"سر! آج اپنی شادی کی تصویریں دکھائیں گے؟" اس نے کام کرتے کرتے اچانک عجیب سی بات کی اور پھر استاد محترم کے بگڑتے تیور دیکھ کے سہم گئی۔ "معاف کیجئے گا سر! شاید مجھے اس طرح نہیں کہنا چاہیے تھا۔" "ہاں میں وہی سوچ رہا تھا..... یہ اچانک لکھتے پڑھتے تصویروں کی کیا سوجھی۔"
پھر وہ بھی چپ ہو گئی اور رجسٹر پر اس کی آنکھیں جم سی گئیں۔ اچھے بھلے لفظ ٹوٹے ٹوٹے سے اور دن کی روشنی میں ڈھلتے سائے جیسے ماحول سے اکتاہٹ سی ہونے لگی۔
"تم کام ختم کر لو پھر دیکھ لینا۔" اب کے کمرے کا سکوت بیگم صاحبہ نے توڑا جو وہاں چائے کے خالی مگ اٹھانے آئی تھیں۔ استاد محترم پان بنانے لگے۔ کمرے میں پاندان کی کھڑکھڑاہٹ سے ترنم پھوٹا ورنہ ایسا لگ رہا تھا، آمنہ نے بہت ہی غلط بات کر دی۔ چائے کے برتن کچن میں دھو دھلا کے رکھنے کے بعد وہ کمرے میں لوٹیں تو استاد محترم کو بلند آواز میں ریاضی کا کوئی فارمولا ڈسکس کرتے دیکھا۔ آمنہ کے ہاتھ جلدی جلدی چل رہے تھے۔ اس گہرے انہماک کے باوجود اس کی نظر البم پر پڑی تو وہ بیگم صاحبہ کو دیکھ کر مسکرا دی۔
"تھوڑی دیر بریک کر لیں۔" بیگم صاحبہ نے فرمائش بھی کی اور سفارش بھی، جسے استاد محترم نے مان لیا۔
آمنہ نے بہت خوشی سے البم کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
"بھئی کیا رکھا ہے اب پرانی تصویروں میں۔ شادی بھی پرانی بلکہ ہم بھی پرانے آؤٹ ڈیٹڈ۔" اچانک ان کی نظریں بیگم کی طرف اٹھیں تو جملہ ادھورا چھوڑ کر آمنہ کی جانب متوجہ ہو گئے۔
ایک تصویر میں نظر آ رہا تھا کہ پتھر کی اینٹوں سے بنا ایک صحن ہے چھوٹا سا اور کچھ لوگ سہرا بندی میں حصہ لے رہے ہیں۔
"یہ آپ کی بھابھی ہوں گی۔ آنکھوں میں سرمہ تو وہی لگایا کرتی ہیں۔" آمنہ خوش ہو کر بولی۔
"اگر بڑی بہن ہوں تو یہ ذمہ داری بہن کی ہوتی ہے۔ باقی رسماً کوئی بھی بھابھی لگا دیتی ہے۔" بیگم صاحبہ نے وضاحت کی۔ دراصل یہ ان کی بڑی بہن ہیں جو اب کینیڈا منتقل ہو گئی ہیں۔
"سر! آپ بہت اسمارٹ لگ رہے ہیں۔" آمنہ نے دولہا اپنے سر کے بارے میں رائے دی۔
"ہاں دیکھیے! اتنا خوب صورت تھا میں کسی زمانے میں۔" استاد محترم کی آنکھوں میں جگنو سے چمک اٹھے۔
"اب بھی ہیں سر!" آمنہ کے بے ساختہ تبصرے پر ردعمل کچھ یوں ہوا کہ کمرے میں تینوں کے قہقہے گونج اٹھے۔
"آپ بھی اچھی لگ رہی ہیں۔"
آمنہ نے دلہن دولہا کی تصویر میں والہانہ پن دیکھ کر دھیرے سے کہا۔ بیگم صاحبہ ہولے سے مسکرا دیں۔
"سب یہی کہتے ہیں۔" انہوں نے بات آگے بڑھائی۔
"یہ کون ہیں؟ اچھا سر کے بھائی بہن۔ اچھا یہ ابو امی ہیں اور آپ کے گھر والے، اچھا۔۔۔۔ واہ! اس خاتون نے بہت بڑھیا سوٹ پہنا ہوا ہے۔ آپ نے زیور کہاں سے بنوایا تھا؟ بہت خوب صورت ہے۔ عروسی جوڑا بھی اچھا ہے مگر یہ نیکلس۔ کیا یہ ولیمہ کی تصاویر ہیں؟" وہ سوال بھی کر رہی تھی اور جواب بھی خود ہی دے رہی تھی۔ اس لمحے وہ بہت اچھی لگ رہی تھی۔
"جی۔۔۔۔۔ ان دنوں نیلا، سبز، ارغوانی یا فیروزی رنگ ہی ولیمہ پر پہنا جاتا تھا۔" "نہیں۔۔۔۔ نہیں ابھی بھی کم و بیش ایسا ہی رواج ہے۔" وہ بڑے دلار سے تصویریں دیکھ رہی تھی۔
"مگر اب تو گولڈن اور آف کلرز بھی فیشن میں اِن ہیں ناں۔ پہلے انہیں مرکزی اہمیت کہاں دی جاتی تھی۔"
"تم اپنی شادی پر کیسا جوڑا بنواؤ گی بیٹا؟" بیگم صاحبہ نے ہولے سے پوچھا۔ اس وقت استاد محترم کسی کا ایس ایم ایس پڑھنے میں مشغول تھے۔ "پتا نہیں۔ ویسے مجھے بھی آف وائٹ یا آف پنک ہی پسند ہیں، لیکن آپ تو جانتی ہوں گی۔ شادی میں اپنی مرضی کہاں چلتی ہے۔ جو سسرال والے لے آتے ہیں وہی جوڑا پہن لیا جاتا ہے۔ بہت کم لوگ مشورہ کر کے خریداری کرتے ہیں۔" اس کے چہرے پر شرم کی سرخی کے بجائے زردی سی اتر آئی تھی۔
"کہیں بات بات طے ہوئی ہے کیا؟" بیگم صاحبہ نے بات طویل کرنا چاہی۔
"رشتے تو آتے ہیں مگر یا تو بیرون ملک قیام کرنے والوں کے یا پھر اس قدر لالچی کہ کاروبار کرنے یا ملازمت دلانے کے چکر میں الجھے رہتے ہیں۔ فرمائشیں ہی ختم نہیں ہوتیں لوگوں کی، جہیز بھی منہ کھول کے بے غیرتوں کی طرح مانگتے ہیں جیسے شادی کا بندھن نہ باندھ رہے ہوں۔ بیٹا بیچ رہے ہوں۔ ایسے میں کوئی فیصلہ آسانی سے نہیں ہو سکتا۔" وہ ایک ہی سانس میں بولے چلی گئی۔
"ہاں یہ مسئلے مسائل تو ہیں۔۔۔۔۔ بڑی ناہمواری ہے معاشرے میں اور مایوسی بھی ہے لوگوں میں۔۔۔۔ نفرت اور خود غرضیوں کے ایسے ہی کئی واقعات سننے میں آ رہے ہیں۔"
"نفرت بھی ایسی ویسی۔ مہاجر پنجابیوں میں رشتہ نہیں کرنا چاہتے۔ پنجابی پٹھانوں سے فاصلے پر رہتے ہیں۔" آمنہ نے پتے کی بات کہی۔
"بات یہ ہے کہ بعض دفعہ ایڈجسٹمنٹ دشوار ہو جاتی ہے، اس لیے بھی قوم پرستی کا رجحان غالب آ رہا ہے۔" بیگم صاحبہ نے اپنے تجربے کی روشنی میں بات کی۔
آپ کی شادی میں کیسے حالات رہے تھے؟ کیا اس وقت عصبیت اسی طرح تھی اور خاندان میں ہی رشتہ کرنے کی روایت نہیں تھی؟" آمنہ نے استاد محترم کی تصویر البم سے الگ کرکے ایک جانب رکھ دی مگر بیگم صاحبہ نہ جانے کس دھیان میں تھیں۔ ان کی نظر بھی نہ پڑی۔
"خاندان میں شادی کرنے کی روایت اب ماضی کا قصہ بنتی جا رہی ہے۔ شاید بچے میڈیکل سائنس اتنا جان چکے ہیں کہ انہیں جین میں پلنے والی بیماریوں کا سبب معلوم ہو چکا ہے۔ میری بیٹی بھی خاندان میں شادی نہیں کرنا چاہتی جبکہ اس کے ماموں اور چچا کے ہاں ایک بہتر میچ موجود ہے۔ وہ مذاق ہی میں سہی مگر کہہ رہی تھی یہ میچ فکسنگ کی غلطی کبھی نہیں کرنی چاہیے۔ خمیازے میں بیچارے بچے معذور ہو کر زندگی کی قید کاٹنے پر مجبور کر دیے جاتے ہیں۔ میں بھی اسی خیال کی پروردہ ہوں۔"
"اچھا بھئی بریک ختم۔ اب آپ سمیٹیں تصویریں اور انہیں کام مکمل کرنے دیں۔" استاد محترم نے بیگم صاحبہ کو ٹوک دیا۔
"جی اچھا ویسے بھی میرا آلو گوشت تیار ہونے کو ہے اور عصر کی نماز بھی پڑھنی ہے۔" بیگم صاحبہ یہ کہہ کر صحن میں آئیں۔ "کافی ذہین لڑکی ہے مگر پتا نہیں کیوں میتھس میں مار کھا جاتی ہے۔" انہوں نے دل ہی دل میں سوچا کہ "اس کی شادی کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ اب بھلا لڑکی خود تو کسی سے کچھ کہہ نہیں سکتی۔"
استاد محترم نے انہیں نماز سے فارغ ہوتے دیکھا تو چائے کی ایک پیالی کی فرمائش کر دی۔ وہ تھوڑی دیر کے بعد جب چائے کی ٹرے لے کر اندر گئیں تو تھوڑی سی حیرت ہوئی۔ آمنہ بجائے پڑھائی کے ان سے جوتا چھپائی اور دودھ پلوائی کی رسموں کے بارے میں معلومات حاصل کر رہی تھی۔ پڑھائی کب ہو گی؟ دو گھنٹوں سے تو شادی کی مووی کو ری وائنڈ کرکے دیکھا جا رہا ہے۔ وہ استاد محترم کی طبیعت سے خوب واقف تھیں۔ اچھے خاصے موڈی انسان تھے۔
شام رات میں ڈھلنے لگی تو دونوں میاں بیوی معمول کے مطابق کھانا کھا کے ٹہلنے نکلے۔ آج بھی ریلوے اسٹیشن تک گئے۔ کچھ ہی دیر وہاں بیٹھے تھے کہ اچانک یاد آیا نہ گھر میں ماچس ہے نہ دودھ۔ دیر کی تو کہیں دکانیں نہ بند ہو جائیں۔ اس لیے وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ سارے راستے وہ دونوں چپ رہے۔
اگلے روز سہ پہر کو آمنہ آئی تو اس کے ہاتھ میں پھولوں کا چھوٹا سا مگر بہت خوب صورت بوکے تھا۔
ج میری سالگرہ ہے ۔ " رسما " دونوں کی طرف سے سالگرہ مبارک کہا گیا۔ آج اس کا پڑھنے کا کوئی موڈ نہ تھا۔ مسز انصاری نے جھٹ پٹ ایک کیک منگوایا اور ہلکی پھلکی باتیں شروع ہو گئیں ۔ شادی کے جوڑوں کا ذکر ایک بار پھر نکل آیا تو وہ بولی۔
" اب تو گرین، سلور' پیچ اور سی گرین ہر قسم کے رنگ فیشن میں ہیں۔ میری کزن نے حال ہی میں نیوی بلیو کلر اور سلور کومبی نیشن سے عروسی جوڑا تیار کروایا۔ اس کے سسرال والے ہیروں کا سیٹ پہنانا چاہ رہے تھے تھے ہاں آنٹی! ساشا نے زور دے کر بتایا۔
" ویسے آج کل لندن کے سیٹس بھی فیشن میں اِن ہیں۔ لوگ بڑے چاؤ سے جڑاؤ زیورات بنا رہے ہیں۔ سنا ہے کہ ایک لاکھ میں بڑے شاندار سیٹس مل رہے ہیں۔
" ایک۔۔۔۔ ل۔۔۔۔۔ لاکھ ۔" اس کی آواز گھٹ سی گئی۔ یہ دو حرف بڑی مشکل سے اس کے منہ سے نکلے۔
" سونا تو بیٹا! اس سے بھی مہنگا ہوچکا ہے۔ اب بڑی مشکل سے شادی کے اخراجات پورے ہوتے ہیں۔ میرا مطلب ہے ملازمت پیشہ اور خاص کر متوسط طبقے والوں کے لیے بڑی آزمائش کا دور ہے۔"
" وہ آنٹی ! امی کہہ رہی تھیں۔ آپ سے ملنے کو جی چاہتا ہے۔ کل لے آؤں انہیں ؟" وہ اسی طرح گرم جوشی سے بولتی تھی۔
" ہاں ہاں کیوں نہیں یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ اچھا اب اپنی پڑھائی کر لو بہت ٹائم لے لیا میں نے۔" وہ جانے لگیں تو ایک اچٹتی سی نظر انصاری صاحب پر پڑی ۔ وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں غصے کا اظہار کر رہے تھے۔
وہ چائے کے بکھرے ہوئے برتن سمیٹتے ہوئے سوچ رہی تھیں۔ کیا کیک منگوا کر غلطی کی ' کیا مجھے گرمجوشی سے سیلیبریٹ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ مگر اس وقت تو وہ بہت خوش تھے۔ انہوں نے کچن میں آ کر بڑی دلچسپی سے ناشتے کی ٹرالی سجی دیکھی تھی۔ ہمارے گھر میں تنہائی کے علاوہ رہتا کون ہے۔ ایک یہی تو لڑکی آتی ہے جو ذرا ہنس بول کر دو گھنٹے گزار دیتی ہے اس کے بعد تو ہمیں عینی کے فون ہی کا انتظار رہتا ہے۔ اب یہ رخصت ہوگی تو پتا چلے گا۔ وہ معمول کے کاموں میں لگ گئیں ۔
جاتے وقت وہ چپل گھسیٹتی ہوئی صحن میں آئی۔
" اچھا آنٹی! جا رہی ہوں بہت شکریہ آپ کی نوازش کا۔"
"ہم تمہیں اپنی بیٹی ہی سمجھتے ہیں۔ " انہوں نے آگے بڑھ کر ساشا کا ماتھا چوما' وه سلام کر کے روانہ ہو گئی انصاری صاحب حسب معمول اپنے ایس ایم ایس دیکھنے لگے۔
صحن میں چاول صاف کرتے ہوئے مسز انصاری کو خیال آیا کہ کیوں نہ کل جب ساشا کی امی آئیں تو وہ انہیں کھانے پر روک لیں ۔ مرو تاََ انکار تو کریں گی لیکن اچھا نہیں لگتا یوں چائے اور ہلکے پھلکے ناشتے کے بعد رخصت کر دینا۔ اسی بہانے وہ دانیال کے رشتے کی بات چھیڑ کے دیکھیں گی۔
دانیال ان کے دور پار کے رشتے داروں کا بیٹا تھا۔ اپنی ذاتی فرم قائم کر چکا تھا۔ پویش ایریا میں رہنے اور اعلیٰ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد بھی اس گھرانے کی سوچ میں عاجزی انکساری اور غریب پروری موجود تھی۔ ایسا فی زمانہ ہوتا کہاں ہے۔ دنیا مادہ پرستی کے جال میں الجھی ہوئی ہے لیکن دانیال کی امی ابو نے انصاری فیملی کو اس کے رشتے کے لیے کوشش کرنے کو کہا تھا۔
" پروفیسر صاحب کی کوئی شاگردہ دیکھ لیں بھابھی!" پچھلے ہی ہفتے دانیال کی امی صادقہ نے فون پر رائے دی تو ان کے ذہن میں ساشا اور اس کی بہنوں کا خیال آیا۔ اس کے بعد خاندان میں دو شادیوں کی مصروفیت آڑے آ گئی۔ اب ساشا نے امی کے ملنے کا خیال ظاہر کچھ کیا تو وہ ارادہ کر چکی تھیں کہ انہی کو دانیال کے والدین سے ملائیں گی۔ رات گئے جب وہ کھانے سے فارغ ہوئے تو انہوں نے پروفیسر صاحب سے یہ ذکر چھیڑا ۔ وہ اس وقت چائے پی رہے تھے۔ ایک دم پرچ پر پیالی جماتے ہوئے انہوں نے گھور کر بیوی کو دیکھا۔
" آپ کو کس نے کہا اس بکھیڑے میں پڑنے کے لیے پرائے بچوں کی ذمہ داریاں کیسے لے سکتی ہیں؟"
" دانیال اپنا ہی بچہ ہے۔ عینی اسے بھائی جان کہتی ہے اور وہ بھی بہنوں جیسامان نبھاتا ہے ورنہ میں اپنی بیٹی کی فکر پہلے کرتی۔ دوسرے ساشا کی فیملی بھی دیکھی بھالی ہے۔ اس کی بڑی بہن کے لیے پریشان رہتی ہیں
اس کی امی -"
" آپ کو پتا ہے منگنی ہو گئی ہے اس کی پچھلے ہفتے اور رہ گئی ساشا تو اس لڑکی کے دماغ بہت اونچے ہیں اور وہ آپ کو کیا پڑی کہ سوشل ورک کریں۔" وہ جھلا سے گئے۔
" منگنی کا تو خیر مجھے پتا نہیں تھا اور لڑکیوں کے جتنے بھی اونچے دماغ ہوں، رشتہ والدین کو بھا جائے تو آپ ہی آپ سمجھ جاتی ہیں۔ "
" بہرحال آپ کو یہ صلاح مشورہ دینے کی ضرورت نہیں۔" وہ اٹھے اور واش روم میں چلے گئے ۔
انہوں نے بھی بحث کرنی ضروری نہیں سمجھی۔ وہ دوسرے واش روم میں عشاء کی نماز کے لیے وضو کرنے چلی گئیں مگر دماغ الجھ سا گیا تھا۔ کہاں تو اپنے ہر شاگرد کے بلا تخصیص جنس ، نسل اور مذہب ہمدرد اور مشفق بزرگ کم دوست زیادہ مشہور تھے ۔ کالج کے میگزین میں ان پر نظمیں اور مضامین شائع ہوتے تھے۔ گھر تھا یا سماجی ادارہ یہ انہوں نے کبھی مختلف نہ جانا۔
" بیسیوں طلبا کو علم کی روشنی دینے والا طلسماتی کردار' ایک شجر سایہ دار کہ جس کی شاخیں زمین پر پھیلی اور جڑیں علم کے خزینے میں پیوست تھیں۔ ایک نظریہ علم کی تہذیب اور ایک تاریخ ساز حقیقت' وہ فیصلہ نہیں کرپاتی تھیں کہ انصاری صاحب کی تلخ باتیں سن کر بھی ان سے ناراضی کیوں نہ ہوتی مگر ساشا کے معاملے میں وہ انہیں لا تعلق رہنے کے لیے زور دے رہے تھے۔ انہوں نے سر جھٹک کے دھیان بدل دیا۔
ینی کا آسٹریلیا سے فون آ گیا تو موڈ اور بھی اچھا ہو گیا۔ وہ سڈنی سے میلبورن جا رہی تھی۔ جس کے قصے اس کے ساتھی طلبا بہت سناتے تھے۔ وہاں کے نباتاتی باغ' ہیٹن ٹائل' مختلف میوزیمز دیکھنے کا شوق پورا ہو گا۔ اس خیال سے وہ بہت خوش تھی۔
" امی! آپ بھی کچھ روز کے لیے یہاں آجائیں۔ دیکھیں ، یہ شہر بہت خوب صورت ہے ۔ یہاں نہ دہشت گردی کا خطرہ ہے نہ لوٹ مار دنگا فساد ہوتا ہے' لوڈ شیڈنگ ، سی این جی ' ایل پی جی ، پیٹرول کا کوئی بکھیڑا نہیں ہے۔ سب مطمئن ہو کر اپنا کام کرتے ہیں اور موسم بھی اچھا ہے۔ وہ تعریفیں کرتی جا رہی تھی۔
" مگر بیٹا ! میں اور تمہارے ابو کانووکیشن پر ہی آ سکیں گے۔ اس سے پہلے ہمارا نکلنا مشکل ہے۔ اچھا بتاؤ' ماموں جان کے ہاں گئی تھیں؟"
" نہیں وہ آ گئے تھے ۔ شاید بھائی نیو یارک جا رہے ہیں' وہ ملنے آئے تھے۔ امی! انہوں نے مجھے بہت خوب صورت سی جیکٹ لے کر دی ہے۔
" اچھا۔۔۔۔ اچھا میں شکریہ کا فون کروں گی۔"
" نہیں میں نے شکریہ ادا کر دیا تھا۔" عینی نے فورا" جواب دیا ۔
" اچھا میری بیٹی سمجھ دار ہو گئی ہے۔ ورنہ تم تو کہا کرتی تھیں، قریبی دوستوں اور عزیزوں کے درمیان شکریہ کا رشتہ نہیں ہوتا ۔"
" جی اب میں سمجھ گئی ہوں۔ شکریہ نہ کہنا بد اخلاقی میں شمار ہوتا ہے۔ لوگ دوستیاں ختم کر دیتے ہیں امی! اور دوستی ختم کرنا کم از کم پردیس میں افورڈ نہیں کر سکتی۔" عینی اپنی عمر سے بڑی بڑی باتیں کرنے لگی تھی ۔
" دوستی کہیں بھی ختم کرنے کے لیے نہیں ہوتی۔ اچھا چلو اپنا خیال رکھنا۔ پیسوں کی ضرورت نہیں؟"
" امی! میں نے اپنی پرانی جیکٹ سیل کر دی۔ آپ کو پتا ہے مجھے یہاں لیدر گڈز کے آؤٹ لیٹ پر کام مل گیا ہے۔ اس لیے تو میں میلبورن جا رہی ہوں۔
ہماری ایک برانچ وہاں بھی ہے۔ شکر ہے امی! مجھے انگریزی آتی ہے ورنہ میں خوار ہو جاتی یہاں۔"
”ہاں یہ فیصلہ تو اچھا ہی کیا ہم نے تاکہ اولاد پھل کھا سکے۔"
" شکر ہے امی ! میری اسکولنگ بہت اچھی ہوئی ۔ پاپا کہاں ہیں۔ میری بات کروا دیجئے۔" وہ بہت جلدی میں تھی۔
مسز انصاری نے فون انہیں تھما کر بیڈ کے سرہانے بیٹھنا چاہا تو انہوں نے اشارے سے انہیں رخصت ہونے کو کہا " کمال ہے بیٹی کا فون ہے۔ ایسی کیا بات کرنی ہے ، جو میں چلی جاؤں۔" وہ چونکیں مگر کمرے سے باہر آ گئیں۔ یقیناً اس بائیس سالہ زندگی کے تئیسویں برس لگنے تک ہم دونوں کے درمیان دوستی کا رشتہ استوار نہ ہو سکا ۔ شاید وہ قربت اور رفاقت کی کشمکش بھی نہیں اور شاید اسی لیے ہم جذباتی سطح پر بھی ایک ساتھ نہیں چل پا رہے۔ مگر مجھے یہ پریکٹس جاری رکھنی ہے۔ مسز انصاری نے اپنے آپ کو نیا حوصلہ دیا۔ زندگی کا ایک رنگ جذباتی بحران کا بھی ہوتا ہے۔ جس سے نکلنے کے لیے نہایت صبر آزما حالات کو جھیلنا پڑتا ہے۔
.رات کا کھانا دونوں نے خاموشی کے ساتھ کھایا۔ بیسنی روٹی کے ساتھ ٹماٹر کی چٹنی میں سرخ مرچیں مقدار میں کچھ زیادہ ہو جانے پر بھی وہ ناراض نہیں ہوئے۔ پہلے وہ سہمی ہوئی تھیں مگر جب انہیں چپ چاپ کھانا کھاتے دیکھا تو شکر کہہ کر خود بھی کھانے میں محو ہو گئیں۔
آج عینی بہت خوش تھی ۔ میلبورن جا رہی ہیں عینی اور فاطمہ ۔ مسز انصاری نے کمرے کے سکوت کو توڑا۔
" ساشا اس کے لیے ایک گھڑی دے کر گئی ہے میں نے اسے بتایا تو وہ بہت خوش ہوئی۔ " انہوں نے گلاس میں پانی انڈیلتے ہوئے بتایا۔
"اچھا۔۔۔۔۔ مجھے بھی دکھائیے۔"
وہاں رکھی ہے' پہلے کھانا کھا لو۔ میں کتاب پڑھنے میں ایسا مشغول ہوا کہ تمہیں بتا بھی نہ پایا ۔ "
کھانے کے بعد وہ چائے پیا کرتے تھے۔ جب وہ چائے لے کر کمرے میں گئیں تو انہوں نے خوب صورت پیکنگ والا ایک ڈبا انہیں تھما دیا۔
" یہ تو بڑی قیمتی معلوم ہوتی ہے۔ " انہوں نے لرزتے ہاتھوں سے پیکنگ کھولی۔
" تحفہ دینے والے کا خلوص دیکھنا چاہیے۔ برانڈڈ گھڑی ہے جنیوا کی۔" انہوں نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔
" مگر آج تو اس کی اپنی سالگرہ تھی۔ میں تو کچھ لاتے لاتے رہ گئی۔ اسی لیے کیک منگوایا تھا۔ اگر مجھے پتا ہوتا۔۔۔۔۔"
" اب ایک احسان کرنا کل اسے شکریہ کہنے کی ضرورت نہیں۔ نہ ہی اس کے والدین کے سامنے اس کا ذکر کرنا ہے۔۔۔۔ دے دیا تحفہ تو دے دیا۔ بچوں نے اپنی پاکٹ منی رکھی ہوئی ہے ان کاموں کے لیے اور ساشا کوئی عام لڑکی نہیں کہ جسے صرف اپنی ذات پر پیسہ خرچ کرنے کی دھن سمائی رہے۔"
" جی دل کی بڑی اچھی لڑکی ہے' جب ہی تو میرے ذہن میں دانیال کے جوڑ کا خیال آیا تھا۔"
" ارے تم اب بھی اس چھچھورے لڑکے کے لیے پریشان ہو۔۔۔۔ کوئی جوڑ نہیں۔۔۔۔ اور پھر لڑکے کو لڑکیوں کی کیا کمی۔ ادھر یہ لوگ پتا نہیں کس طرح کا داماد سوچے ہوئے ہوں۔ نہ بن پائی تو سارا الزام ہمارے سر پر آ جائے گا۔ نبھ گئی تو کہیں گے ہماری بیٹی کا مقدر بہت اچھا تھا اور تم کب سے مشاطہ بن گئیں۔ تمہیں غرض کیا ہے دانیال کے والدین سے؟"
وہ اپنا نقطہ نظر بیان کر چکے تو وہ دھیرے سے اٹھیں اور سونے کا لباس الماری سے نکال کر واش روم میں چلی گئیں۔ گھڑی وہیں سائڈ ٹیبل پر رکھی تھی۔
وہ صلح جو قسم کی عورت تھیں ۔ جب پچھلے دو ایک دنوں میں وہ اپنا نقطہ نظر ظاہر کر چکے تھے تو اب ایک بار پھر پرانی بحث کو ازسرنو چھیڑنے کا کوئی مطلب کہاں باقی رہ جاتا تھا۔ وہ عمر کے اس دور میں نہیں تھے جب میاں بیوی ایک ساتھ ایک کمرے اور ایک بستر کو مل بانٹ کے بڑے دلار سے رات گزارتے ہیں۔ انہوں نے شب خوابی کا لباس پہنا۔ دانت صاف کیے ایک بار پھر وضو کیا اور اپنے کمرے میں آ کر پنکھا آن کیا ۔ بستر جھاڑا ۔ چادر نکالی اور بستر پر دراز ہو گئیں ۔ آیت الکرسی' زبانی حفظ کردہ سورتیں اور کلمہ شریف جو کچھ
اد آتا رہا پڑھتا رہا۔ " ٹھیک ہے ہمارے بیٹے کو تحفہ دیا لیکن کیا میں آؤٹ سائیڈر ہوں جو مجھے اسی وقت نہیں دکھایا گیا۔" گھوم پھر کے وہی خیالات اور اپنی کم مائیگی کا احساس ستانے لگا۔ پتا نہیں کتنی رات گئے تک برابر والے کمرے کی بتی جلتی رہی اور نہ جانے آنکھوں کے گوشے کتنی بار بھیگے۔ پھر انہیں نیند آ گئی۔ وہ ذہنی طور پر تیار ہو کر سوتے تھے کہ ایک آدھ گھنٹہ نیند لے کر تہجد کے لیے بیدار ہونا ہے۔ اس رات اتفاق سے مسز احمد کے بستر پر وہ چادر رکھنا بھول گئے۔ اچانک رات ڈھائی بجے ان کی آنکھ کھلی۔ بہت زیادہ محبت کرنے والے شوہروں کو بیویوں کی بے آرامی اور تکلیف چین سے نہیں بیٹھنے دیتی۔ گو کہ مسز احمد کو ناراض رہنے کی ایک عادت سی تھی مگر وہ سمجھتے تھے کہ اندر سے بہت نرم دل اور اچھے انسان ہیں۔ اگر تلخ ہو بھی جاتی ہیں تو یہ شاگردوں کی نالائقی کا ردعمل ہوتا ہے۔ یہی مسز احمد ہیں، جو طویل سفر پر نکلتے سارا وقت ان کا ہاتھ تھامے رہتیں خصوصاًََ سڑک پار کرتے وقت تو وہ کبھی بھی انہیں تنہا نہیں چھوڑتی تھیں۔ ان کے ساتھ کئی آسان سی راتیں اور آسان سے دن گزرے تھے۔ جیسے دن رات کے اصول ضابطے قدرت نے بنا دیے تھے۔ ان کے گھر گرہستی کے زاویے بھی اسی طرح تشکیل پا چکے تھے مثلاََ روزانہ بیڈ ٹی بنانی ہے۔ صاحبہ کو جگانا ہے۔ سردیوں میں ادرک کی چائے گرمیوں میں دودھ پتی یا کبھی کبھار جوشاندے والا قہوہ۔ تازہ پھول چن کر گلدان سجانا، انڈا ابالنا وہ بھی اگر دیسی مرغی کا ہو، کپڑے استری کرنا اگر مسز احمد کا باہر جانے کا موڈ ہو۔ اگر وہ آرام کر رہی ہوں تو سبزی والے کی دستک سے پہلے دروازہ نیم وا کر کے اس کا انتظار کرنا کہ کہیں اس نے بیل پر انگلی جما دی تو مسز احمد ڈسٹرب ہو جائیں گی اور جینئس آدمی کا ڈسٹرب ہونا اچھا نہیں ہوتا۔ گھر میں کام کرنے والی آئے گی۔ وہ تکلفاً "صفائی" کرے گی باقی سارا بکھرا گھر سمیٹنا مسٹر احمد کا کام ہے۔ بازار کا سودا سلف، مہمان داری طلبہ و طالبات اور عزیز و اقارب سب ہی کو عمدہ معیار کی مہربانی کا ہنر پیش کرنا اس خاندان کا تمدن بن چکا تھا۔ اللہ نے اولاد میں صرف ایک بیٹی دی تھی جسے اسکالر شپ پر سڈنی جانے کا موقع ملا تھا۔ میلبورن میں مسٹر احمد کے بھائی معظم احمد بزنس کرتے تھے ان کا سڈنی آنا جانا لگا رہتا تھا اس لیے بھی عینی کے باہر جانے کا مسئلہ نہیں رہا۔ یوں بھی اس لاڈلی لڑکی کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا اور خود مختاری سے زندگی کے کچھ فیصلے کرنے کے لیے وقت دینا ضروری تھا۔ چنانچہ وہ آسٹریلیا میں بزنس پڑھنے لگی اب ہر دوسرے تیسرے روز ای میل یا فون پر اپنے دن بھر کی روداد بتاتی تو ان کی تنہائی دور ہو جاتی تھی۔ مسٹر احمد ہر روز رات کو لیپ ٹاپ آن کر کے بیٹھ جاتے کہ شاید آج عینی اسکائپ استعمال کرے اور وہ اسے دیکھ سکیں، بات کر سکیں لیکن شاید وہ بہت مصروف تھی۔ آج پھر اچانک ایک میسج کرنے کے بعد وہ اسکائپ پر آ گئی۔ اس کا چہرہ آج اترا اترا سا لگا۔
" کیا ہو گیا کمزور کیوں لگ رہے ہو۔" " ابو! میری روم میٹ مسٹر جان بیمار ہے اور مجھے واش روم، کچن اور اپنا کمرہ خود صاف کرنا پڑا اور وہ تین دن کے لیے ہانگ کانگ جا رہا ہے ۔" وہ کہہ رہا تھا " یہ تو ہوتا ہے کبھی کبھی۔۔۔۔ یاد کرو، میں نہ کہتا تھا کہ گھر کے کاموں میں دلچسپی لیا کرو۔ لڑکے کام کرتے ہوئے اچھے لگتے ہیں اور یہ تو ہلکی پھلکی سی ورزشیں ہیں ان سے کیا گھبرانا۔ تمہارا کیا خیال ہے پاکستان میں ہم ماسیوں پر کلی انحصار کر سکتے ہیں۔ میں تو روزانہ اس کے ساتھ لگتا ہوں ۔ آخر میں پتا چلتا ہے کہ اسے تو آسانی نصیب ہو رہی ہے اور کھپ میں رہا ہوں۔" " ابو! آپ کو تو عادت ہے دعائیں لینے کی۔" " بیٹا! دل لگا رہتا ہے۔ توجہ بھی بنتی ہے اور کوئی بھی کام بد قسمتی، مجبوری یا مصیبت سمجھ کر نہ کرو تو۔۔۔۔۔ " " معاف کیجئے گا ابو! قطع کلامی ہو رہی ہے یہاں تو روم میٹ اچھا ملنا قسمت والوں کی نشانی ہے۔ ہم ایسے خوش قسمت کہاں۔ اچھا پاپا کیسے ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔" " ان کے اسٹوڈنٹ چلے گئے ہیں اور اب وہ ٹیکسٹ میسجز میں فلسفے کی گتھیاں سلجھا رہے ہیں۔ " " ساشا آج کل بڑی مہربانیاں فرما رہی ہیں۔۔۔۔ ہر صبح کو سلام کا میسج کر رہی ہیں اور ادھر ادھر کی باتیں بھی اور سنا ہے انہوں نے میرے لیے گھڑی کا تحفہ بھیجا ہے۔" "جی۔۔۔۔ بڑی تابعدار اور ہونہار شاگرد ہے۔۔۔۔ رونق سی لگا دیتی ہے ہمارے گھر آ کر۔۔۔۔۔ تم کو کوریئر کروا دوں گھڑی یا رکھی رہنے دوں جیسا کہو۔" " میرے پاس ہے۔۔۔۔۔ بہت اچھی گھڑی ۔ آپ پہن لیجیئے اور ہاں ذرا خیال رکھیے مجھے تو بڑی شاطر سی لگی ہیں محترمہ ساشا۔ " "چھوڑو ایسی کوئی بات نہیں چلو یہ بتاؤ کیا پکایا ہے آج؟" " ماش کی دال۔ آلو کے کباب اور ایک بن رکھا ہوا ہے جو میں لایا تو دو روز پہلے تھا مگر موسم اچھا ہے خراب نہیں ہوا، وہی کھا لوں گا ۔ ابو! آپ جو دیسی مکھن کے ساتھ روٹیاں بناتے تھے۔ لہسن اور ادرک کا تڑکا لگا کر ماش کی دال بناتے تھے۔" " اب نہیں چپڑی ہوئی روٹی بناتا اب تو سادہ سی چپاتی بناتا ہوں۔ اب ہم کوئی بچے تو ہیں نہیں کہ جنہیں ایسی توانائیاں درکار ہوں۔ کولیسٹرول نہ بڑھ جائے، بلڈ پریشر نہ ہو جائے یہی دھڑکا لگا رہتا ہے مگر تم تو مکھن پنیر کھایا کرو۔" "تاکہ میں وطن لوٹوں تو ٹھیک ٹھاک وزن بڑھا کے آؤں اور پھر سلمنگ کلینکوں کا دورہ کرنا شروع کر دوں۔"
"اچھا یہاں تو رات کے ڈیڑھ بج رہے ہیں بیٹا! اب میں سونے جا رہا ہوں۔" یوں ہنستے ہنستے ان کی آج کی بات چیت اپنے اختتام کو پہنچی۔ اتنے میں مسز احمد کمرے میں آئیں اور لیپ ٹاپ اٹھا کر چل دیں۔ وہ سونے کے لیے بستر جھاڑنے لگے تو وہ بولیں۔ " میاں صاحب! کیا آج پھر صاحبزادے سے چیٹنگ کی ہے۔" "جی!" وہ ہولے سے بولے۔ " جب ہی تو چہرہ کھلا کھلا سا لگ رہا ہے۔ کیا چیز ہے اولاد کی محبت بھی اب مجھے عینی کے چلے جانے کے بعد اولاد کی کمی کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔۔۔۔۔ جی چاہتا ہے دوسری شادی کر لوں۔ کچھ تو زندگی کی تنہائی دور ہو۔" وہ چلتی پھرتی ایسی باتیں کرتی تھیں۔ شاید ان ہی باتوں کی وجہ سے مسٹر احمد بجھے بجھے سے رہنے لگے تھے۔ تنہائی تو ان کی بھی بڑھی تھی جب ہی تو وہ ساشا اور دوسرے بچوں سے التفات برتنے کی کوشش کرتے تھے۔ وہ اس رات بھی بستر پر لیٹے تو پچھلے کئی زمانے یاد آ گئے۔ پہلا مس کیرج، دوسرا، تیسرا اور چوتھی اولاد عینی اور پھر قدرت نے جیسے رحمت کی آنکھیں ہی موڑ لیں۔ سینے میں غبار اٹھتا رہا۔۔۔۔۔ مسز احمد سمجھتی رہیں کہ ان کے میاں خود غرض ہیں۔ بہت سی باتیں، اتنی بوجھل گتھیاں، اتنے اداس رنگوں کی بارشیں وہ سب کی سب جھیل جاتے تھے۔ " کوئی بات نہیں۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔" نفرت کا رزق بننے والی اس ہستی نے ہمیشہ اپنے رب سے خیر کی دعا مانگی۔ مسٹر احمد کے والدین بھارت میں مقیم تھے مگر وہ دس برسوں میں صرف ایک ماہ کے لیے وہاں گئے تھے۔ اس کے بعد سسرال والوں نے کھوکھلی معیشت کی ڈراؤنی سی تصویر دکھا کے سڑک اور ہوائی راستے بند کر دیے اور یہ سچ بھی تھا کہ بھرے پرے سسرال کی معیشت کو سہارا دینا ترجیحی بنیادوں کا کام تھا تب انہوں نے مسز احمد کے لیے دعا کی تھی۔ " یہ مجھ پر کبھی روشنیوں کے دروازے بند نہ کریں۔ میری چاہت کے آئینوں کو گرد آلود نہ ہونے دیں۔ میرے خواب ادھورے نہ رہنے دیں۔ میرے وجود کو کبھی شکستہ نہ ہونے دیں۔ بس کافی ہے اتنا ہی بہت ہے۔" لیکن پتا چلا کہ نہیں۔۔۔۔ بے شک آپ کے بچے مرتے رہے ہوں، آپ نے ڈی این سی کی تکالیف برداشت کی ہوں۔۔۔۔ جان سے گزر جانے کے عذاب جھیلے ہوں، آپ ہی کو مورد الزام ٹھہرایا جائے گا۔ مسٹر احمد اپنی خانگی زندگی دیکھ کر کبھی کسی کو لعن طعن نہیں کرتے تھے حالانکہ قریبی عزیز خواتین کہا کرتی تھیں کہ یہ تو پتا نہیں کس مٹی سے بنے ہیں۔ دکھ دینے والوں کو بھی دعا دیتے ہیں۔ کتنی آندھیاں چلیں، اجالوں کے زندہ چراغوں کو جھٹلائیں، کتنی بارشوں کے موسم دھوپ کی نذر ہو جائیں، وہ مسکراتے رہتے تھے۔ پتا نہیں دشت میں سائبان کی خواہش کیسے پوری ہو سکتی تھی۔ بیتے ہوئے وقت کو لوٹایا نہیں جا سکتا تھا۔۔۔۔۔ جو عمر بیت گئی، اسے کیسے آواز دی جا سکتی تھی۔ افسوس تو اس بات کا تھا کہ مسز احمد کی سوچ اپنے میاں کے ساتھ ساتھ بڑھی نہیں۔ ایک بار انہوں نے ہمت کر کے پوچھ لیا تھا "کیا چاہتے ہیں؟"
مکمل مادی سہولتیں۔۔۔۔ عام انسانوں کی طرح ایک گھر، پھولوں سے مہکتا آنگن اور کوئی چیز ادھوری نہیں چاہتی۔ " لیکن انسان تو ادھورا ہے اسے تو مکمل ہونا بھی نہیں آتا۔" "میں نہیں جانتی کہ ادھورا کر دینے والی ہستیاں نحوست لے کر میری ہی دنیا میں کیوں وارد ہو گئی ہیں۔" " نحوست۔۔۔۔ یہ کیا کہا آپ نے ؟" " وہی جو سنا تم نے۔۔۔۔ نہ رہو تم تو شاید میں بھی ادھوری نہ رہوں۔" چند روز بعد ایک نیا ادبی جریدہ آیا تو ان کی نظم شائع ہو چکی تھی۔ کوئی محبت اگر مکمل ہو پاتی کوئی عشق اگر پورا سچا ہوتا تو پھر کوئی عشق نہیں کرنے پاتا تو پھر کوئی اور محبت نہ ہوتی عشق میں اب تک ایک تسلسل قائم ہے اور محبت پوری ہونا باقی ہے اسی لیے میں باقی ہوں ہم باقی ہیں اسی لیے میں آدھی ہوں' تم آدھے ہو ہم تکمیل کو ملتے ہیں تو جوڑ لگا رہ جاتا ہے پھر دوری رہ جاتی ہے اور پھر تکمیل نہیں ہوتی انہوں نے نظم کو بار بار پڑھا۔۔۔۔ لفظوں کی سنگینی سے ایسا لگا کہ شیشہ دل شکستہ ہو گیا ہو، حوصلوں کی اڑانیں گرفتار ہوئیں۔ مسز احمد نے تو اپنی محبت کی تقدیر لکھی تھی مگر انہیں ایسا لگا کہ آنسوؤں کے خزاں رنگ بازار میں وہ بے قیمت ہی بک گئے ہیں۔ " ایسے مرد وقت کی ٹھوکر میں پڑے رہتے ہیں، جو بیویوں کو آزادی نہیں دیتے۔۔۔۔ آزادی۔۔۔۔ ایک نئے عشق کی یا۔۔۔۔۔
ر بار جس عورت کے بستر سے اٹھتے ہوئے تمہیں ایک طعنہ ملے مسٹر احمد! تم اسی عورت کی جوتیاں سیدھی کرنے اور ہانڈیاں پکانے میں کیوں جتے رہتے ہو۔ " وہ اپنے آپ سے سوال کر رہے تھے۔ " ہر بار کتنے بدنام اندھیروں میں دھکیلتی ہے یہ عورت تمہیں اور ہر بار تم غسل خانے میں جا کر اپنی نہیں پرچھائیں کی پوشاک بدلتے ہو۔۔۔۔۔ تم اسے آزاد کر دیتے یا خود آزاد ہو جاؤ۔" " تم کیا سمجھتے ہو تمہارا سانولا رنگ، تمہارا بوٹا سا یہ قد کسی گداز شام کی رحمت کا پیرہن ہے۔۔۔۔۔ " ساشا جیت گئی اپنی مہتابی رنگت کے بل پر۔ اسے بزرگ پروفیسر سے خفیہ تعلق راس آ گیا اور تمہارا سڈول بدن، سانولا سلونا بدن، بازوؤں کی تھکن میں شکستہ سی انگڑائی سا بن گیا۔ تم کسی کی تھکن نہ اتار سکے نہ اپنی نہ اپنی بیوی کی۔ " ساشا کا شادی نہ کرنا ہی میری غزلوں کو نیا پن اور لہجوں کو خوشبو دے سکتا ہے۔" ایک بار نہیں کئی مرتبہ وہ اپنی بے چہرگی کا اعتراف کرتے۔ آج اتفاق سے وہ ساشا کے گھر میں اس کے کمرے میں بیٹھے مسز احمد کی تصویر دیکھ رہے تھے جو انہوں نے بڑے چاؤ سے ولیمہ کے اگلے روز کھنچوائی تھی۔ ساشا نے تصویر کا وہی حصہ کاٹا تھا جس میں مسٹر احمد آسمانی رنگ کی کامدانی ساڑھی پہنے کوئی دیو مالائی کردار دکھائی دے رہے تھے۔ انہوں نے خاموشی سے تصویر دیکھی اور رسم دنیا نبھا کے گھر لوٹ آئے۔ کسے پتا کہ ساشا جوڑ لگا کے بھی مہتابی امکانوں کو تصویر کرنے کی خواہش پوری کر سکے گی بھی یا نہیں؟ شاعر نے تو پہلے ہی کہہ دیا ہے۔ ہم تکمیل کو ملتے ہیں تو جوڑ لگا رہ جاتا ہے پھر دوری رہ جاتی ہے اور پھر تکمیل نہیں ہوتی۔۔۔۔
Post a Comment for "ناتمام رشتے"