Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

ایک اجنبی ملاقات-2


"میں نے کب کہا کہ یہ میرا گھر ہے۔۔۔۔۔ یہ اس کے شوہر کا گھر ہے اور اس کا گھر ہے۔ " اسے اس کا یہ ایک جملہ بہت برا لگا تھا۔ "مجھے پتا ہے آپ ہر بات کا الٹا مطلب لیتی ہیں۔۔۔۔۔ مگر پلیز میں آپ کو کہہ رہا ہوں کہ اسے اپنی مرضی ہے یہاں رہنے دیں میرا گھر ان باتوں کی وجہ سے ٹوٹے یہ میں نہیں چاہتی۔" "کس قدر فضول اور جاہلانہ بات کی ہے تم نے بالکل اپنے شوہر کی طرح۔۔۔۔ مجھے نہیں اندازہ تھا کہ تم ایسی ہلکی بات کرو گی۔" وہ بے دلی سے اٹھی اس کے تیور دیکھتے ہوئے۔ "آپ نے مجھے مجبور کر دیا ہے بات کرنے پر۔۔۔۔ میں چاہتی ہوں آئندہ آپ اسے شکایت کا موقع نہ دیں کہ مجھے آپ سے ایسی کوئی بات نہ کرنی پڑے جس پر آپ کو افسوس ہو اور بعد میں مجھے بھی ہو ۔ " وہ کافی سخت لہجے میں کہتی ہوئی اس کے ساتھ ہی باہر آئی تھی۔

"چلیں بیٹھ جائیں، میں چھوڑ دوں گی۔" اس کا لہجہ اب بھی ویسا تھا۔ "بہت شکریہ چلی جاؤں گی میں ٹیکسی سے۔" "روز ٹیکسی سے جاتے ہیں کیا؟" وہ طنز پہ طنز کر رہی تھی۔ "اب جایا کروں گا۔" وہ گاڑی کے پاس سے گزر کر آگے بڑھا۔ "میں کہہ رہی ہوں بیٹھ جائیں۔" وہ زور سے حکمیہ لہجے میں بولی تھی۔ "اس لہجے میں اپنے شوہر سے بات کر کے دیکھ لینا۔ جواب مل جائے گا۔ " وہ کہتا ہوا تیز تیز قدم اٹھاتا وہاں سے ہٹ گیا۔ "شوق سے دھکے کھائیے۔" وہ با آواز بلند کہتی ہوئی بیٹھ گئی، ڈرائیور حیرت سے اس کے لہجے اور پھر بات سن رہا تھا۔ "جانا نہیں ہے کیا؟" وہ ڈرائیور کو گھورنے لگی۔ "جی بیٹی! چلنا ہے۔" انور بابا نے بے بسی سے گاڑی اسٹارٹ کی۔ آج پہلی مرتبہ اس نے آفاق کا یہ روپ دیکھا تھا۔ اس لیے حیرت زدہ تھا (یہاں آفاق کے بجائے عمیر ہونا چاہیے تھا، لیکن کہانی کے تسلسل کے لیے آفاق ہی رکھا گیا ہے تاکہ پتہ چلے کہ یہ اس کا بھائی ہے)۔

آج وہ دیر تک فٹ پاتھ پر کھڑا رہا۔۔۔۔ جیسے کبھی کچھ سال پہلے وہ کھڑا ہوتا تھا ۔ تب تو اس نے سوچا تھا کہ اب اسے فٹ پاتھ پر کھڑا ہونا نہیں پڑے گا کچھ سالوں بعد۔۔۔۔۔ اسے یاد تھا ایک دفعہ اس نے اپنی گود میں سر رکھ کر لیٹے ہوئے چودہ سالہ آفاق سے کہا تھا۔ "تم پڑھ لو، تم بڑے ہو جاؤ پھر ہماری ساری پریشانیاں ختم ہو جائیں گی۔ پھر مجھے دیر تک فٹ پاتھ یا اسٹاپ پر کھڑے ہو کر انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ " اس کی آنکھیں گیلی ہو رہی تھیں ۔ دھندلی آنکھوں سے پاس سے گزرتی ہوئی آفاق کی گاڑی کو دیکھا جو تیزی سے گزر گئی تھی ۔ اس نے دھندلی آنکھوں کو صاف کیا اور سامنے سے آتی ٹیکسی کو روکا تھا۔

وہ شام میں آیا تو کافی دیر ہو چکی تھی اور وہ دونوں کہیں جا رہے تھے۔ "السلام علیکم!" اس نے خود ہی سلام میں پہل کی تھی۔ "وعلیکم السلام۔۔۔" وہ نظریں چرا رہی تھی۔ "کہیں جا رہے ہو تم لوگ؟" "آپ کو کوئی اعتراض ہے؟" علینہ ترش لہجے میں بولی۔ "مجھے کیوں اعتراض ہو گا۔ علی کا خیال رکھنا، باہر سردی بہت ہے۔" وہ نا چاہتے ہوئے کہنے سے رک نہ سکا کہ چھوٹے بچے کی فکر ہو رہی تھی۔ "میں باپ ہوں اس کا مجھ سے زیادہ اس کا خیال کون رکھ سکتا ہے۔" "مجھے اندازہ ہے۔ " اسے ہنسی آ گئی اس کی بات پر۔ "آپ چاہیں تو علی کو آپ کے پاس چھوڑ جاتے ہیں، اگر آپ ڈسٹرب نہ ہوں تو۔" آفاق علی کو گود میں لیے اس کی طرف بڑھا۔ "پہلے بھی اسے میرے پاس چھوڑ کر جاتے رہے ہو، ہمیشہ یہ پوچھتے ہو کیا؟"


" ہم رات دیر سے لوٹیں گی ۔ اسے سلا لیجئے گا۔" وہ اسے پکڑا کر کہنے لگی پھر اسے چلنے کا اشارہ کیا۔ علینہ کے چہرے پر ناگواری تھی۔ علی کو کندھے سے لگا کے وہ اپنے کمرے کی طرف جانے لگا۔ " مجھ سے پوچھنا تو گوارا کر لیا کرو۔ " علینہ کا لہجہ تیز تھا۔ " اس سے ہمیں آسانی ہوتی ہے ، ہم مرضی سے گھر آتے ہیں ۔ باہر پریشانی نہیں ہوتی ہے ۔ چھوٹا بچہ ہے یار!" ان دونوں کی آواز باآسانی سن سکتا تھا وہ، اس کے چہرے پر پھیکی سی مسکراہٹ آ کر رک گئی۔ ابا کے پاس چھوڑ دیتے ۔ وہ ہر دفعہ باہر جاتے ہوئے بحث کرتی تھیں۔ " ہاں تاکہ وہ ساری رات روتا رہے اور ان کے فون پہ فون آتے رہتے ۔ بھئی اپنے بچے کو لے جاؤ بہت پریشان کرتا ہے۔" " یہ کب کہا انہوں نے ۔ " اسے اچھا نہیں لگا تھا۔ " ہمیشہ کہتے ہیں۔ جیسے تمہیں تو پتا نہیں ہے۔ " وہ دروازہ کھول کر باہر آئی۔ " کیا ضرورت تھی ان کے سامنے کہنے کی۔" وہ باہر آ کر بگڑا۔ " کیا کہا ہے ۔" وہ کندھے اچکا کر آگے بڑھا گاڑی کی طرف۔ " تم ہمیشہ اپنی بہن کے سامنے میری انسلٹ کرنا ضروری کیوں سمجھتے ہو۔" وہ بیٹھتے ہوئے اسے گھورنے لگی۔ " یقین نہیں آ رہا ہے تم کہہ رہے ہو جس کی خاطر ہمیشہ ان کی انسلٹ کر دیتا ہوں ۔" وہ گاڑی گیٹ سے نکالنے لگا۔ " پتا ہے مجھے۔۔۔ صبح ان سے کی بات ؟" " تمہارے کہنے پر لڑ کر آیا تھا۔ اب تو خوش ہو جاؤ۔" اس کا لہجہ طنزیہ ہو گیا۔ " یقین تو نہیں آتا۔" اس نے کندھے اچکائے۔ " آج پہلی مرتبہ وہ پیدل گیا اسٹاپ تک، پتا نہیں کب گاڑی ملی ہو گی۔ آج بہت تیز ہو گیا تھا میں بات کرتے ہوئے، سوری کہنے کی بھی ہمت نہیں ہو رہی ۔" " ان کے رویے سے تو ایسا کچھ نہیں لگ رہا تھا۔" اسے یقین نہیں تھا۔ " یہی تو ایک باپ کی اعلیٰ ظرفی ہوتی ہے۔ " وہ پس پشت اس پر فخر کرتی تھی۔ " باپ اور بھائی میں بہت فرق ہے۔" اس نے فوراً ٹوکا تھا۔ " مجھے نہیں پتا باپ کیا ہوتا ہے ، میں نے باپ کے روپ میں بھی اسی صورت کو دیکھا اور بھائی کے روپ میں بھی۔" " ہم کوئی اور بات نہیں کر سکتے اس کے علاوہ۔ " وہ اس کی بات پر بے بسی سے مسکرا کر رہ گیا۔ " اب کیا ہے؟" وہ کافی دیر سے منہ پھلائے بیٹھا تھا چُپ۔ " تم کرو بات میں سن رہی ہوں ۔" "میں کروں گا تو تمہیں برا لگے گا اس لیے تم کرو۔" " طنز کرنا ضروری ہے؟" " یہ طنز نہیں ہے۔ ایک بات بتا دو علینہ! تم کب مجھ سے خوش ہو گی ۔ کب کہو گی کہ میں تمہارے لیے بہت کچھ کرتا ہوں۔ کب مانو گی ؟" " جب تم واقعی میرے لیے کچھ کرو گے اور پھر تمہیں میرا احساس ہو گا۔" " سچ کہتے ہیں ۔۔۔۔ سب سے جلدی خوش ہونے والی ہستی باپ کی ہے اور ہمیشہ نا خوش ہونے والی شوہر کی۔" " تمہاری یہی باتیں مجھے ناپسند ہیں۔" اس کا موڈ بری طرح سے خراب ہو گیا تھا۔ " سچ جو ہیں' بری تو لگیں گی ۔ سیانے کہتے ہیں سچ کا ٹیسٹ بہت کڑوا ہوتا ہے۔" وہ اتنی دیر میں پہلی مرتبہ ہنسا تھا اور اس کا موڈ اور خراب ہوا تھا۔ " اب موڈ ٹھیک کر لو ہم پہنچ گئے ہیں۔ " وہ کہتے ہوئے گاڑی پارک کرنے کی جگہ دیکھنے لگا۔ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا علینہ کے تیزی سے بدلتے رویے کی اصل وجہ کیا ہے۔ وہ لاکھ تجربہ کار سہی مگر اس کے اندر کی چال کو سمجھنا آسان نہیں تھا۔

وہ آخر یہ سب کر کے چاہتی کیا ہے؟ مختلف بہانے ڈھونڈ کر وہ بات کو بڑھا دیتی تھی۔ اس کا تو معمول تھا کالج کے بعد وہ گھر آ کر علی کو اپنے پاس لے آتا۔ اس کے ساتھ کھیلتا اسے کھلاتا پلاتا، اکثر وہ اس کے پاس سوجایا کرتا تھا اور ان دونوں کو کوئی پرواہ نہ ہوتی تھی علی جب سے پیدا ہوا تھا آدھے سے زیادہ علی کی ذمہ داری تھی اس کی تھی وہ دونوں اپنی زندگی میں خوش تھے وہ ان دونوں کے لیے کسی قسم کی ڈسٹربنس کا سبب نہ تھا بلکہ اس کے ہوتے ہوئے وہ ہر ذمہ داری سے بچے ہوئے تھے؛ گھر کیسے چلتا تھا، گھر کی صفائی ستھرائی، ملازموں سے کام لینا، سیلری دینا، کھانا پکانا، راشن کی خریداری سب کچھ اس کے ذمے تھا۔ آفاق دفتر کے بعد گھر آ کر سو جاتا اور شام میں یہ دونوں کہیں باہر چلے جاتے اور رات دیر تک واپسی ہوتی وہ اس گھر میں کئی سالوں سے اکیلا رہ رہا تھا جیسے…

اس نے کبھی کسی قسم کا کوئی شکوہ نہیں کیا تھا آفاق کے ساتھ۔

پھر اس کا صبح والا سلوک جس پر وہ ساری رات جاگ کر سوچتا رہا تھا۔ شام کو آفاق کا رویہ دیکھ کر اس کے دل سے کچھ بوجھ ہٹا ضرور تھا مگر علینہ کا دن بدن بدلاؤ اس کی سمجھ سے باہر تھا۔

کچھ دیر پہلے ہی وہ علی کو اس سے لے گیا، اس نے نوٹ کیا وہ اب علی کو اس کے پاس رہنے نہیں دیتی تھی حالانکہ وہ اسے ٹھیک طرح سے کھلاتا پلاتا بھی نہیں تھا۔ وہ کمزور ہو رہا تھا اور اسے فکر ہو رہی تھی۔ اس نے سوچا علینہ سے کوئی مناسب موقع دیکھ کر بات کر لے۔

شام میں جب علینہ کچن میں کھڑا تھا تو وہ اس کے پاس آیا۔ "کھانا تو میں بنا دیا ہے۔ تم کیا کر رہے ہو علینہ؟" اس نے نوٹ کیا تھا وہ جب فارغ ہو کر کچن سے جاتی تھی تو تب وہ کچن میں آتی تھی۔ اس کی موجودگی میں نہ لاؤنج میں بیٹھتی تھی نہ کچن میں نہ باہر۔ جہاں وہ ہوتا علینہ وہاں سے کھسک لیتی۔ اسے اس کی یہ بچگانہ حرکتیں سخت زہر لگ رہی تھیں۔ اب بھی اس کی بات کا جواب دیے بغیر وہ کام کر رہا تھا۔ "میں پوچھ رہا ہوں تم کیوں کھانا بنا رہے ہو۔ میں نے بریانی بنانی ہے آج تم لوگوں کے لیے۔" "بہت شکریہ آپ کا۔۔۔ آئندہ یہ تکلف کرنے کی ضرورت نہیں ہے میں اپنے لیے خود بناؤں گا اب۔" "اچھا۔۔۔۔۔ علی کہاں ہے، اس نے کچھ کھایا ہے یا نہیں۔" "اس کے بارے میں فکرمند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے آپ کو۔ میں اس کا باپ ہوں۔ اس کے کھانے پینے کا خیال رکھ سکتا ہوں۔" "تم کہنا کیا چاہتی ہو علینہ؟" "جو آپ سمجھنا نہیں چاہتے۔" "دیکھو اگر تمہیں مجھ سے کوئی شکایت ہے تو۔۔۔۔" "کوئی شکایت نہیں ہے۔" اس نے تیزی سے بات کاٹتے ہوئے اس کا ہاتھ جھٹکا۔ "تو پھر تم یہ سب کیوں کر رہی ہو؟ "اس لیے کہ اب آپ ہماری جان چھوڑیں اور ہمیں سکون سے جینے دیں۔" "کیا چھوڑ دوں میں؟" وہ افسوس سے اسے دیکھنے لگا۔ "میرے شوہر کو چھوڑ دیں ۔ مت بھرا کریں اس کے کان۔ زندگی زہر کر دی ہے آپ نے میری، سہہ سہہ کر تھک گئی ہوں میں اس کا تلخ رویہ، اس کی باتیں، اس کی ڈانٹ۔" "وہ تمہیں ڈانٹتی ہے۔۔۔۔ میں بات کروں گا اس سے۔"


Post a Comment for "ایک اجنبی ملاقات-2"