Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

"آنچل کے سائے میں خواب"



خواہشات کا کوئی مول ہوتا ہے نہ نعم البدل۔ ذرا سی بس زرا سی شدت آجائے تو خواہشیں محض خواہشیں نہیں رہتی بلکہ خواب بن جاتی ہیں۔ اٹھتے بیٹھتے، جاگتے سوتے دیکھا جانے والا ایک حسین خواب اور جب وہ خواب جنون بن جائے تو پوری دنیا سے ٹکراؤ بھی معمولی لگنے لگتا ہے۔ میرا خواب، جنون اور میری چاہ تو بس ایک ہی تھی۔ کتابوں کی تحریروں میں اپنا نام اور اپنی ذات کو امر کروانے کی، اور پھر میں نے اپنے خواب کی تعبیر کے حصول کے لیے کوششیں کرنا شروع کر دیں۔

"اجی سنتے ہیں یہ پارسل تو ذرا ٹی سی ایسں کروا دیجیے گا۔" میں شادی کے دسویں روز ایک نفیس کا پیکٹ میاں صاحب کی ناشتے کی پلیٹ کے ساتھ دھرتے ہوئے بولی۔

"یہ کیا ہے؟" انہوں نے ایک سرسری سی نظر لفافے پر ڈالتے پوچھا۔

"وہ عائشہ کی سالگرہ آنے والی ہے ناں تو اسی سلسلے میں میں نے اپنے پیارے عائشہ کے لیے ایک خوبصورت سی تحریر لکھی ہے۔"

"کیا۔۔۔؟" چائے کا مگ ان کے ہاتھ سے چھوٹتا چھوٹتا بچا۔

"تحریر اور وہ بھی تم۔۔۔ جانے دو۔" انہوں نے ٹوس کی جانب ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔

"کیوں آپ کے خیال میں، میں کوئی تحریر نہیں لکھ سکتی کیا؟ اتنا ہی ایویں سمجھ لیا ہے آپ نے مجھے۔" میں نے منہ پھلا کر جواب دیا۔

"ہم بھی تو دیکھیں ذرا آخر لکھا کیا ہے محترمہ نے۔" کہتے ہی انہوں نے چائے کا مگ میز پر رکھا اور لفافے کی جانب ہاتھ بڑھایا۔

"خبردار، جو آپ نے میری تحریر کو ہاتھ بھی لگایا جب عائشہ میں لگے گی نہ تو مارکیٹ جائیے گا اور ڈائجسٹ خرید کر پڑھ لیجیے گا۔ تب ہو گی آپ کو میری تحریروں اور میری صلاحیتوں کی قدر۔" چائے کا مگ اس کے ہاتھ سے لیتے ہوئے انہوں نے گھور کر میری جانب دیکھا۔

"ارے۔۔۔ ارے۔۔۔ ایسے کیا دیکھ رہے ہیں اب بس بھی کیجیے تفتیش کرنا۔ آفس جاتے وقت کورئیر لازمے کروا دیجیے گا۔ سامنے مین روڈ پر ہی نیا آفس کھلا ہے ٹی سی ایس والوں کا۔" میں نے الہڑ دوشیزاؤں کی مانند اٹھلا کر کہا۔

"اپنا آپ تو سنبھالا نہیں جاتا اور چلی ہیں محترمہ ادیبہ بننے۔ میڈم آپ کی ضرورت ڈائجسٹ کو نہیں۔ ہمارے کچن کو ہے، ایسے فضول کارنامے آپ میکے میں ہی رہنے دیتی تو کیا ہی بھلا تھا۔" ان کے ظالم نندوں والے انداز پر میں اپنا کمنی سا دل تھام کر بیٹھ گئی۔

اصل میں زید کے روایتی شوہروں والے انداز نے میرا جوش ہی ختم کردیا تھا۔ اب میں انہیں کیا بتاتی کہ میکے میں تو ایسے خواب دیکھنا بھی ممنوع تھا۔ ابا حضور کی قاتلانہ نگاہوں کی زد سے چھپتے چھپاتے پیارے حجاب و آنچل کو بھی اکثر کتابوں کی آڑ میں پڑھا جاتا تھا۔ لکھنا تو پھر پرائی بات تھی۔ سوچا شوہر سپورٹ کرے گا جی بھر کے سارے ارمان پورے کروں گی۔ جیسا کہ عموما افسانوں میں پڑھا اور ڈراموں میں دیکھا جاتا ہے۔ پر نہیں شاید میری دال یہاں بھی گلنے والی نہیں تھی۔

اوکے میں چلتا ہوں، آفس کا ٹائم ہوگیا ہے۔" انہوں نے اپنی کلائی پر بندھی بیش قیمت گھڑی دیکھتے ہوئے کہا اور میں ان کی بے مروتی دیکھ کر اپنا سا منہ لے کر رہ گئی۔ آہ جانے وہ بیویاں کون سی خوش قسمت مخلوق سے تعلق رکھتی ہیں جن کے شوہر مجھے ہے حکم اذان کے سائیڈ ہیرو عارف عرف جانی کے جیسے عظیم اور تعاون کرنے والے ہوتے ہیں۔

"سن لو شام میں ڈنر اچھا سا تیار کرنا، میرے کچھ دوست آرہے ہیں۔ کسی قسم کی کمی نہیں ہونی چاہئے۔ ویسے تو ضرورت کا سارا سامان کچن میں موجود ہے لیکن اگر پھر بھی تمہیں کسی چیز کی ضرورت ہو تو رحمت بابا کے ساتھ جا کر مارکیٹ سے لے آنا۔ پیسے میری وارڈروب میں رکھے ہیں۔" وہ لفافہ ہاتھ میں لے کر اٹھ کھڑے ہوئے۔

"میرا ناول۔۔۔" میں ہچکچائی۔

"دیکھو اگر لکھنا ہی تمہارا شوق ہے تو دل کھول کر لکھو۔ تمہاری سب ہی جائز خواہشات میرے لیے قابل احترام ہیں۔"

"سچ؟" میں کسی چھلاوے کی مانند اچھلی، اس ایک پل میں میرے شوہر مجھے فواد خان لگے تھے۔

"بالکل۔" وہ مسکرائے۔

"لکھنا ہی ہے تو میرے لیے لکھو۔ میں پڑھوں گا تمہیں، کسی ڈائجسٹ وغیرہ میں شائع کروانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔" ایک لمحے میں عارف خان اللہ جانے جابرخان کیسے بن گئے تھے۔

"وہ کوئی عام ڈائجسٹ نہیں ہے۔ جس میں میں لکھنا چاہ رہی ہوں وہ 'آنچل' ہے، آنچل ڈائجسٹ۔ نام تو سنا ہوگا آپ نے۔" میں نے ان پر تھوڑا سا رعب ڈالنا چاہا۔ "سمیرا شریف طور جن کا ڈرامہ 'یہ چاہتیں یہ شدتیں' بڑے شوق سے دیکھتے ہیں آپ، وہ بھی تو اسی ڈائجسٹ کی شان ہے اور اقبال بانو آپا بھی ہمارے آنچل کا حصہ ہیں، جن کا کوئی بھی ڈرامہ آپ مس نہیں کرتے۔" میں نے انہیں امپریس کرنے کے ساتھ ساتھ تھوڑا سا بلیک میل بھی کیا۔

"جو بھی ہے، اگر تم لکھنا چاہتی ہو تو صرف میرے لیے ہی لکھو گی۔ میں بھی تو ذرا چیک کروں کہ کتنے پانی میں ہیں محترمہ۔"

"آپ چیک کریں گے، پر آپ کے تو اردو میں نمبر مشکل سے 33 تھے اور اے لیول میں بھی آپ رٹا لگا کر اردو میں پاس ہوئے تھے۔" میری زبان سے اچانک پھسل گیا۔

وہ خاموش رہے لیکن ان کی غضبناک نگاہیں کسی ہٹلر یا ولن کی طرح مجھے کئی لمحوں تک گھورتے رہیں۔

"مارے گئے۔۔۔" میں نے زبان دانتوں تلے دبائی۔

اور وہ بنا کچھ کہے کرسی کی پشت پر لٹکا اپنا کوٹ اور میز سے گاڑی کی چابیاں اٹھا کر چل دیے۔ میں انہیں سی آف کرنے کے لیے مرے مرے اٹھتے ہوئے قدموں سے دروازے تک آئی۔

اور پچھلی رات میں نے ایک خواب دیکھا۔

یہ خواب ننھے بچوں کے پریوں کے اور زرق برق کھلونوں کے خوابوں جیسا عام نہیں تھا۔ نہ ہی اس خواب میں میرے کسی ملک یا ریاست کی رانی بننے کی منادی کی گئی تھی۔ اس خواب میں پاکستانی عوام کے خوابوں کی طرح بجلی کا بحران ختم ہوا تھا نہ ہی سالہا سال سے جاری کشمیر کی آزادی کے لیے کی جانے والی جدوجہد کوئی خاص رنگ لائی تھی۔ یہ خواب الہڑ لڑکیوں کے نین کٹوروں میں بسے کسی حسین شہزادے کی آمد کے خواب سا بھی نہیں تھا اور نہ ہی حکمرانوں کی نظر سے دیکھے جانے والے مہنگے اور اعلیٰ ترین خوابوں جیسا بیش قیمت۔ یہ خواب خاص تھا، کہ عام، مہنگا یا سستا، بہتر یا بہترین میں نہیں جانتی، لیکن اس ایک خواب میں میرے لیے پوری زندگی کا سامان موجود تھا۔ خوشی، ہنسی، کھلکھلاتے ہوئے قہقہے اور ان سب سے ماورا محبت۔۔۔ محبت کی برسات۔۔۔ میرے لیے یہ خواب بیش قیمت تھا۔ انمول بلکہ بے حد انمول تھا۔ میرا کمرہ مہک اٹھا۔ میرے انگ انگ سے خوشی پھوٹ رہی تھی۔ بالکل ویسی ہی خوشی جیسی کسی ماں کو صدیوں سے پردیس میں مقیم اپنے اکلوتے لاڈلے کو واپس پلٹا دیکھ کر ہوتی ہے۔ میری آنکھیں چندھیا گئیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے ہمارے پرانے محلے میں گلی کے نکڑ میں واقع ایک ٹوٹے ہوئے کمرے کے واحد مکین ایم اے پاس ناصر علی کی آنکھیں اچانک نوکری اور اچھی رہائش کی خبر سن کر چندھیائی تھیں۔ میں کھل گئی، نہال ہو گئی۔ خوشی کی پھوار اس قدر تھی کہ میری آنکھوں سے دو ننھے آنسو ٹپک پڑے، کب اور کیسے یہ میں نہیں جانتی۔

"پاگل عورت۔" شوہر کے منہ سے ٹپکنے والے شیریں الفاظ نے ایک لمحے میں میرے حسین خوابوں کی دنیا میں تہس نہس مچایا۔ میں مرجھائی، بالکل ویسے ہی جیسے ساون کی سخت گرمی میں دوپہر کے وقت کوئی کھلی ہوئی کلی مرجھا جاتی ہے۔

"جج صاحب۔۔۔" میں دوپٹہ کندھوں پر پھیلاتے ہوئے بڑبڑائی۔

"تم رو رہی تھی۔" انہوں نے پوچھا تھا یا پھر مجھے بتایا تھا۔ میں کسی بھی قسم کا اندازہ لگانے سے قاصر تھی۔

"نن۔۔۔ نہیں تو۔۔۔" میں پل بھر میں بڑبڑائی۔

"تو یہ آنسو؟" انہوں نے اپنی نرم گداز انگلیوں سے میرے تر گال کو چھوا۔

"یہ آنسو۔۔۔ پتہ نہیں۔۔۔ بس یونہی۔۔۔ شاید بے دھیانی میں۔۔۔" مجھ سے بات نہ بنی۔

"پاگل عورت۔" وہ مسکرائے۔

"بغیر کسی وجہ کے ہی رونے بیٹھ جاتی ہو۔"

"پہلے ایک بار یہ خطاب دے تو چکے ہیں آپ مجھے، اب بار بار یاد دلا کر عزت افزائی کرنا زیادہ ضروری ہے کیا؟" میں جل ککڑی بنی۔

"اور آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ما بدولت یہ آنسو رونے والے آنسو نہیں تھے بلکہ خوشی کے آنسو تھے جو بے انتہا خوشی کی کیفیت میں آپ کی خوشیوں میں شریک ہونے کے لیے آپ ہی آپ چلے آتے ہیں۔" میں نے کچھ جتانے والے انداز میں انہیں سمجھایا۔

"ہمم اوکے۔" وہ زرا پیچھے ہو کر اپنے موبائل پر جھکے تو میں نے بجلی کی سی رفتارسے گالوں کو صاف کیا جو تقریباً خشک ہونے ہی والے تھے۔

"بائی دی وے یہ رونے والے آنسو کون سے ہوتے ہیں؟" انہوں نے میری ننھی ناک کو پکڑتے ہوئے چوٹ کی تو میں مصنوعی غصہ چہرے پر سجاتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔

"اب کیا ہوا؟" وہ حیران سے دست سوال ہوئے۔

"کچھ نہیں، آپ کے لیے کون سے کپڑے نکالوں؟" میں نے اپنے ریشمی بال کیچر میں قید کرتے الماری کی طرف بڑھتے ہوئے پوچھا۔

"جو آپ کی مرضی، ہماری مجال کہ ہم ملکہ عالیہ کی پسند نا پسند کر جائیں۔" ان کی بات پر میرے دل کی ایک بیٹ مس ہوئی۔

"یہ ٹھیک رہے گا۔" میں نے بلیک چیک دار شرٹ نکالتے ہوئے ان کے سامنے لہرائی۔

"آج میرا ایزی ڈریس پہننے کا موڈ ہے، ایسا کرو میری آف وائٹ شلوار قمیض نکال دو۔"

"آپ کی اسکائپ میٹنگ ہے کسی فارن کلائنٹ سے اور جہاں تک میرا خیال ہے اگر میں غلط نہیں ہوں تو آپ میٹنگ کے دوران کبھی شلوار قمیض نہیں پہنتے۔" میں ان کی اچانک فرماش پر چونکی۔

"نہیں پہنتے تو کیا ہوا؟ آج پہن لیں گے، اپنا کلچر زندہ باد ہے بھئی۔" انہوں نے میری طرف دیکھے بغیر جواب دیا۔

"جب کرنی ہی اپنی مرضی تھی تو اتنا فلمی سین کریٹ کر کے مجھے خوامخواہ امپریس کرنے کی کیا ضرورت تھی؟" میں نے کپڑے ہینگر سے الگ کرتے ہوئے کہا۔

"تم تو آل ریڈی امپریس ہو جان، عالیان۔" انہوں نے شوخ انداز میں کہا اور میں نے مزید خفگی سے آنکھیں پھیلا کر انہیں گھورا۔

ضرور، میں نام بدل کر پیش کرتا ہوں:


"مت دیکھا کرو ایسے۔"

"کیوں؟"

"تم پہ فدا ہونے لگتا ہوں۔"

"باتیں بنانا کوئی آپ سے سیکھے۔"

"جی بالکل باتیں بنانا کوئی مجھ سے سیکھے۔۔۔ بیگم صاحبہ! آپ کی آنکھیں قدرت نے پہلے ہی اتنی بڑی بنا رکھی ہیں کہ ان کی جانب دیکھنے سے ڈر لگتا ہے، اوپر سے جب آپ انہیں غصے سے مزید پھیلا لیتی ہیں تو میرے ذہن میں 'ریپانزل' مووی کی ولن چڑیل کا عکس ابھر آتا ہے۔ اس لیے برائے مہربانی اپنی آنکھوں کو مزید پھیلانے یا سکیڑ کر خوفناک کرنے کے بجائے انہیں اپنی اپوزیشن پر ہی رہنے دیا کریں تاکہ بندہ ناچیز خوف سے محفوظ رہ سکے۔" انہوں نے میری جانب دیکھتے ہوئے آنکھ دبا کر کہا۔

اور میں کچھ کہے بغیر ان کے کپڑے ہینگ کرنے کے لیے واش روم میں چلی گئی۔ میرا چپ رہنا ناراضگی کے اظہار کی پہلی علامت تھی۔

کپڑے ہینگ کرنے کے بعد میں نے واش روم میں رکھی چیزوں کا جائزہ لیا۔ شیونگ کٹ سے لے کر ناول تک سب اپنی جگہ پر موجود تھے اور مطمئن سی ہو کر باہر نکل آئی۔ وہ ابھی بھی موبائل پر جھکے ہوئے تھے۔ گویا کینڈی کرش کا نیکسٹ لیول شروع ہو چکا تھا۔

"ہم سے تو گیم ہی پیارا ہے جس کی فکر میں جناب آفس سے لیٹ ہونا بھی گوارا کر سکتے ہیں۔" میں نے ایک ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے سوچا اور کمرے میں بکھری چیزیں سمیٹنے لگی۔

"آہم۔۔۔ کوئی جیلس ہو رہا ہے۔" انہوں نے میری جانب بیڈ کشن اچھالتے ہوئے شوخی سے کہا اور میں اپنے نام کی ڈھیٹ خفگی ناک پر سجائے کام کرنے میں مگن رہی۔

"اس پوز میں تم بالکل حنا لگ رہی ہو۔" اس بار انہوں نے میری تیکھی ناک کو ہدف بنایا۔

"بس کر لیا میری ذات پہ تبصرہ، ہو گئی تسلی یا ابھی بھی کچھ باقی ہے؟" میں غصے میں تھی مگر اپنے لہجے کو سرد بنانے میں ناکام رہی۔

"جی ہو گئی تسلی۔۔۔ مل گیا سکون۔" وہ اب موبائل کو چارجنگ پر لگا رہے تھے۔

"اب مہاراج کا موڈ ہو تو بندی ناشتہ بنانے کا اہتمام کرے۔" ان سے میں زیادہ سے زیادہ دو پل ہی خفا رہ سکتی تھی۔

"ہاں بالکل، میں تب تک فریش ہو جاؤں۔" وہ واش روم میں گھس گئے تو میں نے افسردہ دل کے ساتھ کچن کی جانب قدم بڑھائے۔

"کم از کم ایک بار غلطی سے پوچھ لیتے کہ آخر ایسی کون سی خوشی ہے جس کی وجہ سے میری آنکھوں سے خوشی کے آنسو بہہ رہے، مگر نہیں یہ تو ہیں ہی صدا کے بے مروت۔" وہ آفس چلے گئے اور میں پورا دن اسی غم میں مبتلا رہی۔ پرانی ہیروئینوں کی طرح کسی کونے میں بیٹھ کر دل ہی دل میں سسکتی رہی۔

ایک وہ ہیں جنہیں میری خوشی عزیز ہے نہ بہتے آنسووں کی قدر اور ایک میں ہوں جو قدم قدم پر ان کے آگے بچھی جاتی ہوں۔

اور پچھلی شب میں نے ایک خواب دیکھا۔

"خواب۔۔۔ کہیں خواب میں تم ہمالیہ تو نہیں گئی یا پھر فیری میڈوز۔" انہوں نے میری ڈریم پلیسز کا نام لیتے ہوئے کہا۔ میں ایک پل کے لیے رکی، سرد آہ بھری اور پھر چاول باؤل میں نکالتے ہوئے نفی میں گردن ہلائی۔

"ترکی کا ویزا مل گیا ہوگا پھر۔" وہ جانتے تھے کہ نمرہ احمد کا ناول 'جنت کے پتے' پڑھنے سے لے کر اب تک میں کئی بار خوابوں کی دنیا میں ترکی کی سیر کر چکی ہوں۔ میجر جہان سکندر تو جیسے میرے دل و دماغ میں بسے ہوئے تھے اور بہارے گل کی معصومیت لیکن عظیم نصیحتوں نے مجھے جیسی ماڈرنزم کی گرویدہ لڑکی کی آنکھیں کھول کر رکھ دی تھیں۔ تب سے 'جنت کے پتے' تھامے تھے اللہ کے فضل سے آج بھی انہیں تھامے ہوئے ہوں۔

"ترکی کا ویزہ؟ ہاں وہ بھی باعث مسرت ہو سکتا ہے مگر اب کی بار وجہ کچھ اور ہے۔"

"کوئی اور وجہ؟" انہوں نے دماغ پر زور دیتے ہوئے کہا۔

"یقیناً تم خواب میں انڈیا گئی ہوگی اپنی فیورٹ اور ہر دل عزیز فرینڈ، سارہ ناصر سے ملنے۔"

"سارہ آپا۔۔۔ آہ۔۔۔ عرصہ ہوا ان سے کوئی رابطہ نہیں رہا۔ ان کا فیس بک اکاونٹ پچھلے تین ماہ سے ڈی ایکٹیویٹ ہے اور واٹس ایپ پر بھی وہ ریپلائی نہیں کرتیں۔" میں زمانے بھر کی افسردگی اپنے نازک لہجے میں سمو گئی تھی۔

"پھر تو میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں تمہیں خواب میں وہی ملی ہوں گی۔"

"ارے نہیں بھئی، نہیں ملی مجھے ان کی فرینڈ لسٹ میں۔ جب سے نازیہ کنول، سمیرا شریف، سباس گل، عشنا کوثر، صائمہ اکرم، حمیرا ندیم نفس اور فیم انجم جیسی مایہ ناز اور مشہور رائٹرز آئی ہیں تو وہ تو جیسے مجھے بھول ہی گئی ہیں۔" انہوں نے میری دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا تو میں نے سلاد کی پلیٹ ان کے سامنے رکھتے مزید سوگواری سے کہا۔

"چلیں اب آپ بتا دیں ایسا کیا دیکھ لیا خواب میں جس کے زیر اثر آپ صبح پورے دو گھنٹے روبوٹ بنے بیٹھی رہیں۔"

"خوبصورت سا سرورق، دور تک پھیلا ہوا ریڈ کارپٹ اور اس ریڈ کارپٹ کے ایک سرے پر موجود نفیس و نازک سی دوشیزہ۔ بہتے جھرنے کی مانند جس کی مسکان آنکھوں کے راستے دل میں اتر کر ہلچل مچانے لگی تھی۔" میں نے خواب کی کیفیت میں بیان کیا۔

"کیا مطلب؟" عالبان نے نا سمجھی کے عالم میں مجھے گھورا۔

"مطلب یہ کہ میں خواب میں آنچل ڈائجسٹ لیے بیٹھی تھی اور نہ صرف لیے بیٹھی تھی بلکہ آنچل کی فہرست میں میرے ناول کا نام بھی شامل تھا۔ اسی ناول کا جو میں نے آپ کو پوسٹ کروانے کے لیے دیا تھا اور آپ نے میرا وہ ناول کہاں گم کیا یہ میں بھی نہیں جانتی۔ اچھا بھلا میں اپنا ناول پڑھنے ہی والی تھی کہ آپ کے موبائل پر بجنے والے الارم نے میری آنکھ کھول دی۔ میں خواب بھولے بھٹکے سے ہی دیکھتی تھی اور جب کبھی دیکھ ہی لیتی تھی تو انہیں یاد رکھنا میرے لیے ایک مشکل مرحلہ ہوتا تھا۔ تب ہی رک رک کر ذہن پر زور دیتے ہوئے میں انہیں پچھلی شب کی روداد سنا رہی تھی۔"

"اوہ تو یہ خواب دیکھا تھا محترمہ نے۔ پر مجھے ایک بات سمجھ نہیں آئی؟" انہوں نے ٹیبل پیپر سے ہاتھ صاف کرتے ہوئے کہا، "وہ کیا؟"

"آپ نے جو آنسو بہائے تھے وہ ماہنامہ آنچل کی فہرست میں اپنے ناول کی شرکت کی خوشی میں بہائے تھے یا پھر میرا الارم بجنے کی وجہ سے ناول نہ پڑھنے کے غم میں۔" انہوں نے میرا کان پکڑ کر چھیڑتے ہوئے کہا، "ایسا نہ کیا کریں مجھے الجھن ہوتی ہے۔"

"اوہ مجھے آج پتہ چلا کہ میری گڑیا کو بھی کسی چیز سے الجھن ہوتی ہے۔" انہوں نے لاڈ سے کہا۔

"چھوڑیں میرا کان، میں لاسٹ نائم منع کر رہی ہوں آپ کو اگر آپ اب بھی باز نہ آئے تو میں تائی اماں سے شکایت کر دوں گی۔" میں اپنا کان چھڑاتے ہوئے بمشکل کہہ پائی۔

"اچھا بابا چھوڑ دیتا ہوں۔ میرے دو تین سوٹ بیگ میں رکھ دینا، آفس کے کسی کام کے سلسلے میں، میں نے کراچی جانا ہے۔" وہ یک دم سنجیدہ ہوگئے۔

"اجی اچھا۔" میں نے مختصراً کہا۔ وہ اپنا موبائل آن کر کے ایک بار پھر کینڈی کرش کی جانب متوجہ ہوگئے اور میں خاموشی سے برتن سمیٹے لگی۔

وہ اپریل کی ایک ٹھنڈی صبح تھی۔

"زینب۔۔۔ دروازہ کھولو۔" احمد ابھی کچھ دیر پہلے سودا سلف لینے کی غرض سے باہر گئے تھے۔ میں ڈور لاک کر کے چڑیوں کو باجرہ ڈالنے کے بعد لان میں رکھے کاؤچ پر آ بیٹھی ہی تھی کہ ان کی تیز آواز پر حیران و پریشان سی بھاگم بھاگ دروازے تک پہنچی۔ یا اللہ خیر، ڈرتے ہوئے لاک کھول کر وہ اندر آئے۔

"کیا ہوا۔۔۔ سب۔۔۔ ٹھیک۔۔۔ تو۔۔۔ ہے ناں؟" میں نے اپنی اکھڑی اکھڑی سانسوں کو درست کرتے ہوئے بمشکل کہا۔

"ہاں سب خیرت ہے، تم یہاں بیٹھو۔" انہوں نے مجھے کاندھوں سے تھام کر فلورکشن پر بٹھایا۔

"کیا ہوا ہے؟ آپ اتنے ایکسائٹڈ کیوں ہیں؟ جلدی بتائیں پلیز، بے چینی کے مارے میرا تو دل حلق میں آ رہا ہے، کیا خبر بی پی بھی لو ہو گیا ہو؟"

"تمہارا خواب پورا ہوگیا۔۔۔"

"کون سا خواب۔۔۔؟" میں انجان تھی۔

"بوجھو تو جانوں۔"

"ترکی کا ویزہ لگ گیا کیا؟" وہ کئی دن سے میری اس خواہش کو عملی روپ دینے کی کوششوں میں مصروف تھے۔

"اس میں تھوڑا وقت لگے گا۔"

"آپ اس بار ہالیڈیز میں مجھے فیری میڈوز تو نہیں لے کر جا رہے؟"

"نہیں۔۔۔" انہوں نے پھر نفی میں سر ہلایا۔

"کہیں شبو آپا تو پاکستان میں نہیں آ گئیں؟"

"نہیں۔۔۔ بابا۔۔۔ نہیں۔"

"تو پھر کون سا خواب پورا ہوا؟" میں نے روہانسی ہو کر پوچھا۔

"لو خود دیکھ لو۔" انہوں نے وائٹ لفافے میں لپیٹا خوب صورت سا پارسل میرے حوالے کیا۔ میں نے نہ سمجھی کے عالم میں جھٹ سے لفافہ کھولا۔ لفافے میں آنچل ڈائجسٹ کی جانب سے بالکل ویسا ہی ڈائجسٹ موجود تھا جسے پچھلے مہینے کی پچھلی شب میں نے خواب میں دیکھا تھا۔

میں ایک ٹرانس کی سی کیفیت میں کھڑی ہوئی۔

"میرا خواب پورا ہو گیا؟" میں نے تصدیق چاہنے والے انداز میں احمد سے پوچھا۔

"جی بالکل۔" انہوں نے مسکراتے ہوئے تصدیق کی مہر ثبت کی۔

"یہ۔۔۔ یہ میرا ہی نام ہے ناں؟" جانے کیوں پر مجھے یقین کرنے میں تھوڑی دقت ہو رہی تھی۔

"نہیں، یہ زوجہ احمد کا نام ہے۔" انہوں نے میرے جانب محبت سے دیکھتے ہوئے کہا۔

"اور۔۔۔ اور۔۔۔" میں ایکٹنگ کرنے والے انداز میں ایک بار پھر شاک کی سی کیفیت میں زمین پر ڈھے گئی۔

"آر یو اوکے؟" وہ بوکھلائے...

"نو۔۔۔" میں نے سر نفی میں ہلا کر بمشکل کہا۔

دو ننھے موتی ایک بار پھر میری آنکھوں سے ٹوٹ کر بکھرے۔

"پاگل عورت۔" انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا۔

"خوشی کے آنسو۔" میں نے انہیں یاد دہانی کروائی۔

"اچھا جی۔۔۔ تم بیٹھو اور سکون سے اپنا آنچل پڑھو، اب میرے موبائل کا آلارم تمہیں ڈسٹرب نہیں کرے گا۔ آج رات ڈنر پر تمہارے لیے ایک بہت بڑا سرپرائز ہے۔ تب تک میں ذرا مارکیٹ سے ہو آؤں۔" وہ اٹھ کر چلنے ہی والے تھے کہ میں انہیں ایک منٹ رکنے کا کہہ کر بیڈروم کی جانب بھاگی۔

"ارے تم کہاں جا رہی ہو؟" انہوں نے مجھے ہینڈ بیگ اٹھائے دیکھ کر کہا۔

"بہت دنوں سے شاپنگ نہیں کی، آج آنچل میں ناول لگنے کی خوشی میں شاپنگ تو بنتی ہے ناں؟"

"اف تم خواتین بھی ناں۔۔۔" انہوں نے معصوم سے انداز میں کہا اور میں مسکراتے ہوئے ان کے ساتھ ہو لی۔

اور پچھلی شب میں نے ایک خواب دیکھا تھا۔

اور آج اس خواب کی تعبیر میرے سامنے کھڑی تھی۔ سب ویسا ہی تھا جیسا پچھلے مہینے کی پچھلی شب میں نے خواب میں دیکھا تھا۔ وہی کہانیاں وہی نام۔ سب کسی حسین بے حد حسین خواب کے جیسا تھا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اب کی بار موبائل پر بجنے والے آلارم نے میرا خواب نہیں توڑا تھا۔ اب کی بار میں آنچل مکمل پڑھ کے اٹھی تھی۔

"مجھے ایک بات سمجھ نہیں آئی۔" ڈنر کرتے ہوئے میں نے انہیں دیکھتے ہوئے کہا۔

"کون سی بات؟" انہوں نے نظریں اٹھائے بغیر کہا۔

"آپ تو میری تحریر کسی ڈائجسٹ میں پبلش کروانے کے حق میں نہیں تھے، پھر اچانک کیا ہوا؟ آپ نے میرا ناول کیوں پوسٹ کر دیا؟"

"کیا کرتا مجبور تھا، تم نے حوالے ہی ان رائٹرز کے دیے تھے جن کا میں بچپن سے ہی فین ہوں۔" انہوں نے میرے چہرے پر بکھرے بالوں کو کان کے پیچھے کرتے ہوئے وارفتگی سے کہا۔

"جیو بانو اینڈ اقرا آپی۔" میں نے دل ہی دل میں نعرہ لگایا۔

"مبارک ہو تمہارا ایک اور خواب بھی پورا ہوا۔" ڈنر سے واپسی پر گاڑی میں بیٹھتے ہوئے عاصم نے نوید سنائی۔

"کون سا؟" میں نے سیٹ بیلٹ باندھتے ہوئے کہا۔

انہوں نے جیب میں رکھی دو ترکی کی ٹکٹس نکال کر میرے ہاتھ میں تھمائیں۔

"سچ۔۔۔" میں دل پہ ہاتھ رکھتے ہوئے خوشی بلکہ دوہری خوشی سے چلائی۔ "یا اللہ تیرا شکر ہے۔" میں نے دل ہی دل میں اپنے سوہنے رب کی بے پناہ نعمتوں کا شکر ادا کیا اور آنکھیں بند کر کے ان کے کندھے پر سر رکھ دیا۔


Post a Comment for ""آنچل کے سائے میں خواب""