Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

انکل نے نرس کی چدائی کی



                                             


میرا نام عظمیٰ سلہوترا ھے اور میں پیشے کے لحاظ سے ایک نرس ہوں۔میری شکل سارہ خان سے بہت ملتی ھے بہت ساری کہانیاں پڑھ چکی ھوں میں یہ بات اس وقت کی ھے جب میں زمیندار کی بیٹی کہانی پڑھ رہی تھی اور میں جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ رہی تھی
جب میں میڈیکل کالج میں پڑھتی تھی۔ اُس وقت میری عمر اٹھارہ سال تھی اور میرا جسم بے انتہا سیکسی تھا۔ لڑکے تو لڑکے لڑکیاں بھی میرے ساتھ سیکس کرنے کی خواہش رکھتی تھیں۔
میری چھاتیاں 34،کمر 22 اور گانڈ 36 کی تھی اور اوپر سے میں ایسے لباس پہنتی تھی جس کو دیکھ کے بوڑھے جوان سب مجھے پانے کی آرزو کیا کرتے تھے۔کالج کے دنوں میں ابو نے مجھے سمارٹ فون خرید کردیا۔
کچھ دنوں بعد میری کال پر ایک مسلم لڑکے عدنان سے دوستی ہوگئی۔اُس لڑکے سے کبھی کبھار سکائپ پر ویڈیو کال پر بات بھی ہوا کرتی تھی۔ایک دن گھر والے کہیں شادی میں شرکت کےلئے چلے گئے لیکن میں اگلے دن کے امتحان کی وجہ سے گھر رُک گئی۔۔۔
گھر والوں کے جانے کے تھوڑی دیر بعد اُس لڑکے کا میسیج آیا کہ وہ مجھ سے بات کرنا چاہتا ہے۔میں نے سوچا تھوڑی دیر بات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لہٰذا ہماری ویڈیو کال پر بات شروع ہوگئی۔
تھوڑی دیر کے بعد عدنان نے رومانٹک ہوکرکہا کہ وہ میرے پاس ہوتاتومجھے کِس کرتا۔ میں نے اُس کو شٹ اپ کہا تو ہنستے ہوئے بولا بنو مت مجھے پتہ ہے کہ تم بھی ایسا چاہتی ہو۔میں خاموش ہوگئی اور اس دوران عدنان نے اپنی شرٹ اتارتے ہوئے کہا مجھے گرمی لگ رہی ہے اس لئے شرٹ اتار رہاہوں۔
اسی دوران ہماری لائٹ بھی چلی گئی اور مجھے گرمی سے پسینہ آنے لگ گیا عدنان ہنستے ہوئے بولا تم بھی اپنی قمیض اتار دو گھر میں اکیلی تو ہو۔میں نے غصے سے کہا پاگل ہوگئے ہو؟ میں ایسا کیوں کروں گی؟
عدنان ہنس کر بولا میں آنکھیں بند کرلیتا ہوں تم اتار دو۔۔
میں نے غصے میں کال کاٹ دی لیکن پھر عدنان کا میسیج آیا کہ وہ بات کرنا چاہتا ہے۔
میں نے دوبارہ کال کی تو اس بار عدنان بالکل ننگا لیٹا ہوا تھا اور اُس کا لنڈ اکڑا ہوا تھا۔ میں نے اُس کو کہا بےشرم یہ کیا حرکت ہے۔
عدنان ہنس کر بولا گرمی میں اور کیا کروں تو میں نے کہا جو مرضی کرو لیکن ایسے میرے سامنے تو مت آؤ۔
اس دوران میری نظر مسلسل عدنان کے تقریباً سات انچ لمبے لنڈ پر ہی ٹِکی رہیں میں نے لنڈ پہلی بار ہی دیکھا تھا جس کو عدنان بھانپ گیا اور وہ بولا عظمی اگر شرم آرہی ہے تو میرے لنڈ کو گھور کیوں رہی ہو۔یہ سُن کر میں جھینپ سی گئی۔ عدنان ضد کرتے ہوئے بولا چلو شاباش اب تم بھی قمیض اتار ہی دو۔
میں نے جھجھک کر کہا عدنان یہ سب ٹھیک نہیں ہے تو عدنان نے آنکھ مارتے ہوئے کہا کچھ نہیں ہوتا یہ سب ہمارے درمیان رہے گا۔ اس دوران عدنان کا لنڈ دیکھ دیکھ کر میرے اندر کچھ کچھ ہونے لگا تھا
میں نے کہا عدنان تم اپنی آنکھیں بند کرو میں قمیض اتاروں گی لیکن میں تجھے اپنے ممے نہیں دکھاوں گی
عدنان نے حامی بھر لی تو میں نے شرٹ اتاری اور صوفے پر لیٹ گئی۔تھوڑی دیر ہی بات ہوئی تھی کہ مجھے احساس ہوا کہ میرے پیچھے کوئی کھڑا ہوا ھے میں نے پیچھے مُڑ کر دیکھا تو میری سانس رُک سی گئی۔۔۔
میرے صوفے کے سائیڈ پر میرے ابو کے دوست شاھد انکل اپنا موبائل ہاتھ میں پکڑے کھڑے ہوئے تھے شاھد انکل کوئی چالیس سال کے جوان مرد تھے وہ پنجاب پولیس میں تھے اب کے کولیگ تھے اکثر مما بھی ان کی بہت تعریفیں کرتی تھی شاید انکل ان پر بھی چانس مار چکے تھے مگر اب وہی تجربہ وہ مجھ پر کرنے والے تھےمگر مممم
میں نے جلدی سے عدنان کی کال کاٹی اور دوڑ کر واش روم میں گھس گئی۔
میں شائید باہر کا دروازہ بند کرنا بھول گئی تھی اور عدنان کے ساتھ ڈرائنگ روم میں ہی ویڈیو کال پر بات کرنے لگ گئی تھی۔
واش روم کے دروازے پر دستک ہوئی اور شاھد انکل کی آواز آئی عظمیٰ بیٹا باہر آجاؤ میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گا۔
میں نے اندر لٹکی ایک شرٹ پہنی اور ڈرتے ڈرتے دروازہ کھول کر باہر آگئی جہاں پر انکل کھڑے ہوئے تھے۔شاھد انکل نے میرا ہاتھ پکڑا اور صوفے پر بٹھا دیا۔
میں نے سر جھکا کر اٹکتے ہوئے کہا وہ انکل لائٹ نہیں تھی تو مجھے گرمی لگ رہی تھی۔شاھد انکل ذومعنی انداز میں ہنستے ہوئے بولے عظمیٰ میں سمجھ سکتا ہوں کہ تمھیں اور اس لڑکے کو گرمی لگ رہی تھی میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گامجھے عجیب سا لگا کیوں کہ پہلی بار انکل نے مجھے میرا نام لیکر بیٹا نہیں کہا تھا۔
میں خاموش ہوگئی تو شاھد انکل بولے تمھاری گرمی نے مجھے بھی گرم کر دیا ہے۔ تم اتنی پیاری ہو میں نے آج پہلی بار غور سے دیکھا ہے اور اس کے ساتھ ہی انکل نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔
میں بدک کر دور ہوگئی اور غصے سے بولی انکل یہ کیا کررہے ہیں آپ میں ابو کو بتا دوں گی انہوں نے ایک شعر بولا
میں فقط لذت مہیا کرتا ہوں
محبت کیا ہے…؟پتا نہیں مجھے
شاھد انکل ایک قہقہہ لگا کر بولے بالکل بتا دو بلکہ ابھی کال کرلو۔۔ وہ کیا ہے کہ جب میں اندر آیا تھا تو غلطی سے میرے موبائل کا کیمرہ آن ہوگیا تھا اور تمھاری اور اُس لڑکے کی ویڈیو کال کی ویڈیو بھی غلطی سے ریکارڈ ہوگئی۔
میں ایک دم سے سہم کر چپ ہو گئی جبکہ شاھد انکل بولے اب اگر یہی ویڈیو تمھارے ابو اور تمھارے محلے والوں کے پاس چلی جائے تو سوچو کتنی بدنامی ہوگی نا تمھارے ابو کی۔۔۔۔۔ارے بلبل اپنا اور گھر والوں کا بھلا تو کرو۔۔۔
میں یہ سب سُن کر خوف سے کانپنے لگی شاھد انکل میرے پاس بیٹھتے ہوئے بولے ارے ارے ڈرنے کی ضرورت نہیں ھے میں ایسا کچھ نہیں کروں گا لیکن ایک شرط پر میں نے سہمے ہوئے لہجے میں پوچھا کون سی شرط انکل جی
وہ میری طرف غور سے دیکھتے ہوئے بولے اس شرط پر کہ جو گرمی مجھے تمھاری وجہ سے لگی ہے تم اس کو دُور کرو گی میں نے ناسمجھی والے انداز میں کہا وہ کیسے انکل؟
میری بات کے جواب میں انکل نے بیٹھے بیٹھے اپنا ٹراؤزر نیچے کیا تو میری سانس رُک سی گئی۔
انکل کا بڑا اور کالا لنڈ سانپ کی طرح پھن پھیلا کر کھڑا ہوا تھا۔ انکل کا لنڈ لمبائی اور موٹائی میں عدنان کے لنڈ سے بہت بڑا تھا جسے دیکھ کر میں ڈر گئی۔ انکل مسکرا کربولے۔۔عظمیٰ بیٹے ڈرو نہیں اس کو چھو کر دیکھو تمھارا ڈر ختم ہوجائے گا۔
میں نے خوف سے ہاتھ اپنی گود میں چھپا لئے تھے۔شاھد انکل نے میرا ایک ہاتھ زبردستی پکڑا اور اپنے تنے ہوئے لنڈ کے اوپر رکھ دیا۔
میں نے جب تھوڑی دیر تک ہاتھ کو حرکت نہیں دی تو انکل تھوڑے غصے سے بولے۔۔ چل پکڑ میرے لنڈ کو ورنہ ابھی ویڈیو بھیجتا ہوں سب کو۔۔۔۔میں ڈر گئی اور فوراً لنڈ کو ہاتھ میں پکڑ لیا۔۔
انکل مسکرا کربولے۔۔شاباش سمجھدار ہو۔۔پھر شاھد انکل میرے ہاتھ کو پکڑ کر اپنے لنڈ پر اوپر نیچے کرنے لگے۔۔ اس کے ساتھ ہی انکل نے میری گردن پر بوسے دینا شروع کردئیے اور ایک ہاتھ میرے مموں پر رکھ کر میرے مموں کو ہلکا ہلکا مسلنے لگ گئے۔۔
ایک منٹ کے بعد مجھے گردن پر شاھد انکل کے بوسوں کا مزہ آنے لگ گیا اور میں ان کے لنڈ کو ہاتھ میں لیکر خود ہی مسلنے لگی۔۔
تھوڑی دیر کے بعد انکل اٹھے اور مجھے کھڑا کرکے میری شرٹ اتار کر دور پھینک دی۔۔اب میں کالے رنگ کے بریزئیر میں ان کے سامنے کھڑی ہوئی تھی جس میں سے میرے آدھے ممے باہر نکلے ہوئے تھے۔
انکل بھوکی نظروں سے میرے مموں کو دیکھتے ہوئے آگے بڑھے اور میرا برا بھی کھول کر دور پھینک دیا اور ساتھ ہی میری شلوار بھی اتار دی۔اب میں ان کے سامنے بالکل ننگی کھڑی ہوئی تھی۔
کپڑوں سے بدن کو ازاد کر دو
شرم سے خود کو لال کر دو
بیٹھ کر گود میں میری تم
نکل کر اپنے دودھ میرے منہ میں دو
انکل ہوسناک نظروں سے میرے ننگے جسم کو دیکھ رہے تھے۔مجھے بولی عظمی تم تو سیل پیک ھو میں نے بھی شاھد انکل کی انکھوں میں دیکھتے ھوئے کہا جی ابھی تک کچھ نہیں کیا میں نے کسی کیساتھ۔کیساتھ۔کیساتھ۔
پھر انہوں نے جھک کر میرے مموں پر منہ رکھ دیا اور میرے مموں کے نپلز کو چوسنے لگ گئے۔۔
مجھے اتنا مزہ آیا کہ میں مدہوش سی ہوگئی اور ان کے در میں اپنی انگلیاں پھیرنے لگ گئی۔۔
تھوڑی دیر میرے ممے چوسنے کے بعد انکل نے مجھے صوفے پر لٹا کر میری ٹانگیں کھول دیں اور میری چوت کو دیکھنے لگ گئے۔۔پھر وہ نیچے بیٹھے اور میری چوت پر اپنی زبان رکھ دی۔
ان کی زبان جیسے ہی میری چوت پر لگی میرے جسم میں ایک کرنٹ سا دوڑ گیا۔۔شاھد نے مسلسل میری چوت کو چاٹنا شروع کردیا جس کے مزے سے میں بے حال سی ہوگئی۔
اس سے پہلے میں تین چار پر اپنی چوت کو مسل کر فارغ ہوئی تھی لیکن ایسی لذت کا مجھے پتہ ہی نہیں تھا۔۔
تھوڑی دیر بعد میں اپنے کولہے اٹھا اٹھا کر اپنی چوت انکل کے منہ کے آگے کررہی تھی اور میرے منہ سے آہ آہ۔۔اففف اوہ یس کی آوازیں نکل رہی تھی.
انکل بیٹھے بیٹھے میری چوت چاٹنے کے ساتھ ساتھ میرے مموں کوبھی مسلنے لگ گئے جبکہ اب ان کی زبان میری گانڈ کے سوراخ کو بھی چاٹ رہی تھی۔۔
میں مزے کی انتہا پر تھی اور شاھد انکل ایک ماہر کھلاڑی کی طرح میری نئی نکورجوانی کا رس اپنی زبان سے چاٹ رہے تھے۔
دو منٹ مزید گزرے تو میری چوت نے اپنا پانی چھوڑ دیا جس کو انکل اپنی زبان سے چاٹ گئے۔۔۔
پھر انکل اٹھے اور اپنا لنڈ میرے منہ کے پاس لا کر بولے۔۔چل سالی رنڈی اس کو چوس۔۔
میں نے منہ پھیر لیا جس پر انکل نے میرا چہرہ پکڑ کر اپنے لنڈ کے پاس کیا اور زبردستی میرا منہ کھول کر لنڈ کا موٹا ٹوپامیرے منہ میں ڈال دیا۔۔
میری سانس رکنے لگی لیکن انکل نے میرا سر پکڑ کر اپنے لنڈ کو آگے پیچھے کرنا شروع کر دیا اور ساتھ ہی کھڑے کھڑے میری چوت پر اپنی انگلیاں پھیرنے لگے۔۔
ان کی انگلیاں میری چوت پر لگتے ہی میرا منہ خود بخود کھل گیا اور ان کا لنڈ میرے منہ میں تھوڑا اور اندر چلا گیا۔۔
اب میں مزے سے شاھد انکل کا کالا موٹا اور لمبا لنڈ چوس رہی تھی جو تقریباً آدھا میرے منہ کے اندر تھا۔۔انکل کے چہرے پر نظر پڑی تو مجھے لگا کہ وہ بہت مزہ لے رہے تھے۔
دس منٹ تک میری چوت کو اپنی انگلیوں سے مسلنے اور اپنے لنڈ کے چوپے لگوانے کے بعد انکل نے اپنا لنڈ میرے منہ سے نکالا اور میری ٹانگوں کے درمیان آکر بیٹھ گئے۔۔
میری ٹانگوں کے درمیان بیٹھ کر شاھد انکل نے اپنے لنڈ کا ٹوپا میری چوت کے دانے پر رگڑنا شروع کردیا۔۔میں بولی اف انکل جی میں چدنا نہیں چاہتی۔۔۔۔وہ بولے کچھ نہیں ھوگا میں دھیرے دھیرے سے ہی کروں گا۔۔
پہلی بار میری چوت پر کسی کی زبان یا لنڈ کا ٹوپا لگا تھا جس کی وجہ سے میں مزے میں بالکل پاگل ہو چکی تھی۔
انکل جوں جوں اپنے لنڈ کا ٹوپا میری چوت پر رگڑ رہے تھے میری چوت اور گیلی ہوتی جارہی تھی اور اب میرا من کررہا تھا کہ شاھد انکل اپنا لنڈ میری چوت میں ڈال دیں لیکن مجھے ڈر بھی لگ رہا تھا کیونکہ میری چوت کی سیل ابھی نہیں کھلی تھی۔میں نے سوچا تک نہیں تھا کہ مجھ پر چالیس سال کا سانڈ چڑھے گا۔۔۔۔میں اندر سے ڈری ھوئی تھی۔۔۔
انکل نے اپنا لنڈ میری چوت پر رگڑتے رگڑتے کہا چل میری رکھیل رنڈی اب تیری چوت کا تعارف اپنے لنڈ سے کرواتا ہوں اور ساتھ ہی شاھد انکل نے اپنے موٹے لنڈ کا ٹوپاایک جھٹکے سے میری چوت میں گھسیڑ دیا۔۔
ان کے موٹے لنڈ کا ٹوپا میری تنگ چوت کو چیرتا ہوا تھوڑا سا اندر گیا تو میں درد سے مچل اٹھی لیکن انکل نے مجھے کس کر پکڑ لیا تھا جس کی وجہ سے میں ہل نہیں سکتی تھی۔۔میں چلا رہی تھی ااااااہ۔ااااااہ۔ااااااہ۔ااااااہ۔ااااااہ۔ااااااہ۔ااااااہ۔سسسسس۔۔۔۔۔۔سس۔۔۔۔۔۔اااااہ۔اااااہ۔اااااہ۔اااااہ۔اااااہ۔
انکل نے میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دئیے اور ساتھ ہی اپنے لنڈ کو ایک اور جھٹکا دیا جس سے اُن کا تقریباً آدھا لنڈ میری چوت کے سوراخ کو چیرتا ہوا اندر چلا گیا۔۔
درد کی شدت سے میری آنکھوں سے آنسو آگئے لیکن شاھد انکل نے مجھے اتنا کس کر پکڑا ہوا تھا کہ میں ہِل نہیں پارہی تھی۔۔
ان کے ہونٹ میرے ہونٹوں پر ہونے کی وجہ سے میں چیخ بھی نہیں پارہی تھی۔۔ کچھ لمحے شاھد انکل نے حرکت نہیں کی اور میرے ہونٹ چوستے میری سیل ٹوٹ چکی تھی اور میری چوت سے خون بہہ رہا تھا۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد میرا درد کچھ کم ہوا تو انکل نے میری گردن پر بوسے دینا شروع کردئیے اور آہستہ سے اپنے لنڈ کو میری چوت میں حرکت دینے لگ گئے۔ان کا موٹا لنڈ میری کنواری چوت کی دیواروں کو چیر کر پھنس پھنس کر اندر باہر ہو رہا تھا۔۔اب مجھے ہلکے درد کے ساتھ مزہ بھی آنے لگ گیا۔۔اف۔۔۔۔۔۔اف۔اف۔اف۔اف۔اف۔اف۔اف۔۔۔۔۔ااااااہ۔۔۔۔۔۔اااااااہ۔اااااااہ۔اااااااہ۔اااااااہ۔اااااااہ۔اااااااہ۔اااااااہ۔میں مرررگئ۔مرررگئ۔مرررگئ۔
دو منٹ بعد انکل کے اپنے لنڈ کو مکمل میری چوت میں اتار دیا اور اب تھوڑے تیز جھٹکے لگانے لگے۔میں چلانے لگی ااااااہ سسسس سسسس سسسس اف اف ففففففف ششششش شاھد۔۔۔۔۔انکل دددددددددد مممم مت کریں ااااااااااہ دھیررررررررے وہ میرے روم روم میں سما گئے۔۔۔۔ تھے ظالم نے پتہ نہیں کیا جادو کیا کہ میں مست ھو گئی انہوں نے وحشت دکھائی اور میری سیل توڑ کر مجھے کلی سے پھول بنادیا تھا میری چوت خون سے لت پت ھوگئی تھی اس خونی مزے میں میری شہوت بھی شامل تھی
اب میرا درد ختم ہوچکا تھا اور میں چدائی کے نشے میں گم ہو چکی تھی۔۔
میرے ابو کے دوست جنہوں نے بچپن میں مجھے گود میں کھلایا تھا میری چوت کی سیل کھول چکے تھے اور اب جم کر میری چدائی میں مصروف تھے ان کا لنڈ میری چوت میں اندر باہر ھو رہا تھا میری تنک چوت میں کا
اب میں بھی اپنے کولہے اٹھا اٹھا کر اپنی چوت آگے کررہی تھی۔۔ شاھد انکل کے ماتھے پر پسینے کے قطرے آچکے تھے اور ان کی سانس تیز ہوگئی تھی میری چوت میں کانٹا چبھ گیا تھا۔۔۔۔۔۔ااااہ۔ااااہ۔ااااہ۔ااااہ۔انکل ۔۔۔۔جی مت کریں۔کریں۔کریں۔کریں۔کریں۔
ان کے جھٹکوں کی رفتار بھی بہت تیز ہوگئی جس کے تھوڑی دیر بعد میری چوت کی گرفت ان کے لنڈ پر ٹائٹ ہونے لگ گئی اور میری آنکھیں اوپر کو چڑھ گئیں۔۔
میری چوت کا پانی ایک بار پھر نکل رہا تھا اور میں ڈسچارج ہورہی تھی۔۔اس بار نہایت شاندار احساس تھا میں نے وہ لذت پالی تھی جس کی مجھے تمنا تھی
میں اب شاھدانکل کو گالیاں دیتے ہوئے کہہ رہی تھی۔۔ چل کُتے چود اپنی کُتیا کو اور زور سے چود۔۔ پھاڑ دے میری چوت اپنے لنڈ سے۔۔اس کے تھوڑی دیر بعد انکل نے اپنا لنڈ میری چوت سے نکالا اور میرے منہ میں ڈال دیا۔۔
منہ میں لنڈ آتے ہی لنڈ سے گرم گرم نمکین پانی کا ایک فوارہ نکلا اور پھر لگاتار نمکین گرم پانی کی دھاریں میرے منہ میں گرنا شروع ہوگئیں۔۔
انکل اپنی منی میرے منہ میں گرا کر فارغ ہوگئے تھے اور اب لمبے لمبے سانس لے رہے تھے۔میں اٹھ کر واش روم میں گئی منہ صاف کیا اپنی چوت کو دیکھا تو وہاں خون لگا نظر آیا جو یقیناً میری چوت کی سیل کھلنے کی وجہ سے نکلا تھا۔میں نے اپنی چوت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا انکل دیکھیں اپنی بیٹی کی کیا حالت کردی ھے آپ نے تو وہ مسکرا دئیےاس نے بولا مزہ بھی تو ملا ھے اس خون کے بدلے میں۔۔۔۔میں بولی تم مرد لوگ ھوتے ہی وحشی ھو۔۔۔۔انکل بولا چل رنڈی جلدی آ دوسرا راؤنڈ بھی لگانا ھے مجھے تومیں بولی میں نے تو اب نہیں دینی۔۔۔۔وہ غصے سے بولے تیری ماں وی اس طرح ہی کہندی سی۔۔۔۔میں بولی بدتمیز۔۔۔
میں نے چوت کو اچھی طرح صاف کیا اور باہر آگئی
انکل کپڑے پہن کر صوفے پر بیٹھے مجھے دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔میں نے کپڑے پہنے اور سر جھکا کر صوفے پر بیٹھ کر رونے لگ گئی۔
انکل میرے پاس آئے اور مجھے گلے سے لگاتے ہوئے بولے۔۔ عظمیٰ تم مجھے غلط مت سمجھنا لیکن تمھاری آنٹی کی بیماری کی وجہ سے میں کتنے سالوں سے کسی عورت کے قریب نہیں جاسکا اور آج تمھارا ننگا اور سیکسی بدن دیکھ کر خود پر قابو نہیں رہا۔یہ سب تمھارے اور میرے درمیان رھے گا تو میں ان کے گلے لگ کر بولی انکل پکا نہ آپ اس بات کو راز ہی رکھیں گے تو وہ میرے ماتھے کو چومتے ھوئے بولے ہاں عظمی آج سے ھم اس بات کو اپنے سینے میں ہی دفن کر دیں گے شرط یہ ھے کہ تم میری بات مانا کروگی تو میں بولی انکل اب ناں کرنے کا تو سوال ہی پید نہیں ھوتا۔۔۔۔
مجھے انکل نے تسلی دی جس سے مجھے حوصلہ ملا اور میں نارمل ہو گئی۔اور تھوڑی سے مسکرادی میں بولی انکل اپ نے اوپر اوپر کا کہہ کر سارا ہی ڈال دیا تھا مجھے چونا لگا دیا تو وہ مسکرانے لگے اور بولی تم نے ایسے تو دینی نہیں تھی تو میں نے فارمولا استعمال کیا۔۔۔
انکل مسکراتے ھوئے بولے چلیں جان اگلی بار تم خود کر لینا تو میں شرماتے ھوئے بولی انکل جی اب پھر لینی ھے اپ نے تو وہ میرا ہاتھ پکڑ کر بولے کیوں تمہیں کوئی اعتراض ھے میری جان تو میں ان کے سینے سے لگ کر بولی نہیں نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ھے شاھد جی تو وہ بھی مسکراتےھوئے مجھ سے لپٹ گئے تھے شایدہمارا رشتہ بدل گیا تھا اب اسی دائرے میں رہ کر مزے کرنے تھے
اس کے بعد بہت بار جب بھی موقع ملتا انکل میری چوت لازمی لیتے رہے۔میں نے بھی انکل کیساتھ سمجھوتہ کر لیاکہ میں اپ کی بن کر رھوں گى.
شادی کا تیسرا دن بھی بہت مصروف گزرا مہمانوں کی آمد سلامیاہ مبارکباد چلاتا رہا۔ اور تیسری رات آئی۔ ڈنر کے بعد اپنے کمرےمیں آئی تو آج مجھے محسوس ھورھا تھا کہ بہت تھکن ھوری تھی بدن میں درد اور سر میں درد۔ مجھے پیرڈ آنے لگے یوں صرفچوما چاٹی میں رات گزری ۔ یوں 12 دن شادی کے پیرڈ میں گزرے بہت سارے مہمانوں کی واپسی بھی ھوی۔ خالد اور اسکی فیملیبھی شادی پانچویں روزے چلے گیے اسکی بیوی جاتے جاتے دعوت بھی دی ۔ ہوں انکے ساتھ بھی میرا انا جانا شروع ھوگیا سب ایکفیملی کیطرح۔ خالد کے گھر والے بھی بہت ماڈرن اور ایڈوانس تھے۔ پردے کا دوپٹہ کا کوی رواج نہیں تھا۔
پیرڈ ختم ھونے کے بعد ھم اسلام آباد آگے اور یہاں فلیٹ میں رہنے لگے میرے ساتھ میری دو نند بھی آگئی۔ اور ساتھ رہنے لگے۔ دنھفتوں مہینوں اور سالوں میں بدلنے لگے۔ پھر نند کی شادی ھوگئ۔ اور میری دونوں بہنوں کی بھی شادی ھوگی۔ پھر اچانک میریزندگی میں ایک بھونچال آیا اور میرا بابا ھم سب کو روتا دھوتا چھوڑ کر چلا گیا۔ اور یوں میری زندگی میں اور صحت بھی بگڑنےلگی۔یکدم کمزوری محسوس ھونے لگی۔ پھر آہستہ آہستہ اپنی زندگی میں لوٹنے لگی۔اور زندگی اپنی ڈگر پر چلانے لگی۔ جس وقتشادی کے بعد ھم 21 دن بعد اسلام آباد اے تو خالد اور اسکے فیملی نے ھم سب گھر والوں کو ایک پر تکلف دعوت کا اہتمام کیا۔ اورپہلی بار میں نے خالد کو قریب سے دیکھا خوبصورت بدن اور اچھے اخلاق کا مالک تھا مجھے اچھا لگا۔ ویسے بھی خاوند نے ذہینمیں شادی کے رات سے اور بار بار کہنے سے بیٹھایا کہ خالد میرا قریبی اور باپردہ دوست ھے۔اسکے سے ساتھ” تعلقات” رکھنا ہے ۔تو میں بھی اسی نظر سے دیکھ رہی تھی۔ اور وہ بھی سب کے موجودگی مجھے کھانے کے دوران ھر چیز دیتا تھا کہ پیاری بھابھییہ کھاو وہ کھاو۔۔اور مجھے سلامی میں حیرت کہ انگوٹھی دی جو آج تک میرے پاس ھے۔ اور سب کے سامنے کہا کہ بھابھی یہ میریپیار کی نشانی ھے۔ اسکی بیوی بھی موجود تھی۔ یوں اسکے ساتھ پہلا ڈائریکٹ ملاقات تھی۔
پھر ایک دن شام 4 بجے خاوند کی دفتر سے کال کہ آج شام کا کھانا خالد کے ھاں ھے ھم دونوں جائیں گے۔ لیکن خوب تیار ھونا پارلرجاکر اور ھلکے اور ٹایٹ کپڑے پہننا یا جینز پینٹ اور شرٹ پہننا۔ میں نے کہا ٹھیک ھے۔ میں پارلر گیئ تیار ھوئ۔ تو پرپل کلر کا شرٹاور پینٹ پہن لیا تو خاوند نے کہا کہ رانی سلولیس شرٹ پہنو اور سکن کلر ٹایٹی پہنو۔ اور بال کھولے رکھنا۔ میں نے کہا ٹھیک ھے۔اور اسطرح تیار ھوئ۔ شام 8 بجے کے قریب ھم خالد کے فارم ھاوس جو کہ چک شہزاد میں تھا اے۔ خالد نے بہت اچھی ویلکم کیپھرتھوڑی دیر بیٹھے رہے اور سرینا ھوٹل ڈنر کرنے اے۔ صرف ھم تین لوگ تھے میں میرا خاوند اور خالد۔
خالد نے میری حسن کی میرے کپڑوں کی بہت تعریف کی اور کہا “بس دل کرتا ھے کہ اسطرح کھالو” تو میرے خاوند نے کہا کھالوکوئی مسلہ نہی۔ میری رانی بہت کوآپریٹو ھے ھر بات مانتی ھے۔ اور مجھے تصدیق بھی کرائی۔۔کہ ایسے ہی ھے نا۔۔۔۔میں نے ھنسکر جی کہا۔ مجھے اندازہ ھونے لگا کہ آج ضرور کچھ ھوگا۔ بہرحال کھانا کھانے کے بعد رات 11 بجے ھم ھوٹل سے نکلے تو خالد نےکہا کہ کشمیری چاے پیتے ھے۔ اور پارلیمنٹ لاجز میں گیے وہاں ایک کمرے میں گیے اور وہاں چاے منگوائی۔ تھوڑی دیر گپ شپ لگیپھر میرا خاوند کھڑا ھوا اور کہا کہ تم دونوں گپ شپ لگاو میں ایک گھنٹہ تک آتا ھوں ایک ضروری کام یاد آیا۔ مجھے سے پوچھاٹھیک ھے۔ میں نے بھی کہا ٹھیک ھے۔ اور وہ چلا گیا۔
خاوند کے جانے بعد خالد نے مجھے ایک پرفیوم دی اور کہا رانی یہ آپکے لئے ھے

اب ھم دونوں تھے کمرے میں ۔میں صوفے پر بیٹھی تھی تو خالد میرے قریب آکر بیٹھا اور میرے شانے پر ہاتھ رکھا اور کہ میرے دوستمیرے بارے میں آپ کو کچھ کہا ھے۔ میں نے کہا ھاں کہ خالد میرا بہت اچھا دوست ھے۔ خالد ھنس کر کہا کہ بس اتنا بتایا ھے۔ میںنے کہا جی۔ پھر خالد نے کہا کوئی بات نہیں میں بتاتا ھوں۔ پھر مجھے کہا او رانی بیڈ پر جاتے ہیں اور مجھے ہاتھ سے پکڑ کر بیڈ پرلایا۔ میرے قریب بیٹھ گیا اور میرے بالوں میں ھاتھ پھیرنے لگا اور پوچھا کہ کس لے لوں؟ میں خاموش تھی پھر پوچھا میں نے اسکےطرف دیکھ کر مسکرائ تو کہنے لگا گڈ سمجھ گیا۔ پھر مجھے ساتھ لگا کر میرے رخساروں پر کس کرنے لگا۔ یہ میری زندگی پہلا غیرمرد تھا جس نے میرے جسم کو ٹچ کیا۔ رخساروں پر کسنگ کیساتھ شانوں اور کمر پر ھی ھاتھ پھیرنے لگا۔ اور ھونٹوں پر اگیا۔ھونٹوں کو چوسنے لگا تو بس میں مدھوش ھوگئ۔ پھر اس نے مجھے لیٹیا اور ھونٹوں کو کسنگ کیساتھ مموں پر دبانے لگا۔ چونکہمیرے کپڑے بہت مختصر تھے۔ تو بڑی آسانی سے اس نے میرا سلولیس شرٹ اتارا اور مموں کو برا سے بھی آزاد کرایا اور کہاماشاءاللہ کیا اے ون ممے ھے۔ خوش قسمت ھے میرا دوست کہ ایسا مال ملا ھے۔ مموں کو چوسنے لگا بہت پیار سے۔۔۔بس میں کنٹرولسے باہر ھونے لگی۔ خالد نے سفید شلوار قمیص پہنا تھا۔ اس نے مجھ سے میں اپنا قمیص اتارو۔ میں نے کہا بلکل۔ پہلے اس نےمجھے شرٹ اور بڑا سے آزاد کرایا ۔ اوپر سے ننگی ھوگی۔ پھر خالد نے اپنی قمیص اتار دی۔ اور میرے ساتھ لگ کر ھونٹوں اور زبانکو سکنگ شروع کی اس وقت میں بلکل پیک پر تھی۔ اسکا سے لن میرے ٹانگوں سے رگڑ رہا تھا۔ میں اسکے لن کو ھاتھ میں لیا پھراسکا شلوار کا ازار باندھ کھولا اور اسکا شلوار اتاری اب خالد بلکل ننگا تھا آف پہلی بار سخت اور بڑا لن میرے ھاتھ میں تھا خالدنے پوچھا منہ میں لوگی۔ میں نے کہا جی لیتی ھوں پھر اسنے مجھے ٹایٹی سے بھی آزاد کرایا۔ اب ھم دونوں مکمل ننگے تھے۔ میں نےبہت دیر تک اسکا لن چوسا۔ چونکہ موٹا تھا اور لمبا بھی تو پورا منہ میں نہیں اسکتا تھا۔ پھر اس نے بڑے پیار سے میرا چوت چاٹنےلگا تو میں فارغ ھوئ۔ خالد ھنس کر کہا کہ رانی میرا نمبر تو ابھی باقی ھے۔ میں نے کہا میں حاضر ھوں کرتے رھو۔ پھر مجھے منہمیں دیا کافی دیر سک کرتی رہی پھر وہ میرے ٹانگوں کے درمیان آیا اور میرے ٹانگیں اٹھائ۔اور اپنا لن آرام آرام سے چوتڑ کے درمیانلگا رہا تھا۔ پھر میں نے خو اسکا لن پکڑا اور اپنے چوٹر کیساتھ لگا رہا تھا۔ جس پر خالد بہت خوش ھوا اس بے کہا کہ یہی بات توآپکی خاوند نے مجھے بتایا ھے کہ رانی کوآپریٹو ھے سب کام خود کرے گی۔ جب میں پھر گرم ھونے لگی تو خود اپنے ھاتھ اسکا اندرڈالنے لگا اور وہ بڑے آرام سے جھٹکے مارنے لگا اور پھر اچانک تیز جھٹکا مارا جس سے میری چیخ نکلی اور انکھوں سے آنسو اےشدید درد کی وجہ سے۔ اور پورا فل اندر تھا خالد روک کیا اور ساری کہا کہ ائ ایم ساری رانی۔ اپکو تکلیف ھوئ۔ شادی کے بعد پہلیدفعہ فل اندر تک کیا جس سے مجھے خون بھی ایا۔ جب اس نے خون دیکھا تو لن نکالا اور میرا اور لن کو ٹشو سے صاف کیا۔ اورمجھ سے پوچھا کہ کروں یا نہی۔ میں کہا کہ اب تو اندر ڈالو آپ تو فارغ نہیں ھوے ھے۔ اپنے اپکو فارغ کرو۔ پھر اس نے تھوک لگائاور بہت آہستہ آہستہ اندر مکمل ڈالا اب درد بنسبت پہلے سے کم تھا۔ پھر کافی دیر تک جھٹکے لگا رہا تھا۔ مجھے یہی لگا کہ آج راتمیری سہاگ رات ھے۔ پھر ھم دونوں ساتھ فارغ ھوے۔ اور بے سدھ ساتھ ساتھ لیٹے رہے۔مجھ سے پوچھا کیسا رہا۔ میں اسکا کس لیااور کہا زبردست رہا۔ مزہ ایا۔ یہ میرا پہلا ایک غیر مرد کیساتھ بھر پور سکس تھا شادی کے بعد۔۔۔۔اتنے میں خاوند کا فون ایا۔کہاجاوں۔ خالد نے میری طرف دیکھا اور پوچھا ایک بار اور کرتے ھے میں نے کہا کرتے اسکو کہو تھوڑا لیٹ اے۔ خالد نے اسے کہا توڑاوقت اور دو۔ خاوند نے آگے سے پوچھا کیا کوی مسئلہ کرتی ھے۔ خالد نے کہا نہی یار ۔۔اے ون چلا۔۔۔بس تھوڑا وقت اور دو۔ خاوند نےکہا اوکے اور فون بند کردی۔ خالد مجھے دیکھ کر ھنسا۔۔کہ اس پاگل کو دیکھو ذرا صبر تو دل تو ابھی بھرا نہی۔ میں نے بھی کہاجی۔ پھر ساتھ ساتھ سکنگ اور کسنگ شروع کی میں نے اسکا لن چوسنے لگی۔ پھر وہ میرا چوت چاٹنے لگا۔ کافی دیر تک وہ۔لگا رہا۔میں گرم ھوی تو میں نے کہا کہ اب اندر ڈالو۔ اس نے کہا ٹھیک ھے اور پھر ٹانگوں کے درمیان بیٹھ کر گانڈ کے نیچے تکیہ رکا اور بہتآرام سے اندر ڈالا۔ اب درد بنسبت پہلے کم تھا لیکن بے انتہا مزا ارھا تھا۔ آف میں نہی بتا سکتی دل چاہا رہا تھا کہ بس اب خالدمجھ نہ نکالیں۔ لیکن ہر ھم دونوں ایک ساتھ فارغ ھوے۔ تو پھر خالد میرے اوپر لیٹے لیٹے خاوند کو کال کہ آپ اب اجایئں 10 منٹ بعدخاوند ایا۔ اس وقت میں واشروم میں تھی۔ میں ان دونوں کی باتیں بھی سن رہی تھی ۔میرے خاوند نے پوچھا کسی رہی خالد نے کہایار اگر رات ساتھ رہی اور بھی مزے آیے گا۔ خاوند نے پوچھا کتنی بار کیا۔ خالد نے کہا دو بار۔ کہا نیکسٹ ٹایم رات کے لیے پروگرامھوگا۔ پھر میں واشروم سے نکل ائ۔ تو خاوند نے کہا چلتے ہیں۔ میں نے کہا۔ پوچھا خوش ھو۔ میں کہا جی۔۔۔نکلتے وقت خالد نے کہارانی ایک مزے کا کس دے دو۔ خاوند کی موجودگی میں کہا۔ میں نے کہا لے لو۔ پھر زور سے سینے سے لگا ھونٹوں پر اور رخساروں پرکسنگ کی ممے دبائیں اور ھم سلام کر کہ نکلے۔ راستے میں خاوند نے شروع سے احوال پوچھا۔ میں سب کچھ بتا دیا۔ تو خاوند نے کہاتھیکس کہ اپ نے میری بات مان لی۔ لیکن گاڑی میں بیٹھتے ھی مجھے نیچے اور بچے دانی میں تھوڑا درد محسوس ھورھا تھا۔ صبح3 بجے کے قریب ھم اپنے فلیٹ پہنچے




ایک تبصرہ شائع کریں for "انکل نے نرس کی چدائی کی"