Skip to content Skip to sidebar Skip to footer

مخمل میں لپٹی تیز دھار۔


                                                                                                                             مخمل میں لپٹی تیز دھار

محل کے دیوانِ خاص میں ایک کرسی تھی — گہرے نیلے مخمل سے ڈھکی، سنہری پائپنگ سے مزین، ایک عجیب سی کشش رکھنے والی کرسی۔ جو بھی اس پر بیٹھتا، خود کو بادشاہ محسوس کرتا۔ مگر یہ تخت نہیں تھا، یہ سزا تھی۔ ایک نرم، خاموش، اور بے آواز 

اس کرسی کو بنے تین صدیاں بیت چکی تھیں۔ سلطنتِ آراویہ کے ہر حکمران نے اسی پر بیٹھ کر فیصلے کیے۔ اور ہر حکمران... ایک جیسا انجام پایا: خاموشی، بے بسی، اور بالآخر گم نامی۔


باب اول: بادشاہ ریان کا دور

ریان، آراویہ کا نیا بادشاہ، صرف پینتیس برس کا تھا۔ تعلیم یافتہ، خوش مزاج، اور نرم گو۔ تخت نشینی کے دن اس نے وہی مخصوص مخملی کرسی سنبھالی۔

پہلے پہل، سب نے اس کے فیصلوں کو سراہا۔ وہ رحم دلی سے قیدیوں کو معاف کرتا، عدالتوں میں نرمی دکھاتا، اور رعایا کو خوش رکھنے کی بھرپور کوشش کرتا۔


لیکن رفتہ رفتہ، کچھ عجیب ہونے لگا۔

ریان کی آواز دھیمی ہو گئی، اس کے فیصلے تاخیر کا شکار ہونے لگے، اور وہ اکثر گم سم رہنے لگا۔ درباریوں نے اسے "دانش مند خاموشی" کہا، مگر محل کے ملازمین جانتے تھے کہ وہ تنہا کمرے میں بیٹھا رہتا، گھنٹوں کرسی پر، جیسے کوئی اسے جکڑے بیٹھا ہو۔


باب دوم: عالیہ کی آمد

ایک دن دارالحکومت میں ایک نوجوان شہزادی آئی — عالیہ بنتِ فرید۔ وہ نہ صرف خوبصورت تھی بلکہ بے باک اور علم دوست بھی۔

وہ دربار میں گئی، اور سب کے سامنے کہا:


"آپ کی خاموشی رعایا پر بوجھ بن چکی ہے، بادشاہ سلامت۔ نرمی کی آڑ میں آپ ظلم کو پنپنے دے رہے ہیں۔"


سناٹا چھا گیا۔ بادشاہ نے سر اٹھایا۔ ہونٹوں پر ایک مدھم مسکراہٹ آئی، لیکن اُس کے ہاتھ کرسی کے بازو پر سختی سے جمے تھے۔

"شہزادی، کچھ فیصلے خاموشی میں بہتر ہوتے ہیں،" اُس نے آہستہ سے کہا۔


عالیہ مسکرائی، "کبھی خاموشی، سازش کی ہم زبان بن جاتی ہے۔"


اس دن کے بعد، عالیہ غائب ہو گئی۔


باب سوم: نرم ظلم

شہر میں افواہیں پھیلنے لگیں۔ لوگ گم ہو رہے تھے، سوالات دبائے جا رہے تھے، اور بادشاہ کی خاموشی... خوف میں بدل چکی تھی۔

محل میں درباری سرگوشیوں میں کہتے:


"وہ کرسی... وہی تو سب کچھ کرتی ہے۔"


کرسی پر بیٹھنے والا انسان آہستہ آہستہ اپنی مرضی کھو دیتا۔ سوچنے کا عمل، احساسات، اور آخر میں انسان خود مٹنے لگتا۔


باب چہارم: واپسی اور بغاوت

مہینوں بعد، عالیہ واپس آئی۔

لیکن تنہا نہیں — عوامی شعور کے ساتھ، سوالات کے ہتھیار لیے۔


وہ پھر دربار میں گئی، اب کی بار پورے شہر کی آواز بن کر۔

"بادشاہ سلامت، کیا آپ اب بھی سمجھتے ہیں کہ آپ فیصلے کرتے ہیں؟ یا وہ کرسی؟"


اس بار بادشاہ خاموش نہ رہ سکا۔ وہ اٹھنے لگا، لیکن کرسی کی گرفت سخت ہو چکی تھی۔ اس کی آنکھوں میں وحشت تھی۔

وہ چیخا نہیں، بس اُس کی سانس ٹوٹنے لگی۔ کرسی نے اسے مضبوطی سے تھام رکھا تھا۔


عالیہ نے کرسی کے قریب جا کر ایک جلتا ہوا چراغ اس کے نیچے رکھا۔

"نرمی سے لپٹا ہوا ظلم، کبھی کبھی آگ ہی سے ختم ہوتا ہے۔"


مخمل جلنے لگا۔

سنہری دھاریاں پگھلنے لگیں۔

کوئی چیخ نہیں تھی — بس سرگوشیاں، جیسے تین سو سال کی خاموشیاں جل رہی ہوں۔


باب پنجم: نئی صبح

بادشاہ کا وجود مٹ چکا تھا۔ کرسی راکھ ہو چکی تھی۔


عالیہ نے عوام کو اکٹھا کیا، اور اعلان کیا:


"آج سے کوئی ایک فرد نہیں، بلکہ تم سب مل کر حکومت کرو گے۔"

اور یوں سلطنتِ آراویہ، ایک نئے نظام کی طرف بڑھ گئی۔


نہ بادشاہ رہا، نہ مخملی گلوٹین۔


مگر اس کی کہانی، آنے والی نسلوں کے لیے ایک انتباہ بن گئی:


ہر نرمی، رحم نہیں ہوتی۔

اور ہر خاموشی، معصوم نہیں ہوتی۔


(اختتام)

ایک تبصرہ شائع کریں for "مخمل میں لپٹی تیز دھار۔"