Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

چھوٹی امی قسط نمبر .1

 

میں نے اپنے کلاس فیلو وقاص سے کہا کہ یار تیری امی بہت اچھی ہیں اور لگتی ہی نہیں کہ تمہاری امی ہیں کیونکہ تمہاری اور ان کی عمر میں کوئی خاص فرق نہی لگتا تو وقاص نے بتایا کہ میری عمر 20 سال ہے ۔ میرے ابو ان کا نام فرہاد ہے اور انکی عمر 50 سال ہے ۔ وہ شہر سے باہر کپڑے کا کاروبار کرتے ہیں ۔ اور اس کے لئے وہ مہینے میں صرف 2 دن کے لئے ہی گھر آتے ہیں ۔ اور گھر میں میں اور میری سوتیلی ماں فرح ہوتے ہیں ۔ میری سوتیلی ماں کی عمر 30 سال ہے ۔ میں انھیں پیار سے چھوٹی امی یا کبھی کبھی صرف امی بلاتا ہوں ۔وہ میرے ابو سے 20 سال چھوٹی ہیں ۔ اور عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں انکی جسم کی گرمی بڑھتی جا رہی ہے ۔ دوسری شادی کے بعد ابو نے بچہ پیدا نا کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ اور اس وجہ سے میری چھوٹی امی کا جسم بلکل ٹائٹ تھا ۔ انکا جسم تھوڑا بھرا بھرا تھا لیکن موٹا بالکل نہیں تھا ۔ ان کے ممے قدرتی طور پر کافی بڑے اور گانڈ باہر کو نکلی ہوئی تھی ۔ انکو دیکھ کر بلکل نہیں لگتا تھا ک وہ شادی شدہ ہیں ۔ وہ ایسے لگتیں جیسے کوئی کنواری لڑکی جسے قدرت نے خوب مالا مال کیا ہوا ہو ۔ ابو مہینے میں صرف دو دن ہی گھر آتے ہیں اس میں بھی ایک دن آرام کرنے میں گزارتے ہیں اور اگر گھر پر مہمان آ جائیں 2 دن وہ امی کو وقت ہی نہیں دے پاتے اور اس سے امی کی مشکل اور بڑھ جاتی ہے ۔ ایسے میں میں نے اپنی سوتیلی ماں کی حالت کا فائدہ اٹھانے اور انکی مدد کرنے کا فیصلہ کیا ۔ کیوں کے میں نے انھیں کی بار روتے دیکھا ۔ ابو اور امی کا کمرہ گراؤنڈ فلور پے ہے اور میرا فرسٹ فلور پہ ۔ اور اکثر ہی میں کچن سے کچھ لینے نیچے آتا تو چھوٹی امی کے کمرے سے انکی رونے کی آواز آ رہی ہوتی تھی۔ میرے پوچھنے پر وہ ہمیشہ خراب طبیعت کا بہانہ کر کے ٹال دیتیں ۔ میں نے انکی مدد کا فیصلہ تو کر لیا مگر یہ تب ممکن تھا جب امی کو بھی اس مدد کی خواہش ہو ۔ اور انکے دل میں یہ خواہش جگانے کے لئے میں نے اس دن کے بعد سے میں نے پلان بنانا شروع کر دیا ۔ اگر سچ بتاؤں تو امی کی مدد تو صرف ایک بہانہ تھا۔ اصل مقصد تو اپنے اندر کی آگ کو بجھانا تھا جو میری سوتیلی ماں نے 5 سال پہلے جلائی تھی ۔

میری عمر 10 سال تھی جب میری امی اس دنیا سے انتقال کر گئیں ۔ میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا ۔ امی کے گزر جانے کی بعد ابو اور میں ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے ہوے بھی اکیلا محسوس کرتے تھے ۔ سب لوگوں نے ابو کو دوسری شادی کرنے کا مشورہ دیا ۔ لیکن ابو اپنے کام میں اس طرح مصرروف رہتے کے انھیں کبھی ٹائم ہی نہیں ملا کے وہ دوسری شادی کرتے ۔ اس مصروفیت کی وجہ سے ہے امی نے دوسرا بچا پیدا نا کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ کیوں کے انکے لئے مجھے سمبھالنا ہے بہت مشکل کام تھا ۔

امی کے انتقال کو 5 سال گزر گئے ۔

میں 15 سال کا تھا اور میٹرک کے امتحان دینے کے بعد چھٹیاں منا رہا تھا ۔ تب ایک دن میں نے اپنی دادی امی جو کے چھوٹے چاچو اور چچی کے ساتھ رہتیں تھی انکو ابو کو دوسری شادی کے لئے اصرار کرتے سنا ۔ ابو بار بار منع کر رہے تھے اور کہ رہے تھے کے انکی مصروفیت اتنی زیادہ ہے کے وہ دوسری شادی کے بعد نئی بیوی کے لئے وقت نہیں نکال پائیں گے ۔ جبکے دادی بار بار ایک ہی بات دوہرا رہی تھیں کہ انکے جانے کے دوسری شادی کروانے میں انکی کوئی مدد نہیں کرے گا اور یہ بات انکو کھائے جا رہی تھی کہ انکا بیٹا ساری زندگی اکیلا رہے گا.

۔( دادی کو ہمیشہ چھوٹے چاچو سے زیادہ لگاؤ تھا کیوں کے انکی اولاد نہیں تھی ۔ میرے چاچو کام نام ریحان ہے اور چچی کا نام یاسمین ہے ۔ میرے چاچو کے بارے میں نے کسی سے سنا تھا کے وہ نا مرد ہیں اور انکا لن کھڑا ہی نہیں ہوتا تھا ۔چچی کو یہ بات ان سے شادی کے بعد پتا چلی ۔ اور چچی اپنے جسم کی بھوک مٹانے کے لئے انگلیوں اور کبھی لمبی سبزیوں کا سہارا لیتیں ۔ چاچو انکی مدد کے لئے کبھی انکی پھدی چاٹ لیتے تھے ۔ تو کبھی انگلیوں سے انکی پھدی کا جوس نکالنے کی کوشش کرتے ۔ مختصر یہ کے چچی یاسمین کی پھدی نے کبھی اصلی لن کا مزہ چکھا ہی نہیں تھا ۔)

ابو کے منع کرنے پر دادی نے اچانک رونا شروع کر دیا ۔ تنگ آ کر آخر ابو نے انکے آگے ہار مان لی اور دوسری شادی کی حامی بھر لی ۔ میں یہ سب سن کر کمرے میں داخل ہوا اور ابو کے پاس جا کر انکو اور دادی کو مخاطب کر کے بولا کے ابو کی شادی ضرور ہونی چاہیے ۔ میرا یہ کہنے کا مقصد تھا کے ابو میرے لئے پریشان نا ہوں ۔ آخر میں اب جوان ہو گیا تھا ۔ اور ابو کا اکیلے پن کا مجھے صحیح معنوں میں احساس ہونے لگا تھا ۔ یہ سن کر مانو جیسے ابو کے کندھے سے بوجھ اتر گیا ہو ۔ ابو فوراً دادی کو بولے کے وہ انکا رشتہ دیکھنا شروع کر دیں ۔ اس بات پر دادی بھی مسکرا دیں اور بولیں کے انہوں نے پہلے سے ہی ایک لڑکی پسند کر رکھی ہے ۔ ابو کے پوچھنے پر انہوں نے اسکا نام فرح بتایا ۔ ابو نے کچھ سوچا اور اثبات میں سر ہلایا ۔

فرح میرے چھوٹے چاچو کی سالی ہے ۔ جس کی اس وقت عمر 25 سال تھی اور ماسٹرز تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ گھر میں ہی رہتی تھیں ۔ میری ان سے بہت بنتی تھی کیوں کے میں انہی کے ٹیوشن پڑھ پڑھ کر پاس ہوتا تھا ۔اسکے ٹھیک 2 مہینے بعد ابو کی شادی بہت سادگی سے کر دی اور ابو چھوٹی امی کو لے کر گھر آ گئے ۔

شادی کے بعد ایک مہینے تک ابو پہلے سے زیادہ وقت گھر گزارتے ۔ اور چھوٹی امی کو وقت اور پیار دونوں دیتے ۔ مگر شادی کی ایک مہینے بعد ہی ابو واپس اپنی پہلے والی روٹین پے کام کرنے لگے ۔ چھوٹی امی ہر وقت اداس رہتیں ۔ انکا کسی چیز میں دل نا لگتا ۔ میں نے انکا موڈ ٹھیک کرنے کی بہت کوشش کی لیکن وو تھوڑا سا مسکرا کر پھر خاموش ہو جاتیں ۔

جیسے کیسے مہینے گزرا اور ابو کے آنے کا وقت قریب آیا تو چھوٹی امی کے چہرے پر پھر سے خوشی نظر آنے لگی ۔ اور وو سارا دن مجھ سے پوچھتیں کے کپڑے کونسے پہنو کھانے میں کیا بنانا چاہیے ۔ میں انکی مدد کرتا رہتا تھا ۔ ایک دن میں کالج کے لئے تیار ہو کر نکلا مگر وہاں جا کر معلوم ہوا کے ٹیچرز اور کالج کے مالک کے درمیان تنخواہ کو لے کر جھگڑا ہوا اور ٹیچرز احتجاج پر تھے جسکی وجہ سے کالج بند تھا ۔ میں نے کچھ وقت وہاں اپنے دوستوں کے ساتھ گزارا اور واپس گھر کی طرف روانہ ہوا ۔ اس وقت میرے وہم و گمان میں نہیں تھا کے آج کے دن سب کچھ بدلنے والا تھا ۔ میری سوتیلی ماں جسے ہمیشہ میں نے ماں کی نظر سے ہی دیکھا تھا آج انکے لئے میری سوچ اور نظر بدلنے والی تھی ۔ آج میرے اندر وہ آگ لگنے والی تھی جسے بجھانے میں مجھے 5 سال لگے ۔ ﮐﺎﻟﺞ ﺳﮯ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﮔﮭﺮ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﭼﺎﺑﯽ ﺳﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﻮﻝ ﮐﺮ ﺍﻧﺪﺭ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﮔﯿﺎ ۔ ﺍﻧﺪﺭ ﺟﺎ ﮐﺮ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺎ ﻣﮕﺮ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ ۔ ﺍﻧﮑﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﮐﺎ ﻭﺍﺵ ﺭﻭﻡ ﺑﮭﯽ ﮐﮭﻼ ﺗﮭﺎ ۔ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﮐﭽﻦ ﻣﯿﮟ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﻭﮨﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ ۔ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﮐﺎﻓﯽ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮐﻦ ﺗﮭﯽ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ ﮐﻮ ﺍﺱ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺁﮮُ 2 ﻣﮩﯿﻨﮯ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺁﺝ ﺗﮏ ﮐﺒﮭﯽ ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺘﺎﮮُ ﺑﻐﯿﺮ ﮐﮩﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯿﮟ ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﭘﮭﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ ﭼﭽﯽ ﯾﺎﺳﻤﯿﻦ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﭼﺎ ﺷﺎﯾﺪ ﻭﮨﺎﮞ ﮔﺌﯽ ﮨﻮﮞ ﮔﯽ ﺁﺧﺮ ﻭﮦ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ ﮐﯽ ﺳﮕﯽ ﺑﮩﻦ ﮨﯿﮟ ۔ ﯾﮧ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﻣﯿﮟ ﺳﯿﮍﮬﯿﺎﮞ ﭼﮍﮪ ﮐﺮ ﺍﻭﭘﺮ ﺟﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﻣﮕﺮ ﺁﺧﺮﯼ ﮐﭽﮫ ﺳﭩﯿﭙﺲ ﭘﮧ ﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﺭﮎ ﮔﯿﺎ ۔ ﻣﯿﺮﺍ ﻣﺎﻧﻮ ﺟﯿﺴﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﮐﺎ ﺳﺎﻧﺲ ﺍﻭﭘﺮ ﺍﻭﺭ ﻧﯿﭽﮯ ﮐﺎ ﺳﺎﻧﺲ ﻧﯿﭽﮯ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ۔ ﭨﺎﻧﮕﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﯿﺴﮯ ﺳﺮﯾﺎ ﮔﮭﺲ ﮔﯿﺎ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﮨﻠﻨﺎ ﻣﺤﺎﻝ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﮨﻮ ۔ ﯾﮧ ﻭﮦ ﻟﻤﺤﮧ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻧﺪﺭ ﺣﻮﺱ ﮐﯽ ﺁﮒ ﮐﻮ ﺑﮭﮍﮐﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ ۔

ﭼﮭﺖ ﭘﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﺭﻭﻡ ﮐﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﭼﺎﺭﭘﺎﺋﯽ ﭘﺮ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ ﺑﻠﮑﻞ ﻧﻨﮕﯽ ﺑﯿﭩﮭﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﭨﺎﻧﮕﯿﮟ ﮐﮭﻮﻝ ﮐﺮ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺳﺎ ﺍﻭﭘﺮ ﺍﭨﮭﺎ ﺭﮐﮭﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﮭﺪﯼ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺟﮭﮑﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯿﮟ ۔ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﺟﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺟﮭﭩﮑﺎ ﻟﮕﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﺫﮨﻦ ﺭﮎ ﺳﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺳﻤﺠﮭﻨﮯ ﺳﮯ ﻗﺎﺻﺮ ﺗﮭﺎ ﮐﮯ ﺁﺧﺮ ﮨﻮ ﮐﯿﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ۔ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ ﻧﮯ ﺑﺎﻝ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮐﻮ ﺑﺎﻧﺪﮪ ﮐﺮ ﺟﻮﮌﺍ ﺑﻨﺎ ﺭﮐﮭﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﮐﭙﮍﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﺗﺎﺭ ﭘﺮ ﻟﭩﮏ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ۔ ﺟﺴﻢ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﮐﮯ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺗﯽ ﺑﮭﯽ ﺷﺮﻣﺎ ﺟﺎﺋﮯ ۔ ﺍﻧﮑﮯ ﻣﻤﮯ ﺑﻠﮑﻞ ﺷﯿﭗ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﮯ ﻣﻮﭨﮯ ﺍﻭﺭ ﮔﻮﻝ ۔ ﺍﻧﮑﮯ ﻧﭙﻞ ﮨﻠﮑﮯ ﺑﺮﺍﺅﻥ ﺭﻧﮓ ﮐﮯ ﺗﮭﮯ ۔ ﺟﺴﻢ ﭘﻮﺭﺍ ﺑﻠﮑﻞ ﭨﺎﺋﭧ ‘ ﻣﻮﭨﯽ ﺭﺍﻧﯿﮟ ‘ ﺳﻔﯿﺪ ﺩﻭﺩﮪ ﺟﯿﺴﯽ ﺭﻧﮕﺖ ‘ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮑﯽ ﭘﮭﺪﯼ ‘ ﺍﻑ ‘ ۔۔۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﻞ ﮐﺮ ﺑﮩﺖ ﺳﯽ ﭘﻮﺭﻥ ﻓﻠﻤﺰ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮐﮭﯽ ﺗﮭﯿﮟ ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺁﺝ ﺗﮏ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﯾﺴﯽ ﻗﺪﺭﺗﯽ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺗﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﺗﮭﯽ ۔ ﺍﻭﺭ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﮐﺴﯽ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮ ﻧﻨﮕﺎ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﻗﺪﺭ ﺣﺴﯿﻦ ۔ ﺍﻧﮑﯽ ﭘﮭﺪﯼ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺍﻭﺭ ﭨﺎﺋﭧ ﻟﮓ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ۔ ﺍﯾﺴﯽ ﭘﮭﺪﯼ ﮐﮯ ﺑﻨﺪﮦ ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻥ ﭼﺎﭨﺘﺎ ﺭﮨﮯ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﺩﻝ ﻧﺎ ﺑﮭﺮﮮ ۔(جاری ہے)

ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﻮﺵ ﻣﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻏﻮﺭ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﮨﻮﺍ ﮐﮯ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﮭﺪﯼ ﮐﮯ ﺑﺎﻝ ﺻﺎﻑ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ۔ ﺷﺎﯾﺪ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﭨﺎﻧﮕﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺟﺴﻢ ﮐﮯ ﺑﺎﻗﯽ ﺣﺼﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﻝ ﭘﮩﻠﮯ ﺻﺎﻑ ﮐﺮ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﺱ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎ ﺟﺴﻢ ﺑﮩﺖ ﻣﻼﺋﻢ ﺍﻭﺭ ﺻﺎﻑ ﺗﮭﺎ ۔ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺳﺐ ﺍﺑﻮ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮐﯿﺎ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﻟﻤﺤﮯ ﻭﮨﺎﮞ ﺭﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﭘﺲ ﺟﺎﻧﮯ ﮨﯽ ﻭﺍﻻ ﺗﮭﺎ ﮐﮯ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﻣﺠﮫ ﭘﺮ ﭘﮍﯼ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻓﻮﺭﺍً ﺍﭘﻨﯽ ﭨﺎﻧﮕﯿﮟ ﺳﻤﯿﭧ ﻟﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮑﮯ ﻣﻨﮧ ﺳﮯ ﮨﻠﮑﯽ ﭼﯿﺦ ﻧﮑﻠﯽ ۔ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻓﻮﺭﺍً ﻧﯿﭽﮯ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻣﮍﺍ ﺍﻭﺭ ﺟﺎﺗﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﺍﻭﻧﭽﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﻏﺼﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﻮﻻ ” ﺳﯿﮍﮬﯽ ﮐﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﻻﮎ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ ﮐﺮﯾﮟ “

ﺍﻧﮭﯿﮟ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﻧﺎ ﮨﻮﺍ ﮐﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻓﯽ ﺩﯾﺮ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﮯ ﺟﺴﻢ ﮐﺎ ﺧﺎﮐﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﻭﻗﺖ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﺎﺋﯿﮏ ﭘﺮ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻼ ﺍﻭﺭ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﻮﻣﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﺳﻤﺠﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺁ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﻨﺎ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺑﻮ ﮐﻮ ﺳﺐ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺎ ﺗﻮ ﺍﺑﻮ ﮐﯿﺎ ﺳﻮﭼﯿﮟ ﮔﮯ ۔ ﺟﺐ ﺳﮍﮎ ﭘﺮ ﺑﺎﺋﯿﮏ ﭼﻼ ﭼﻼ ﮐﺮ ﺗﮭﮏ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﻭﺍﭘﺲ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮﺍ ۔ ﺍﺏ ﺗﮏ ﺷﺎﻡ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ ۔ ﮔﮭﺮ ﭘﮩﻨﭻ ﮐﺮ ﻣﯿﮟ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﭼﮭﺖ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ۔ ﺍﺑﻮ ﻧﮯ ﺍﮔﻠﮯ ﺩﻥ ﺷﺎﻡ ﮐﻮ ﺁﻧﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﺍ ﯾﮧ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﺩﻝ ﮔﮭﺒﺮﺍ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺑﻮ ﮐﺎ ﺭﺩ ﻋﻤﻞ ﮐﯿﺴﺎ ﮨﻮﮔﺎ ۔ ﺍﺑﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﮉ ﭘﺮ ﻟﯿﭩﺎ ﮨﯽ ﺗﮭﺎ ﮐﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﮐﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﺑﺠﻨﮯ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺁﺉ ۔ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺖ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺁﻧﮯ ﮐﺎ ﺑﻮﻻ ۔ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﻮﻝ ﮐﺮ ﺍﻧﺪﺭ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺋﯽ ۔ ﻭﻭ ﺍﺏ ﻧﮩﺎ ﮐﺮ ﻧﺌﮯ ﮐﭙﮍﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ ﺑﺎﻝ ﺍﻧﮑﮯ ﺍﺑﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﮔﯿﻠﮯ ﺗﮭﮯ ۔ ﻭﮦ ﭨﺎﺋﭧ ﻗﻤﯿﺾ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﺒﻮﺱ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮑﮯ ﺟﺴﻢ ﮐﮯ ﺍﺑﮭﺎﺭ ﺻﺎﻑ ﻧﻈﺮ ﺁ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ۔ ﻭﮦ ﺍﺑﮭﺎﺭ ﺟﻨﮩﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﭘﮩﻠﮯ ﺟﯽ ﺑﮭﺮ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮫ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﺍﺳﯽ ﻟﻤﺤﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﻮﺍ ﮐﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺏ ﺍﭘﻨﯽ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ ﮐﻮ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﺑﻠﮑﮧ ﻣﯿﺮﯼ ﻧﻈﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﺏ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺣﺴﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﺳﯿﮑﺴﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﺗﮭﯿﮟ ۔ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﺁ ﮐﺮ ﺑﯿﮉ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﺌﯿﮟ ۔ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﮨﻢ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺭﮨﮯ ۔ ﭘﮭﺮ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ ﻧﮯ ﺑﻮﻟﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ ۔

ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ : ﺩﯾﮑﮭﻮ ﺑﯿﭩﺎ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺷﺮﻣﻨﺪﮦ ﮨﻮﮞ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺗﮭﺎ ۔ ﺍﻭﭘﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﮔﺌﯽ ﮐﮯ ﻭﮨﺎﮞ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﺁﺳﺎﻧﯽ ﺭﮨﮯ ۔ ﻣﮕﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﮐﮯ ﺗﻢ ﺍﺗﻨﺎ ﺟﻠﺪﯼ ﻭﺍﭘﺲ ﺁ ﺟﺎﺅ ﮔﮯ ۔ ﻣﯿﮟ ﻭﻋﺪﮦ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮﮞ ﮐﮯ ﺁﺋﻨﺪﮦ ﻣﯿﮟ ﺍﺣﺘﯿﺎﻁ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﯽ ﺁﭖ ﺑﺲ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﮐﺴﯽ ﺳﮯ ﺫﮐﺮ ﻣﺖ ﮐﺮﻧﺎ ۔ ﺧﺎﺹ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺑﻮ ﺳﮯ ﺗﻮ ﺑﻠﮑﻞ ﻧﮩﯿﮟ ۔

ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﻣﯿﺮﮮ ﺫﮨﻦ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﻮﺟﮫ ﺍﺗﺮ ﮔﯿﺎ ۔ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﮨﮍﺗﺎﻝ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﺘﺎﯾﺎ ۔ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻻ ” ﺍﻣﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺷﺮﻣﻨﺪﮦ ﮨﻮﺍ ﮨﻮﮞ ﺑﮩﺖ ۔ ﺍﮔﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﻋﻠﻢ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﭘﺮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻧﺎ ﺁﺗﺎ ۔ ﺁﮔﮯ ﺳﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﺣﺘﯿﺎﻁ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ ۔ “

ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺮ ﭘﺮ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﮭﯿﺮﺍ ﺍﻭﺭ ﭘﯿﺎﺭ ﺳﮯ ﺑﻮﻟﯿﮟ ” ﻣﯿﮟ ﺍﻣﯿﺪ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﻮﮞ ﮐﮯ ﺁﺝ ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﺍ ﮨﻢ ﺍﺳﮯ ﺑﮭﻮﻝ ﮐﺮ ﻧﺎﺭﻣﻞ ﺭﮨﯿﮟ ﮔﮯ ” ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺛﺒﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺳﺮ ﮨﻼ ﺩﯾﺎ ﻣﺪﺍﺭ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺗﮭﯽ ﮐﮯ ﺍﺏ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﺎﺭﻣﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺑﺪﻝ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﻤﺮﮮ ﺳﮯ ﺍﭨﮫ ﮐﺮ ﺑﺎﮨﺮ ﺟﺎﻧﮯ ﻟﮕﯿﮟ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﺍ ﭘﻮﺭﺍ ﺩﮬﯿﺎﻥ ﺍﻧﮑﯽ ﮔﺎﻧﮉ ﭘﮯ ﺗﮭﺎ ۔ ﺑﺲ ﯾﮩﯽ ﺍﯾﮏ ﭼﯿﺰ ﺗﮭﯽ ﺟﺴﮑﺎ ﻧﻈﺎﺭﮦ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ ﮐﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﺳﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻓﯽ ﺩﯾﺮ ﺗﮏ ﺍﻧﮑﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﭼﺘﺎ ﺭﮨﺎ ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﮐﯿﺴﮯ ﯾﮧ ﺳﻤﺠﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺁ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ۔

ﺭﺍﺕ ﮐﮯ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﻧﯿﻨﺪ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻭ ﻧﺸﺎﻥ ﻧﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﻣﯿﺮﮮ ﺫﮨﻦ ﭘﺮ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ ﮐﮯ ﻣﻤﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺪﯼ ﮐﺎ ﻧﻈﺎﺭﮦ ﭼﻞ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﺍ ﻟﻦ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﭨﺎﺋﭧ ﺗﮭﺎ ۔ ﻣﯿﮟ ﺗﻨﮓ ﺁ ﮐﺮ ﮐﻤﺮﮮ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻼ ﮐﮧ ﺗﺎﺯﮦ ﮨﻮﺍ ﻟﮕﻮﺍ ﺳﮑﻮﮞ ۔ ﺑﺎﮨﺮ ﺑﻠﺐ ﺟﻞ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﺠﮭﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺗﺎﺭ ﭘﮯ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ ﮐﺎ ﺑﺮﺍ ﻧﻈﺮ ﺁﯾﺎ ۔ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺠﮫ ﮔﯿﺎ ﮐﮯ ﯾﮧ ﻭﮨﯽ ﺑﺮﺍ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﺁﺝ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺗﺎﺭﺍ ﻣﮕﺮ ﻧﯿﭽﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﻮﮮُ ﺍﺳﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﮯ ﺟﺎﻧﺎ ﺑﮭﻮﻝ ﮔﺌﯿﮟ ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻓﻮﺭﺍً ﺑﺮﺍ ﺗﺎﺭ ﺳﮯ ﺍﺗﺎﺭﺍ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺳﻮﻧﮕﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺧﺎﺹ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺁ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ۔ ﯾﮧ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ ﮐﮯ ﭘﺮﻓﯿﻮﻡ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ ﺟﻮ ﻭﮦ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻟﮕﺎ ﮐﮯ ﺭﮐﮭﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ ۔ ﻭﮦ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺳﻮﻧﮕﺘﮯ ﮨﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﻟﮕﺎ ﺟﯿﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮨﻮﮞ ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺟﮭﭩﮑﺎ ﮐﮭﺎ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﺍ ﻟﻦ ﭘﮭﺮ ﺳﮯ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ۔ ﻣﯿﺮﺍ ﺍﯾﮏ ﮨﺎﺗﮫ ﺑﺮﺍ ﮐﻮ ﭘﮑﮍﮮ ﻣﯿﺮﮮ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﮯ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﮨﺎﺗﮫ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﻟﻦ ﭘﺮ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ۔ 15 ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﺗﮏ ﺁﺝ ﺗﮏ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﻣﭩﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﺭﯼ ﺗﮭﯽ ۔ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺟﺐ ﻟﻦ ﮐﻮ ﮨﻼﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﭘﻮﺭﮮ ﺟﺴﻢ ﻣﯿﮟ ﺳﺮﺳﺮﯼ ﻣﭻ ﮔﺌﯽ ۔ ﻣﯿﮟ ﻟﻦ ﮐﻮ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺰ ﺗﯿﺰ ﺟﮭﭩﮑﮯ ﻣﺎﺭﻧﮯ ﻟﮕﺎ ۔ ﮐﭽﮫ ﮨﯽ ﺩﯾﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮﺍ ﻟﻦ ﺍﮐﮍﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺰﮦ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﮐﯽ ﺑﻠﻨﺪﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﭼﮭﻮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﺗﺒﮭﯽ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﻨﮧ ﺳﮯ ﻧﮑﻼ ۔ ” ﺍﻣﯽ ۔۔۔ ﺍﻣﯽ ۔۔۔ ﺁﮦ ۔۔۔ ﺁﮦ ۔۔۔ ﺍﻣﯽ ۔۔۔ ﺁﮦ ۔۔۔ ﺁﺉ ﻟﻮ ﯾﻮ ﺍﻣﯽ ۔۔۔ ﺁﮦ ۔۔۔ ﺁﮬﮭﮫ۔ ۔۔ ” ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﭘﮩﻠﯽ ﻣﭩﮫ ﻣﯿﺮﯼ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﭘﻮﺭﯼ ﮨﻮﺋﯽ ۔ ﻣﯿﺮﺍ ﺳﺎﻧﺲ ﭘﮭﻮﻝ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮﻧﺎ ﻣﺸﮑﻞ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﮔﯿﺎ ﮐﭙﮍﮮ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﮐﯿﮯ ﺍﻭﺭ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ ﮐﮯ ﺑﺮﺍ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺴﺘﺮ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﭼﮭﭙﺎ ﺩﯾﺎ ۔ ﺍﺱ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﻧﯿﻨﺪ ﺑﮩﺖ ﻣﺰﮮ ﮐﯽ ﺁئی .

ﺍﮔﻠﯽ ﺻﺒﺢ ﻧﺎﺷﺘﮯ ﭘﺮ ﺍﻣﯽ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺵ ﻟﮓ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ۔ ﺷﺎﯾﺪ ﺍس کی ﻭﺟﮧ ﯾﮧ ﺗﮭﯽ ﮐﮯ ﺁﺝ ﺷﺎﻡ ﮐﻮ ﺍﺑﻮ ﻧﮯ ﮔﮭﺮ ﺁﻧﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﺁﺝ ﺟﻤﻌﮧ ﮐﮧ ﺩﻥ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﻟﺞ ﺳﮯ ﭼﮭﭩﯽ ﺟﻠﺪﯼ ﮨﻮﮔﺌﯽ ۔ ﮔﮭﺮ ﺁﺗﮯ ﮨﯽ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﺎﻡ ﭘﺮ ﻟﮕﺎ ﺩﯾﺎ ۔ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﺻﻔﺎﺋﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮑﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﺑﭩﺎ ﺭﮨﺎﺗﮭﺎ ۔ ﺷﺎﻡ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﻮ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ ﺳﺎﺭﮮ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺗﮭﮑﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﻟﮓ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ۔

ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ : ” ﻭﻗﺎﺹ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺗﮭﮏ ﮔﺌﯽ ﮨﻮﮞ ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﺎ ﮐﺮ ﻓﺮﯾﺶ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﻮﮞ۔ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺗﯿﺎﺭ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﻧﺎ ﮨﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﺑﻮ ﺁﺗﮯ ﮨﯽ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ۔ ﺗﻢ ﺑﮭﮏ ﺗﮭﮏ ﮔﺌﮯ ﮨﻮ ﮔﮯ ۔ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺭﯾﺴﭧ ﮐﺮ ﻟﻮ ۔ ﺭﺍﺕ ﮐﮧ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺍﺑﻮ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﻞ ﮐﺮ ﮐﮭﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ۔ “

ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺛﺒﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﺳﺮ ﮨﻼﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺑﻮ ﮐﯽ ﻗﺴﻤﺖ ﭘﺮ ﺭﺷﮏ ﺁ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﺁﺝ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﻧﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﭼﮭﯽ ﻃﺮﺡ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﭘﮭﺮ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﻣﯿﺮﮮ ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ ﺷﯿﻄﺎﻧﯽ ﺧﯿﺎﻝ ﺁﯾﺎ ۔ ﻣﯿﮟ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﺴﺘﺮ ﺳﮯ ﺍﭨﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﯿﭽﮯ ﺁ ﮔﯿﺎ ۔ ﻧﯿﭽﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺑﺎﺗﮫ ﺭﻭﻡ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻭﺭ ﭼﻠﻨﮯ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺁ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ۔ ﻣﯿﮟ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺳﮯ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺑﻮ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﮐﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﻮﻝ ﮐﺮ ﺍﻧﺪﺭ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﮐﮭﮍﮐﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﮔﯿﺎ ۔ ﮐﮭﮍﮐﯽ 4 ﭘﻠﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﮯ ﺁﮔﮯ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﭘﺮﺩﮦ ﺭﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺁﺧﺮ ﻭﺍﻟﯽ ﮐﮭﮍﮐﯽ ﮐﯽ ﮐﻨﮉﯼ ﮐﮭﻮﻟﯽ ۔ ﭘﺮﺩﮦ ﺁﮔﮯ ﺳﮯ ﺳﯿﭧ ﮐﯿﺎ ۔ ﺍﻭﺭ ﮐﻤﺮﮮ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﮔﯿﺎ ۔ ﻣﯿﺮﺍ ﺩﻝ ﺑﮩﺖ ﺗﯿﺰ ﺩﮬﮍﮎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﻣﯿﮟ ﺳﯿﺪﮬﺎ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﮐﺮ ﻟﯿﭧ ﮔﯿﺎ ۔

ﺁﺩﮬﮯ ﮔﮭﻨﭩﮯ ﺑﻌﺪ ﮨﯽ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﺑﯿﻞ ﺑﺠﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﻠﻨﮯ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺁﺉ ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﺍﺑﻮ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺁﺉ ۔ ﺍﺑﻮ ﺷﺎﯾﺪ ﻣﯿﺮﺍ ﭘﻮﭼﮫ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ۔ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﮐﺮ ﻧﯿﭽﮯ ﮔﯿﺎ ۔ ﺍﺑﻮ ﮐﻮ ﺳﻼﻡ ﮐﯿﺎ ۔ ﺍﺑﻮ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﭘﮍﮬﺎﺋﯽ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺮﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺩﯾﮯ ۔ ﮐﭽﮫ ﮨﯽ ﺩﯾﺮ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ ﺁﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮨﻢ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﻟﮕﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﺘﺎﯾﺎ ۔ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺑﻮ ﻓﻮﺭﺍ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﭨﯿﺒﻞ ﭘﺮ ﮔﺌﮯ ۔ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺑﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﭼﻠﮯ ﮔﺌﮯ ۔ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ ﮐﯽ ﻣﺪﺩ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮓ ﮔﯿﺎ ﺑﺮﺗﻦ ﺳﻤﯿﭩﻨﮯ ﻣﯿﮟ ۔ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ ﺟﻠﺪﯼ ﺟﻠﺪﯼ ﮨﺎﺗﮫ ﭼﻼ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ۔ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﻧﮑﯽ ﺟﻠﺪ ﺑﺎﺯﯼ ﺍﭼﮭﯽ ﻃﺮﺡ ﺳﻤﺠﮫ ﺁ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ۔ ﺑﺮﺗﻦ ﺳﻤﯿﭩﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﭼﻠﯽ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺑﯿﮉ ﭘﺮ ﻟﯿﭧ ﮔﯿﺎ ۔ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﻟﯿﭩﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﻧﯿﭽﮯ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﮐﮭﮍﮐﯽ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﭘﮩﻨﭽﺎ ۔ ﮐﮭﮍﮐﯽ ﮐﻮ ﮨﻠﮑﺎ ﺳﺎ ﺩﮬﮑﺎ ﺩﯾﺎ ﺗﻮ ﻭﻭ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺳﯽ ﮐﮭﻞ ﮔﺌﯽ ۔ ﺁﮔﮯ ﺳﮯ ﭘﺮﺩﮦ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺳﺎ ﮨﭩﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ۔ ﺍﻧﺪﺭ ﮐﺎ ﻧﻈﺎﺭﮦ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﺍ ﻟﻦ ﺟﮭﭩﮑﮯ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎ ۔ ﺍﺑﻮ ﺑﯿﮉ ﭘﺮ ﻟﯿﭩﮯ ﮨﻮﮮ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺻﺮﻑ ﺩﮬﻮﺗﯽ ﭘﮩﻦ ﺭﮐﮭﯽ ﺗﮭﯽ ۔ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ ﺍﭘﻨﺎ ﻗﻤﯿﺾ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﺍﺗﺎﺭ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯿﮟ ۔ ﺍﻭﺭ ﺑﺮﺍ ﮐﺎ ﮨﮏ ﮐﮭﻮﻟﻨﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ۔ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﺍﻧﮑﺎ ﺑﺮﺍ ﺍﺗﺮﺍ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮑﮯ ﺑﮍﮮ ﺑﮍﮮ ﻣﻤﮯ ﺑﺮﺍﺅﻥ ﻧﭙﻞ ﻣﺠﮭﮯ ﻧﻈﺮ ﺍﮮ ﻣﯿﺮﺍ ﮨﺎﺗﮫ ﺧﻮﺩ ﮨﯽ ﻟﻦ ﭘﮯ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ۔ ﺍﺑﻮ ﺍﻭﭘﺮ ﺍﭨﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﻤﮯ ﮐﻮ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﮐﺮ ﭼﻮﺳﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﻣﻤﮯ ﮐﻮ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﺩﺑﺎﻧﮯ ﻟﮕﮯ ۔ ﺍﻣﯽ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﻨﺪ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺳﺮ ﺍﻭﭘﺮ ﮐﻮ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﺑﻮ ﮐﮯ ﺑﺎﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ۔

ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﺍﺑﻮ ﻧﮯ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﻣﻤﺎ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﻧﮑﮯ ﺟﺴﻢ ﭘﯽ ﭘﮭﯿﺮﺗﮯ ﮨﻮﮮ ﺍﻧﮑﯽ ﺷﻠﻮﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮑﯽ ﭘﮭﺪﯼ ﺳﮩﻼﻧﮯ ﻟﮕﮯ ۔ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ ﺍﺏ ﺳﺴﮑﺎﺭﯾﺎﮞ ﻟﮯ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ۔ ﺍﻭﺭ ﻭﻗﻔﮯ ﻭﻗﻔﮯ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﮯ ﻣﻨﮧ ﺳﮯ ” ﺁﮦ ۔۔ ﺁﮦ ۔۔ ” ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻧﮑﻞ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ۔ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ ﺍﭼﮭﻞ ﺍﭼﮭﻞ ﮐﺮ ﺍﺑﻮ ﮐﺎ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﮮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ۔ ﺍﺏ ﺍﻧﮑﯽ ﺳﺴﮑﺎﺭﯾﺎﮞ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺰ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﺗﮭﯿﮟ ۔ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ ﻧﮯ ” ﻓﺮﮨﺎﺩ ۔۔ ﻓﺮﮨﺎﺩ ۔۔ ﺁﮦ ۔۔ ﺁﮦ ۔۔ ﻓﺮﮨﺎﺩ ۔۔۔ ” ﯾﮩﯽ ﺭﭦ ﻟﮕﺎﺋﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ ۔ ﺍﺑﻮ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﺍﻧﮑﯽ ﺷﻠﻮﺍﺭ ﺳﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻧﮑﺎﻻ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﮉ ﭘﺮ ﻟﯿﭧ ﮐﺮ ﺩﮬﻮﺗﯽ ﺍﺗﺎﺭ ﺩﯼ ۔ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ ﺑﮭﯽ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﻠﻮﺍﺭ ﺍﺗﺎﺭﻧﮯ ﻟﮕﯿﮟ ۔

ﮐﮭﮍﮐﯽ ﺑﯿﮉ ﮐﮯ ﭘﯿﺮ ﻭﺍﻟﯽ ﺳﺎﺋﯿﮉ ﭘﮯ ﺗﮭﯽ ۔ ﺍﻭﺭ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ ﻧﮯ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺷﻠﻮﺍﺭ ﺍﺗﺎﺭﯼ ﺍﻧﮑﯽ ﮔﺎﻧﮉ ﮐﺎ ﺭﺥ ﮐﮭﮍﮐﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺗﮭﺎ ۔ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﺍﻧﮑﯽ ﺷﻠﻮﺍﺭ ﺍﺗﺮﯼ ﻣﯿﺮﺍ ﻣﻨﮧ ﮐﮭﻼ ﮐﺎ ﮐﮭﻼ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ۔ ﺍﻧﮑﯽ ﮔﺎﻧﮉ ﺑﮩﺖ ﺳﻔﯿﺪ ﺍﻭﺭ ﻣﻮﭨﯽ ﺳﯽ ﺗﮭﯽ ۔ ﭼﻮﺗﮭﮍﮮ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﭨﺎﺋﭧ ﺍﻭﺭ ﺁﭘﺲ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ ۔ ﻣﯿﺮﮮ ﮨﺎﺗﮫ ﮐﯽ ﺳﭙﯿﮉ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺰ ﮨﻮﮔﯽ ۔ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ ﺍﭨﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺑﻮ ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﭼﮍﮪ ﮔﺌﯿﮟ ۔ ﺍﺑﻮ ﮐﺎ ﻟﻦ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﮭﺪﯼ ﭘﺮ ﺳﯿﭧ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺟﮭﭩﮑﮯ ﺳﮯ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﺌﯿﮟ ۔ ﭘﻮﺭﺍ ﮐﺎ ﭘﻮﺭﺍ ﻟﻦ ﺍﻧﮑﯽ ﭘﮭﺪﯼ ﻣﯿﮟ ﺍﺗﺮ ﮔﯿﺎ ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭼﮭﻞ ﺍﭼﮭﻞ ﮐﺮ ﺟﮭﭩﮑﮯ ﻣﺎﺭﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﮯ ۔ ﮨﺮ ﺟﮭﭩﮑﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﻧﮑﯽ ﮔﺎﻧﮉ ﺑﮭﯽ ﺟﮭﭩﮑﮯ ﮐﮭﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﯿﺮﺍ ﻟﻦ ﺑﮭﯽ ﺟﮭﭩﮑﮯ ﮐﮭﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﺑﻌﺪ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ ﺭﮐﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﭨﮫ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﺎ ﺭﺥ ﮐﮭﮍﮐﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ ۔ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻟﻦ ﮐﻮ ﭘﮭﺪﯼ ﭘﮯ ﺳﯿﭧ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺟﮭﭩﮑﮯ ﻣﺎﺭﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺌﮯ ۔ ﺍﺏ ﺍﻧﮑﮯ ﻣﻤﮯ ﺍﭼﮭﻞ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ۔ ﺍﻧﮑﺎ ﻣﻨﮧ ﮐﮭﻼ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮑﯽ ﭘﮭﺪﯼ ﻣﯿﮟ ﻟﻦ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﻣﺠﮭﮯ ﺻﺎﻑ ﻧﻈﺮ ﺁ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﮐﭽﮫ ﮨﯽ ﺩﯾﺮ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻧﭽﯽ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ ۔

ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ : ” ﻓﺮﮨﺎﺩ ۔۔ ﺁﮦ ۔۔ ﺁﮦ ۔۔۔ ﺑﺲ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﺍﻭﺭ ۔۔ ﺁﮦ ۔۔ ﺁﮦ ۔۔ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﻮﭨﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﮨﻮﮞ ۔۔۔ ﺁﮦ ۔۔ ﺁﮦ ۔۔ ﻓﺮﮨﺎﺩ ۔۔ “

ﻭﻗﺎﺹ : ” ﺍﻣﯽ ۔۔ ﺁﮦ ۔۔ ﺁﮦ ۔۔ ﺑﺲ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﺍﻭﺭ ۔۔ ﺁﮦ ۔۔ ﺁﮦ ۔۔ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﭼﮭﻮﭨﻨﮯ ﻭﺍﻻ ﮨﻮﮞ ۔۔۔ ﺁﮦ ۔۔ ﺁﮦ ۔۔۔ ﺍﻣﯽ ۔۔ “

ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺧﯿﺎﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ ﮐﻮ ﭼﻮﺩ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﺍﻧﮑﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺍﻭﺭ ﺭﻓﺘﺎﺭ ﺳﮯ ﻟﮓ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮯ ﻭﻭ ﭼﮭﻮﭨﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﮨﯿﮟ ۔ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﺍ ﻟﻦ ﺑﮭﯽ ﺍﮐﮍﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﮨﻢ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻣﺴﺖ ﮨﻮ ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ ۔ ﺍﺑﻮ ﮐﻮ ﺗﻮ ﺟﯿﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﻮﻝ ﮨﯽ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﺗﺒﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﭘﻨﮑﮭﮯ ﮐﯽ ﮨﻮﺍ ﺳﮯ ﭘﺮﺩﮦ ﭘﻮﺭﺍ ﮨﭧ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﻟﯿﺎ۔ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻧﻈﺮﯾﮟ ﻣﻠﯿﮟ ۔ ﻣﮕﺮ ﮨﻢ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻣﺰﮮ ﮐﯽ ﺍﺱ ﭼﻮﭨﯽ ﭘﺮ ﺗﮭﮯ ﺟﮩﺎﮞ ﻋﻘﻞ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﻗﺎﺻﺮ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻧﻈﺮﯾﮟ ﻧﺎ ﮨﭩﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻧﺎ ﮨﯽ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ ﻧﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺭﺩ ﻋﻤﻞ ﺩﯾﺎ ۔ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ۔ ﺗﺒﮭﯽ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ ﻧﮯ ” ﺁﮦ ۔۔ ” ﮐﯽ ﺯﻭﺭ ﺩﺍﺭ ﺁﻭﺍﺯ ﻧﮑﺎﻟﯽ ﺍﻭﺭ ﭼﮭﻮﭨﻨﮯ ﻟﮕﯿﮟ ۔ ﺍﺱ ﮎ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﻣﯿﺮﺍ ﻟﻦ ﺑﮭﯽ ﺟﮭﭩﮑﮯ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﻨﯽ ﮐﺎ ﻓﻮﺍﺭﮦ ﻧﮑﻞ ﭘﺮ ۔ ﮨﻢ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﻭﯾﺴﮯ ﮨﯽ ﺍﯾﮏ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ۔ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ ﮐﺎ ﺟﺴﻢ ﮐﺎﻧﭗ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﭨﺎﻧﮕﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮐﻤﺰﻭﺭ ﭘﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ۔ ﺗﺒﮭﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﻮﺵ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﯾﺎ ۔ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ ﺟﻮ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﭘﮩﻠﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺘﯽ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﻮﮮ ﭼﮭﻮﭦ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﺏ ﺍﻧﮑﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﺪﯾﺪ ﻏﺼﮧ ﺗﮭﺎ ۔ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﮨﭩﻨﮯ ﮐﺎ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﯿﺎ ۔ ﻏﺼﮯ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎ ﭼﮩﺮﮦ ﻻﻝ ﮨﻮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﮈﺭ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﻠﺪﯼ ﺳﮯ ﺷﻠﻮﺍﺭ ﺍﻭﭘﺮ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺑﮭﺎﮒ ﮔﯿﺎ ۔

ﻣﺠﮭﮯ ﭘﻮﺭﺍ ﯾﻘﯿﻦ ﺗﮭﺎ ﮐﮯ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ ﺍﺑﻮ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ ﮔﯽ ۔ ﻣﮕﺮ ﺍﺏ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺍﻣﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺳﻮﭼﯿﮟ ﮔﯽ ﯾﺎ ﺍﻧﮑﺎ ﺭﺩ ﻋﻤﻞ ﮐﯿﺴﺎ ﮨﻮﮔﺎ ﯾﮧ ﻓﮑﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﮭﺎﮮ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ

ایک تبصرہ شائع کریں for " چھوٹی امی قسط نمبر .1"