"میں نے کب کہا کہ یہ میرا گھر ہے۔۔۔۔۔ یہ اس کے شوہر کا گھر ہے اور اس کا گھر ہے۔ " اسے اس کا یہ ایک جملہ بہت برا لگا تھا۔ "مجھے پتا ہے آپ ہر بات کا الٹا مطلب لیتی ہیں۔۔۔۔۔ مگر پلیز میں آپ کو کہہ رہا ہوں کہ اسے اپنی مرضی ہے یہاں رہنے دیں میرا گھر ان باتوں کی وجہ سے ٹوٹے یہ میں نہیں چاہتی۔" "کس قدر فضول اور جاہلانہ بات کی ہے تم نے بالکل اپنے شوہر کی طرح۔۔۔۔ مجھے نہیں اندازہ تھا کہ تم ایسی ہلکی بات کرو گی۔" وہ بے دلی سے اٹھی اس کے تیور دیکھتے ہوئے۔ "آپ نے مجھے مجبور کر دیا ہے بات کرنے پر۔۔۔۔ میں چاہتی ہوں آئندہ آپ اسے شکایت کا موقع نہ دیں کہ مجھے آپ سے ایسی کوئی بات نہ کرنی پڑے جس پر آپ کو افسوس ہو اور بعد میں مجھے بھی ہو ۔ " وہ کافی سخت لہجے میں کہتی ہوئی اس کے ساتھ ہی باہر آئی تھی۔
"چلیں بیٹھ جائیں، میں چھوڑ دوں گی۔" اس کا لہجہ اب بھی ویسا تھا۔ "بہت شکریہ چلی جاؤں گی میں ٹیکسی سے۔" "روز ٹیکسی سے جاتے ہیں کیا؟" وہ طنز پہ طنز کر رہی تھی۔ "اب جایا کروں گا۔" وہ گاڑی کے پاس سے گزر کر آگے بڑھا۔ "میں کہہ رہی ہوں بیٹھ جائیں۔" وہ زور سے حکمیہ لہجے میں بولی تھی۔ "اس لہجے میں اپنے شوہر سے بات کر کے دیکھ لینا۔ جواب مل جائے گا۔ " وہ کہتا ہوا تیز تیز قدم اٹھاتا وہاں سے ہٹ گیا۔ "شوق سے دھکے کھائیے۔" وہ با آواز بلند کہتی ہوئی بیٹھ گئی، ڈرائیور حیرت سے اس کے لہجے اور پھر بات سن رہا تھا۔ "جانا نہیں ہے کیا؟" وہ ڈرائیور کو گھورنے لگی۔ "جی بیٹی! چلنا ہے۔" انور بابا نے بے بسی سے گاڑی اسٹارٹ کی۔ آج پہلی مرتبہ اس نے آفاق کا یہ روپ دیکھا تھا۔ اس لیے حیرت زدہ تھا (یہاں آفاق کے بجائے عمیر ہونا چاہیے تھا، لیکن کہانی کے تسلسل کے لیے آفاق ہی رکھا گیا ہے تاکہ پتہ چلے کہ یہ اس کا بھائی ہے)۔
آج وہ دیر تک فٹ پاتھ پر کھڑا رہا۔۔۔۔ جیسے کبھی کچھ سال پہلے وہ کھڑا ہوتا تھا ۔ تب تو اس نے سوچا تھا کہ اب اسے فٹ پاتھ پر کھڑا ہونا نہیں پڑے گا کچھ سالوں بعد۔۔۔۔۔ اسے یاد تھا ایک دفعہ اس نے اپنی گود میں سر رکھ کر لیٹے ہوئے چودہ سالہ آفاق سے کہا تھا۔ "تم پڑھ لو، تم بڑے ہو جاؤ پھر ہماری ساری پریشانیاں ختم ہو جائیں گی۔ پھر مجھے دیر تک فٹ پاتھ یا اسٹاپ پر کھڑے ہو کر انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ " اس کی آنکھیں گیلی ہو رہی تھیں ۔ دھندلی آنکھوں سے پاس سے گزرتی ہوئی آفاق کی گاڑی کو دیکھا جو تیزی سے گزر گئی تھی ۔ اس نے دھندلی آنکھوں کو صاف کیا اور سامنے سے آتی ٹیکسی کو روکا تھا۔
وہ شام میں آیا تو کافی دیر ہو چکی تھی اور وہ دونوں کہیں جا رہے تھے۔ "السلام علیکم!" اس نے خود ہی سلام میں پہل کی تھی۔ "وعلیکم السلام۔۔۔" وہ نظریں چرا رہی تھی۔ "کہیں جا رہے ہو تم لوگ؟" "آپ کو کوئی اعتراض ہے؟" علینہ ترش لہجے میں بولی۔ "مجھے کیوں اعتراض ہو گا۔ علی کا خیال رکھنا، باہر سردی بہت ہے۔" وہ نا چاہتے ہوئے کہنے سے رک نہ سکا کہ چھوٹے بچے کی فکر ہو رہی تھی۔ "میں باپ ہوں اس کا مجھ سے زیادہ اس کا خیال کون رکھ سکتا ہے۔" "مجھے اندازہ ہے۔ " اسے ہنسی آ گئی اس کی بات پر۔ "آپ چاہیں تو علی کو آپ کے پاس چھوڑ جاتے ہیں، اگر آپ ڈسٹرب نہ ہوں تو۔" آفاق علی کو گود میں لیے اس کی طرف بڑھا۔ "پہلے بھی اسے میرے پاس چھوڑ کر جاتے رہے ہو، ہمیشہ یہ پوچھتے ہو کیا؟"
" ہم رات دیر سے لوٹیں گی ۔ اسے سلا لیجئے گا۔" وہ اسے پکڑا کر کہنے لگی پھر اسے چلنے کا اشارہ کیا۔ علینہ کے چہرے پر ناگواری تھی۔ علی کو کندھے سے لگا کے وہ اپنے کمرے کی طرف جانے لگا۔ " مجھ سے پوچھنا تو گوارا کر لیا کرو۔ " علینہ کا لہجہ تیز تھا۔ " اس سے ہمیں آسانی ہوتی ہے ، ہم مرضی سے گھر آتے ہیں ۔ باہر پریشانی نہیں ہوتی ہے ۔ چھوٹا بچہ ہے یار!" ان دونوں کی آواز باآسانی سن سکتا تھا وہ، اس کے چہرے پر پھیکی سی مسکراہٹ آ کر رک گئی۔ ابا کے پاس چھوڑ دیتے ۔ وہ ہر دفعہ باہر جاتے ہوئے بحث کرتی تھیں۔ " ہاں تاکہ وہ ساری رات روتا رہے اور ان کے فون پہ فون آتے رہتے ۔ بھئی اپنے بچے کو لے جاؤ بہت پریشان کرتا ہے۔" " یہ کب کہا انہوں نے ۔ " اسے اچھا نہیں لگا تھا۔ " ہمیشہ کہتے ہیں۔ جیسے تمہیں تو پتا نہیں ہے۔ " وہ دروازہ کھول کر باہر آئی۔ " کیا ضرورت تھی ان کے سامنے کہنے کی۔" وہ باہر آ کر بگڑا۔ " کیا کہا ہے ۔" وہ کندھے اچکا کر آگے بڑھا گاڑی کی طرف۔ " تم ہمیشہ اپنی بہن کے سامنے میری انسلٹ کرنا ضروری کیوں سمجھتے ہو۔" وہ بیٹھتے ہوئے اسے گھورنے لگی۔ " یقین نہیں آ رہا ہے تم کہہ رہے ہو جس کی خاطر ہمیشہ ان کی انسلٹ کر دیتا ہوں ۔" وہ گاڑی گیٹ سے نکالنے لگا۔ " پتا ہے مجھے۔۔۔ صبح ان سے کی بات ؟" " تمہارے کہنے پر لڑ کر آیا تھا۔ اب تو خوش ہو جاؤ۔" اس کا لہجہ طنزیہ ہو گیا۔ " یقین تو نہیں آتا۔" اس نے کندھے اچکائے۔ " آج پہلی مرتبہ وہ پیدل گیا اسٹاپ تک، پتا نہیں کب گاڑی ملی ہو گی۔ آج بہت تیز ہو گیا تھا میں بات کرتے ہوئے، سوری کہنے کی بھی ہمت نہیں ہو رہی ۔" " ان کے رویے سے تو ایسا کچھ نہیں لگ رہا تھا۔" اسے یقین نہیں تھا۔ " یہی تو ایک باپ کی اعلیٰ ظرفی ہوتی ہے۔ " وہ پس پشت اس پر فخر کرتی تھی۔ " باپ اور بھائی میں بہت فرق ہے۔" اس نے فوراً ٹوکا تھا۔ " مجھے نہیں پتا باپ کیا ہوتا ہے ، میں نے باپ کے روپ میں بھی اسی صورت کو دیکھا اور بھائی کے روپ میں بھی۔" " ہم کوئی اور بات نہیں کر سکتے اس کے علاوہ۔ " وہ اس کی بات پر بے بسی سے مسکرا کر رہ گیا۔ " اب کیا ہے؟" وہ کافی دیر سے منہ پھلائے بیٹھا تھا چُپ۔ " تم کرو بات میں سن رہی ہوں ۔" "میں کروں گا تو تمہیں برا لگے گا اس لیے تم کرو۔" " طنز کرنا ضروری ہے؟" " یہ طنز نہیں ہے۔ ایک بات بتا دو علینہ! تم کب مجھ سے خوش ہو گی ۔ کب کہو گی کہ میں تمہارے لیے بہت کچھ کرتا ہوں۔ کب مانو گی ؟" " جب تم واقعی میرے لیے کچھ کرو گے اور پھر تمہیں میرا احساس ہو گا۔" " سچ کہتے ہیں ۔۔۔۔ سب سے جلدی خوش ہونے والی ہستی باپ کی ہے اور ہمیشہ نا خوش ہونے والی شوہر کی۔" " تمہاری یہی باتیں مجھے ناپسند ہیں۔" اس کا موڈ بری طرح سے خراب ہو گیا تھا۔ " سچ جو ہیں' بری تو لگیں گی ۔ سیانے کہتے ہیں سچ کا ٹیسٹ بہت کڑوا ہوتا ہے۔" وہ اتنی دیر میں پہلی مرتبہ ہنسا تھا اور اس کا موڈ اور خراب ہوا تھا۔ " اب موڈ ٹھیک کر لو ہم پہنچ گئے ہیں۔ " وہ کہتے ہوئے گاڑی پارک کرنے کی جگہ دیکھنے لگا۔ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا علینہ کے تیزی سے بدلتے رویے کی اصل وجہ کیا ہے۔ وہ لاکھ تجربہ کار سہی مگر اس کے اندر کی چال کو سمجھنا آسان نہیں تھا۔
وہ آخر یہ سب کر کے چاہتی کیا ہے؟ مختلف بہانے ڈھونڈ کر وہ بات کو بڑھا دیتی تھی۔ اس کا تو معمول تھا کالج کے بعد وہ گھر آ کر علی کو اپنے پاس لے آتا۔ اس کے ساتھ کھیلتا اسے کھلاتا پلاتا، اکثر وہ اس کے پاس سوجایا کرتا تھا اور ان دونوں کو کوئی پرواہ نہ ہوتی تھی علی جب سے پیدا ہوا تھا آدھے سے زیادہ علی کی ذمہ داری تھی اس کی تھی وہ دونوں اپنی زندگی میں خوش تھے وہ ان دونوں کے لیے کسی قسم کی ڈسٹربنس کا سبب نہ تھا بلکہ اس کے ہوتے ہوئے وہ ہر ذمہ داری سے بچے ہوئے تھے؛ گھر کیسے چلتا تھا، گھر کی صفائی ستھرائی، ملازموں سے کام لینا، سیلری دینا، کھانا پکانا، راشن کی خریداری سب کچھ اس کے ذمے تھا۔ آفاق دفتر کے بعد گھر آ کر سو جاتا اور شام میں یہ دونوں کہیں باہر چلے جاتے اور رات دیر تک واپسی ہوتی وہ اس گھر میں کئی سالوں سے اکیلا رہ رہا تھا جیسے…
اس نے کبھی کسی قسم کا کوئی شکوہ نہیں کیا تھا آفاق کے ساتھ۔
پھر اس کا صبح والا سلوک جس پر وہ ساری رات جاگ کر سوچتا رہا تھا۔ شام کو آفاق کا رویہ دیکھ کر اس کے دل سے کچھ بوجھ ہٹا ضرور تھا مگر علینہ کا دن بدن بدلاؤ اس کی سمجھ سے باہر تھا۔
کچھ دیر پہلے ہی وہ علی کو اس سے لے گیا، اس نے نوٹ کیا وہ اب علی کو اس کے پاس رہنے نہیں دیتی تھی حالانکہ وہ اسے ٹھیک طرح سے کھلاتا پلاتا بھی نہیں تھا۔ وہ کمزور ہو رہا تھا اور اسے فکر ہو رہی تھی۔ اس نے سوچا علینہ سے کوئی مناسب موقع دیکھ کر بات کر لے۔
شام میں جب علینہ کچن میں کھڑا تھا تو وہ اس کے پاس آیا۔ "کھانا تو میں بنا دیا ہے۔ تم کیا کر رہے ہو علینہ؟" اس نے نوٹ کیا تھا وہ جب فارغ ہو کر کچن سے جاتی تھی تو تب وہ کچن میں آتی تھی۔ اس کی موجودگی میں نہ لاؤنج میں بیٹھتی تھی نہ کچن میں نہ باہر۔ جہاں وہ ہوتا علینہ وہاں سے کھسک لیتی۔ اسے اس کی یہ بچگانہ حرکتیں سخت زہر لگ رہی تھیں۔ اب بھی اس کی بات کا جواب دیے بغیر وہ کام کر رہا تھا۔ "میں پوچھ رہا ہوں تم کیوں کھانا بنا رہے ہو۔ میں نے بریانی بنانی ہے آج تم لوگوں کے لیے۔" "بہت شکریہ آپ کا۔۔۔ آئندہ یہ تکلف کرنے کی ضرورت نہیں ہے میں اپنے لیے خود بناؤں گا اب۔" "اچھا۔۔۔۔۔ علی کہاں ہے، اس نے کچھ کھایا ہے یا نہیں۔" "اس کے بارے میں فکرمند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے آپ کو۔ میں اس کا باپ ہوں۔ اس کے کھانے پینے کا خیال رکھ سکتا ہوں۔" "تم کہنا کیا چاہتی ہو علینہ؟" "جو آپ سمجھنا نہیں چاہتے۔" "دیکھو اگر تمہیں مجھ سے کوئی شکایت ہے تو۔۔۔۔" "کوئی شکایت نہیں ہے۔" اس نے تیزی سے بات کاٹتے ہوئے اس کا ہاتھ جھٹکا۔ "تو پھر تم یہ سب کیوں کر رہی ہو؟ "اس لیے کہ اب آپ ہماری جان چھوڑیں اور ہمیں سکون سے جینے دیں۔" "کیا چھوڑ دوں میں؟" وہ افسوس سے اسے دیکھنے لگا۔ "میرے شوہر کو چھوڑ دیں ۔ مت بھرا کریں اس کے کان۔ زندگی زہر کر دی ہے آپ نے میری، سہہ سہہ کر تھک گئی ہوں میں اس کا تلخ رویہ، اس کی باتیں، اس کی ڈانٹ۔" "وہ تمہیں ڈانٹتی ہے۔۔۔۔ میں بات کروں گا اس سے۔"
آپ کی درخواست کے مطابق، دیے گئے متن میں کرداروں کی تبدیلی کی گئی ہے تاکہ پوری کہانی میں ایک ہی طرز کے نام استعمال ہوں اور تمام تر تذکیر و تانیث کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔ اب مرکزی کردار عمیر اور اس کی ساتھی عائشہ ہی رہیں گی۔
" کوئی ضرورت نہیں ہے، کہہ رہا ہوں نا ہمیں جینے دیں، کل کو اگر میرا گھر ٹوٹا تو اس کی وجہ آپ ہوں گی ۔" " کیا کہہ رہے ہو تم علینہ! میں کیوں ایسا چاہوں گا؟ میں نے تو ہمیشہ تمہیں سپورٹ کیا ہے اس کے سامنے۔ وہ اگر تمہارے ساتھ نا انصافی کر رہی ہے تو میں بات کروں گا۔" " ہاں تاکہ وہ مزید مجھے ذلیل کرے ۔ یہی چاہتے ہیں نا آپ۔" " میں ایسا کیوں چاہوں گا ۔ تم کیوں ایسا سوچ رہے ہو ۔" " اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں یہ گھر چھوڑ کر نہ جاؤں تو خدا کے لیے آفاق سے کچھ مت کہیں اور نہ مجھ سے بات کریں۔ میں مزید کسی بحث میں پڑنا نہیں چاہتا۔ اب آپ یہاں سے جائیں گی یا میں یہاں سے چلا جاؤں۔" وہ خاموشی سے وہاں سے نکل آیا۔۔۔۔ اس سے کچھ بھی کہنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔
رات میں آفاق اسے ملا تھا لاؤنج میں ٹہلتے ہوئے ۔ " تم جاگ رہی ہو آفاق! اسے نیند نہیں آ رہی تھی، روز علی کو ساتھ سلا کر سوتا تھا ۔" " جی آپ بھی جاگ رہے ہیں ۔" " ہاں۔۔۔۔ وہ علی سو گیا کیا ۔" " پتا نہیں، رو رہا تھا، بہت چڑچڑا ہو رہا ہے بہت دنوں سے۔" " ٹھیک طرح سے کھانا نہیں کھائے گا تو چڑچڑا تو ہو گا نا۔" " آپ کہنا چاہ رہے ہیں وہ اسے کچھ نہیں کھلاتی۔ میرے سامنے سیریلیک کھلانے کی کوشش کی وہ کھاتا ہی نہیں۔" " ضروری نہیں وہ سیریلیک نہ کھائے تو اسے کچھ نہ کھلایا جائے۔ فروٹ کھلاؤ اسے، کیلا تو شوق سے کھاتا ہے وہ۔ اب دو سال کا ہونے کو آیا ہے۔ میں فش بوائل کر کے کھلاتا تھا تو کھا لیتا تھا۔ چاولوں کی کھیر بھی شوق سے کھاتا ہے۔ بچے کو مختلف خوراک دی جاتی ہیں اگر وہ ایک چیز سے چڑ جائے تو۔" " اب یہ سب میں تو نہیں کر سکتی ۔" وہ بیزار سی تھی۔ " میں کرتا ہوں ۔ مگر وہ بہت دنوں سے علی کو میرے پاس نہیں چھوڑ رہی حالانکہ وہ دور سے دیکھ کر روتا ہے۔ اشارے کرتا ہے، بلاتا ہے مجھے۔" "آپ کے پاس نہ چھوڑنے کی اس کے پاس کوئی وجہ ہو گی نا۔ وہ کہتی ہے آپ اسے بڑوں کے کھانے کھلاتی ہیں ۔ وہ اسی لیے نمکین چیزیں پسند کرتا ہے۔ کوئی چیز ڈھنگ سے نہیں کھاتا۔" " یہ بچے کی فطرت ہوتی ہے کہ وہ نمکین چیزیں زیادہ پسند کرتا ہے۔ تم بھی ایسے تھے دو بچوں کو پال چکا ہوں میں۔" " آپ اس سے بھی یہی کہتی ہیں۔" " کیا کہتی ہوں میں اسے۔" وہ حیران رہ گیا۔ " مجھے نہیں پتا آپ کو پتا ہو گا۔ بہرحال میں بیزار ہو گئی ہوں اس صورتحال سے ایک طرف آپ ہیں دوسری طرف وہ - میں جاؤں تو کہاں جاؤں۔" " میں نے تو تمہیں کچھ نہیں کہا آفاق۔" " یہ سب جو آپ کہہ رہی تھیں۔۔۔۔۔ وہ یہ کرتی ہے، وہ یہ نہیں کرتی۔" " میں نے تو صرف علی کی بات کی تھی۔" " تو میں بھی علی کی ہی بات کر رہا ہوں ۔ دیکھئے وہ اس کی ماں ہے جو کرتی ہے کرنے دیں ۔ آپ ایک ماں سے اس کی اولاد نہیں دور کر سکتے۔ آپ جو سوچ رہی ہیں وہ سب غلط ہے۔ ماں کیا ہوتی ہے۔ آپ کو کیا نہیں پتا۔" " مجھے پتا ہے ماں کیا ہوتی ہے۔ تمہیں نہیں پتا کہ ماں کیا ہوتی ہے نہ ہی اسے پتا ہے۔"
ٹھیک ہے۔ مجھے نہیں پتا نہ ہی اسے پتا ہے۔ آپ کو پتا ہے تو آپ ہی سمجھ داری سے کام لیں ۔ چھوڑ دیں اسے پلیز ورنہ وہ چلی جائے گی یہاں سے ۔ گھر ٹوٹ جائے گا میرا مت کریں ایسا ۔" " آفاق! میں کیوں چاہوں گا تمہارا گھر ٹوٹے ۔ تم دونوں ایسا کیوں کر رہے ہو میرے ساتھ ۔ ایک طرف وہ الٹی سیدھی باتیں کرتی ہے ایک طرف تم ہو ۔ کیا ہو گیا ہے تم لوگوں کو ۔" " ہم دونوں برے، آپ اچھے ہیں بس۔" وہ لاؤنج سے جانے لگا۔ " آفاق! میری بات تو سنو۔" " بھائی! پلیز۔۔۔۔ بہت پریشان ہوں میں پہلے ہی ۔ میں صرف اتنا سمجھتا ہوں آپ اگر میرے باپ ہوتے تو ایسا نہ کرتے میرے ساتھ ۔" وہ کہہ کر رکا نہیں تھا۔ " میں اگر تمہارا باپ ہوتا۔" وہ وہیں صوفے پر بیٹھ گیا۔ اس کا ایک ہی جملہ گونج رہا تھا سماعتوں میں اور اس کا دماغ یہ ایک جملہ سننے کے بعد کچھ بھی سوچنے کے قابل نہیں رہا تھا جیسے۔۔۔ "آپ اگر میرے باپ ہوتے۔" دل ٹوٹ کر بکھر رہا تھا۔
" وہ کیوں گھر چھوڑ گیا ہے آفاق۔۔۔۔۔ سب ٹھیک تو ہے؟" وہ کل سے بہت پریشان تھا جب پتا چلا کہ وہ سوٹ کیس بھر کر لے گئی ہے، آفاق کل سارا دن غائب تھا شاید اس کے پاس تھا ۔ ابھی وہ گھر آیا تھا اور اسے بات کرنے کا موقع ملا۔ " وہ گھر نہیں آئے گی اب، میں علی کو دیکھنے گیا تھا۔" وہ بہت تھکا ہوا نظر آ رہا تھا۔ " کیا کہتی ہے وہ اسے پرابلم کیا ہے آخر؟" وہ کہتی ہے وہ آپ کے ہوتے ہوئے یہاں نہیں آئے گی ۔ " " میں نے اس کا کیا بگاڑا ہے؟" " مجھے نہیں پتا بھائی؟" وہ تھکے ہوئے انداز میں بیٹھ گیا۔ " اسے سمجھاؤ آفاق ایسے نہیں ہوتا ہے۔" " وہ بہت ضدی ہے ، نہیں آئے گی ۔" " تو اس کی امی سے بات کرو وہ سمجھائیں، اسے مجھ سے کیا پرابلم ہے بھلا۔" " میں کہتا تھا نا آپ کو مت ٹوکیں اسے مت ایسا کریں۔ اس دن سے ڈرتا تھا۔" " خوب تو گویا وہ تمہیں بلیک میل کر رہی ہے۔" " وہ جیسی بھی ہے شوہر ہے میرا چھوڑ نہیں سکتا میں اسے اس کے بچے کا باپ ہوں میں۔" " میں نے تم سے نہیں کہا تم اسے چھوڑو۔" " تو پھر میں کیا کروں یہ تو بتائیں میری تو کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔" " وہ چاہتی کیا ہے؟" اسے خوب اندازہ ہو رہا تھا۔ " آپ یہاں سے چلے جائیں یا ہم کہیں اور شفٹ ہو جاتے ہیں ۔" " تم بھی یہی چاہتے ہو ؟" دل کٹنے کی تکلیف کیا ہوتی ہے اسے اچھی طرح پتا چل رہا تھا۔
"میں صرف سکون چاہتا ہوں۔" "مجھے بتاؤ کہاں جاؤں؟" اس کی آنکھیں بھر آئیں ۔ "فلیٹ جو کرائے پر دے رکھا ہے ۔ وہ خالی ہو سکتا ہے ۔" "تو گویا تم پہلے سے ہی سب کچھ طے کر چکے ہو ۔" "میں یہ سب نہیں چاہتا بھائی مگر میں کیا کروں میں مجبور ہوں۔" "بہت اچھی بات ہے ۔" اس نے اپنی آنکھیں صاف کیں ۔ "جتنی جلدی ہو فلیٹ خالی کرا دو۔ میں پیکنگ شروع کرتا ہوں۔" وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ "اتنی جلدی خالی نہیں ہو گا ۔ کچھ روز لگیں گے' جب تک آپ رہ لیں۔" "وہ آ جائے گی کل یہاں؟" "نہیں' اس نے کہا ہے آپ جائیں گے تو ہی وہ گھر میں قدم رکھے گی۔" "کل میں حرا کے پاس چلا جاؤں گا لاہور۔۔۔۔ تم اسے لے آنا۔" "جیسے آپ ٹھیک سمجھیں۔" اس نے صرف ایک لمحہ رک کر اس کے چہرے پر کچھ ڈھونڈنا چاہا تھا دکھ، پشیمانی، افسوس کچھ نہیں تھا سوائے اطمینان کے ۔۔۔۔۔ یہ وہی آفاق تھا اسے یقین کرنے میں بہت مشکل ہو رہی تھی۔ وہ آفاق کچھ سال پہلے ہی اس نے کھو دیا تھا۔ کہاں۔۔۔۔ خود اسے بھی معلوم نہ تھا۔
"رات کو تیز ڈرائیو کر کے پہنچی تھی اور تم نے دروازہ نہیں کھولا ۔" وہ دفتر سے آیا تو اپنا سیل فون چیک کیا جس پر چوبیس مسڈ کالز تھیں اور کئی میسیج۔۔۔۔۔ اس نے سارے ٹیکسٹ باری باری چیک کیے تھے اور پھر اسے کال بیک کی۔ "تم کیوں تیز ڈرائیو کر کے پہنچی تھی وہ بھی رات کے وقت؟" "پورے بارہ بجے میں تمہارے گھر پہنچی، آدھے گھنٹے تک بیل بجاتی رہی کیک لائی تھی تمہارے لیے۔ رات تمہاری برتھ ڈے سیلیبریٹ کرنا چاہی ۔" "تمہیں یاد ہے مجھے تو یاد بھی نہیں رہتا اب۔" "مجھے بھی نہیں بھولا یہ دن۔ میں ہمیشہ کیک کاٹتی ہوں اس ڈیٹ پہ کیا تم آج میرے ساتھ سیلیبریٹ کر سکتی ہو؟ دیکھو' پھر تو تمہاری شادی ہو جائے گی پھر میں نہیں ڈسٹرب نہیں کروں گی کبھی بھی۔" "تمہیں بہت دکھ ہوا ہے میری شادی کا سن کر؟" "نہیں اطمینان ہوا ہے کہ تم نے اپنے لیے بھی تو کچھ سوچا۔ "شکریہ تمہارے نیک جذبات کے لیے۔" "کیا ہم مل سکتے ہیں کہیں باہر۔" "کس حیثیت سے عائشہ! تم شادی شدہ ہو اور میری شادی ہونے والی ہے۔" "پلیز آخری بار میں تمہارے ساتھ بہت ساری باتیں کرنا چاہتی ہوں۔ مناسب سمجھو تو گھر آ جاؤں۔" "نہیں گھر نہیں۔۔۔۔" "پھر کہیں باہر۔۔۔۔"
"کہاں؟" اس نے لمبی سانس لی۔ وہ اس عورت کے آگے کیوں نرم پڑ جاتا تھا اسے خود پر غصہ آتا تھا۔ "جہاں تم کہو۔" "سمندر پر۔۔۔۔ گھنٹے بعد۔۔۔۔ پہنچ رہا ہوں۔" اس نے کہتے ہوئے فون بند کیا۔ "بہت شکریہ۔" "پہنچ رہا ہوں۔"
وہ اپنے کمرے میں آ کر وارڈروب کھول کر کپڑے دیکھنے لگا۔ پہلی بار انتخاب مشکل لگا تھا۔ وارڈروب کے آگے تین چار منٹ سے زیادہ نہیں رکتا تھا۔
"یاد ہے کبھی تم نے کہا تھا کہ جب ہم بڑے ہوں گے تو وقت بہت بدل چکا ہو گا۔ سب کچھ ٹھیک ہو چکا ہو گا، سب کچھ ٹھیک ہو چکا ہے شاید پر ہم بدل گئے ہیں۔" اس نے کافی کا کپ ادھورا چھوڑ دیا تھا۔ "مگر تم نہیں بدلی۔۔۔۔۔ ابھی بھی کافی کپ میں چھوڑ دیتی ہو۔ ہر کام ادھورا کرتی ہو۔ بتاؤ کتنی نوکریاں چھوڑی ہیں؟" "اب تک صرف چار۔۔۔" "اب تک صرف چار۔۔۔۔ تمہیں شرم آنی چاہیے ۔۔۔۔ چار کم ہیں۔ اب تو نوکریاں ملتی ہی نہیں ہیں۔" "مجھے ہر کام کی جلدی پڑی رہتی ہے۔ سوچتی ہوں جلدی جلدی سب کچھ ہو جائے۔ انتظار میری جان لے لیتا ہے۔ تم سے شادی بھی تو جلدی کرنا چاہی تھی پھر۔۔۔۔" وہ کپ کی سطح پر انگلیاں پھیرنے لگی۔ "جلدی جلدی سب ہو تو گیا۔ شادی، بچے سب کچھ۔۔۔" "ہاں سب ہو گیا۔ اب لگتا ہے جیسے دل خالی خالی سا رہ گیا ہے۔" "ایسا کیوں سوچتے ہو؟ ہو نا ناشکری۔" "ٹھیک سوچتا ہوں۔ مگر بدلے تم بھی نہیں اب تک اتنے ہی سچے ہو اتنے ہی سست۔ ہر کام دیر سے کرتے ہو۔ شادی بھی اتنی لیٹ۔" "ایک بات کہوں عائشہ! میں شادی نہیں کر رہا۔" "کیا۔۔۔۔۔ مگر تم نے تو کہا تھا کہ کسی نے پروپوز کیا تھا اور۔۔۔۔" "ہاں کیا تھا۔ پر میں نے تبھی منع کر دیا تھا۔ مجھے شادی نہیں کرنی۔" "مگر کیوں نہیں کرنی یار تم اکیلے ہو۔ کیسے گزرے گی زندگی نہ بھائی ساتھ نہ بہن۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے عمیر اپنے لیے سوچو پلیز۔" "بس اس کی کوئی ایک وجہ نہیں ہے۔" "یہ زیادتی کر رہے ہو اپنے ساتھ ۔۔۔۔۔ کاش ہماری شادی ہو جاتی۔" "اچھا ہوا نہیں ہوئی میں ہر کام میں سستی کرتا ہوں۔ تم ہر کام میں تیز جوڑ نہیں بنتا روز لڑائی ہوتی۔" وہ زبردستی مسکرایا۔ "یاد ہے تم کہتے تھے کہ میں کھانا بنانے میں دیر لگاؤں گی تمہیں دفتر سے دیر ہو جائے گی پھر تم بگڑو گے۔ ہماری لڑائیاں ہوں گی۔" وہ کہتے ہوئے ہنسا تھا۔ "ہاں یاد ہے۔" وہ بھی ہنسی۔ "عمیر! بہت اکیلی ہوں میں۔۔۔۔ شادی کرو گے مجھ سے؟" "ابھی تو تم نارمل تھی کیا ہو گیا؟" وہ چونک کر اسے دیکھنے لگا۔ "میں اب بھی نارمل ہوں اور پورے ہوش و حواس کے ساتھ کہہ رہی ہوں پلیز مان لو۔" "تمہارا ایک گھر ہے، فیملی ہے شوہر بچے ہیں۔ تم ایسا کیسے کہہ سکتی ہو؟"
"کیا زندگی پر میرا اپنا کوئی حق نہیں ہے؟ کیا میں اپنے لیے نہیں جی سکتی؟ سب کچھ دیا ہے میں نے شوہر کو اور بچوں کو، اب کچھ دن اپنے لیے جینا چاہتی ہوں۔" "مجھے لگتا ہے تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے، گھر جاؤ آرام کرو، میں بھی اب چلتا ہوں۔" وہ اٹھا تھا فوراً۔ "میں سنجیدہ ہوں عمیر مجھے جواب چاہیے۔" وہ بھی اٹھا اس کے ساتھ۔ وہ اسے دیکھتا رہ گیا۔
اس نے عائشہ کو صاف صاف جواب دے دیا تھا۔ وہ نہ اس کی کال اٹھا رہا تھا نہ میسج کا جواب دے رہا تھا۔ یہ سچ تھا کہ زندگی تھوڑی نہیں بہت مشکل تھی۔ یہ بھی سچ تھا کہ اکیلے رہنا مشکل تھا۔ ماحول، باتیں، لوگ۔ وہ ساری چیزوں کو نظر انداز کرتا رہا تھا۔ کئی دفعہ دیر سے آتے ہوئے گاڑی خراب ہوئی تھی۔ کئی دفعہ وہ اکیلا بیچ سڑک کھڑا رہتا تھا مگر کسی سے لفٹ لینے یا مدد لینے کا رسک نہیں لے سکتا تھا۔ صرف ایک تنہائی تھی جس نے اندر سے توڑ پھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ اس کے ساتھ کوئی اچھا دوست تک نہیں تھا جس کے ساتھ کچھ وقت گزار کر وہ تازہ دم ہو جاتا۔ اس کی بہن کئی کئی مہینے اسے فون نہیں کرتی تھی۔ خود وہ ٹائم نکال کر کرتا تب بھی اس کے ساتھ زیادہ بات نہ ہو پاتی۔ وہ بار بار اسے بتاتی کہ غیر شادی شدہ بندی شادی شدہ لائف کے بارے میں نہیں سمجھ سکتی۔ وہ اسے جتاتی کہ بے وقت فون سننا اس کے لیے مشکل ہے۔ اس نے فون کرنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ اور جو اس کی بہن تھی اس نے تو پلٹ کر خبر تک نہ لی تھی۔ یہ تھے اس کے اپنے جن کی خاطر اس نے زندگی قربان کی۔ عائشہ نے پھر بھی اتنا برا تو نہیں کیا اس کے ساتھ جتنا وہ لوگ کر رہے تھے۔ مگر پھر بھی اس نے شادی سے انکار کر دیا تھا۔ کیونکہ عائشہ کی اپنی فیملی تھی وہ کیسے ان سب کی مجرم بن جاتا۔ وہ خاموش تھا۔ عائشہ کئی بار دروازے سے لوٹ گئی تھی۔ دو چار چکر اس نے دفتر کے لگا لیے۔ آخر کار مجبور ہو کر اس نے سوچنے کے لیے وقت مانگا۔ وہ اپنی بہن، بھائی سے مشورہ کرنا چاہتا تھا۔ اس نے آفاق کو بلایا مگر وہ نہیں آیا۔ دو دن بعد وہ خود اس کے گھر پر تھا۔ علی نے بہت دنوں بعد دیکھا تھا مگر لپٹ گیا۔ اس کی گود سے اتر نہیں رہا تھا۔ اس نے علینہ کو اگنور کر دیا تھا کیونکہ اس کا رویہ ویسا ہی عجیب تھا۔ اس نے ڈائریکٹ آفاق سے بات کی تھی۔ "آپ شادی کر رہے ہیں؟" وہ حیران ہو گیا۔ علینہ نے طنزیہ نظروں سے پہلے اسے پھر آفاق کی طرف دیکھا تھا۔ "اس عمر میں آپ کو شادی کی کیا ضرورت پڑ گئی ہے؟" عادت سے مجبور علینہ چپ نہیں رہ سکی تھی۔ "میں اپنے بھائی سے بات کر رہا ہوں۔" "آپ کو واقعی کیا ضرورت ہے بھائی۔۔۔ آپ اچھی جگہ رہتے ہیں اچھا کھاتے ہیں خوش ہیں۔" وہ بھی شوہر کے ساتھ متفق تھا۔ "میں اکیلا رہتا ہوں۔ مجھے کئی مسائل ہیں۔ عائشہ بہت فورس کر رہی ہے۔" "وہ دھوکے باز آئی۔۔۔۔ کیا کیا تھا اس نے آپ کے ساتھ۔ کچھ یاد ہے؟" "اچھا تو میرے ساتھ کسی نے نہیں کیا ۔ اگر میں یاد کرتا رہوں تو زندہ کیسے رہوں گا بھلا۔" "ٹھیک ہے ۔ آپ کی مرضی۔ مگر میں نہیں سمجھتا یہ شادی کامیاب ہو گی۔" یہ اس کا بھائی تھا جو پہلے سے شادی کی ناکامی کی پیش گوئی کر رہا تھا بجائے کوئی دعا دینے کے، بجائے حوصلے کے۔ وہ اسے دیکھتا رہ گیا۔ "آپ کو اب اگر اتنا ہی شوق ہوا ہے شادی کا تو ہم کیا کہہ سکتے ہیں بھلا۔"
وہ وہی زہر اگلنے والا مرد تھا۔ "میرا خیال ہے، میں چلتا ہوں۔ علی گود سے اتر کر کھیلنے لگا تھا وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ "شادی پر تو بلائیں گے نا۔" علینہ کا لہجہ ویسا ہی تھا۔ "ضرور!" وہ اتنا ہی کہہ سکا ۔
گھر آتے ہی اس نے سب سے پہلا فون عائشہ کو کیا تھا اور پھر حرا کو۔۔۔۔ بیل مسلسل جا رہی تھی ۔ تیسری چوتھی بیل پر اس نے فون اٹھ ہی لیا تھا ۔ "ہاں بھائی! بولیں شرجیل کے کپڑے چھوڑ کر آیا ہوں پریس کرنے لگا تھا ۔ پر فون بج رہا تھا رنگ پہ رنگ سب خیریت ہے نا؟" وہی سلام دعا کے بغیر عجلت بھرا لہجہ۔ "بہت ضروری بات کرنی تھی تم سے۔۔۔۔ میں شادی کر رہا ہوں۔" "کس کے ساتھ ؟" "عائشہ کے ساتھ۔۔۔۔" "ہیں۔۔۔۔ بھائی ہوش میں ہیں ۔ طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟" "حرا میں ٹھیک ہوں بالکل سب ٹھیک ہے۔ میں اپنے ہوش میں ہوں۔" "بھائی شادی اب۔۔۔۔ اب کیا فائدہ؟" "کیا مطلب؟ کیا فائدہ۔" "مطلب یہ کہ بھائی اتنی عمر میں پرابلم ہوتی ہے۔ بچے۔ وہ کہتے کہتے رُک گیا۔ "حرا میں شادی بچوں کے لیے نہیں اپنی تنہائی کی وجہ سے کر رہا ہوں۔" "بھائی اس عمر میں؟" "اسی عمر میں تو کسی اپنے کے ساتھ کی ضرورت ہوتی ہے۔" ”میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آ رہا بھائی!" "تم اپنے کمزور دماغ پر زور مت ڈالو۔ یہ بتاؤ آسکو گی یا نہیں؟" "بھائی! میرے شوہر کیا کہیں گے۔ لوگ کیا کہیں گے۔ آپ نے کچھ تو سوچ لیا ہوتا۔ " یہ بھی اس کی سگی بہن تھی ۔ "ٹھیک ہے حرا! یہی کہنا ہے یا اور بھی کچھ باقی ہے؟" "میرا تو دماغ کام نہیں کر رہا آپ کی بات سن کر۔" "اور میرا دل کام نہیں کر رہا تم لوگوں کی باتیں سن کر۔" اس نے فون رکھ دیا اور بیٹھ گیا۔ یہ تھے اس کے اپنے اور یہ تھے لوگ۔ شادی کی بات سنتے ہی اعتراضات کھڑے ہو گئے تھے۔ وہ حیران تھا۔ حالانکہ اب اسے حیران ہونے کی ضرورت نہ تھی۔ اس نے ان چند دنوں میں لوگوں کے مزید رنگ دیکھ لیے تھے کہ جب کوئی اپنی زندگی بنانے جا رہا ہوتا ہے تو لوگ کیا کرتے ہیں۔ ہاتھ سے نہیں روک سکتے ، عمل سے نہیں روک سکتے مگر زبان سے کوشش ضرور کرتے ہیں۔ اور سب سے زیادہ بات کرنے اور انگلی اٹھانے والے کون تھے خود اس کے اپنے بہن بھائی۔ جو رشتے دکھ سکھ کے ساتھی کہلاتے ہیں۔ وہی رشتے اسے برا بھلا کہہ کر مزید خون جلا رہے تھے۔
ایک دن اسے عائشہ اپنے ساتھ شاپنگ پر لے گئی اور مال میں علینہ اور آفاق مل گئے۔ علینہ باز نہیں آئی تھی پاس سے گزرتے ہوئے بھی دل جلا گئی۔ اسے ایسے کاموں میں کمال حاصل تھا۔ آفاق کتنا انجان تھا۔ اسے ایک دفعہ احساس ہوا کہ اس سے پوچھے، بات کرے، کہے کہ وہ اس کا چھوٹا بھائی ہے جسے بچوں کی طرح اس نے پالا ہے اور یہاں تک پہنچایا ہے۔ مگر اس کے پاس وقت ہی کہاں تھا اس کے لیے رک کر بات سننے اور سمجھنے کے لیے وہ اسے دور تک جاتا دیکھتا رہا تھا۔
"چلیں عمیر!" عائشہ اس کے ساتھ کھڑی تھی۔ "ہاں چلیں۔۔۔۔" وہ چپ چاپ اس کے ساتھ باہر نکل آیا تھا۔ "ان لوگوں کی خاطر تم ضائع کر رہے تھے خود کو۔" وہ گاڑی میں بیٹھتے اسے جتانے لگی۔ "تب وہ لوگ نہیں بچے تھے۔ اب لوگ بنے۔" "جانے دو تم تو پھر بھی۔۔۔" "عائشہ! میں سب کچھ بھلا دینا چاہتا ہوں۔ ہر حوالے سے۔" "اوکے تو آگے کے کیا پلان ہیں پھر؟" "نہیں عائشہ! اب کوئی تیاری نہیں پلیز۔۔۔۔۔ سادگی سے چند لوگوں کی موجودگی میں نکاح ہو گا۔ میں دفتر کے لوگوں کو بلا لوں گی۔ تم اپنے ایک آدھ کسی دوست کو بلا لینا ۔" "تاریخ کیا سوچی تم نے؟" "اٹھائیس ٹھیک ہے۔" "ہوں۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے پورے بائیس دن ہیں۔ زیادہ نہیں؟" "بہت کم ہیں عائشہ بائیس دن۔" "بائیس دنوں میں تو بہت کچھ ہو جاتا ہے یار۔" "کچھ نہیں ہوتا عائشہ! اتنے سالوں میں کچھ نہیں ہوا۔۔۔۔ بائیس دنوں میں کیا ہو جائے گا بھلا ہے؟" "تم کہتے ہو تو ٹھیک ہی ہے تمہیں فلیٹ پر چھوڑ دوں؟" "ہاں پھر تمہیں اپنے گھر بھی جانا ہے ۔ اپنے شوہر سے بچوں کے پاس۔ وہ سب ویٹ کر رہے ہوں گے تمہارا ہے نا؟" "پلیز عمیر! کیا ہم ایک ساتھ رہتے ہوئے صرف اپنی بات نہیں کر سکتے؟" "یہ ایک حقیقت ہے۔۔۔۔۔" اس کی مسکراہٹ میں تھکن تھی۔ "تم نے سوچا ہے عائشہ! تم کیسے مینٹین کرو گی سب کچھ؟" "نہیں تمہیں اس بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ میں کر لوں گی ۔ اور میں نہیں چاہتی کہ اس بات کو لے کر ہمارے بیچ میں کوئی بھی تلخی آئے۔ دیکھو عمیر جب میں تمہارے پاس ہوں گی تو صرف تمہاری ہوں گی۔" "اور جب ان کے پاس ہو گی تو صرف ان کی ہو گی۔" وہ اسے بغور دیکھ رہا تھا۔ "پلیز عمیر!" وہ الجھے ہوئے انداز میں باہر دیکھ رہا تھا۔ "ہماری آنکھیں بند کر لینے سے کچھ نہیں بدلے گا عائشہ!" "پلیز تم چاہتے ہو کہ میں کہیں گاڑی دے ماروں؟" وہ چلائی۔ "تم ایموشنل کیوں ہو رہی ہو عائشہ؟" "دیکھو میں تمہیں نہیں چھوڑ سکتی اب ان ساری باتوں کو بنیاد بنا کر تم ایسی باتیں مت کرو ٹینشن ہوتی ہے مجھے۔" "اچھا اوکے بس آخری سوال۔" "کہو۔" وہ بے بسی سے دیکھنے لگا اسے۔ "اپنی فیملی کو شادی کے بارے میں بتایا ہے؟" "بتا دوں گی ۔" وہ فوراً ڈھیلا پڑ گیا تھا۔ "تم نے اب تک بتایا نہیں؟" وہ تعجب سے دیکھنے لگا۔ "میں ضروری نہیں سمجھتی۔"
"پتا نہیں کیا ہو رہا ہے۔۔۔۔۔ کیا ہو گا؟" اس نے سیٹ سے سر ٹکا لیا۔ "کچھ نہیں ہو گا۔ ہم شادی کریں گے اب اور خوشی خوشی اپنا گھر بنائیں گے۔" وہ اسے بہلا رہی تھی۔ "کاش یہ سب اس قدر آسان بھی ہوتا جیسے ہم کہہ رہے ہیں۔" "آسان اگر نہیں ہو گا تو ہم آسان بنا لیں گے۔" "پتا ہے عائشہ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔" " تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس طرح تم مجھے بھی کمزور کر دو گی ۔" "میں سوچ رہی ہوں عائشہ۔۔۔۔" "پلیز کچھ نہیں سوچنا اب۔" وہ اس کی بات کاٹ گئی۔ "اب سب کچھ پلان کے مطابق ہو گا۔ تم کام نبٹا لو گھر سے ہو آؤ۔ وہاں دیکھو کس چیز کی کمی ہے۔ دیکھو ہم وہ گھر بیچیں گے نہیں ۔ کبھی کبھار رہنے جائیں گے وہاں۔۔۔۔۔" "ٹھیک ہے۔" وہ کچھ بے دلی سے مسکرایا۔
سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا، مگر ایک دل تھا۔ جو ایسے موقع پر خطرے کا الارم بجاتا ہے شاید ڈراتا ہے۔ وسوسے ڈالتا ہے۔ دل بھی اپنے کام میں ماہر ہے۔ وہ ہفتے کا دن تھا جب اسے عائشہ کے شوہر کی کال موصول ہوئی تھی۔ وہ اس کی آواز سنتے ہی برس پڑا تھا۔ کیسی غلط زبان استعمال کی تھی اس نے۔ غیر تعلیم یافتہ لوگوں کا کیا قصور بھلا یہاں پڑھے لکھے لوگوں کا یہ حال تھا۔ وہ صرف سنتا رہا تھا اور فون بند کر دیا تھا۔ اس کے بعد روز اسے کوئی دھمکی آمیز ٹیکسٹ موصول ہوتا۔ "میری بیوی کا پیچھا چھوڑ دو ورنہ ۔" ورنہ کے آگے ڈراوے لکھے ہوتے دھمکی آمیز - جن پر یا تو وہ کڑھتا یا پھر افسوس سے سر جھٹک کر رہ جاتا تھا۔ عائشہ کا کہنا تھا وہ ان چیزوں پر دھیان نہ دے۔۔۔۔۔ یہ سب رکاوٹیں ہیں اور اس بار کوئی رکاوٹ ان کا راستہ روک نہیں پائے گی۔ اس کے پاس کوئی خواب نہ تھا نہ خواہش۔ وہ بس سکون اور تحفظ بھری زندگی چاہتا تھا۔ ایک پر سکون گھر۔۔۔۔ کیا وہ ایک پر سکون گھر بنا پائے گا۔۔۔۔۔ اس کے خود سے کتنے سوال تھے۔۔۔۔ پہلے سے ہی کتنے خدشے، کتنی بے سکونی، کتنی بے یقینی۔ کیسا گھر بنانے جا رہا تھا وہ، تھکن جیسے پور پور میں اتر رہی تھی۔ حالانکہ ابھی بہت کام باقی تھے۔ پورے اٹھارہ دن پر لگا کر اڑے تھے۔ ان کی شادی مزید ایک ہفتہ لیٹ ہو گئی تھی۔ عائشہ کچھ مصروفیات میں پھنسی ہوئی تھی۔ وہ بتا رہی تھی دفتر میں نیا پروجیکٹ ملا ہے۔ بہت سارا کام ہے۔ اس نے سوچا چلو وہ بھی کچھ سستا لے گا۔ وہ روز اسے میسج کر کے حال احوال پوچھتا۔ پورے سولہ دنوں سے ان کی ملاقات بھی نہیں ہوئی تھی ۔ وہ کہاں مصروف تھی۔ آج وہ ساحل سمندر پر آیا تھا۔ دل چاہ رہا تھا کچھ فریش ہوا جائے۔ اس نے کہا تھا اتوار کو ملیں گی ۔ وہ اتوار کی شام اس کے انتظار میں یہاں بیٹھا تھا۔ "کہاں ہو عائشہ تمہاری بیٹی کی طبیعت کیسی ہے اب؟" وہ کال ریسیو نہیں کر رہی تھی اس نے میسیج کر دیا ہے۔ "ابھی بھی بخار ہے اسے میں دفتر میں ہوں میٹنگ میں۔"
عائشہ! آج سنڈے ہے۔" وہ لکھتے لکھتے رک گیا کیوں کہ وجہ سامنے تھی۔ وہ اس سے کچھ فاصلے پر تھی۔ وہ اپنے بچوں اور شوہر کے ساتھ سمندر پر موجود تھی ۔ وہ اپنے بچوں کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ اس کے شوہر کے چہرے پر کھلکھلاتی مسکراہٹ تھی۔ اور وہ خود کتنا مطمئن تھا۔ کتنی مکمل فیملی تھی ، کتنا سکون تھا ۔ سب کچھ تو تھا ایک مکمل فیملی، مکمل گھر۔ کیا کمی تھی۔ سب کچھ تو تھا ۔ پھر وہ ان سب میں کہاں تھا۔ کسی جگہ تھا ۔ اس کا کیا مقام تھا وہ کہاں کھڑا تھا۔ کیا حیثیت تھی اس تعلق کی ایک طرف مکمل گھر اور ایک طرف صرف وہ ۔۔۔۔ وہ کتنے دنوں سے نہیں آئی تھی۔ اس نے ان دنوں میں اسے کتنا یاد کیا ۔ آواز دی اور وہ جھوٹ پر جھوٹ بولتی جا رہی تھی۔ ایک جھوٹ دو جھوٹ ۔ کتنے جھوٹ ۔ کل ملا کر کتنے جھوٹ ۔ وہ ایک جھوٹ کی بنیاد پر گھر بنا رہا تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو کیوں بہے تھے۔ اسے دکھ کیوں ہوا تھا۔ وہ الٹے قدموں واپس پلٹا تھا۔ "دفتر میں ہوں۔ میٹنگ ہے۔ کام ہے۔ " اس کا ٹیکسٹ کھلا ہوا تھا۔ "آج تو سنڈے ہے عائشہ! آج بھی دفتر میں ہو۔۔۔۔۔ آج بھی کام ہے۔ سمندر تو اس کے اندر ٹھاٹھیں مارتا رہا ۔ دکھ کا سمندر وہ رو رہا تھا پر وہ رونا نہیں چاہتا تھا اس نے آج بہت تیز ڈرائیو کیا تھا پلیئر آن کر دیا شام سے پہلے آنا پھول سارے کھل رہے ہوں دھوپ ساری ڈھل رہی ہو موسم سارے لے آنا پھر وہی دن آئے ہیں جانے کیا لے آئے ہیں جیون میرا ۔۔۔۔ سارا تیرا۔۔۔۔۔ جینا تو اک بہانہ ہے۔ "شادی کرو گے مجھ سے؟" "ایک شرط پر۔۔۔۔" "وہ کیا ؟" "تم کافی کا پورا کپ پیو گی۔" "اور؟" "اور یہ کہ نوکری نہیں چھوڑو گی۔" "بس اتنا۔۔۔۔ قبول ہے۔" "جھوٹ نہیں بولو گی؟" "نہیں بولوں گی۔" "مجھ سے ہمیشہ محبت کرو گی ۔" "ہمیشہ کروں گی۔" "مجھے چھوڑ تو نہیں دو گی؟" "کبھی نہیں۔" ایک تیرے آ جانے سے مل رہے ہیں زمانے سے جیون میرا۔۔۔۔ سارا تیرا۔۔۔۔۔ دور اب کیا جانا ہے شام سے پہلے آنا۔ شام تیزی سے ڈھل رہی تھی۔ شام اس کے اندر اتری ہوئی تھی۔ ہال رنگین روشنیوں سے جگمگا رہا تھا۔ آج وہ بھی یہاں انوائٹڈ تھا ۔ اس نے ایک میسج کیا ۔ "پتا نہیں کہاں ہو تم ۔ " "ہو کہاں مصروف؟" "مجھے پتا ہے ناراض ہو جب ہی کوئی جواب نہیں دیا۔" "بدلہ لے رہے ہو نا ۔ چلو لے لو خوش ہو جاؤ۔" "میں آتی ہوں ملنے اور منانے۔ ایک ہفتے سے مصروف تھی۔" وہ کسی میسج کا جواب نہیں دے رہا تھا۔
"پتا ہے عمیر! آج ہماری شادی کی ڈیٹ فکس ہوئی تھی نا۔ سوری میری مصروفیت کی وجہ سے سارا کچھ لیٹ ہو گیا ہے۔" "تمہیں کہا بھی تھا کہ بائیس دن بہت ہیں۔ مگر تم بھی نا۔ چلو کوئی بات نہیں ہم اب دور کی ڈیٹ نہیں رکھیں گے۔ ایسا کرتے ہیں کل ہی مولوی کو بلا کر نکاح پڑھوا لیتے ہیں۔۔۔۔۔ کیا خیال ہے؟" "یار جواب تو دو نا۔۔۔۔!"
وہ ہال میں بیٹھی بور ہو رہی تھی، ابھی دولہا دلہن بھی نہیں آئے تھے وہ شاید وقت سے پہلے آ گئی تھی۔ یا دیگر مہمان لیٹ ہو گئے تھے۔ "دیکھو اب میں تیز ڈرائیو نہیں کرتی عمیر!" "آج میں نے کافی کا پورا کپ پیا تھا۔ یہ مت پوچھنا کہ کافی کس نے بنائی تھی اور یہ بھی مت پوچھنا کہ کیسی تھی؟" وہ اسے جواب دینے کے لیے اکسا رہی تھی۔ "اچھا نوکری بھی نہیں چھوڑوں گی اب۔" "اچھا سنو نا! جواب تو دو میں یہاں شادی میں بیٹھی ہوئی ہوں۔" "دولہا دلہن نہیں آئے۔ آؤ دونوں یہاں بیٹھ کر نکاح پڑھوا لیں، کیسا آئیڈیا ہے؟ تمہارے گھر سے قریب ہے یار آ جاؤ نا عمیر!" "اچھا چلو ٹھیک ہے میں ہی آ جاتی ہوں۔۔۔۔ بس عائشہ سے مل لوں، اس کی بہن میری بہت اچھی دوست ہے۔" سینٹ آئٹم بھرا ہوا تھا اور ان باکس خالی تھا۔ ایک بھی جواب نہیں آیا تھا اس نے لمبی سانس بھری اور دوسری طرف متوجہ ہوئی۔ دولہا دولہن آ رہے تھے۔ دولہا بہت خوش لگ رہا تھا۔ دولہن کا گھونگھٹ نکلا ہوا تھا۔ یقیناً وہ بہت خوب صورت ہو گی۔ وہ سوچتے ہوئے اسٹیج تک آیا۔ عمیر سے گلے ملا اسے مبارک باد دی پھر نیچے آ گیا۔ کھانے کے بعد رخصتی تھی۔ رخصتی کی گھڑی بھی عجیب ہوتی ہے۔ وہ عمیر کے بھائی کے ساتھ ہال کے گیٹ پر کھڑا باتیں کر رہا تھا۔ جب دولہا دلہن ساتھ ساتھ چلے آ رہے تھے۔ مووی والے کی ہدایت پر کسی نے دلہن کا دوپٹہ ٹھیک کیا تھا۔ اس کی نظر اٹھی تھی اور۔۔۔۔ کیا وہ وہی تھی۔۔۔ یا اس سے ملتی جلتی؟ مگر یہ تو بہت حسین تھی۔ "بھائی! عمیر سے چھوٹی ہیں کچھ سال۔ مگر یہ ماننا پڑے گا کہ عمیر سے زیادہ خوب صورت لگ رہی ہیں ہے نا۔" عمیر کی بہن کہہ رہی تھی۔ "اچھا۔ اللہ ان دونوں کو خوش رکھے۔ عائشہ بھابھی بہت اچھی خاتون ہیں۔ مل چکا ہوں میں بہت دفعہ۔" عمیر کا بھائی اس سے مخاطب ہوا تھا۔ وہ پتھر کے بت کی طرح کھڑا تھا۔ "اتنا بڑا دھوکا میرے ساتھ ۔۔۔۔ اتنی بڑی گیم عمیر! کھیلا ہے تم نے میرے ساتھ۔ دھوکا کیا ہے۔۔۔۔" کچھ دیر بعد سینٹ آئٹم میں ایک اور میسج کا اضافہ ہوا تھا۔ اس سے کھڑا ہوا نہیں جا رہا تھا۔ وہ اپنی گاڑی میں آ کر بیٹھ گیا جب سیل فون بجا۔ عمیر کالنگ جگمگا رہا تھا۔
"تم نے اتنا بڑا دھوکا کیا میرے ساتھ ۔ یہ ڈیٹ تو ہماری شادی کی تھی۔ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ تم مجھ سے اس طرح بدلہ لو گے؟" وہ برس پڑی تھی۔ " میں نے نہ تم سے بدلہ لیا ہے عمیر نہ گیم کھیلا ہے۔ میں نے تو اس گیم کو انجام تک پہنچایا ہے جسے تم ادھورا چھوڑ گئی تھی۔ گیم تو تم کھیل رہی تھی میرے ساتھ تب بھی اور اب بھی۔ ہر بار اپنی باری کھیل کر تم ہٹ جاتی تھی میں نے تو صرف اپنی باری کھیلی ہے۔ اب ڈراما ختم اور زندگی شروع۔" فون ساکت تھا۔ وہ ساکت تھا۔ ہر چیز ساکت تھی کیونکہ ڈراما ختم تھا اور زندگی تو اب شروع ہوئی تھی!
Post a Comment for "ایک اجنبی ملاقات-2"