Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

"میرے خوابوں کا شہزادہ"


برکسی کو اپنے خوابوں کے شہزادے کے بارے میں سوچنے کاس حق ہوتا ہے' سو میں یعنی ایمن خلیل بھی خواب دیکھ رہی تھی اور کئی سالوں سے دیکھے جا رہی تھی تعبیر جانے کب ملنی تھی۔ فی الحال تو خوابوں خیالوں پر ہی گزر بسر ہو رہی تھی۔

" کچھ عرصے پہلے کی بات ہے ملک پاکستان میں ایک شہزادی رہتی تھی۔ اس کا نام ایمن تھا۔" میں نے کہانی شروع کی ہی تھی کہ فراز نے مجھے ٹوک دیا۔

" کچھ عرصہ ' متلب کتنے عرصے پہلے کی بات ہے۔"

" یہی کوئی سولہ' سترہ سال پہلے۔" میرے کہتے ہی فراز اور نازیہ دونوں نے اپنی آنکھیں پھاڑ کر حیرت سے مجھے دیکھا۔

" چلو ایک' دو سال اور اوپر کرلو۔" میں نے شان بے نیازی سے کہا۔

" حد ہوتی ہے بھئی جھوٹ کی۔ نازیہ بولی۔

" کیا مطلب ہے تمہارا' میں کوئی 50 سال کی ہوں کیا۔" میں ناراض ہوئی۔

" چھوڑو اس بات کو تم کہانی سناؤ۔“ فراز نے کہا پھر نازیہ کی طرف مڑ کر بولا۔

" بھئی' لڑکیوں پر چار پانچ سال کی ڈنڈی مارنا تو چلتا ہے۔"

" ٹھیک ہے۔" میں نے دوبارہ کہانی شروع کی۔

سلطنت پاکستان کی شہزادی ایمن بہت پیاری تھی۔ اس کی معصوم شرارتیں سب کو اپنا گرویدہ کر لیتی تھیں۔"

" گرویدہ کرلیتیں؟ یا سب کو پاگل کر دیتی تھیں' توبہ ہے۔ کتنی بدتمیز تھی بچپن میں۔"

نازیہ نے ہولے سے فراز کے کان میں سرگوشی کی۔

"اب تو جیسے بہت تمیز والی ہے۔" عدنان نے سرگوشی کا جواب سرگوشی سے دیا۔

"دورانِ محفل کھسر پھسر کرنا آدابِ محفل کے خلاف ہے۔" میں نے ان دونوں بہن بھائی کو تنبیہہ کی۔

"گستاخی معاف، مہرین شہزادی۔" عدنان نے باقاعدہ ہاتھ جوڑے تو میں نے کہانی کے سلسلے کو دوبارہ شروع کیا۔

جب مہرین شہزادی بڑی ہوئی تو دوسری سلطنت کا شہزادہ، شہزادہ سلمان، جو بہت خوب صورت، بہت پیارا تھا، اس شہزادی کی سلطنت میں آیا۔ وہ پیاری شہزادی، شہزادہ سلمان کے دل کو بھا گئی، اور اس نے سوچا کہ اب چاہے ماں روٹھے یا باوا، مجھے تو بس شہزادی مہرین سے ہی شادی کرنی ہے۔"

"بات سنو مہرین، میرا خیال ہے کہ اس شہزادے کو آنکھوں کے ٹیسٹ کی اشد ضرورت ہے۔“ عدنان نے بیچ میں پنگا کرنا ضروری خیال کیا۔

"اور میرا خیال ہے کہ شہزادے سلمان کے دماغ کو ٹیسٹ کی ضرورت ہے۔" عائشہ نے بھی اظہارِ خیال کرنا ضروری سمجھا۔

"اور میرا خیال ہے کہ تم دونوں کو اب ایک ایک خوراک کی ضرورت ہے۔"

میں نے باری باری دونوں کو کشن کھینچ کر مارے اور ناراضی کے اظہار کے طور پر دوسری طرف منہ کرکے بیٹھ گئی۔

"یا خدا، مہرین شہزادی کو کوئی پیارا سا شہزادہ بیاہنے آ جائے۔" عدنان نے مجھے منانے کی خاطر جلدی سے میری پسندیدہ دعا کی، اور عائشہ نے زور سے آمین کہا جبکہ میں نے دل میں آمین کہا اور مسکرا دی۔

یوں لگتا تھا کہ اللہ نے میرے دونوں تایا زاد دوستوں کی دعا سن لی تھی، کیونکہ آثار بتا رہے تھے کہ ابو کی خالہ زاد بہن یعنی روبینہ خالہ اپنے اکلوتے لاڈلے سپوت کے رشتے کے سلسلے میں آ رہی تھیں۔ کیونکہ ایک ہمارا ہی گھر ایسا تھا جس میں کنواری لڑکیوں کی بہتات تھی۔ "ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں" کا محاورہ ہمارے گھر پر صادق آتا تھا۔

شگفتہ چچی نے اپنے پورشن میں نئے پردے لگوائے تھے اور ان کی دونوں صاحبزادیاں، عریبہ اور ہنزلہ، اپنے چہروں پر نئے سرے سے محنت کر رہی تھیں۔ گو کہ محنت کی ضرورت تو نہ تھی، کہ ویسے ہی اللہ کا کرم تھا ان پر، لیکن آج کل بیوٹی پارلر کے چکر زیادہ ہی لگ رہے تھے۔

شائستہ تائی، امی بھی اپنی اکلوتی کزن کو لیے اکثر کچن میں نئی نئی ڈشز سکھاتی نظر آتیں۔ رہ گئیں تبسم تائی (یعنی عائشہ اور عدنان کی امی) اور شگفتہ وقار (یعنی میری والدہ ماجدہ)، ان دونوں کو تو زمانے سے سروکار ہی نہ تھا۔ ان دونوں والداؤں کا خیال تھا کہ جب اوپر والے کو منظور ہوگا، لڑکیوں کی شادی تب ہی ہوگی، اور عائشہ اپنی امی کی بات سے سو فیصد متفق تھی۔ گو کہ میں بھی اپنی امی کی اس بات سے سو فیصد متفق تھی، مگر اسی فیصد میں تقدیر کے ساتھ تدبیر کو بھی لازمی سمجھتی تھی۔

میری امی کو خبر ہی نہ تھی کہ ان کی دیورانی جیٹھانی کس طرح اپنی بیٹیوں کے راستے آسان کرنے کے گُر آزما رہی تھیں۔

"امی! گھر پر رنگ کروا لیتے ہیں، کیا خیال ہے؟" میں نے امی کو مشورہ دیا۔

"کیوں بھئی؟ رنگ تو صحیح ہے گھر کا، پچھلے سال ہی تو کروایا تھا۔" امی کو اچھنبا ہوا۔

"اوہو امی! گھر گندا لگ رہا ہے۔"

"اچھی طرح صاف کرو گی تو صاف ہو جائے گا،" امی کی طرف سے مسئلے کا حل پیش ہوا۔

"اف! میں تو جل ہی گئی امی کی سادگی پر۔ انہیں تو میری پرواہ ہی نہیں۔"

پھر بھی دو چکر تو بیوٹی پارلر کے میں نے بھی لگا ہی لیے۔ عریبہ، ہنزلہ اور ماہین کی ٹکر پر تو خیر میں نہیں آ سکتی تھی، پھر بھی میرے دل کو تسلی ہو ہی گئی۔

"تم کس خوشی میں اپنے چہرے پر اتنے پیسے ضائع کر رہی ہو؟" عائشہ سے تو میں کچھ نہیں چھپا سکتی تھی، اس لیے اسے فیشل کا بتا دیا تھا۔

"کیوں؟ جب سب کروا سکتے ہیں تو میں کیوں نہیں؟" عائشہ کا اعتراض مجھے پسند نہ آیا۔

"تم بھی لائن میں لگی ہو کیا؟" عائشہ کو حیرت ہوئی۔

"ہاں تو میں کیوں نہیں؟ میں لڑکی نہیں ہوں کیا؟"

"جناب روبینہ خالہ کے صاحبزادے زریان ہائی اسٹینڈرڈ ہیں۔" عدنان بیچ میں لپکا۔

"میرا کیا، لو اسٹینڈرڈ ہے؟ تم کہنا کیا چاہتے ہو، مطلب کیا ہے تمہارا؟" میں عدنان پر چڑھ دوڑی۔

"انسان کو خواہش بھی اپنا اسٹینڈرڈ دیکھ کر کرنی چاہیے۔"

"انسان کو نا..." عائشہ نے عدنان کے کان میں سرگوشی کی۔

"کیوں بھئی، مجھ میں کیا کمی ہے؟ یہی نا کہ میں تھوڑی کم گوری ہوں، تھوڑی سی کم دبلی ہوں اور تھوڑی سی کم خوبصورت ہوں؟ بس؟"

"بس۔" عدنان اور عائشہ بیک وقت بولے۔

"میری بات غور سے سنو! جس طرح ناولوں میں ہیرو، ہیروئن کے گھر آتا ہے تو ڈھیر ساری حسین و جمیل دوشیزاؤں میں سے صرف اور صرف ہیروئن کا انتخاب کرتا ہے۔"

"کیونکہ وہ ہیروئن ہوتی ہے۔" عائشہ میری بات کاٹ کر درمیان میں بولی۔

"اور خوبصورت بھی۔" عدنان اپنے خیالات کا اظہار نہ کرے، یہ کیسے ہو سکتا تھا۔

"جی نہیں، ہر کہانی کی ہیروئن بہت زیادہ خوبصورت نہیں ہوتی۔"
میں تڑپ کر بولی، کہ چن چن کر ایسی رومانٹک کہانیاں میں بار بار پڑھتی تھی، جن کی ہیروئن کو چندے آفتاب چندے ماہتاب نہیں بتایا جاتا تھا، اور تصور میں اس ہیروئن کی جگہ میں اپنے آپ کو ہی محسوس کرتی۔
کسی کہانی کی ہیروئن کم خوبصورت ہوتی ہے اور اس کی کزنز زیادہ خوبصورت ہوتیں، تو ہیرو تمام خوبصورت لڑکیوں کو چھوڑ کر اسی کم خوبصورت ہیروئن کا انتخاب کرتا ہے۔"

"تو تمہارا خیال ہے کہ زریان بھی تمہاری تینوں کزنز کو چھوڑ کر تمہیں منتخب کرے گا؟" عدنان نے پوچھا۔

"اگر تم لوگ چاہو تو..." میں نے ان دونوں بہن بھائی پرامید بھری نظریں ڈالیں۔

"کیا مطلب؟" عائشہ نے ٹانگ اڑائی۔

"اگر تم دونوں زریان اور زریان کی امی کے سامنے میری خوب تعریف کرو، میری اچھائیوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرو تو؟" میں اتنا ہی بول پائی تھی کہ حسبِ عادت عدنان بیچ میں بول پڑا۔

"تم میں اچھائیاں بھی ہیں کیا؟"

"ہاں، ہیں نا! میں خوش مزاج، ملنسار، تمیزدار، صاف دل اور مخلص لڑکی ہوں۔" میں نے خوشی خوشی اپنی خوبیاں بیان کیں۔

"اس سب میں سچ کہاں ہے؟" عائشہ نے پوچھا۔

"وہ صاف دل کی لڑکی… وہ صحیح نہیں ہے کیا؟" میں نے عائشہ کو یاد دلانا چاہا۔

"ہیں؟ یہ سچ ہے کیا؟" عائشہ کی حیرانگی قابلِ رشک تھی۔

"ہو سکتا ہے کہ سچ ہو، ہمیں کیا پتا، اب دل دکھائی تو دیتا نہیں ہے۔" عدنان بھی کچھ کچھ کنفیوژن کا شکار دکھائی دے رہا تھا۔

"بالکل سچ ہے!" میں نے ان دونوں کو یقین دلانا چاہا، "اور تھوڑی بہت مبالغہ آرائی تو چلتی ہے۔ مبالغہ آرائی سے تو ناولز اور افسانوں کی شان بڑھتی ہے!"

"اس تھوڑی بہت میں تھوڑی کہیں نہیں ہے، صرف 'بہت ہی بہت' ہے۔ اور بروقت افسانوں اور ناولز کی دنیا میں نہ رہا کرو، یہ اصل زندگی ہے، کوئی کہانی نہیں۔" عدنان بولا۔

"شکر کرو اصل زندگی ہے! اگر کہانی ہوتی تو میں یہ بھی نہ دیکھتی کہ تم یہ چندی مندی آنکھوں والی نورین کو پسند کرتے ہو۔ میں تو بڑی سیاست سے کوئی چال چلتی اور نورین سے تمہارا چکر ختم کروا کے خود تم سے ہی شادی کر لیتی!"

"پڑ گیا مجھے دل کا دورہ! ارے کوئی بچائے مجھے!"
عدنان دل پکڑے شدید صدمے کے زیرِ اثر دکھائی دے رہا تھا۔

"تم سے شادی کا سن کر بے چارے نے یہ بھی غور نہیں کیا کہ تم نے نورین کو چندی مندی آنکھوں والی کہا ہے۔" عائشہ نے گویا عدنان کو یاد دہانی کرانی چاہی، تو عدنان ایک دم الرٹ ہو گیا۔

"کیا؟ میری نورین کی جھیل سی آنکھوں کو تم نے کیا کہا؟ بولو بولو!" عدنان کے تیور خطرناک ہو گئے۔

"سوری! تمہاری نورین کی جھیل سی آنکھوں کو غلطی سے چندی آنکھیں والی بول دیا۔ معاف کر دو!" میں نے باقاعدہ ہاتھ جوڑ دیے۔

"جاؤ، معاف کیا!" عدنان نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا، "لیکن اگر آئندہ میری نورین کی شان میں گستاخی کی، تو اچھا نہیں ہوگا!" عدنان ملنگوں کے انداز میں بولا۔

"اچھا بھئی، نہیں کروں گی گستاخی۔" میں تنگ آ کر بولی۔ "غلطی ہو گئی مجھ سے جو تم دونوں سے مدد مانگنے آ گئی۔ میں اکیلی ہی سب سنبھال لوں گی۔" میں غصے میں وہاں سے اٹھ گئی۔

میں نے بھی سوچ لیا تھا کہ جو کرنا ہے، اکیلے ہی کرنا ہے۔ کہ میری امی، عدنان اور عائشہ تو اپنے ہوئے پرائے کی عملی تفسیر بنے بیٹھے تھے۔

روبینہ خالہ اور زریان جب شائستہ تائی کے پورشن میں آئے، تو سب ہی تائی امی کی طرف روبینہ خالہ سے ملنے اور اپنی طرف آنے کی دعوت دینے گئے۔ تو میں بھی تیار ہو کر امی کے ساتھ گئی، کہ زریان اور خالہ پر اچھا امپریشن بھی ڈالنا تھا۔

پر وہاں جا کر عریبہ اور ہنزلہ کو دیکھ کر اپنی ناؤ ڈوبتی محسوس ہوئی۔

وہ دونوں بہت خوبصورت لگ رہی تھیں۔ مگر میں نے ہمت نہ ہاری—کہ آخر میں ہیروئن تھی، اور ہیرو ہمیشہ ہیروئن کا ہی بنتا ہے، خواہ ہزاروں خوبصورت لڑکیاں اس کے آگے پیچھے موجود ہوں۔

"اور میں کسی سے کم ہوں کیا؟ بس تھوڑی سی کم گوری، تھوڑی کالی، اور تھوڑی سی کم خوبصورت ہوں۔"
میں نے اپنے آپ کو تسلی دی، اور ایک ترچھی نظر زریان پر ڈالی—اف، کسی ناول کے ہیرو کی طرح ڈیشنگ اور اسمارٹ۔

لیکن وہ بیچارہ تو مجھے تین لڑکیوں کے درمیان سینڈوچ بنا محسوس ہوا۔

"امی کو اتنی جلدی کیا ہے؟ ابھی تو زریان نے مجھے صحیح سے دیکھا بھی نہیں، اور یہ تائی، چچی اور ان کی بیٹیاں ہم سے پہلے کی آئی بیٹھی ہیں۔ اب بھی جانے کا کوئی ارادہ نہیں لگ رہا۔ کل کا دن بھی اپنے گھر بک کروا لیا ہے۔ اور ایک یہ میری امی۔۔۔"
میں نے اپنی جلتی کڑھتی سوچوں پر بریک لگائی اور روبینہ خالہ اور زریان کو اللہ حافظ کہا کیونکہ امی جانے کے لیے آگے بڑھ گئی تھیں۔

دوسرے دن شام کا کھانا روبینہ خالہ اور زریان نے ہماری طرف کھایا، اور روبینہ خالہ نے تو میرے ہاتھ کے ذائقے کو بہت سراہا۔ زریان نے بھی مسکرا کر کھانے کی تعریف کی۔
مجھے لگا کہ روبینہ خالہ جلدی سے میری مداح ہو جائیں گی، سو میں نے انہیں اپنی عادات اور اخلاق سے اپنانے کا بیڑا اٹھایا—کہ اگر ماں قابو میں آ جائے تو بیٹا خود بخود میرا بن جائے گا۔

اور واقعی، روبینہ خالہ مجھ سے کافی متاثر لگ رہی تھیں، کیونکہ وہ کرید کرید کر مجھ سے ایسی باتیں پوچھ رہی تھیں جیسی کہ ایک ساس اپنی ہونے والی بہو سے کرتی ہے، مثلاً میری تعلیم، کھانے پکانے وغیرہ کے بارے میں۔
تعلیم کا جواب تو میں گول کر گئی، ہاں کھانے پکانے والے سوال کا جواب ضروری تھا۔

"خالہ، کھانے تو میں سارے ہی بہت اچھے بناتی ہوں، اور نئی نئی ڈشز بھی ٹرائی کرتی ہوں۔"
میں نے اپنی تعریف شروع ہی کی تھی کہ امی بول پڑیں:

"ہاں ہاں، کھانے تو ماشاءاللّٰہ ہر طرح کے بناتی ہے اور بہت اچھے بناتی ہے، مگر برتن دھونے کی آلکسی ہے اسے۔ صبح کے برتن دوپہر کو دھوتی ہے اور دوپہر کے رات کو۔"

اف میری امی... ان کو بھی ہر بات پر سچ بولنے کی عادت ہے۔ کچھ سوچتی ہی نہیں!
لگتا ہے کہ میری ساری محنت پر پانی پھیر کر ہی رہیں گی۔

"ان شاء اللہ سسرال ایسا ملے گا جہاں ماسیاں ہوں گی کام کے لیے، زیادہ کام ہی نہیں کرنا پڑے گا۔" روبینہ خالہ نے بچھوئی ہوئی لگاوٹ سے کہا تو میرے دل کی تو کلی ہی کھل گئی۔
میں جانتی تھی کہ روبینہ خالہ کے گھر میں دو دو، تین تین ماسیاں کام کرتی تھیں۔
مجھے یقین تھا کہ روبینہ خالہ کو میں پسند آ گئی ہوں۔
اگر خالہ کو میں پسند ہوں تو سمجھو کام بن ہی گیا۔

لیکن اگر روبینہ خالہ کے سامنے میں نے زریان سے زیادہ بات چیت کی تو وہ مجھے ایڈوانس سمجھ کر رد نہ کر دیں،
اس لیے زریان کو میری خوبیوں سے آگاہ کرنے کے لیے میں نے عائشہ کا انتخاب کیا، کیونکہ اگلے دن زریان، روبینہ خالہ کے ساتھ ان کے گھر جانا تھا۔

"دیکھو، اچھی طرح سے زریان کے سامنے میری خوبیاں بیان کرنا۔"
میں نے عائشہ کو کال کی۔

"مطلب لمبی لمبی چھوڑنی ہیں؟" عائشہ یوں بولی جیسے ساری بات سمجھ گئی ہو۔

"جو بھی سمجھو۔"
میں نے لائن ڈسکنیکٹ کر دی۔

اگلے دن میں عائشہ کے پورشن میں گئی تو میرے بولنے سے پہلے ہی وہ شروع ہو گئی:

"بھئی! تمہارا کام تو ہو گیا۔ میں نے تمہاری وہ وہ خوبیاں زریان کے سامنے بیان کی ہیں نا کہ تم مر کر بھی دوبارہ پیدا ہو جاؤ، تب بھی تم میں وہ کوالٹیز پیدا نہیں ہو سکتیں!"
عائشہ کی بات پر غصہ تو آیا، مگر اس پر غصہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔

"شکریہ، بہت بہت! مگر یہ بتاؤ، زریان کیا بولا؟ تمہیں کیا لگتا ہے کہ یہاں میرا رشتہ ہو جائے گا یا ابھی مجھے مزید کچھ عرصہ شادی کے خواب دیکھنے ہوں گے؟"

"بھئی، رشتہ ہونے یا نہ ہونے کا تو نہیں معلوم۔ ویسے زریان کہہ رہا تھا کہ مہرین بہت اچھی ہے۔"

"ہیں، سچ؟"
میں تو ہواؤں میں اڑنے لگی۔

"ویسے مجھے واقعی لگتا ہے کہ اب تمہاری شادی ہو جائے گی، کیونکہ ہمارے گھر بھی روبینہ خالہ تمہاری بہت تعریف کر رہی تھیں۔ حیرت ہے!"
عائشہ کہہ رہی تھی، اور مجھے لگا کہ خوشی کے مارے میں بے ہوش ہی نہ ہو جاؤں۔

"ویسے تم کہاں سے قابلِ تعریف ہو؟ لیکن خیر، اللہ کرے تم روبینہ خالہ کو پسند آ ہی جاؤ، اچھا ہے—تمہاری فالتو باتوں سے جان چھوٹے گی۔ شادی کا شوق بھی بہت ہے تمہیں!"

"کیا مطلب ہے تمہارا؟ اب بھی شوق نہیں ہو گا؟ پورے بائیس سال کی ہو گئی ہوں میں!"

منہ سے بے اختیار ہی سچ نکل گیا۔ عائشہ ہنسنے لگی، تو میں نے جلدی سے اللہ حافظ کہا اور اپنے گھر کی طرف رخ کیا۔

اگلے دن پھر عائشہ سے ملنے اور معلومات لینے گئی تو دیکھا کہ عائشہ اور عدنان کے ساتھ زریان لان میں بیٹھے ہیں۔ میرا دل دھک دھک کرنے لگا۔ ویسے تو چوبیس گھنٹے ہی میرا دل دھڑکتا ہے، لیکن اس وقت جو دل کی رفتار تھی وہ ہوائی جہاز کی رفتار سے بھی تیز تھی۔ وہ ریل گاڑی کی آواز سے مشابہ تھی: چھکا چھک، دھڑا دھک، چھکا چھک، دھڑا دھک!

کیا کروں، بلم پردیسی اچانک ہی سامنے آ گئے تھے!

میں اپنے آنچل کا پلو پرانی ہیروئینوں کی طرح انگلی پر لپیٹنے لگی۔ لیکن پھر سوچا کہ زریان مجھے زیادہ ہی پرانی نہ سمجھ لے۔ سو انگلی سے دوپٹہ چھڑایا، لیکن دوپٹے سے بہت طریقے سے اپنے آپ کو لپیٹا کہ زریان مجھے زیادہ ہی "نئی" نہ سمجھ لے۔ بہت ہمت کرکے قدم آگے بڑھائے۔

"آؤ بھئی مہرین! کیسی ہو؟" زریان نے مجھے دیکھ کر بے تحاشا خوشی کا مظاہرہ کیا، تو میرا دل کیا کہ میں بھی زریان کے سامنے اپنی بے تحاشا خوشی کا مظاہرہ کروں، لیکن فی الحال احتیاط لازمی تھی۔

"بس ایسی ویسی ہی ہیں..." عدنان منہ ہی منہ میں بڑبڑایا، تو میں نے آنکھوں سے اشارہ کیا جس کا مطلب تھا کہ موقع کی نزاکت کا خیال کرو۔

"بہت اچھی ہے مہرین، آپ ذرا غور سے دیکھیں تو سہی!" عائشہ میری مدد کے لیے بڑھی۔

"جی؟ کیا مطلب آپ کا؟" زریان نے قدرے حیرت سے عائشہ کو دیکھا۔

"م م میرا مطلب ہے..." عائشہ ہکلانے لگی، اور میرا دل چاہا کہ قریب رکھا ہوا گملہ اٹھا کے اسے دے ماروں۔ میری فوج کے سپاہی بھی بزدل نکلے!

"عائشہ کا مطلب ہے کہ مہرین بہت اچھی انسان ہیں۔" عدنان نے عائشہ کی ادھوری بات مکمل کی۔

"ہاں یہ بات تو مجھے معلوم ہے۔" کہہ کر وہ میری طرف متوجہ ہوا۔
"امی تو بہت تعریف کر رہی تھیں، امی کو آپ بہت اچھی لگی ہیں۔"
زریان نے مجھ سے میری ہی تعریف کی تو دل چاہا کہ اپنے پورے بتیس دانت نکال کر زور سے ہنسوں۔ نہیں تو زریان کی تعریف پر لڈی ڈالنا تو بنتا تھا،
پر میں نے خود کو یاد دلایا:
"کنٹرول مہرین، کنٹرول!"
سو صرف دھیمے سے مسکرانے پر اکتفا کیا۔

"روبینہ خالہ خود بہت اچھی ہیں، اس لیے انہیں میں اچھی لگی ہوں۔ ورنہ میں اس قابل کہاں۔"

"ہاں واقعی، تم اس قابل کہاں، بلکہ تم کسی بھی قابل کہاں!"
عدنان نے میری طرف جھک کر کہا، تو میں نے سینڈل کی ہیل سے اس کے پاؤں پر زور سے کک ماری۔
وہ بیچارہ فوراً کرسی سے کھڑا ہوگیا۔

"کیا ہوا عدنان! تم کھڑے کیوں ہو گئے؟"
زریان نے پوچھا۔

"کچھ نہیں، بس بیٹھے بیٹھے پاؤں سن ہو گیا تھا۔"
عدنان دوبارہ کرسی پر بیٹھ گیا۔

"اور مہرین، کہاں تک تعلیم حاصل کی ہے آپ نے؟"
زریان کے سوال پر میرا دل بیٹھنے لگا۔

اب ایم بی اے میں پوزیشن لینے والے بندے کو کیا بتاؤں کہ صرف بارہ جماعتیں پڑھی ہیں، وہ بھی سپلیاں دے دے کر؟
پڑھنے میں دل ہی نہیں لگتا تھا۔ کتاب دیکھتے ہی چکر آنے لگتے تھے۔
رو رو کر بارہ کلاسیں ہی پڑھ پائی۔
میں تو میٹرک کے بعد ہی گھر میں بیٹھ کر پیا جی کے خواب دیکھنا چاہتی تھی، لیکن ناولوں اور کہانیوں میں کالج اور یونیورسٹی کے قصے پڑھ پڑھ کر کالج تک گئی تاکہ آگے جا کر میاں جی سے یہ نہ سننا پڑے کہ کبھی اسکول کالج کا منہ نہیں دیکھا۔

اب زریان کے اس سوال کا کیا جواب دوں؟

"زریان، آفتاب انکل اور فائق بھائی کیسے ہیں؟"
گو کہ ابھی ابھی میں نے عدنان کے پاؤں کا کچومر بنایا تھا، پھر بھی وہ بیچارہ حقِ دوستی نبھاتے ہوئے بات بدل کر مجھے جواب دینے سے بچا گیا۔

"ہاں، پاپا اور تایا ابو ٹھیک ہیں۔"
زریان نے جواب دیا اور کچھ دیر بعد اجازت لے کر چلا گیا۔
وہ شاید کافی دیر سے یہاں موجود تھا۔

"مہرین، میرا خیال ہے کہ تم زریان کے سامنے کم ہی آؤ تو بہتر ہے کیونکہ اس طرح تمہاری خوبیوں سے زیادہ تمہاری خامیاں زریان کے علم میں آنے کا امکان زیادہ ہے۔"
زریان کے جانے کے بعد عائشہ نے کہا، اس کا اشارہ زریان کے تعلیم والے سوال پر تھا۔

"اور مجھے لگتا ہے کہ اگر زریان نے تمہیں زیادہ غور سے دیکھا تو روبینہ خالہ کے کہنے پر بھی وہ ہرگز تم سے شادی نہیں کرے گا بلکہ تم سے شادی کرنے سے زیادہ مناسب اسے خود کشی کرنا لگے گا۔"
عدنان اب گھاس پر بیٹھ کر اپنے سوجے ہوئے پاؤں کو سہلا رہا تھا۔
"تم جیسے دوستوں کے بارے میں کسی نے کہا ہے کہ تم جیسے دوست جس کے ہوں اس کی دشمنوں کی کمی خود بخود پوری ہو جاتی ہے۔"
میں نے خفگی سے کہا۔

"ہیں، یہ کس نے کہا ہے مجھے بتاؤ میں لات مار کے اس کا منہ توڑ دوں گا۔"
عدنان غصے میں ایک پاؤں سے لنگڑاتا ہوا کھڑا ہو گیا۔

"پہلے اپنی لات تو ٹھیک کر لو۔"
میں نے طنز سے کہا۔

"اپنے گینڈے جیسے پیر سے میرا معصوم سا پاؤں کچل دیا۔"

"میرا خیال ہے کہ جب تک زریان یہاں ہے تم سلیمانی ٹوپی پہن کر غائب ہو جاؤ، ہم تمہاری تعریفیں کر کر کے اسے سہانے سپنے دکھاتے رہیں گے اور جب زریان کی تم سے شادی ہو جائے اس کے بعد تم جادوئی ٹوپی سر سے اتار کر بیوہ ہو جانا۔"
عائشہ نے کہا۔

"ہیں، کیا مطلب؟"
میں جو غور سے عائشہ کی بات سن رہی تھی، اس کے آخری جملے پر حیران ہوئی۔

"بھئی سہانے خوابوں کی ایسی بھیانک تعبیر دیکھ کر زریان کو ہارٹ اٹیک ہونا تو بنتا ہے ناں۔ تو ہو گئیں ناں تم بیوہ۔"
عائشہ کی بات کی عدنان نے تشریح کی۔

"کیسی منحوس باتیں کر رہے ہو، میری مدد کرو۔"

"ہاں تو کر رہے ہیں مدد اور کتنی مدد کریں۔ تمہارے بارے میں جھوٹ بول بول کر سارے آگے پیچھے کے ثواب گناہ بن گئے ہوں گے۔"

"ویسے تو تم بڑے مولوی بشیرالدین ہو، زرا اپنی یادداشت پر زور دو، کبھی کوئی ثواب کا کام بھی کیا ہے تم نے؟"
میں نے عدنان سے پوچھا۔

"ہاں کیا ہے؟" جواب فوری آیا۔

"کون سا؟"

"پچھلی عید پر میں نماز پڑھنے گیا تھا۔"
عدنان نے فخریہ کہا۔

"اوہ، پچھلی عید پر؟ میں تو سمجھتی تھی کہ تم اس عید پر بھی گئے تھے۔"
میں نے غصے اور افسوس سے کہا، تو وہ نظریں چرا کر دوبارہ اپنے تکلیف دیتے پاؤں کی طرف متوجہ ہو گیا۔

"سلمیٰ! بس آج سے مہرین میری بیٹی ہوئی۔"
روبینہ خالہ کی بات سن کر میں ڈرائنگ روم کے باہر ہی خاموشی سے کھڑی ہو گئی۔ جملہ ایسا تھا کہ دل میں خوش گمانیاں پیدا ہونے لگیں۔

"ویسے تو مہرین تمہاری ہی بیٹی ہے، لیکن سوچنے کا موقع بھی تو چاہیے ہمیں۔ شادی بیاہ کا معاملہ ہے تو سوچ سمجھ کر ہی جواب دینا ہو گا۔"
سلمیٰ کے جواب پر میرے دل میں انگارے سلگ اٹھے۔ لو بتاؤ اس میں سوچنے کی کیا بات ہے؟ اسی دن کے لیے تو اتنے پاپڑ بیلے تھے میں نے۔

"بھئی جتنا چاہے سوچ لو، پر جواب مجھے ہاں میں ہی چاہیے۔ مہرین کو دلہن بنا کر میں ہی لے کر جاوں گی، انکار نہیں کرنا مجھے۔"

"ان شاء اللہ تمہارے لائے ہوئے رشتے پر انکار کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔"
سلمیٰ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

روبینہ خالہ کے جانے کے بعد میں خوشی خوشی اپنے کمرے میں آ گئی۔ موبائل اٹھا کر سب سے پہلے عائشہ کا نمبر ملایا کہ جب تک یہ خوشی عائشہ کو نہ بتاتی سکون نہ ملتا۔

"عائشہ، میں آج بہت خوش ہوں، میرے دل کی تمنا پوری ہو گئی آج۔ میرے من کے چمن میں آج پھول ہی پھول کھلے ہیں۔"
میں نے ہر ممکن ہیروئین بننے کی کوشش کرتے ہوئے ذرا انداز سے ڈائیلاگ مارے۔

"ہیں؟ کیا ہوا؟"
جو خوشی میں سمجھ رہی تھی کہ عائشہ کی آواز میں ہوگی وہ نہیں تھی، بلکہ کچھ اداسی سی تھی جس کا میں نے خاص نوٹس نہ لیا۔

شام کو سنایا، میں نے گویا بم پھاڑ دیا۔

"روبینہ خالہ میرا رشتہ لائی ہیں زریان کے لیے۔"

"ہیں؟"
عائشہ کی آواز میں بم پھٹنے کے بعد کے آثار نمایاں تھے، اداسی شدید حیرت میں بدل گئی۔
"ہیں؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ تین گھنٹے پہلے تو روبینہ خالہ میری سلمیٰ سے رشتے کی بات کر کے گئی ہیں میرے لیے۔ میں تو خود اداس تھی کہ یہ بات تمہیں کیسے بتاؤں گی۔ اب تم کہتی ہو کہ روبینہ خالہ نے تمہارا رشتہ مانگا ہے؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟"

اب کی بار عائشہ نے بم پھینکا تھا اور یہ میرے پھینکے ہوئے بم سے زیادہ خطرناک، تشویش ناک اور حیرت ناک تھا۔ سوا گلے دو منٹ بعد میں عائشہ کے گھر میں اور اس کے ایک منٹ بعد میں عائشہ کے سامنے تھی۔"

"روبینہ خالہ نے زریان کا رشتہ میرے لیے بھی میری امی سے مانگا اور تمہارا رشتہ بھی تمہاری امی سے مانگا۔ یہ کیا چکر ہے، سمجھ نہیں آ رہا۔"
عائشہ سر پکڑ کر بیٹھی تھی، میں بھی غور و خوض کرنے لگ گئی۔ کمرے میں چکر لگانے کے بعد جب میرے دماغ میں سناٹے اور پیروں میں بائنٹے آنے لگے تو اچانک ایک بات میرے دماغ میں آئی۔

"ساری بات میری سمجھ میں آ گئی۔"
میں نے چٹکی بجائی۔

"کہانی، تم اتنی دیر سے کسی ڈائجسٹ کی کہانی کے بارے میں سوچ رہی تھیں؟ وہ بھی اس وقت جبکہ ہم دونوں اتنی بڑی الجھن میں ہیں۔"

"میرا مطلب ہے کہ یہ رشتے کا چکر میری سمجھ میں آ گیا۔"

"کیا سمجھ میں آیا؟"
عائشہ نے پوچھا۔

"زریان کی ملاقات مجھ سے زیادہ تم سے ہوئی، اس سے باتیں بھی زیادہ تمہاری ہوئی ہیں۔ گو کہ تم اس کے سامنے میری تعریفیں کرتی رہی ہو مگر ان تعریفوں سے وہ مجھ سے زیادہ تمہیں پسند کرنے لگا اور میں چونکہ روبینہ خالہ کے آگے پیچھے پھرتی رہی ہوں اور ان کے سامنے اچھی بچی بن کر آتی رہی ہوں تو روبینہ خالہ کو میں اپنی بہو کے طور پر پسند آ گئی۔"

"تو؟"
عائشہ نے نظریں مجھ پر گاڑ دیں۔

"تو پھر دونوں ماں بیٹوں میں ایک زبردست جنگ چھڑ گئی۔"

میں نے حتی الامکان اپنے لہجے کو ڈرامائی بنایا۔
"زریان نے کہا کہ چاہے دنیا ادھر سے ادھر ہو جائے میں تو بس عائشہ سے ہی شادی کروں گا اور روبینہ خالہ نے ضد باندھ لی کہ مہرین ہی میری بہو بنے گی۔"
میں نے اتنا کہہ کر سنسنی پھیلانے کے لیے خاموش ہو کر عائشہ کو دیکھا۔

"اب جلدی سے منہ سے پھوٹ بھی چکو کہ کیا ہوا ہوگا، اس سے پہلے کہ مارے تجسس کے میں فوت ہو جاؤں یا غصے کے عالم میں میرے ہاتھوں سے تمہارا قتل ہو جائے۔ جلدی بتاؤ کہ اصل ماجرا کیا ہے۔"
عائشہ نے دونوں ہاتھ میری گردن کی طرف بڑھائے تو میں جلدی جلدی بتانے لگی۔

"اسی لیے روبینہ خالہ نے ایک ہی دن دونوں گھروں میں رشتہ ڈال دیا۔ اب جس کی طرف سے بھی انکار ہوگا زریان اس سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دور ہو جائے گا۔ اور مجھ سے تو تم اس قسم کی قربانی کی امید مت رکھنا۔"
میں نے عائشہ کو ہری جھنڈی دکھا دی۔

"میں تم سے کسی بے ایمانی، نادانی اور پریشانی کی توقع تو کر سکتی ہوں، پر قربانی کی نہیں۔ ویسے بھی میں شادی کے لیے مری نہیں جا رہی۔"
عائشہ نے یوں کہا جیسے کہہ رہی ہو بھاڑ میں جاؤ اپنا زریان اپنے پاس بی رکھو۔

"تم کیا سمجھتی ہو کہ میں شادی کروانے کے لیے بے قرار ہوں؟"
میں نے غصے سے پوچھا۔

"ہاں، میں یہی سمجھتی ہوں۔"
اب میں نے حد درجہ اطمینان سے کہا۔

"ویسے ہم دونوں کے لیے ایک ہی بار زریان کا رشتہ دینے کی وجہ ایک اور بھی ہوسکتی ہے۔"

"وہ کیا؟"

"نامعلوم دونوں ماں بیٹوں میں یہ طے پایا ہو کہ ایک بیوی زریان کی پسند کی اور ایک بیوی روبینہ خالہ کی پسند کی — یعنی روبینہ خالہ بیک وقت ہم دونوں کو اپنی بہو بنانا چاہ رہی ہوں۔ بھئی مردوں کو تو چار جائز ہیں۔"

"کیا! تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا؟ اوہ، میں بھی کیسی باتیں کر رہی ہوں، وہ تو پہلے ہی خراب تھا لیکن تمہاری اس بات سے تو لگتا ہے کہ تمہارا دماغ آخری سانسیں لے رہا ہے۔ تب ہی تو الٹی سیدھی ہانک رہی ہو۔"
عائشہ نے قدرے غصے اور افسوس کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ دیکھا۔

"ویسے ایسا ہو بھی سکتا ہے۔ دیکھو عائشہ! اگر ایسا ہوا تو وعدہ کرو ہماری شادی کے بعد بھی ہماری دوستی میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ میں یونہی تم سے اپنا مطلب نکلواتی رہوں گی اور تم بھی ایسے ہی میرے کام آتی رہنا۔ میرا بھی وعدہ ہے کہ میں تمہیں اپنی دوست اور اپنی بہن ہی سمجھوں گی کبھی سوتن نہیں سمجھوں گی۔"
میں نے وفور جذبات میں عائشہ کا ہاتھ تھام لیا۔

"ہیں ہیں، یہ کیا باتیں کر رہی ہو۔"
اندر آتا زید صرف آخری لائنیں ہی سن پایا تھا۔ سو عائشہ نے فوراً الف سے لے کر تک سارا قصہ زید کے گوش گزار کیا۔
ساتھ ہی میرے نادر خیالات و جذبات بھی زید کو بتا دیے۔

"ایمن کہانیاں پڑھ پڑھ کر تم سٹھیا گئی ہو۔"
تمام باتیں سن کر زید نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔

"ابھی میں ساٹھ سال کی نہیں ہوئی تو سٹھیاؤں گی کیسے؟"
میں نے زید کو اس کی کم عقلی کا احساس دلانا چاہا۔

"تم ساٹھ سالوں کی نہیں ہوئی مگر اچھے خاصے سالوں کی ہو گئی ہو۔ تمہاری باتیں سن کر لگتا ہے کہ تمہیں بجلی کے جھٹکے لگیں گے، تب ہی تم ٹھیک ہو گی۔"
زید کو مجھ پر اچھا خاصا غصہ آیا ہوا تھا۔

"میں بالکل ٹھیک ہوں۔ ایک ہی وقت میں ایک ہی لڑکے کے ایک ہی گھر کے دو الگ الگ پورشنز میں رشتے لے کر جانے کا کیا مطلب ہوا پھر؟"
میں بھی تنتناتی ہوئی زید کے سر پر جا کھڑی ہوئی۔

"اس کا مطلب یہ ہے کہ تم دونوں میں سے کسی ایک کو غلط فہمی ہوئی ہے۔"
زید بولا تو میرے دل میں کچھ کچھ ہونے لگا۔

"ہائے ایسا نہیں کرنا۔ اتنے سالوں بعد تو مجھے اپنی شادی کی خوشی مل رہی ہے۔ دوسروں کی شادیوں میں شریک ہوئی ہوں ابھی تک، اللہ تعالی مجھے اپنی شادی میں شرکت کرنی ہے ہر حال میں بس۔"
اس نے ضد نما دعا کی۔

"میں ابھی جا کر امی سے معلوم کرتا ہوں اور پھپھو جان سے بھی پتا کرکے آتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ عائشہ ٹھیک کہہ رہی ہے۔ ویسے بھی تمہاری بات اور گدھے کی لات برابر ہی ہے۔"

فراز کہہ کر فوراً باہر نکل گیا ورنہ اسے گدھے کی لات... مم مم میرا مطلب ہے کہ میری لات پڑہی جاتی۔

ٹھیک تین ماہ بعد میں شوخ رنگ کے بھاری کام دار شرارہ اور سونے کی خوب صورت جیولری پہنے بیٹھی ہوں۔ میرے برابر والی کرسی پر بالکل میرے جیسے شرارہ اور بالکل میرے جیسے زیورات پہنے سارہ بھی بیٹھی ہے۔ ہم دونوں شہر کے بہترین بیوٹی پارلر میں تیار ہونے کے لیے آئی ہوئی تھیں۔

"پہلے مجھے تیار کرنا۔"
میں نے اپنے سامنے کھڑی بیوٹیشن سے بے صبری سے کہا۔

"ہاں پہلے اسے تیار کرنا، اسے تیاری کی زیادہ ضرورت ہے۔ اس پر ٹائم اور محنت دونوں زیادہ لگیں گے۔"
سارہ منہ ہی منہ میں بڑبڑائی۔

"ہاں بھئی، اچھا سا تیار کر دو، فاخرہ پھپھو ہم دونوں کی بارات لانے والی ہوں گی۔"
میں خوشی خوشی بولی اور چہرہ آگے کر کے لپائی پٹائی کے لیے تیار ہو گئی۔

"آپ سوچ رہے ہوں گے کہ فاخرہ پھپھو اور ہم دونوں کی بارات۔۔۔ چلیے آپ کو شروع سے بتاتی ہوں۔ نازیہ کے لبوں سے میری تعریفیں سنتے سنتے نوفل میرا دیوانہ تو نہ ہوا لیکن نازیہ کی سادگی کا دیوانہ ضرور ہو گیا۔ اسی کا نتیجہ ہے نوفل اور نازیہ کی شادی۔ اب آپ کہیں گے کہ پھر میں کس خوشی میں دلہن بننے بیٹھ گئی اور اگر دلہن بن رہی ہوں تو میرا دولہا یعنی میرا ہیرو کون ہے۔ دراصل فاخرہ پھپھو ہمارے ہاں صرف نوفل کے لیے لڑکی دیکھنے نہیں آئی تھیں بلکہ اپنے جیٹھ کے بیٹے موحد کے لیے بھی لڑکی پسند کرنے آئی تھیں۔ پھپھو کی جیٹھانی کا انتقال ہو چکا تھا، سو پھپھو کے جیٹھ نے یہ ذمہ داری فاخرہ پھپھو کو سونپی تھی۔ موحد کے لیے پھپھو کو تھوڑی سی کم گوری، تھوڑی سی کم دبلی اور تھوڑی سی کم خوبصورت لڑکی درکار تھی اور اسی دن پھپھو امی سے موحد کے رشتے کے سلسلے میں بات کر رہی تھیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج میری موحد سے شادی ہے اور نازیہ کی نوفل سے۔

نکاح کے بعد مجھے اور نازیہ کو اسٹیج پر لا کر بٹھایا گیا۔

میں نے نظر اٹھا کر اپنے پہلو میں بیٹھے اپنے ہیرو کو دیکھا۔ عمران مجھے بہت پیار بھری نگاہوں سے دیکھ کر مسکرا دیے۔ میں نے نظریں جھکا لیں جبکہ وہ ابھی بھی مجھے پیارسے دیکھ رہے تھے۔ ان کی نظروں کی تپش مجھے اپنے چہرے پر محسوس ہو رہی تھی۔ عمران میری زندگی کی کہانی کے ہیرو ہیں۔ کیا ہوا جو وہ تھوڑے سے کم گورے اور تھوڑے کم خوبصورت ہیں۔ ہیں تو میرے ہیرو۔ اصل ہیرو تو وہی ہوتا ہے جو ہماری زندگی کا ہیرو ہوتا ہے۔

"چچ چچ، مجھے تو بے چارے عمران پر ترس آ رہا ہے۔ کیسے بیٹھے بٹھائے بے چارے کے سر پر مصیبت آ گئی۔ تم جیسی چیز کو بلکہ تم جیسی ناچیز کو بھی پیارسے دیکھنا پڑ رہا ہے اسے۔"

فراز مجھے چھیڑ رہا تھا، اب دلہن بنی اسٹیج پر بیٹھی ہوں، کیسے جواب دوں؟ ویسے بھی غصہ تو آ نہیں رہا۔ میں دھیرے سے مسکرا دی۔ اب تو بس ہنسنا مسکرانا ہی ہے۔ میری تلاش ختم ہو گئی۔ میرا انتظار ختم ہو گیا۔ میرے خوابوں کا شہزادہ میرا ہیرو مجھے مل گیا۔



Post a Comment for ""میرے خوابوں کا شہزادہ""