زندگی عجیب ہے اور دنیا گول ہے؛ اسے پتا تھا زندگی عجیب ہے مگر اسے ابھی پتا چلا کہ دنیا گول ہے، جب وہ دفتر سے نکل کر گاڑی میں بیٹھا تب بھی سب وہی تھا جب وہ گاڑی سے اتر کر مال گیا تب بھی سب ٹھیک تھا۔ مگر واپس آتے ہوئے راستے میں جب بارش ہو رہی تھی اور جب وہ فٹ پاتھ پہ چھتری لیے کھڑی تھی۔ تب اسے لگا جیسے دنیا گھوم رہی ہے جیسے اس کی نظر چکرا رہی ہے۔ مگر ایسا کچھ نہیں تھا۔ وہ وہی تھی، وہ اس کو دیکھ کر حیران تھا۔ شاید اس کی نگاہ میں بھی دنیا گھوم رہی ہو گی شاید وہ بھی یقین کرنے میں اسی مشکل کا شکار ہو گی۔ مگر شاید ایسا نہ تھا۔
وہ دوڑتی ہوئی اس کے پیچھے ہوٹل کا دروازہ کھول کر داخل ہوئی تھی۔ وہ تیز تیز قدم اٹھاتا کونے والی میز پہ آ بیٹھا۔ سامنے کی طرف سے اس کی پشت تھی۔ وہ اسے دور سے دیکھتی ٹیبل تک آئی تھی اور کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔
" طاہر۔۔۔۔ طاہر۔۔۔۔ تم کیسے ہو؟ وہ تیز تیز چلنے کے سبب ہانپ رہی تھی۔ " اب یہ مت کہنا کہ تم مجھے نہیں پہچان پائے۔۔۔۔۔ یہ مت کہنا کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ طاہر تم تو ویسے کے ویسے ہو۔"
وہ بہت ایکسائٹڈ تھی۔ بہت پر جوش، بہت خوش خوش سی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کیا کہے۔۔۔۔ وہ اسے دیکھتا رہا جب یقین آ گیا کہ وہ وہی مبینہ تھی تو خاموشی سے بیگ میز سے اٹھایا اور گاڑی کی چابیاں مٹھی میں بند کیں ۔ سیل فون پرس میں رکھا اور بغیر ایک لفظ کہے کھڑا ہو گیا۔
" طاہر۔۔۔ پلیز رکو مجھ سے بات کرو میں تم سے بات کرنا چاہتی ہوں۔ دیکھو ہم بہت عرصے بعد ملے ہیں۔ " وہ اس کے پیچھے پیچھے آ رہی تھی۔ " پلیز طاہر رک جاؤ۔ دو منٹ، صرف دو منٹ طاہر؟"
اس کے قدم اس کے ساتھ ساتھ تیز ہو رہے تھے۔ وہ اس کے پیچھے پیچھے باہر آیا ہوٹل سے باہر پارکنگ تک۔ ”طاہر! ایک منٹ، پلیز صرف ایک منٹ۔" وہ گھوم کر آیا گاڑی میں بیٹھا۔
اس نے پھرتی سے دروازہ کھولا اور بیٹھ گئی۔ " اتریں گاڑی سے میں آپ کو نہیں جانتا ' آپ کون ہیں۔ گاڑی سے اتریں ورنہ میں یہاں کسی گارڈ کو آواز دیتا ہوں۔" ”طاہر تم ایسا کیوں کر رہے ہو۔۔۔۔ کیا تم میری بات بھی نہیں سنو گی ۔ پرانی دوستی کے ناتے، اس تعلق کے ناتے جو ہم میں کئی سال رہا۔" " میں نے کہا نا کہ میں آپ کو نہیں جانتا۔ کیا آپ نے سنا نہیں یا سمجھ میں نہیں آیا۔ ایک بار پھر سن لیں۔۔۔۔ میں آپ کو نہیں جانتا۔ اب اتریں پلیز۔۔۔۔۔ ورنہ مجھے کسی کو بلانا پڑے گا۔" " تم وہی ہو۔۔۔۔۔ یقین نہیں آ رہا۔"
اس نے ہاتھ بڑھا کر گاڑی کا دروازہ کھولا وہ ناچار اتر گئی۔ اس نے دروازہ بند کیا اور گاڑی اسٹارٹ کی۔
وہ دور کھڑی دیکھتی رہی۔ وہ دیکھتی رہی۔ وہ کچھ سوچنا نہیں چاہتا تھا۔ اس نے پلیئر آن کیا۔ شام سے پہلے آنا۔۔۔۔۔ عالمگیر کی آواز گونجی گاڑی میں دھوپ ساری ڈھل رہی ہو پھول سارے کھل رہے ہوں موسم سارے لے آنا اس کی آنکھوں کے آگے دھند چھا رہی تھی۔ پھر وہی دن آئے ہیں جانے کیا لے آئے ہیں جیون میرا۔۔۔۔ سارا تیرا جینا تو اک بہانہ ہے اسے بار بار آنکھیں صاف کرنا پڑی تھیں تاکہ سکرین صاف نظر آئے۔ اک تیرے آ جانے سے مل رہے ہیں زمانے سے جیون میرا سارا تیرا دور اب کیا جانا شام سے پہلے آنا دھوپ ساری' اس نے ہاتھ بڑھا کر پلیئر بند کر دیا۔ آنکھوں سے کتنے دنوں بعد پھر وہی سیلاب باہر آیا تھا۔ جو یاد نہیں کرنا چاہا وہی سب یاد کیوں آنے لگا تھا۔ گاڑی سے گھر تک، گھر سے بستر تک اور رات تک وہ تیز بخار میں جل رہا تھا۔ " کیا میری مشکلوں کا کبھی خاتمہ نہیں ہو گا؟" بخار میں کروٹیں بدل بدل کر وہ یہ سوال کس سے پوچھ رہا تھا۔۔۔۔ خود سے یا پھر خدا سے۔۔۔۔؟ ساری مشکلیں، سارے کڑے وقت اسے یاد تھے۔ جب وہ بارہ سال کا تھا اور اس کی والدہ دو جڑواں بچوں کو جنم دے کر مر گئی تھیں، ان کی موت کی اصل وجہ کیا تھی۔ ان کا ٹھیک طرح سے نہ علاج ہونا یا پھر اور کچھ۔۔۔۔ ڈاکٹر نے کہا تھا۔ انہیں بچہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ان کو ٹھیک غذا نہ ملی۔ وہ کمزور تھیں' سوکھی چھڑی کی طرح اور جب ڈاکٹر نے کہا۔ " بچے کو بچا سکتے ہیں یا ماں کو۔" تو اس کی والدہ نے بچے کو ترجیح دی اور اس نے باپ کو کھو دیا۔ زندگی کا سب سے بڑا حادثہ اس کے ساتھ تب پیش آیا تھا۔ وہ اس صدمے سے شاید بہت دیر بعد نکلتا اگر وہ خاتون نہ ہوتیں جنہوں نے اس کی ماں کو بیٹی بنایا تھا ماں کے جانے کے بعد وہ عورت اس کا حوصلہ بنی رہی۔ اسے سمجھاتی رہی' حوصلہ دیتی رہی۔ اس کے والدہ نے سمجھا تھا عنقریب وہ دوسری شادی کر لیں گی اور سب ٹھیک ہو جائے گا، مگر قسمت نے ساتھ نہیں دیا، دوسرا حادثہ اس کی والدہ کا ٹرک ایکسیڈنٹ تھا جس میں ان کی ٹانگیں ضائع ہو گئیں تھیں۔ والدہ کا جو بچا کھچا زیور تھا، وہ والدہ کے علاج پر چلا گیا۔ اس کی والدہ کچھ بہتر ہو کر گھر آ گئیں تھیں۔ مگر معذوری اور محتاجی نے ساری امید توڑ دی۔ تب بھی وہ زندگی سے ہارا نہیں تھا۔ اتنی چھوٹی سی عمر میں اپاہج والدہ کی خدمت اور دو چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال اور ساتھ میں پڑھائی جسے کسی صورت وہ چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔
بھی تو وہ صرف ساتویں میں تھا۔۔۔۔۔ ابھی تو اسے بہت پڑھنا تھا، بہت آگے جانا تھا اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے لیے۔ کبھی وہ لکھ رہا ہوتا اور وہ دونوں رونا شروع ہو جاتے۔ وہ پریشان ہو جاتا۔ " امی! آفاق فیڈر نہیں پی رہا۔ حرا مسلسل روئے جا رہی ہے۔ اور وہ اسے جھڑک دیتی۔۔۔۔۔ اپنی بیماری کا سارا غصہ اس پر نکال دیتی۔ سارا دن بڑبڑاتی رہتی اور چھوٹے بچوں کو برا بھلا کہتی رہتی جو کبھی اس کی خواہش تھی اب اس کے لیے عذاب اور بوجھ بن گئے تھے۔ پھر وہ بڑی دادی کی طرف دوڑ لگاتا۔ " بڑی دادی! آفاق فیڈر نہیں لے رہا۔ حرا روئے جا رہی ہے۔ میں کیا کروں؟" انہیں اس معصوم سے باپ پر رحم آ جاتا اور وہ اس کے ساتھ کچھ دیر بچوں کو سنبھال لیتیں جب تک وہ کچھ اور بنا کر آتا۔ بڑی مشکل سے دو تین سال روتے روتے گزرے۔ اب اسے یہ تسلی تھی کہ وہ دونوں بڑے ہو رہے ہیں۔ کچھ تو وہ آسانی سے گھر کا کام کر لے گا یا پڑھ لے گا۔ بورڈ کے امتحانات اس نے کس افرا تفری میں دیے یہ صرف اسے پتا تھا۔ امی کہتی تھی پڑھائی چھوڑ دے مگر وہ کیسے چھوڑ دیتا اس کا بہت سا پڑھنا اس کی ماں کا خواب تھا۔ اگر وہ نہ پڑھتا تو اپنے بہن بھائیوں کو کیسے پڑھاتا۔ ایک دن وہ بھی آیا۔ جب وہ دونوں آہستہ آہستہ چیزیں پکڑ کر چلنے لگے اور بات کرنے لگے۔ اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ ہوتا۔ دوڑ کر بڑی دادی کے پاس جاتا۔ ”آج آفاق نے یہ جملہ بولا۔۔۔۔ آج حرا نے یہ کہا۔۔۔۔ وہ تیز تیز دوڑتی ہے۔" وہ اسے خوش دیکھ کر خوش ہو جاتیں۔ امی کو کچھ بتاتا تو الٹا بیزاری دیکھنے کو ملتی۔ اسے یہی ایک فکر تھی کہ بچے بڑے ہو رہے ہیں تو ساتھ خرچے بڑھ رہے ہیں۔ گو کہ اس نے سمجھ داری کے ساتھ خرچے کا حساب رکھا ہوا تھا۔ اپنی ضرورتوں سے بچا بچا کر ان کے لیے رکھتا اور ان کی ضرورتیں پوری کرتا۔ ایک دن وہ بھی آیا جب وہ دونوں کے ہاتھ پکڑے اسکول لے جا رہا تھا جب ان دونوں کے ہاتھ میں کتاب تھی اور اس کی خوشی کا تب بھی کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ وہ کتابوں کی بائنڈنگ کرتا تھا۔ بچوں کو ٹیوشن پڑھانے لگا اور ان پیسوں سے وہ ان دونوں کے لیے کہانیوں کی کتابیں، کلر پنسلز اور کورس کی کتابیں لیتا۔ وہ ساری چیزیں جو لینے کے لیے اس کا دل کرتا تھا اور وہ لے نہ پاتا تھا۔ وہ ساری چیزیں وہ ان کے لیے لیتا تھا۔ ویسے کپڑے جو اسے نہیں ملے تھے وہ ان کو دلاتا تھا۔ پانچویں کے بعد اس نے ان دونوں کو ایک درمیانے درجے کے پرائیویٹ اسکول میں ڈال دیا تھا اور اپنی خواہشیں تو کیا ضرورتیں بھی مار کر وہ ان کا خرچہ پورا کرتا تھا۔ رات کو سوتے وقت وہ دونوں اس کے بازو پر لیٹ کر کہانی سنتے ہوئے سو جاتے تھے اور وہ دیر تک جاگتا رہتا اور اپنے ذہن میں سارے اخراجات، پیسے، ارادے اور خواب ترتیب دیتا رہتا۔ گنتی پھر الٹی ہو جاتی۔ وہ پھر سے نئے حساب کتاب میں جت جاتا۔ اسے اپنے تعلیمی اخراجات کے لیے بہت تھوڑی رقم رکھنی ہوتی باقی اضافی اپنے لیے کوئی گنجائش نہ تھی۔ وہ تقدیر کے بنائے سیدھے راستے پر چلتا رہا۔ مگر آگے اس کے لیے مشکلات کا دور تھا۔ رنگین چکا چوند دنیا تھی، کالج کا دور اور لڑکوں کے...
ہ حسین ترین تھا مگر اس کے لیے ایک کڑا امتحان۔ زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز تھا جب اس کی نسبت اس کے ماموں زاد مبینہ کے ساتھ طے ہوئی۔ کہنے کو ایک اور نئی بات سوچنے کو ایک اور فکر۔ دیکھنے کو ایک اور خواب۔ جھیلنے کو ایک اور مصیبت۔ لوگ۔ لڑکے۔ سہیلیاں۔ کالج فرینڈز۔ باتیں، سرگوشیاں، خواب اور چھوٹی چھوٹی خواہشیں ایک طرف۔۔۔۔ اور دوسری طرف۔ گھر، دو بہن بھائی (بچے)، امی، کام کاج، ذمہ داریوں کا بوجھ، فکر، احساس، پڑھائی اور پل پل رنگ بدلتی زندگی۔ ایک فکر نہیں ہٹتی تو دوسری سر اٹھاتی۔ ایک امتحان ختم نہیں ہوا تو دوسرا شروع۔ ایک ضرورت پوری نہیں ہوئی تو سو ضرورتیں اور نکل آئیں، مگر ان سارے مسائل کے ہوتے ہوئے چند مسکراہٹیں تھیں ان بچوں کی، حوصلہ تھا۔ عزم تھا اور زندگی میں نیا آنے والا ایک شخص جو بالکل اجنبی تھا۔ جسے جاننا باقی تھا۔ گو کہ زندگی گزارنے کا کوئی ایک بہانہ نہیں تھا۔ سو بہانے تھے۔
وہ پہلی بار ملنے کے لیے آئی تھی اور اس کے پاس بولنے کے لیے جیسے کچھ تھا ہی نہیں، وہی مسلسل بولتی رہی تھی۔ " میری امی تمہیں اتنا پسند نہیں کرتیں ان کی نظر میں تم میرے معیار پر پورا نہیں اترتے۔ مگر میرے ابا تمہیں بہت پسند کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں تم سے زیادہ لائق فائق شاید ہی کوئی ہو اور میری نظر میں تم کیا ہو؟ کیا یہ نہیں پوچھو گے؟" اس نے نفی میں سر ہلا دیا بھول پن سے۔ "تم واقعی اتنے بھولے ہو یا ڈراما کر رہے ہو؟" " مجھے ڈراما کرنا نہیں آتا۔" اب کی بار وہ خفگی سے بولا۔ " تو پھر بولو نا جو تمہارے دل میں ہے میرے لیے اچھا برا جو بھی؟" "میرے دل میں کچھ نہیں ہے۔" اس نے صاف گوئی سے کام لیا۔ " تم مجھے پسند کرتے ہو یا ناپسند۔۔۔ یہی بتا دو۔" وہ آسان زبان پر اتر آئی۔ " نہ پسند، نہ ہی ناپسند۔" اس کا وہی انداز تھا۔ " تم میرے بارے میں کچھ تو سوچتے ہو گے نا!" وہ عاجز آ گئی۔ " کچھ بھی نہیں سوچتا۔۔۔۔" "کیا تم سوچتے ہی نہیں ہو سرے سے؟" " میں سوچتا ہوں اور بہت سی باتیں۔۔۔۔" "تو پھر وہی بتا دو۔۔۔۔۔" اس کی شکل دیکھنے والی تھی۔ " حرا کے لیے کتابیں خریدنی ہیں، آفاق کے لیے نئے کپڑے چاہئیں۔ کل ٹوٹل اتنا خرچ ہوا، امی کی دوائیاں لانی ہیں۔ فائنل امتحانات سر پہ کھڑے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب سنتے ہوئے آپ کو ذرا بھی مزا نہیں آئے گا۔" اس بار وہ خود کہتا ہوا مسکرایا۔ " چلو تمہیں یہ تو پتا ہے کہ یہ سب سنتے ہوئے مجھے ذرا مزا نہیں آئے گا۔" سیدھی اٹھ کر بیٹھ گئی تھی۔ "اچھا میں تمہیں کیسی لگتی ہوں؟" وہ سیدھی اٹھ کر بیٹھ گئی۔ " ٹھیک لگتی ہیں۔" " بس ٹھیک۔" اس کا منہ لٹک گیا " یونیورسٹی میں بہت لڑکے مجھ پہ مرتے ہیں۔ دیکھو میں اسمارٹ ہوں، پڑھا لکھا ذہین بندی ہوں۔ ایک خوش حال گھرانے سے تعلق ہے میرا، کیا تمہیں مجھ میں ایک بھی اچھائی نظر نہیں آتی؟" " آپ اپنی تعریف سننا چاہتے ہیں لڑکوں کی طرح۔"
" نہیں لڑکوں کی طرح نہیں۔ ہر انسان اپنی تعریف سننا چاہتا ہے۔" " اچھا چلو چھوڑو۔ میں تمہیں بتاؤں ہماری شادی کب ہو گی ؟“ وہ رکا۔ ”میری پڑھائی کے ڈھائی سال باقی ہیں، پھر میں جاب کروں گی اندازاً تین چار سال تو لگ جائیں گے۔ ابھی میں بائیس کی ہوں پھر چھبیس کی ہو جاؤں گی تم بھی انیس کے ہوگے کچھ بڑے لگنے لگو گے۔ پھر ہم شادی کریں گے ٹھیک ہے۔ چار سال لمبا عرصہ ہے نا!" وہ کافی افسوس سے یہ سب بتانے لگی۔
" مجھے ایف اے نہیں کرنا۔ مجھے ایم اے کرنا ہے اور کمیشن کا امتحان دینا ہے۔ میں بہت پڑھنا چاہتا ہوں۔" " چلو پھر تم پی ایچ ڈی کر لینا، بھلے جب تک میں بوڑھی ہی ہو جاؤں۔" " نہیں میں اس سے بھی زیادہ پڑھوں گا۔" وہ جان بوجھ کر مسکرایا۔ " تم بہت پیارے لگ رہے ہو۔" " میں اب چلتا ہوں بچے انتظار کر رہے ہوں گے۔ امی نے کھانا نہیں کھایا ہو گا۔" وہ فوراً اٹھ کھڑا ہوا اور بغیر کچھ سنے چل دیا۔
پہلی ملاقات کچھ اچھا تاثر نہ قائم کر سکی تھی۔ مگر جیسے جیسے وقت گزرا تھا، ان کے درمیان کا رشتہ بہت مضبوط اور پائیدار ہوتا جا رہا تھا۔ کالج کے لڑکے اسے سو مشورے دیتے تھے اور خود اس نے اپنے ہم عمر لڑکوں کو ایسا ہی پایا تھا۔ اس کے پڑوس کے لڑکے آئے دن رنگ گورا کرنے والی کریمیں فارمولے بنواتے۔ سج سنور کر باہر جاتے۔ شوخ چنچل ادائیں، ذومعنی جملے۔ اسے کبھی کبھار افسوس سا ہوتا وہ ان سب پر۔۔۔ مگر اسے اپنے کام سے کام تھا۔ اس کے پاس سوچنے کے لیے کئی باتیں تھیں۔ کئی مسئلے تھے۔ کالج سے یونیورسٹی کا سفر اور اس کی بڑھتی ہوئی بے شمار ذمہ داریاں۔
" مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے۔" وہ بہت دیر سے فائل ہاتھ میں لیے بیٹھی تھی۔ " کام کے متعلق تو ہم بات کر چکے ہیں سمیرا!" " نہیں کام سے ہٹ کر دراصل میری ابا اور بھائی آپ کے گھر آنا چاہتے ہیں۔ آپ کے بڑوں سے ملنے۔" یہ کہتے ہوئے اس کی نظریں نیچے تھیں۔ " میرے تو کوئی بڑے نہیں ہیں۔ " وہ اس کی بات کا مطلب سمجھ گیا تھا۔ " آپ کی بہن اور بھائی۔۔۔۔ بہن کا ایڈریس دے دیں۔ میں مل لوں گی۔" " میرا بھائی لاہور میں ہوتا ہے اور بہن بھی مجھ سے چھوٹی ہے آپ کو کیا بات کرنی ہے ان لوگوں سے؟ جو بات کرنا ہے مجھ سے کر لیں۔" "وہ بات یہ ہے کہ ۔" اس کے ہاتھ اب باقاعدہ کانپنے لگے تھے۔ " ٹائم ختم ہو رہا ہے، مجھے گھر کے لیے نکلنا ہے ۔ آپ سوچ لیں پھر بات کر لیجئے گا۔" وہ فوراً ہی اٹھا تھا سیٹ سے۔ ” سر! میں آپ سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔" وہ فٹ سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی اس کے اٹھتے ہی۔ "بہت برا مذاق ہے۔ " اسے برا لگا تھا۔ "مذاق نہیں ہے، حقیقت ہے۔" " آپ نارمل نہیں ہیں سمیرا! جاتے وقت ڈاکٹر کی طرف سے ہو جائیے گا۔
" میں ٹھیک ہوں۔ اگر آپ کو سوچنے کے لیے وقت چاہیے تو لے لیں۔" " آپ ٹھیک نہیں ہیں۔۔۔۔۔ جائیں آرام کریں۔ شاباش گھر جائیں۔" " سر! پلیز، میں سنجیدہ ہوں۔ " اس کی شکل رونکھی سی ہو گئی۔ " آپ کو شادی ہی کرنی ہے نا!" وہ دروازے کے پاس رک کر بولا۔ وہ اثبات میں سر ہلا رہی تھی۔ " اس شہر میں آپ کو اپنی عمر کے کئی لڑکے مل جائیں گے، میرے ساتھ آئندہ ایسا مذاق نہ کیجئے گا۔ " " مگر مجھے آپ۔۔۔۔۔" " کام۔۔۔۔ دفتر میں صرف کام ہوتا ہے اوکے!" وہ اس کی بات کاٹ کر آگے بڑھا۔ " میں آپ کے گھر آ جاؤں گی بات کرنے کے لیے۔ " " کوشش بھی مت کیجئے گا آنے کی، میں اکیلا رہتا ہوں۔" " اپنی امی کو بھیج دوں گی یا بھائی کو پلیز۔۔۔۔" " اس کی ضرورت نہیں ہے۔ میری طرف سے قطعی انکار ہے۔" وہ کہہ کر رکا نہیں تھا۔ " دماغ خراب ہے لوگوں کا۔ شادی کر لیں۔ پاگل لڑکی۔" وہ بڑبڑاتے ہوئے باہر نکل آیا اور گاڑی میں بیٹھا اور گاڑی اسٹارٹ کی۔ جب اسی ہوٹل کے سامنے سے گزرا تو عجیب سا احساس ہوا۔
ہوٹل کے باہر گاڑی کھڑی تھی۔ اس کے سامنے سے گزرتی ہوئی گاڑی دیکھ کر وہ گاڑی بھی اس کے پیچھے پیچھے گھر تک آئی تھی۔ گاڑی سے اترتے ہوئے گاڑی دیکھی تھی اسے لگ رہا تھا۔ عائشہ اس کے پیچھے پیچھے آ رہی ہو گی۔ مگر نہیں اس میں اتنی ہمت کہاں تھی۔ یہ وہی تھی جو اس کے پیچھے آئی تھی۔ اتنی ہمت اسی کی تھی۔
آفاق نے بورڈ میں نمایاں کامیابی حاصل کی تھی، حرا مناسب نمبروں سے پاس ہو گئی تھی، وہ بہت خوش تھا۔ اس نے پہلی مرتبہ مبینہ کو فون کیا اور بتایا وہ دونوں کے لیے تحفے لے آئی تھی، مبینہ ان کے ساتھ گھل مل گئی تھی، وہ گھر آتی تو دونوں اسے گھیر کر بیٹھ جاتے اور گھنٹوں باتیں کرتے رہتے تھے وہ دور بیٹھا مسکراتا رہتا، مبینہ بھی قہقہے لگا رہی ہوتی تو کبھی بری بری شکلیں بناتی۔ وہ ان تینوں کے چٹکلوں سے محظوظ ہوتا رہتا۔ فارغ اوقات میں وہ دونوں کو اپنے ساتھ گھمانے پھرانے لے جاتی وہ ہر طرح سے مطمئن اور خوش تھا۔ مبینہ کی تعلیم مکمل ہو چکی تھی اور وہ جاب کی تلاش میں تھی۔
وہ ہر ہفتے لمبی کال کر کے اسے جاب مل جانے کی دعا کے لیے کہتی، اسے ہر ہر بات بتاتی۔ بظاہر بے معنی، فضول سی باتیں تھیں جن میں وقت گزرنے کا پتا بھی نہیں چلتا تھا مگر لہجہ اور تعلق سب سے اہم تھا، وہ اسی تعلق میں بندھتا جا رہا تھا۔
مبینہ کو جاب مل گئی تھی اور اس نے شور مچایا ہوا تھا۔ اب اس کا آخری بہانہ بھی ختم ہو گیا تھا۔ مگر ان ہی دنوں امی کی طبیعت بہت خراب ہو گئی تھی اور کچھ دن بعد علالت کے دوران ان کا انتقال ہو گیا تھا۔ کچھ دن وہ بہت ڈسٹرب رہا بہت زیادہ، وہ جیسی بھی تھیں اس کی ماں تھیں اور ان دنوں وہ اس سے بہت باتیں کرتی تھیں۔ اسے لگا وہ اکیلا سا ہو گیا ہے، مگر وہی کام جھمیلے ذمہ داریاں تھیں جو اپنے پاس کھینچ لی تھیں۔ آفاق اور حرا کے اداس چہرے تھے جس کی وجہ سے اور بھی مضبوط بننا پڑا تھا۔
کچھ ماہ بعد پھر عائشہ کی طرف سے شادی کی رٹ شروع ہو گئی تھی۔ اس نے بڑی مشکل سے منا کر اس سے وقت لے لیا تھا اپنی تعلیم مکمل ہونے تک۔ وہ بہت خفا تھی مگر کچھ دن بعد اس کا رویہ کچھ نارمل ہو گیا تھا۔ اس کی ناراضی بہت لمبی چلتی تھی مگر جب مان جاتی تو اس سے اچھا کوئی اور نہ ہوتا۔ بات یہ نہ تھی وہ بہت عجیب تھی، اہم بات یہ تھی وہ خاندان کی ساری لڑکیوں سے اچھی تھی، شکل میں بھی، کردار میں بھی، حیثیت میں بھی، کیریئر میں بھی۔ وہ ہر طرح سے مطمئن تھا۔ اسے لگتا تھا کہ سب کچھ اسی طرح چلتا رہے گا ان دونوں کے درمیان کوئی ایسی دیوار حائل نہیں ہوگی وہ سب کچھ ٹھیک کر لے گا ۔ بس کچھ عرصہ، تھوڑا وقت۔
وہ اس کی زندگی کا سب سے خوب صورت دن تھا۔ ایسے یونیورسٹی کی طرف سے لیکچر شپ کی آفر آئی تھی۔ اس کی آنکھوں میں ڈھیر سارے آنسو تھے اس نے عائشہ کو سرپرائز دینے کے لیے بلایا۔ اسے پتا تھا وہ بہت خوش ہو گی ۔ وہ ٹھیک شام چار بجے پہنچ گئی تھی۔ حرا اور آفاق گھر پر نہیں تھے۔ آفاق، حرا کو فارم دلوانے کے لیے لے گیا تھا۔ وہ اس کے لیے بہت اچھی سی چائے اور گرما گرم سموسے لے کر آیا تھا اور ساتھ ہی یہ خوش خبری سنا ڈالی۔ عائشہ کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔
" تم خوش ہو نا عائشہ؟" " تو اب تم جاب کرو گی؟" اس نے چائے کا کپ میز پر رکھ دیا۔ " ہاں میں تو سمجھ رہا تھا جاب کے لیے مجھے بہت انتظار کرنا پڑے گا، بہت دھکے کھانے پڑیں گے۔ عائشہ آج میں کتنا خوش ہوں۔" " تمہیں شادی نہیں کرنی؟" وہ سپاٹ لہجے میں پوچھنے لگی۔ " شادی تو ہونی ہے ۔ جاب اور شادی الگ الگ باتیں ہیں۔" " الگ نہیں ہے کچھ بھی۔ تم یہ بتاؤ۔۔۔۔ تمہیں مجھ سے شادی کرنی ہے یا جاب کرنی ہے؟" اس کا لہجہ ویسا ہی تھا۔ " تم ایسا کیوں کہہ رہی ہو عائشہ؟" اسے یہ سب سننے کی امید نہیں تھی۔ " میں اسی ماہ شادی کرنا چاہ رہی تھی۔ میں نے امی سے بات کر لی تھی۔ میں نے ڈیٹ بھی سوچ لی تھی۔ میں تم سے یہی بات کرنے آئی تھی۔ کل مجھے کارڈز چھپوانے پریس جانا تھا۔ اس کے بعد مجھے تم سے کچھ مشورے کرنے تھے۔ پھر تمہیں شاپنگ کے لیے لے جانا تھا۔ تمہیں اپنے ٹرانسفر کا بتانا تھا۔ ٹھیک سولہ دن بعد میں ایک نئی زندگی شروع کرنے جا رہی تھی۔ میرے پاس کاموں کی فہرست تھی۔ مگر میں نے یہ سب ترتیب دے رکھا تھا میں بہت تھکی ہوئی تھی۔ مگر میں نے سوچا یہ کچھ وقت کی تھکن ہے۔ مگر مجھے ابھی تم نے بتایا کہ سب کچھ ویسا نہیں ہوتا جیسا ہم نے سوچا ہوتا ہے۔"
اس کا چہرہ بہت اترا ہوا تھا، تھکن زدہ سا۔ اس نے سسکتے ہوئے کرسی کی پشت سے ٹیک لگا لی تھی۔ وہ چھت کو تکنے لگا تھا، اس نے عمیر سے نظریں ہٹا لی تھیں۔ " عائشہ! تم نے جو سوچا ہے وہی ہو گا۔" وہ اٹھ کر اس سے کچھ فاصلے پر زمین پر بیٹھ گیا۔ اس کے ہاتھ جو اپنے گھٹنوں پر رکھے تھے، ان ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھ دیے۔ " کیا تم صرف چند منٹ خاموش ہو کر میری بات سن لو گی؟" اس کے چہرے پر مایوسی چھا گئی تھی۔ " عائشہ! میں بڑی مشکل سے گھر کے اخراجات پورے کر رہا تھا۔ اپنے دونوں بہن بھائی کی تعلیم کے لیے میں نے پہلے جو قرضہ لے رکھا ہے وہ بھی اتارنا ہے۔ میں پریشان تھا کہ یہ سب کیسے ہو گا۔" وہ سانس لینے کو رکا۔ اس کے ہاتھ اب بھی اس کے ہاتھوں کو جکڑے ہوئے تھے۔ اسے ڈر تھا وہ بات ختم کرے گی اور وہ یہاں سے اٹھ جائے گا، وہ اسے روک لینا چاہتا تھا۔
" تم نے کبھی مجھے اس قابل بھی نہیں سمجھا کہ مجھے کچھ بتاؤ۔" اس کا شکوہ بجا تھا اپنی جگہ۔ " میں نے کبھی اپنی پریشانیوں سے تمہیں پریشان کرنا نہیں چاہا۔" " تم نے کبھی مجھے اپنا ہی نہیں سمجھا۔ " اس نے آنکھیں بند کر لی تھیں، عمیر کھلی آنکھ سے اسے دیکھ رہا تھا۔ " کل رات میں نے رو رو کر اپنے اللہ سے دعا کی۔ پہلی مرتبہ میں نے اس سے کہا کہ میری ہمت جواب دے رہی ہے۔ پہلی مرتبہ کہا کہ میں تھک گیا ہوں۔ اس سے پہلے سوچتا تھا کہ میں کر لوں گا۔ میں سہہ لوں گا۔ صبح بھی میں بہت پریشان تھا جب پروفیسر صاحبہ نے مجھے بلایا تھا۔ وہاں جا کر یہ خوش خبری ملی۔ تم نہیں جانتیں یہ میرے لیے معجزہ تھا۔ دعا اتنی جلدی قبول ہو سکتی ہے؟ میں نے کبھی اپنی زندگی میں معجزوں کو ہوتے نہیں دیکھا تھا۔ میں نے سب سے پہلے تمہیں فون کیا۔ میں نے حرا اور آفاق کو بھی نہیں بتایا۔" " تم نے کبھی دعا میں مجھے نہیں مانگا اس لیے کہ میں تمہارے پاس تھا یا پھر اس لیے کہ تمہیں میری اس قدر ضرورت نہ تھی۔ یا پھر اس لیے کہ تمہیں میری قدر ہی نہیں۔ " اس نے آنکھیں کھول کر ایک لمحے کو اس کی طرف دیکھا۔ " مجھے تمہاری قدر ہے عائشہ۔ میں صرف تمہیں اتنا بتانا چاہ رہا تھا کہ مجھے اس جاب کی کسی قدر ضرورت ہے تم اس کے علاوہ جو کہو میں ماننے کے لیے تیار ہوں۔ میں شادی کر رہا ہوں تم سے اسی تاریخ کو بس ایک شرط ہے کہ میں یہ جاب کروں گا۔ اس لیے کہ مجھے اپنا قرضہ اتارنا ہے۔" " میں تمہارا قرضہ اتار دوں گی " " یہ قرضہ میں ہی اتاروں گا، میرے بہن بھائی تمہاری ذمہ داری نہیں ہیں عائشہ!" " تم نے ان کے لیے بہت کچھ کیا ہے ۔ یہ انہیں خود کرنا چاہیے ۔ سوچنا چاہیے کہ تمہیں اپنا گھر بسانا ہے۔ بہرحال میں دعویٰ نہیں کرتی مگر جہاں تک ہو سکا ان کی مدد کر دوں گی ۔ میرے کچھ قریبی دوست بھی اس سلسلہ میں مدد کر سکتے ہیں۔" " بس کرو عائشہ!" اس کے ہاتھ کھسک سے گئے۔ "انہیں کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ میں مرا نہیں ہوں ۔ وہ کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائیں گے۔" وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا تھا۔ " تمہیں انتخاب کرنا ہو گا ۔ وہ اور جاب، میں اور میری محبت۔" " عائشہ! میرے لیے مشکلات مت بڑھاؤ۔ میں نے پالا ہے انہیں، میں ہی ان کا سب کچھ ہوں۔" " اور میں کہیں نہیں ہوں، کچھ نہیں ہوں۔ " وہ بپھر گئی تھی۔ " تم جو سوچتی ہو وہ صحیح نہیں ہے۔ ایسا مت کرو عائشہ! فضول کی ضد کی خاطر ہمارے رشتے کو کمزور مت کرو۔" " ضد بھی تم نے کی ہے اور کمزور بھی تم نے بنایا اس رشتے کو، مجھے کل تک تمہارا آخری جواب چاہیے۔۔۔۔۔ ہاں یا نا۔ " " عائشہ! میری بات تو سنو۔۔۔۔" " کوئی فائدہ نہیں ہے عمیر! مجھے بس اپنا آخری جواب دے دینا ۔ ہو گا وہی جو تم چاہو گے۔ مجھے کوئی وضاحت نہیں چاہیے۔ بہت انتظار کیا ہے میں نے۔ ہر ضد مانی ہے تمہاری ہر بات۔ اگر ہم اس قدر متضاد ہیں تو کوئی ایک فیصلہ ہو جانا چاہیے۔ اور فیصلے کا حق تمہیں دیتی ہوں کل شام تک ۔" کیسی سنگ دلی سے وہ کہہ کر چلی گئی۔ حالانکہ اس کی آنکھیں اس کا ساتھ نہیں دے رہی تھیں۔
اور آنکھیں تو اس کی بھی نم تھیں ۔ وہ کھلے دروازے بند کرتی چلی گئی۔ کل شام تک کا وقت دے کر باقی کا وقت اس پر قیامت کی طرح گزرا تھا۔ اس نے سمجھا تھا عائشہ کچھ دنوں میں ٹھیک ہو جائے گی ۔ وہ مان لے گی اس کی ہر بات، اس کا غصہ وقتی ہے وہ اسے منا لے گی ۔ مگر یہ صرف اس کی سوچ تھی ٹھیک اسی تاریخ پر عائشہ کی شادی ہوئی مگر اس کے ساتھ نہیں کسی اور کے ساتھ۔ اس کے باپ کی مرضی سے عائشہ شادی کے فوراً بعد اس شہر سے کہیں اور چلی گئی جہاں اس کا ٹرانسفر ہوا تھا۔ زندگی نے اسے جو دکھ دیے تھے یہ دکھ سب سے بڑا تھا پھر بھی سہہ ہی لیا۔ اس سب سے یہ ہوا کہ اس کا عواتوں کے اوپر سے اعتماد اٹھ گیا تھا اور وہ اب بھی کولہو کے بیل کی طرح کام کرتا تھا۔ اس کی توجہ کا واحد مرکز وہی تھے جن کی خاطر اب تک وہ جیتا آ رہا تھا۔
آفاق بہت محنت سے پڑھ رہا تھا۔ جبکہ حرا نے ایف اے بمشکل پاس کیا اور گھر بیٹھ گئی۔ ان ہی دنوں حرا کے دوست کے بھائی کا رشتہ آیا تھا اس کے لیے، لڑکے والوں کا اصرار دیکھ کر اس نے ہامی بھرلی اور شادی ہو گئی۔ حرا بہت خوش نظر آ رہی تھی، شکر اطمینان تھا کہ اس کی شادی اس کی مرضی سے ہوئی ہے۔ اب آفاق کا مسئلہ تھا اس نے بھی یونیورسٹی کی ایک لڑکی پسند کرلی تھی۔ آفاق کے کہنے پر وہ اس کا رشتہ لے کر گیا ۔ پہلی ملاقات میں تو علینہ کی امی نے بہت عجیب باتیں کی تھیں اسے بہت دکھ ہوا مگر آفاق کی خاطر اسے بار بار وہاں جانا پڑا۔ ان کی شرط تھی کہ وہ شادی سے پہلے شہر میں کسی اچھے سے علاقے میں شفٹ ہوں۔ یہ اس کے لیے بہت مشکل تھا مگر آفاق کی ضد پر اسے گھر تبدیل کرنا پڑا۔ شادی آفاق کی تعلیم مکمل ہو جانے کے بعد ہوئی تھی۔ علینہ کی امی کی سفارش پر علینہ کے بھائی نے آفاق کے دفتر میں جاب دے دی۔ ان دونوں نے مل کر چھوٹا سا بزنس بھی شروع کر دیا تھا۔ بزنس اچھا چل رہا تھا حالات پہلے سے بہت بہتر تھے۔ اس نے ایک فلیٹ بھی لے لیا تھا اور اسے کرائے پر چڑھا دیا۔ آفاق شادی کے بعد خوش تھا۔ اس نے علینہ کو ہر طرح سے خوش رکھنے کی کوشش کی تھی۔ نہ اس پہ کوئی گھر کی ذمہ داری ڈالی نہ ہی کوئی دباؤ۔ دو سالوں بعد جب اس کے ہاں خوش خبری آئی تو اس نے ہتھیلی کا چھالا بنا کر رکھا اسے، پھر علی کے بعد اس نے کئی کام اپنے ذمے لے لیے۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ مگر اچانک علینہ کو جانے کیا ہوا سب کچھ بگڑتا گیا پتا نہیں کیوں وہ اس کا صرف ہونا بھی برداشت نہیں کر پائی تھی۔
" کیوں آئے ہو یہاں تم؟" اسے نہ چاہتے ہوئے بھی دروازہ کھولنا ہی پڑا تھا کہ وہ مسلسل باہر کھڑی بیل پہ بیل بجا رہی تھی۔ وہ اندر آ گئی۔ " تمہیں اتنے عرصے بعد دیکھا تو رہا نہ گیا۔ بہت ڈھونڈا تھا تمہیں ۔ تمہیں پتا ہے میں کئی سالوں سے تم سے ملنے کی دعا کرتا رہا ہوں۔" وہ اس کے پیچھے آتے ہوئے بول رہا تھا۔ " بیٹھ جاؤ۔" وہ دروازہ بند کر کے اندر آ گیا۔
"شکریہ۔۔۔۔ عمیر جو ہوا بہت غلط ہوا۔" اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیسے وضاحت دے۔ " کیا غلط ہوا؟ میرا تم پر بھروسا کرنا؟ تم سے درخواست کرنا؟ یا پھر تمہارا اچانک دھوکا دینا؟" وہ اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ " میں نے ایسا کبھی سوچا تک نہ تھا کہ۔۔۔۔" " جو کچھ سوچا نہیں وہ کر دکھایا۔۔۔۔ بہت خوب!" " کاش تم میری بات مان لیتے یا پھر کاش میں ضد نہ کرتی۔" " تمہارا کیا بگڑا ہے عائشہ یہ تو بتاؤ۔ شادی ہو گئی بچے بھی ہوں گے؟" " ہاں۔ ایک بیٹا آٹھ سال کا۔ بیٹی نو دس سال کی ہے۔" " مکمل فیملی۔ نوکری، پیسہ، بچے کیا کچھ رہتا ہے۔۔۔۔؟" " کچھ اب بھی رہتا ہے عمیر! دوستی، بھروسا، محبت، پہلی محبت جو کبھی بھلائی نہیں جاتی۔" " اچھا ڈراما ہے۔" " کیا تم نہیں جانتے کہ میں تم سے کتنی محبت کرتی تھی؟" " بس کر دو عائشہ! تب میں اور اب میں بہت فرق ہے۔ اب ہم بڑے ہو گئے ہیں ۔ تم دو بچوں کی ماں بن چکی ہو اب ایسی باتیں سوٹ نہیں کرتیں تم پر۔" " اڑا لو مذاق۔۔۔۔ حق ہے تمہیں-" وہ پھیکی مسکرائی۔ " تمہیں مجھ سے کیا بات کرنی تھی؟" وہ چاہ رہا تھا وہ بات کر کے جلدی سے جائے۔ " معافی مانگنا چاہتی تھی تم سے۔۔۔۔ تمہیں دکھ دیا میں نے۔" " کر دیا معاف اب تم جا سکتی ہو۔" لہجہ رکھائی لیے ہوئے تھا۔ " اتنی آسانی سے؟ میں تو سمجھ رہا تھا تم مجھ سے لڑو گے۔ مجھے برا بھلا کہو گے کچھ تو کہو تاکہ میرا دل بھی ہلکا ہو۔" " اس سب کا کوئی فائدہ نہیں ہے اب۔۔۔۔ میرے کچھ بھی کہنے سے وہ مشکل وقت واپس نہیں آئے گا نہ آسان ہو گا۔" " مجھے احساس ہے عمیر! اسی لیے یہ بے چینی مجھے مکمل خوش ہونے نہیں دیتی نہ سکون سے رہ پاتی ہوں۔" " میں بہت خوش ہوں اب تم سکون سے رہنا۔۔۔ اب تم جاؤ۔" " بار بار جانے کو کہہ رہی ہو ۔ کیا چائے بھی نہیں پلاؤ گی مجھے؟" " آخری بار میں نے چائے پلانی چاہی تھی وہ کپ جو ویسا کا ویسا پڑا رہ گیا تھا۔" " مجھے اس کپ کی اب ضرورت ہے۔" " تمہارے شوہر کو چائے بنانا نہیں آتی۔۔۔۔۔؟" وہ اٹھی تھی۔ " وہ باتیں بنا لیتا ہے، اتنا کافی ہے۔" وہ ہنسی تھی اس کی بات پر۔ " بیویاں کبھی شوہروں سے خوش نہیں ہوتیں۔" " شوہر بھی کبھی بیویوں سے خوش نہیں ہوتے۔" " میں بالکل بھی نہیں چاہوں گا کہ تم اپنے شوہر کی برائیاں کرو اور میں سنوں۔" وہ کچن میں آ گیا تھا۔ " اور لوگ کہاں ہیں ؟" وہ باہر آتے ہوئے اردگرد دیکھنے لگا اور اس کے پیچھے کچن میں آیا۔ " کون لوگ ؟" وہ چائے کے لیے پانی رکھنے لگا۔ " آفاق، حرا، شادی ہوئی ان میں سے کسی کی؟" " حرا کی ایف اے کے فوراً بعد شادی ہو گئی تھی، دو بچے ہیں اس کے، آفاق کی ایک بیٹی ہے دو سال کی ہو گی اس ماہ۔" " تمہارے ساتھ نہیں رہتے۔ کہاں ہیں؟" "اپنے اپنے گھر میں ہوتے ہیں۔ حرا لاہور میں ہے اور آفاق اسی شہر میں۔" " تم آفاق کے ساتھ کیوں نہیں رہتے؟"
" میں ان کی فیملی میں مخل ہونا نہیں چاہتا۔" " یہ تو کوئی بات نہیں ہے ۔ کیا اس کے شوہر کو اعتراض ہے؟" " تم ایسا کیسے کہہ سکتے ہو؟" " اس لیے کہ میرے شوہر کو بھی میری امی کے ساتھ رہنے پر اعتراض ہے۔" " میں باپ نہیں ہوں ان لوگوں کا۔" ”ہاں تب ہی تم نے اتنی قربانیاں دیں ان کے لیے۔ " " میں نے اپنا فرض نبھایا تھا۔" " اور جب ان کے فرض نبھانے کا ٹائم آیا تو۔۔۔۔ " " اپنی باری پر کون پیش ہوتا ہے۔ تم بھی تو چلی گئی تھیں۔" اس نے چائے کپ میں ڈال کر اسے پیش کی۔ " تمہارے فریج میں کوئی کھانے کی چیز نہیں، میں صبح سے بھوکا ہوں۔" اس نے خود ہی فریج کھول لیا تھا اور دیکھنے لگا۔ پھر ایک سیب صاف کر کے کھانے لگا۔ وہ اس کی بے تکلفی پر حیران تھا۔ " ایک بات پوچھوں عمیر! شادی کیوں نہیں کی؟" " تمہارے بعد کسی سے محبت ہی نہیں ہوئی۔ کوئی اچھا ہی نہیں لگا۔ یہی سننا چاہتی ہو نا ۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہے۔ تمہارے دھوکے کے بعد کسی عورت پر اعتبار نہیں آیا۔ کئی رشتے آئیں۔ کئی لوگ۔ آج صبح بھی میرے ایک کولیگ نے مجھے پروپوز کیا ہے۔ " اس کے ہونٹوں پر عجیب تھکی تھکی سی مسکراہٹ تھی۔ " تو کر لو نا شادی؟" وہ کھاتے کھاتے رکی۔ اس بار وہ صرف مسکرا کر رہ گیا۔ " کب کر رہے ہو پھر شادی؟" " سوچنے کے لیے وقت مانگا ہے۔" اس نے صاف جھوٹ بول دیا۔ " اچھی بات ہے زیادہ دیر مت لگانا۔" وہ مسکرا کر چائے کے گھونٹ لینے لگی۔ " بلانا ضرور۔۔۔۔" اس نے چند منٹ میں کپ خالی کر دیا۔ " ضرور بلاؤں گی ۔" وہ اس کے ساتھ کچن سے باہر آیا تھا۔ " اپنے بچوں کو میرا پیار دینا۔ اللہ حافظ۔" " میں پھر آ سکتا ہوں؟" عجیب بات تھی، وہ پوچھ رہی تھی جبکہ اسے اچھی طرح اندازہ تھا کہ وہ اب یہاں نہیں آ سکتی تھی۔ ”عمیر اپنا خیال رکھنا۔ ایک بات کہوں۔ آفاق نے اچھا نہیں کیا۔" " پتا نہیں کس نے اچھا نہیں کیا اور سنو یہاں مت آنا ۔ میں نہیں چاہتی کوئی یہاں فضول باتیں کرے میرے لیے۔" " سمجھ گئی ۔ بات تو ہو سکتی ہے نا۔ میرا کارڈ رکھ لو۔" اس نے کارڈ جیب سے نکال کر تھمایا جو عمیر نے لاپروائی سے میز پر پھینک دیا اس کے سامنے ہی۔ " تمہارا نمبر۔" اس کے چہرے پر سایہ سا لہرا گیا۔ اس نے پرس سے کارڈ نکال کر پکڑا دیا۔ حالانکہ اسے پتا تھا اس نے کبھی فون نہیں کرنا۔
اس کے باہر نکلتے ہی اس نے دروازہ بند کیا اور لمبی سانس لی۔ تنہائی عذاب ہوتی ہے۔ کسی کی کہی ہوئی بات یاد آئی تو مسکراہٹ سمٹ گئی۔ اس نے رسٹ واچ اتار کر ڈریسنگ پر رکھی، کوٹ اتار کر پھینکا ہے دوپٹہ بیڈ پر ڈالا اور بال باندھنے لگا، چہرے پر سالوں کی تھکن چھائی ہوئی تھی۔ اس نے اپنے چہرے سے نظریں ہٹا لیں اور کھلی دراز میں کچھ ٹٹولنے لگا۔ کھویا کیا تھا؟ شاید کچھ بھی نہیں یا پھر شاید بہت کچھ۔ " بھائی! رکیں بھائی! مجھے ذرا آپ سے بات کرنی ہے۔" وہ لاؤنج کے دروازے کے پاس کھڑا تھا جب وہ تیزی سے سیڑھیاں اترتی ہوئی نیچے آ رہی تھی۔ " بولو۔۔۔۔ کالج سے دیر ہو رہی ہے مجھے۔" اس نے گھڑی پر نگاہ ڈالی تو آدھا گھنٹہ پہلے ہی لیٹ تھا ۔
"آپ بیٹھ جائیں ذرا دو منٹ، میں آپ کو چھوڑ دوں گی ۔" وہ تیزی سے اترنے کی وجہ سے ہانپ رہی تھی بات کرتے ہوئے۔ "خیریت ہے نا۔۔۔۔ چلو تو پھر گاڑی میں بات کر لیتے ہیں۔" اس کی عجلت اور فکرمندی سے اسے لگ رہا تھا کوئی کاروباری مسئلہ ہو گا۔ "ڈرائیور کے سامنے میں پرسنل میٹر تو ڈسکس نہیں کر سکتی نا ۔۔۔۔۔ آپ بیٹھ جائیں بس پانچ منٹ پھر شام میں مجھے علینہ کو باہر لے کر جانا ہو گا وہ خفا ہے مجھ سے۔ " وہ کہتے ہوئے صوفے کی طرف بڑھی۔ "کیوں وہ کیوں خفا ہے ؟" وہ کچھ نہ سمجھتے ہوئے بیٹھ گیا۔ "میں بہت دنوں سے اسے لے جانے کا کہہ رہی ہوں اس کے ابا کے پاس مگر وقت نہیں ملتا، اسے ٹائم نہیں دے پاتی میں۔" اس کا لہجہ عجیب تھا۔ "بات کیا کرنی ہے بتاؤ۔" "بھائی۔۔۔۔۔ وہ بات یہ ہے کہ دیکھیں میری پوری بات سنیے گا۔" "تمہیں اگر کہنے میں اتنی دیر لگے گی تو ہم رات کو بات کر سکتے ہیں۔" "نہیں۔ اچھا سنیں، آپ کی علینہ سے کوئی بات ہوئی ہے؟" "علینہ سے۔۔۔۔ کس قسم کی بات؟" "دیکھیے بھائی! وہ شاید جا رہی تھی اپنے ابا سے ملنے اور آپ نے اسے منع کر دیا ۔ آپ نے کیوں ایسا کیا؟" "میں کیوں اسے منع کروں گا اور میرے منع کرنے پر اسے کون سا رک جانا ہے۔ میں تو کہہ رہا تھا کہ تمہیں بتا کر جائے یا پوچھ کر، تم گھر پہ جو نہیں تھے، پھر علی کی طبیعت خراب تھی میں نے کہا رات کو باہر نکلو گی تو بچے کو ٹھنڈ لگ جائے گی احتیاط کرے۔ اس نے تم سے کہا کہ میں نے منع کیا ہے؟" اسے تعجب ہو رہا تھا۔ "اس نے تو اور بھی بہت کچھ کہا ہے مجھے۔" "مثلاً؟ " وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا تھا۔ "مثلاً یہ کہ آپ اسے ہر چھوٹی بڑی بات پہ ٹوکتے ہیں، روکتے ہیں، ہر چیز میں دخل اندازی کرتی ہیں، وہ ڈسٹرب ہوتی ہے بھائی۔۔۔۔ وہ ایسے ماحول سے نہیں آیا جہاں گھر کے فرد ایک دوسرے کے مسائل اور پرائیویسی میں دخل دیتے ہوں۔ مڈل کلاس لڑکوں کی طرح ہر کام پوچھ کر کرنے کی عادت نہیں ہے اسے۔ " "اگر نہیں ہے تو اس نے ایک مڈل کلاس لڑکی سے شادی کیوں کی؟" "آپ کو ایسا نہیں کہنا چاہیے۔" "کیوں نہیں کہنا چاہیے ۔۔۔۔۔ ہم مڈل کلاس سے ہی تو تعلق رکھتے ہیں میری بہن! یہ بات الگ ہے کہ اب ہماری کلاس بدل رہی ہے۔ بہر حال میں کسی کلاس ولاس کو نہیں مانتا میں صرف رولز اور اقدار کو مانتا ہوں۔ تم نے کلاس کی بات کی تو میں نے تمہیں تمہاری زبان میں جواب دے دیا۔ بہرحال اب میں چلتا ہوں تم نے ایک بیکار بحث کے لیے میرا وقت خراب کر دیا۔ آج میری میٹنگ تھی ضروری۔۔۔۔" "میری ایک بات سن لیں بھائی! آپ پلیز اس کے کسی معاملے میں مت بولا کریں، نہ ٹوکا کریں وہ جہاں چاہے آئے جائے یا کسی کو بلائے یا کچھ پکائے کھائے۔۔۔۔ کچھ بھی ہو یہ اس کا اپنا گھر ہے۔ اس کے شوہر کا گھر ہے اسے پورا حق ہے اپنی مرضی سے جینے کا۔"
Post a Comment for "ایک اجنبی ملاقات-1"