باتوں کی طرف رکھنے لگی۔ آج احساس ہوتا ہے کہ دوبارہ کسی مردسے اپنی چوت میں انگلی کروانے کے چکر میں میں کِتنی بدنام ہو گئی تھی۔
خیر میرا ‘کام’ جلد ہی بن جاتا اگر وہ جو کوئی بھی تھا میرے بیگ میں نِہایت ہی غلیظ زبان میں لکھا ہوا خط ڈالنے سے پہلے مجھے بتا دیتا۔ کاش وہ خط میرے بھیا سے پہلے مجھے مِل جاتا! ‘ میرے گدھے بھائی نے وہ خط سیدھا میرے شرابی پاپا کو پکڑا دِیا
رات کو نشے میں دھت پاپا نے مجھے اپنے سامنے کھڑی کرکے وہ خط اونچی آواز میں پڑھنے لگے:
” ہائے جان من!
کیا کھاتی ہو یار؟ اِتنی مست ہوتی جا رہی ہو کہِ سارے لڑکوں کو اپنا دیوانہ بنا کے رکھ دِیا۔ تمہارے پپیتے جیسے مموں نے ہمیں پہلے ہی پاگل بنا رکھا تھا، اب اپنی گوری چِکنی رانیں دِکھا دِکھا کر کیا ہماری جان لینے کا اِرادہ ہے؟ ایسے ہی چلتا رہا تو تم اپنے ساتھ ‘اِس’ سال کے امتحانوں میں سب لڑکوں کو لے ڈوبوگی۔۔
لیکن مجھے تم سے کوئی گِلا یا شکوہ نہیں ہے۔ پہلے میں تمہارے زبردست مموں کو دیکھ دیکھ کر مست ہو جاتا تھا; اب ننگی چِکنی رانیں دیکھ کر تو جیسے مر ہی گیا ہوں۔ پھِر پاس یا فیل ہونے کی پرواہ کِسے ہے اگر روز تمہارے جسم کا دیدار ہوتا رہے۔ ایک رِیکویسٹ ہے، پلیز مان لینا! سکرٹ کو تھوڑا سا اور اوپر کر دِیا کرو تاکِ میں تمہاری گیلی چڈی کا رنگ دیکھ سکوں۔ سکول کے باتھروم میں جاکر تمیں یاد کرتے ہوئے اپنے لنڈ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے تمہارے نام کی مٹھ لگاتا ہوں تو بار بار یہی سوال دل میں ابھرتا رہتا ہے کہِ تمہاری چڈی کا رنگ کیا ہوگا۔۔ اِس وجہ سے میرے لنڈ کا رس نِکلنے میں دیر ہو جاتی ہے اور کلاس میں ٹیچرس کی جھڑکیاں سنناِ پڑتی ہیں۔
پلیز،میری یہ بات یاد رکھنا
تمہاری قسم جان من، اب تو میرے سپنوں میں بھی پرِیانکا چوپڑا کی جگہ ننگی ہوکر تم ہی آنے لگی ہو۔ ‘وہ’ تو اب مجھے تمہارے سامنے کچھ بھی نہیں لگتی۔ سونے سے پہلے 2 بار خیالوں میں تمہیں پورا ننگا کرکے چودتے ہوئے اپنے لنڈ کا رس نِکلتا ہوں، پھِر بھی صبح میرا ‘کچھ’ گیلا مِلتا ہے۔ پھِر صبح بِستیر سے اٹھنے سے پہلے تمہیں ایک بار ضرور یاد کر کے مٹھ لگاتا ہوں۔
میںنے سنا ہے کہِ لڑکِیوں میں چدائی کی بھوک لڑکوں سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ تمہارے اندر بھی ہوگی، ہے نا؟ ویسے تو تمہاری چدائی کرنے کے لِئے سبھی کلاس کے لڑکے اپنے لوڑوں کو تیل لگائے پھِرتے ہیں لیکن تمہاری قسم جان من، میں تمہیں سب سے زیادہ پیار کرتا ہوں، اصلی والا۔ کِسی اور کے بہکاوے میں مت آنا، زیادہ تر لڑکے چودتے ہوئے پاگل ہو جاتے ہیں۔ وہ تمہاری کنواری چوت کو پھاڑ ڈالیں گے۔ لیکن میں سب کچھ پیار سے کروں گا۔۔ تمہاری قسم۔ پہلے انگلی سے تمہاری چوت کو تھوڑا سا کھولوں گا اور چاٹ چاٹ کر اندر باہر سے پوری طرح گیلی کر دوں گا۔۔ پھِر آہستہ آہستہ اپنا لنڈ اندر کرنے کی کوشِش کروں گا، تم نے خوشی خوشی لے لِیا تو ٹھیک، ورنہ چھوڑ دوں گا۔۔ تمہاری قسم جان من۔
اگر تم نے اپنی چدائی کروانے کا موڈ بنا لِیا ہو تو کل اپنا لال رومال لیکر آنا اور اسکو رِسیس میں اپنے بینچ پر چھوڑ دینا۔ پھِر میں بتاؤنگا کہِ کب کہاں اور کیسے مِلنا ہے!
پلیز جان، ایک بار اپنی چوت کی خدمت کا موقع ضرور دینا۔ تم ہمیشہ یاد رکھوگی اور روز روز مجھ سے ہی چدائی کروانے کا سوچوگی، میرا دعویٰ ہے۔
تمہارا عاشِق!
لیٹر میں کھلی کھلی چدائی کی باتیں پڑھتے پڑھتے پاپا کا نشہ کب کافور ہو گیا، خیر، خدا کا شکر ہے مجھے انہوں نے یہ کہ کر ہی بخش دِیا،” کتِیا! مجھے یقین ہے کہ تو میری اولاد نہیں ہے۔ تو بھی اپنی ماں کی طرح رنڈی ہے۔ آج کے بعد تو سکول نہیں جائے گی” یہ کہہ کر وہ اوپر اپنے کمرے میں چلے گئے۔۔ شکر! میں بچ گئی۔
خیر، ہر روز کی طرح سکول کے لِئے تیار ہونے کا ٹائم ہوتے ہی میرے کسے ہوئے ممے پھڑکنے لگے; ‘شِکار’ کی تلاش کا ٹائم ہوتے ہی ان میں عجیب سی گدگدی ہونے لگ جاتی تھی۔ میں نے یہی سوچا تھا کہ روز کی طرح رات کی وہ بات تو نشے کے ساتھ ہی پاپا کے سِر سے اتر گئی ہوگی۔ لیکن ہائے ری میری قِسمت; اِس بار ایسا نہیں ہوا ،” کِس لِئے اِتنا پھدک رہی ہے رنڈی کی اولاد؟ چل میرے ساتھ کھیت میں
“پر پاپا! میرے امتحان سر پر ہیں!” بے شرم ہو کر میں نے رات والی بات بھول کر ان سے بحث کی۔
پاپا نے مجھے اوپر سے نیچے تک گھورتے ہوئے کہا،” یہ لے پکڑ! اٹھا ٹوکری! ہو گیا تیرا سکول! بس! تیری حاضِری لگ جائیگی اسکول میں! رؤف کے لڑکے سے بات کرلی ہے۔ آج سے کالج سے آنے کے بعد تجھے گھر پر ہی پڑھا جایا کرے گا! تیاری ہو جائے تو پیپر دے دینا۔ اگلے سال تجھے گرلز سکول میں داخل کراؤںگا۔ وہاں دِکھانا تم اپنی چڈی کا رنگ” آخِری بات کہتے ہوئے پاپا نے میری طرف دیکھتے ہوئے زمین پر تھوک دِیا۔
کام کرنے کی میری عادت تو تھی ہی نہیں۔ پرانا سا لہنگا پہن کر کھیت سے لوٹی تو بدن کی پور پور دکھ رہی تھی۔ دِل کر رہا تھا کہ کوئی مجھے اپنے پاس لِٹاکر آٹے کی طرح گوندھ ڈالے۔ میری اوپر کمرے میں جانے تک کی ہِمت نہ ہوئی اور نیچے کے کمرے میں چارپائی کو سیدھا کرکے اس پر پسری اور سو گئی۔
رؤف کے لڑکے نے گھر میں گھس کر آواز دی۔ مجھے پتا تھا کہ گھر میں کوئی نہیں ہے۔ پھِر بھی میں کچھ نا بولی۔ دراصل پڑھنے کا میرا دل تھا ہی نہیں، اِسی لِئے میں سونے کی ایٹنگ کرتے ہوئے وہیں پڑی رہی۔ میرے پاس آتے ہی وہ پھِر بولا،”انجلِ!”
اسنے 2-3 بار مجھکو آواز دی۔ لیکن مجھے نہیں اٹھنا تھا سو نہیں اٹھی۔ ہائے یہ کیا! وہ تو اگلے ہی لمحے لڑکوں والے حرامی پن پر اتر آیا۔ سیدھا میرے چوتڑوں پر ہاتھ لگاکر ہِلایا،”انجلِ۔۔ اٹھو نا! پڑھنا نہیں ہے کیا؟”
اِس حرکت نے تو دوسری ہی پڑھائی کرنے کی خواہش مجھ میں جگا دی۔ اسکے ہاتھ کا لمس پاتے ہی میرے چوتڑ خود بخود بھنچے اور سِکڑ سے گئے۔ میرا پورا بدن اسکے چھونے سے تھِرک اٹھا تھا۔ اسکو میرے جاگ جانے کی غلط فہمی نا ہو جائے اِسیلِئے نیند میں ہی بڑبڑانے کا ناٹک کرتی ہوئی میں الٹی ہو گئی; اپنے گداز چوتڑوں کی کساوٹ سے اسکو للچانے کے لِئے۔۔۔۔
سارا گاںؤں اس چشملی کو شریف کہتا تھا، لیکن وہ تو بڑا ہی حرامی نِکلا۔ ایک بار باہر نظر مار کر آیا اور میرے چوتڑوں سے تھوڑا نیچے مجھ سے چپک کر چارپائی پر ہی بیٹھ گیا۔ میرا منہ دوسری طرف تھا لیکن مجھے یقین تھا کہ وہ چوری چوری میرے بدن کی دلکش بناوٹ کا ہی لطف اٹھا رہا ہوگا! اور یہ بات تھی بھی سچ لیکن مزے دار بھی تھی۔۔
“انجلِ!” اِس بار تھوڑی تیز بولتے ہوئے اس نے میرے گھٹنوں تک کے لہنگے سے نیچے میری ننگی گداز پِنڈلِیوں پر اپنے ہاتھ رکھ کر مجھے ہِلایا اور سرکتے ہوئے اپنا ہاتھ میرے گھٹنوں تک لے گیا۔ اب اسکا ہاتھ نیچے اور لہنگا اوپر تھا۔
مجھ سے اب برداشت کرنا مشکِل ہو رہا تھا۔ لیکن شِکار ہاتھ سے نِکلنے کا ڈر تھا۔ میں چپ سادھے رہی اور اس حرامی کو جلد سے جلد اپنے چکنے پِنجرے میں قید کرنے کے لِئے دوسری ٹانگ گھٹنوں سے موڑی اور اپنے پیٹ سے چِپکا لی۔ اِسکے ساتھ ہی میرا لہنگا اور اوپر سرک گیا اور میری ایک ران کافی اوپر تک ننگی ہو گئی۔ میں نے دیکھا نہیں، لیکن میری چڈی تک آ نے والی ٹھنڈی ہوا سے مجھے لگ رہا تھا کہ اس حرامی کو میری چڈی کا رنگ دِکھنے لگا ہے۔
“آ۔آننجلِ” اِس بار اسکی آواز میں کپکپاہٹ سی تھی۔۔ سِسک اٹھا تھا وہ شاید! ایک بار کھڑا ہوا اور پھِر بیٹھ گیا۔۔ شاید میرا لہنگا اسکی گانڈ کے نیچے پھنسا ہوا ہوگا۔ واپس بیٹھتے ہی اس نے لہنگے کو پلٹ کر میری کمر پر ڈال دِیا۔۔
اسکا کیا حال ہوا ہوگا یہ تو مجھے پتا نہیں۔ لیکن میری چوت میں بلبلے اٹھنے شروع ہو چکے تھے۔ جب برداشت کرنے کی حد پار ہو گئی تو میں نیند میں ہونے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے اپنا ہاتھ اپنی مڑی ہوئی ٹانگ کے نیچے سے لے جاکر اپنی کچھی میں انگلیاں گھسا کر’وہاں’ کھجلی کرنے کے بہانے سے اس کو کریدنے لگی۔ میرا یہ حال تھا تو اسکا کیا ہو رہا ہوگا؟ سلگ گیا ہوگا، ہے نا؟
میں نے ہاتھ واپس کھینچا تو احساس ہوا جیسے میری چوت کی ایک پھانک چڈی سے باہر ہی رہ گئی ہے۔ اگلے ہی پل اسکی ایک حرکت سے میں بوکھلا اٹھی۔ اس نے جھٹ سے لہنگا نیچے سرکا دِیا۔ کمبخت نے میری ساری محنت کو مِٹی میں مِلا دِیا۔
لیکن میری سوچ غلط ثابِت ہوئی ۔ وہ حرامی تو میری امید سے بھی زیادہ شاطِر نِکلا۔ ایک آخِری بار میرا نام پکارتے ہوئے اس نے میری نیند کی گہرائی کو ناپنے کی کوشِش کی اور اپنا ہاتھ لہنگے کے نیچے سرکاتے ہوئے دوبارہ میری چوتڑوں پر لے گیا۔۔۔
چڈی کے اوپر تھرکتی ہوئی اسکی انگلِیوں نے تو میری جان ہی نِکال دی۔ کسے ہوئے میرے چِکنے چوتڑوں پر آہستہ آہستہ منڈلاتا ہوا اسکا ہاتھ بار بار میری گانڈ کی گولائیوں کودبا دبا کر دیکھتا رہا۔ میرے ممے چارپائی میں دھنس کر میری شہوت کو اور زیادہ بھڑکانے لگے۔ میں نے بڑی مشکِل سے اپنے آپ پر قابو رکھا ہوا تھا۔۔
اچانک اس نے میرے لہنگے کو دوبارہ اوپر اٹھایا اور دھیرے سے اپنی ایک انگلی میری چڈی کے اندر گھسا دی۔۔ آہستہ آہستہ وہ انگلی سرکتیِ ہوئی پہلے چوتڑوں کی دراڑ میں گھومی اور پھِر نیچے آنے لگی۔۔ میں دم سادھ کے ساکت پڑی ہوئی تھی۔۔ لیکن جیسے ہی انگلی میری چوت کے لبوں کے درمیان آئی میں اچھل پڑی۔۔ اور اسی پل اسکا ہاتھ وہاں سے ہٹا اور چارپائی کا بوجھ کم ہو گیا۔۔
میری چوت ِ تڑپ اٹھی۔ مجھے لگا کہ چوت میں انگلی کروانے کا یہ موقع بھی ہاتھ سے گیا۔۔ لیکن اِتنی آسانی سے میں بھی ہار ماننے والوں میں سے نہیں ہوں۔۔ اپنی سِسکِیوں کو نیند کی بڑبڑاہٹ میں بدل کر میں سیدھی ہو گئی اور آنکھیں بند کِئے ہوئے ہی میں نے اپنی رانیں گھٹنوں سے پوری طرح موڑ کر ایک دوسری سے الگ کر کے پھیلا دیں۔ اب لہنگا میرے گھٹنوں سے اوپر تھا اور مجھے یقین تھا کہ میری بھیگی ہوئی چڈی میں چھپی ہوئی میری چوت اسکی آنکھوں کے سامنے ہوگی۔
تھوڑی دیر اور یونہی بڑبڑاتے ہوئے میں چپ ہو کر گہری نیند میں ہونے کا ڈرامہ کرنے لگی۔ اچانک مجھے کمرے کے دروازے کی چٹخنیِ بند ہونے کی آواز آئی۔ اگلے ہی پل وہ واپس چارپائی پر ہی آکر بیٹھ گیا۔۔ آہستہ آہستہ پھِر سے رینگتا ہوا اسکا ہاتھ میری چوت تک پہنچ گیا۔ میری چوت کے اوپر سے اس نے چڈی کو کھسکاکر ایک طرف کر دِیا۔ میں نے ہلکی سی آنکھیں کھولکر دیکھا۔ اس نے چشمہ نہیں پہنا ہوا تھے۔ شاید اتار کر ایک طرف رکھ دِیا ہو گا۔ وہ آنکھیں پھاڑے میری پھڑکٹی ہوئی چوت کو ہی دیکھ رہا تھا۔ اسکے چہرے پر چھلکنے والی ہوس دور سے ہی دکھائی دے رہی تھی۔۔
اچانک اس نے اپنا چہرہ اٹھایا تو میں نے اپنی آنکھیں پوری طرح بند کر لیں۔ اسکے بعد تو اس نے مجھے جنت کی سیر کرادی۔ چوت کے دونوں لبوں پر مجھے اسکے دونوں ہاتھ محسوس ہوئے ۔ بہت ہی آرام سے اس نے اپنے انگوٹھے اور انگلِیوں سے پکڑ کر میری چوت کے موٹے موٹے لبوں کو ایک دوسرے سے الگ کر دِیا۔ پتہ نہیں کیا ڈھونڈھ رہا تھا وہ میری چوت کے اندر۔ لیکن جو کچھ بھی کر رہا تھا، مجھ سے برداشت نہیں ہوا اور میں نے مزے سے کانپتے ہوئے رانیں بھینچ کر جھڑ گئی اور میری چوت نے پہلی بار کسی مرد کی انگلیوں کے لمس سے مجبور ہو کر اپنا پانی چھوڑ دِیا۔۔ لیکن حیرت انگیز طور پر اِس بار اس نے میری چوت سے اپنے ہاتھ نہیں ہٹائے۔
کِسی کپڑے سے شاید میرے لہنگے سے ہی اس نے میری چوت کو صاف کِیا اور پھِر سے میری چوت کے لبوں کو چوڑا کر دیا۔ لیکن اب جھڑ جانے کی وجہ سے مجھے نارمل رہنے میں کوئی خاص مشکل نہیں ہو رہی تھی۔ ہاں، مزہ اب بھی آ رہا تھا اور میں پورا مزہ لینا چاہتی تھی۔
اگلے ہی پل مجھے گرم سانسیں چوت میں گھستی ہوئی محسوس ہوئیں اور میں پاگل سی ہوکر میں نے وہاں سے اپنے آپ کو اٹھا لِیا۔۔ میں نے اپنی آنکھیں کھول کر دیکھا۔ اسکا چہرہ میری چوت پر جھکا ہوا تھا۔۔ میں اندازہ لگا ہی رہی تھی کہ وہ کیا کرے گا کہِ مجھے پتا چل گیا کہِ وہ کیا کرنا چاہتا ہے۔ اچانک اس نے میری چوت کو اپنی زبان سے چاٹنا شروع کر دیا۔۔ میرے سارے بدن میں جھرجھری سی آ گئی۔اِس مزے کو برداشت نہ کر پائی اور میری سِسکی نِکل گئی اور میں اپنے چوتڑوں کو اٹھا اٹھا کر اس کے منہ پر اپنی چوت پٹخنے لگی۔۔لیکن اب اس کو کوئی ڈر نہیں تھا۔۔ میری رانوں کو اس نے کس کر ایک جگہ دبوچ لِیا تھا اور میری چوت کے اندر اپنی پوری زبان گھسا دی تھی۔۔
“ایایا!” بہت مزہ آ رہا تھا اتنا کہ میری برداشت سے باہر تھا کہ میں اپنی سسکاریاں روک سکوں ۔۔ مجھے اور میری چوت کواِتنا مزہ آ رہا تھا کہ میں کیا بتاؤں۔۔ جب بالکل میری برداشت سے باہر ہو گیا تو میں اپنا ہاتھ اس کے سر پر لے گئی اور اس کو اپنی چوت پر سے ہٹانے کی کوشِش کی تو اسنے میرا ہاتھ پکڑ لِیا،” کچھ نہیں ہوتا انجلِ۔۔ بس دو مِنِٹ اور!” یہ کہہ کر اس نے میری رانوں کو میرے چہرے کی طرف دھکیل کر وہیں دبوچ لِیا اور پھِر سے زبان کے ساتھ میری چوت کی گہرائیوں میں اتار دی۔۔
ہائے اِسکا مطلب تھا کہ اس کو پتہ تھا کہ میں جاگ رہی ہوں۔۔ پہلے یہ بات بول دیتا تو میں کیوں گھٹ گھٹ کر مزے لیتی، میں نے جھٹ سے اپنی کوہنی چارپائی پر ٹکائی اور اپنی گانڈ اوپر اٹھا کر سِسکتے ہوئے بولی،” انہہہہ۔۔جلدی کرو ناں۔۔ مجھے دوبارہ جھڑواؤ ورنہ ۔۔انہہہہ کوئی آ جائیگا افففف!”
پھِر کیا تھا۔۔ اس نے چہرہ اوپر کرکے مسکراتے ہوئے میری طرف دیکھا۔۔ اسکی ناک پر اپنی چوت کا گاڑھا پانی لگا دیکھا تو میری ہنسی چھوٹ گئی۔۔ اِس ہنسی نے اسکی جھِجھک بالکل ہی ختم کر دی۔۔ جھٹ سے مجھے پکڑ کر نیچے اتارا اور گھٹنے زمین پر ٹکا کر مجھے کمر سے اوپر چارپائی پر لِٹا دِیا۔،” یہ کیا کر رہے ہو؟”
“ٹائم نہیں ہے ابھی بتانے کا۔۔ بعد میں سب بتا دوںگا۔۔ کِتنی رسیلی ہے تو ہائے۔۔ اپنی گانڈ کو تھوڑا اوپر کر لے۔۔”
“لیکن کیسے کروں؟۔۔ میرے تو گھٹنے زمین پر ٹیکے ہوئے ہیں۔؟”
“تو بھی نا۔۔ !” اسکو غصہ سا آیا اور میری ایک ٹانگ چارپائی کے اوپر چڑھا دی۔۔ نیچے تکِیا رکھا اور مجھے اپنا پیٹ وہاں ٹکانے کو بولا۔۔ میں نے ویسا ہی کِیا۔۔
“اب اٹھاؤ اپنے چوتڑ اوپر۔۔ جلدی کرو۔۔” بولتے ہوئے اسنے اپنا موٹا جیسا لِنڈ پینٹ میں سے باہر نِکال لِیا۔۔
میں اپنے چوتڑوں کو اوپر اٹھاتے ہوئے اپنی چوت کو اسکے سامنے پروسا ہی تھا کہ باہر پاپا کی آواز سنکر میرا دم نِکل گیا،” پپاپا!” میں چِلائی۔۔۔
“دو کام کیا کر لیےے; تیری تو جان ہی نِکل گئی۔۔ چل کھڑی ہو جا اب! نہا دھو لے۔ ‘وہ’ آنے ہی والا ہوگا۔۔ پاپا نے کمرے میں گھس کر کہا اور باہر نِکل گئے،”جا چھوٹو! ایک ‘ادھا’ لیکر آ!”
ہائے میری تو سانسیں ہی تھم گئی تھیں۔ غنیمت تھا کہ خواب دیکھتے ہوئے میں نے سچ مچ اپنا لہنگا اوپر نہیں اٹھایا تھا۔ اپنے مموں کو دباکر میں نے 2-4 لمبی لمبی سانسیں لیں اور لہنگے میں ہاتھ ڈال اپنی چڈی کو چیک کِیا۔ چوت کے پانی سے وہ بالکل بھیگ چکی تھی۔ بچ گئی!
رگڑ رگڑ کر نہاتے ہوئے میں نے کھیت کی مِٹی اپنے جسم سے اتاری اور نئی چڈی پہن لی جو ممی 2-4 دِن پہلے ہی بازار سے لائی تھیں،” پتہ نہیں انجو ! تیری عمر میں تو میں چڈی پہنتی بھی نہیں تھی۔ تیری اِتنی جلدی کیسے خراب ہو جاتی ہے” ممی نے لاکر دیتے ہوئے کہا تھا۔
مجھے پوری امید تھی کِ ریںپھل کا لڑکا میرا سپنا ساکار ضرور کریگا۔ اِسیلِئے میں نے سکول والی سکرٹ ڈالی اور بِنا برا کے شرٹ پہنکر باتھ روم سے باہر آ گئی۔
“جا وہ نیچے بیٹھے تیرا اِنتظار کر رہے ہیں۔۔ کِتنی بار کہا ہے برا ڈال لِیا کر; نِکمی! یہ تیرے ممے ہِلتے ہیں تو تجھے شرم نہیں آتی؟” ممی کی اِس بات کو میں نے نظرانداز کِیا اور اپنا بیگ اٹھا کر سیڑھِیوں سے نیچے اترتی چلی گئی۔
نیچے جاکر میں نے اس چشملی کے ساتھ بیٹھی پڑوس کی رِنکی کو دیکھا تو میری سمجھ میں آیا کِ ممی نے بیٹھا ہے کی بجائے بیٹھے ہیں کیوں کہا تھا: “تم کِس لِئے آئی ہو؟” میں نے رِنکی سے کہا اور چشمو کو ابھِوادن کے روپ میں دانت دِکھا دِئیے۔ الو کی دم ہنسا بھی نہیں مجھے دیکھ کر،” کرسی نہیں ہے کیا؟”
“میں بھی یہیں پڑھ لِیا کروں گی۔۔ بھیا نے کہا ہے کہِ اب روز یہیں آنا ہے۔ پہلے میں بھیا کے گھر جاتی تھی پڑھنے۔۔ ” رِنکی کی سریلی آواز نے بھی مجھے ڈنک سا مارا۔۔
“کون بھیا؟” میں نے منہ چڑھا کر پوچھا!
“یے۔۔ ترن بھیا! اور کون؟ اور کیا اِنکو سر کہیں گے؟ 4-5 سال ہی تو بڑے ہیں۔۔” رِنکی نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔
ہائے رام! جو تھوڑی دیر پہلے سپنے میں ‘سیاں’ بنکر میری چوت میں زبان گھما رہا تھا; اسکو کیا اب بھیا کہنا پڑیگا؟ نا! میں نے نہ کہا بھیا!
” میں تو سر ہی کہوں گی! ٹھیک ہے نا، ترن سر؟”
بیشرمی سے میں چارپائی لیکن اسکے سامنے پسر گئی اور ایک ٹانگ سیدھی کِئے ہوئے دوسری گھٹنے سے موڑ اپنی چھاتی سے لگا لی۔ سیدھی ٹانگ والی چِکنی ران تو مجھے اوپر سے ہی دِکھائی دے رہی تھی۔۔ اسکو کیا کیا دِکھ رہا ہوگا، آپ خود ہی سوچ لو۔
“ٹھیک سے بیٹھ جاؤ! اب پڑھنا شروع کریں گے۔۔ ” حرامی نے میری جنت کی طرف تو دیکھا تک نہیں اور خود ایک طرف ہو کر رنکی کو بیچ میں بیٹھنے کی جگہ دے دی۔۔ میں تو سلگتی رہ گئی۔۔ میں نے آلتی پالتی مار کر اپنا گھٹنا جلن کی وجہ سے رنکی کی گود میں پھنسا دِیا اور آگے جھک کر معصوم شکل بناکر اپنی کاپی کی طرف دیکھنے لگی۔۔
ایک ڈیڑھ گھنٹے میں جانے کِتنے ہی سوال نِکال دِئے اس نے، میری سمجھ میں تو خاک بھی نہیں آیا۔۔ کبھی اس کے چہرے پر مسکراہٹ کو کبھی اسکی پینٹ کے مردانہ ابھار کو ڈھونڈتی رہی، لیکن کچھ نہیں مِلا۔۔
پڑھتے ہوئے اسکا دھیان ایک دو بار میرے مموں کی طرف ہوا تو مجھے لگا کہ وہ مموں کا دیوانہ ہے۔ میں نے جھٹ سے اسکی باتیں سنتے سنتے اپنی شرٹ کا بیچ والا ایک بٹن کھول دِیا۔ میرے گداز ممے، جو شرٹ میں گھٹن محسوس کر رہی تھے; راستہ مِلتے ہی اس طرف سرک کر سانس لینے کے لِئے باہر جھانکنے لگ گیا اور میرے مموں کے درمیان والی گہری گھاٹی اب اس کے باِلکل سامنے تھی۔
ترن نے جیسے ہی اِس بار مجھ سے پوچھنے کے لِئے میری طرف دیکھا تو اسکا چہرہ ایکدم لال ہو گیا۔۔ ہڑبڑتے ہوئے اسنے کہا،” بس! آج اِتنا ہی۔۔ مجھے کہیں جانا ہے۔۔ کہتے ہوئے اس نے نظریں چراکر ایک بار اور میرے گورے مموں کو دیکھا اور کھڑا ہو گیا۔۔۔
حد تو تب ہو گئی، جب وہ میرے سوال کا جواب دِئے بغیر ہی باہر نِکل گیا۔
میں نے تو صرف اِتنا ہی پوچھا تھا،” مزہ نہیں آیا کیا، سر؟”
سپنے میں ہی سہی، لیکن بدن میں جو آگ لگی تھی، اسکی دہک سے اگلے دِن بھی میرا انگ – انگ سلگ رہا تھا۔ جوانی کی تڑپ کی داستان سناتی تو سناتی کِس کو! صبح اٹھی تو گھر پر کوئی نہیں تھا۔۔ پاپا شاید آج ممی کو کھیت میں لے گئے ہوں گے۔۔ ہفتے میں 2 دِن تو کم سے کم ایسا ہوتا ہی تھا جب پاپا ممی کے ساتھ ہی کھیت میں جاتے تھے۔۔
ان دو دنوں میں ممی اِس طرح سج دھج کر کھانا ساتھ لیکر جاتی تھیں جیسے کھیت میں نہیں بلکہ کہیں بڈھے بڈھِیوں کے مقابلہء حسن میں جا رہی ہوں۔۔ مزاق کر رہی ہوں۔۔ میری ممی تو اب تک بوڑھی ہو چکی تھی۔۔۔
ایک تبصرہ شائع کریں for " بالی عمر کی پیاس "