میں اسلام آباد کا رہایشی ہوں اور میری عمر اکتیس سال ہے. کچھ حالات ایسے بنے کہ میری شادی آج تک نہیں ہو سکی. حالانکہ میں آج ایک بہت ہی اچھی نیم سرکاری پوسٹ پہ جاب کر رہا ہوں. میری اس well paid جاب کے پیچھے میری اکلوتی سگی بہن کی سب سے ذیادہ محنت ہے بلکہ اگر یوں کہا جاۓ کہ میری یہ نوکری اسی کے مرہون منت ہے تو گراں نہ ہو گا. میرا نام حیدر ہے اور میری بہن کا نام مریم ہے جس کی عمر اب انتیس سال ہے. مریم کے خدوخال وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور کہانی پڑھنے کے ساتھ ساتھ آپ کو خود ہی معلوم ہو جایئن گے.
میری فیملی میں بس ہم تین لوگ یعنی میں میری ہمشیرہ اور والد صاحب ہی رہتے ہیں. والد صاحب آرمی میں بطور صوبیدار سروس کرتے رہے اور ننانوے کی کرگل جنگ میں اپنے ملک کی خاطر دونون ٹانگیں گنوا بیٹھے.
کہانی آج سے چار سال پہلے کی ہے جب مریم پچیس سال کی کٹر جوانی کی دہلیز پہ تھی. میں بھی نیا نیا گریجوویٹ ہوا تھا اور جاب کی تلاش میں مارا مارا پھرتا تھا. مریم ماسٹرز کی طالبہ تھی اور جب ہم دونون گھر سے نکل جاتے تو بوڑھے والد صاحب جو کہ علیل بھی تھے وہ اکیلے دن بھر ہم دونوں کا انتظار کرتے رہتے. میں ان دنوں ایک چھوٹی سی جاب کر رہا تھا اور مریم یونیورسٹی جاتی تھی. اسکی روٹین بہت ٹف تھی . یونیورسٹی سے واپس آتے ہی گھر کے کاموں میں جت جانا . والد صاحب کا کسی میٹ کی طرح خیال رکھنا . میرے چھوٹے چھوٹے کام نپٹا دینا. بعض اوقات مجھے اپنی معصوم اور نہایت شریف سی بہن پہ بہت ترس آتا . لیکن حالات فی الحال ایسے نہیں تھے کہ میں کوئ خادمہ یا میٹ افورڈ کرتا. مجھے اس کی جوانی پہ ترس آتا. میں پہلے پہل ایک بہت غیرت مند بھائ تھا لیکن جیسے جیسے مریم جوان ہوتی گئ اس کا بدن نا قابل یقین حد تک گرم اور نشیلا ہوتا گیا. بعض لڑکیاں ایسی ہوتی ہیں جنہیں دیکھتے ہی زبان کسی پیاسے کتے کی طرح باہر نکل آتی ہے اور نگاہیں انکے لچکدار جسم کا تا حد نگاہ پیچھا کرتی ہین. مریم بھی انہی لڑکیوں مین سے ایک تھی. 38 سایز کے حیران کن ممے .. کیوںکہ میری بہن کی شرافت کا پورے شہر میں کوئ مقابلہ نہیں تھا اور عمر بھی تو ابھی صرف پچیس سال کی الھڑ جوانی کی تھی! پھر یہ پنجابی ٹائپ کہ موٹے موٹے تھن آخر کیسے! کبھی جو میں اسے دوپٹے کے بغیر دیکھوں تو اچانک سے میرے دک میں یہ خیال آتا تھا. خوبصورت تریں نین نقش تھوڑا گورا اور سانولا بدن پتلی لچکدار کمر اور چھ فٹ آٹھ انچ کا قیامت خیز قد.. اس کچکدار کمر اور سینے پہ سجے دو صحت مند اور تنے ہوۓ گول موٹے موٹے تھنوں کے بعد ایک باہر کو ابھری ہوئ مکھن کی طرح نرم و گداز موٹی بنڈ . مریم کی قیامت خیز جوانی جو بھی دیکھتا وہ بس دیکھتا ہی رہ جاتا . کئ لوگوں کو میں نے مریم سے بات کرتے کسی گہرے خیال میں گم ہوتے دیکھا . مریم کی گانڈ ایسے تھی جیسے دو موٹے موٹے غبارے کسی نے فل ہوا بھر کے اس کی ٹانگوں کے پیچھے لٹکا دیے ہوں جو مریم کے حرکت کرنے پر آذادانہ تھرتھراتے تھے. نیچے پتلی ٹانگین اور دودھ جیسے سفید پاؤں. غرض میں یقین سے کہ سکتا ہوں کہ مریم ہمارے سیکٹر کی سب سے گرم اور سیکسی لڑکی تھی. مجھے اگر کسی چیز نے مریم پہ گرم کیا یا اس کی طرف مائل کیا تو وہ صرف اور صرف اس کا فگر تھا. اس کی خوبصورتی تھی. لیکن میں کوئ بڑھک نہ مارتے ہوۓ یہ سچ سچ عرض کرون گا کہ میں نے مریم سے براہ راست کبھی کچھ کرنے کی کوشش نہیں کی. مجھ میں ہمت ہی نہ تھی جیسے کوئ بھی بھائ اپنی بہن کہ ساتھ کچھ بھی نہیں کر سکتا ویسے میں بھی اس کے ساتھ کچھ نہیں کر سکتا تھا .
وقت گزرتا گیا .. مریم کا ماسٹرز ایک سال میں complete ہو گیا اور میری بھی ایک نیم سرکاری ادارے میں نوکری لگ گئ. مریم اب گھر پہ وقت گزارنے لگی اور میں جاب پہ جاتا تھا . آفس میں میرے باس کا نام محسن تھا جو ایک ٹھڑکی لیکن نہایت چوتیا انسان تھا. وہ ایک ممی ڈیڈی افسر تھا جس کی عمر بتیس سال تھی . شادی شدہ تھا اور اس کے دو بچے بھی تھے . آفس کی کسی لڑکی پہ اگر ٹھڑک کرتا تو چھپ چھپ کہ کرتا تھا. اسے بدنامی کا بہت ڈر تھا لیکن ہوس سے بھی مجبور تھا . یا یون کہین کہ بہت شریف آدمی تھا لیکن ہوس نے اسے مجبور کر رکھا تھا
وہ گرمیوں کی ایک شام تھی . میں ایک پارک کے قریب سے پیدل گھر جا رہا تھا جو کہ ہمارے گھرکہ راستے میں ہی آتا تھا. میرا گھر آفس سےپیدل فاصلے پہ تھا . میں نے اچانک اپنے سامنے مریم کو محسوس کیا لیکن ایسی حالت میں کہ میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گیئں .. ہم لوگون کے متعلق کیا کیا مفروضے بنا کہ رکھتے ہیں حقیقت جن کے مکمل بر عکس ہوتی ہے .. یہاں تمام بھایئوں سے یہ گزارش کرتا چلوں کہ ہم مرضی جتنا اپنی بہنوں پہ بھروسہ اعتبار کریں یا ان کے بارے میں اس طرح نہ سوچیں چکر کہیں نا کہیں انکا ضرور ہوتا ہے آج کے دور میں جو کہ گلوبل ولیج کا دور ہے اپنی بہنوں سے یہ امید رکھنا کہ وہ شریف ہیں اور شریف ہی رہیں گی محض چتیاپے کہ علاوہ کچھ بھی نہیں ..
مریم ہلکے پیلے رنگ کی شلوار قمیض میں ملبوس تھی اور ایک لڑکا اپنی بانہوں کے حصار میں مریم کو لیے بیٹھا تھا .. میری بہن اتنی بولڈ….اوہ خدایا…. لیکن ایک بات جس کے بارے میں میں اتنا sure نہین وہ میرے جذبات تھے .. مجھے لگا کہ میری خوشی کی کوئ انتہا نہ تھی. میری اس فیلنگ کو یہاں موجود انسیسٹ لوگ ہی خوب سمجھ سکتے ہیں .. میں اتنا ایکسایئٹڈ تھا کہ میں نے آج ہی اس متعلق مریم سے بات کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا. میں نے ایک درخت کی اوٹ سے تصویر اتارنا چاہی لیکن ایسا ممکن نہین ہو سکا. میں چپکے سے گھر آ گیا
گھر میں مریم نہیں تھی سو والد صاحب سے حال احوال پوچھنے کی بعد اور fresh ہونے کی بعد میں بے چینی سے مریم کا انتظار کرنے لگا. میں نے ریشمی سا ٹراوزر ہہنا تھا جس کے اندر میرا پہلوان نہ جانے کیوں آج اکڑا ہوا تھا. شام کے قریب مریم گھر آئ مگر تھکاوٹ اس کے چہرے سے عیاں تھی . پیلی پٹیالہ سلکی شلوار میں اس کی گانڈ کو نوچ کھانے کا دل کر رہا تھا. کتنا خوش قسمت تھا وہ شخص جو میری سگی بہن کے سلکی ملائم جسم کا لمس لے رہا تھا. اس نے اپنے آپ کو کنٹرول کیسے کیا تھا.. یہ سوچ کہ میں پریشان ہو رہا تھا .. مریم آتے ہی فریش ہونے چلی گئ اور جب وہ باہر آئ تو حسن کی دیوی لگ رہی تھی. سکن کلر کی قمیص اور کالا ڈھیلا سا ٹراوزر..اس کے اندر سے موٹی تازی بنڈ کے وہ ابھار .. میری نیت کا جنازہ نکال رہے تھے ..
میں نے والد صاحب کہ سو جانے تک اس سے کوئ بات نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا ..
جب والد صاحب سو گیۓ تو میں نے مریم کو اپنے کمرے میں جانے سے روک دیا
“مریم! میری بات سن کے جانا”
“جی بھائ¿” اس نے سوالیہ نظرون سے میری طرف دیکھا.
“آج کہاں تھیں تم¿” بظاہر رعب دار آواز لیکن دل میں یہ آرزو کہ میری بہن ابھی یہ کہ دے کہ اپنے یار سے ڈیٹ مارنے گئ تھی.
“بتایا تو تھا بھائ! سحرش کے گھر گئ تھی” اس کی شہد سے بھی میٹھی آواز میرے کانوں سے ٹکرائ.
“تم سحرش سے ملنے اس کے گھر گیئن تھی نا¿ ہھر پارک میں وہ کون تھا اور تمہارا کیا لگتا تھا¿”
مجھ سے مزید صبر نہ ہوا اور بہن کہ منہ سے حقیقت سننے کی لیۓ اصل سوال کر ہی دیا. “وہ .. مم… میں ..” اس کے حسین چہرے کا رنگ غائب تھا . .. میرے چہرے پہ بظاہر غصہ تھا لیکن اس کے دوپٹے کو پھاڑ کی باہر نکلنے کے لیۓ بے تاب تھن ابھی بھی میری توجہ کا مرکز تھے.
“کیا وہ میں وہ میں لگا کہ رکھی ہے? کون تھا وہ? مجھے سیدھے سے بتاؤ”
میرا والیم بڑھ گیا.
” وہ سحرش کا بھائ تھا”
اتنا کہ کہ مریم کے اندر مزید وہان ٹھہرنے کہ ہمت نہ رہی .. وہ وہان سے بھاگ گئ. . لیکن میں بھی پیچھا چھوڑنے والا کہاں تھا . دوستو کمرے کی طرف تیزی سے جاتے ہوۓ مریم کے دو ڈھول جیسے موٹے موٹے چوتڑ کیا نظارہ پیش کر رہے تھے یہ الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے.
مین اس کے کمرے میں پہنچا لیکن اس نے کنڈی لگا لی. میں نے لاکھ کوشش کی لیکن اس نے دروازہ نہ کھولا.. بالآخر میرے دروازہ توڑنے کی دھمکی پہ اس نے روازہ کھول دیا
میں کمرے کہ وسط میں لگے صوفے پہ بیٹھ گیا .. وہ اپنے بیڈ پہ تھی. اس کا سر اس کے گھٹنوں میں تھا اور وہ رو رہی تھی. اس کی بنڈ کیا قیامت خیز منظر پیش کر رہی تھی اس کا اندازہ آپ لگا سکتے ہیں .. گانڈ پہ زور پڑنے کی وجہ سے مریم کے چوتڑ باہر کو پھیل گیۓ تھے.
“اچھا تم رو نہیں! تمہارا رونا بھی مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا”.
میں تھوڑا سا بیک فٹ پہ گیا ہی تھا کہ وہ بجلی کی سی تیزی سے اتری اور اپنا سر میرے گھٹنوں پہ رکھ کہ پھوٹ پھوٹ کہ رونے لگی. اگر کوئ دور سے ہمیں اس پوز مین دیکھتا تو لگتا کہ مریم میرا لنڈ چوس رہی ہے .. میں نے مریم کے سر پہ دست شفقت رکھا.. ” ایسا نیچرل ہے مریم. غلطیاں ہم انسانوں سے ہی ہوتی ہیں. ہمیں اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا چاہیے”
“میں آپ سے معافی مانگتی ہوں بھائ. آہکو خدا کا واسطہ آپ مجھے معاف کر دیں اور آپ پاپا کو کچھ نہیں بتایئں گے .. آپ وعدہ کریں . ” اس نے اپنی نرم ملائم اور گرم ہتھیلیون میں میرے ہاتھ لے لیۓ .. میرے ذہن میں بس ایک ہی خیال آیا .. یہ ہاتھ جس لوڑے کو ہاتھ میں لیتے ہوں گے وہ ایک سیکنڈ میں پچکاری مارتا ہو گا.
میں نے اس سے وعدہ کیا کہ میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤن گا لیکن پہلے یہ بتاؤ کہ تمہارا اس کے ساتھ رشتہ کہاں تک ہے¿
“ہم ہر حد کراس کر چکے ہیں….” یہ کہنا تھا کہ وہ ایک بار پھر پھوٹ پھوٹ کہ روئ. اس کی آنکھوں میں خوف تھا .. کہ میں نجانے اس کہ ساتھ کیا سلوک کروں گا .. میری آنکھوں میں چمک تھی . خوشی کی چمک.. یہ خوشخبری کیا کم تھی کہ میری بہن گانڈو تھی اور چالو تھی..
میں نے اس سے مزید کچھ نہیں کہا اور وہان سے چلا آیا. میں نے اپنے کمرے میں آ کہ زندگی کی سب سے مزیدار مشت زنی کی..
ایسے ہی کئ دن گزرتے گیۓ. ایک دن کچھ یوں ہوا کہ ہمارے کچن کا سامان ختم ہو گیا اور سامان لانے کے لیۓ میں اور مریم دونوں مارکیٹ جاتے تھے . میں نے مریم سے اسی سرد لہجے میں تیار ہونے کو کہا.
باہر میں اس کا ویٹ کرنے لگا.. مریم جب باہر نکلی تو اس کے انگ انگ سے آگ نکل رہی تھی. میری آفیشلی گشتی چالو بہن قیامت ڈھا رہی تھی. موٹی بنڈ سلکی ٹائٹ میں قید تھی جو اسے پھاڑ کہ باہر آنے کو بے تاب تھی. ٹائٹ قمیض جس میں پتلی سی کمر نخرے کر رہی تھی. سینے پہ سجے بھینس کے جیسے دودھ سے بھرے تھن.. اس کے اوپر مریم کی خوبصورتی.. میں دنیا میں خود کو سب سے خوش قسمت ترین انسان تصور کر رہا تھا.
رکشہ کی مدد سے ہم مارکیٹ ہہنچے .. لوگون کی ہوس بھری نظریں میری بہن کے ساتھ زنا کر رہی تھیں اور میری بہن حقیقتأ زانی تھی. آج میں نے محسوس کیا کہ مریم کے فگر کے ساتھ ساتھ اس کی چال بھی اسے سیکس بم بناتی تھی .. چلتے ہوۓ اپنی بنڈ کو نخرے کروانا کوئ مریم سے سیکھ سکتا تھا .. ایک چوتڑ اوپر اور دوسرا نیچے.. اور پھر بہت مشکلون سے دونوں چوتڑ سلکی پاجامے میں قید کیۓ ہوے ….
خریداری کرنے کے بعد ہم جونہی گیٹ سے باہر نکلے میری ملاقات میرے باس سر محسن سے ہوئ.
“ہیلو حیدر! کیسے ہو¿”
“فائن سر! آپ سنایۓ”
“بس یار یہ دیکھ لو ! حالات کچھ ایسے ہین کہ Grosary بھی خود ہی کرنا پڑ رہی ہے”
” کیوں سر¡ خیریت? بھابھی نظر نہیں آ رہیں¿ “
“یار انکی طبیعت خراب تھی. سو خود ہی چلا آیا,,,….” یہ بات کہتے کہتے وہ رک گیۓ. کیونکہ انکی نظر مریم پر پڑ چکی تھی.. ایک نمبر کا ٹھڑکی انسان جب مریم جیسی رن کو دیکھے گا تو ٹھہرے گا تو سہی..
“سر یہ میری سسٹر ہیں .. مریم .. “
“اوہ اچھا! nice to see you!”
مریم کی طرف مڑ کہ سر محسن نے کہا.
مریم نے جواب میں ایک سیکسی سی مسکراہٹ پاس کی. محسن سر کا ایک رنگ گیا اور ایک آیا. اس قدر شہوت انگیز سراپا شاید انہون نے پہلی دفعہ دیکھا تھا. “آؤ تم لوگون کو ڈنر کرواتا ہوں” انہون نے چال چلی. میں چاہتا تو یہی تھا کیوںکہ سر کے حذبات دیکھ کہ میرے ذہن میں بہت سے خیالات جنم لے رہے تھے. لیکن میں نے مریم کو کوئ شک نہ ہونے دیا اور سر محسن کو منع کر دیا. ان سے اجازت لے کہ ہم روانہ ہوۓ.
دوسرے دن آفس میں معمول کا کام تھا. اچانک مجھے سر نے اپنے آفس بلوایا.
” آ سکتا ہوں سر¿” اجازت لے کہ میں اندر داخل ہوا
حیدر میں نے تمہاری فائل پڑھی ہے .. تم بہت محنتی آدمی ہو اور تمہارے گھر کے حالات کچھ اچھے نہیں چل رہے. اس کے پیش نظر میں نے ایک فیصلہ کیا ہے.”
“کیسا فیصلہ سر¿”
“پہلے تم یہ بتاؤ کہ تمہاری سسٹرکیا کرتی ہیں¡”
“سر وہ گھر کے کام کاج اور پاپا کی دیکھ بھال وغیرہ”
باس نے میری بات کاٹتے ہوۓ کہا ” پڑھایا لکھایا اس لیۓ تھا کہ وہ گھر کے کام کرین? اسلام آباد جیسےشہر میں رہتے ہوۓ بھی تمہاری سوچ ویسی ہی دقیانوسی ہے”
“میں کہنایہ چاہ رہا ہوں کہ میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ تمہاری جاب Assistant to manager پہ اپگریڈ کر دوں اور تماہری سسٹر کے لیۓ بھی کوئ vacancy پیدا کروں”.
مجھے محسن صاحب کہ چہرے پہ شیطانیت اور ہوس سے صاف اندازہ ہو رہا تھا کہ میری ٹیکسی بہن نے انہیں بھی اپنے سراپے اور اداؤں کا دیوانہ بنا لیا ہے
“لیکن سر گھر میں پاپا ہیں اور وہ انکا خیال رکھتی ہے” .” اسکا بندوبست میں نے کر لیا ہے. میں ایک میٹ کا بندوبست کر دوں گا یا میل نرس کا . “
مجھے حیرت بالکل بھی نہیں تھی. کیوں کہ باس کی despirstion سے لگ رہا تھا کہ انہوں نے لازمأ میری بہن کی چوت لینی ہے اور مجھے سالا بنانا ہے.. چاہتا تو میں بھی یہی تھا…
“لیکن سر! اس خاص مہربانی کی کوئ وجہ¿” میں نے باس کہ منہ سے وہ بات سننا چاہی جو سننا میرا خواب تھا.
“وجہ کوئ خاص نہیں بس تم ایک محنتی انسان ہو میں چاہتا ہوں تمہیں تمہاری محنت کا بھرپور سلہ ملے”
باس نے بات ٹال دی.
“مگر باس! پہلے بھی کتنا عرصہ میں آپ کے پاس کام کرتا رہا لیکن آپ کا خیال اس طرف کیوں نہیں گیا? کیا میں پہلے محنت نہیں کرتا تھا¿”
میرے اندر کا بے غیرت اور بہنچود بھائ جاگ اٹھا تھا. مجھے وہ سب سننا تھا جسے سن کہ میرے لنڈ کی پھڑپھڑاہٹ کو سکون ملتا.
“دیکھو ! میں تم سے صاف صاف کہتا ہوں حیدر! امید ہے تم میری بات حوصلے سے سنو گے” .
میرا چہرہ خوشی سے کھلکھلا اٹھا .. ایک بہنچود انسیسٹ کے لیے اس سے ذیادہ شہوت انگیز بات کیا ہو گی کہ وہ اپنی سگی بہن کو غیر مردوں کے ساتھ ڈسکس کرے.
“جی جی سر! میں سن رہا ہوں.”
“دیکھو حیدر! اگر آپ کے پاس خزانہ ہو اور آپکو پیسون کی سخت ضرورت ہو تو کیا آپ اس خزانے کو چھپا کہ رکھیں گے ? یا اس خزانے کو بیچ کہ پیسے کماؤ گے تاکہ تمہارے کام آ سکے¿”
مبہم الفاظ میں محسن سر نے میری بہن مریم کو چودنے کی خواہش کا اظہار کر دیا. لیکن مجھے اس چیٹ میں مرچ مصالحہ بھی چاہیے تھا.
“میں سمجھ نہیں سکا سر!”
“دیکھو حیدر ! تمہارے گھر میں ایک جوان جہان بہن ہے جس کی شادی ابھی نہین ہوئ. میں خدا کی قسم کھا کہ کہتا ہوں کہ میں نے آج تک تمہاری بہن سے ذیادہ خوبصورت اور نشیلی چیز نہیں دیکھی .. میں ساری رات تمہاری بہن کو دیکھنے کے بعد سو نہیں سکا. میرا لنڈ ابھی تک پھڑپھڑا رہا ہے “
باس کے منہ سے یہ الفاظ نکلے ہی تھے کہ میں چپکے سے اپنا لوڑا مسلنے لگا اور ہاتھ اس کے اوپر لے گیا. باس نے بات جاری رکھی.
“دیکھو ! جب تمہیں موقع ملا ہے کہ تم بغیر محنت کیے سب کچھ حاصل کر سکتے ہو تو اتنی محنت کس لیے جرتے ہو¿”
باس اپنی بات مکمل کرنے کے بعدجواب طلب نظروں سے میری طرف دیکھا. وہ نروس بھی تھے ..
“سر ! میں سوچ کہ آپکو جواب دوں گا” باس کا خوشی سے رنگ سرخ ہو گیا.
“میں ابھی کہ ابھی تمہاری فائل پہ سائن کر دیتا ہوں”.
“تھینک یو سو مچ سر! اب میں چلتا ہوں” .
“ضرور حیدر! لیکن میں رات کو سو نہیں سکا مریم کو دیکھنے کے بعد. یہ بات ذہن میں ضرور رکھنا. “
میں گھر چلا آیا. گھر میں سب کچھ ویسا ہی تھا .. بجھی بجھی سی مریم .. شاید بہت شرمندہ تھی. بیمار والد .. چھوٹا سا گھر جہاں میرا دم گھٹتا تھا. اوپر سے مریم کے بنڈ اس قدر صحت مند ہوتے جا رہے تھے کہ ان کے لیے بھی جگہ کم ہو رہی تھی. میں تو اپنی بہن کو کسی سے بھی چدوا سکتا تھا.. یہ میرا خواب تھا.. لیکن اگر اسی کام سے ہمارا مستقبل بن جاتا تو سونے پہ سہاگا ہو جاتا.. بس اب مریم کو منانا تھا.
رات کو میں نے مریم سے بات کی .
” مریم بیٹھو مجھے تم سے کچھ بات کرنا ہے.”
“جی بھائ!” وہ سہم سی گئ .
“مریم میں چاہتا ہوں تم جاب کرو .. اتنا پڑھ لکھ کے گھر پہ بیٹھنا مناسب نہیں. ویسے بھی میرے لیے اس چھوٹی سی نوکری میں گھر چلانا کافی مشکل ہوتا جا رہا ہے” .
“لیکن حیدر بھائ! گھر پہ پاپا اکیلے¿”
“جب تم یونیورسٹی جاتی تھیں تب بھی تو اکیلے ہی تھے. اور ویسے بھی میں نے ایک میل نرس کا بندوبست کر لیا ہے”,
وہ حیران ہوئ.
“میل نرس¿ کیسے¿ اتنی چھوٹی سی جاب میں”
“نہیں میری پروموشن ہوئ ہے. اور تمہاری جاب بھی میرے آفس میں ہی ہے .. وہاں تم محفوظ بھی رہو گی’ . میرے ہونٹوں پہ ایک شیطانی مسکراہٹ تھی.
“اچھا چلیں ٹھیک ہے. ” وہ مسکرائ ..
اس کی مسکراہٹ بہت ہی قاتل تھی. میں اپنی بہن کی ایک ایک ادا کا عاشق ہو رہا تھا . جیسے وہ کوئ بازاری رنڈی ہو.
“ٹھیک ہے پھر صبح تیار رہنا.”
“او کے”,
وہ کہ کے اٹھی لیکن اس کی قمیض کا پچھلا پلو اس کے بایئں چوتڑ کہ اوپر سے ہٹ چکا تھا … میں پاگل ہو رہا تھا.
اگلی صبح اس نے 44 سایز کے بنڈ اورنج رنگ کے ایک ٹراوزر میں بند کرنے کی ناکام کوشش کی تھی. اسی رنگ کی ایک تنگ قمیض جس میں میری بہن کے 38 سایز کے گول مٹول تھن قید تھے .. عنقریب ایسا لگ رہا تھا کہ اس کہ قمیض پھاڑ کہ اس کے تھن باہر نکل آیئں گے.
“بہت پیاری لگ رہی ہو. ” وہ حیران ہوئ. “دوپٹہ کس لیۓ لو گی¿” میں نے پتہ نہیں کیسے ہمت کر کہ کہ دیا.
وہ حیران ہوئ. میں اس کا سگا بھائ یہ سب کہ رہا تھا.
“تھینک یو. اچھا ٹھیک ہے “
وہ کیا قیامت خیز منظر تھا. پنجابی مٹیارن گشتی رنوں کی طرح میری چالو بہن مریم اپنا گدرایا جسم تقریبأ ننگا جسم لے کہ میرے ساتھ اپنی بنڈ ہلا ہلا کہ چل رہی تھی جیسے اپنے یار کے ساتھ چل رہی ہو.
آفس پہنچتے ہی پہلا شخص جو ہمیں ملا وہ آفس بواۓ تھا .. ایک ایک کر کے سب کی آنکھیں حیرت سے کھلتی چلی گیئں .. باس کے آفس میں پہنچتے ہی باس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گیئں.. اورنج قمیض اور پاجامے میں ملبوس سیکس اور حسن کی دیوی میری بہن.. اس کے بدن کے اتار چڑھاؤ دیکھ کہ باس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا.
“ہیلو! اینڈ ویلکم مس مریم…” باس آج میری طرف متوجہ بھی نہیں ہو رہے تھے .
“بہت انتظار کروایا آپ نے¿ میں صبح سب سے پہلے آفس میں enter ہوا تھا ” باس کا چہرہ ہوس اور شہوت کے مارے شیطانی ہو رہا تھا.
اس سے پہلے میں کچھ کہتا , مریم نے انتہائ نشیلے انداز میں بول کہ مجھے حیران کر دیا. ” سوری سر! اصل میں ہم لوکل ٹریفک میں آۓ تو اس لیے تھوڑی دیر ہو گئ. ” یہ کہ کے مریم نے پروفیشنل کنجریوں والی ایک سمائل سر کو دی.
سر بھی حیران تھے اور میں بھی. انہوں نے کہا . ” او کے حیدر! آپ اپنا کام شروع کیجیے میں مس مریم کا ذرا تعارف انہی سے لے لوں “
میں دل ہی دل میں اتنا خوش ہو گیا کہ فورأ اپنی معصوم بہن کو ایک شہوت پرست حیوان کے پاس اکیلا چھوڑ کہ باہر بھاگا آ گیا.
مریم کی بنڈ سایئڈ سے تقریبأ ننگی لگ رہی تھی کیوںکہ اس نے بہت ہی ٹایٹ پاجامہ پہنا تھا اور وہ ٹانگ پہ ٹانگ چڑھاۓ گشتیوں والے انداز میں بیٹھی تھی.
میں باہر آ کے اپنے کام میں مصروف ہو گیا …
شام کو میں نے مریم سے آفس کے متعلق پوچھا تو اس نے ایک عجیب پر اسرار مسکراہٹ مجھے پاس کی. میں کچھ سمجھ نہ سکا. کہنے لگی بہت اچھا تھا اور میں بہت خوش ہوں ..
دوسرے دن مریم ایک مرتبہ پھر اسی لباس میں قیامت ڈھانے میرے ساتھ آفس پہنچ گئ .. سر بھی آج بہت سوٹڈ بوٹڈ ہو کے آۓ تھے.. مجھے کچھ سمجھ نہ آیا..
دن کو تقریبأ ساڑھے گیارہ بجے مجھے فیلڈ میں جانے کا کہا .. میں نے منع کرنا چاہا کیوںکہ میرے ساتھ مریم بھی گھر جاتی تھی لیکن سر کہنے لگے
” ان کی تم فکر نہ کرو میں تمہیں آج ایک سرپرائز دوں گا.”
“سرہرایز¿ کیسا سرپرایز سر¿” میں حیران تھا.
“بھئ وہ تمہیں شام کو ہی پتہ چلے گا.”
میں نے فیلڈ میں جانے کی حامی بھر لی. شام کو چھ بجے مجھے باس کی کال آئ انہوں نے ایک پرایئویٹ ہوٹل میں آنے کا کہ دیا اور کہا کہ وہیں تمہیں سرپرایز بھی دوں گا.
میں فورأ ہوٹل میں پہنچا اور باس کے بتاۓ ہوۓ کمرے میں پہنچ گیا .. دروازہ knock کرنے پہ اندر سے دروازہ کھلا اور میں حیران رہ گیا. وہ مریم تھی .. اس کے چہرے پہ ایک مسکراہٹ تھی.
“اندر آؤ بھائ”
میں اندر چلا گیا. باس ایک صوفے پہ نڈھال سے بیھے تھے.. وہ صرف انڈر ویئر میں ملبوس تھے.. مریم کنڈی لگا کہ اندر آئ اور آتے ہی میری گردن میں بانہیں ڈال لیں.
“تم یہی چاہتے تھے نا بہن چود” اپنی سگی معصوم شریف بہن کہ منہ سے یہ جملہ اور یہ گالی سن کہ میرا لنڈ لوہے کی طرح سخت ہو گیا .. مریم مجھے ہاتھ سے پکڑ کہ صوفے پہ لے گئ. اور کہنے لگی تم میرے ساتھ کچھ کر تو نہیں سکتے کیونکہ میں تمہاری سگی بہن ہوں اور اسلام میں بہن بھائ کا ملاپ منع ہے . لیکن اپنی بہن کو کسی غیر مرد کا لنڈ اپنی چوت میں لیتے دیکھ تو سکتے ہو نا.. یہ کہتے ہوے اس نے محسن سر کہ ابھار پہ ہاتھ پھیرا اور اپنا نچلا ہونٹ اوپر والے ہونٹ کی مدد سے خود کاٹا.. مجھے اندازہ ہو گیا کہ مریم گرم ہو چکی ہے اور آج وہ اپنی چوت میں لے کہ ہی رہے گی.
“اوہ کم آن حیدر! تم پہلے دن سے یہی چاہتے تھے اب کنفیوز کیون ہو¿”
باس نے وار کیا
میں نے ایک مسکراہٹ دے دی.
میری مسکراہٹ کی دیر تھی کہ مریم باس پہ پل پڑی. کسی ماہر رنڈی کی طرح مریم باس کے جسم کے اوپر بیٹھی پیار سے انکا منہ چوم رہی تھی گردن چاٹ رہی تھی. باس مزے سے مدہوش تھے. ان کے لیۓ مریم کی رانیں ہی کافی تھی جو انکی ٹانگوں کو ٹکرا رہی تھیں .. چما چاٹی اور کسنگ کے بعد مریم نیچے ہوئ اور باس اس کے اوپر آ گیۓ. بس نے آتے ہی مریم کی قمیض اتار دی .. تنگ قمیض میں پھنسے مریم کے ممے جب قمیض کی قید سے آذاد ہوۓ تو 38 سایز کے دودھ کیسے ہوا میں اچھلے یہ میں بیان نہیں کر سکتا. مریم نے بلیک رنگ کی برا پہنی تھی. ایک تھیلی نما برا تھی جیسے اگر کسی بکری کے تھن ذیادہ بڑے ہو جایئں تو انہیں ڈھانپنے کے لیۓ استعمال کی جاتی ہے ویسے ہی مریم کی برا بھی تھی. سر نے آہستہ سے مریم کے مموں کو برا کی قید سے آذاد کر دیا. مجھے یقین ہے کہ مریم کے تھنوں میں سے نکلنے والے دودھ سے ذیادہ اس کے تھن گورے تھے. گول مٹول اور تگڑے موٹے تازے تھن. سر محسن ان پہ پاگلوں کی طرح پل پڑے کبھی ہاتھ پھیرتے کبھی پکڑ کہ دبا دیتے جس سے مریم کہ منہ سے ایک سسکاری نکلتی. پھر باس نے اس کے ممے اپنے منہ میں لیۓ اور شیر خوار بچے کی طرح نپلز چوسنے لگے.. آدھا گھنٹہ باس مریم کے تھنوں سے کھیلتے رہے جیسے بچے غباروں سے کھیلتے ہیں.
اب باری ٹانگوں کی تھی. اس سب کے دوران میں نے بھی اپنا لوڑا ہاتھوں میں لے لیا تھا اور مسلسل اسے مسلے جا رہا تھا.
باس نے مریم کو الٹا لٹایا اور مریم کی بنڈ کو سونگھنے لگے. سونگھنے والے کتے کی طرح باس مے مریم کے چوتڑ اور اندر والی لکیر سونگھی پھر چاٹی.. مریم کا اورینج کلر کا پاجامہ سر کی تھوک سے مکمل بھیگ گیا. اب باجی نے ماہر رنڈی کی طرح سر کو دھکا دے کہ نیچے کیا اور اوپر آ کہ انڈر ویئر نکالنے لگی. باس کا صحت مند 9 انچ کا لنڈ جس کی رگیں تنی ہوئ تھیں وہ اپنے ہاتھ میں لیا اور ساتھ ہی باس کو ایک آنکھ ماری.
باس نے باقاعدہ چوپا لگانے سے میری بہن کو منع کر دیا لیکن باجی نے گیلا کرنے کے لیۓ اپنی ناگن کے جیسی لمبی زبان نکالی اور ٹوپے سے ٹٹے تک ایک ہی دفعہ چاٹ کہ لنڈ گیلا کر دیا
اب باس ایک بار پھر اوپر آۓ اور باجی کا ٹراوزر اور پینٹی اتار دی جس سے میری بہن کی پنک پھدی میری آنکھوں کے سامنے تھی. باس نے آؤ دیکھا نا تاؤ اپنی زبان نکال کہ بچوں کی طرح باجی کی پھدی چاٹنے لگے. میں مریم کی سسکاریاں سن کہ مٹھ لگانے لگا. پھدی چاٹنے کے بعد باس نے پوزیشن لی اور اپنے لوڑے پہ کنڈم لگایا .. اس کے بعد چوت کہ دہانے پہ اپنا ٹوپہ رکھ کہ تھوڑا سا زور لگایا. مریم تھوڑی سی چلائ.
باس رک گۓ. باس نے تھوڑی دیر تک مریم کے ہونٹ منہ میں لیے اور پھر اپنا لنڈ میری بہن کی چوت میں آدھا گھسیڑ دیا. اور اب strokes لگانے لگے. مریم مزے اور درد کے اس حسین امتزاج کو مکمل انجواۓ کر رہی تھی. کسی ماہر پورن سٹار کی طرح میری سگی بہن موننگ کر رہی تھی . پورے کمرے میں مریم کی اف آہ کے علاوہ لن اور پھدی کی چٹاخ پٹاخ بھی گونج رہی تھی. وہ لوگ چدائ کے ساتھ ساتھ passionate kissing بھی کر رہے تھے یعنی باس نے مریم کے کان اپنے منہ میں لیے تھے اور انہیں چاٹ رہے تھے. اپنی لمبی زبان نکال کہ مریم کے چہرے کو چاٹ رہے تھے. اچانک مریم کی موننگ بھی تیز ہو گئ اور باس فکنگ بھی hard کرنے لگے یعنی گھسے تیز تیز مارنے لگے. ایک چیخ باس کے منہ سے نکلی اور فوارہ نکل پڑا .. باس نے میری سگی بہن کی پھدی میں ہی پچکاری چھوڑ دی. باجی بھی پھدی چٹوانے کی وجہ سے باس کے ساتھ ہی مطمین ہو گیئں. پر میں اپنا لنڈ ابھی رگڑ رہا تھا.
باس نڈھال ہو کہ بیڈ پہ گر گیۓ .. مریم اٹھی اور آ کہ اپنی اسے ہتھیلی میں میرا لن لے کہ میری مٹھ مارنے لگی.. میں مزے کی انتہاؤں کو چھو رہا تھا کہ اچانک میری منی کا فوارہ بلند ہوا.. اور میں خاموش ہو گیا.. مریم بغیر وقت ضائع کیے واش روم گئ اور نہا دھو کہ وہی ٹراوازر پہن کہ باہر آئ. باس بھی تھوڑی دیر میں ریلیکس ہوۓ اور نہا دھو کہ فارغ ہوۓ .. ہم تینوں ہوٹل سے ایک ساتھ نکلے. باس نے آفس کی گاڑی منگوائ اور ڈرایور کو کہنے لگے..
“آج کے بعد تم مس مریم کے پرسنل ڈرایئور ہو” .میں اور مریم بے ساختہ مسکرا دیۓ
ایک تبصرہ شائع کریں for "مریم کی چدائیاں"